جاننا چاہیئے کہ جب کسی فرد پر موت کے آثار ظاہر ہونے لگیں تو جسے سب سے پہلے مرنے والے کے حالات کو سنبھالنا چاہیئے وہ خود مرنے والا ہی ہے جس کو آخرت کا سفر در پیش ہے اور اسے اس سفر کے لیے زاد راہ کی ضرورت ہے ۔ پس سب سے پہلا اور ضروری کام جو اسے کرنا چاہیئے وہ اپنے گناہوں کا اعتراف اور کوتاہیوں کا اقرار ہے کہ گذشتہ پر ندامت کے ساتھ صدق دل سے توبہ کرے اور خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں آہ و زاری کرے کہ وہ اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف کر دے اور پیش آمدہ حالات اور ہولناک واقعات میں اس کو نہ تو خود اس کے حوالے کرے اور نہ دوسروں کے سپرد کرے ۔ پھر اپنی مصیبت کی طرف توجہ کرے اور حقوق الله و حقوق العباد جو اس کے ذمے نکلتے ہیں انہیں خود ادا کرے اور دوسروں کے سپرد نہ کرے کیونکہ مرنے کے بعد اس کے سبھی اختیارات اوروں کے ہاتھ آجاتے ہیں اور اس کے پاس نہیں رہتے، پھر وہ اپنے مال و متاع کو حسرت کی نگاہوں سے دیکھتا رہتا ہے تب جن و انس میں سے شیطان اس مرنے والے کے وارثوں کے دلوں میں وسوے ڈالتے رہتے ہیں اور اس امر میں مانع ہوتے ہیں کہ وہ اس کے ذمے رہ جانے والے واجبات سے اس کو بری کریں ۔ اس وقت یہ بات اس کے بس سے باہر ہوتی ہے کہ کسی سے یہ کہے کہ اسے دنیا میں لوٹا یاجائے تا کہ وہ اپنے مال سے شائستہ اعمال بجا لائے اس وقت اس کی چیخ و پکار کوئی نہیں سنتا اور اس کی حسرت و پشیمانی بے سود ہوتی ہے لہذا وہ اپنے مال میں ایک تہائی کی وصیت کر دے کہ یہ اس کے قریبی رشتہ داروں کو دیاجائے اور اس میں سے صدقہ و خیرات اور جو اس کے مناسب حال ہے خرچ کیا جائے ،کیونکہ وہ ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کا اختیار نہیں رکھتا پھر وہ اپنے مومن بھائیوں سے معافی مانگے کہ ان کے جو حقوق اس پر ہیں ان سے بری الذمہ ہو جائے مثلاً جس کی غیبت کی ہے یا توہین کی ہے یا کسی کو دکھ پہنچایا ہے وہ افراد موجود ہوں تو ان سے التماس کرے کہ وہ اسے معاف کر دیں اگر وہ موجود نہ ہوں تو مومن بھائیوں سے درخواست کرے کہ وہ اس کی معافی کے لیے دعا مانگیں تاکہ جو کچھ اس کے ذمہ ہے وہ اس سے بری اور سبکدوش ہو جائے پھر اپنے اہل و عیال اور اولاد کے معاملات کو خداوند کریم پر توکل کے بعد کسی امانت دار شخص کے سپرد کرے اور اپنے چھوٹے بچوں کے لیے کوئی وصی مقرر کرے اس کے بعد اپنا کفن منگوائے اور جو کچھ مفصل کتابوں میں درج ہے، یعنی کلمہ شہادتین ، اذکار، عقائد، دعائیں، اور آیات اس پر خاک شفا سے لکھوائے ، یہ اس صورت میں ہے کہ اس سے پہلے غفلت میں رہا اور اپنا کفن تیار کر کے نہ رکھا ہو ورنہ مومن کو چاہیئے کہ وہ ہمیشہ اپنا کفن تیار کر کے رکھے ،جو ہر وقت اس کے پاس موجود رہے ۔ جیسا کہ امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ جس شخص کا کفن اس کے گھر میں موجود ہوتا ہے اس کو غافلوں کی فہرست میں نہیں لکھا جاتا اور وہ جب بھی اپنے کفن پر نظر کرتا ہے تو اسے ثواب ملتا ہے اور اب اپنے بیوی بچوں سے بے فکر ہوکر پوری طرح سے بارگاہ رب العزت کی طرف متوجہ ہوجائے اور اس کی یاد میں لگ جائے یہ فکر کرے کہ یہ فانی امور اس کے کام نہیں آئیں گے اور پروردگار کی مہربانی اور اس کے لطف و کرم کے بغیر دنیا و آخرت میں کوئی چیز اسے فائدہ نہیں دے گی اور اس کی فریاد رسی نہیں کرے گی۔ اس بات کا یقین کرے کہ اگر حق تعالیٰ کی ذات پر توکل کرے گا تو اس کے پسماندگان کے تمام معاملات اچھے طریقے سے انجام پائیں گے اور یہ بھی ذہن میں رکھے کہ اگر وہ خود زندہ رہ جائے تو بھی مشیت الٰہی کے بغیر و ہ انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا نہ ان سے کسی ضرر کو دور کر سکے گا اور جس خدا نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان پر خود اس سے بھی زیادہ مہربان ہے ،اس وقت اسے رحمت خداوندی کا بہت زیادہ امیدوار ہونا چاہیئے۔ نیز حضرت رسول اکرم ﷺ اور ائمہ معصومین(ع) کی شفاعت کی آس رکھنی چاہیئے ان کی تشریف آوری کا منتظر ہونا چاہیئے ، بلکہ اس بات کا یقین رکھنا چاہیئے کہ وہ ذوات مقدسہ اس وقت تشریف فرما ہوتی اور اپنے شیعوں کو خوشخبریاں دیتی ہیں اور ملک الموت سے ان کے بارے میں سفارشیں کرتی ہیں شیخ طوسی(علیہ الرحمہ) مصباح المتہجد میں فرماتے ہیں کہ وصیت کرنا مستحب ہے اور انسان اسے ترک نہ کرے کیونکہ روایت میں ہے کہ انسان کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ کوئی ایسی رات بسر نہ کرے جس میں وصیت نامہ اس کے سر ہانے نہ پڑا ہو ، بیماری کی حالت میں اس کے بارے میں زیادہ تاکید کی گئی ہے اور ضروری ہے کہ اچھی سے اچھی وصیت کرے اپنے آپ کو حقوق الله سے عہدہ برآ کرے اور لوگوں پر کیے ہوئے، مظالم سے گلو خلاصی کرائے حضرت رسول الله ﷺ سے روایت ہے کہ جو شخص موت کے وقت اچھی وصیت نہ کرے تو اس کی عقل اور مروت میں نقص ہوتا ہے، لوگوں نے پوچھا یارسول الله! کیسی وصیت اچھی ہوتی ہے؟ آپ(ع) نے فرمایا: جب انسان کا وقت وفات قریب ہو اور لوگ اس کے پاس جمع ہوں تو یہ کہے:
اے معبود! اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے نہاں و عیاں کے جاننے والے بڑے رحم والے مہربان میں تجھ سے عہد کرتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں کوئی معبود مگر الله جو یکتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ کہ حضرت محمد صلی الله علیہ و آلہ اس کے بندے اور رسول ہیں یقیناً قیامت آنے والی ہے ، اس میں کچھ شبہ نہیں الله ان لوگوں کو اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں حساب و کتاب حق ہے، جنت اور وہ نعمتیں بھی جواس میں کھانے پینے کے لیے دی جائیں گی حق ہیں نکاح حق ہے، جہنم حق ہے ایمان حق ہے، دین حق ہے، جیسے اس نے بتایا اسلام حق ہے جیسے اس نے حکم دیا حق بات وہی ہے جو اس نے کہی قرآن حق ہے جیسے اس نے نازل کیا اور الله واضح حق ہے، میں اس دنیا میں اس دنیا میں تیرے ساتھ عہد کرتا ہوں کہ یقینامیں راضی ہوں کہ تو میرا رب ہے اسلام میرا دین ہے ،حضرت محمدصلی الله علیہ و آلہ میرے نبی ہیں، علی(ع) میرے ولی ہیںقرآن میری کتاب ہے اور اس پر کہ تیرے نبی کے اہل بیت میرے امام ہیں تیرے نبی اور ان اماموں پر سلام اے معبود! سختی کے وقت تو میرا سہارا ہے، پریشانی میں تو ہی میری آس ہے تو ہی میرا ذخیرہ ہے، ان حادثوں میں جو مجھ پر آ پڑتے ہیں تو میرا نعمت دینے والا مولا ہے میرا اور میرے بزرگوں کا معبود ہے رحمت فرما محمد اور ان کی آل(ع) پراور مجھے پلک چھبکنے تک بھی میرے نفس کے حوالے نہ کر قبر کی تنہائی میں میرا ہمدم بن اپنے ہاں میرے لیے عہد مقرر فرما جب حشر میں تیرے سامنے حاضر ہوں گا ۔ |
