تالیف و ترتیب
مولانا فیاض حسین جعفری ایم اے (E.U.E)
باسمہ سبحانہ
وَعَد اللّٰہِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْھُم مَّغْفِرَة وَّاَجْرًا عَظِیْمًا (سورہ الفتح:۲۹)
وَاِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوْا فَلَکُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ o
اگر تم ایمان لاؤ گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو تمہارے واسطے بہت بڑا اجر ہے
اَلْعَالِمُ وَالمُتعَلِّمُ شَرِیْکَانِ فِی الْاَجْر
علم دینے والا اور علم حاصل کرنے والا دونوں اجر میں شریک ہیں۔
عرضِ موٴلف
عرصہ دراز سے آرزو تھی کہ دین حق اور خدمت خلق کے لیے کوئی کام کروں جو نہ ختم ہونے والی نیکی میں شمار ہو مگر اپنی علمی بے بضاعتی اور عدیم الفرصتی کی وجہ سے منتظر فردا رہا۔
معاً ایک رہنمائی نے رستہ استوار کیا اور روشنی کی کرن نے قلب کو منور کر کے قارئین کے لیے ایک گلدستہ تیار کیا جو "اجرعظیم" کی صورت میں آپ کے پیش خدمت ہے۔ زہے عزوشرف گرقبول افتد‘ یہ کتابچہ سفروحضر میں آپ کا ساتھی ہے۔ اس کے گراں قدر نوادرات آپ کی عملی زندگی کا سرمایہ حیات ہیں۔ انھیں پڑھ کر آپ اپنی خوش نصیبی پر نازاں ہوں گے اور اس وقت کی دعا ہماری نجات کے لیے نسخہ کیمیا ہوگی۔
رب العزت آپ کو اعمالِ صالح کی توفیق دے اور لکھنے لکھوانے والوں کو اجرِکثیر سے متمتع فرمائے۔ آمین!
پرخلوص دعاؤں کا طالب
فیاض حسین جعفری
آئندہ صفحات پر قارئین کرام اپنے اعمال کے متعلق پڑھیں گے جو بادی النظر ‘ سہل ترین اور قلیل المشقت ہوں گے مگر ان کا ثواب متعدد نیکیوں کا حامل ہوگا۔ اس قدر کثیراجر پر آپ متعجب ہوں گے مگر شرطہا و شروطہا کا سلسلہ ملحق ہے تو فوزِعظیم سے ہمکنار ہو کر آپ فردوس بریں کی آسائشوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں‘ خدائے متعال ہم سب کی سعی جمیل کو قبول و منظور فرمائے۔
شرائط:
ذریعہ معاش حلال اور جائز ہو‘ اندوختہ میں سے واجبات شرعیہ ادا ہوں‘ اپنے فرائض کی انجام دہی میں خلوص نیت ملحوظ نظر ہو‘ تعلیم تدریس کی تفہیم پر یقین ہو اور اس کے اجروثواب پر ایمان کامل ہو۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے پڑھا جائے اور ان فرمودات پر عمل کیا جائے۔ نمازِ پنجگانہ کو فرض اولین سمجھ کر ادا کیا جائے اور حتی الوسع واجب نماز قضا نہ ہو۔
شیخ کلینی نے عبدالرحیم قصیر سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا کہ میں امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا اور عرض کی آپ پر قربان ہو جاؤں میں نے ایک دعا وضع کی ہے۔
حضرت نے فرمایا مجھے اپنی اختراعوں سے معاف رکھو نیز وہ دعا مجھے نہ سناؤ۔ پس حضرت (علیہ السلام) نے اسے اجازت ہی نہیں دی کہ وہ اپنی بنائی ہوئی دعا امام کو سنائے بلکہ فرمایا مجھے نہ سناؤ۔ تجویز کردہ دستور عمل تعلیم فرمایا اور اختراع سے بچالیا۔
اس کتاب میں پوری کوشش کی گئی ہے کہ روایات من و عن بیان کی جائیں جہاں کہیں وضاحت درکار ہوگی موٴلف اپنی زبانی توضیح و تشریح کی صراحت کرے گا۔ قارئین سے استدعا ہے کہ اختراع سے بچیں ورنہ روزِ قیامت مسئول ہوں گے اور جن افراد کی گمراہی کا سبب بنے ہوں گے ان کا سارا بوجھ مخترع کی گردن پر ہوگا۔
تحریر میں ابہام‘ غلطی‘ عدم تفہیم اور کسی قسم کی دقّت کا شائبہ ہو تو قارئین بندہٴ حقیر کو آگاہ فرمائیں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں تصحیح ہوسکے۔
احقر العباد
فیاض حسین جعفری
باب القرآن
۱- جو شخص تلاوتِ قرآن مجید شروع کرنے سے پہلے یہ دعا پڑھے تو ایک ایک لفظ کے بدلے پچاس ہزار نیکیاں ملیں گی۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
اَللّٰھُمَّ بِالْحَقِّ انَزْلَتَہ وَبِالحَقِّ نَزلَ اَللّٰھُمَّ عَظِّم فِیہِ رَغَبَتِی وَاجْعَلَہ نُور البَصْریْ وَشِفاءَ الصَدْرِی وَذھَابَ الھمی وَغمِّی وَحزنِی اَللّٰھُمَّ جَملِّ بِہ وَجْھِیْ وَقوبہ جَسدی وَارْفَع بِہ دَرَجَاتِیْ وَثقلِّ بِہ مِیزَانِیْ وَالرُزْقنِیْ حَقَّ تَلاوَتِہ بِحَقِّ مُحَمّد وَاٰلہ -
۲- سورہ یٰسین قرآن پاک کا دل کہلاتا ہے جو شخص اسے ایک بار پڑھے بیس حج کا ثواب ملے اور جو سنے اسے ثواب مثل اس شخص کے ہو جس نے ایک ہزار دینار راہِ خدا میں صرف کیے ہوں۔
۳- قرآن پاک کی تلاوت کے عوض ہر ہرف پر دس نیکی ہے مگر ماہِ رمضان المبارک میں اسے دس گنا کر دیا جاتا ہے۔ ایک حرف ایک لفظ کی نیکیوں کے برابر لفظ آیت کے برابر آیت سورة کے مساوی اور ایک سورة مکمل قرآن حکیم پڑھنے کا ثواب کے مترادف ہے۔
۴- جو شخص تین مرتبہ سورة اخلاص پورے خلوص کے ساتھ ۱۰ مرتبہ سورة قدر مکمل قدرو حذر کے ساتھ تلاوت کرے۔ اس کے نامہٴ اعمال میں ایک پورا قرآن پڑھنے کا ثواب لکھا جاتا ہے۔
۵- جو شخص ایک مرتبہ آیت الکرسی (ھم فیھا خالدون تک) پڑھے تو خداوندعالم اُس سے ایک ہزار بلائیں دنیا کی اور اتنی ہی آخرت کی بلائیں دُور کرتا ہے۔
۶- نماز ظہرین کے بعد دس مرتبہ سورة القدر پڑھنے سے اس مرد زن کے نامہ اعمال میں اس دن کے تمام عابدین کی نیکیوں کے برابر ثواب کا اضافہ کیا جائے گا۔ نیز نمازِ فجر کے بعد دس دفعہ تلاوت کرنے سے وسعت ِ رزق کے اسباب مہیا ہوں گے۔
۷- مفتاح النجاح میں سے سورہ یٰسین کے جو فضائل نقل کیے گئے ہیں ان میں سے ایک تحفہ یہ بھی ہے کہ جو کوئی سورہ یٰسین پڑھے تو خدائے تعالیٰ اسے بارہ قرآن مجید مکمل پڑھنے کا ثواب عطا کرے گا۔
۸- سورہ یٰسین پڑھنے والے کے لیے بیس حج کا ثواب ہے اس کے سننے والے کیل یے ہزار نور‘ ہزار رحمتیں اور ہزار برکتیں ہوں گی۔
۹- جو کوئی سورہ یٰسین کو قبرستان میں تلاوت کرے حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے خدا وند تعالیٰ وہاں مدفون لوگوں کے عذاب میں کمی کرے گا اور ان بزرگان کی تعداد کے برابر اُس نیکیاں عطا کرے گا۔
۱۰- امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے جو شخص سونے سے پہلے سورہ یٰسین پڑھے خداوند کریم اس پر ہزار فرشتے مقرر کرے گا اور اگر اسی روز مر جائے تو رب رحیم جنت میں داخل کرے گا۔
۱۱- امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ سورہ رحمن کی تلاوت کرنے والے لوگوں سے خدا خود کہے گاکہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ اور اس میں جہاں چاہو رہو۔ آپ کا ہی فرمان ہے: جو شخض سورہ رحمن پڑھتا رہے پس جب فَبَایِّ اٰلآءِ ربکما تکذبان پر پہنچے تو کہے لا بشی ءٍ من الائک رب اکذب۔
۱۲- اگر کوئی شخص رات کو سورہ رحمن پڑھے اور اسی رات مر جائے تو شہید قرار پائے۔ دن کو پڑھے اور اُسی روز بلاوا آجائے اسی طرح شہید کی موت مرے۔
۱۳- عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیٹیوں کو سورہ واقعہ تعلیم کر دی ہے پس وہ کسی غیر کے مال کے محتاج نہ رہیں گی۔ آپ ہی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ جو شخص ہر شب سورہ واقعہ کی تلاوت کرے تو اُسے کسی قسم کی پریشانی نہ ہوگی۔ فقیرومحتاج نہ ہوگا‘ خداوندعالم اُسے وسعت رزق عطا کرے گا۔
۱۴- امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے جو شخص ہر رات سونے سے پہلے سورہ واقعہ پڑھے تو وہ خداوندعالم کے حضور اس طرح آئے گا کہ اس کا چہرہ تاباں ہوگا‘ نیز جوشخص بہشت کی نعمتوں کا اشتیاق رکھتا ہو ہر شب سورہ واقعہ پڑھے۔
۱۵- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص سورہ شمس پڑھے توگویا اس نے راہِ خدا میں ان اشیاء کے برابر صدقہ دیا جن پر سورج اور چاند کی روشنی پڑتی ہے۔
۱۶- جو شخص نماز فریضہ میں سورہ قدر پڑھے خدائے تعالیٰ اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیتا ہے۔
۱۷- سورہ زلزال چار مرتبہ پڑھنے سے ایک مکمل قرآن مجید پڑھنے کا ثواب ملتا ہے۔
سورہ اخلاص تین مرتبہ پڑھنے سے ایک مکمل قرآن مجید پڑھنے کا ثواب ملتا ہے۔
۱۸- ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی ھم فیھا خالدون تک پڑھنا رزق میں فراوانی کا باعث ہے۔ اس کا گھر میں لکھ رکھنا چوری سے بچاؤ کا موجب ہے اور مرنے سے پہلے جو پڑھتا رہے حضور اکرم نے فرمایا بہشت میں اپنا مقام دیکھ لے گا۔
۱۹- شیخ کلینی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا تیرے والد گرامی فرمایا کرتے تھے کہ سورہ اخلاص ثواب تلاوت کے اعتبار سے قرآن کا تیسرا حصہ ہے اور سورہ کافرون قرآن کا چوتھا حصہ ہے۔
۲۰- جو شخص سوتے وقت سورہ تکاثر کی تلاوت کرے گا وہ عذاب قبر سے محفوظ رہے گا۔
۲۱- ایک شخص نے امام محمد تقی علیہ السلام سے قرض کی ادائیگی کی التجا کی‘ تو آپ نے فرمایا زیادہ سے زیادہ فرصت کے وقت استغفار کیا کرو اور اپنی زبان کو سورہ قدر کی تلاوت سے تر رکھو۔
۲۲- خلاصة الاذکار نے جنابِ سیدہ سے روایت کی ہے میرے والد نے فرمایا: سونے سے قبل چار عمل ضرور بجا لاؤ۔
(۱) قرآن مجید پڑھ لو۔ (۲) انبیاء کواپنا شفیع بنا لو۔ (۳) مومنین کو راضی کر لو۔ (۴) حج اور عمرہ بجا لاؤ۔
میں نے عرض کی یہ تو میرے بس سے باہر ہیں‘ مسکراتے ہوئے فرمایا: جب تم تین مرتبہ سورہ توحید پڑھ لو ختم قرآن کا ثواب مل گیا (قل ھو اللہ احد…)
درود پاک اللھم صل علٰی محمد وآل محمد پڑھو تو محمدمصطفی اور انبیاء شفیع بن گئے‘
اَللّٰھُمَّ اغفر للمومنین والمومنات پڑھ لو مومنات و مومنین راضی ہوگئے اور جب سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالحَمْدُلِلّٰہِ وَلاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہَ وَاللّٰہُ اکَبْرَ پڑھ لیا حج و عمرہ کے بجا لانے کا ثواب مل گیا۔
۲۳- سورہ یٰسین پڑھنے والے سے متعلق قیامت کے دن لوگ اس کا مرتبہ دیکھ کر کہیں گے: سبحان اللہ۔ اس بندے سے کوئی چھوٹا سا گناہ بھی نہیں ہوا کہ اس کا مواخذہ ہو۔
۲۴- سورہ یٰسین کو دافع کہتے ہیں کیونکہ پڑھنے والے سے دنیا و آخرت کی بلائیں دفع ہوتی ہیں۔
سورہ یٰسین کو قاضیہ کہتے ہیں کیونکہ پڑھنے والے کی تمام حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔
۲۵- جو شخص پابندی سے سورہ مدثر پڑھے اسے اجرعظیم حاصل ہوگا۔ بعد ختم سورہ اپنے لیے حفظ قرآن کی دعا کرے یقینا حافظ قرآن بنے گا۔
۲۶- سورہ نبا کے دو اور نام ہیں معصرات ‘ تساء لون۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں جو شخص اس سورہ کو ہر روز پڑھے اُس کو اُسی سال حج نصیب ہوگا‘ ان شاء اللہ!
