﴿چھبیسواں امر﴾امام جعفر صادق (ع) سے منقول ہے کہ بچے کے ختنے کے وقت یہ دعا پڑھی جائے اگر اس وقت نہ پڑھی جاسکے تو لڑکے کے بالغ ہونے تک جب بھی موقع ملے دعا پڑھی جائے کہ اس طرح گرم لوہے سے مرنے اور اس سے پہنچنے والی دوسری تکلیفوں سے محفوظ رہتا ہے وہ دعا یہ ہے:

اَللّٰہُمَّ ہذِہِ سُنَّتُکَ وَسُنَّةُ نَبِیِّکَ صَلَواتُکَ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَاتِّباعٌ مِنَّا لَکَ وَلِنَبِیِّکَ

اے معبود یہ تیرا طریقہ ہے اورتیرے نبی کی سنت ہے تیری رحمت ہو ان پر اور ان کی آل (ع) پر ہماری طرف سے تیری اور تیرے نبی کی

بِمَشِیئَتِکَ وَبِإِرادَتِکَ وَقَضائِکَ اَمْرٍ أَرَدْتَہُ وَقَضاءٍ حَتَمْتَہُ وَأَمْرٍ أَنْفَذْتَہُ وَأَذَقْتَہُ حَرَّ

اتباع ہے تیری مشیت اور تیرے ارادے اور تیر احکم بجا لانے کے لئے جس کا تو نے ارادہ کیا فیصلے کو یقینی بنایا اور حکم جاری کردیا

الْحَدِیدِ فِی خِتانِہِ وَحِجامَتِہِ بِأَمْرٍ أَنْتَ أَعْرَفُ بِہِ مِنِّی اَللّٰہُمَّ فَطَہِّرْہُ مِنَ الذُّنُوبِ وَزِدْ فِی 

اور اس سے لوہے کی کاٹ اورزخم کی اذیت کا ذائقہ چکھایااس حکم سے جسے تو مجھ سے زیادہ پہچانتاہے اے معبود پس اسے گناہوں سے پاک کر اس

عُمْرِہِ وَادْفَع الْأَفاتِ عَنْ بَدَنِہِ وَالْاَوْجاعَ عَنْ جِسْمِہِ وَزِدْہُ مِنَ الْغِنَیٰ وَادْفَعْ عَنْہُ الْفَقْرَ،

کی عمر میں اضافہ فرما اس کے بدن سے آفتیں اور دکھ درد دورکردے اس کو زیادہ مال عطا کر اور محتاجی کو اس سے دور رکھ کہ یقینا تو

فَإِنَّکَ تَعْلَمُ وَلاَ نَعْلَمُ۔

جانتا ہے اور ہم نہیں جانتے۔

﴿ستائیسواں امر﴾ سید ابن طاؤس نے خطیب مستغفری کی کتاب ”دعوات“ اور اس نے رسول الله سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا جب تم کتاب الله سے فال لینا چاہو تو تین مرتبہ سورہ توحید پڑھو اور اس کے بعد محمد وآل(ع) محمد پر تین مرتبہ درود بھیجو اس کے بعد یہ کہو:

اَللّٰہُمَّ إِنِّی تَفَأَّلْتُ بِکِتابِکَ وَتَوَکَّلْتُ عَلَیْکَ فَأَرِنِی مِنْ کِتابِکَ مَا ہُوَ مَکْتُومٌ مِنْ

اے معبود میں تیری کتاب سے فال لے رہا ہوں تجھی پر میرا بھروسہ ہے پس مجھے اپنی کتاب میں سے وہ چیز دکھا جو پوشیدہ ہے تیرے چھپے

سِرِّکَ الْمَکْنُونِ فِی غَیْبِکَ۔

ہوئے راز سے تیرے پردہ غیب میں ۔

          اس کے بعد کہ قرآن جامع کہ جس میں تمام سورتیں اور آیتیں ہوں اسے ہاتھ میں لے کر کھولو پھر صفحہ و سطر شمار کیے بغیرداہنی طرف کی پہلی سطر سے فال لو۔یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ علامہ مجلسی نے بعض علماء کی تالیفات میں شیخ یوسف قطیفی کے خط سے اور انہوں نے آیة الله علامہ کے خط سے نقل کیا ہے کہ امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا جب تم کتاب عزیز (قرآن)سے استخارہ کرنے کا ارادہ کرو تو بسم الله الرحمن الرحیم کے بعد یہ کہو:

إِنْ کانَ فِی قَضائِکَ وَقَدَرِکَ أَنْ تَمُنَّ عَلَی شِیعَةِ آلِ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِمُ اَلسَّلَامُ بِفَرَجِ وَلِیِّکَ

الہی اگر تیرے حکم اور فیصلے میں یہ بات ہے کہ شیعیان آل (ع) محمد پر احسان فرمائے کشائش دے کر اپنے ولی اور اپنی حجت پر جو تیری

وَحُجَّتِکَ عَلَی خَلْقِکَ فَأَخْرِجْ إِلَیْنا آیَةً مِنْ کِتابِکَ نَسْتَدِلُّ بِہا عَلَی ذلِکَ۔

