Mp3 lecture with duas on sajda shukr  

Pdf from Baqiyatus salehat ( Margins of Mafatih)  | Supplications in sijdah   | Back to 'Duas After Saalat' page

سجدہ شکر

          جب تعقیبات نماز سے فارغ ہوتو سجدہ شکر بجالائے، اس بات پر علماء شیعہ کا اجماع ہے کہ سجدہ شکر کسی نعمت کے حاصل ہونے یا کسی مصیبت کے دور ہونے کے وقت بجالایا جائے اور اس کی بہترین قسم نماز کے بعد ادائے نماز کی یہ توفیق ملنے پر سجدہ شکر کی ادائیگی ہے ․ امام محمد باقر بہ سند معتبر ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے والد بزرگوار امام زین العابدین جب بھی خدا کی کسی نعمت کو یاد کرتے تو اس کے شکرانے میں سجدہ شکر بجالاتے ، جو بھی آیہ سجدہ تلاوت فرماتے تو سجدہ بجالاتے ، کسی شر سے خوف کھاتے اور خدا اسے دور کر دیتا تو بھی سجدہ شکر ادا فرماتے ، جب بھی واجب نماز سے فارغ ہوتے تو سجدہ بجالاتے اور جب دو آدمیوں میں صلح کر واتے تو اس کے لیے بھی سجدہ شکر ادا کرتے ․ آنجناب کے تمام اعضائے سجدہ پر سجدے کے نشان موجود تھے ، اسی لیے آپ کو ”سجاد“کہا جاتا ہے ․ صحیح سند کے ساتھ امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ جو شخص علاوہ نماز کے کسی نعمت کے ملنے پر خدا کے لیے سجدہ شکر بجالائے تو الله تعالیٰ اس کے نام دس نیکیاں لکھ دیتا ہے، دس برائیاں مٹا دیتا ہے اور بہشت میں اس کے دس درجے بلند کر دیتا ہے دیگر بہت سی معتبر اسناد کے ساتھ آنجناب ہی سے منقول ہے کہ بندے کا خدا سے نزدیک تر مقام اس وقت ہوتا ہے جب وہ حالت سجدہ میں ہو اور گریہ کررہا ہو۔ ایک اور صحیح حدیث میں فرماتے ہیں کہ سجدہ شکر ہر مسلمان پر واجب ہے اور اس سے نماز مکمل ہوتی ہے ، پروردگار عالم راضی ہوتا ہے اور ملائکہ کو ایسی عبادت پرتعجب ہوتا ہے ․ اس لیے کہ جب بندہ نماز ادا کر لیتاہے اور اس کے بعد سجدہ شکر بجالاتا ہے تو خداوند عالم اس کے اور فرشتوں کے درمیان سے پردے ہٹا دیتا ہے، پھر کہتا ہے کہ اے میرے فرشتو! میرے بندے کی طرف نگاہ کرو کہ اس نے میرا فرض ادا کر دیا ہے میرے عہد کو پورا کر دیا ہے․ اس کے بعد اس بات پر میرے لیے سجدہ شکر اداکیا ہے کہ میں نے اسے اس نعمت سے نوازا ہے اے میرے فرشتو! اب تم ہی بتاؤ کہ اسے کیا انعام دیا جاے؟ وہ کہتے ہیں خداوندا! اپنی رحمت ،پھر فرماتا ہے اور کیا دوں؟ وہ عرض کرتے ہیں اپنی جنت پھر پوچھتا ہے اسے اور کیا دوں ؟وہ عرض کرتے ہیں: اس کے مشکل امور کی کفایت اور حاجات کی برآوری ۔ اسی طرح خداے تعالیٰ سوال کرتاجاتا ہے اور ملائکہ جواب دیتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ملائکہ تھک جاتے ہیں اور کہتے ہیں: پروردگارا! ہمیں اب کچھ معلوم نہیں اس پر خالق اکبر فرماتا ہے:میں بھی اس کا اسی طرح شکریہ ادا کرتاہوں جس طرح اس نے میرا شکر ادا کیا ہے اور میں روز قیامت اپنے فضل اور عظیم رحمت کے ساتھ اس کی طرف نظر کروں گا صحیح سند کے ساتھ امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ الله تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو اس لیے اپنا خلیل بنایا کہ وہ زمین پر بہت زیادہ سجدے کیا کرتے تھے، ایک اور معتبر حدیث میں فرماتے ہیں :جب بھی تم خدا کی کسی نعمت کو یاد کرو اور تم ایسی جگہ ہو کہ جہاں مخالفین تمھیں دیکھ نہ رہے ہوں تو اپنا رخسار زمین پر رکھ کر اس کی نعمت کا شکر ادا کرو۔ اگر مخالفین وہاں موجود ہوں اور تم سجدہ نہیں کر سکتے تو اپنا ہاتھ پیٹ کے نچلے حصّے پر رکھ کر تواضع کے طور پر جھک جاؤ تا کہ مخالفین یہ سمجھیں کہ تمہیں درد شکم ہوگیا ہے ․ بہت سی روایات میں وارد ہے کہ الله تعالےٰ نے حضرت موسیٰ سے فرمایا:جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کس لیے منتخب کیا اور ساری مخلوق میں سے کلیم بنایا ہے ؟موسیٰ نے عرض کیا: پروردگارا! میں نہیں جانتا !الله تعالیٰ نے فرمایا: اس لیے کہ میں نے اپنی ساری مخلوقات کے حالات دیکھے اور تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں پایا کہ جس کا نفس میرے سامنے تمہارے نفس سے زیادہ عاجز و درماندہ ہو کیونکہ جب تم نماز سے فارغ ہوتے ہو تو اپنے دونوں رخساخاک پر رکھ دیتے ہو ․ سند موثق کے ساتھ امام علی رضا سے منقول ہے کہ واجب نماز کے بعد سجدہ شکر اس امر پر خدا کے شکر کی ادائیگی ہے کہ اس نے اپنے بندے کو یہ توفیق دی ہے کہ وہ اس کا عائد کردہ فرض ادا کر سکے ․ اس سجدے میں کم از کم ذکر یہ ہے کہ تین مرتبہ ”شکراً لِلّٰہِ“کہا جائے۔ راوی نے پوچھا کہ ”شکراً لِلّٰہِ“ کے کیا معنی ہیں ؟ امام نے فرمایا اس کے معنی یہ ہیں کہ میں یہ سجدہ اس لیے کر رہا ہوں کہ الله نے مجھے اس عمل کی توفیق دی ہے کہ میں اس کے لیے کھڑا ہوا اور اپنا فرض ادا کیا، میں یہ سجدہ اسی بات کے شکرانے کے طور پر کر رہا ہوں ․ خدا کا شکر مزید نعمت اور اطاعت کی توفیق کا موجب ہوتا ہے اور اگر نماز میں کوئی ایسی خامی رہ گئی ہو جو نافلہ کے ذریعے پوری نہ ہو پائی ہو تو وہ اس سجدے کے ذریعے پوری ہوجاتی ہے۔