۲۷- سورہ حمد‘ اخلاص‘ آیت الکرسی اور سورہ القدر قبلہ رو ہو کر پڑھیں بعدازاں دعا مانگیں مستجاب ہوگی۔
۲۸- رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
افضل العبادة تفہیم القرآن
"بہترین عبادت قرآن کو سمجھ کے پڑھنا ہے تاکہ اس کے معانی سمجھ میں آئیں"۔ (پانصد احادیث)
۲۹- پھر فرمایا:
مَا اَمَن بِالقُرانِ مَن استَحلَّ محَارِمَہ (البحار)
"جو شخص قرآن مقدس میں حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھتا ہے وہ قرآن مقدس پر ایمان نہیں رکھتا"۔
۳۰- فرمایا رسول اللہ نے:
فَضْلُ الْعِلْم اَفْضَلُ مِن فَضْلِ العِبَادة
"علم دین کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ ہے"۔
وضاحت: اس علم دین کا تعلق قرأت قرآن اور قرآن فہمی سے ہے۔
۳۱- وَنزِّلُ مِنَ القُراٰنِ مَا ھُوَ شِفَاءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۔(سورہ بنی اسرائیل:۸۲)
"ہم قرآن میں جو حصہ نازل کرتے ہیں مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے"۔
۳۲- دیلمی اور دمیری نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا:
خَیر الدواء القُراٰن
"بہترین دوا قرآن ہے"۔
۲۳- بیہقی نے شعب الایمان میں اور دارمی نے فضائل القرآن میں نقل کیا ہے:
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی فاتحة الکتاب شفاءٌ من کل داءٍ
"سورہ فاتحہ میں ہر بیماری کے لیے شفا ہے"۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
اگر پڑھنے والی زبان ہو تو بعید نہیں سورہ فاتحہ پڑھنے سے مردہ جاگ اٹھے۔
۳۴- لَا رَطْبِ وَّلَا یَابِسٍ اِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِیْن
"المختصر کوئی خشک و تر نہیں جو اس کتاب میں نہ ہو مگر شرط ہے"۔
فَسئلُوا اھَلِ الذِّکِر اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعلَمُوْنَ
"اگر تم کسی بارے کچھ نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھو۔
اہل ذکر کون ہیں یہ سوائے معصومین کے اور نہیں ہیں اور یہ ہیں چہاردہ معصومین۔
باب الصلوٰة و اوراد
۱- جو شخص روزِ جمعہ عصر کی نماز کے بعد سات مرتبہ اس دعا کو پڑھے ایک لاکھ حسنیٰ اس کے نامہ اعمال میں لکھے جائیں گے‘ لاکھ گناہ بخشے جائیں گے‘ لاکھ حاجتیں پوری ہوں گی اور جنت میں درجات بلند کیے جائیں گے۔ یہ دعا وظائف الابرار میں موجود ہے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمدِن الَاوْصَیاءِ الْمَرضییْنِ بِاَفْضَل صَلَواتِکَ وَبَارکَ عَلَیْھِمْ بِافضَل بَرکَاتِکَ وَالسَّلاَم عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ وَعَلٰی ارَوْاحِھِمْ وَاجسَادِھِمْ رَحمَةَ اللّٰہِ وَبَرکَاتُہ
۲- صادق آل محمد فرماتے ہیں جو شخص اس صلوٰة کو بروز جمعہ پڑھے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے گا جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہو۔
صَلَواتُ اللّٰہِ وَصَلَواتُ مَلَائِکتَہ وَانبِیَائِہ وَرُسُلہ وَجَمِیْع خَلْقِہ عَلٰی مُحَمّد وَآلِ مُحَمّد وَالسَّلامُ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ وَرَحمَةَ اللّٰہِ وَبَرکَاتُہ
۳- امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ ہر نماز واجب کے بعد تسبیح فاطمہ زہراء (۳۴ مرتبہ اللہ اکبر‘ ۳۳ مرتبہ الحمدللہ‘ ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ اور ایک دفعہ لا الٰہ الا اللہ) پڑھنا میرے نزدیک ایک ہزار رکعت نماز سے بہتر ہے۔
۴- امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو فرد نمازِ عصر کے بعد دس مرتبہ سورہ انا انزلنہ باقاعدگی سے پڑھے خداوندعالم اُس روز تمام خلائق کی نیکیوں کے ثواب کے برابر اُسے ثواب عطا فرمائے گا۔
۵- نماز صبح یا نماز مغرب کے بعد بغیر کلام کیے یہ کلمات سات مرتبہ کہے تو خدائے قادر مطلق ۷۰ طرح کی بلائیں دُور فرمائے گا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰہِ العَلِیِّ العَظِیْم۔
۶- حدیث میں وارد ہے عطر لگا کر دو رکعت نماز پڑھنا ان ستر رکعتوں سے بہتر ہے جو بغیر عطر کے پڑھی جائیں۔ عطر کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اس میں نشے والا الکوحل نہ ہو بعینہ دو رکعت نماز مسواک کر کے پڑھی جائے ان ستر (۷۰) رکعت سے بہتر ہے جو بغیر مسواک ادا کی جائیں۔
۷- روایت میں ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل سے پوچھا میری اُمت کے واسطے نماز باجماعت میں کیا ثواب ہے؟ جواب ایک جدول کی صورت میں تحریر ہے۔
اگر ۲ شخص پیش نماز کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہوں تو ہر نمازی کو ۱۵۰ نمازوں کا ثواب عطا ہوگا۔
اگر ۳ شخص پیش نماز کے نماز ادا کر رہے ہوں تو ۶۰۰ نمازوں کا ثواب
اگر ۵ اشخاص پیش نماز کے نماز ادا کر رہے ہوں تو ۱۲۰۰ نمازوں کا ثواب
اگر ۶ اشخاص " ۶۲۰۰ "
اگر ۷ اشخاص " ۹۶۰۰ "
اگر ۸ اشخاص " ۱۹۲۰۰ "
اگر ۹ اشخاص " ۳۸۴۰۰ "
اگر ۱۰ اشخاص " ۷۶۸۰۰ "
اور جب دس سے زیادہ ہو جائیں تو ثواب کی یہ کیفیت ہوگی کہ آسمان کاغذ بن جائیں تمام درخت قلم بن جائیں اور تمام دریا روشنائی کا کام دیں‘ سب جن و انس اور فرشتے کاتب ہوں تو بھی اس پر قادر نہیں ہو سکتے کہ ایک رکعت کا ثواب بھی تحریر کر سکیں۔
۸- میت پر پہلی رات نہایت سخت ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا تم اپنے مرنے والے پر صدقہ دے کر رحم کرو۔ اگر صدقہ نہیں دے سکتے تو تم میں سے کوئی شخص دو رکعت نماز پڑھے۔ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ توحید دو مرتبہ اور دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ التکاثر دس مرتبہ پڑھے نماز مکمل ہونے کے بعد یوں کہے:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمّدٍ وَّآلَ مُحَمّدٍ وَّاَبْعَثْ ثَوابَھَا اِلٰی قَبر ذٰالِکَ المُیِّتِ فلاں (ابن /بنت) فلاں
حق تعالیٰ اس وقت ایک ہزار فرشتے اس قبر پر بھیج دیتا ہے وہ اس کی قبر کو کشادہ کر دیتے ہیں اس نماز کے پڑھنے والے کو ان تمام چیزوں کی تعداد کے برابر اجر ملتا ہے جن پر سورج طلوع کرتا ہے۔
۹- پیغمبرخدا نے فرمایا: جماعت کے ساتھ شامل ہوکر نماز پڑھنا اپنے گھر میں چالیس سال کی انفرادی نمازوں سے بہتر ہے۔
۱۰- امام موسٰی کاظم فرماتے ہیں: صف اول میں نماز باجماعت راہِ خدا میں جہاد کرنے کے برابر ہے۔
۱۱- چوبیس ذی الحجہ روزِ مباہلہ کی دو رکعت نماز خداوندعالم کے نزدیک ایک لاکھ حج اور ایک لاکھ عمرہ کے برابر ہے۔ (وسائل الشیعہ)
۱۲- نماز ردّ مظالم چار رکعت (بہ دو سلام) پڑھنے سے خداوندعالم اپنے فضل و کرم سے اُس شخص سے مطالبہ کرنے والوں کو بروزِ قیامت راضی فرمائے گا۔ اگرچہ ان کی تعداد صحرا کر ذروں کے برابر ہو۔ یہ نماز گزار سب سے پہلی جماعت میں داخل بہشت ہوگا۔
۱۳- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ عیالدار شادی شدہ کی دو رکعت نماز مجرد کی ستر (۷۰) رکعت سے بہتر ہے۔
۱۴- امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی شہادت سے چند لمحات قبل آنکھیں کھولیں اور فرمایا: میرے اقارب کو جمع کیا جائے جب اکٹھے ہو گئے‘ فرمایا:
لا تنال شفا عتنا لمن ھو مستخفّ بالصلٰواة
"ہماری شفاعت نماز میں کاہلی کرنے والے کو نہیں پہنچے گی"۔ (وسائل الشیعہ‘ جلد ۳‘ صفحہ ۱۷)
۱۵- اقامت پڑھنے والے کے پیچھے ایک صف فرشتوں کی اذان و اقامت کہنے والے کے پیچھے دو صفیں اور نماز شب پڑھنے والے کے پیچھے فرشتوں کی نو صفیں شریک نماز ہوتی ہیں۔ ابن شیخ مجالس میں امام جعفر صادق سے روایت کرتے ہیں کہ نماز شب دل کے گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔ نیز مومن کے لیے دنیا و آخرت کی زینت ہے۔ چہرہ سفید اور نورانی ہو جاتا ہے۔
پھر فرمایا: جس گھر میں نمازِ تہجد اور قرآن مجید پڑھا جائے وہ گھر آسمان والوں کے لیے اس طرح چمکتا ہے جیسے ستارے زمین کو چمکتے دکھائی دیتے ہیں۔
۱۶- امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو ملائکہ مقربین نازل ہوتے ہیں۔ چاندی کی تختیاں اور سونے کے قلم لے کر مسجد کے دروازے پر نور کی کرسیاں بچھا کر آبیٹھتے ہیں۔ ان لوگوں کے نام لکھتے ہیں جو مسجد میں آتے ہیں۔ جب پیش نماز فارغ ہو کر مسجد سے باہر آتا ہے تو وہ اپنے دفتر لپیٹ کر آسمانوں کی طرف پرواز کر جاتے ہیں۔
(عرض مولف: ہمارا فرض ہے کہ نماز پورے ذوق شوق سے پڑھیں۔ نماز جماعت اور نماز جمعہ کا اہتمام کریں اور اس مقدس دفتر میں اپنا نام لکھوا کر ثوابِ دارین حاصل کریں)
۱۷- روایت میں ہے مسجد قبا میں دو رکعت نماز گزارنے سے عمرہ کا ثواب ملتا ہے۔
۱۸- مسجد الحرام میں ایک نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر اور مسجد نبوی میں پچاس ہزار کے ثواب کے برابر ہے۔
۱۹- فرمایا: امام رضا علیہ السلام نے جو میری قبر (مشہد مقدس) کے قریب آکر دو رکعت نماز پڑھے تو وہ اس بات کا حق دار ہوگا کہ خدا روزِ قیامت اس کے گناہ معاف کر دے۔ پھر فرمایا: میری زیارت کرنے والے افراد خداوندعالم کے نزدیک ہر گروہ سے زیادہ عزیز اور پسندیدہ ہوں گے۔
۲۰- امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: آئمہ ہدیٰ میں سے امام رضا کی زیارت کرنے کے بعد قبرمبارک کے سرہانے دو دو کرکے چار رکعت نماز پڑھنے والے/ والی کو ایک حج اور ایک عمرہ کا ثواب ملے گا۔
۲۱- امام صادق علیہ السلام نے فرمایا جب تو اذان و اقامت کہے تو تیرے پیچھے ملائکہ کی دو صفیں نماز پڑھیں گی۔ اگر صرف اقامت کہے تو ایک صف نماز پڑھے گی۔
۲۲- پیغمبرخدا نے فرمایا کہ موذن کے لیے اس کی حدآواز اور حدنظر تک مغفرت ہوتی ہے اور ہر خشک و تر اس کی تصدیق کرتی ہے۔ نیز اذان سن کر نماز پڑھنے والے ہر فرد کے بدلے ایک ایک نیکی کا ثواب ملتاہے۔
۲۳- مسجد کی صفائی کرنے والے کا بہت اجر ہے اس کے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اگرچہ گردوغبار آنکھوں میں سرمہ ڈالنے کے برابر ہو۔ نیز جو شخص مسجد کا چراغ جلائے (روشنی کا اہتمام کرے) فرشتے اور حاملان عرش اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔
۲۴- جو شخص دنیا میں مسجد بنائے خداوندعالم اس کے لیے جنت میں محل تعمیر کروائے گا۔
۲۵- جناب رسول خدا نے فرمایا جو نماز شب پڑھے گا عوض ہر رکعت کے ہزار سال کی عبادت کا ثواب ملے گا۔
۲۶- ایک تکبیر جو پیش نماز کے ساتھ بجا لائی جائے ساٹھ ہزار حج اور عمرہ سے بہتر ہے اور دنیا و مافیہا سے ستر ہزار مرتبہ افضل ہے۔ ایک سجدہ جو پیش نماز کے ساتھ کیا جائے سو (۱۰۰) غلاموں کے آزاد کرنے سے بہتر ہے اور ایک رکعت باجماعت مساکین پر ایک لاکھ دینار تصدق کرنے سے بہترہے۔
۲۷- نماز وحشت قبر: شب دفن مغرب وعشاء کے درمیان یا نماز عشاء کے بعد پڑھنا اولیٰ ہے ورنہ بامر مجبوری آخر شب تک بھی پڑھ سکتا ہے۔ یہ نماز دو رکعت ہے جو قربت کی نیت سے پڑھی جائے گی چونکہ مستحب ہے۔ پہلی رکعت میں سورہ الحمد کے بعد ایک مرتبہ آیت الکرسی اور دوسری رکعت میں سورة الحمد کے بعد دس مرتبہ سورہ انا انزلنہ فی الیلة القدر پڑھے۔
نماز ختم ہونے کے بعد عربی نہیں جانتا تو اپنی زبان میں درود پڑھنے کے بعد کہے۔ اِن دو رکعتوں کا ثواب فلاں ابن فلاں کی روح کو پہنچے۔
صاحب توفیق حضرات اجرت پر بھی یہ نماز پڑھوا سکتے ہیں۔ مرنے والے پر سب سے بڑا احسان نماز وحشت قبر ہے کیونکہ اس وقت اس کا کوئی پرسان حال نہیں سوائے اس کے کہ اُس کی روح کو بتوسل آئمہ طاہرین ورحمة للعالمین ثواب پہنچایا جائے۔ سب سے زیادہ ہمدرد وہ دوست‘ عزیز اور رشتہ دار ہوگا جومتوفی /متوفیہ کے لیے نمازِ ہدیہ میت پڑھے جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔ خداوند کریم کے فضل و کرم سے عذاب میں تخفیف ہوگی اور گناہوں کی مغفرت کا سبب بن کر یہ نماز باعث ِ مغفرت ہوگی۔
باب الصوم
۱- ایامِ بیض قمری ماہ کی تیرہ‘ چودہ اور پندرہ روزہ رکھنا پورے ماہ کے روزوں کے ثواب کے مترادف ہے۔
۲- جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص تین روزے ماہِ رجب میں رکھے خداوندعالم اُسے ہر روزہ کے عوض چار سال کے روزوں کا ثواب عطا کرے گا۔ اگر روزہ رکھنا دشوار ہو تو بدل روزہ مستحب ایک صاع (ایک کلواحتیاطاً) گندم فی روزہ تصدق کرے۔
۳- ۲۷ رجب المرجب رسالت مآب مبعوث بہ رسالت ہوئے لہٰذا اِس دن کا روزہ ستر برس یا ساٹھ برس کے روزے کے برابرہے۔
۴- جناب رسول خدا نے فرمایا: ماہِ شعبان میرا مہینہ ہے جو شخص اس ماہ میں ایک دن روزہ رکھے روزِ قیامت میں اس کی شفاعت کروں گا جو دو روزوں کا اہتمام کر سکے اس کے گذشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے اور جو تین روزے رکھے گویا اس کے ذمے کوئی گناہ باقی نہیں رہا۔
۵- اگر کوئی شخص ماہِ شعبان کے تین روزے ماہِ رمضان کے ساتھ ما دے تو مسلسل دو مہینوں کے روزوں کا ثواب ملے گا‘ احتیاط واجب ہے کہ یہ روزے شعبان کی نیت سے رکھے جائیں آخری روزہ ماہِ شعبان کا چونکہ رمضان المبارک سے ملحق ہونا ہے‘ لہٰذا بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔
۶- جناب رسالت مآب نے شعبان کے مہینے کے آخر میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا: اے لوگو! جو تم میں سے کسی مومن کا اس مہینہ میں روزہ کھلوائے گا اُسے خدائے بزرگ و برتر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اس کے گذشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے اگرچہ افطاری آدھے خرمے یا ایک گھونٹ پانی سے ہو۔
۷- ۲۵ ذی قعد کو کعبہ کے نیچے زمین بچھائی گئی۔ آسمان سے رفیق پر رحمت نازل ہوئی۔ حضرت علی سے منقول ہے کہ جو شخص شب کو عبادت میں بسر کرے‘ دن کو روزہ رکھے اس کے لیے ۱۰۰ سال کی عبادت لکھی جائے گی جن میں دنوں کے روزے اور راتوں کی بیداری شامل ہے۔
۸- ۸ ذوالحجہ یومِ ترویہ ہے۔ غسل کرنا سنت ہے اور اس دن کا روزہ ساٹھ برس کے گناہوں کا کفارہ ہے۔
۹- رجب کے مہینے میں تین دن متواتر جمعرات اور ہفتہ کو روزہ رکھے تو حق تعالیٰ سے اسے نوسو (۹۰۰) برسوں کی عبادت کا ثواب عطا فرمائے گا۔