مخلوق کے لئے ہے تو ظاہر فرما ہم پر ایسی آیت اپنی کتاب سے جو اس پر ہماری دلیل بن جائے۔

           پھر قرآن مجید کھولے اورو ہاں سے چھ صفحے شمار کرے پس ساتویں صفحے کی سطر پر نظر کرے اور اس سے مطلب اخذ کرے۔شیخ شہید (علیہ الرحمہ)نے اپنی کتاب ذکریٰ میں فرمایا ہے کہ استخاروں میں سے ایک استخارہ عدد ہے جو سید کبیر رضی الدین محمد بن محمدآلاوی مجاور روضہ امیر المؤمنین (ع) سے قبل مشہور نہ تھا ہم اس استخارے کو تمام روایتوں کے ساتھ اپنے مشائخ میں سے شیخ کبیر فاضل جمال الدین بن مطہر سے اور وہ اپنے واالد سے، وہ سید رضی الدین مذکور سے اور وہ حضرت صاحب العصر (ع)سے روایت کرتے ہیں کہ سورہ فاتحہ دس مرتبہ اس سے کم تین مرتبہ اور کم ازکم ایک مرتبہ اور پھر سورہ قدر دس مرتبہ پڑھے اور اس کے بعد تین مرتبہ یہ دعا پڑھے:

اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْتَخِیرُکَ لِعِلْمِکَ بِعاقِبَةِ الْاَُمُورِ وَأَسْتَشِیرُکَ لِحُسْنِ ظَنِّی بِکَ فِی الْمَأْمُولِ

اے معبود میں تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں کہ تو معاملوں کے انجام کو جانتا ہے تجھ سے مشورہ کرتا ہوں کہ امیدوں اور خطروں میں تجھ ہی سے

وَالْمحْذُورِ۔ اَللّٰہُمَّ إِنْ کانَ الْاََمْرُ الْفُلانِیّ مِمَّا نِیطَتْ بِالْبَرَکَةِ أَعْجازُہُ وَبَوادِیہِ وَحُفَّتْ

حسن ظن ہے اے معبود فلاں کام ان کاموں میں سے ہے کہ جن کے انجام میں برکت ہے اور آغاز میں بھی

بِالْکَرامَةِ أَیَّامُہُ وَلَیالِیہِ فَخِرْلِی اَللّٰہُمَّ فِیہِ خِیَرَةً تَرُدُّ شَمُوسَہُ ذَلُولاً وَتَقْعَضُ أَیَّامَہُ سُرُوراً

اور اس کے دن رات نفع سے بھر پورہیں تو اے معبود تو میرے لئے اس خیر کو اختیار کرجس سے سرکش مطیع ہو جائے اور دن خوشیوں سے بھر جائیں

اَللّٰہُمَّ إِمَّا أَمْرٌ فَأْتَمِرُ وَإِمَّا نَہْیٌ فَأَنْتَہِی اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْتَخِیرُکَ بِرَحْمَتِکَ خِیَرَةً فِی عافِیَةٍ۔

اے معبود اگر کرنے کا حکم ہے تو کروں اور نہیں ہے تو رکا رہوں اے معبود میں تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں تیری رحمت سے ایسی خیر جس میں آرام ہو۔