﴿سجدہ شکر کی کیفیت﴾

          سجدہ شکر کی کیفیت یہ ہے کہ اسے جس طرح بھی بجالایا جائے ، ادا ہو جاتا ہے اور احوط یہ ہے کہ انسان زمین پر ہو اور نماز کے سجدے کی مانند سات اعضا پر سجدہ کرے ․ نیز اپنی پیشانی اس چیز پر رکھے جس پر نماز میں پیشانی رکھنا صحیح ہوتا ہے، لیکن افضل یہ ہے کہ سجدہ نماز کے بر عکس ہاتھوں کو زمین پر دراز کر دے اور پیٹ کو زمین سے ملادے اور سنت ہے کہ پہلے پیشانی کو زمین پر رکھے پھر دائیں رخسار کو اس کے بعد بائیں رخسار کو زمین پر رکھے، پھر پیشانی کو دوبارہ زمین پر رکھے اور یہی وجہ ہے کہ اس سجدے کو شکر کے دو سجدے کہا جاتا ہے بظاہر یہ سجدہ ذکر کے بغیر بھی ادا ہو جاتا ہے لیکن سنت ہے کہ ذکر بھی کرے اور بہتر ہے کہ ان اذکار اور دعاؤں کے ذریعے ذکر کیا جائے جو بعد میں نقل کی جائیں گی اور مستحب ہے کہ اس سجدے کو طول دیا جائے ․ چنانچہ منقول ہے کہ امام موسیٰ کاظم طلوع آفتاب کے بعد سجدے کو اس قدر طول دیتے کہ زوال آفتاب ہوجاتا اور عصر کے بعد سجدے کو اس قدر طول دیتے کہ مغرب کا وقت ہوجاتا ایک اور حدیث میں ہے کہ آنجناب دس سال تک روزانہ طلوع آفتاب سے زوال آفتاب تک سجدے میں رہا کرتے تھے ․ صحیح سند کے ساتھ منقول ہے کہ امام علی رضا اتنی اتنی دیر تک سجدے میں پڑے رہتے کہ مسجد کے سنگریزے آپ کے پسینے سے تر ہوجاتے ․ اور آپ اپنے دونوں رخسار زمین پر رکھے رہتے ․ رجال کشی میں مذکور ہے کہ فضل بن شاذان، ابن ابی عمیر کے پاس آئے تو وہ حالت سجدہ میں تھے اور انہوں نے اسے بہت طول دیا ، جب انہوں نے سجدے سے سر اٹھا یا تو ان کے اس سجدے کے طولانی ہونے کا ذکر کیا گیا تو ابن ابی عمیر نے کہا:اگر تم لوگ جمیل بن دراج کے سجود کو دیکھتے تو میرے سجدے کو طولانی نہ سمجھتے ، اس کے بعد کہا: ایک روز میں جمیل بن دراج کے پاس گیا تو انہوں نے بہت ہی طویل سجدہ کیا، جب انہوں نے سجدے سے سر اٹھایا تو میں نے کہا: آپ نے تو بہت ہی طویل سجدہ کیا ہے انہوں نے جواب دیا: اگر تم معروف بن خرتوذ کے سجدے کو دیکھتے تو میرے اس سجدے کو مختصر ہی سمجھتے․ فضل بن شاذان ہی روایت کرتے ہیں کہ حسن بن علی بن فضال عبادت کے لیے صحرا میں چلے جاتے اور اپنے سجدے کو اتنا طول دیتے ہیں کہ صحرا کے پرندے کپڑا سمجھ کران کی پشت پر آن بیٹھتے، وحشی جانوران کے اردگرد چلتے پھرتے رہتے اور ان سے کسی قسم کی وحشت محسوس نہ کرتے ․ نیز روایت ہوئی ہے کہ علی بن مہزیار طلوع آفتاب کے ساتھ ہی سجدہ الٰہی میں چلے جاتے اور جب تک اپنے ایک ہزار (مومن)بھائیوں کے لیے دعا نہ کر لیتے سجدے سے سر نہ اٹھاتے اور طویل سجدوں کی وجہ سے ان کی پیشانی پریوں محراب پڑچکے تھے جیسے اونٹ کے زانوؤں پر ہوتے ہیں ․ روایت ہوئی ہے کہ ابن ابی عمیر نماز فجر کے بعد سجدہ شکر میں سر رکھتے اور ظہر تک نہیں اٹھاتے تھے ․ افضل یہ ہے کہ سجدہ شکر تمام تعقیبات کے بعد اور نوافل سے پہلے کیا جائے ۔ اکثر علماء کہتے ہیں کہ سجدہ شکر نماز مغرب کے نوافل کے بعد بجالایا جائے اور بعض دیگر علماء کہتے ہیں کہ سجدہ شکر نوافل سے پہلے کیا جائے․ ظاہراً دونوں صورتیں بہترہیں اور اس کا نوافل سے پہلے بجالانا افضل ہے ․ البتہ حمیری نے امام زمانہ عجل الله فرجہ سے روایت کی ہے کہ اگر دونوں طرح سے ادا کیا جائے تو شاید زیادہ بہتر ہو ․ اب رہ گئیں سجدہ شکر میں پڑھی جانے والی دعائیں تو وہ بہت زیادہ ہیں ․ ان میں سے چند ایک آسان ترین ہیں اور وہ یہ ہیں ۔

(۱) معتبر سند کے ساتھ امام علی رضا سے منقول ہے کہ اگر تم چاہو تو سو مرتبہ کہا کرو شکراً شکراً اور چاہو تو سو مرتبہ کہا کرو عفواً عفواً اور عیون اخبار الرضا میں رجاء بن ابی ضحاک روایت کرتے ہیں کہ امام علی رضا خراسان میں جب نماز ظہر کی تعقیبات سے فارغ ہوتے تو سر سجدے میں رکھ کر سو مرتبہ کہے:شکراً لله۔(خدا کا شکر ہے۔)اور جب عصر کی تعقیبات سے فارغ ہوتے تو سجدے میں سو مرتبہ کہے:حمداً لله۔(خدا کی حمد ہے

