(۳۲۵)وہ چیزیں جو محرم پر حرام تھیں اور جن کا حلال ہونا طواف پر موقوف تھا وہ طو اف بھولنے والے پر ا سوقت تک حلال نہیں ہو نگی جب تک وہ خود یا اسک نائب طواف کی قضا نہ کرے ۔

(۳۲۶)اگر مکلف کسی بیماری ،ہڈی ٹوٹنے یا کسی اور وجہ سے خود طواف نہ کر سکتاہو اور نہ ہی کسی کی مدد سے انجام دے سکتا ہو تو واجب ہے کہ اسے طواف کروایا جائے یعنی کوئی دوسرا شخص اسے کندھوں پر اٹھاکرطواف کرائے یا کسی گاڑی وغیرہ میں بیٹھاکر طواف کراے ،احوط اولی یہ ہے کہ طواف کرتے وقت حاجی کے پاؤں زمیں کو چھو رہے ہوں ۔ اگر اس طرح سے بھی طواف کرنا ممکن نہ ہو تو واجب ہے کہ اگر نائب بنا سکتا ہوتو نائب بنائے جو اس کی جانب سے طواف کرے ۔ اگر نائب نہ بنا سکتاہو مثلا بیہوش ہو تو اسکاولی یا کوئی اور شخص اسکی جانب سے طواف کرے یہی حکم نماز طواف کا بھی ہے لہذ ااگر مکلف قدرت رکھتا ہو تو خود نماز پڑھے اور اگرخود نہ پڑھ سکتاہو تو کسی کو نائب بنائے (حائض اور نفساء کا حکم شرائط طواف میں بیان ہو چکا ہے )۔

نماز طواف

عمرہ تمتع میں تیسرا واجب نمازطواف ہے ۔

یہ دو رکعت نماز ہے جو طواف کے بعد پڑھی جاتی ہے ۔ یہ نماز نماز فجرکی طرح ہے لیکن اسکی قرائت میں بلند آواز یاآہستہ سے پڑھنے میں اختیار ہے واجب ہے کہ یہ نماز مقا م ابراہیم کے قریب پڑھی جائے اور اظہر یہ ہے کہ مقام ابراہیم کے پیچھے پڑھنا ضروری ہے ۔ اگر مقام ابراہیم کے قریب پیچھے کی طرف پڑھنا ممکن نہ تو احوط یہ کہ جمع کرے یعنی مقا م ابراہیم کے کسی ایک طرف بھی نما ز پڑھے اور مقام ابراہیم کے پیچھے دور کھڑے ہوکر بھی نماز پڑھے ۔اگر جمع کرنا بھی ممکن نہ ہو تو ان دو جگہوں میں جہاں ممکن ہو وہاں پڑھے اور ان دو جگہوں پر بھی اگر ممکن نہ ہو تو احوط اولی یہ ہے کہ مقام ابراہیم کے پیچھے قریب نماز پڑھنا ممکن ہو جائے تو احو ط اولی یہ ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے ۔ یہ واجب طواف کا حکم ہے جب کہ مستحب طو اف میں مکلف کو حق ہے حتی کہ اختیاری طو ر پر بھی کہ مسجدمیں جس جگہ چاہے نماز پڑھے ۔

(۳۲۷)جو شخص جان بوجھ کر نماز طاف نہ پڑھے تو احوط یہ ہے کہ اس کاحج باطل ہے ۔

(۳۲۸)احوط یہ ہے کہ طواف کے بعد فورا نماز طواف پڑھی جائے یعنی عرفا طواف اور نماز طواف میں فاصلہ نہ ہو۔

(۳۲۹)اگر نماز طواف بھول جائے اور وہ اعمال جو ترتیب میں اسک ے بنعد ہیں مثلا سعی کے بعد اسے یاد آئے تو نماز طواف پڑھے اور جو اعمال انجام دے چکا ہو ان کا دوبارہ انجام دینا ضروری نہیں ہے اگر چہ تکرار کرنب احوط ہے ۔ لیکن اگر سعی کے دوران یاد آجائے تو سعی چھو ڑ کر مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھے اور پھر سعی کو جہاں سے چھوڑ اتھا وہاں سے شروع کرکے تمام کرے ۔اگر مکہ سے نکل جانیکے بعد یاد آئے تو اگر مشقت وزحمت کا باعث نہ ہو تو احوط یہ ہے کہ واپس جاکر نماز کو اس جگہ پر پڑھے ورنہ جہاں یاد آئے وہیں پڑھ لے ۔ حرم جاکرپڑھنا ضروری نہیں ہے خواہ لوٹنا ممکن ہو ۔ جو شخصمسلئلہ نہ جاننے کی وجہ سے نماز طواف نہ پڑھے اسک احکم وہ ہے جو نماز بھول جانے والے کا ہے اور جاہل قاصر و مقصر کے حکم میں فرق نہیں ہے ۔

(۳۳۰)اگر کوئی مر جائے اور اس پر نماز طواف واجب ہو اور قضا نمازو ں کے باب میں مذکورہ شرائط موجود ہوں تو اسکا بڑا بیٹا اسکی قضا انجام دے ۔

(۳۳۱)اگر نماز کی قرائت میں اعراب کی غلطی ہو اور وہ اس کی درستگی نہیں کر سکتاتو اس غلطی کے ساتھ سورہ حمد کا پڑھنا کافی ہے بشرطیکہ زیادہ مقدار اچھی قرائت کے ساتھ پڑھ سکتاہو ۔

لیکن اگر زیادہ قرائت درست قرائت درست قرائت کے ساتھ نہیں پڑھ سکتاتو احتیاط یہ ہے کہ اپنی اس قرائت کے ساتھ پورے قران میں جو درست قرائت کر سکتاہو قرا ئت کرے اورف اگر یہ ناممکن ہو تو تسبیحات پڑھے ۔

اگر وقت کی تنگی کی وجہ سے پوری قرائت درست نہیں کر سکتااسی زیادہ مقدار سدست کرسجتا ہو تو اسی کو پڑھے ۔ اگر اس کی بضع زیادہ مقدار بھی درست قرائت نہ کرسکے تو قرآن کی وہ آیات جن قرائت درست پڑھ سکتا ہے پڑھے مگر اتنا پڑھے کہ عرف می اسے قرآئت قرتآن کہ اجاسکے اور گر یہ بھی نہیں کرسکتا تو تسبیحا تکا پڑھنا کا فی ہے ۔ جو کچھ بیان ہو وہ سورہ حمد کے بارے میں اور سوررہ حمدکی بعد والی سورہ کے بارے میں ظاہر یہ ہے کہ جس شخص نے اسے یاد نہیں کیا یایاد نہیں کر سکتا اس پر واجب نہیں ہے اور مذکلورہ حکم اہر اس شخص کے لیے ہے جوصحیح قرآئت نہیں کر سکتا ہے ۔چاہے نہ سکیھنے میں ہی مقصر ہی کیوں نہ ہوں لیکن مقصر ہونے کی صورت میں احوط اولی یہ ہے کہ مذکورہ طریقاے سے نماز پڑھے اور جماعت کے ساتھ بھی پڑھے نیز اپنی طرف سے کسی کو نائب بنائے جو اسکی طرف سے نماز اداکرے ۔

(۳۳۲)اگر قرائت میں اعراب کو صحیح اد ا نہ کر سکتا ہو اور نہ جانننے نمیں معذورہو تو اسکی نماز صحیح ہوگیاور دوبارہ نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔اور اس پر بھول کر نماز طواف چھوڑ دینے والے کے احکا م جاری گا۔