           پھر تسبیح کے کچھ دانے مٹھی میں لے کر اپنی حاجت دل میں لائے اگر مٹھی میں لئے ہوئے دانوں کی تعداد جفت ہے تو یہ ”افعل “(اس کام کے کرنے کا حکم) اور طاق ہے تو یہ ”لا تفعل“(اس کام کے بجانہ لانے کا حکم )ہے یا اس کے برعکس کہ طاق بہتر ہے اور جفت بہتر نہیں ‘یہ استخارہ کرنے والوں کی نیت سے وابستہ ہے ۔مؤلف کہتے ہیں ”تقعض“ضاد معجمہ کے ساتھ ہے جس کے معنی ہیں لوٹ جائے پلٹ جائے اور ہم نے نمازوں کے باب میں استخارہ ذات الرقاع اور دیگر اقسام کے استخاروں کاذکر کیا ہے لہذا انکی طرف رجوع کیا جائے جانناچاہیے کہ سید ابن طاؤس(علیہ الرحمہ) فرماتے ہیں ان کاخلاصہ کلام یہ ہے کہ مجھے اس بار ے میں کوئی صریح حدیث نہیں ملی کہ انسان کسی اور کیلئے بھی استخارہ کرسکتا ہے؟ لیکن مجھے ایسی بہت سی احادیث میں یہ بات ضرور نظر آتی ہے کہ دعاؤں اور توسل کے دیگر ذریعوں کے ساتھ اپنے مؤمن بھائیوں کی حاجات پوری کرنے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ روایات میں تو مؤمن بھائیوں کیلئے دعاکرنے کے اتنے فوائد بیان ہوئے ہیں کہ جن کے دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے چونکہ استخارے کا شمار بھی دعاؤں اور حاجتوں میں ہے اور جب کوئی شخص کسی سے استخارہ کرنے کو کہتا ہے تو گویااس کے سامنے اپنی حاجت پیش کر رہا ہوتا ہے اور جو استخارہ کرتا ہے وہ در حقیقت اپنے لئے استخارہ کرتا ہے تاکہ اسے بتائے آیا اس میں مصلحت ہے کہ اس سے کہے یہ کام کرو یا نہ کرو وہ اسے بتانا چاہتا ہے کہ اس کام کے کرنے میں مصلحت ہے یا اس کے نہ کرنے میں مصلحت ہے پس اس بات کا تعلق استخاروں اور حاجتوں کے پورا کرنے کے ضمن میں نقل شدہ روایات سے ہے کہ علامہ مجلسی (علیہ الرحمہ)کا ارشاد ہے کہ سید کا کلام دوسروں کے لئے استخارہ کرنے کے جواز میں قوت سے خالی نہیں ہے کیونکہ اس کا تعلق عوامی ضرورتوں سے ہے خصوصا اس صورت میں جب استخارہ کرانے والے کا نائب اس چیز کا قصد کرے کہ وہ اس شخص کا نائب بن کر کہہ رہا ہے کہ اس کام کو انجام دو یا انجام نہ دو ۔جیسا کہ سید(علیہ الرحمہ)نے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے یہ استخارے کو خاص روایات و اخبار کے تحت لانے کا ایک ذریعہ ہے تاہم زیادہ احتیاط اور زیادہ بہتری اسی میں ہے کہ صاحب حاجت اپنے لئے خود استخارہ کرے کیونکہ ہمیں کوئی ایسی روایت نہیں ملی کہ جس میں استخارہ میں وکالت کو جائز قرار دیا گیا ہو اگر یہ عمل جائز یا قابل ترجیح ہوتا تو آئمہ (ع) کے اصحاب ان حضرات(ع) سے اس بارہ میں ضرور پوچھتے اور اگر پوچھا گیا ہوتا تو ضرور ہم تک یہ بات پہنچ جاتی اور کم ازکم ایک ہی ایسی روایت مل جاتی ہے ماسوائے اس کے کہ مضطر اور پریشان حال قبولیت دعا کے سلسلے میں فوقیت رکھتے ہیں کیونکہ ان کی دعا خلوص نیت سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔

﴿اٹھائیسواں امر﴾ حضرت رسول الله ﷺ نے فرمایاجو شخص کسی یہودی یا عیسائی مجوسی کو دیکھے وہ یہ دعاپڑھے تو الله تعالی اسے اور اس کافر کو جہنم میں اکٹھے نہیں کرے گا۔

الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی فَضَّلَنِی عَلَیْکَ بِالْاِسْلامِ دِیناً وَبِالْقُرْآنِ کِتاباً وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیّاً وَبِعَلِیٍّ

حمد ہے الله کے لئے جس نے مجھے تجھ پر فضیلت دی دین اسلام کے ساتھ کتاب قرآن کے ساتھ پیغمبرمحمد کے ساتھ علی (ع)ایسے امام(ع)

إِماما،ً وَبِالْمُؤْمِنِینَ إِخْوانا وَبِالْکَعْبَةِ قِبْلَةً ۔

کے ساتھ مومنوں کی برادری کے ساتھ اور کعبہ ایسے قبلہ کے ساتھ۔

          مؤلف کہتے ہیں بہت سی آیات وروایات کے ذریعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کے ساتھ محبت اور مشابہت پیدا نہ کریں اور نہ ہی ان کی روش کو اپنائیں الله تعالیٰ نے فرمایا۔

قَدْ کَانَ لَکُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِی إِبْرَاہِیمَ وَالَّذِینَ مَعَہُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِہِمْ إِنَّا بُرَأٰٓؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا 

 ضرور تمہارے لیے ابراہیم(ع) اور ان کے ساتھیوں کے کردار میں بہترین نمونہ عمل ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم لوگوں سے بری ہیں

تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ وَبَدَا بَیْنَنا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَداً۔

اور خدا کے علاوہ جن کی تم عبادت کرتے ہو اور ہمارے تمہارے درمیان ہمیشہ کی عداوت اور دشمنی ظاہر ہو چکی ہے۔