۱۰- یکم رجب کو حضرت نوح علیہ السلام اپنی کشتی پر سوار ہوئے اور آپ نے ہمراہیوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا پس جو شخص اس دن روزہ رکھے تو جہنم کی آگ اُس سے ایک سال کی مسافت دُور رہے گی۔
۱۱- حضور اکرم حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شعبان میرا مہینہ ہے اور جوشخص اس مہینے میں ایک روزہ رکھے تو جنت اس کے لیے واجب ہوجاتی ہے۔
۱۲- رمضان المبارک میں جو شخص کسی مومن کا روزہ افطار کرائے تو اسے گناہوں کی بخشش اور ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔ آنحضرت کے اصحاب میں سے بعض نے عرض کیا: یارسول اللہ! ہم سب افطار کرانے کی توفیق نہیں رکھتے تب آپ نے فرمایا کہ تم افطار میں آدھی کھجور یا ایک گھونٹ شربت دے کر بھی خود کو آتشِ جہنم سے بچاسکتے ہو۔
۱۳- وقت افطار رمضان المبارک میں ایک لاکھ انسانوں کوجہنم کی آگ سے آزاد کیا جاتا ہے کہ کوشش کریں آپ صحیح روزہ سے ہوں۔ موزوں وقت پر افطار کریں اور رزق حلال سے کھائیں پئیں۔ بہتر ہے اُتِمُ الصِّیَامَ اِلَی الَّلَیْل کا خاص لحاظ رکھا جائے۔
۱۴- روایت میں ہے جو شخص حرمت والے مہینوں (ذی قعد‘ ذوالحجہ‘ محرم اور رجب) میں سے کسی ایک مہینے میں تین دن جمعرات‘ جمعہ اور ہفتہ یکے بعد دیگرے روزے رکھے تو اس کے لیے ۹۰۰ سال کی عبادت کا ثواب لکھا جائیگا۔
۱۵- پچیسویں ذی قعد کے روزے کے متعلق امام رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ یوم دحوالارض ہے۔ خانہ کعبہ کے نیچے زمین بچھائی گئی‘ پچیسویں کی شب حضرت ابراہیم علیہ السلام متولد ہوئے اور اپنے زمانے کے مطابق حضرت عیسٰی علیہ السلام بھی اسی شب عالم وجود میں آئے۔ آج کا روزہ رکھنے والا شخص مرد/زن ایسا ہوگا کہ اس نے ساٹھ مہینوں کے روزے رکھے۔ دوسری روایت کے مطابق اِس دن کا روزہ ستر(۷۰) سال کے روزے کی مانند ہے۔ ایک اور روایت میں ۷۰ سال کے گناہوں کا کفارہ اور آج کا روزہ رکھے اور شب عبادت میں گزارے۔ اس کے لیے ۱۰۰ سال کی عبادت لکھی جائے گی اور جو زمین و آسمان میں ہے ہر وہ چیز اس کے لیے استغفار کرے گی۔
۱۶- ذوالحجہ کے پہلے نو دن کے روزے رکھنا ایسا ہے جیسے اس شخص نے ساری زندگی روزے رکھے ہوں۔
۱۷- آٹھویں ذوالحجہ یوم ترویہ ہے اس میں روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت ہے۔ ایک روایت کی روشنی میں اس دن کا روزہ ساٹھ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔
۱۸- ۱۸ ذوالحجہ عید غدی رکا روز ہے۔ اس دن کا روزہ رکھنا ساٹھ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ یوم غدیر کا روزہ مدت دنیا کے روزوں کے برابر ہے۔ نیز سو حج اور سو عمرے کے ثواب کے مترادف ہے۔
۱۹- ۱۷ ربیع الاول کا روزہ رکھنے والے کو ایک سال کے روزے رکھنے کا ثواب ملے گا۔
صدقہ خیرات
۱- امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ شب جمعہ اور یومِ جمعہ صدقہ دینا ہزار صدقہ کے برابر ہے اور محمد وآل محمد علیہم السلام پر درود پڑھنا ہزار ثواب کے برابر ہے۔
۲- امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے جو شخص ماہِ شعبان میں کچھ صدقہ دے اگرچہ آدھے خرما کے برابر کیوں نہ ہو‘ خداوندعالم اس کے جسم کو آتشِ جہنم سے بچائے گا۔ آگ اس پر حرام ہوگی۔
۳- امام محمدباقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: صدقہ دینا طول عمر کا باعث ہے اور ستر قسم کی بلائیں دفع کرتا ہے۔
۴- ماہِ شعبان میں صدقہ دینا چاہیے اگرچہ وہ نصف خرما ہی کیوں نہ ہو‘ اس سے خدا اس کے جسم پر جہنم کی آگ حرام کر دے گا۔
۵- عید غدیر (۱۸ ذوالحجہ) کے دن حاجت مند مومن بھائی کو ایک درہم صدقہ دینا دوسرے دنوں میں ایک ہزار درہم دینے کے برابر ہے۔ دوسری روایت کے تحت ایک لاکھ دینے کے مساوی ہے۔
۶- علامہ مجلسی نے فرمایا کہ معتبر روایت میں وارد ہوا ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک روپیہ (رائج الوقت سکّہ) تصدق کرنا دوسری جگہ پر دس ہزار روپے کے برابر ہے۔
۷- آنحضرت نے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص کسی میت کے لیے صدقہ دے کر اس پر مہربانی کرے تو خود اُس کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے اُحد کے پہاڑ کے برابر لکھا جائے گا اور روزِ قیامت وہ عرشِ الٰہی کے سائے میں ہوگا۔
۸- غدیر ۱۸ ذی الحجہ کو ایک درہم (سکہ رائج الوقت) خیرات کرنا دوسرے دنوں کے دس لاکھ درہم کے برابر ہے۔
زیارات
۱- کوئی فرد زکور و اناث میں سے خرد و کلاں جہاں بھی ہو پاکیزگی کی حالت میں جب چاہے امام حسین علیہ السلام کی زیارت پڑھے تو امید ہے اسے حج و عمرہ کا ثواب ملے گا۔ طریقہ زیارت یوں ہے:
گھر کی چھت پر چلا جائے‘ دائیں دیکھے بائیں دیکھے‘ پھر اپنا سر آسمان کی طرف بلند کرے‘ یہ کلمات کہے:
السَّلامُ عَلَیْکَ یَا اَبَا عَبْدِاللّٰہِ السَّلامُ عَلَیْکَ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرکَاتُہ (دو رکعت نمازِ زیارت؟)
۲- ماہِ رمضان کی شب اول میں ضریح مقدسہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے تاکہ اس کے گناہ جھڑ جائیں اور اُسے اس سال حج و عمرہ کرنے والے تمام افراد جتنا ثواب حاصل ہو۔
۳- حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے‘ فرمایا: تھوڑی مدت کے بعد میرے جسم کا ٹکڑا سرزمین خراسان میں دفن کیا جائے گا‘ جو مومن اس کی زیارت کرنے جائے گا‘ خدائے تعالیٰ اس کے لیے جنت واجب کر دے گا‘ اس کے بدن کے لیے آتشِ جہنم حرام کر دے گا‘ غمزدہ حالت میں اس کی زیارت کرے گا‘ رب کریم اس کے رنج و غم دُور کرے گا اور جو گناہگار اس کی زیارت کرنے جائے گا غفور الرحیم اس کے گناہ معاف کر دیگا۔
۴- امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے روایت ہے‘ فرمایا: جو شخص میرے بیٹے علی رضا کی زیارت کرے گا حق تعالیٰ اس کے لیے ۷۰ حج مقبولہ کا ثواب لکھے گا۔ پھر فرمایا: جن افراد نے آئمہ طاہرین کی قبروں کی زیارت کی ہوگی ہمارے ساتھ بیٹھیں گے لیکن ان سب میں سے میرے فرزند کے زائروں کا رتبہ بلند ہوگا اور انھیں اجر و انعام بھی سب سے زیادہ عطا کیا جائے گا۔
۵- حمیری نے قرب الاسناد میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے‘ حضرت رسول اللہ نے فرمایا کہ جس نے میری حیات میں یا اس کے بعد زیارت کی تو میں روزِ قیامت اس کی شفاعت کروں گا۔
۶- سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا: مجھے میرے پدرعالی قدر نے خبر دی ہے کہ جو باطنی طور پر اب بھی حاضر ہیں کہ جو شخض مجھ پر یا میرے والد بزرگوار پر تین روز سلام کرے تو حق تعالیٰ اس کے لیے بہشت واجب کر دیتا ہے۔
میں نے عرض کی کہ آپ کی زندگی میں یا اس ظاہری زندگی کے بعد بھی؟
آپ نے فرمایا: ہاں زندگی میں اور بعد میں بھی سلام کا یہی اجر ہے۔
۷- عبداللہ بن عباس سے نقل ہوا ہے۔ حضرت رسول خدا نے فرمایا: جو شخص بقیع میں امام حسن علیہ السلام کی زیارت کرے‘ اس کے قدم پل صراط پر جمے رہیں گے‘ اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت سے متعلق ہے کہ زائر کے گناہ بخش دیئے جائیں گے نیزاسے تنگ دستی اور پریشانی لاحق نہ ہوگی۔
۸- جو شخص امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زیارت کرے (نجف اشرف) جب کہ ان کی امامت پر یقین رکھتا ہو‘ خلیفہ بلافصل تسلیم کرتا ہو تو ایک لاکھ شہیدوں کا ثواب اس کے نامہٴ اعمال میں لکھا جائے گا اور اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے‘ قیامت کے دن امن میں ہوگا‘ خداوند کریم اس کے حساب میں آسانی کرے گا‘ فرشتے اس کا استقبال کر رہے ہوں گے۔
۹- سید عبدالکریم ابن طاؤس نے اپنی کتاب فرحتہ العربیٰ میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جو شخص حضرت امیرالمومنین کی زیارت کو پاپیادہ جائے تو حق تعالیٰ ہر قدم کے عوض ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب اس کے نامہٴ اعمال میں لکھے گا۔ اگر واپسی پر بھی پاپیادہ چلے تو حق سبحانہ اس کے ہر قدم کے بدلے دو حج اور دو عمرے کا ثواب ہوگا۔
۱۰- دو معتبر سندوں سے نقل ہوا ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا جو شخص بہت دُور ہونے کے باوجود میری قبر کی زیارت کرے گا تو میں تین وقتوں میں اس کے پاس آؤں گا:
(i) جب نیکوکاروں کا اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے۔
(ii) جب لوگ پل صراط سے گزرتے ہوں گے۔
(iii) جب اعمال کا وزن کیا جائے گا۔
۱۱- امام محمدتقی علیہ السلام سے روایت ہے: میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے جنت کا ضامن ہوں اُس شخص کے لیے جو طوس جاکر میرے والد گرامی (امام رضا) کی زیارت کرے اور آپ کو امام برحق بھی تسلیم کرے۔
۱۲- شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں امام محمد تقی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ طوس کے دو پہاڑوں کے درمیان زمین کا ایک ٹکڑا ہے جو بہشت سے لایا گیا ہے جو بھی مومن زمین کے اس خطے میں داخل ہو وہ قیامت میں دوزخ کی آگ سے آزاد ہوگا۔
کمالِ عقیدت کی بات ہے ۱۰۰۹ھ میں شاہ عباس موسوی الحسینی اول اصفہان سے مشہد مقدس اپنے لاؤلشکر کے ساتھ پیدل چل کر آئے اور امام کی قبرمطہر کی زیارت کی۔ اس نذر کو پورا کرنے کے لیے ۲۸ دن لگے۔ امام کا پورا قبہ سونے کی اینٹوں سے بنوایا۔
۱۳- امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا جو شخص واجب الاطاعت امام یعنی خدا کی طرف سے مقرر کیے ہوئے امام کی زیارت کرے اور قبرمبارک کے پاس چار رکعت نماز (۲+۲) ادا کرے تو اس کے لیے حج و عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا۔
ادعیہ‘ اوراد‘ تسبیحات‘ تعقیبات ‘ سجدئہ شکر
۱- صادق آل محمد ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص اس صلوٰة کو بروز جمعہ پڑھے وہ گناہوں سے اِس طرح پاک ہوجائے گا جیسے ماں کے پیٹ سے اسی وقت پیدا ہوا ہو۔ دعا باب الصلوٰة میں درج ہے۔
۲- جو شخص اس دعا کو شب ِ جمعہ یا شب ِ عید دس مرتبہ پڑھے گا اس کے ثواب میں دس لاکھ حسنات لکھے جائیں گے‘ اور ہزار گناہ محو ہوں گے‘ نیز پڑھنے والے کے ہزار درجات بلند کیے جائیں گے۔ (دعا طویل ہے‘ اعمال شب جمعہ میں دیکھئے)
۳- بحوالہ سید ابن طاؤس امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جناب رسالت مآب اور ان کے اہل بیت اطہار پر نمازِ ظہر اور عصر کے درمیان درود بھیجنا ستر رکعتوں کے ثواب کے برابرہے۔
۴- حضرت امام جعفر صادق سے منقول ہے جو شخص نمازِ ظہر کے بعد ان الفاظ کو پڑھے وہ تاظہور قائم آل محمد زندہ و سلامت رہے گا اور حضرت کی خدمت میں ہوگا۔ اگر راہی ملک عدم ہوگیا تو عارضی زندگی دے کر زیارتِ امام سے مشرف کیا جائے گا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم - اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمّدٍ وَّاٰلِ مُحَمّدٍ وَعجِّلْ فَرجَھُمْ
۵- امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو شخص نمازِ عصر کے بعد ستر مرتبہ استغفار کرے تو خداوند قدوس اس کے سات سو گناہ معاف کرے گا۔
۶- شب ِ جمعہ یا روزِ جمعہ سورہ جمعہ کی تلاوت کرنے سے جمعہ سے جمعہ تک کفارہ شمار ہوتا ہے۔
۷- سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا کا معمول تھا۔ شب جمعہ مرحوم مومنین و مومنات کے لیے دعائے مغفرت کیا کرتی تھیں۔ پوچھا کیا وجہ…؟
فرمایا: ایک روایت کے مطابق ایسے شخص کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے جو دس مرحومین/مرحومات کے لیے دعائے مغفرت کرے۔
۸- امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ شب جمعہ میں محمد وآل محمد پر درود بھیجنے سے ہزار نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ ہزار گناہ معاف ہوتے ہیں اور ہزار درجے بلند ہوتے ہیں۔
۹- روایت ہے جو شخص نمازِ صبح سے پہلے تین مرتبہ ذکر کرے تو اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں خواہ کفِ دریا سے زیادہ ہوں۔
اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ الْحَیِّ القَیُومُ وَاتُوبُ اِلَیْہِ
۱۰- روایت میں آیا ہے جو شخص جمعہ کے دن نمازِ صبح کے بعد طلوعِ آفتاب تک تعقیبات میں مشغول رہے تو جنت الفردوس میں اس کے ستر(۷۰) درجات بلند کیے جائیں گے۔
۱۱- طلوعِ آفتاب سے قبل دس مرتبہ سورہ کافرون پڑھنے سے دعا مستجاب ہوتی ہے۔
۱۲- سختی و غم کے دُور ہونے اور کشائش کے اِس ذکر کا ہمیشہ پڑھنے بہت مفید ہے۔ یہی ذکر امام محمد تقی علیہ السلام نے تعلیم فرمایا:
یَامَن یَّکْفِی مِنْ کُلِّ شَی ءٍ وَّلَا یَّکْفِیْ مِنْہُ شَی ءٌ اِکْفِنِیْ مَآ اَھمِّنِی
"وہ جو ہرچیز سے بڑھ کرکفایت کرتا ہے اور اُس کے لیے کوئی چیز کفایت نہیں کرتی میرے اہم کاموں میں میری کفایت کر"۔
ماہِ رجب
حضرت رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ جو شخص ماہِ رجب میں صرف سومرتبہ کہے اس کے بعد حسب توفیق صدقہ دے تو حق تعالیٰ اس پر اپنی تمام تر رحمت و مغفرت نازل کرے گا اور جو اُسے پورے ماہ میں چار سو مرتبہ پڑھے تو خدا اُسے ایک سو شہیدوں کا اجر دے گا:
اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ وَحْدَہ لَا شَرِیْکَ لَہ وَاتُوبُ اِلَیْہِ
۱۴- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہوئی ہے کہ ماہِ رجب میں جو شخص مرد/زن ایک ہزار مرتبہ لا الٰہ الا اللہ کہے تو حق تعالیٰ اس کے حق میں ایک ہزار نیکیاں لکھے اور جنت میں اس کے لیے سو شہر بنائے گا۔
۱۵- ماہِ رجب میں ہر جمعہ سو مرتبہ سورہ اخلاص پڑھنے والے کے لیے ایک خالص نور ہوگا جو اُسے جنت کی طرف رہنمائی کرے گا۔
۱۶- ماہِ شعبان میں ستر مرتبہ استغفار کرنا گویا دوسرے مہینوں میں ستر ہزار مرتبہ استغفار کرنے کے برابر ہے۔