(۲) شیخ کلینی معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق - سے روایت کرتے ہیں کہ بندہ اس وقت اپنے خدا کے زیادہ نزدیک ہوتا ہے جب وہ حالت سجدہ میں ہواور اسے پکارے پس جب سجدہ شکر میں جائے تو کہے :

یَارَبَّ الْاَرْبابِ، وَیَا مَلِکَ الْمُلُوکِ وَیَا سَیِّدَالسَّاداتِ وَیَا جَبَّارالْجَبابِرَةِ وَیَا إِلہَ الاَْلِھَةِ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ

اے پروردگاروں کے پروردگار! اے بادشاہوں کے بادشاہ !اے سرداروں کے سردار!اے جابروں کے جابراور اے معبودوں کے معبود! تو سرکار محمدو آل محمد پر رحمت فرما

           اب اپنی حاجات طلب کرے اور کہے :فَإِنِّی عَبْدُکَ ناصِیَتِی فِی قَبْضَتِکَ۔(بے شک میں تیرا بندہ ہوں میری مہار تیرے ہاتھ میں ہے ․) پھر جو دعا چاہے مانگے کہ خداعطا کرنے والا ہے اور کوئی بھی حاجت پوری کرنا اس کیلئے مشکل نہیں۔

(۳) شیخ کلینی نے موثق سند کے ساتھ امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ایک رات میں نے سنا کہ میرے والد گرامی مسجد میں حالت سجدہ میں روتے ہوئے یہ دعا پڑھ رہے تھے:

سُبْحانَکَ اَللّٰھُمَّ أَنْت رَبِّی حَقّاً حَقّاً سَجَدْتُ لَکَ یَارَبِّ تَعَبُّداً وَرِقّاً اَللّٰھُمَّ إِنَّ عَمَلِی ضَعِیفٌ فَضاعِفْہُ لِی اَللّٰھُمَّ قِنِی عَذابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبادَکَ، وَتُبْ عَلَیَّ إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ

اے معبود تو پاک ہے تو میرا پکا سچا رب ہے یا رب میں نے تجھے عبادت وبندگی کیلئے سجدہ کیا ہے اے معبود بیشک میرا عمل کمزور ہے اے معبود اس دن اسے میرے لیے دگنا کردے مجھے اپنے عذاب سے بچانا جب تو لوگوں کو زندہ کریگااورمیری توبہ قبول فرما کہ بیشک تو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے

(۴)شیخ کلینینے معتبر سند کیساتھ امام موسیٰ کاظم سے روایت کی ہے کہ آنجناب سجدے میں یہ دعا پڑھتے تھے۔

أَعُوذُ بِکَ مِنْ نَارٍ حَرُّھَالاَ یُطْفیٰ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ نارٍ جَدِیدُہا لاَ یَبْلی وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ نارٍ عَطْشانُہا لاَ یُرْوی وَأَعُوذُ بِکَ ٍ مِنْ نَارٍ مَسْلُوْبُھَا لَا یُکْسیٰ

خدایا اس آگ سے تیری پناہ لیتا ہوں جوبجھے گی نہیں تیری پناہ لیتا ہوں اس آگ سے جو ہمیشہ نئی ہے پرانی نہ ہوگی تیری پناہ لیتا ہوں اس آگ سے جس میں پیا سے کبھی سیراب نہ ہونگے اور تیری پناہ لیتا ہوں اس آگ سے جس میں برہنوں کو لباس نہ ملے گا

(۵)شیخ کلینینے معتبر سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ ایک شخص اما م جعفر صادق خدمت میں حاضر ہوا اور یہ شکایت کی کہ میری ایک ام ولد لونڈی ہے جو بیماررہتی ہے․ حضرت نے فرمایا: اس سے کہو کہ ہر واجب نماز کے بعد سجدہ شکر میں یہ کہا کرے:

یَا رَؤُوفُ یَا رَحِیمُ یَارَبِّ یَا سَیِّدِی

(اے مہربان اے رحم والے اے رب اے میرے سردار ․ )پھر اپنی حاجات طلب کرے

(۶)بہت ہی معتبر روایات میں منقول ہے کہ امام جعفر صادق اور امام موسیٰ کاظم سجدہ شکر میں بکثرت یہ کہا کرتے تھے ۔

أَسْأَلُکَ الرَّاحَةَ عِنْدَ الْمَوْتِ وَالْعَفْوَ عِنْدَ الْحِسابِ۔

خدایا میں تجھ سے موت کے وقت راحت اور حساب کے وقت درگزر کاسوالی ہوں

(۷)صحیح سند کیساتھ منقول ہے کہ امام جعفر صادق سجدہ شکر میں یہ کہا کرتے تھے۔

سَجَدَ وَجْھِیَ اللَّئِیمُ لِوَجْہِ رَبِّیَ الْکَرِیمِ۔

میرے پست چہرے نے تیری کریم ذات کو سجدہ کیا ہے

(۸) بعض معتبر کتابوں میں امیر المومنین- سے مروی ہے کہ الله کے نزدیک بہترین کلام یہ ہے کہ سجدے میں تین مرتبہ کہیں:

إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی فَاغْفِرْ لِی۔

یقیناً میں نے خود پر ظلم کیا ہے پس مجھے بخش دے

(۹) جعفریات (مجموعہ اقوال حضرت امام جعفر صادق -) میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ رسول خدا جب سجدے میں سر رکھتے تو یہ دعا پڑھتے تھے:

اَللّٰھُمَّ مَغْفِرَتُکَ أَوْسَعُ مِنْ ذُنُوبِی وَرَحْمَتُکَ أَرْجَی عِنْدِی مِنْ عَمَلِی فَاغْفِرْ لِی ذُنُوبِی یَا حَیّاً لاَ یَمُوتُ۔

اے معبود! تیری بخشش میرے گناہوں سے زیادہ وسیع ہے اور تیری رحمت میرے عمل کی نسبت زیادہ امید افزا ہے پس میرے

 گناہ بخش دے اے وہ زندہ جو مرے گا نہیں

(۱۰) قطب راوندی نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ جب تمہیں کوئی سخت مصیبت درپیش ہویا انتہائی غم و اندوہ لاحق ہوتو زمین پر سجدے میں جاکر کہو :

یَا مُذِلَّ کُلِّ جَبَّارٍ یَا مُعِزَّکُلِّ ذَلِیلٍ، قَدْ وَحَقِّکَ بَلَغَ مَجْھُودِی فَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدوَفَرِّجْ عَنِّی۔

اے ہر جبار کو ذلیل کرنے والے ہرذلیل کو عزت دینے والے تیرے حق کی قسم کہ میں بے بس ہوگیا پس تومحمد و آل

محمدپر رحمت نازل فرما اور مجھے کشادگی عطا فرما

          عدة الداعی میں آپ ہی سے روایت ہے کہ جب کسی شخص کو کوئی مصیبت آپڑے یا کوئی مشکل پیش آجائے یا کوئی رنج و غم پریشان کرنے لگے تو وہ اپنے گھٹنوں تک اور کہنیوں تک کپڑا ہٹائے اور ان کو زمین پر لگادے اپنا سینہ زمین سے لگا دے اور خدا سے اپنی حاجات طلب کرے۔

(۱۱) ابن بابویہ نے معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ جب بندہ سجدے میں تین مرتبہ یہ کہے :یَا اللهُ یَا رَبّاہُ یَا سَیِّداہُ(اے الله اے پروردگار اے سردار ) تو خدا تعالیٰ جواب میں کہتا ہے لبیک (ہاں) اے میرے بندے مجھ سے اپنی حاجات بیان کر ۔مکارم الاخلاق میں ہے کہ جب کوئی شخص سجدے میں ۔یَا رَبَّاہُ یَا سَیِّداہُ (اے پروردگار اے سردار ․) کہتا ہے یہاں تک کہ اس کی سانس رک جائے تو خدا فرماتا ہے کہ اے بندے اپنی حاجات بیان کر ۔

(۱۲)مکارم الاخلاق میں امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ رسول خدا کا گزر ایک شخص کے پاس سے ہوا جو سجدے میں کہہ رہا تھا۔