          شیخ صدوق (علیہ الرحمہ)نے امام جعفر صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ ایک نبی (ع)کی طرف یہ وحی آئی کہ اے نبی مومنوں سے کہہ دو کہ میرے دشمنوں کا جیسا لباس نہ پہنو میرے دشمنوں جیسی خوراک نہ کھاؤ اور میرے دشمنوں کی روش پر نہ چلو ورنہ تم لوگ بھی میرے دشمن تصور کیے جاؤ گے جیسے وہ میرے دشمن ہیں اسی وجہ سے بہت سی روایتوں میں مذکور ہے کہ فلاں عمل کو بجا لاؤاور خود کو کفار کے مشا بہ نہ کرومثلا وہ روایت جو حضرت رسول الله سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا مونچھیں منڈواؤ اور داڑھی بڑھاؤ بس خود کو یہود ونصاری کے مشابہ نہ بناؤ کیونکہ نصاری اپنی داڑھیوں کو منڈواتے ہیں اور مونچھوں کو بڑھاتے ہیں جب کہ ہم داڑھی کو بڑھاتے اور مونچھوں کو کٹواتے ہیں چنانچہ جب حضرت رسول الله ﷺ کے تبلیغی مکتوب مختلف ملکوں کے بادشاہوں کو موصول ہوئے تو کسریٰ (شاہ ایران)نے یمن میں اپنے گورنرباذان کو حکم بھیجا کہ وہ آنحضرت کو اس کے پاس روانہ کردے تب اس نے اپنے کاتب ۔بانویہ۔ اور ایک دوسرے شخص ۔خر۔خسک۔ کو مدینہ روانہ کیا ان دونوں نے داڑھیاں منڈوائی اور مونچھیں بڑھائی ہوئی تھیں ان کی یہ حالت آنحضرت کو نہایت ناگوار گزری اور آپ نے انہیں دیکھنا بھی گوارا نہ کیا آپنے ان سے فرمایا: افسوس ہے تم پر کس نے تمہیں ایسا کرنے کا حکم دیا؟ انہوں نے کہا ہمارے رب یعنی کسریٰ نے اس پر آپ نے فرمایا لیکن میرے رب (پروردگار) نے مجھے داڑھی رکھنے اور مونچھیں کاٹنے کاحکم دیا ہے نیز یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ الله تعالی نے سورہ ہود میں فرمایا۔

وَلا تَرْکَنُوا إِلَی الَّذیِنَ ظَلَمُوا َتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ أَوْلِیَاءَ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُونَ۔

ظالموں کی طرف میلان پیدا نہ کرو ورنہ جہنم کی آگ تمہیں لپیٹ میں لے گی اور خدا کے علاوہ تمہارا کوئی مدد گار نہ ہوگااور پھر تمہاری مدد نہ کی جائے گی

 اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کا کہنا ہے کہ ظالموں کی طرف تھوڑا ساجھکاؤبھی پیدا نہ کرو چہ جا ئیکہ بہت سارا جھکاؤ پیدا کیا جائے کیونکہ اس سے جہنم کی آگ تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گی بعض مفسرین کا قول ہے کہ جس قسم کے جھکاؤ سے روکا گیا ہے وہ ظالموں کے ظلم میں شریک ہونا ان کاموں میں راضی اور ان سے محبت کااظہار کرنا ہے روایات اہل بیت (ع)میں وارد ہے کہ ۔رکون۔ سے مرادان کے ساتھ محبت کرنا‘ان کی خیر خواہی اور ان کی اطاعت کرنا ہے :

﴿انتیسواں امر﴾ وہ انیس کلمات ہیں دعا مانگنے والے کی مصیبتوں کے دور ہونے کا سبب بنتے ہیں ‘یہ کلمات حضرت رسول نے امیر المؤمنین(ع) کو تعلیم فرمائے اور شیخ صدوق (علیہ الرحمہ) نے انہیں اپنی کتاب الخصال کے انیسویں باب میں ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہیں۔

یَا عِمادَ مَنْ لاَ عِمادَ لَہُ وَیَا ذُخْرَ مَنْ لاَ ذُخْرَلَہُ وَیَا سَنَدَ مَنْ لا اَسَنَدَ لَہُ وَیَا حِرْزَ مَنْ لاَ حِرْزَ

اے اس کے سہارے ‘جس کا کوئی سہارا نہیں اے اس کی پونچی جس کی کوئی پونجی نہیں اے اسکے آسرے جس کا کوئی آسرا نہیں اے اس کی

لَہُ وَیَا غِیاثَ مَنْ لاَ غِیاثَ لَہُ وَیَا کَرِیمَ الْعَفْوِ وَیَا حَسَنَ الْبَلاءِ وَیَا عَظِیمَ الرَّجاءِ وَیَا عِزَّ

پناہ جس کی کوئی پناہ نہیں اے اس کے فریاد رس جس کا کوئی فریاد رس نہیں اے خوب معاف کرنے والے اے بہتر آزمائش کرنے والیاے بڑے

الضُّعَفاءِ،وَیَا مُنْقِذَ الْغَرْقَیٰ وَیَا مُنْجِیَ الْہَلْکَیٰ یَامُحْسِنُ یَا مُجْمِلُ یَا مُنْعِمُ یَا مُفْضِلُ أَنْتَ الَّذِی

 امید دلانے والے اے کمزوروں کی عزت اے ڈوبتوں کو بچانے والے اے ہلاکتوں سے بچانے والے احسان کرنے والے اے خوش رفتار اے

سَجَدَ لَکَ سَوادُ اللَّیْلِ وَنُورُ النَّہارِ، وَضَوْءُ الْقَمَرِ وَشُعاعُ الشَّمْسِ وَدَوِیُّ الْماءِ وَحَفِیفُ الشَّجَرِ

نعمت دینے والے اے عطا کرنے والے تو وہ ہے جسے سجدہ کرتے ہیں رات کی سیاہی دن کی روشنی ،چاند کی چاندنی، سورج کی شعاعیں، پانی کی لہریں اور