۱۷- امام علی رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص خاکِ شفا کی تسبیح ہاتھ میں لے کر ہر دانے پر یہ پڑھے: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالحَمْدُلِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اکْبَر۔ خداوند تعالیٰ ہر دانے کے عوض چھ ہزار نیکیاں لکھے گا۔ اس کے ۶ ہزار گناہ مٹا دے گا‘ اس کے ۶ ہزار درجے بلند کرے گا اور اس کے لیے ۶ ہزار شفاعتیں لکھے گا۔
۱۸- امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے جو شخص خاکِ کربلا سے بنائی ہوئی پختہ تسبیح پھیرے اور ایک بار استغفار کہے تو حق تعالیٰ اس کے لیے ستر بار استغفار لکھے گا اور اگر اس تسبیح کو محض ہاتھ میں لیے رکھے تو بھی اس کے ہر دانے کے عوض سات بار استغفار لکھے جائیں گے۔
۱۹- اذان و اقامت کے درمیان مانگی ہوئی دعا ردّ نہیں ہوتی۔
۲۰- جو شخص پابندی کے ساتھ واجب نماز کے بعد تسبیح فاطمہ زہراء پڑھتا ہے کبھی بدبخت نہ ہوگا۔ قرآن مجید میں واذکرواللّٰہَ ذکرًا کثیرًا کا حکم دیا گیا ہے‘ وہ تسبیح حضرت زہراء ہے۔ گویا تسبیح پڑھنا خدا کو زیادہ یاد کرنے کے مترادف ہے۔ امام محمدباقر علیہ السلام سے مروی ہے جو شخص فاطمہ زہراء کی تسبیح پڑھنے کے بعد استغفار کرے گا اللہ تعالیٰ اُسے بخش دے گا۔ ظاہراً تسبیح کے سو الفاظ ہیں لیکن میزانِ عمل میں ایک ہزار کے برابر ہیں‘ اسی سے شیطان دُور ہوتا ہے‘ رحمن راضی ہوتا ہے۔ امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں جو فرد بعد از نماز اپنے پاؤں کی کیفیت کو بدلے بغیر تسبیح فاطمہ زہراء پڑھے تو اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور جنت اس کے لیے واجب ہو جاتی ہے۔ ایک اور معتبر حدیث میں امام ششم فرماتے ہیں: میرے نزدیک ہرنماز کے بعد حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی تسبیح پڑھنا روزانہ ہزار رکعت نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ یہ وہ تحفہ ہے جو اللہ کی طرف سے پاک پیغمبر کو ملا اور حضور پرنور نے یہ تحفہ اپنی پیاری اکلوتی بیٹی کو عطا فرمایا۔
۲۱- خاکِ شفا کی تسبیح ہاتھ میں ہو اور وہ فی الحال ذکر نہ کر رہا ہو‘ حضرت صاحب العصر والزمان عجل اللہ فرجہ الشریف فرماتے ہیں اس شخص کے لیے ذکر کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خاکِ شفاء کی تسبیح خود بخود ذکر کرتی ہے اور خاکِ تسبیح پڑھتی ہے جس کا ثواب ہاتھ میں پکڑنے والے کے نامہٴ اعمال میں درج ہوتا ہے۔ نیز فرمایا جو ذکر تسبیح خاکِ شفا پر کیا جائے وہ دوسرے اذکار و استغفار کے سترگنا کے برابر ہے۔
۲۲- شیخ کلینی نے معتبر سند کے ساتھ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جو شخص فریضہ نماز کے بعد پاؤں کو پلٹانے سے پہلے تین مرتبہ یہ دعا پڑھے تو خداوندعالم اس کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے خواہ وہ گناہ کثرت میں سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں:
اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ الْحَیِّ القَیُومُ ذُوالجَلالِ وَالاکِرَامِ وَاَتُوبُ اِلَیْہِ -
۲۳- امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے منقول ہے جو شخص ہر فریضہ نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے تو کوئی کاٹنے والی چیز اُسے ضرر نہیں پہنچا سکے گی۔ حضور اکرم نے حضرت علی سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ہر فریضہ نماز کے بعد آیت الکرسی کی تلاوت اس لیے ضروری ہے کہ پیغمبر یا صدیق یا شہید کے علاوہ کوئی اس عمل کو ہمیشہ جاری نہیں رکھ سکتا۔
مزید فرمایا: آیت الکرسی کی تلاوت رکھنے والے کی نماز قبول ہوتی ہے‘ وہ خدا کی پناہ میں رہے گا اور خدا اُسے گناہوں اور بلاؤں سے محفوظ رکھے گا۔
۲۴- نبی رحمت مالک خلق عظیم نے اپنے ایک بوڑھے صحابی شیبہ ہذلی کو یہ دعا تعلیم فرمائی اور کہا اس کلام کی برکت سے خدا تمھیں اندھے پن‘ دیوانگی‘ برص‘ جذام‘ پریشانی اور فضول گوئی سے نجات دے گا۔
سُبْحَانَ اللّٰہِ العَظِیمِ وَبِحمَدِہ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰہِ العَلِیِّ العَظِیْم
۲۵- تسبیحات اربعہ کے متعلق ختمی مرتبت حضور پرنور نے فرمایا: اس کی جڑیں زمین میں اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہیں۔ یہ انسان کو چھت تلے دبنے‘ پانی میں ڈوبنے‘ کنوئیں میں گرنے‘ درندوں کے چیرنے پھاڑنے‘ بدتر موت اور آسمان سے آنے والی بلاؤں سے بچاتا ہے۔ یہی ان باقیات الصالحات میں ہے جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نماز کے بعد تیس (۳۰) مرتبہ پڑھو:
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالحَمْدُلِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اکْبَر
۲۶- امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص فریضہ نماز کے بعد تیس (۳۰) مرتبہ سبحان اللہ کہے تو اس کے بدن پر موجود ہر گناہ ساقط ہو جائے گا۔ ایک اور صحیح حدیث میں آنجناب سے منقول ہے کہ خدا نے قرآن مجید میں "ذکرکثیر"فرمایا ہے۔ وہ ہر نماز کے بعد ۳۰ مرتبہ سبحان اللہ ہے۔
۲۷- قطب راوندی نے روایت کی ہے کہ حضرت امیرالمومنین نے براء بن عازب سے فرمایا: ہر نماز کے بعد دس مرتبہ تسبیحات اربعہ پڑھنے والا کبھی مرتد نہ ہوگا۔
۲۸- ابن بابویہ نے معتبرسند کے ساتھ امام محمدباقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جو شخص نمازِ فجر کے بعد ستر مرتبہ اسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّی وَاتُوبُ اِلَیْہِ کہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سات سو گناہ معاف کرتا ہے۔
۲۹- امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے جو شخص سورہ انا انزلناہ طلوعِ فجر کے بعد سات مرتبہ پڑھے تو اس کے لیے فرشتوں کی ۷۰ صفیں ۷۰ دفعہ صلوٰة پڑھتی ہیں اور ۷۰ مرتبہ اس کے لیے رحمت طلب کرتی ہیں۔
۳۰- شیخ احمد بن فہد اور دیگر علما نے روایت کی ہے کہ ایک شخص امام موسٰی کاظم کی خدمت میں آیا اور شکایت کی کہ میرا کاروبار بند ہو چکا ہے۔ جدھر کا رخ کرتا ہوں ناکام رہتا ہوں اور جو حاجت پیش آتی ہے وہ پوری نہیں ہوتی‘ حضرت نے فرمایا: نمازِ فجر کے بعد دس مرتبہ یہ پڑھا کرو:
سُبْحَانَ اللّٰہِ العَظِیمِ وَبِحمَدِہ اسَتْغَفِرُ اللّٰہَ وَاسَئَلُہ مِنْ فَضلِہ
راوی کہتا ہے کہ میں نے تھوڑے ہی عرصہ تک یہ دعا پابندی کے ساتھ پڑھی تھی کہ مجھے بہت سا مال و زر مل گیا اور کاروبار چمک اٹھا۔
۳۱- عدة الداعی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جو شخص نمازِ فجر کے بعد کسی سے بات کرنے سے پہلے یہ کہے:
رَبِّ صَلِّ عَلٰی مُحَمّدٍ وَّاھَلِ بَیتِہ تو حق تعالیٰ اس کے چہرے کو آتشِ جہنم سے دُور رکھے گا۔
۳۲- جو شخص علاوہ نماز کسی نعمت کے ملنے پر خدا کے لیے سجدہ شکر بجا لائے تو اللہ تعالیٰ اس کے نام دس نیکیاں لکھ دیتا ہے‘ دس برائیاں مٹا دیتا ہے اور بہشت مین اس کے دس درجے بلند کر دیتا ہے۔
۳۳- شیخ کلینی نے معتبر سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ ایک شخص امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ شکایت کی میری لونڈی جو بیمار رہتی ہے اس کے لیے ہدایت فرمائیں۔ حضرت نے فرمایا: اسے کہو ہر واجب نماز کے بعد سجدئہ شکر میں یہ کہا کرے:
یَا رَؤفُ یَارَحِیمُ یَارَبِّ یَا سَیِّدِی
۳۴- جو شخص شام کے وقت غروبِ آفتاب کے قریب اور صبح طلوعِ آفتاب سے پہلے سو سومرتبہ اللہ اکبر کہے تو خدائے قدوس اس کے لیے سو غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھ دے گا۔ انھیں اوقات میں سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحمَدِہ پڑھنے والے کوقرأت کے مطابق نیکیاں میسر ہوں گی یعنی جتنی بار پڑھے گا اتنی ہی نیکیاں۔
۳۵- عبداللہ بن جندب اپنے زمانے کے عالم کہیرامام موسٰی کاظم اور امام علی رضا علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے‘ ساتویں امام کی خدمت میں عریضہ تحریر کیا:
مولا! بوڑھا ہو گیا ہوں‘ کمزوری کی وجہ سے کئی امور انجام دینے کی طاقت نہیں رکھتا‘ مجھے خاص کلام تعلیم فرمایئے تاکہ علم و فہم میں مزید اضافہ ہو‘ اور اپنے کام خوش اسلوبی سے پایہٴ تکمیل تک پہنچا سکوں۔
حضرت نے جواب میں فرمایا: اس ذکرِعظیم القدر کو زیادہ سے زیادہ پڑھا کرو: سُبْحَانَ اللّٰہِ اَللّٰہُ اکْبَر۔
۳۶- حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: مجھے یہ کلمات حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم فرمائے:
جو شخص روزانہ سو مرتبہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ الْمَلِکُ الحَقُّ المُبِیْنُ پڑھے چار فائدے حاصل کرے گا:
(i) فقر و فاقہ اور معاشی تنگی دُور ہوں گی ۔(ii) قبر کی وحشت سے محفوظ رہے گا۔ (iii) غنا ظاہری اور باطنی نصیب ہوگا۔ (iv) جنت میں داخل ہونے کی سعادت نصیب ہوگی۔
۳۷- سرکار رسالت مآب نے فرمایا: اس دعا میں اسم اعظم ہے جو کچھ چاہو اس کو وسیلہ بناکر اللہ سے طلب کرو‘ خدا عطا کرے گا:
اَللّٰھُمَّ بِاَنَّ لَکَ الحَمْدُ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ یَاحَنّانُ یَابَدِیعْ السَّمواتِ وَالْاَرضِ یَا ذَالجَلالِ وَالْاِکْرَام
۳۸- صاحب میہج الدعوات لکھتے ہیں کہ ایک اور روایت اسم اعظم کے باب میں عطا (راوی) سے بیان کی جاتی ہے۔ اس دعا میں اسم اعظم پوشیدہ ہے:
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم - یَااللّٰہُ یَااللّٰہُ یَااللّٰہُ ‘ یَارَحمٰنُ یَارَحمٰنُ یَارَحمٰنُ ‘ یانُور یانُور یَا ذَاالطَّولِ یَا ذَالجَلالِ وَالْاِکْرَام
۳۹- السَّلامِکثرت سے پڑھنے والا امراض سے شفا پائے گا‘ آفات سے سلامت رہے گا۔ اگر مریض پر ۱۰۰ مرتبہ پڑھا جائے صحت پائے گا۔
۴۰- جو شخص الخَالِقُ کا ورد رکھے تو اس کا چہرہ نورانی اور دل روشن رہے گا۔
۴۱- جو شخص حالت سجدہ میں تعقیبات کے اندر چودہ مرتبہ الَوْھّابُ کہے حق تعالیٰ اسے غنی کرے گا۔
۴۲- جو شخص رات کے وقت الکریم چند بار پڑھ کر سو جائے ملائکہ کو حکم ہوتا ہے کہ رات بھر اس کے لیے دعائے خیر کریں۔
۴۳- گم شدہ چیز مل جائے یا اطلاع ہو جائے اَلشَّھِیْدُ الْحَقکاغذ کے چار کونوں پر لکھے۔ درمیان میں ضائع ہونے والی چیز کا نام لکھے۔ نصف شب کو زیرآسمان ۷۰ مرتبہ اَلشَّھِیْدُ الْحَق کہے گمشدہ چیز کا حال معلوم ہوجائے گا‘ ان شاء اللہ!
۴۴- ۱۹ مرتبہ اَلحّیُ پڑھ کر دم کریں‘ آنکھیں دکھنے کا مرض ٹھیک ہو جائے گا۔
۴۵- حاکم کے سامنے جانے سے پہلے الرّؤفُ پڑھ کر جائے ان شاء اللہ مہربانی سے پیش آئے گا۔
۴۶- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو کوئی نماز کے بعد روزانہ ۳۰ مرتبہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہَ پڑھے بے پناہ رزق پائے گا۔ اسی مقصد کے لیے سورہ ق روزانہ پڑے اور رزق وسیع حاصل کرے۔
۴۷- حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کا ارشاد ہے جو کوئی سوتے وقت سورہ اخلاص پڑھے ملائکہ اس کی حفاظت پر مامور کر دیئے جاتے ہیں۔
۴۸- امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ہر نماز واجب کے بعد تسبیح جناب فاطمة الزہراء میرے نزدیک ہر دن میں ہزار رکعت نماز نافلہ پڑھنے سے بہتر ہے۔
۴۹- یہ تسبیح زبان کے ساتھ سو دفعہ ہے لیکن میزانِ عمل میں اس کا ثواب ہزار تسبیح کے برابر لکھا جاتاہے۔ اللہ خوش ہوتا ہے (بلاتغیرکیفیت) اور شیطان دُور بھاگتا ہے۔
۵۰- خاکِ شفا کی تسبیح پر ہر دانہ کے بدلے چالیس حسنہ کی عطا ہوتی ہے کیونکہ یہ ذکرًا کثیرًا کا نعم البدل ہے۔
۵۱- امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: میرے نزدیک جمعہ کے روز صلوٰة پڑھنے والا بہترین عبادت میں مصروف ہے۔ شبِ جمعہ صلوات پڑھنا ہزار حسنہ کے برابر ہزار گنا محو ہوتے ہیں‘ ہزار درجے بلند ہوتے ہیں۔ ظہر اور عصر کے درمیان درود پڑھنے کا ثواب حج و عمرہ کے مترادف ہے۔
۵۲- جمعہ کی رات یا جمعہ کا دن صدقہ دینا باقی ایام سے ہزار گناہ زیادہ بہتر ہے۔
۵۳- امام موسٰی کاظم نے فرمایا: جس نے خفیہ طور پر اپنے بھائی کے لیے دعا کی اس کے لیے عرش سے ندا آتی ہے تیرے لیے ایک لاکھ اجر ہے۔
۵۴- محمد باقر علیہ السلام نے فرمایاجس نے اشھد ان لا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہ لاَشَرِیْکَ لَہ وَاشھد ان محمدًا عبدہ ورسولہ کہا خدا اس کے نام پر ایک ہزار نیکیاں لکھتا ہے لیکن بشرطہا وشروطہا (اقرار امامت ضروری ہے)۔ (اصول الکامی جلدپنجم)
۵۵- امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا: ہرنماز کے بعد تسبیحات اربعہ پڑھنے سے دنیا کی مصیبتیں دُور ہوتی ہیں‘ اور آخرت کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ تین سو ساٹھ مرتبہ روزانہ پڑھنا (جسم کی رگوں کے برابر) روزانہ کے تحفظ کی ضمانت ہے۔
۵۶- سورہ اخلاص کی مداوت کرنے والے کے جنازے میں ۷۰ ہزار فرشتے شرکت کرتے ہیں۔
متفرقات
۱- ثواب سعی کا حصول: امام موسٰی کاظم علیہ السلام کا فرمان ہے کہ اپنے مومن بھائی کی حاجت روائی کے لیے چلنا ایسا ہے جیسے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا ہے۔
۲- خاکِ شفا کی تسبیح جب کسی ہاتھ میں ہو‘ خواہ وہ خود غافل کیوں نہ ہو‘ اس کی عقیدت کی وجہ سے تسبیح کے دانے ذکرِخدا کرتے ہیں اور اس کا ثواب اس فرد کے نامہٴ اعمال میں لکھا جاتا ہے۔
۳- حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں: روزِ جمعہ کا غسل پاکیزہ کرنے والا ہے اور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک گناہوں کا کفارہ ہے۔
۴- امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے جو شخص خواہش کرے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی روحیں اس سے مصافحہ کریں تو شعبان کی پندرھویں شب کو زیارت امام حسین علیہ السلام پڑھے۔
۵- جو شخص حج میں شریک نہ ہو سکے (مستطیع نہ ہو) اور نہ کربلا معلٰی حاضر ہونے کی سکت ہو تو اسے چاہیے ذوالحجہ کی نویں تاریخ کو کسی بلند مقام پر یا وسیع میدان یا جنگل میں خضوع و خشوع سے حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت پڑھے‘ پھر شام تک ذکرخدا میں مشغول رہے‘ وہ ان لوگوں کے ثواب میں شریک ہوگا جو حج میں مصروف ہیں۔