سعی

عمرہ تمتع کا چو تھا واجب سعی ہے ۔

سعی کو قصد قربت اور خلوص سے ادا کرن امعتبر ہے ۔ شرمگاہ کو چھپانا یا حدث و خبث سے پاک ہو نا شرط نہیں تاہم بہتر یہ ہے کہ طہارت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔

(۳۳۳)سعی کو طواف افر نماز طواف کی بعد انجام دینا چاہے لہذا اگر کوئی طواف یا نماز طواف سے پہلے انجام دے تو طواف اور نماز کے بعد دوبارہ انجام دینا واجب ہے ۔ وہ شخص کو طواف بھول جائے اور اسے سعی کے بعد اسے یاد اسکا حکم بیان ہوچکا ہے ۔

(۳۳۴)سعی کی نیت میں یہ معین کرنا معتبر ہے کہ یہج عمرہ کی سعی ہے یا حج کی ۔

(۳۳۵)سعی میں سات چکرہیں ۔پہلاچکر صفا سے شروع ہو مروہ پر ہے جب کہ دوسر ا چکر مروہ سے شروع ہو کر صفاپر ختم ہوتاہے اورتیسراچکر پہلے چکر کی طرح ہوگااسی طرح چکروں کوشمار کیا جائے گا۔

یہا ں تک کہ ساتواں چکر مروہ کپر ختم ہو گا ہرچکر صفاومروہ کے درمیاں کا پوراراستہ طے کرنا معتبر ہے اور ان پہا ڑیوں پر چڑھنا واجب نہیں اگرچہ اولی اور حوط ہے ۔ اسی طرح احوط ہے کہ اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ حقیقت میں پورا راستہ طے کرتے ہوئے مروہ کے ابتدائی حصے تک جائے اور باقی چکر بھی اسطرح مکمل کرے ۔

(۳۳۶)اگر کوئی مروہ سے سعی شروع کرے چاہے بھولے سے شروع کرے پھر بھی جو چکر اس نے لگایا ہے وہ بیکار ہوگا اور ضروری ہے کہ سعی کو پھر سے شروع کرے ۔

(۳۳۷)سعی میں )یدل چلنا معتبر نہیں ہے بلکہ حیوان دیاکسی ور چیز پر سوار ہو کر بھی سعی کی جاسکتی ہے ۔لیکن افضل چلنا ہے ۔

(۳۳۸)سعی سے متعارف راستے سے آنا اورجانامعتبر ہے ۔لہذااگر کوئی غیر مترارف راستے سے مسجدالحرام یا کسی اورراستے سے جائے یا آیے تویہ کافی نہیں ہے ۔تاہم بالکل سیدھا یا جانا یا آنامعتبر نہیں ہے ۔

(۳۳۹)مروہ کی طرف جاتے ہوئے اورمروہ کی افر اور صفا کی طرف جاتے ہوئے صفا کی طرف رخ ہونا ضروری ہے ۔لہذااگر کوئی مروی کی طرف جاے ہوثئے پشت کرلے یا صفا طرف واپس آتے ہوئے صف اکی جانب پشت کرے تو یہ کافی نییں ہے لیکن آتے یا جاتے ہوئے دائیں بائیں یا طپیچھے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

(۳۴۰)احوط یہ ہے کہ طو اف کی طرح سعری میں بنھی موالات عرفی کو ملحوظ رکھا جائے تاہم صفا یا مروہ یا انکے درمیانی راستے میں آرام کے لیے بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اگرچہ احوط یہ ہے کہ صفا اور مروہ کے درمیان تھکنے کے علاوہ نہ بیٹھا جائے ۔اسی طوح سعی کو روک کر نماز افضل وقت میں پڑھنا اور نماز کے برد سعی جو دوبارہ ویہں سے شروع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔سعی کو کسی ضرورت کے بغیر کسی ضرورت کے لیے توڑنا بھی جائز ہے ۔لیکن اگفگر تسلسل خرم ہوجائے تو احوط یہ ہے کہ اس سعی کو بھی مکمل کرے اور دوبارہ بھی انجام دے ۔

احکام سعی ۔

سعی ارکان حج میں سے ایک رکن ہے لہذا اگر کوئی مسلئلہ نہ جانتے ہوئے یا خود سعی کے بارے میں علم نہ رکھنے کی وجہ سے جان بوجھ کر سعی کواس وقت تک ترک کردے کہ اعمال عمرہ کو عرفہ کے دن زوال آفتاب سے پہلے تک انجام دینا ممکن نہ ہو تو اسکا حج باطل ہے ۔اسکاحکم وہی ہے جو اس طرح طواف کو چھوڑ دینے والے کا حکمن ہے جوطواف کے باب میں بیان ہوچکاہے ۔

(۳۴۱)اگر بھول کر سعی چھوٹ جائے تو جب بھی یاد آئے خواہ اعمال حج سے فارغ ہونے کے بعد یاد آئے سعی ادا کی جائے اگر خواد ادا کرنا ممکن نمہ ہو یا حرج و مشقت و زحت جو تو کسی دوسرے کو سعی کے لیے نائب بنایاجائے اور دونوں صورتوں میں حج صحیح ہوگا ۔

(۳۴۲)جو شخص سعی کو اس کے وقت مقررہ پر انجام دینے پر قادر نہ ہو حعی ک کسی کی مدد سے بھی سعی نہ کر سکتاہو تو واجب ہے کہ کسی کی مدد طلب کرے تاکہ وہ دوسرت شخص اسے کندھوں پر اٹھاکر یایاکسی گاڑی وغریہ نیں بیٹھا کر سعی کرائے ۔اگر اسطرح سے بھی سعی نہ کر سکتاہو تو کسی کو سعی کے لیے نائب بنائے اور نائیب بنانے پر قادر نہ ہو مثلابیہوش ہو تو اسکا ولی یاکوئی ور شخص اسی جانب سے سعی انجام دے ،اس طرح اس کا حج صحیح ہو گا ۔

(۳۴۳)طواف اور نماز طواف سے فارغ ہونے کے بعد احتیاط کی بناء پر سعی میں جلدی کی جائے ۔ اگرچہ طاہر یہ ہے کہ رات تک تاخیر کرناجائز ہے ۔تاکہ تھکن دورہوجائے یاگرمی کی شدت کم ہوجائے ۔بلکہ اقوی یہ ہے کہ بغیرسبب کے بھی رات تک تاخیر کرناجائز ہے لیکن حالت اختیار میں اگلے دن تک تاخیر کرناجائز نہیں ہے ۔

سعی میں چکروں کے زیادہ ہونے ک وہی ہے جو طواف میں چکروں زیادہ ہونے کا ہے لہذ ا طواف کے بابب میں مذکورہ بیان کی مطابق سعی میں بھی جان بوجھ کرزیادتی کی جائے توسعی باطل ہو گی ۔ لکین اگ رمسلئکہ نہ جانتا ہو تو اظہریہ ہے کہ زیادتی کی وجہ سے سعی باطل نہیں ہو گی اگرچہ احوط یہ ہے کہ سعی دوبارہ انجام دی جائے ۔

(۳۴۵)اگر غلطی سے سعی میں اضافہ ہو جائے تو سعی صحیح ہوگی اور ایک چکر یا اس سے زیادہ اضافہ ہو تو مستحب یہ ہیکہ اس سعی کی بھی سات چکر پورے کیے جائیں تاکہ یہ پہلی سعی کے علاوہ مکمل سعی ہوجائے چنانچہ ا سکی سع کا اختتام صفاپر ہو گا۔