یَااللهُ یَا الله یَا اللهُ أَنْتَ وَحْدَکَ لاَ شَرِیکَ لَکَ۔

 درختوں کی حرکت یا الله یا الله یا الله تو ہی یکتا ہے تیرا کوئی شریک نہیں ہے

پھر کہیں

اَللّٰہُمَّ افْعَلْ بِی کَذاوَکَذا۔

 اے معبود میری یہ اور یہ حاجت پوری فرما۔

          دعا میں کذا کذا کی بجائے اپنی حاجات بیان کرے ابھی وہ شخض اپنی جگہ سے اٹھا نہ ہو گا کہ دعا قبول ہو چکی ہوگی انشاء الله:

﴿تیسواں امر﴾شیخ کفعمی نے مفاتیح الغیب سے نقل کیا ہے کہ جو شخص اپنے گھر کے دروازے پر لفظ”بسم الله“ لکھے وہ ہلاکتوں سے محفوظ رہے گاخواہ وہ کافر ہی ۔ہو کہا جاتا ہے کہ الله تعالی نے فرعون کو اس لئے جلد ہلاک نہیں کیا اور اس کے دعویٰ ربوبیت کے باوجود اسے مہلت دی کہ اس نے اپنے محل کے بیرونی دروازے پر ”بسم الله“ لکھی ہوئی تھی جب حضرت موسیٰٰ (ع) نے اس کی ہلاکت کے لئے دعا کی تو الله تعالی نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ اے موسی (ع)تم اس کے محل کو دیکھ رہے ہو اور میں اس کے دروازے پر نوشتے کو دیکھ رہا ہوں

﴿اکتیسواں امر﴾ شیخ ابن فہد نے روایت کی ہے کہ ایک روز ابو درداء کو بتایاگیا کہ تمہارا گھر جل گیا ہے اس نے کہا وہ نہیں جلا پھر ایک شخص نے بھی آکر یہی کہا اور اس نے وہی جواب دیا۔پھر ایک تیسرا شخص آیااور اس نے بھی گھر جلنے کی خبر دی لیکن ابو درداء نے وہی جواب دیا بعد میں معلوم ہوا کہ اس کے گھر کے اطراف میں سب گھر جل چکے تھے لیکن اس کا گھر محفوظ رہ گیا تھا لوگوں نے پوچھا تمہیں کہاں سے پتہ چلا کہ تمہاراگھر نہیں جلا؟ اس نے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے حضرت رسول الله سے سنا ہے کہ جو شخص صبح کے وقت یہ دعا پڑھے گا تو دن میں اس کا اور اگر شام کو پڑھے گا تو رات کو اس کا کوئی نقصان نہیں ہو گااور میں آج صبح کو یہ دعا پڑھ چکا تھا:

اَللّٰہُمَّ أَنْتَ رَبِّی لاإِلہَ إِلاَّ أَنْتَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ وَلاَحَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ 

 اے معبود تو میرا رب ہے نہیں کوئی معبود مگر تو ہے میں تجھ پربھروسہ کرتا ہوں توعظمت والے عرش کا مالک ہے نہیں ہے

إِلاَّبِاللهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ مَا شاءَ اَللهُ کانَ وَما لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُنْ أَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ

 طاقت وقوت مگر جو بلند و بزرگ خدا سے ہے خدا جو چاہے ہو جاتا ہے اور جووہ نہ چاہے نہیں ہوتا میں جانتا ہوں کہ الله ہر چیز پر قادر ہے

وَأَنَّ اللهَ أَحاطَ بِکُلِّ شَیْءٍ عِلْماً اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِی وَمِنْ شَرِّ قَضاءِ السُّوءِ،

اور یقینا الله کے علم نے ہر چیز کو گھیرا ہوا ہے اے معبود میں تیری پناہ لیتا ہوں اپنے نفس کے شر سے ہر بری شی کے شر سے

وَمِنْ شَرِّ کُلِّ ذِی شَرٍّ، وَمِنْ شَرِّ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ دابَّةٍ أَنْتَ آخِذٌ بِناصِیَتِہا 

ہر شریر کے شر سے جنوں اور انسانوں کے شر سے اور ہرحیوان کے شر سے کہ جس کی مہار تیرے ہاتھ میں ہے

إِنَّ رَبِّی عَلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ۔

یقینا میرا رب سیدھے راستے پر ملتا ہے ۔

﴿بتیسواں امر﴾شیخ کلینی (علیہ الرحمہ)اور دیگر بزرگان نے امام جعفر صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ آپ (ع)نے زرارہ کو یہ دعا تعلیم فرمائی کہ ہمارے شیعہ امام العصر (ع) کی غیبت میں اور پھر ان کی کشائش کے وقت یہ دعا پڑھا کریں:

اَللّٰہُمَّ عَرِّفْنِی نَفْسَکَ فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی نَفْسَکَ لَمْ أَعْرِفْ نَبِیَّکَ اَللّٰہُمَّ عَرِّفْنِی

اے معبود تو مجھے اپنی معرفت عطا کر کہ یقینا اگر تو نے مجھے اپنی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کو نہ پہچان پاؤ نگا اے معبود مجھے اپنے رسول کی