۶- ذوالحجہ کی اٹھارہویں عید غدیر ہے‘ جو شخص مومن بھائی کا چہرہ دیکھ کر تبسم کرے تو خداوندعالم اس کی حاجتیں برلائے گا اور قیامت کے روز اس پر نظر رحمت فرمائے گا۔ غدیر کے دن ایک درہم صدقہ کا ثواب ہزار درہم صدقے کے برابر ہے۔
۷- حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کون شخص ہے جو سال بھر کے روزے رکھتا ہو؟ ساری رات عبادت میں بسر کرتا ہو اور ہر روز ایک قرآن پڑھنے کا ثواب حاصل کرتا ہو؟
حضرت سلمان ذیشان (فارسی) کھڑے ہوئے اور عرض کیا: بندہ۔
تمام اصحاب کبار حیران ہوئے کہ یہ کیسے ممکن ہے جب کہ ہم نے سلمان فارسی کو دن کے وقت کھانا کھاتے دیکھا ہے اور رات کو سوتے بھی پایا ہے۔
حضور اکرم نے فرمایا: سلمان ذرا تشریح کیجیے:
عرض گزار ہوئے: روحی لہ الفدا… آپ کے فرمان کے مطابق جو مجھے اچھی طرح یاد ہے ایام بیض قمری ماہ کی ۱۳‘ ۱۴‘ ۱۵ کو روزہ رکھتا ہوں۔ سوتے وقت وضوکر لیتا ہوں اور روزانہ تین بار سورہ اخلاص ضرور پڑھتا ہوں۔
۸- جب مومن کو بخار آتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جیسے درخت کے پتے گرتے ہیں۔
۹- پیغمبراسلام نے فرمایا جو شخص کسی بیمار کی حاجت روائی میں سعی کرتا ہے خواہ کامیاب ہو یا نہ ہو وہ شخص گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔
۱۰- وقت طعام جو دانہ یا ریزہ مقام دسترخوان پر گرے اُسے اُٹھا کر کھا لینا بہت سی بیماریوں کی شفا ہے۔
۱۱- امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: شب بیداری برائے اعمالِ حسنہ کرنے والے کا دل کبھی مردہ نہیں ہوتا۔
۱۲- پندرھویں شعبان کی شب کا بہترین عمل امام حسین علیہ السلام کی زیارت ہے کہ جس سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اُس سے مصافحہ کریں تو وہ کبھی اس رات یہ زیارت ترک نہ کرے؟
۱۳- رمضان المبارک میں سانس لینا تسبیح کے مترادف اور واجبات سے فارغ ہو کر سونا عبادت ہے۔
۱۴- حدیث میں ہے غسل دینے والے کے نامہٴ اعمال میں اس قدر غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھا جاتا ہے جتنے میت کے بدن پر بال ہوتے ہیں۔
فرمان خداوندی ہے: میں اس شخص کے گناہوں کو اس طرح دھو دوں گا جیسے وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا لیکن شرط یہ ہے میت کے عیب پوشیدہ رکھے اور امانت میں خیانت نہ کرے۔
۱۵- رمضان المبارک میں لونڈی‘ غلام ملازمہ‘ ملازم اور ذاتی نوکر سے جو شخص کم کام لے تو قیامت میں خدا اس کا حساب سہولت سے لے گا۔
۱۶- میت کو کفن دینا ثوابِ عظیم ہے۔ امام محمدباقر علیہ السلام فرماتے ہیں جو شخص کسی مومن کو کفن دے گا قیامت تک وہ اس شخص کے پورے لباس کا ضامن ہوگا۔ جتنے جوڑے اس نے پہننے تھے ان تمام کا ثواب کفن دینے والے کو مل گیا‘ اس وجہ سے کہ اس نے ایک واجب کفائی ادا کر کے تمام بستی والوں کو بچالیا۔
۱۷- ماہِ رمضان کی پہلی کو ۳۰ چلّو پانی سر پر ڈالنا‘ سال بھر تک تمام دردوں اور بیماریوں سے محفوظ رہنے کا موجب ہے۔ اسی طرح ایک چلّو عرق گلاب چہرے پر ڈالے تاکہ ذلت و پریشانی سے نجات رہے۔
۱۸- روایت میں ہے جو شخص نویں ذوالحجہ کی رات عبادت میں گزارے وہ ایسا ہے کہ گویا ۱۷۰ سال تک عبادت میں مصروف رہا ہو۔
۱۹- جو شخص (مرد /زن) ہر قمری مہینے کی پہلی شب میں پنیر کھاتا رہے تو اس مہینے میں اس کی کوئی دعا ردّ نہ ہوگی۔
۲۰- مومن کے لیے بہتر ہے دوران سفر عقیق /فیروزے کی انگوٹھی پہنے رکھے‘ اور خاکِ شفا پاس رکھے۔
۲۱- سید عبدالکریم ابن طاؤس نے اپنی کتاب فرحتہ لعربیٰ میں امام جعفرصادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جو شخص حضرت امیرالمومنین کی زیارت کو پاپیادہ جائے تو حق تعالیٰ ہر قدم کے عوض ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب اس کے نامہٴ اعمال میں درج کروائے گا۔ اگر واپسی پر بھی پاپیادہ چلے تو حق سبحانہ اس کے ہر قدم کے بدلے دو حج اور دو عمرے کا ثواب لکھے گا۔
۲۲- امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جو شخص عقیق کی انگوٹھی پہن کر نماز پڑھے اس کے لیے ثواب اس شخص سے چالیس درجہ زیادہ ہے جوکسی اور قسم کی انگوٹھی پہن کر نماز پڑھے۔
۲۳- امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا جسے سید عبدالکریم ابن طاؤس نے اپنی کتاب فرحتہ العربیٰ میں نقل کیا‘ فرمایا:
اے ابن مادر! جو شخص میرے جد امیرالمومنین علی علیہ السلام کے حق کو پہچانتے ہوئے آپ کی زیارت کرے تو حق تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلے میں اس کے لیے حج مقبول اور عمرہ پسندیدہ کا ثواب لکھے گا۔
اے ابن مارد! جو قدم حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی زیارت میں گرد آلود ہوگا اُسے آتشِ جہنم نہ جلائے گی خواہ پیادہ جائے یا سوار ہوکرجائے۔ یہ بات ذہن میں محفوظ رہے کہ اللہ تعالیٰ نے امیرالمومنین علی علیہ السلام اور ان کے پاکیزہ فرزندوں کے مزارات کو خوف زدہ اور ستم رسیدہ لوگوں کے لیے جائے پناہ اور اہل زمین کے لیے وسیلہ امان قرار دے رکھا ہے۔
۲۴- مسجد کوفہ ان چار مقامات میں سے ہے جہاں مسافر کو قصریا سالم نمازپڑھنے کا اختیار ہے۔ وہاں ایک فریضہ نماز ایک حج مقبول اور ایک ہزار نماز کے ہم پلہ ہے۔ یہاں ایک ہزار پیغمبروں اور ایک ہزار اوصیاء نے نماز پڑھی۔ قائم آل محمد کا مقامِ نماز بھی ہے۔
ابن قواویہ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ اس مسجد میں ادا کردہ فریضہ یا نافلہ نماز اس حج اور عمرے کے برابر ہے جو حضور اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں بجالائی جائے۔
۲۵- زائر جو مال زیارت کرنے پر خرچ کرتا ہے اس کے لیے ہر درہم (ملکی کرنسی کی اکائی) کے بدلے ایک ہزار بلکہ دس ہزار درہم لکھے جاتے ہیں۔ جو لوگ امام حسین علیہ السلام کے زائرین کے لیے زمین پر دعا کرتے ہیں اُن سے کہیں زیادہ مخلوق ہے جو آسمان میں ان کے لیے دعا کرتی ہے۔
۲۶- امام حسین علیہ السلام کے روضہٴ مبارک پر فریضہ نماز کا پڑھنا حج کے برابر اور نافلہ نماز کا پڑھنا عمرہ کے برابر ہے۔
۲۷- امام جعفر صادق علیہ السلام نے جابر جعفی سے فرمایا کیا میں تجھے امام حسین کی زیارت کی خوشخبری سنا دوں…؟
"بے شک جب تم میں سے کوئی شخص زیارت پر جانے کو تیار ہوتا ہے تو آسمان میں فرشتے ایک دوسرے کو خوشخبری دیتے ہیں‘ جب وہ سوار پاپیادہ اپنے گھر سے روانہ ہوتا ہے تو حق تعالیٰ ایک ہزار فرشتے اس پر مقرر کرتا ہے جو روضہ امام حسین علیہ السلام کے دروازے پر پہنچتے ہیں اور اس کے لیے طلب رحمت کرتے ہیں۔
۲۸- امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: وہ وقت قریب ہے جب تم شبہات کا شکار ہو جاؤ گے اور پیشوا کے بغیر سرگرداں ہو گے‘ اس شبہ کے دور میں کوئی شخص نجات نہ پائے گا مگر وہ خود دعائے غریق پڑھے:
یَااللّٰہُ یَارَحمٰنُ یَارَحِیمُ یَامُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دِینْکِ
(کوشش کریں ہر واجب نماز کے بعد دو تین مرتبہ پڑھی جائے)
۲۹- جو شخص شب ِدر میں (۲۳ویں بالخصوص) امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے توچوبیس ہزار پیغمبر اور فرشتے اس کے ساتھ مصافحہ کرتے ہیں‘ یہ فرشتے باذن اللہ اس رات روضہ امام حسین علیہ السلام پر اترتے ہیں۔
۳۰- امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ جو شخص ایک ہی سال میں ۱۵ شعبان‘ عیدفطر اور شب نو ذوالحجہ (عرفہ) امام حسین کی زیارت کرے تو حق تعالیٰ اس کے لیے ایک ہزار حج مبرور اور ایک ہزار عمرہ مقبولہ کا ثواب لکھتا ہے‘ دنیا و آخرت میں اس کی ایک ہزار حاجات پوری ہوتی ہیں۔
۳۱- جو لوگ جنازے کے ساتھ جاتے ہیں‘ ایک حدیث حسن جو امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے ان کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ ایک اور حدیث میں آپ فرماتے ہیں کہ مومن کو قبر مین سب سے پہلے جو تحفہ دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے جنازے میں شریک ہونے والے تمام لوگوں کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ جو شخص دفن تک ساتھ رہتا ہے سترملائکہ اُس کے لیے دعائے مغفرت کرنے پر تعینات کر دیئے جاتے ہیں۔
۳۲- حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: مومن کے مرنے کے بعد پہلی چیز جو اس کے نامہٴ اعمال میں لکھتے ہیں وہ وہی ہوتی ہے جوبات لوگ اس کے بارے میں کہتے ہیں اگر نیک بات کہتے ہیں تو نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر بُری بات کہتے ہیں تو برائی لکھی جاتی ہے۔
۳۳- دو رکعتیں شادی شدہ کی صائم النہار قائم اللیل کنوارے کی عبادت سے افضل ہیں۔ (من لا یحضرہ الفقیہہ)
۳۴- نکاح کے وقت رحمت کے دروازے کھلتے ہیں۔ (جامع الاخبار)
۳۵- حضرت سلمان ذیشان سے روایت ہے حضرت رسول خدا نے جناب امیرالمومنین سے فرمایا یاعلی ! انگوٹھی داہنے ہاتھ میں پہنو تاکہ تمہارا شمار مقربین میں ہو جائے‘ بہتر ہے عقیق کی انگوٹھی پہنو۔ داہنے ہاتھ میں پہننا پیغمبروں کی سنت ہے۔ فرمایا: پتھروں میں یہ پہلا ہے جس نے خدا کی وحدانیت‘ نبی کی نبوت اور علی کی امامت کا اقرار کیا ہے۔ عقیق پہننے والا پریشان نہ ہوگا اور انجام کار بہتر ہوگا۔
۳۶- حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے منقول ہے کہ اس شخص کی انفرادی نماز جس کے ہاتھ میں عقیق کی انگوٹھی ہو اس شخص کی جماعت کی نماز سے بھی جس کے ہاتھ میں عقیق کے سوا اور رنگ کی انگوٹھی ہو چالیس درجے افضل ہے۔
۳۷- حضرت عیسٰی علیہ السلام نے ایک عورت سے کہا کیا تو چاہتی ہے کہ تیرے چہرے کی رونق بحال رہے؟ پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤ اور کھائے ہوئے پر دوبارہ نہ کھاؤ۔
۳۸- روٹی کا ٹکڑا ملے‘ دھو کر پاک کرے نامہٴ اعمال میں ۷۰ نیکیاں لکھی جائیں گی۔ ترک تکبر کی وجہ سے داخل جنت ہونے کا رستہ استوار ہوگا۔
۳۹- نمک سے کھانا شروع نمک چکھنے پر ختم‘ ۷۰ قسم کی بلائیں دُور رہیں گی۔
۴۰- حدیث صحیح میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک لقمہ جو برادر مومن میرے پاس بیٹھ کر کھائے مجھے ایک غلام آزاد کرنے سے زیادہ پسند ہے۔
۴۱- حضرت امام محمدباقر علیہ السلام نے فرمایا: اگر میں تین مومنوں کو کھانا کھلاؤں تو میرے نزدیک سات غلام آزاد کرنے سے بہتر ہے۔
۴۲- جو شخص کسی بیمار کی عیادت کو جاتا ہے‘ ستر ہزار فرشتے ساتھ ہولیتے ہیں‘ اس کے پلٹنے تک اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں۔
۴۳- پیاسے کو ایک دفعہ سیراب کرنے سے ستر ہزار نیکیاں عطا ہوتی ہیں۔
۴۴- جو شخص مومن کو للہ کھانا کھلائے تو اس کا ثواب غیر آدمیوں میں سے ایک لاکھ کو کھانا کھلانے کے برابر ہے۔ اگر روزانہ کھلائے روزانہ ایک غلام آزاد کرنے کا اجر حاصل کرے۔
۴۵- چار آدمی جنت میں جائیں گے: پیاسے کو سیراب کرنے والا‘ بھوکے کو کھانا کھلانے والا‘ ننگے کو لباس دینے والا اور غلام آزاد کرانے والا۔
۴۶- مومن کی ایک حاجت پوری کرنے پر حق تعالیٰ قیامت کے روز اس کی ایک لاکھ حاجتیں پوری کرے گا۔
ایک اور حدیث میں ہے: مومن کی حاجت پوری کرنا بیس حج سے بہتر ہے جن میں ہر حج میں ایک لاکھ درہم خرچ ہو‘ مومن کی حاجت بر لانا دس طواف سے افضل ہے۔
۴۷- خدا کی قسم مومن کی ایک حاجت بر لانا خدا کے نزدیک متبرک مہینوں (محرم‘ رجب‘ ذی قعد‘ ذوالحجہ) میں روزے رکھنے اور اعتکاف کرنے سے بہتر ہے۔ یہ شخص روزِ قیامت سایہ خداوندی میں ہوگا۔
۴۸- امام صادق علیہ السلام نے ایک پریشان حال شخص سے سوال کیا: تو نے بازار میں ایسی چیز دیکھی جس کے خریدنے سے تو عاجز تھا۔ اگر ایسا ہے تو تیرے نہ خرید سکنے سے نامہٴ اعمال میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔
۴۹- مومن کو گالی دینا گناہِ کبیرہ ہے۔ مومن سے لڑنا کفر ہے اور اس کی غیبت کرنا خدا کی نافرمانی ہے۔
۵۰- امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے جو شخص کسی ظالم بادشاہ/حکمران کے پاس جاکر اُسے پرہیزگاری کا حکم دے اور پندونصائح کرے تو اس نصیحت دہ شخص کو تمام جنوں اور آدمیوں کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا۔
۵۱- امام جعفر صادق علیہ السلام سے حدیث مروی ہے کہ اگر کوئی بت پرست بھی مرتے وقت مذہب شیعہ کا اعتقاد اور آئمہ معصومین کی امامت کا واقعی اقرار کر لے تو آتشِ جہنم اس کے کسی عضو کو نہ چھوئے گی۔
۵۲- جو جو اشخاص جنازے کے ساتھ مشایعت کے لیے جاتے ہیں ان کے گناہ عفو کر دیئے جاتے ہیں (قُربَةً اِلَی اللّٰہ)
۵۳- جو شخص السلام علیکم کہے اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جو سلامٌ علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کہے اس کے لیے تیس نیکیاں۔
۵۴- جو شخص گھر پہنچے اپنے اہل و عیال کو سلام کرے تو اس کے گھر میں برکت ہوگی اور فرشتوں کو اس گھر سے انس ہوگا۔
۵۵- حدیث حسن میں ہے کہ جناب رسالت مآب عورتوں کو سلام کیا کرتے تھے اور وہ جواب میں سلام دیا کرتی تھیں۔ جوان لڑکا جوان لڑکیوں کو سلام نہیں کرے گا کیونکہ فتور نیت کا گمان ہو سکتا ہے۔
۵۶- آپس میں مصافحہ کرو‘ مصافحہ کے سبب سینے کینے سے صاف ہوجاتے ہیں۔
۵۷- امام حسن عسکری علیہ السلام سے مذکور ہے جو شخص اپنے مرتبے سے کم درجہ بخوشی بیٹھ جائے جب تک اس جگہ سے نہ اٹھے گا فرشتے برابر اس کی سلامتی کی دعا کرتے رہیں گے۔
۵۸- رسول مقبول نے فرمایا جو اپنے برادر مومن کا مہربانی سے اکرام کرے اس کا غم دُور کرے جب تک مصروف مدارات ہے خدا تعالیٰ کی رحمت اس کے شاملِ حال ہے۔
۵۹- امام محمدباقر علیہ السلام نے فرمایا: جس شخص پر مجھے اعتماد ہو اس کے پاس بیٹھنا میرے نزدیک ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔
۶۰- جو شخص اپنے برادر ایمانی سے دھاگہ بال تنکا مٹی کا ذرہ وغیرہ دُور کرے خدائے تعالیٰ اس کے نامہٴ اعمال میں دس نیکیاں لکھنے کا امر دیتا ہے۔ اسی طرح مومن کو متبسم دیکھنا بھی دس نیکیوں کے مترادف ہے۔