(۳۴۶)اگر کوئی جان بو جھ کر سعی کے چکروں کو کم یا زیادہ انجام دے جاہے مسئلہ جانتے ہوئے یانہ جانتے ہوئے تو اسکا حکم اس شخص کی حکم کی طرح ہے جو جان بوجھ کر سعی کو چھو ڑدے جس کا بیان پہلے ہوچکا ہے ۔ لیکن اگر بھول کر کمی ہوجائے تو اطحر یہ ہے کہ جب یاد آجائے تو اس وقت اس کمی کو پورا کرے چاہے وہ ایک چکر ہو یا ایک سے زیادہ چکر ہوں اگر سعی کا وقت ختم ہونے کے بعد یاد آئے مثلا عمرہ تمتمع کی سعری میں کم ی عرفات میں یہاد ؤآئے کیا حک کی سع ی من کمی جکی طرف ۔ماہ ذالحجہ گزرنے کے بعد متوجہ ہو تو یہ کہ کمی کو پور اکرنے کے بعد سعی کو بھی دوبارہ انجام دی جائے ۔ اگر خود انجام نہ دے سکتاہو یا خود انجام دینے میں زحمت و مشقت ہو تو کسی نائب بنانے اور احتیاط یہ ہی کہ نائب بھولے ہوئے چکر کا جبران بھی کرے سعی بھی دوبارہ انجام دے ۔

(۳۴۷)اگرکسی سے عمرہ تمتمع کی سعی میں بھول کر کمی ہوجاے اور یہ شخص یہ سمجھتے ہوئے کہ سع سے فارغ جوگیا ہے احرام کھو ل دے تو احوط یہ ہے کہ ایک گائے کفا رہ دے اوربیان شدہ تعرتیجب کے مطابق سعی کو مکمل کرے ۔

سعی میں شک

سعی کا موقع گزرنے کے بعد اگر رسعی کے چکروں کی تعداد یا انکے صحیح ہونے کی بارے میں شک ہوتو اس شک کی پرواہ نہ کی جائے مثلاعمرہ تمتع میں تقصیر کے بعد سرعی کے چکروں کی تعداد یا صحیح ہونے کا شک یا حج میں طواف النساء شروع ہونے کے بعرد شک ہوتو اس شک ی پرواہ نہ کی جائے ۔ اگر سعی سے فارغ ہونے کے بعد ہی چکروں کے زیادہ ہونے کے بارے میں شک ہو تو سعی کو صحیحح سمجھاجائے ۔ اگر چکروں کے کم ہونے کا شک تسلسل ختم ہونے سے پہلے ہوتو سعی باطل ہو گی بلکہ احتیاط کی بناپر تسلسل ختم ہونے کے بعد شک ہو تب بھی سعی باطل ہو گی ۔

(۳۴۸)اگر چکر کے اختتام پر زیادہ ہونے کا شک ہو مثلا مروہ پہنچ کر شک ہو کہ یہ ساتواں چکر تھا یا نواں تو اس شک کی پرواہ نہ کی جائے اور یہ سعی صحیح ہوگی ۔اگر چکرکے دوران یہ شک ہو تو سعی باطل ہے اور واجب ہے کہ سعی پھر سے شروع کی جائے ۔

(۳۴۹)سعی کے دوران شک کا حکم وہی ہے جو طواف کے دوران چکروں کی تعداد میں شک کا حکم ہای چنانچہ سعی کے دوران چکرواں کی تعرداد کی شک سے ہر صورت میں سعی باطل ہے ۔

تقصیر

عمرہ تمتع میں پانچوان واجب تقصیر ہے ۔

تقصیر میں قصد قربت اور خلوص معتبر ہے تقصیر کا مطلب یہ ہے کہ حاکی اپنے سر، داڑھی یامونچھوں کے کچھ بال کاٹے ۔اظہر یہ ہے کہ کاٹنے کی بجائے نوچنا کافی نہیں ہے ۔ فقہاء کے درمیان مشہور ہے کہ ہگااتھ پاؤں کا کوہئیناخن کاٹنے سے بھی تقصیر وجود میں آجاتی ہے لیکن احؤط یہ ہے کہ ناخن کاتنے کو کافی نئہ سججھا جائے ورف اور بال کاٹنے تک اسکو کاٹنے میں تاخیرکی جائے ۔

(۳۵۰)عمرہ تمتع کے احرام کو صرف تقصیر ہی کے ذریعے کھولاجاسکتاہے ۔ سر منڈوانا کافی نہیں ہے بلکہ سر منڈوانا حرام ہے لہذ اکوئی جان بثجھ کر سر مونڈھ لے تو ضوفر ی ہے کہ ایک بکری کفارہ دے بلکہ احوط اولی یہ ہے کہ چاہے جان بوجھ کر نہ بھی مونڈھے تب بھی کفارہ دے ۔

(۳۵۱)اگر کوئی سعی کے بعد اور تقصیرسے پہلے اپنی بیوی ساتھ جان بوجھ کر ہمبستری کرے تو ایک اونٹ کفارہ دے جیسا کہ تروک احرام کی بحث میں بیان ہو ا۔لیکن حکم شرعی نہ جانتے ہوئے یہ فعل انجام دے تو اظہر یہ ہے کہ اس پر کفارہ واجب نہیں ہوگا ۔

(۳۵۲)تقصیر کو سعی کے بعد انجام دینا چاہے لہذ اسعی ک ومکمل ہونے سے پہلی تقصیر اانجام دینا جائز ہے ۔

(۳۵۳)سعی کے بعد تقصیر فوراانجام دیناواجب نہیں اور جائز ہے کہ تقصیر کو کسی بھی جگہ انجام دے خواہ سعی کی جگہ پر یا اپنے گھر میں یا کسی اور جگہ ۔

(۳۵۴)اگر کوئی جان بوجھ کر تقصیر چھوڑ دے اور پھر حج کی لیے حرام باندھ لے تو ظاہر ہے کہ اسک اعمرہ باطل ہو جائے گا اور اس کا حج ،حج افراد میں تبدیل ہوجائے لہذ ا اگر حج کے بعد اگر ممکن ہو ت عمرہ مفردہ کرے اور احوط یہ ہے کہ اگلے سال دوبارہ حج انجام دے ۔

(۳۵۵)جب عمرہ تمتع میں محرم شخص تقصیر انجام دے تو جو چیزیں احرم ی وجہ سے حرام ہوئے تھیں حلال ہوجائیں گی حتی کہ اظہر یہ ہے کہ سر منڈوانا بھی حلال ہوجائے گا اگرجہ احوط یہ ہے کہ عید الفطر سے تیس دن گزرنے تک سر مونڈنے سے اجتناب کرے ۔ اگر کوئی یہ جانتے ہوئے بھی عمد اسر مونڈھے تو احوط اولی یہ ہی خہ ایک قربانی کفارہ دے ۔

(۳۵۷)عمرہ تمتع میں طو اف النساء واجب نہیں ہے کیکن رجا کیا جاسکتاہے ۔

احرام حج

پہلے بیان ہوچکا ہگے کہ حج کے واسجبات تیرہ ہیں جن کا اجمالا ذکر کیاگیا اور اب ان کی تفصیل بیان کی جارہی ہے ۔