رَسُولَکَ، فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی رَسُولَکَ لَمْ أَعْرِفْ حُجَّتَک اَللّٰہُمَّ عَرِّفْنِی حُجَّتَکَ

 معرفت عطاکر کہ یقینا اگر تو نے مجھے اپنے رسول کی معرفت نہ کرائی تو میں تیری حجت (ع)کو نہ پہچان پاؤنگا اے معبود مجھے اپنی حجت کی معرفت

فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی حُجَّتَکَ ضَلَلْتُ عَنْ دِینِی۔

عطا کر کہ اگر تو نے مجھے اپنی حجت کی پہچان نہ کرائی تو میں اپنے دین سے گمرا ہ ہو جاؤں گا۔

﴿تینتیسواں امر﴾کتاب:عدة الداعی میں ہے کہ امیر المؤمنین(ع) سے روایت ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص سونے کا ارادہ کرے تو اپنادایاں ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھے اور یہ کہے:

بِسْمِ اللهِ وَضَعْتُ جَنْبِی لِلّٰہِ، عَلَی مِلَّةِ إِبْراہِیمَ وَدِینِ مُحَمَّدٍ صلی الله علیہ وآلہ وسلم وَ

الله کے نام سے میں نے اپنا پہلو الله کے لئے رکھ دیا ہے ملت ابراہیم اور حضرت محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے دین پر

وِلایَةِ مَنِ افْتَرَضاللهُ طاعَتَہُ مَا شَاءَ اللهُ کانَ وَما لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُنْ۔

 اور ان کی ولایت پرجن کی اطاعت الله نے واجب ٹھہرائی ہے جو الله چاہے ہو جاتا ہے اور جو وہ نہ چاہے نہیں ہوتا۔

          پس جو شخص سوتے وقت اس دعا کو پڑھے الله تعالی اسے چور ڈاکو اور چھت تلے دبنے سے محفوظ رکھے گااور فرشتے اس کے لئے مغفرت طلب کریں گے۔

﴿چونتیسواں امر﴾        کتاب عدة الداعی میں ہے کہ ہر وہ چیز جو پوشیدہ طور پر استعمال کیلئے رکھی گئی ہے اس پر سورہ قدر کاپڑھنااسے ہر طرح سے محفوظ رکھتا ہے اور یہ بات آنجناب ہی سے روایت ہوئی ہے:

﴿پینتیسواں امر﴾حضرت امیر المؤمنین(ع) سے منقول ہے کہ جوشخص قرآن مجید میں سے کوئی سی سو آیات پڑھے پھر سات مرتبہ یا الله کہے تو اگر وہ یہ عمل کسی پتھر پر بھی کرے گاتو اسے حق تعالی توڑ دے گا۔

﴿چھیتسواں امر﴾حضرت امیرالمومنین(ع) ہی سے منقول ہے کہ جو شخص سوتے وقت تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے گا تو الله تعالیٰ اس کی حفاظت کے لیے پچاس ہزار فرشتے بھیجے گا جو رات بھر اس کی پاسبانی کرتے رہیں گے۔ امام جعفر صادق (ع) سے مروی ہے کہ جس شخص پر پورا دن گزر جائے اور وہ اپنی کسی بھی نماز میں سورہ اخلاص نہ پڑھے تو قیامت میں اس سے کہا جائے گا کہ اے بندے! تو نمازگذاروں میں سے نہیں تھا انہی جناب سے منقول ہے کہ جو شخص سات دنوں میں سورہ اخلاص (ایک مرتبہ بھی) نہ پڑھے اور مرجائے تو وہ ابولہب کے دین پر مرے گا۔ آپ(ع) ہی سے روایت ہے کہ جو شخص کسی مرض یا کسی مصیبت میں مبتلا ہو اور اس وقت سورہ اخلاص نہ پڑھے تو وہ اہل جہنم سے ہوگا۔

﴿ سینتیسواں امر﴾عدة الداعی میں منقول ہے کہ اس تعویذ کو لکھ کر خربوزہ، خیار اور دوسری فصلوں کے لیے لٹکائے تو وہ کیڑے مکوڑوں اور جانوروں سے محفوظ رہیں گی اس کی کیفیت یہ ہے کہ اسے کپڑے کے چار ٹکڑوں پر لکھے اور لکڑی کے ساتھ باندھ کر کھیت کے چاروں کونوں پر نصب کر دے وہ تعویذ یہ ہے:

أَیُّہَا الْدُوْذُ أَیُّہَا الدَّوابُّ وَالْہَوامُّ وَالْحَیْواناتُ اخْرُجُوا مِنْ ہذِہِ الْاَرْضِ وَالزَّرْعِ إِلَی 

اے کیڑے مکوڑو! اے جانوروں چرندو! اے جاندارو! اس زمین اور اس کھیت سے نکل کر ویرانے میں چلے جاؤ

الْخَرابِ کَما خَرَجَ ابْنُ مَتَّ مِنْ بَطْنِ الْحُوتِ فَإِنْ لَمْ تَخْرُجُو أَرْسَلْتُ عَلَیْکُمْ شُواظاً