۶۱- رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حلقے اور مجمع مومنین جن میں خدا کو یاد کیا جاتا ہے باغ ہائے بہشت میں سے ہیں۔
۶۲- سبحان ربک رب العزة عما یصفون وسلمٌ علی المرسلین والحمدللّٰہ رب العالمین۔ جلسے‘ مجلس‘ محفل کے آخر میں پڑھنے سے شرکاء جلسہ کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے۔
۶۳- حضرت امام محمدباقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ علم کا باہم تذکرہ کرنا اس نماز کا ثواب رکھتا ہے جو قبول ہو چکی ہو۔
۶۴- جناب رسالت مآب نے فرمایا: عبادت کے ستر جزو ہیں ان میں بہتر حلال سے روزی پیدا کرنا ہے۔
۶۵- جو شخص مومن مسافر کی اعانت کرے خدا تعالیٰ تہتر بلائیں دنیوی اس سے دُور کرے گا اور بہتر آخرت کی دفع کرے گا۔
۶۶- امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے: چھ چیزیں ایسی ہیں جن کا مرنے کے بعد بھی مومن کو فائدہ پہنچتا ہے: فرزند صالح‘ مفیت کتاب (قرآن مجید)‘ کنواں (نلکا)‘ درخت (باغ)‘ نیک کام کی بنیاد‘ رسم قابلِ ثواب۔
۶۷- شان اہل بیت بیان کرنے والے کو جنت میں گھر ملے گا۔ یہ مدح سرائی نظم‘ نثر‘ تقریر اور تحریر جس طرح ہو۔
۶۸- مومن جب دوسرے مومن سے ملاقات کو جائے ہر قدم پر ایک گناہ معاف اور ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ رحمت کے فرشتے سایہ کیے رہتے ہیں۔ مومن کی زیارت و ملاقات بصد خلوص کرنے والے پر جنت لازم ہے۔ نیز دس غلام آزاد کرنے سے زیادہ ثواب ہے۔
۶۹- معانقہ کرنے سے دونوں گناہوں سے پاک ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت دونوں کو احاطہ کرلیتی ہے اور ملائکہ احترام کرتے ہیں۔ دل کی پاکیزگی کے ساتھ گلے ملنا معانقہ کہلاتا ہے۔
۷۰- مومن کی عیادت کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے جو قیامت تک اس کے گھر میں تسبیح و تہلیل بجا لائیں‘ جس کا نصف ثواب اُس مومن کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے۔ احتیاط لازم ہے کہ عیادت کرنے والا زیادہ دیر نہ بیٹھے۔
۷۱- بیٹھ کر کنگھی کرنے سے بخار دُور رہتا ہے‘ روزی میں اضافہ ہوتا ہے‘ قوت بڑھتی ہے‘ سردرد سے نجات ملتی ہے۔ بیماریاں اور دردجسم سے دُور بھاگتے ہیں‘ بال صاف رہتے ہیں اور بڑھتے ہیں۔ کھڑے ہو کر کنگھی کرنا باعث نحوست ہے۔
۷۲- خوشبو بینائی تیز کرتی ہے‘ دل کو تقویت ہوتی ہے۔ سنت انبیاء و ائمہ ہے۔ خوشبو سونگھو تو درود ضرور پڑھو۔ خوشبو لگا کر نماز پڑھنا سترنمازون سے بہتر ہے۔ مسجد میں جانے کے لیے خوشبولگانا ثوابِ عظیم ہے۔
۷۳- مسواک کرنا سنت نبوی ہے۔ مسواک کر کے دو رکعت نماز پڑھنا ستررکعت سے بہتر ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: مسواک کے بارہ فائدے ہیں۔
۷۴- مرض کی حالت میں ایک رات جاگنا ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔
۷۵- ایک رات کا بخار کفارہ ہوتا ہے اس کے قبل اور مابعد گناہوں کا۔
۷۶- فرمایا ابوعبداللہ نے جو کوئی ایک رات بیمار ہو اور اس کی کسی عیادت کرنے والے سے شکایت نہ کرے اُسے ساٹھ برس کی عبادت کا ثواب ملے گا۔
۷۷- مریض نے مرض کا اظہار کر کے نیکیاں حاصل کرنے کا لوگوں کو موقع دیا اس لیے دس نیکیاں اس کے نام پر لکھی جائیں گی‘ دس گناہ معاف ہوں گے۔
۷۸- فرمایا امام محمدباقر علیہ السلام نے۔ موسٰی نے خداوندتعالیٰ سے مناجات کی‘ خداوندا! مریض کی عیادت کا کیا اجر ہے؟
فرمایا: ایک فرشتہ معین کیا جاتا ہے کہ اس کے لیے قیامت تک عبادت کرے۔
۷۹- حالت نزع میں اگر کلمہ شہادت اور آئمہ کے اسمائے مبارکہ کی تلقین کی جائے تو مرنے والے کی نجات کا بندوبست ہوجاتا ہے۔
۸۰- فرمایا ابوعبداللہ نے جب روح نکل کر حلق تک آجائے تو اس مومن یا مومنہ کی آنکھیں ۔۔۔۔۔ نبی و علی کی زیارت سے ٹھنڈی ہوتی ہیں۔
۸۱- پابند نماز مومن یا مومنہ کو ایک فرشتہ عالمِ نزع میں تلقین کرتا ہے کلمہ طیبہ کی اور شیطان کو اس کے پاس سے بھگا دیتا ہے۔
۸۲- امام محمدباقرعلیہ السلام نے فرمایا جو کسی مومن یا مومنہ کو کفن دے اس شخص کی مانند ہے جو قیامت تک اس کے لباس کا ضامن ہوگیا اور جو قبر کھودے قیامت تک کے لیے اس کے گھر کا ضامن ہوگیا۔
۸۳- جو شخص دفن ہونے تک جنازہِ مومن کے ساتھ رہے اللہ تعالیٰ ستر فرشتے معین کرتا ہے جو اس کے ساتھ رہیں گے اور اس کے لیے استغفار کرتے رہیں گے۔
۸۴- جو جنازہ کو چاروں کندھے دے اللہ تعالیٰ اس کے ۴۰ گناہِ کبیرہ معاف کر دیتا ہے۔
۸۵- جو کسی رنجیدہ کو تسلی دے یعنی تعزیت کرے روزِ قیامت خدا اُسے ایسا لباس پہنائے گا جس سے وہ خوش ہوگا۔
۸۶- فرمایا امام محمدباقر علیہ السلام نے جو عالم اپنے علم سے فائدہ حاصل کرتا ہے یعنی لوگوں تک پہنچاتا ہے وہ ستر ہزار عابدوں سے بہتر ہے۔ (اصول کافی)۔
پھر فرمایا ہماری احادیث کا روایت کرنے والا اور ہمارے شیعوں کے قلوب کی اصلاح کرنے والا ہزار عابد سے بہتر ہے۔
۸۷- امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب خدا کسی بندے سے نیکی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے علم دین عطا کرتا ہے۔
۸۸- امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: حلال و حرام کے بارے میں ایک سچے شخص سے ایک حدیث سن لینا دنیا کے تمام سونے چاندی سے بہتر ہے۔ (المحاسن)
واجبات
۱- نماز پنجگانہ باقاعدگی سے ادا کرنا بہتر ہے اول وقت میں ادا ہو مزید بہتر ہے‘باجماعت ہو۔
۲- بدن لباس اور ماحول کے اعتبار سے پاکیزہ رہنا۔
۳- رزق حلال کمانا خواہ زیادہ محنت کیوں نہ کرنا پڑے۔
۴- قابلِ زکوٰة اشیاء کی زکوٰة ادا کرنا۔
۵- سال گزرنے پر بڑی احتیاط سے خمس ادا کرنا اور صحیح مستحقین تک پہنچانا۔
۶- عقیدہ توحید مضبوط رکھنا‘ شرک فی الذات اور شرک فی الصفات سے لازمی طور پر بچنا۔
۷- فروغ دین میں مجتہد اعلم دوران کی تقلید کرنا جن میں کیوں (لِمَ) اور یعنی (اِن) کہنے کی اجازت نہیں۔
۸- روز مرہ مسائل شرعیہ سے واقفیت رکھنا۔
۹- ذریعہٴ معاش میں حلال و حرام کی تمیز رکھنا۔
۱۰- پانچ ارکان نماز اور چھے واجبات نماز کا علم ہونا واجب ہے۔
۱۱- پندرہ سال کا لڑکا نوسال کی لڑکی واجبات شرعیہ کا مکلف ہو جاتا ہے۔
۱۲- پنجگانہ نماز کے علاوہ دیگر واجب نمازوں کا اہتمام کرنا‘ مثلاً: نمازِ آیات‘ نماز میت‘ طواف واجب کی نماز‘ اجارہ‘ نذر‘ قسم‘ عید کی نمازیں واجب ہیں۔
۱۳- فطرہ عید کی شب سے ہی واجب ہو جاتا ہے۔
۱۴- مستطیع پر حج واجب ہے‘ ترک حج کفر سے تعبیرکیا گیا ہے۔
۱۵- واجب ہے چھوٹا بڑے کو سلام کرے اور سوار پیدل کو تاکہ تکبر نہ ہو سکے۔
۱۶- تقیہ واجب ہے کیونکہ یہ ردّ کبیرہ ہے۔
۱۷- السلام علیکم سننے کے بعد جواب دینا واجب ہو جاتا ہے۔
۱۸- اگر غیر عورت سامنے آجائے تو اس سے نظر بچانا واجب ہے۔
۱۹- مقدس کاغذات رستے میں پڑے ہوں تو اٹھا کر جائے ادب پر رکھنا۔
۲۰- داڑھی رکھنا اور مونچھوں کا کتروانا یا منڈوانا۔ حسب حال واجب ہے جب کہ داڑھی منڈوانا حرام میں شامل ہے۔
۲۱- واجب ہے کہ غسل کا پانی خالص پاکیزہ‘ جائز اور چھینا ہوا نہ ہو۔
۲۲- واجب ہے کہ انسان حلال کی روزی کمائے اور دوسروں کا دست نگر نہ ہو۔
۲۳- جو نمازیں قضا ہو جاتی ہیں ان کی ادائیگی بھی عمربھر واجب رہتی ہے۔
۲۴- سوچ سمجھ کر کام کرنا ضرورت پڑے تو نیک مخلص شخص سے مشورہ لینا۔
۲۵- اپنے آپ کو اچھے کاموں کی عادت ڈالنا۔
۲۶- حتی الوسع مومن کی عیب پوشی کرنا‘ درپردہ نصیحت کرنا۔
۲۷- صلہ رحمی کرنا۔
۲۸- امکان کی حد تک مومن کی حاجت برآری کرنا۔
۲۹- لوگوں کی اچھی صفات کا تذکرہ کرنا‘ چغلی سے بچنا۔
۳۰- خوش روئی سے پیش آنا‘ رعونت اور تکبر سے بچنا۔
محرمات
۱- نماز پنجگانہ کا تارک اور ترک عمد کا قائل مشرک ہوجاتا ہے جو محرمات کی ابتدا کرنے والوں میں بدرجہ اولیٰ شامل ہے اور مرتد ہے۔
۲- مسجد کو نجس کرنا حرام ہے۔
۳- رزق حلال کمانے والا قابلِ مذمت ہے اور اس کا محضر لائق اکل و شرب نہیں۔
۴- زکوٰة کو عمداً روکنا محرمات میں شامل ہے۔
۵- مال غیر مخمس سے حج حرام ہے اور لباس غصبی ہے۔
(محرمات سے بچنے کے لیے واجبات کا ادا کرنا ہر حال میں لازم ہے)
۶- بغیر کسی سخت مجبوری کے نماز توڑنا حرام ہے‘ احتیاط کریں۔ البتہ خطرہ جان ہو یا کسی نے آپ کا مال اٹھا لیا ہو اور وہ لے کر جانے والا ہو۔
۷- ایسی جگہ پر پیشاب و پاخانہ کرنا جہاں مالک نے سختی سے منع کر دیا ہو یا وقف مقامات پہ جہاں گندگی پھیلانا ممنوع ہو۔
۸- روبقبلہ یا پشت بقبلہ ہو کر رفع حاجت کے وقت بیٹھنا حرام ہے‘ گھروں میں باتھ روم بناتے وقت خاص خیال رکھیں۔
۱۰- باجماعت نماز سے نفرت اور اسے بے حقیقت سمجھنا حرام ہے۔ اس پر عدالت ساقط ہے۔
۱۱- دس قسم کے روزے رکھنا حرام ہیں مثلاً عیدین‘ چُپ وغیرہ۔
۱۲- غیرمحرم عورت کے چہرے‘ جسم وغیرہ کو غور سے دیکھنا حرام امور میں شامل ہے۔ صرف پہلی نظر پہچاننے کے لیے ہے۔ باقی نظریں ناجائز ہیں۔ بہتر ہے نظرمنتشر رہے۔
۱۳- لغو واہیات گانے سننا‘ غنا والی موسیقی گانا بجانا حرام ہے۔
۱۴- حج تمتع کے بعد طواف النساء نہ کیا تو بیوی حرام اور عورت پر مرد حرام ہوگا۔
۱۵- حج و عمرہ کے احرام میں فوت ہو تو کافور کا حنوط حرام ہے۔
۱۶- جھوٹی قسم کھانا حرام ہے۔ سود کا لین دین بھی حرام ہے۔
۱۷- خداوندعالم کے علاوہ کسی کے لیے سجدہ کرنا حرام ہے۔
۱۸- مرد کے لیے سونا پہننا (زنجیر‘ انگوٹھی‘ کڑی‘ چین) حرام ہے۔
۱۹- لاٹری کا کام مجموعی طور پر حرام ہے۔
۲۰- مشین کے ذریعے ذبح کرنا حرام ہے اور اس کا گوشت مردار ہے خواہ مسلمان ہی بٹن دبائے اور تکبیر بھی پڑھے۔
۲۱- مرد کے لیے ریشمی کپڑا پہننا حرام ہے کیونکہ جامہ حریر آتشِ جہنم میں لے جانے والا ہے۔
۲۲- مردوں کے لیے عورتوں کامخصوص لباس اور عورتوں کے واسطے مردوں کا لباس پہننا حرام ہے۔
۲۳- جس دسترخوان پر شراب پیش کی جائے وہ کھانا حرام ہے۔
۲۴- بلاسوچے سمجھے اپنے آپ کو سب کچھ سمجھنا اور ناحق ضد پر ڈٹے رہنا۔
۲۵- بُرے غلط اور خلافِ شریعت کاموں کا معمول بنا لینا۔
۲۶- مومن کی عیب جوئی کرنا اور معاشرے میں ساکھ خراب کرنا۔
۲۷- قطع رحمی کرنا۔
۲۸- اپنے آپ کو خواہ مخواہ بڑا سمجھ کر مومن سے گریز کرنا۔
۲۹- لوگوں کی تنقیص کرنا اور چغلی کے ذریعے بدصفتی کرنا۔
۳۰- تلخ کلامی کرنا وغیرہ۔
روزی بڑھتی ہے‘ رزق میں اضافہ ہوتا ہے اور علامت خوش بختی ہے
۱- سورج غروب ہونے سے پہلے چراغ روشن کر دیں اور صبح اجالا ہونے تک روشن رکھیں۔
۲- چار چیزیں دلیل خوش بختی ہیں: نیک سیرت بیوی‘ وسیع مکان‘ نیک لائق پڑوسی اور شائستہ سواری۔
۳- جس گھر میں تلاوت قرآن زیادہ ہوتی ہے‘ خیروخوبی بڑھتی ہے‘ گھر والوں کی آسودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ آسمان والوں کو اس گھر سے روشنی پہنچتی ہے۔
۴- مکان میں جھاڑو دینا‘ صاف ستھرا رکھنا‘ کوڑا جمع نہ ہونے دینا افلاس کو دُور کرتا ہے۔
۵- بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر کام شروع کرنا‘ پاکیزہ خیال رہنا‘ کام کی تکمیل کے لیے ان شاء اللہ کہنا‘ دسترخوان کے ریزے کھا لینا۔
۶- پاخانے میں باتیں نہ کرنا‘ مل کر کھانا‘ موذن کے کلمات دہرانا‘ طلب دنیا میں حریص نہ ہونا اور کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا۔
۷- جمع صلوٰتین کرنا‘ مغرب کے بعد عشاء کی نماز ساتھ ملانا‘ نماز کے بعد تعقیبات پڑھنا‘ روزی طلب کرنا اور سچ بولنا۔
۸- استغفار بہت پڑھنا ‘ روزانہ ۳۰ مرتبہ سبحان اللہ کہنا‘ خیانت نہ کرنا‘ عزیزوں سے نیکی کرنا‘ شکریہ ادا کرنا۔
اجازت عمل (المعروف)
۱- سبزہ زار دیکھیں‘ سیر کریں‘ لمبے سانس لیں کیونکہ آنکھوں کو طراوت‘ دل کو ٹھنڈک پہنچتی ہے۔ نیز غم و اندوہ دُور ہوتا ہے۔
۲- جو مجاہد کو عیال تک پہنچا دے گویا جہاد میں شریک تھا۔ ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ہے۔
۳- جومومن اپنی عزت اور مال حلال و پاکیزہ بچانے کی کوشش میں مارا جائے شہید شمار ہوگا۔
۴- گھڑسواری میں شرط جائز ہے بشرطیکہ وہ مال سبقت لے جانے والے کے لیے ہو۔ غیر کا شرط بدنا ناجائز ہے۔
۵- تیراندازی اور گھڑدوڑ پر بازی لگانے کی اجازت ہے مگر صرف وہی لوگ جو اس کام میں شریک ہیں۔
۶- جب رستہ بھول جائیں کہیں: اَبَا صَالِحُ اَغْثِنِی رستہ مل جائے گا‘ انشاء اللہ!
۷- طی الارض کے لیے حُدیٰ پڑھنا ایسے اشعار جن میں حرام اور کذب بیانی نہ ہو‘ اجازت ہے۔
۸- سفر کے دوران غذائی زادِ راہ رکھنے کی تاکید ہے تاکہ کھانے پینے کی تکلیف کا سامنا نہ ہو۔
۹- زمین فروخت کرنے کی اجازت ہے مگر اس کے بدلے جائداد خریدو ورنہ نقد رقم ضائع ہو جائے گی۔
۱۰- تجارت کرنے کی اجازت ہے مگر اس کے مسائل سے واقف ہونا ضروری ہے۔
۱۱- دولت کمانے پر کوئی پابندی نہیں۔ اجازت ہے بشرطیکہ اپنے واجبات سے غافل نہ ہو اور کسبِ حلال ہو۔
۱۲- قدرت رکھنے کے باوجود جو غصے کو قابو کرلے گا دنیا و آخرت میں عزت پائے گا۔
۱۳- سانپ مار دو جس نے سانپ مارا گویا کافر کو قتل کیا۔
۱۴- نماز کے دوران کوئی السلام علیکم کہہ دے تو تمھیں بھی صرف السلام علیکم کہنے کی اجازت ہے‘ بعدہ‘ نماز جاری رکھو۔
۱۵- تم میں وہ شخص بہترہے جو موقع محل پر تقیہ کرے۔
روزی گھٹتی ہے‘ رزق کم ہوتا ہے اور علامت سیاہ بختی ہے
۱- جان بوجھ کر زیادہ دیر تک ناپاک جسم کے ساتھ رہنا اور عمداً غسل نہ کرنا نیز اسی حالت میں کچھ کھانا پینا۔
۲- چار چیزیں دلیل بدبختی ہیں: بری عورت (بیوی)‘ تنگ مکان‘ نامعقول پڑوسی اور ناشائستہ سواری۔
۳- جس گھر میں کوئی مسلمان قرآن مجید نہیں پڑھتا۔ اس کی برکت کم ہو جاتی ہے۔ فرشتے اس سے دُور ہوتے ہیں اور شیاطین موجود ہونا شروع کر دیتے ہیں۔
۴- گھر کا کوڑا رات کو گھر میں رکھے رکھنا‘ مکڑی کا جالا بننے دینا باعث نحوست اور شومئی قسمت ہے۔
۵- چوکھٹ پر بیٹھنا‘ ریوڑ سے گزرنا‘ کھڑے شلوارپینٹ پایامہ پہننا اور کپڑوں سے ہاتھ منہ پونچھنا۔
۶- حمام میں پیشاب کرنا‘ کھڑے کنگھی کرنا‘ جھوٹی قسم کھانا‘ حریص دنیا ہونا اور رات سائل کو خالی پھیر دینا۔
۷- صبح صادق اور طلوع آفتاب کے درمیان سونا‘ مغرب و عشاء کے درمیان اور ضرورت سے زیادہ سونا۔
۸- بہت جھوٹ بولنا‘ راگ و راگنی سننا‘ آمدن سے زیادہ خرچ کرنا اور عزیزوں سے بدی کرنا۔
ممانعت (نہی عن المنکر)