۔احرام ۔

احرام ِ حج کا اول وقت ترویہ کی دن (۸ ذی الحجہ )زوال کا وقت ہے ۔ تاہم بوڑھے او ربیمارشخص کو جب ہجوم کاخوف ہو تو ان کے لیے جائز ہے کہ ترویہ کے دن سے پجلے دوسرے لوگوں کے نکلنے سے پہلے احرام باندھ کر مکہ سی نکل جائیں ۔اسی طرح وہ شخص جس کی لیے طواف حج ک ودو وقوف سے پہلے انجام دیناجائز ہے ۔ مثلاوہ عورت جسے حیض کا خوف ہوتو اس کے لیے بھی پہلے احرام باندھنا جائز ہے ۔ پہلے بیان ہو چکاہے ۔کہ عمرہ تمتع سے فارغ ہونے کے بعد کسی وقت بھی حج کے احرام میں مکہ سے کسی کام کے لیے باہرجانا جائز ہے مذکورہ موقعوں کے علاوہ بھی تین دن پہلے بلکہ اظہر یہ ہی کہ تین دن سے پہلے بھی احرام باندھنا جائز ہے ۔

(۳۹۸)جسطرح عمرہ تمتع کرنے والے کے لیے تقصیر سے پہلے حج کے لیے ہرام بناندھنا جائز نہیں ہے اسی طرح حج رنے والے کی لیے ہبھی حج کے احرام کو اتارنے سے پہلے عمرہ مفردہ کے لیے احرام باندھناجائز بہیں ہے حاجی پر طواف النساء کی علاوہ کچھ باقی نہ رہا ہو تب بھی بنابر احوط احتیاط حجاک ہرام اتارنے سے پہلے عمرہ مفردہ کا حرام نہیں باندھ سکتا۔

(۳۵۹)جو شخص اختیاری طور پر یوم عرفہ کی وقوف کا پوار وقت عرفہ میں حاصل کرسکتاہو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ احرام باندھنے مجین اتنی دیر کرے کہ پھر عرفہ کے وقوف کا وقت پورا حاصل نہ کرسکے ۔

(۳۶۰)حج اور عمرہ کے اہرام کے طریقہ واجنبات اورمحرمات ایک ہی ہے صرف نیت کا فرق ہے ۔واجب ہے ۔

(۳۶۱)واجب ہے کہ احرام مکہ سے باندھاجائے جیساکہ میقاتوں کی بحث میں بیان ہو ا۔ احرام باندھنے سب سے افضل جگہ مسجد الحرام ہے ۔اور مستحب ہے کہ مقام ابراہیم یا حجر اسمعیل میں دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد احران باندھا جائے ۔

(۳۶۲)جو شخص بھول کر یاحکم شرعی نہ جاننے کی وجہ سے حرام کو چھو ڑدے یہاں تک کہ مکہ سے باہر چلاجائے پھر اسے یاد آئے یامسئلہ کا پتہ چلے تو اس پر مکہ واپس جانا واجب ہے خواہ عرفات سے واپس جانا پڑے اور پھر مکہ سے احرام باندھے ۔ اگر وقت تنگ ہونے یاکسی اور وجہ سے واپس نہ جاسکتاہوتو جہاں ہو وہیں سے احرام باندھ لے ۔یہی حکم ہے جب وقوف عرفات کے بعد یاد آئے یا مسئلہ پتہ چلے خواہ مکہ واپس جانااور وہاں سے احرام باندھا ممکن ہو اگر یادہی نہ آئے یامسئلہ ہی پتہ نہ چلے یہاں تک کہ حج سے فارغ ہو جائے تو حج صحیح ہو گا ۔

(۳۶۲)اگر کوئی احرم کو واجب جانتے ہوئے جانب بوجھ کر چھوڑ دے یہاں رک ہ عرفات میں وقوف کا وقت نھی اسکی وجہ سے ختم ہو جائے تو اس کا حج باطل ہو گا ۔لیکن اگروقوف ۔۔جوکہ رکن ہے ۔۔کہ ختم ہونے سے پہلے احرام کا جبران کرلے تو اگرچہ گنہگار ہو گا تاہم اس کا حج باطل نہیں ہو گا۔

(۳۶۴)احتیاط یہ ہے کہ حج تمتع کرنے وال اشخص حج کا حرام باندھنے کے بعد او عرفات سے نکلنے سے پہلے مستحب طواف نہ کرعے اور افگر کوئہے مستحب طواف کرے تو احو ط اولی یہ ہے کہ طواف کے بعد دوبارہ تلبیہ کہے ۔

وقوف عرفات

حج تمتع کے واجبات میں دوسرا واجب وقوف عرفات ہے ۔ جسے قربة الی اللہ اور خلوص نیت سے انجام دینا چاہیے ۔وقوف عرفات سے مراد یہ ہے کہ حاجی عرفات میں موجود ہواس سے فرق نہیں پڑتاسواری کی حالت میں ہو پیادہ ،متحرک ہو یاحالت سکون میں ۔

(۳۶۵)میدان عرفات کی حدود عرنہ ،ثوبہ اور نمرہ کے میدان سے ذی المجاز تک اور مازین کے آخر موقف (وقوف کی جگہ )تک ہے ۔ البتہ یہ خود حدود عرفات ہیں اور وقوف کی جگہ سے خارج ہے ۔

(۳۶۶)ظاہر یہ ہے کہ رحمت نامی پہاڑی وقوف کی جگہ میں شامل ہے لیکن پہاڑی کے دامن میں بائیں جانب قیام کرنا افضل ہے۔

(۳۶۷)وقوف میں معتبر یہ ہے کہ وہاں سے رہنے کی نیت سے ٹھہرے پس اگر حاجی اول وقت میں وہاں ٹھہرنے کی نیت کرے مثلاآخر تک سوتا رہے یا بیہوش رہے تو یہ کافی ہے ۔لیکن اگر نیت سے پہلے سوتارہے یابہوش رہے تو وقو ف ثابت نہیں ہو گا۔اسی طرح اگر وقوف کی نیت کرکے وقوف کا پورا وقت سوتا رہے یابیہوش رہے تو اس وقوف کے کافی ہونے میں اشکا ل ہے ۔

(۳۶۸)واجب ہے کہ نویں ذی الحجہ کوعرفات میں حاضر ہو اور بنا بر احتیاط زوالِ آفتاب کی ابتدا سے غروب تک وہاں رہے اظہر یہ ہے کہ زوال سے اتنی دیر تاخیر کرسکتاہے کہ غسل کرکے ظہر و عصر کی نماز ملا کر پڑھ لے ۔اگرچہ اس پوارے وقرت میں وہاں رہنا واجب ہے اور کوئی جان بوجھ کر چھوڑ ے تو گنہگار ہوگا مگر یہ کہ یہ رکن نہیں ہے ۔یعنی اگر وقوف کے وقت اگر کچھ مقدار چھوڑ دے تواسکاحج باطل نہیں ہو گا ۔تاہم اگرکوئی اختیار پورا وقوف چھوڑ دے تو اسکا حج باطل ہوجائے گا۔لہذا وقوف میں سے جو رکن ہے وہ فی الجملہ (یعنی کچھ مقدار قیام )رکن ہے (نہ کہ پوراوقوف)۔