یَارَبِّ مَاذا عَلَیْکَ أَنْ تُرْضِیَ عَنِّی کُلَّ مَنْ کانَ لَہُ عِنْدِی تَبِعَةٌ، وَأَنْ تَغْفِرَ لِی ذُنُوبِی وَأَنْ تُدْخِلَنِی الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِکَ فَإِنَّمَا عَفْوُکَ عَنِ الظَّالِمِینَ، وَأَنَا مِنَ الظَّالِمِینَ،فَلْتَسَعْنِی رَحْمَتُکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔

اے پروردگارتجھے کیا فرق پڑے گاکہ تو ہر ایسے شخص کو مجھ سے راضی کردے جس کا کوئی حق میرے ذمہ ہے اور یہ کہ تو میرے گناہ معاف کر دے اور اپنی رحمت سے مجھ کو جنت میں داخل کر دے کیونکہ یقینا تو ظالموں کو معاف کرتا ہے اور میں بھی ظالموں میں سے ہوں تو تیریرحمت مجھ پر چھا جائے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے ۔

          اس وقت آنحضرت نے اس شخص سے فرمایا کہ اپنا سر اٹھا لو کہ تمہاری دعا قبول ہو گئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ تم نے اس پیغمبر کی دعا پڑھی ہے جو قوم عاد میں آئے تھے ․ موٴلف کہتے ہیں :ہم نے مسجد کوفہ اور مسجد زید کے اعمال میں بعض دعائیں نقل کی ہیں جو سجدے میں پڑھی جاتی ہیں۔ شیخ طوسی نے مصباح المتہجد میں سجدہ شکر کے بیان میں ذکر کیا ہے، مستحب ہے کہ انسان اپنے بھائیوں کے لیے سجدے میں یہ دعا پڑھے:

اَللّٰھُمَّ رَبَّ الْفَجْرِوَاللَّیَالِی الْعَشْرِ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ وَاللَّیْلِ إِذا یَسْرِ وَرَبَّ کُلِّ شَیْءٍ وَإِلہَ کُلِّ شَیْءٍ وَخَالِقَ کُلِّ شَیْءٍ، وَمَلِکَ کُلِّ شَیْءٍ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ، وَافْعَلْ بِی وَبِفُلانٍ وَفُلانٍ مَا أَنْتَ أَھْلُہُ وَلاَ تَفْعَلْ بِنَا مَا نَحْنُ أَھْلُہُ فَإِنَّکَ أَھْلُ التَّقْوَی وَأَھْلُ الْمَغْفِرَةِ

اے معبود ! ایک فجر،دس راتوں شفع، وتر اور رات کے پروردگار جب وہ گزر جائے اے ہر چیز کے پروردگار، اے ہر چیز کے معبود اے ہر چیز کے پیدا کرنے والے اور اے ہر چیز کے مالک!سرکار محمد و آل محمد پررحمت نازل فرما اور میرے ساتھ اور

فلاں فلاں کے ساتھ وہ برتاؤ کر جس کا تو اہل ہے اور ہمارے ساتھ وہ برتاؤ نہ کر جس کے ہم اہل ہیں کیونکہ یقیناً تو بچانے اور بخش دینے کا اہل ہے ۔

          جب سر سجدے سے اٹھاے تو اپنے ہاتھوں کو مقام سجدہ سے مس کرے اور پھر انہیں اپنے چہرے کے بائیں طرف پھیرے ، پھر پیشانی پر اور پھر چہرے کی دائیں طرف تین مرتبہ پھیرے اور ہر بار یہ دعا پڑھے :

اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ لاَ إِلہَ إِلاَّ أَنْتَ، عَالِمُ الْغَیْب وَالشَّہادَةِ الرَّحْمنُ الرَّحِیمُ اَللّٰھُمَّ أَذْھِبْ عَنِّی الھَمَّ وَالْحَزَنَ وَالْغِیَرَ وَالْفِتَنَ مَا ظَھَرَ مِنْہا وَمَا بَطَنَ۔

اے معبود حمد تیرے ہی لیے ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ہی حاضر و غائب کا جاننے والا بڑے رحم والا مہربان ہے اے معبود! مجھ سے ہر طرح کی ایذا یعنی غم تکلیفیں اوربلائیں دور کر دے خوہ اوہ ظاہر یاہیں باطن ہیں