۱- طوفان اور تلاطم کے وقت سفر دریا کی ممانعت ہے۔
۲- گالی دینے والے دکاندار سے سودا نہ خریدو کمینگی پیدا ہوتی ہے۔
۳- میوہ دار درخت کے نیچے اور رستے کے درمیان پیشاب کرنا۔
۴- کھڑے پانی میں پیشاب کرنا کیونکہ اس سے عقل جاتی رہتی ہے۔
۵- رات کا کھانا کھاکر بغیرہاتھ دھوئے سو جاناکیونکہ دیوانہ ہونے کا خدشہ ہے۔
۶- پائخانہ میں روبہ قبلہ اور پشت بہ قبلہ بیٹھنا۔
۷- عورتوں کا جنازے کے ساتھ جانا اور مصیبت کی حالت میں زیادہ چیخنا۔
۸- جھوٹے خواب بنانا‘ مجسمہ بنانا‘ مُورت بنانا اور ظلم سے عورت کا مہر روک لینا۔
۹- سودے کی خرید و فروخت میں مشتری اور بائع کے معاملہ میں مداخلت کرنا۔
۱۰- عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا۔ جن امور کی اجازت لے چکی ہے جانا درست ہے۔
۱۱- اس دسترخوان پر بیٹھنا جہاں شراب پی جاتی ہو‘ اور کھانے اور چائے پر پھونک مارنا۔
۱۲- سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا پینا۔ مرد کو سونا اور ریشم استعمال کرنا سخت ممانعت ہے۔
۱۳- سود کھانا‘ جھوٹی گواہی دینا‘ ظالم کی اعانت کرنا‘ لوگوں کے منہ پر تعریف کرنا اور مزدور کی مزدوری روکنا۔
۱۴- بحالت جنب مسجد میں بیٹھنا‘ خطبہ جمعہ کے دوران نمازیں پڑھنا اور یومِ شک کا روزہ رکھنا۔
۱۵- مومن کو حقیر سمجھنا‘ غیرمحرم عورت کودیکھتے رہنا‘ خیانت کرنا اور لوگوں کے عیب بیان کرنا۔
کتاب الدعا
فضیلت دعا
عبادتِ خداوندی ایک ریاضت ہے جس کا صلہ ذاتِ احدیت نے دعا کے ذریعے سے بندے تک پہنچانے کا اہتمام فرمایا ہے۔ خداوند تعالیٰ کو وہ عبادت پسند نہیں جس کی تکمیل پر قادر مطلق سے کچھ مانگا نہ جائے‘ لہٰذا دعا مانگنا ضروری ہے اور باعث خوشنودی خدا ہے۔
اس کی مثال یوں ہے کہ مزدوری کرنے کے بعد یعنی فریضہ عبودیت ادا کرنے کے بعد رحمت خداوندی کا طالب اس کا عبدصالح بن جاتا ہے اور اگر نہیں مانگتا تو اسے نخوت و رعونت میں شمار کیا جاتا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں جو اپنے رب کا محتاج نہ ہو۔ اس لیے لازم ہے کہ رب العالمین سے مانگا جائے اور مانگنے کا طریقہ صرف دعا ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: ارشاد ربانی ہے کہ جو لوگ میری عبادت میں تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے۔ پھر فرمایا: اس عبادت سے مراد دعا ہے۔ ھو الدعا افضل العبادہ۔
علی بن ابراہیم روایت کرتے ہیں زرارہ نے کہا: ابراہیم علیہ السلام اَوّاہٌ حلیم تھے‘ اس سے کیا مراد ہے؟
فرمایا: وہ بہت زیادہ دعا کرنے والے تھے۔
امام پنجم سے پوچھا گیا کون سی عبادت افضل ہے؟
فرمایا: اللہ کے نزدیک اس سے بڑی عبادت نہیں ہے کہ اُس سے سوال کیا جائے۔ خداکا دشمن وہ ہے جو دعا مانگنے میں تکبر کرتا ہے اور جو اللہ کے خزانوں میں ہے نہیں مانگتا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی میسربن عبدالعزیز سے فرمایا:
یامیسرُ انہ لیس من باب یقرعُ اِلاَّ یُوشِک ان یفتح لِصَاحِبہ
اے میسر جو دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا قریب ہے کہ وہ اس پر کھل جائے۔
کہا: ابو عبداللہ علیہ السلام نے فرمایا: امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اللہ کے نزدیک احسن عمل دعا ہے‘ اور افضل عبادت پاک دامنی ہے اور وہ خود سب سے زیادہ دعا کرنے والے تھے۔
دعا مومن کا ہتھیار ہے
فرمایا رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے:
الدعاءُ سلاحُ المومِن وعمودُالدین ونورُ السموات والارض
"دعا مومن کا ہتھیار ہے‘ دین کا ستون ہے نیز آسمانوں اور رفیق کا نور ہے"۔
بسااوقات انسان دشمنوں میں گھر جاتا ہے‘ مصائب و آلام یکے بعد دیگرے اُسے پریشان کر دیتے ہیں۔ مصیبتیں چاروں طرف منڈلا رہی ہوتی ہیں‘ اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مارنے کے لیے جی چاہتا اور کسی ہتھیار کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دشمن کا مقابلہ کرکے اُسے شکست فاش دی جائے اور خود منزل کامرانی تک پہنچنے کی سعی جمیل کی جائے‘ وہ ہتھیار جو اس گرانی‘ پریشانی اور تنگ دامانی میں کام آئے وہ دعا ہے۔
لازم ہے کہ صبح و شام اپنے رب قدیر کو پکارا جائے تاکہ رزق فراواں ہو اور ہمہ قسم کے دشمنوں سے بھی نجات ملے۔ بعض اصحاب نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا: دعا کیا ہے؟
فرمایا: انبیاء کا ہتھیار ہے تم بھی اپنے لیے لازم کرلو۔
عبداللہ بن سنان ابی عبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں: فرمایا : الدُّعا انفَذَ مِنَ السِّنان ۔
دُعا ردّ بلا ہے
فی زمانہ تقریباً ہر آدمی گرفتار بلا ہے۔ وہ کسی نہ کسی مصیبت میں ضرور مبتلا ہے‘ خواہ وہ پریشانی کاروبار کی ہو‘ اولاد کی طرف سے ہو‘ رشتہ داروں نے تنگ کر رکھا ہو یا پڑوسی وبالِ جان بنے ہوں‘ بہرحال بلاؤں کا جم غفیرہے جس نے بیچارے بنی نوع انسان کو چہار جہت سے محصور کر رکھا ہے۔ ایسی کیفیت میں چھٹے امام نے فرمایا: گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ دعا کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ دعا نازل ہونے والی بلا کو اس طرح توڑ دیتی ہے جیسے دھاگا توڑ دیا جاتا ہے۔ اگرچہ وہ مستحکم ہو۔ اسی زمرے میں چوتھے امام کا فرمام بھی ملتا ہے کہ روزِ قیامت تک بلا اور دعا ساتھ ساتھ ہیں لیکن دعا بلا کو ردّ کر دیتی ہے اگرچہ بلا کیسی ہی سخت ہو۔
فلسفہ دعا سمجھتے ہوئے اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ بلا ہمیشہ سخت ناگوار‘ ناپسندیدہ اور ناقابلِ قبول ہوتی ہے اور یہ مومن/مومنہ کے امتحان کے لیے یاشامت اعمال کا شاخسانہ بن کر آتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک قضا بھی ہے جو نازل ہو چکی ہوتی ہے یا نازل ہونے والی ہے۔ بہرحال دونوں (بلا و قضا)سخت ہیں اور ان کا مقابلہ بڑے صبروتحمل اور ضبط و نظم کے ساتھ کرنا ہوتا ہے۔ ان حالات میں معصومین نے ہمارے لیے کچھ ہدایات بطور مشعل راہ چھوڑی ہیں۔ فرمایا کہ اکثر دعا کیا کرو کیونکہ وہ ہر رحمت کی کنجی ہے اور نجات کا ایک ذریعہ ہے۔ خزانہ خدا سے تب ہی ملے گا جب مانگو گے اور مانگنے کا انداز سوائے دعا کے نہیں ہے۔ دستور زمانہ ہے جب دروازہ کھٹکھٹاؤ گے تب ہی کھلے گا۔ پس دعا سے رب کریم کے ہاں دروازہ ہائے حاجات وا ہوتے ہیں اور رحمن و رحیم کا دَر ایسا دَر ہے جس دروازے سے کوئی خالی ہاتھ نہیں جانتا۔
ہمارے لیے بڑی بات ہے کہ ہم ارشادات آئمہ کے مطابق مانگنا سیکھ جائیں اور وہ الحمدللہ دعا کے توسل سے ہے۔ اس سلسلہ میں امام موسٰی کاظم علیہ السلام نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے جسے ابی ولاد نے ہمارے تک پہنچایا ہے۔ فرمایا امام الہدیٰ نے:"دعا کو اپنے لیے لازم قرار دو اور اللہ سے طلب کرو کیونکہ یہ طلب بلا کو رد کرتی ہے اگرچہ وہ مقدر ہو چکی ہو اور صرف جاری ہونا باقی ہو"۔ فرمایا جب اللہ سے دعا کی جائے گی اور عاجزی و انکساری سے سوال کیا جائے گا تو بلا رد کر دی جائے گی اور قضا بحکم خدا ٹل جائے گی۔
دعا شفائے مرض ہے
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے عزیز ترین صحابی کمیل ابن زیاد کو جو دعا تعلیم فرمائی تھی اس میں دعا کا ذکر نہایت ارفع و اعلیٰ ہے اور اسی نام کے ساتھ پھر شفاء کو بھی منطبق کر دیا ہے۔ فرمایا‘ یوں پڑھو:
اِسمُہ دَواءٌ وذِکرُہ شِفَاءٌ۔
"اللہ کی یاد بطور عبادت دوا بھی ہے اور شفا بھی تو جس کا نام لینا شفا ہے"۔ اس کے حضور گڑگڑا کر دعا کرنا کس قدر افراط شفاء کا موجب ہوگا۔
علابن کامل نے امام ششم کے الفاظ علی بن ابراہیم کے ذریعے سے ہم تک یوں پہنچائے ہیں:
قَالَ لِی ابوعبداللّٰہ عَلَیکَ بِالدِّعَاءِ فَاِنّہ شِفَآءُ مِن کُلِّ دَاءٍ
"دعا کرتے رہا کرو کیونکہ وہ ہر درد کی دوا ہے"۔
دُعا میں تقدم
اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان مصائب و آلام سے گھبرا کر مبہوت ہو جاتا ہے اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کرے‘ ایسے میں اس کے دل میں خیال آتا ہے دعا کر کے دیکھیں شاید بلا ٹل جائے‘ دراصل مصلحت ایزدی سے ایک اشارہ ہوتا ہے کہ میرے بندے دعا مانگ لے‘ جب نزول بلا کا خوف ہو تو گھبرایئے نہیں بلکہ کہیے اللہ ربی‘ اللہ ربی اور پھر دعا کی تیاری کیجیے۔ فرمایا‘ امام صادق نے:
مَن تخوّف من بلاء یصیبہ فتقدم فیہ بالدعاء لم یرہ اللّٰہ عزَّوجّلَ ذٰلِکَ البَلاء ابدَاً
جس کو نزول بلا کا خوف ہو اس صورت میں اسے پہلے دعا کرنی چاہیے اللہ اُسے کبھی اس بلا کی صورت نہ دکھائے گا۔
ان حالات میں انسان کے لیے ضروری ہے کہ راحت کے وقت زحمت کے متوقع مکافات کی دعا مانگا کرے‘ ہو سکتا ہے اس بلا کا نزول نہ ہو اور آئندہ لمحات میں آسودہ رہے۔
دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ دعا کرنے والا خدا کے شاکر بندوں میں شمار ہوگا۔
رب العزت اسے نگاہ التفات سے دیکھے گا کیونکہ اس نے آسودگی میں آلودگی کو مدنظر رکھا ہے۔ دعا کے ساتھ اپنے خالق حقیقی کو یاد کرتا رہا ہے اور آنے والی مصیبتوں سے اپنے آپ کو اپنی عاجزی اور انکساری سے بچا لیا ہے۔ اس زمرے میں خصوصی طور پر یاد رکھنا ہوگا کہ اپنی دعا پر یقین کامل ہونا مساعد حالات میں بھی دعا کو فراموش نہ کرے اور اس اطمینانِ قلب کے ساتھ انے تیقن کو مستحکم رکھے کہ وہ یقینا باب اجابت تک پہنچے گی۔
نیت دُعاء
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کیا دعا کے لیے نیت ضروری ہے؟
فرمایا: ہاں‘ کیونکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔
اس دعا سے قبل نیت ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے دعا قبول ہی نہ ہو‘ جس کی نیت نہ کی جائے۔ ایسی دعا بھی رد کی جاتی ہے جس میں کامل توجہ نہ ہو یا صرف دکھاوے کے لیے ہاتھ اٹھائے گئے ہوں۔
صادق آل محمد نے امیرالمومنین علی علیہ السلام سے روایت کی کہ بے پروا دل کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ پھر فرمایا: اگر کسی مردہ کے لیے دعا کرے تو ایسے دل سے نہ کرے جو مردہ کی طرف توجہ نہ ہو بلکہ کوشش کرے دعا میں نیت بھی شامل ہو کہ فلاں مرحوم یا مرحومہ کے لیے دعا کر رہا ہوں۔ یہ بھی ذہن میں محفوظ رہے کہ سخت دل کی دعا قبول نہیں ہوتی۔
دعا میں الحاح و زاری
عن ابی جعفر قال لا واللّٰہِ لَا یُلِحُّ عبدُ علی اللّٰہِ عزَّوجلَّ الا استجَابَ اللّٰہُ لَہ
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے جب بندہ خدا سے الحاح و زاری کرتا ہے تو خدا اس کی دعا قبول کرتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ دعا کے آخر پر یہ آیت پڑھی:
آیت ؟؟؟
"اے رب میری دعا ہے کہ میں سختی اٹھانے والا نہ بنوں"۔
مطلب واضح ہے کہ دعا مانگنے کی سختی جھیلوں پھر اس میں عاجزی و انکساری نہ کروں اور جب دعا مستجاب نہ ہو تو اپنے آپ کو سخت و سست کہوں کیوں نہ پہلے ہی اپنے قادر مطلق کے سامنے الحاح و زاری کروں۔ اپنی دعا قبول ہونے سے فیض یاب ہوں اور کوفت تھکاوٹ شکوہ و شکایت کی جملہ سختیوں اور صعوبتوں سے بچ جاؤں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری حاجات کو جانتا ہے کیونکہ وہ سمیع وبصیر ہے مگر اپنی تمناؤں اور آرزؤں کو زبان پر لانا ضروری ہے:
اِنَّ اللّٰہَ عزَّوجَلَّ یَعلمُ حَاجتکَ وَمَا تریدُ وَلٰکِنَّ یُحِبُّ اَن ثُبتَ اِلَیہِ الحَوائِج
قبولیتِ دُعا کے اوقات
معصومین کے فرامین کے مطابق ان اوقات اور لمحات میں دعا قبول ہوتی ہے: ہواؤں کے چلتے وقت‘ سایہ ڈھلتے وقت‘ بارش کے وقت‘ وقت نمازِ فجر‘ ظہر‘ مغرب‘ قرأت قرآن کے وقت‘ وقتِ اذان‘ مومن کی شہادت کے وقت‘ جس وقت دل نرم ہو اور وقت سحر کچھ کیفیات ایسی ہیں جوذات احدیت کو بہت پسند ہیں مثلاً رو کر دُعا مانگنا‘ تنہائی میں آہ و زاری کرنا‘ صمیم قلب اور نرم دلی سے دُعا مانگنا اور اللہ پر مکمل توکل رکھ کے دعا طلب کرنا وغیرہ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
اذا اقشعر جلدک ودمعت عیانک فدُونک دُونک فقد قصد قصدُک
جب خوفِ خدا سے تیرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں اور تیری آنکھوں سے آنسو آجائیں پس مقصد تیرا قریب ہے اور ارادہ پورا ہے۔
امام نے ایک خاص اشارہ فرمایا ہے جب نصف رات گزر جائے باقی کے اول نصف کا چھٹا حصہ استعجاب دُعا کاوقت ہے۔
انداز دُعاء
دُعا مانگنے کا ایک طریقہ ہے جو آئمہ معصومین نے ہمیں تعلیم فرمایا اس میں خداوندمتعال کی حمدوثنا ہے۔ پھر رسول پاک کی ذات گرامی پر درود ہے اور بعدازاں طلب دعا ہے۔ ایک روایت میں فرمایا:
الثناء ثم لا عترافُ بالذنب
اول‘ خدا کی حمدوثنا بیان کرو‘ پھر اپنے گناہ کا اعتراف کرو‘ تمہاری دعا مستجاب ہوجائے گی۔
ایک اور روایت میں جو امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے اندازِ دعا کو یوں ترتیب دیا ہے‘ فرمایا:
اِذَا ارَدْتَ اَن تَدعُوا فمَجِّدَ اللّٰہ عزَّوجَلِّ وَاحمَدہُ وَسَبِّحہُ وَھلِّلہُ وَامَن عَلَیہِ وَصَلِّ عَلٰی مُحَمّدٍ النَّبِی وَالٰہ
جب تم دعا کرنا چاہو تو خدا کی تمجید اور تحمید‘ تسبیح و تہلیل کرو‘ اس کی ثنا کرو پھر محمدوآل محمد پر درود بھیجو۔
یہ وہ طریقہ ہے جس سے مراد ملتی ہے‘ دعا مستجاب ہوتی ہے اور سوال پورا ہوتا ہے کیونکہ جب کسی سے حاجت بیان کرنا ہوتی ہے تو عرضداشت پیش کرنے سے پہلے اس سے متعلق کچھ کلمات خیر کہنے ہوتے ہیں۔
مل کر دعا کرنے میں اجابت دعا کا ایک پہلو مضمر ہے‘ ہو سکتا ہے ان میں کوئی مقرب الٰہی ہو اور اس کی وساطت سے سب کا بھلا ہوجائے۔
روایت میں ملتا ہے اگر چار آدمی کسی امر پر اتفاق کر کے خدا سے دعا طلب کریں تو ان کے متفرق ہونے سے پہلے خدا دعا قبول کر لیتا ہے۔ اسی طرح جماعتی انداز میں عورتوں اور بچوں کی دعا قبول ہوتی ہے۔ ایک دعا کرے اور دوسرے آمین کہیں تو سب دعا میں شامل ہو جاتے ہیں اور اجتماعی دعا خدا کو بہت پسند ہے۔ آمین کہنے والے مطمئن رہیں کیونکہ وہ تمام دعا اور اجر میں برابر کے شریک ہیں۔
دعا کے مستجاب ہونے میں ایک امر سرفہرست ہے… پاک کمائی یعنی رزقِ حلال!