(۳۶۹)اگر کوئی شخص بھو ل کر یا لاعلمی کی وجہ سے کسی اور عذر کی وجہ سے عرفات کے اختیاری قیام (دن میں قیام )کو حاصل نہ کرسکے تو اسکے لیے وقوف اضطراری ہے ۔۔۔شب عید ضروری ہے اور اسک احج صحیحح ہوگااور اگر جان بوجھ کر وقوف اضطراری کو چھوڑ دے تو حج باطل ہو جائیگا ۔یہ حکم اس وقت ہے کہ جب اسکے لیے وقوف اضطراری کو اس طرح سے حاصل کرنا ممکن ہو کہ اس کی وجہ سے طلوع آفتاب سے پہلے وقوف معشر ختم نہ ہوتاہو ۔لیکن اگر عرفات میں وقوف اضطراری سے وقت مقررہ وقوف معشر کے ختم ہونے کا خوف ہو تو صرف وقوف معشر پر اکتفا کرناواجب ہے اور اسک احج صحیح ہو گا۔

(۳۷۰)جاب بوجھ کر غروب آفتاب سے پہلے عرفات سے باہر جانا حرام ہے لیکن اس کی وجہ سے حج باطل نہیں ہوتاچنانچہ اگر کوئی جاکر واپس آجائے تو اسکا کفارہ واجب نہیں ہے ورنہ ایک اونٹ کفارہ واجب ہو گا ۔جسے عید دن قربان کے دن نحر کرے ۔ اہوط یہ ہے کہ اونٹ کو منی جین اربان کرے نہ کہ مکہ میں اگرقربانی کرناممکن نہ ہو تو مکہ میں یاراستے میں یاگھر واپس آکر اٹھارہ روزے رکھے ۔احوج اولی یہ ہے کہ روزے پے در پے رکھے یہی حکم اس شخص کیلیے ہے بھی ہے جہو بھول کرف یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے عرفات سے باہر نکلے ۔لہذ اجب بھی اسے یاد آئیے یا مسئلہ پتہ چلے اس پر عرفات میں واپس جابن اواجب ہے او اگر واپس نہ جائے تو احوط یہ ہے کہ کفارہ دے ۔

(۳۷۱)چونکہ حج کے بعض اعمال مثلاوقوف عرفات و مشعر ،فمی جمرات اور منی میں رات گزارنے کے لیے دن او رات مخصوص ہیں تو مکلف کا وظیفہ یہہے کہ وہ اس مہینے کے چاندکے بارے میں تحقیق کرے تاکہ اعمال حج کو ان کے مخصوص دن یارات میں ادا کر سکے ۔جب ان مقدس مقامات کے قاضی کے نزدیک چاند ثابت ہوجائے اور وہ اسکے مطابق حکم کرے ،جب کہ چاند کا ثابت ہو ان قوقانین شرعیہ کے مطابق نہ ہو تو بعض فقہاء نی کہا ہے کہ قاضی خ ہکم اس شخص کی لیے حجت ہے افور قابل عمل ہے جسے احتما ل ہو کہ یہ حکم واقع کے مطابق ہے لہذ ااس مکلف کیلیے ضروری ہے کہ وہ اس حکم کی اتباع کرے اور چاند کے ثابت ہونے کی اثار سے مربوط حج کے اعمال مثلاوقوف عرفات و مشعراورمنی میں رات گزراناوغیرہ کو حکم کے مطابق انجام دے چنانچہ اگر اس نے حکم کے مطابق عمل کیا تو اسکا حج صحیح ہوگا ورنہ باطل ہو گا ۔ بعض فقہاء نے یہاں تک فرمایا ہے کہ تقیہ کے سبب اس وقت قاضی کی حکم کی اتباع کرنا کافی ہے جب حکم کے واقع کے مطابق ہونے کا احتمال نہ ہو لیکن چونکہ دونوں قول انتہائی مشکل ہیں لہذ ااگر مکلف کے لیے اعمال حج کو انکے شریعی طریقے سے ثابت شدہ وقت خاص میں انجام دینا ممکن ہو اوروہ انجام دے تو بنا بر اظہر اسکا حج مطلقا صحیح ہوگا ۔ لیکن اگر اعمال حج کو کسی بھی عذ ر کی وجہ سے اس طرح انجام نہ دے اور وقوفین میں قاضی کی حکم کی پیروی بھی نہ کرے تو اس کا حج باطل ہونے میں کوئے شک نہیں ہے ۔اگر قاضی کے حکم کی اتباع کرے تو اس کا حج صحیح ہونے میں اشکال ہے ۔

وقوفِ مزدلفہ (مشعر)

حج تمتع کے واجبات میں سے تیسرا واجب وقوف مزدلفہ ہے ۔ مزدلفہ اس جگہ کا نام ہے جسے مشعر الحرام کہتہے ہیں اس موقوف کی حدود مازمیں سے حیاض اوروادی مہسیرتک ہیں یہ مقامات موقوف کی حدود ہیں ۔ خود وقوف کی جگہ میں شا مل نہیں ہیں ۔سوائے اس وقت کے جب ہجوم زیادہ ہو او ر وقوف کی جگہ تنگ ہورہی ہو تو اس وقت جائز ہے کہ مازین کی طرف سے اوپر جائیں (مازمیں عرفات اور مشعر الحرام کی درمیان ایک گھاٹی کا نام ہے )۔

(۳۷۲)حج کرنے والے پر عرفات سے نکلے کے بعد واجب ہے کہ شب عید سے صبح تک کچھ وقت مزدلفہ میں قیام کرے احوط یہ ہے کہ مزدلفہ میں طلوع آفتاب تک رہے ۔اگر چہ اظہر یہ ہے کہ مزدلفہ سے وادی مہسر جانے کے لیے طلوع سے کچھ پہلے نکلنا جائز ہے تاہم وادی مہسر سے منیٰ کی طرف طلو ع آفتاب سے پہلے جاناجائز نہیں ہے ۔

(۳۷۳)مذکورہ تمام وقت اختیاریطو ر پر مزدلفہ میں رہنا واجب ہے ۔ مگر یہ کہ وقوف ومیں سے جو رکن ہے وہ کچھ مقدار میں ٹھہرناہے چنانچہ اگرکوئی شب عید کا کچھ حصہ مزدلفہ میں ررہے پھر وہاں سے طلوع آفتاب سے پہلے نکل جائے تو اظہر یہ ہے کہ اس کا حج صحیح ہو گا۔لیکن اگر مسئلہ جانتے ہوئے نکلے تو اس پر ایک بکری کفارہ وہوگی ۔اور مسئلہ نہ جانتے ہوئے نکلے تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے ۔ اس طرح اگرطلوع فجرو طلوع آفتابکے درمیان کچھ مقدار مزدلفہ میں رہے اور کچھ مقدار نہ رہے خواہ جان بوجھ کرنہ رہاہو اس کا حج صحیح ہے اور کفارہ بھی واجب نہیں ہے اگرچہ کہ گنہگار ہوگا۔

(۳۷۴)مزدلفہ میں وقت مقررہ میں وقوف (قیام کرنا)واجب ہے اس حکم سے بعض افراد مثلاخائف عورتیں ،بچے ،بوڑھے اورمریض جیسے کمزورلوگ اور وہ لوگ جو ان افرادکے امور کی سرپرستی کرتے ہوں مستثنیٰ ہیں لہذ ا ان افراد کے لیے شب عید مزدلفہ میں رہنے کے بعد طلوع فجر سے پہلے منی کے لیے روانہ ہو نا جائز ہے۔

(۳۷۵)وقوف مزدلفہ کے لیے قصد قربت اور خلوص نیت معتبرہیں یہ بھی معتبر ہے کہ ارادے و اختیارسے وہاں رہے جیسا کہ وقوف عرفات میں بیان ہو چکا ہے