|
اَللّٰہُمَّ فاطِرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ عالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہادَةِ الرَّحْمنَ الرَّحِیمَ، إِنِّی أَعْہَدُ إِلَیْکَ أَنِّی أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلہَ إِلاَّ اللهُ وَحدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ وَأَنَّ مُحَمَّداً صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَآلِہِ عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِیَةٌ لاَرَیْبَ فِیہا وَأَنَّ اللهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُورِ وَأَنَّ الْحِسابَ حَقٌّ وَأَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَأَنَّ مَا وُعِدَ فِیہا مِنَ النَّعِیمِ مِنَ الْمَأْکَلِ وَالْمَشْرَبِ وَالنِّکاحِ حَقٌّ وَأَنَّ النَّارَ حَقٌّ وَأَنَّ الْاِیمانَ حَقٌّ وَأَنَّ الدِّینَ کَما وَصَفَ وَأَنَّ الْاِسْلامَ کَما شَرَعَ وَأَنَّ الْقَوْلَ کَما قالَ وَأَنَّ الْقُرْآنَ کَما أَنْزَلَ، وَأَنَّ اللهَ ہُوَ الْحَقُّ الْمُبِین وَأَنِّی أَعْہَدُ إِلَیْک فِی دارِالدُّنْیا أَنِّی رَضِیتُ بِکَ رَبّاً وَبِالاِسْلامِ دِیناً وَبِمُحَمَّدٍصَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَآلِہِ نَبِیّاً وَبِعَلِیٍّ وَلِیّاً وَبِالْقُرْآنِ کِتاباً وَأَنَّ أَہْلَ بَیْتِ نَبِیِّکَ عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمُ اَلسَّلَامُ أَئِمَّتِی اَللّٰہُمَّ أَنْتَ ثِقَتِی عِنْدَ شِدَّتِی وَ رَجائِی عِنْدَکُرْبَتِی وَعُدَّتِی عِنْدَ الْاَُمُورِ الَّتِی تَنْزِلُ بِی وَأَنْتَ وَلِیِّی فِی نِعْمَتِی وَاِلَہِی وَاِلَہُ اَبَائِی صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَلاَ تَکِلْنِی إِلی نَفْسِی طَرْفَةَ عَیْنٍ أَبَداً وَآنِسْ فِی قَبْرِی وَحْشَتِی وَاجْعَلْ لِی عِنْدَکَ عَہْداً یَوْمَ أَلْقاکَ مَنْشُوراً ۔ |
پس یہی عہد میت ہے جس دن وہ اپنی حاجات کی وصیت کر رہا ہوتا ہے اور وصیت کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ اس بات کی تصدیق خداوند عالم سورہ مریم میں فرما رہا ہے:” لَا یَمْلِکونَ الشَّفَاعَةَ اِلَّامَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَھْداً“ یعنی شفاعت کے مالک نہیں ہوں گے مگر وہ لوگ جنہوں نے خدائے رحمن کے ہاں سے عہد لے لیا ہے اور یہ وہی عہد ہے ۔ حضرت رسول نے امام علی بن ابیطالب(ع) سے فرمایا: یہی چیز اپنے اہل بیت اور اپنے شیعوں کو بھی تعلیم کرو اور اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ یہی چیز مجھے جبرائیل نے بتائی ہے۔ پھر شیخ فرماتے ہیں کہ یہی چیز لکھ کر میت کے جرید تین کے ساتھ رکھی جاتی ہے اور اسے لکھنے سے پہلے یہ دعا پڑھی جائے:
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلہَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ وَأَشْہَدُأَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ صَلَّی الله عَلَیْہِ وَآلِہِ، وَأَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَأَنَّ النَّارَ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ حَقٌّ آتِیَةٌ لاَ رَیْبَ فِیہا وَأَنَّ اللهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُورِ |
|
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام جو رحمن رحیم ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں کوئی معبود مگر الله جو یکتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اسکے بندے اور رسولہیں ، خدا رحمت کرے ان پر اور ان کی آل(ع) پر جنت حق ہے، جہنم حق ہے، قیامت حق ہے،وہ آنے والی ہے ، اس میں شک نہیں کہ الله ان لوگوں کو اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں ۔ |
پھر یہ لکھے:
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمن الرَّحِیمِ شَہِدَ الشُّہُودُ الْمُسَمَّوْنَ فِی ہذَاالْکِتابِ أَنَّ أَخاہُمْ فِی اللهِ عَزَّوَجَلَّ فلان بن فلان
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام جو رحمن رحیم ہے اس تحریر میں نام بردہ گواہی دیتے ہیں کہ الله عزو جل کے دین میں ان کے بھائی نے (فلان بن فلان)
یہاں مرنے والے شخص کا نام لکھے
انہیں گواہ بنایا ان کے سپرد کیا اور ان کے سامنے اقرار کیا کہ وہ گواہی دیتا ہے کہ نہیں معبود مگر الله جو یکتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ کہ حضرت محمد صلی الله علیہ و آلہ اس کے بندے اور اس کے رسولہیں اور وہ تمام انبیاء و رسل (ع) کا اقرار کرتا ہے اور الله کے ولی علی(ع) اس کے امام ہیں ، ان کی اولاد سے ائمہ اسکے امام ہیں کہ ان میں اول حسن(ع) ہیں اور حسین(ع)علی (ع)بن الحسین محمد(ع) ابن علی(ع)، جعفر(ع) بن محمد(ع)،موسیٰ (ع)بن جعفر(ع)،علی(ع) بن موسیٰ(ع)، محمد بن علی(ع)، علی(ع) بن محمد، حسن (ع)بن علی(ع) اور حجت القائم علیہم السلام امام ہیں اور یہ کہ جنت حق ہے ،جہنم حق ہے، قیامت آنے والی ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں اور الله انہیں اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں اور یہ کہ حضرت محمد صلی الله علیہ و آلہ اس کے بندے اور رسولہیں جو حق لے کر آئے ۔ علی خدا کے ولی اور خدا کے رسول کے بعد ان کے خلیفہ ہیں، خدا رحمت کرے ان پر اور ان کی آل(ع) پر رسولنے انہیں اپنی امت میں خلیفہ بنایا اپنے رب تبارک و تعالیٰ کے حکم سے اور فاطمہ دختر رسول الله اور ان کے دو بیٹے حسن اور حسین رسولالله کے دو بیٹے ان کے دو نواسے دونوں ہدایت والے امام رحمت والے پیشوا ہیں اور علی(ع) ، محمد، جعفر، موسیٰ، علی، محمد، علی، حسن اور حجت القائم علیہم بلانے والے اور اس کے بندوں السلام امام سردار اور خدائے جل و علا کی طرف پر حجت ہیں۔ |
|