جیسے یونس ابن متیٰ مچھلی کے پیٹ سے نکلے تھے پس اگر تم پر نہ نکلے تو میں پر آگ اور تابنے

مِنْ نارٍ وَنُحاسٍ فَلا تَنْتَصِرانِ أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ خَرَجُوا مِنْ دِیارِہِمْ وَہُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ

کے شعلے بھیجوں گا پھر تمہاری مدد نہیں کی جائے گی آیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو گھروں سے نکلے ہزاروں کی تعداد میں موت سے ڈر کے تو

فَقالَ لُہُمُ اللهُ مُوتُوا فَماتُوا اخْرُج مِنْہا فَإِنَّکَ رَجِیمٌ، فَخَرَجَ مِنْہا خائِفاً یَتَرَقَّبُ سُبْحانَ

الله نے ان سے فرمایا کہ مرجاؤپس وہ مرگئے تم یہاں سے نکل جاؤ کیونکہ تم راندہ درگاہ ہو ۔ تو وہ وہاں سے ڈرتا ہوا نکلا پاک ہے وہ الله

الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِنَ الْمَسْجِدالْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِد الْاَقْصَی کَأَنَّہُمْ یَوْم یَرَوْنَہا

جس نے اپنے بندے کو راتوں رات سیر کرائی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک گویا جس دن وہ اسے دیکھیں گے تو نہیں ٹھہریں

لَمْ یَلْبَثُوا إِلاَّ عَشِیَّةً أَوْ ضُحَاہَا فَأَخْرَجْناہُمْ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ کَرِیمٍ، وَنَعْمَةٍ

گے مگر شام یا ظہر تک پس ہم نے نکالا ان کو باغوں چشموں کھیتوں حویلیوں اور نعمتوں سے جن

کانُوا فِیہا فاکِہِینَ۔ فَما بَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّماءُ وَالْاَرْضُ وَما کانُوا مُنْظَرِینَ اُخْرُجْ مِنْہا 

میں وہ خوش تھے تو نہ ان پر آسمان رویا اور نہ زمین اور نہ ان کو مہلت ملی تو یہاں سے نکل

فَما یَکُونُ لَکَ أَنْ تَتَکَبَّر فِیہا فَاخْرُجْ إِنَّکَ مِنَ الصَّاغِرِینَ اخْرُجْ مِنْہا مَذْؤُوما مَدْحُوراً

جا تجھے یہ حق نہیں کہ اس میں تکبر کیا کرے پس نکل جا کہ تو پست لوگوں میں سے ہے اس جگہ سے نکل جا بدحال و مردود ہوکر

فَلَنَأ ْتِیَنَّہُمْ بِجُنُودٍ لاَ قِبَلَ لَہُمْ وَلَنُخْرِجَنَّہُمْ مِنْہا أَذِلَّةً وَہُمْ صاغِرُونَ۔

پس ہم ان پر وہ لشکر لائیں گے جن کا سامنا کر سکیں اور ضرور ہم انہیں وہاں سے ذلیل و خوار کر کے نکالیں گے۔

﴿اڑتیسواں امر﴾سید ابن طاؤس(علیہ الرحمہ) نے امام جعفر صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ جو شخص ایسی حالت میں صبح کرے کہ اس کے دائیں ہاتھ میں عقیق کی انگوٹھی ہو تو وہ کسی اور چیز کی طرف نظر کرنے سے پہلے انگوٹھی کے نگینے کو ہتھیلی کی طرف پھیرے اور اس پر نگاہ رکھ کر سورہ قدر کو پڑھے اور اس کے بعد کہے:

آمَنْتُ بِاللهِ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ وَکَفَرْتُ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَآمَنْتُ بِسِرِّ آلِ مُحَمَّدٍ

میں ایمان رکھتا ہوں الله پر جو یکتا ہے کوئی اس کاشریک نہیں انکار کرتا ہوں بت اور طاغوت کا ایمان رکھتا ہوںآ ل(ع) محمد کے

وَعَلانِیَتِہِمْ وَظاہِرِہِمْ وَباطِنِہِمْ وَأَوَّلِہِمْ وَآخِرِہِمْ۔

نہاں و عیاں پر ان کے ظاہر پراور ان کے باطن پر ان کے اول پر اوران کے آخری پر۔

          پس جو شخص یہ عمل کرے گا تو خدائے تعالیٰ اس دن کی شام تک آسمان سے اتر نے والی چیزوں اور آسمان کی طرف جانے والی چیزوں، زمین میں داخل ہونے والی چیزوں اور زمین سے نکلنے والی چیزوں کے شر سے محفوظ رکھے گا اور خدا اور دوستان خدا کی حفاظت میں رہے گا ۔

﴿انتالیسواں امر﴾          شیخ کفعمی(علیہ الرحمہ) نے کتاب جمع الشتات سے امام جعفر صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: جب تم ہماری کوئی حدیث بیان کرنا چاہتے ہو ،لیکن شیطان تمہیں اس میں بھلا دیتا ہے ۔ پس اپنا ہاتھ اپنی پیشانی پر رکھو اور یہ کہو:

صَلَّی اللهُ عَلَی مُحَمَّدٍوَآلِہِ اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ یَا مُذَکِّرَ الْخَیْرِ وَفاعِلَہُ وَالْاَمِرَ بِہِ ذَکِّرْنِی

خدا رحمت کرے محمد اور ان کی آل(ع) پراے معبود! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ اے خیر کو یاد دلانے اس پر عمل کرنے والے اور اس کا حکم دینے

مَا أَنْسانِیہِ الشَّیْطانُ من لا یحضرہ۔

والے مجھے یاد دلا جو شیطان نے مجھے بھلا دیا ۔

          ۔ نیز کتاب ”مَنْ لَا یَحضرہ الفقیہ“ میں امام جعفر صادق (ع) سے منقول ہے جو شخص نماز میں بہت زیادہ بھولتا ہو تو اسے چاہیئے کہ جب بیت الخلاء میں جائے تویہ دعا پڑھے:

بِسْمِ اللهِ أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الرِّجْسِ النَّجِسِ الْخَبِیثِ الْمُخْبِث الشَّیْطانِ الرَّجِیمِ۔

خدا کے نام سے خدا کی پناہ لیتا ہوں پلید نجس خبیث آلودہ کرنے والے راندے ہوئے شیطان سے۔

          مولف کہتے ہیں جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا حافظہ زیادہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ وہ مسوا ک کرے ، روزہ رکھے ، قرآن کی اور خاص کر آیت الکرسی کی تلاوت کرے، ناشتے میں کشمش خصوصاً سرخ کشمش کے اکیس دانے پابندی سے کھائے ۔ یہ چیز فہم حافظہ اور ذہن کے لیے بہت ہی مفید ہے ۔ اسی طرح حلوہ ، جانور کی گردن کے قریب کا گوشت ، شہد اور مسور کا کھانا بھی ترقی حافظہ کا موجب ہوتا ہے یہ بھی منقول ہے کہ تجربہ شدہ دواؤں میں سے ایک یہ ہے کہ کندر، سعد اور شکر مساوی مقدار میں لے کر آہستہ آہستہ کوٹ کر سفوف بنالیا جائے اور اسے پانچ درہم کی مقدار میں ہر روز کھائے ۔ لیکن اس طرح کہ لگا تار تین دن کھائے اور پانچ دن کا ناغہ کرے ۔ نیز صبح کی نماز کے بعد کسی سے بات کیے بغیر یہ کہے:

یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ،فَلا یَفُوتُ شَیْئاً عِلْمُہُ وَلاَ یَؤُدُہ۔

اے زندہ! اے پایندہ! جس کے علم سے کوئی چیز نکل نہیں پاتی نہ اسے تھکاتی ہے

نیز ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھے:

سُبْحانَ مَنْ لاَ  یَعْتَدِی عَلَی أَہْلِ مَمْلِکَتِہِ۔

 پاک ہے وہ اپنے زیر حکومت لوگوں پر زیادتی روا نہیں رکھتا۔

پھر وہ نماز پڑھے جو ہم نے دوسرے باب میں قوت حافظہ کے لیے لکھی ہے نیز ایسی چیزوں سے پرہیز کرے جو سہو و نسیان کا موجب ہوتی ہیں اور وہ یہ ہیں کھٹا سیب، سبز دھنیا، پنیر اور چوہے کا جھوٹا کھانا، کھڑے پانی میں پیشاب کرنا ، قبروں کی تختیوں کو پڑھنا ، دو عورتوں کے درمیان سے گزرنا، جو ئیں پکڑ کر زندہ چھوڑ دینا، ناخن نہ کٹوانا ، دنیوی امور میں بہ کثرت مشغول اور ان کے لیے مغموم رہنا ، سولی پر چڑھے ہوئے شخص کو دیکھنا اور اونٹوں کی قطار کے درمیان سے گزرنا۔

﴿چالیسواں امر﴾ شیخ ابن فہد(علیہ الرحمہ) نے امام جعفر صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا: ہر وہ دعا جس کے آغاز میں خدا کی تمجید و بزرگی اور ثناء و تعریف نہ ہو وہ ابتر و ناکام ہوتی ہے پہلے خدا کی تمجید ہوتی ہے پھر ثناء اور تعریف ہوتی ہے، راوی نے پوچھا کم سے کم تمجید کیا ہے جو کافی ہو سکتی ہے؟ آپ(ع) نے فرمایا:یوں کہا کرو:

اَللّٰہُمَّ أَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْءٌ وَأَنْتَ الْاَخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْءٌ وَأَنْتَ الظَّاہِرُ

 اے معبود! تو ایسا اول ہے کہ تجھ سے پہلے کوئی چیز نہ تھی توایسا آخر ہے کہ تیرے بعد کوئی چیز نہ ہوگی تو ایسا ظاہر

فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْءٌ وَأَنْتَ الْباطِنُ فَلَیْسَ دُونَکَ شَیْءٌ وَأَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ۔

ہے کہ تجھ سے اوپر کوئی چیز نہیں تو ایسا باطن ہے کہ تجھ سے نیچے کوئی چیز نہیں اور تو غالب ہے حکمت والا۔