۔(۳۷۶)جو شخص مزدلفہ میں وقوف اختیاری (شب عید سے طلوع آفتاب تک رہنا )بھولنے یا کسی اور وجہ سے حاصل نہ کرسکے تو وقوف اضطراری عید کے دن طلوع آفتاب سے زوال کے درمیان کچھ دیروہاں رہنا کافی ہو گا۔اگر کوئی وقوف اضطراری کو جان بوچھ کردے تو اس کا حج باطل ہو گا

دونوں یا کسی ایک وقوف کو حا صل کر نا

پہلے بیان ہو چکا ہے لہ وقوف اور وقوف مزدلفہ میں سے ہر ایک کی دو قسیں ہیں وقوف اختیاری اور وقوف اضطراری اگر مکلف دونمو وقوف اختیاری حاصل کرے تب رو کوہی اشکال نہیں ہے اور اگر وقوف احتیاری کسی عزر کی وجاہ سے حاصل نہ کر دکے تو اس کی چند صورتیں ہیں

۱۔ دونوں وقوف کے اخریاری و اضطراری میں سے کوئی حاصل نہ ہو تو حج واطل یوگا اور واجب ہے لہ اس حج لے احرام سے عمرہ مفردہ انجام ،دیا جاہے اگر یہ حج حج الاسلام تھا رو واجب ہے کہ اگر استطاعت باقی ہو یاحج اس کے ذمہ ثابت و واجب ہو چکا ہو تو آہندہ سال دوبرہ حج کرے

۲ عرفات جا وقوف اختیاری اور مزدلفہ کا وقوف اضطراتی حاصل ہو

۳ ۔عت فات کا وقوف اضطراتی اور مزدلفہ لا ورف اختیاری حا صل ہو درج والا دونوں صورتوں میں بلا اشکال حج صحیح ہے

۴ عرفات کا وقوف اضطراری حاصل ہوں تو اظہر یہ ہے لہ حج صحیح ہے اگر چہ احوط طج ہے لہ اگلے سال دوبرہ حج لیا جاے جیسا کہ پہلی صورت میں ذلر ہوا

۵ ۔ صرف مزدلفہ دوونں کے وقوف اضطرارے حصال ہو تو حج صحیح ہے

۶ ۔ صرف مزدلفہ کا وقوف اضطراری حاصل تو اظہر ین ہے کہ حج باطل ہو جاے گا اور عمرہ مفردہ میں تبدیل ہو جاے گا

۷۔ صرف عتفات کا وقوف اختیاری حاصل ہر تو اظوہر یہ ہے کہ حج باطل ہو جاے گا اور عمرہ مفردہ میں تبودیل ہو جاے گا اس حکم سے یہ موتد مستثنی ہے لہ جب حاجی مزدلفہ کے وقت اختیاری میں منی جاتے ہوے مزدلفہ سے گزتے لیکن مسلہ نہ جانے کی وجہ سے وہاں قیام کی نیت نہ کرے تو اگر وہاں سے گزرتے ہوے یزلر خدا کیا ہو تو بعید نہیں ہء کہ اس کا حج صحیح ہو

۸ ۔ صرف عففات کا وقوف اصطراری حاصل ہو ا ہو تو اس کا حج بواطل ہو گا الور عمرہ مفردہ میں تبدیل ہو جاہے گا

منی اور اس کے واجبات

حاجی پر واجب ہے لہ وقوف مزدلکہ کے وعد منی جانےء کے لیے نکلے تاکہ وہ اعمال جو منیٰ میں واجب ہیں انہیں انجام دے سکے اور یہ تین اعمال ہیں جنکی تفصیل درج ذیال ہے

رمی جمراہ عقبہ(جمرہ عقبہ کو کنکر مارنا)

واجبات حج میں سے چوتھاواجب عید قربان کے دن جمرہ عقبہ کو کنکر مارن اہے اس میں چنبد چیزیں معتبرہیں ۔

۱۔قصدقربت اورخلوص نیت ۔

۲۔رمی سات کنکرں سے ہو ،اس سے کم کافی نہیں اسی طرح کنکروں کے علاوہ کسی ور چیز سے مارناکافی نہیں ہے ۔

۳۔ایک ایک کر کے سا ت کنکرمارے جائیں چنانچہ ایک ہی مرتبہ میں دویازیادہ کنکر مارناکافی نہیں ہے ۔

۴۔جو کنکر جمرہ تک پہنچے وہ ی شمار ہوگا چنانچہ جو کنکر جمرہ تج نہ پہنچے وہ شمار نہیں ہو گا۔

۵۔کنکر پھینکنے کی وجہ سے جمرہ تک پہنچے ،چنانچہ جمرہ پر رکھ دینا کافی نہیں ہے ۔

۶۔کنکر کو پھیکنا اور جمرہ تک پہنچنا ہاجی کے پھینکنے کی وجہ سے ہو چنانچہ اگر کنکر حاجی کے ہاتھ میں اور حیوان یا کسی ور انسان کے ٹکرانے کی وجہ سے کنکر جمرہ کو لگ جائیے تو یہکافی نہیں ہے اسی طرح اگر حاجی کنکر پھینکے اور وہ حیوان یا کسی انسانپر جاکرے اوراس کے حرکت کرنے کے وجہ سے جمرہ کو لگ جائے تو کافی نہیں ہے ۔ لیکن کنکر اپنے راستے میں کسی چیز کو لگ کر پھر جمرہ کو لگے مثلا کنکر سخت زمیں کو لگ کر پھر جمرہ کو لگے تو ظاہر یہ ہے کہ یہ کافی ہے ۔

۷۔رمی ہاتھ سے کرے پس اگر منہ سے یاپاؤں سے کرے تو کافی نہیں ہے اسی طرح ہوط یہ ہے جہ کسی آلے سے مثلا غلیل وغیرہ کے ذریعے سے رمی کرنا کافی نہیں ہے ۔

۸۔رمی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب ک درمیان ہو ،تاہم عورتیں او وہ تمام افراد جن کے لیے مشعر سے رات نکلنا جائیز ہے شب عید رمی کر سکتے ہیں ۔

(۳۷۷)کنکروں میں دو چیزیں معتبر ہیں ۔

۱۔اگرکسی کو کنکر لگنے میں شک ہو تو وہ سمجھے کہ نہیچ لگا سوائے اس کے کہ شک موقع گزرنے ک بعد ہو مثلا قربانی کے بعد یا حلق کے بعد یا رات شروع ہونے کے بعد شک ہو ۔

(۳۷۸)کنکروں میں دو چیزیں معتبر ہیں ۔

۱۔کنکروں کو حرم کی حدود سے سوائے مسجدالحرام اور مسجد الخیف کے اٹھائیں جائیں افضل یہ ہیں کہ مشعر سے اٹھا یا جائے ۔

۲۔ نابر احتیاط کنکر پہلے سے استعمال شدہ نہ ہوں یعنی کنکروں کو پہلے رمی کے لے یا استعمال نہ کیا گیاہومستحب ہے کہ کنکر رنگدار ،نقطہ دار اور نرم ہوں نیز حم کی لاحاظ سے انگی کے پور کے برابر ہوں جسے رمی کر نے والا کثڑا ہو کر اور ب اطہارت ہو کر م کرے