أَشْہَدَ ہُمْ وَاسْتَوْدَعَہُمْ وَأَقَرَّ عِنْدَہُمْ أَنَّہُ یَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلہَ إِلاَّ اَللهُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ، وَأَنَّ مُحَمَّداً صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَآلِہِ عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ وَأَنَّہُ مُقِرٌّ بِجَمِیعِ الْاَنْبِیَاءِ وَالرُّسُلِ عَلَیْہِمُ اَلسَّلَامُ،وَأَنَّ عَلِیّاً وَلِیُّ اللهِ وَإِمَامُہُ وَأَنَّ الْاَئِمَّةَ مِنْ وُلْدِہِ أَئِمَّتُہُ وَأَنَّ أَوَّلَہُمُ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ وَعَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْن وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ وَجَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍوَمُوسَی بْنُ جَعْفَرٍوَعَلِیُّ بْنُ مُوسَی وَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ وَعَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍوَالْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ وَالْقائِمُ الْحُجَّةُ عَلَیْہِمُ اَلسَّلَامُ وَأَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ وَالسَّاعَةَ آتِیَةٌ لاَ رَیْبَ فِیہا وَأَنَّ اللهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُورِ وَأَنَّ مُحَمَّداً صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَآلِہِ عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ، جاءَ بِالْحَقِّ وَأَنَّ عَلِیّاً وَلِیُّ اللهِ وَالْخَلِیفَةُ مِنْ بَعْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَمُسْتَخْلَفُہُ فِی أُمَّتِہِ مُؤَدِّیاً لِاَمْرِ رَبِّہ تَبَارَکَ وَتَعَالَی وَأَنَّ فاطِمَةَ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ وَابْنَیْہَا الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ إِبْنَا رَسُولِ اللهِ وَسِبْطاہُ وَإِمَامَا الْہُدَی وَقائِدا الرَّحْمَةِ وَأَنَّ عَلِیّاً وَمُحَمَّداً وَجَعْفَراً وَمُوسَی وَعَلِیّاً وَمُحَمَّداً وَعَلِیّاً وَحَسَناً وَالْحُجَّةَ عَلَیْہِمُ اَلسَّلَامُ أَئِمَّةٌ وَقادَةٌ وَدُعاةٌ إِلَی اللهِ جَلَّ وَعَلا وَحُجَّةٌ عَلَی عِبادِہِ |
پھر لکھے :
یَا شُہُوْدُ
اے گواہو!
اے فلاں اے فلاں کہ جن کا اس تحریر میں نام لیا گیا ہے، اس شہادت کو میرے لیے اس وقت تک قائم رکھو، جب حوض کوثر پر مجھ سے ملوگے۔ پھر گواہ یہ کہیں کہ اے فلاں۔
نَسْتَوْدِعُکَ اللهَ وَالشَّہادَةُ وَالْاِقْرارُ وَالْاِخاءُ مَوْدُوعَةٌ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَآلِہِ
وَنَقْرَأُ عَلَیْکَ السَّلامَ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَکاتُہ
ہم تجھے الله کے حوالے کرتے ہیں اس گواہی، اقرار اور بھائی چارے کے ساتھ جورسول الله صلی
الله علیہ و آلہ کے پاس امانت ہے ،ہم کہتے ہیں تم پر سلام خدا کی رحمت اور برکتیں ہوں ۔
اس کے بعد پرچے کو تہہ کر کے اس پر مہر لگائے نیز اس پر گواہوں کی مہریں اور خود میت کی بھی مہر لگائی جائے پھر اسے میت کی داہنی طرف جریدے کے ساتھ رکھ دیا جائے ۔ بہتر یہ ہے کہ یہ نوشتہ کافور یا لکڑی کی نوک سے لکھا جائے اور اسے خوشبو و غیرہ سے معطر نہ کیا جائے۔ بہتر ہے کہ قرب موت مرنے والے کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف کیے جائیں اس کے ساتھ ایک ایسا شخص ہونا چاہیئے جو سورہ یاسین اور صافات کی تلاوت اور ذکر خدا کرے، مرنے والے کو شہادتین کی تلقین کرے ایک ایک امام کا نام لے کر اس سے اقرار کرائے اور اسے کلمات فرج کی تلقین کرے اور وہ یہ ہیں :