تاخیر فی قبول الدعاء
بسااوقات دعا قبول ہونے میں تاخیر ہوجاتی ہے اور انسان گھبرا جاتا ہے کہ میرا کام نہیں بن رہا۔ یہ ایک امتحان ہوتا ہے جس میں معبود اپنے عبد کی آواز زیادہ دیر تک سننا چاہتا ہے اور اس کی انکساری کے جواب میں اُسے مانگے سے زیادہ عطا کرتا ہے۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک دعا تین سال بعد مستجاب ہوئی تھی۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کے عروج اور فرعونِ مصر کے زوال کے درمیان ۴۰ سال کا فرق ہے۔ امام زمانہ کے ظہور میں تعجیل کے لیے مومنین صدیوں سے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ مگر مصلحت ایزدی کے سامنے ہم بے بس ہیں۔لہٰذا دعا میں اگر تاخیر ہو جائے اور مقصد برآری نہ ہوسکے تو پریشان اور شاکی ہونے کی ضرورت نہیں۔ اپنی آزمائش میں پورا اترنے کے لیے کوشاں رہو۔
ایک صحابی نے امام ششم سے پوچھا کہ مولا! ایسا کیوں ہوتا ہے؟
فرمایا: اس لیے کہ دعا کرنے والا زیادہ دعا کرے اور دیر تک اپنی تضرع اور زاری درگاہ احدیت تک پہنچاتا رہے اور پھر اجرِعظیم کا سزاوار ہو۔
صادق آل محمد علیہ السلام سے نہایت خوبصورت کلمات وارد ہیں‘ فرمایا:
روزِ قیامت خدا ہاتف غیبی سے اپنے ایک بندے کو مخاطب فرمائے گا:
"میرے پاس تیری دعا محفوظ ہے۔ میں نے اس کی اجابت میں تاخیر کی اب تیرا ثواب اتنا اتنا ہے۔ اس وقت مومن وہ مقدار ثواب دیکھ کر کہے گا اچھا ہوا میری دعا قبول نہ ہوئی اور آج میں اس قدر اجر سے مثاب ہوا"۔
اس سلسلے میں مومنین کو مخزون و مغموم نہیں ہونا چاہیے کیونکہ دعا کو قبول کرنے کا اختیار قادر مطلق کوہے۔ اگر وہ اپنے بندے کے لیے مفید سمجھتا ہے تو دعا جلدی قبول کر لیتا ہے اور اگر اس کا ظرف اس وقت متحمل ہونے کی تاب نہیں لاسکتا تو رب العزت حسب موقع دعا کوموٴخر کر دیتا ہے مگر اس تاخیر کے ساتھ اجر میں ایک خاص اضافہ کر دیتا ہے۔ پھر بھی دعا نذرِ التواء ہو جائے تو حسرت بن جاتی ہے اور حسرتوں کا ثوابِ عظیم انسان کے نامہٴ اعمال میں بہت بڑا سرمایہ بن جاتاہے۔
دُعا اور درُود
دعا کی قبولیت کے لیے درود بہترین وسیلہ ہے کیونکہ جب اول و آخر محمد وآل محمد پر درود بھیجا جائے گا‘ ساتھ ہی درمیان میں اپنی استدعا بارگاہِ ایزدی میں ارسال کر دی جائے گی تو یقینا مستجاب ہوگی۔
صادق آل محمد نے فرمایا: دعا درود کے ساتھ بھیجو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ رکی رہے۔
دعا مع درود دنیا و آخرت کی بہتری کے لیے کافی ہے۔ نیز فرشتے بھی محمدوآل محمد پر درود بھیجتے ہیں اور اس بندے کے حق میں ہوتے ہیں جومصروفِ صلوٰة ہے اور اپنی دعا کا بھی طلب گار ہے۔ درود کی اس لیے بھی تاکید کی گئی ہے کہ اس کے پڑھنے والے کی دعا ردّ نہیں ہوتی۔ جب درود قبول ہے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ جو دعا درمیان میں ہے اسے ساقط کر دیا جائے لہٰذادونوں جانب کا درود موجب استعجاب دعائے بندہ مومن/مومنہ ہے تکلیف بے جا نہیں ہے۔
تعجیل برائے قبولیت
دعا کو جلد یا تاخیر کے ساتھ قبول کرنا قادر مطلق مالک کُن فَیَکُون سے متعلق ہے۔ مگر کچھ وسائل ایسے ہیں جو مسائل کو جلدی سے حل کرانے میں ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
اوشَکُ دَعوةٍ واَسرعَ اجَابَةٍ دُعاء المَرءِ لِاَخِیہِ بِظَہرِ الغَیبِ
جلد قبول ہونے والی دعا وہ ہے جو پوشیدہ طور پر برادر مومن کے لیے کی جائے اس میں ریا کا شائبہ نہیں ہوتا۔
جب ایک مومن دوسرے مومن کے لیے دعا کرتا ہے حالانکہ وہ سامنے نہیں ہوتا‘ فرمان خداوندی ہوتا ہے کہ تو نے برادر مومن کے لیے مجھ سے مانگا ہے اس کا دوگنا تیرے لیے ہے چونکہ تجھے اپنے بھائی سے الفت ہے۔ ساتھ ہی جو سوال تو نے کیا ہے اُسے بھی پورا کیا جاتا ہے۔ غائبانہ دعا کرنے کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ روزِ قیامت وہ اشخاص ہمدردی کے طور پر اُس کی سفارش کریں گے جن کے لیے آپ دعا کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز شب میں مومنین کے لیے دعائے مغفرت کی جاتی ہے۔
قبولیت دُعا
کچھ اشخاص اللہ کے ہاں اس قدر تقرب حاصل کر چکے ہیں کہ ان کی دعا قبول ہوتی ہے:
۱- حج پر جانے والے کی دعا‘ خدا کی راہ میں جاہدکرنے والا اور مریض جب کمزور‘ دوسروں کے رحم و کرم پر ہو۔
۲- امام عادل کی دعا‘ مظلوم جس پر ظلم روا رکھا گیا ہو‘ نیک اولاد کی دعا والدین کے حق میں۔
۳- چالیس مومنین کومقدم رکھنے سے دعا قبول ہوتی ہے۔ والد کی دعا بیٹے کے حق میں اور عمرہ کرنے والے کی واپسی تک۔
دعا قبول نہیں ہوتی
۱- جسے اللہ مال دے اور وہ سرمائے کو غیرمستحق امور میں خرچ کر دے پھر اللہ سے مانگے کہ مجھے رزق دے اس کی دعاقبول نہیں ہوتی۔
۲- جو اپنی بیوی کے لیے دعا کرے کہ وہ مر جائے۔
۳- جو پڑوسی کے لیے بددعا کرے قبول نہ ہوگی۔
۴- جو اپنے گھر میں بیٹھا اور کہے خداوندا مجھے روزی دے۔
۵- جو بغیر گواہ کے کسی کو قرض دے اور جب مانگے تو مایوس ہو۔
۶- جو میانہ روی اختیار نہ کرے اور اپنی دولت کو ضائع کرنے کے بعد دعا کرے‘ قبول نہ ہوگی۔
اورادِ دُعا
فرمایا‘ امام جعفرصادق علیہ السلام نے جو ایک سانس بھر یارب‘ یارب‘ یارب‘ یااللہ‘ یااللہ کہے اس سے کہا جائے گا بیان کر تیری حاجت کیا ہے۔
جو دس بار یااللہ یااللہ کہے اس سے کہا جائے گا لبیک تیری حاجت کیا ہے۔
جب کوئی دعا کرے اور بعددعا کہے: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰہِ۔ تو خدا فرماتا ہے میرے بندے نے اقرار ضرور کیا ہے اور اپنا معاملہ میرے امرکے تابع کر دیا ہے۔ پس اے ملائکہ اس کی حاجت بر لانے کے اسباب میں نے مہیا کردیے۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا جو کوئی بعدفریضہ نماز اپنے زانو بدلنے سے پہلے یہ کلمات تین بار کہے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ بخش دیتا ہے۔ اگرچہ وہ کفِ دریا کے مثل ہوں:
اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ الْحَیِّ القَیُومُ وَاتُوبُ اِلَیْہِ
جو فریضہ نماز کے بعد تین مرتبہ کہے جو سوال کرے پورا ہوگا مداومت شرط ہے۔
یَامن یَّفعَلُ مَا یَشاءُ وَلَا یَفْعَلُ مَا یَشاءُ اَحَدُ غَیرہُ
اکسیرالدُعا
امیرالمومنین علیہ علیہ السلام نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا: تمھیں ایسی دعا دیتا ہوں کہ جب تم کسی مہلکہ یا بلاء میں مبتلا ہو تو کہو:
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰہِ العَلِیِّ العَظِیْم
اللہ تبارک وتعالیٰ ہر قسم کی بلا تم سے ہٹا دے گا۔ اس طرح دعا مانگو مستجاب ہوگی۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ بِجَلاکَ وَجَمالِکَ وَکَرَمِکَ اَن تَفعَلْ بِی
اہمیت دعا
جو شخص معرفت خدا کا طلب گار ہو اور چاہتا ہو کہ میری چھٹی حِس بیدار ہو جائے اس کے لیے دعا ایک بہترین وسیلہ ہے۔
الدّعا مخ العبادة "دعا عبادتوں کا مغز ہے"۔
بلکہ دعا خود ایک عبادت ہے۔ اگر کوئی شخص اظہارِ عبودیت کے بعد دعا نہیں مانگتا تو اس کا مطلب ہے وہ اپنے اجر سے دستبردار ہوگیا۔ ہو سکتا ہے دعا سے منحرف ہونے والے کو متکبرین میں شامل کر دیا جائے کیونکہ خدائے رحیم و کریم سے طلب نہیں کرنا چاہتا یہی امر عبد کے لیے موزوں نہیں ہے بلکہ نامناسب ہے۔
دعا فی القرآن
سورة الزمر‘ آیت ۸۔ الروم آیت ۳۳‘ حم السجدہ آیت ۵۱ تین مقامات پر ایک مفہوم کے ساتھ ذکر فرمایا:
"جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے توپروردگار کو پکارتا ہے اور رجوع کر کے دعا مانگتا ہے"۔
سورہ نمل (۶۲) میں قرآن مقدس نے سوالیہ انداز میں پوچھ لیا ہے:
"کون ہے جو مضطر کی دعا قبول کرتا ہے جس وقت وہ پکارے اور وہی خدا مصیبت کو دُور کر دیتا ہے"۔
دعا نہ مانگنے والے کی تکسیر بیان کرتے ہوئے سورہ مومن (۱۴) میں فرمایا:
"پس تم اس کے لیے عبادت کو خالص کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو پکارو اور اس سے ہی دعا مانگو اگرچہ کافروں کو بُرا لگے"۔
انسان کی بے اعتنائی کا ذکر کرتے ہوئے سورہ یونس میں ارشاد ہوتا ہے:
"اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو لیٹا اور بیٹا اور کھڑا ہمیں پکارتا ہے۔ پھر جب ہم اس کی تکلیف کو دُور کر دیتے ہیں تو ایسا بے پروابن جاتا ہے گویا اس نے کسی تکلیف میں ہمیں پکارا ہی نہ تھا"۔
اس مقام پر کلامِ پاک نے ہمارا شکوہ کیا ہے کہ انسان کیسا عجیب ہے‘ گڑگڑا کے مانگتا ہے اور جب مطلب پورا ہوجاتا ہے توبے رخی اختیار کر لیتا ہے۔ شاید سمجھتا ہے میں نے خود ہی وسائل مہیا کر لیے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ قادرِ مطلق مسبب الاسباب ہے جو وسیلہ بہم پہنچاتا ہے اور بلا ردّ ہوجاتی ہے۔
پارہ نمبر ۲۴‘ سورة مومن آیت ۶۰ کی وضاحت کو اگر غور سے پڑھ لیا جائے تو آنکھیں کھل جائیں گی:
"اور تمھارے پروردگار نے کہا کہ مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں انھیں ذلت کی زندگی کے ساتھ جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا"۔
ان آیات کی روشنی میں ضروری ہے کہ بندہ اپنے خالق سے مانگتا رہے‘ نعمتیں ملنے پر شکر ادا کرتا رہے اور جملہ آفات و بلیات سے محفوظ رہے۔ ہر دعا کرنے والا اپنے ذہن میں راسخ کر لے کہ دعا کے لغوی معنی بلانے اور پکارنے کے ہیں اورنظریہ معرفت میں علامہ اقبال نے کہا:
"وہ جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے وہ ہم سے اور ہماری دنیا سے بے تعلق نہیں۔ ہم جو کچھ کہتے ہیں اُسی سے کہتے ہیں وہ کہتا ہے مجھ ہی سے دعا کرو میں تمہاری دعا سنتا ہوں اور اس کا جواب دیتا ہوں۔ فی الحقیقت زندگی کیا ہے…؟ ایک مسلسل دعا ہے۔
(بحوالہ اقبال کے حضور‘ اقبال اکادمی پاکستان)
تمام انبیاء علیہم السلام خدا کے تصور کے مبلغ تھے‘ جب وہ پوری کائنات پر محیط ہے اور ذرے ذرے کا علم رکھتا ہے‘ سمیع وبصیر ہے تو پھر بے تعلق نہیں رہ سکتا۔ بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور قبول کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تورات‘ انجیل‘ زبور اور قرآن مجید میں انبیاء کی دعائیں موجود ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میدانِ بدر میں دعا مانگی:
اللھم انجزنی ما وعدتنی اللھم انشرک عھدک ووعدک
"اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اُسے پورا فرما‘ اے اللہ! میں تیرے عہد اور تیرے وعدے کا سوال کرتا ہوں"۔
یہ اتنی صمیم قلب سے نکلی ہوئی دعا تھی کہ جنگ کے اختتام سے پہلے ہی یقین کامل کے ساتھ اپنی پیش گوئی بھی فرما دی۔
سَیُھْزَمُ الجَمْعُ وَیُولَّونَ الدُّبُرَ (القمر:۴۵)
"عنقریب یہ جتھہ شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے گا"۔
میدانِ اُحد میں جب صرف نو صحابہ کی ذرا جتنی نفری کے ہمراہ پیچھے تشریف فرما تھے صحیح مسلم کی روایت یہی کہتی ہے کہ آپ بار بار کہہ رہے تھے‘ دعائیہ کلمات یوں تھے:
رب اغفر لقومی فانھم لا یعلمون - اللھم اھد قومی فانھم لا یعلمون
اے میرے رب میری قوم کو بخش/ہدایت دے وہ نہیں جانتی (میری معرفت نہیں ہے)
Prof. William James, An American Psychologist: "It seems probable that in spite of all that science may do to the contrary, men will continue to pray to the end of time, unless their mental nature changes in a manner".
علامہ اقبال کی دانست کے مطابق : دعا ایک حیاتی عمل ہے جس میں ہم دفعتاً محسوس کرتے ہیں کہ ہماری بے نام سی شخصیت کی جگہ بھی ایک بہت بڑی اور وسیع تر زندگی میں ہے لہٰذا دعا خواہ انفرادی ہو‘ خواہ ہماری بے نام سی شخصیت کی جگہ بھی ایک بہت بڑی اور وسیع تر زندگی میں ہے لہٰذا دعا خواہ انفرادی ہو خواہ اجتماعی‘ ضمیر انسانی کی اس نہایت درجہ پوشیدہ آرزو کی ترجمان ہے کہ کائنات میں وہ اپنی پکار کی آواز سنتا ہے۔ جب بندہ اللہ کے اسمائے حسنہ سے اسے پکارتا ہے اس کی شانِ ربوبیت کے تصور سے سرشار ہوکر اس کا شکرگزار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس بندے کو یاد کرتاہے۔
فاذکرونی اذکرکم واشکرولی ولا تکفرون (البقرہ:۱۵۲)
"تم مجھے یاد رکھو میں تمھیں یاد رکھوں گا اور شکرگزار بنو اور میری ناشکری نہ کرو"۔
نماز ایک جامع دعا ہے۔ عربی میں صلوٰة فی الحقیقت دعا کے معنی میں مستعمل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاقمِ الصَّلٰوةَ لِذِکْرِیْ (طٰہٰ:۱۴)
مجھے یاد کرنے کے لیے نماز قائم کرو۔
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر‘ اٹھتے ہیں حجاب آخر
قرآن مقدس نے سورة البقرہ کی آیت نمبر۱۸۶ میں فلسفہ و دعا کی بہت عمدہ توضیح کی ہے:
"اور جب تم سے میرے بارے پوچھیں تو میں بے شک قریب ہی ہوں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں۔ جب وہ مجھے پکارتا ہے پس چاہیے کہ وہ مجھے جواب دیں/ میرا حکم مانیں/ میری ندا سنیں اور یقین رکھیں مجھ پر تاکہ وہ راہِ راست پالیں"۔
امیرالمومنین علی علیہ السلام نے دعا کا فلسفہ ایک پُراثرانداز میں پیش کیا ہے جو صمیم قلب پر جاکر منتج ہوتا ہے۔
شہید محراب آیت اللہ العظمیٰ سید عبدالحسین دستغیب نے اپنی کتاب "برزخ" میں حضرت علی علیہ السلام کی فریاد لکھی ہے جو آپ نصف شب میں عبادت کے وقت خداوندعالم سے امان چاہتے ہوئے مناجات فرماتے تھے۔
الٰھی اسئلک الا مان یوم لا ینفع مال ولا بنون الامین اتی اللّٰہ بقلب سلیم
"اے خدا تجھ سے روزِ قیامت امان طلب کرتا ہوں۔ وہ دن جب کہ مال و آل کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا مگر اُن لوگوں کو جنہیں اللہ نے قلبِ سلیم عطا فرمایاہے"۔
مکان میں داخل ہونے کی دعا
بِسمِ اللّٰہِ وَبِاللّٰہِ وَاشَھدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ وَحدَہ لَا شَرِیْکَ لَہ وَاشھد اَنَّ مُحَمدًا عبدُہ وَرسُولُہ
گھر سے نکلنے کی دعا
بِسمِ اللّٰہِ اٰمنتُ باللّٰہِ وَتوکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ مَاشَاءَ اللّٰہُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰہِ
نیند سے بیدار ہوتے وقت کلمہ طیبہ مکمل خلیفة بلافصل تک پڑھے اور خدا کا شکر ادا کرے۔
سلام بھی دعا ہے
جب کسی سے ملو‘ کہو السلامُ علیکم۔ اگر دوسرا کہے تو جواب میں کہو وعلیکم السلام۔ یاد رکھیے صرف ہاتھ ہلا دینا یا اشارہ کر دینا سلام نہیں ہے۔ اسی طرح سلام لیکم کہنا بھی غلط ہے یا صرف سلام کہہ دینا بھی ناکافی ہے۔ اگر غیرمسلم سلام کرے یا سلام کہے تو انھیں لفظوں میں لوٹا دیں کافی ہے یا صرف یہ کہہ دیں وعلیکم۔
جب سواری پر بیٹھے
سُبحَانَ الَّذِی سَخرلنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہ مقرنین
"قابل تسبیح ہے وہ اللہ جس نے اس سواری کو ہمارا مطیع کر دیا حالانکہ اسے قابو میں لانے کی طاقت ہم میں نہ تھی"۔
کشتی یا جہاز پر بیٹھے تو دعا پڑھے
بِسمِ اللّٰہِ مجریھا ومرسھا ط ان ربی لغفور الرحیم
واپسی پر شکراً للّٰہِ کہو۔
دعائے اولاد
اگر اولاد نہ ہوتی ہو تو پڑھے:
۱- رب لا تذرنی فردًا وانت خیرالوارثین
۲- رب ھب لی من لدنک ذرَّیةً طیبةً انک سمیع الدعا
۳- اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّی وَاتُوبُ اِلَیْہِ
ایک تسبیح روزانہ پڑھے یقینا اولاد ہوگی۔
مشکلات کے حل کے لیے بہترین دعا
بِسمِ اللّٰہ الرَّحمٰنَ الرَّحیم - وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰہِ العَلِیِّ العَظِیْم وَصلِّ عَلٰی مُحَمّد والِہ الطیِّبین
نظربد سے بچنے کے لیے
قرآن پاک کی آخری دو سورتیں الفلق اور الناس پڑھا کرے۔
ناد علی بہترین دعا اور ردّ بلا ہے۔
وَقَالَ رَبُّکُم اَدْعُونِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ (سورہ المومن ۶۰)
|