۳۷۹۔ اگر جمرہ کی لمبا ئی کو بڑھایا جائے اور اس زائد مقدار پر رمی کے کافی ہونے میں اشکال ہے احوط یہ ہے کہ جمرہ کی پہلے ہو مقدار تھی اسی پر رمی کی جائے اگر پرانی مقدار پر رمی کرنا ممکن نہ ہو تو خود زائد مقدار پر رمی کی جائے اور پرانی مقدپر پر لومی کرنے کے لئے کسی کو ن بھی بنانا جائے اس مسئلہ میں مسئلہ جاننے اور نہ جاننے والے اور بثول جانے والے مکیں فرق نہیں ہے

۳۸۰۔ اگر کوئی بھولنے یا مسئلہ نہ جاننے یا کسی اور وجہ سذے عید کے دن رمی یہ کرے تو جب یاد آئے یا عذر دور ہو جائے تو رمی انجام دے اگر یہ عذر رات میں دور ہو تو ضروری ہے کہ دن تک تاخیر کرے جس جس کا بیجن جمروں کی رمی کی بحث میں آئے گا ظاہر یہ ہے کہ عذر دور ہونے کے بعد جبران کرنا اسوقت واجب ہے جب حا جی منی میں بلکہ مکہ میں ہو حتی کہ اگر عذر وسبب تیرہویں ذی الحجہ کے بعد دورہو اگر چہ احوط یہ ہے کہ اس صورت میں رمی جکو آئندہ سال خود یا نائب کے ذریعے دوبرہ انجام دے اگر مکہ دے نکلنے کے بعد عذر زائل ہو تو مکہ واپس جانا واجب نہیں ہے بلکہ احوط اولَی یہ ہے کہ آئندہ سال خود یا نا ئب کے ذریعے رمی انجام دے

۳۸۱۔اگر کوئی بھول جانے جا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے عید کے دن رمی نہ کرے پھر اسے طواف کے بعدیاد آئے یا مسلہ پتہ چلے اور وہ رمی انجام دے تو دوبرہ طواف کرنا واجب نہیں ہے تاہم احتیاط یہ ہے کہ اسے دوبارہ انجام دے اور اگر رمی کو بھولنے یا مسلہ نہ جاننے کے علاوہ کسی اور وجہ دے چھوڑا ہو تو ظاہر یہ ہے کہ اس کا طواف باطل ہو گا لہذا رمی لرنے کے بعد طواف کو دوبارہ انجام دینا واجب ہے

منی میں قربانی

قربانی کرنا حج تمتع کے واجبات میں سے پانچواں واجب ہے اس میں قصد قربت اور خلوص معتبرہے قربانی یوم عید سے پہلَے نہ لرے سوائے اس شخص کے جسے خوف ہو چنا چہ خائف شخص کیَلئے شب عید قربانی کرنا جائز ہے احتیاطی کی بانئگ رپ قربانی رمی کی بعد کرنا واجہب ہے لیکنا گر کوئی بھول کر ای مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے قربانی رمی سے پہلے کرے تو اس کی قربانی صحیح ہو گیا ور دوبارہ کرنا ضروری نہیں ہے واجہ ہے کہ قربانی منی میں ہو تاہما گر حاجیوں کے زایدہ ہونیا ور جگہ کم ہونے کی وجہ سے منی میں قربانی کرنا ممکن نہ ہو توبعید نہیں ہے کہ وادی محسر میں قربانی کرنا جائز ہو اگرچہ احوط یہ ہے کہ ایام تشریق (۱۱’۱۲‘۱۳ذی الحجہ ) کے آخر تک منی میں قربانی نہ کر سکنے کا جب تک یقین نہ ہو اس وقت تک وادی محسر میں قربابی نہ کی جائے ۔

۳۸۲۔ احتیاط یہ ہہے کہ قربانی عید قربان کے دن ہو اگرچہا قوای یہ ہے کہ قربانی کو ایام تشریق کے آخر تک تاخیر کرنا جائز ہے احتیاط یہ ہے کہر ات حتی کہ ایام تشریق کے آخر تک تاخیر کرنا جائز ہے احتیاط یہ ہے کہ رات حتی کہ ایام تشریق کی درماینی راتوں میں بھی قربانی نہ کی جائے سوائے اس شخص کے جسے خوف ہو ۔

۳۸۳۔ اگر مستقل طور پر قربانی کرنے رپ قدر ہو تو ایک قربانی ایک شخص سے کفایت کرے گی اور اگر اکیلا شخص قربانی پر قادر نہ ہو تو اس کا حکم مسئلہ ۳۹۶ میں آئے گا ۔

( ۳۸۴)۔ واجب ہے کہ قربانی کا جانور اونٹ گائے یا بکری وغیرہ ہو اونٹ کا فی ہو گا جب وہ پانچ سال مکمل کرکے چھٹے سال داخل ہو چکاہو ،گاےٴ اوربکری بنا بر احوط اس وقت کافی ہوں گے جب دو سال مکمل کرکے تیسرے سال میں داخل ہوچکے ہوں اوردنبہ اس وقت کافی ہوگا جب سات مہینے پورے کر کے آٹھویں مہینے میں ڈاخل ہو جائے ۔اگر قربانی ککرنے کے بعد پتہ چلے کہ جانور مقررہ عمر سے چھوٹاتھا تو کافی نییں ہوگا اور قرابنی دوبارہ کرنی پڑے گی قربانی کے جانور کا سالم الاعضا ہونا مرتتبر ہجیے چنانچہ کانا لنگڑ ا،کان کٹآ یا اند دسے سینگ ٹؤٹا ہواہو تو کافی نیں یے اپہجر جج ہظ ہخصجی جانوربھی کافی نہیں ہے ،سوائے اس کے کہ غیر خصی جانور نہ مل رہاہو معتبر ہے کہ جانور عرفا کمزور نہ ہو اور ا حوط اولی یہ ہہے کہ مریض یا ایسا جانور جسکے بیضتیں (انڈے )کی رگیں یا خو ر بیضتیں دبائے ہوئے نہہوں ۔اتنا بوڑھا بھی نہ ہو کہ اسکا بھیجا ہینہ ہو للیکن اگر اسکے کاب چیر ے ہوئے یئا سوراخ والے ہوں تو کوئے حرج نہیں ہے ۔ اگرچہ احوط یہ ہے کہ یہ بھی سالم ہو ۔ احوط اوللی یہ ہے کہ قربانی کا جانور پیدائشی طور پر سینگ و بغیر دم والا نہو ۔

(۳۸۵)اگر کوئی قربانی کا جانور صیح وسالم سمجھ کر خریدے اور قمیت دینے کے بعرد عیب دار ثابت ہو تو طاہر ہے کہ اس جانورکو کافی سمجھنا جائز ہے ۔

(۳۸۶)اگر قربانی کے دنوں (عید کا دن اور ایام تشریق )میں شرائط ولاکوئیے جانور (مثلا اونٹ گائے و بکری وغیرہ )نہ ملے تو احوط یہ ہے کہ جمع کرے یعنی جانور مل رہاہو اسے ذبح کرے اور قربانی کی بدلے روزے بھی رکھے یہی حکم اس وقت بھی ہے جب اس کے پاس فاقد الشرائط جانور(جسمیں پور شرائط نہ پائی جائیں ) کے پیسے ہوں ۔اگر باقی ماہ ذی الحجہ میں شرائط والا جانور ممکن ہو تو احوط یہ ہے کہ دو چیزوں (فاقد الشرائط جانور کی قربانی کے بدلے روزے )کے ساتھ اس کو ملائے ۔