لاَ إِلہَ إِلاَّ اللهُ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ لاَ إِلہَ إِلاَّ اللهُ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ سُبْحانَ اللهِ رَبِّ السَّمٰوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْاَرَضِینَ السَّبْعِ وَمَا فِیہِنَّ وَمَا بَیْنَہُنَّ وَمَا تَحْتَہُنَّ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعالَمِینَ، وَالصَّلاةُ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ الطَّیِّبِینَ۔ |
|
نہیں ہے معبود مگر الله جو بردبار اور سخی ہے، نہیں ہے معبود مگر الله جو بلند و بزرگ تر ہے ، پاک تر ہے الله جو مالک ہے سات آسمانوں کا اور مالک ہے سات زمینوں کا اور جو کچھ ان میں ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور جو کچھ ان کے نیچے ہے اور عظمت والے عرش کا مالک ہے، حمد ہے، الله کے لیے جو عالمین کا رب ہے اور درود ہو حضرت محمد اور ان کی پاک آل(ع) پر۔ |
یہ احتیاط کی جائے کہ مرنے والے کے پاس کوئی جنب یا حائض نہ آئے، جب اس کی روح پرواز کرجائے تو اسے سیدھا لٹا کر اس کی آنکھیں بند کردی جائیں باز و سیدھے کر کے پہلوؤں کے ساتھ لگا دیئے جائیں اس کا منہ بند کیا جائے پنڈلیاں کھینچ کر سیدھی کردی جائیں اور اس کی ٹھوڑی باندھ دی جائے ۔ اس کے بعد کفن کے حصول کی کوشش شروع کر دی جائے ۔کفن میں واجب تین کپڑے ہیں یعنی لنگ، کفنی اور بڑی چادر مستحب ہے کہ ان کپڑوں کے علاوہ یمنی چادر بھی ہو یا کوئی اور چادر ہو اس کے علاوہ ایک پانچواں کپڑا بھی ہے جسے ران پیچ کہتے ہیں اور یہ میت کی رانوں پر لپیٹا جاتا ہے نیز مستحب ہے کہ مذکورہ کپڑوں کے علاوہ اسے عمامہ بھی باندھا جائے پھر اس کے لیے کافور مہیا کیا جائے کہ جو آگ میں پکاہوا نہ ہو افضل یہ ہے کہ اس کا وزن تیرہ درہم اور ایک تہائی درہم ہو، اس کا اوسط وزن چار مثقال اور کم از کم ایک درہم ہو۔ اور اگر اتنا کافور ملنا بھی مشکل ہوتو پھر جتنا بھی ملے وہ حاصل کیا جائے، بہتر ہے کہ کفن میں سے ہرکپڑے پر یہ لکھا جائے میت کانام اور کہے:
یَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلہَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ، وَأَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللهِ
وَأَنَّ عَلِیّاً أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ وَالْاَئِمَّةَ مِنْ وُلْدِہِ۔
گواہی دیتا ہے کہ نہیں کوئی معبود مگر الله جو یکتا ہے کوئی اس کاشریک نہیں ، یہ کہ حضرت محمد الله کے رسول ہیں
حضرت علی(ع) مومنوں کے امیر ہیں اور جو امام ان کی اولاد میں ہیں۔
یہاں ہر ایک امام کانام لکھا جائے بعد میں لکھیں۔
أَئِمَّتُہُ أَئِمَّةُ الْہُدَی الْاَبْرار۔
اس کے امام ہیں جو ہدایت و نیکی والے امام ہیں۔
یہ سب کچھ خاک شفا سے یا انگلی سے لکھا جائے سیاہی سے نہیں