(۳۸۷)اگر جانور کو موٹا سمجھ کر خرید اجائی اور بعدمیں وہ کمزور نکلے تو یہی جانور کافی ہے خواہ قربانی سے پہلے پتہ جَے یا بعدمیں لیکن اگر خود اسکے پاس مثلا دنبہ ہو اور اس گمان سے یہ موٹا ہے ذبح کری مگر بعد میں پتہ چلے کہ وہ کمزور تھا تو احوط یہ ہے یہ قربانی کافی نہیں ہوگی ۔

(۳۸۸)اگر جانور ذبح کرنے کے بعد شک ہو کہ جانور شرائط والاتھا یا نہیں تو اسکا شک کی پرواہ نہ کی جائے اگر ذبح کے بعد شک ہوکہ قربانی منی میں کی ہے یا کسی ارو جگہ تو اس جگہ تو اسکا بھی یہیحکم ہے لیکن اگرخود ذبح کرنے میں شک ہو کہ ذبح کیا بھی تھ اکہ نہیں تو اگر موقع گزرنے کے بعد حلق یاتقصیر کے بعد شک ہو تو اس شک کی پرواہ نہ کی جائے اگر موقع گزرنے سے پہلے ہی شک ہو تو قربانی کرنی ہو گی ۔اگرجانور کے کمزور ہونے کے بارے میں شک ہواورقصد قربت کے ساتھ ا س امید پر کہ جانور ذبح کی اجائے کہ کمزور نہیں ہے اور ذبح کرنے کے بعد پتہ چلے کہ واقعی کمزور نہیں تھا تو ایہ قربانی کافی ہوگی ۔

(۳۸۹)اگر کوئی حج تمتع کی قربانی کی لیے صحیح جانور خریدے اور خریدنے کی بعد مریض یاعیب دار ہوجائے یا کوئے عض و ٹوٹ جائے تو اس جانور کا کا فی ہو نا مشکل ہے بلکہ اس پر اکتفا کرنا صحیح نہیں ہے احوط یہ ہے ہ جانور ک وبھی ذبح کرے ور اگر اسے بیچ دے تو اسکی قمیمت کو صدقہ کردے ۔

(۳۹۰)اگر قربانی کے لیے خریداگیا جانور گم ہوجائے او رنہ ملے نیز اور پتہ نہ چلے کہ کسی نے اس جانب سے قربانی تو واجب ہے کہ دوسراجانور خریدے ۔اور دوسر جانورذبح کرنے سی پہلے ،پہلاجامور مل جائے تو پہلے جانور کو ذبح کیاجائے ور دوسرے میں اختیار ہے چاہے ذبح کری یا نہ کرے ار وہ اس کے دوسرے اموال کی طرح ہے ،تاہم احوط اولی یہ ہی کہ اسے بھی ذبح کرے ۔اگر پہلا جامور دوسرے کو ذبح کرنے کے بعد ملے تواحوط یہ ہے پہلے والے جانور کو بھی ذبح کرے ۔

(۳۹۱)اگرکسی کو دبنہ ملے اور وہ جانتا ہو کہ یہ قربانی کے لیے ہے افر اسکی مالک سے گم ہو گی اہے رو اسکے لہایئزہ ہز کہ اسک ے مالک کی جانب سے اسے ذبح کردے اگری اسجانور کے مالک کو اس قربانی کا علم ہوجائے تو وہ اس کو کافی سمجھ سکتاہے ۔جس کوجانور ملا ہو اسکے لیے احوط یہ ہةے کہ وہ اسے ذبح کرنے سے پئہلے بارھیوں ذی الحجہ کی عصر تک اعلان کرے ۔

(۳۹۲)وہ شخص جسے قربان ی کے ایام میں اجنور نہ ملے جبکہ اسکی قیمت موجود ہو تو احوط یہ ہے کہ قربانی کے بدلے میں روزے بھی رکھے اور اگر ممکن ہو تو ماہ ذی الحجہ میں قربانی بھی کرے ،چاہے اس کے لیے کسی قابل اطمیں ان شخص کو پیسے دینے پریں کہ وہ آخر ذی الحجہ تج جانور خریدکر اس کی جانب سے قربانی کردے ور اگر ذی الحجہ تمام ہوجائے اور جانور نہ ملے تو اگلے سال اس کی جانب سے قربانی کرے ۔تاہم بیعید نہیں ہے کہ کہ صرف روسزوں پر اکتفا کرنا جائز ہو اور ایام تشریق گزرنے کے بعد قربانی ساقط ہو جائے ۔

(۳۹۳)اگر کوئی شخص قربانی کا جانور ہاصل نہ کس سکتاہو اور نہج ہی اسکی قیمت رکھتا ہو تو قربانی کی بدلے میں دس روزے رکھے انمیں سے تین ذی الحجہ میں بنابر احوط ۷،۸،۹ کو رکھے اور اس سے پہلے نہ رکھے اور باقی سات روزے اپنے وطن واپس جانے کے بعد رکھے ۔مکہ میں یا راتسے میں رکھناکافی نہیں اگر مکہ میں واپس نہ جائے مکج میں ہی قیاام کرے رف اسے جاہے کہ اتنا صبر کرے کہ سک ے ساتھی اپطنے شہر پہنچ جائیں یا ماہ ذی الحجہ تمام ہوجائے پھر یہ روزے رکھھے پہلے تین روزے پے در پے رکھن امعتبر ہے جبکہ باقی سات میں معتبر نہیں ہے اگرچہ احوط ہے کہ اسی طرح پہلے تین روزوں میں یہ مبھی مرعتبر ہے کہ عمرہ تمتع کا احرام باندھے کے نعد رکھے ،چنانچہ اگر احرام سے پہلے روزے رکھے تو کافی نہیں ہوہ ں گے ۔

(۳۹۴)وہ مکلف جس پر دوران حج تین دن روزے رکھنا واجب ہو اگر تینوں روزی عید سے پہلے نہ رکھ سکی تو بنا بر احتیاط۹ ۸ اور ۹ اور ایک دن منیس ے واپس آ کر روزہ رکھنا کافی نہیں ہو گا فضل یہ ہے کہ وہ ان روزوں کو ایام تشریق ختم ہونے کے بعد شروع کرے اگرچہ اس کیلئے اجئز ہے کہا گر وہ تیرھویں ذیل اہچہ سے پہلے منی سے واپس آ جائے تو تیرھویں ذی الحجہ سے شروع کرے بلکہ ا ظہر یہ ہے کہ اگر منی سے تیرھیوں ذی لاحجہ کو بھی آئے تب بھی شروع کر سکتا ہے

احوط اولی یہ ہے کہ ایام تشریق کے بعد فوراََ روزے رکھے اور بغیر عذر کے تاخیر نہ کرے اگر منی سے واپس آنے کے بعد روزے نہ رکھ سکتا ہو تو راستے میں ای اپنے وطن پہنچ کر روزے رھکے لین احوط اولی یہ ہے کہ ان تین روزوں اور سات روزوںٰ جو اس نے وطن واپس آ کر رکھنا ہے کو جمع نہ کرے اگر محرم کا چاند نظر آں ے تک یہ تین روزے نہ رکھ سکے تو پھر روزی ساقط ہو جائیں گے اور آئندہ سال قربانی کرنا معین ہو جائے گا

۳۹۵۔ جس کیلئے قربانی کرنا ممکن نہ ہو اور نہ ہیا س کے اپس قربانی کیلئے پیسے موجود ہوں اور حج میں تین روزے رکھے اور قیام قربانی گزرنے سے پہلے قربانی کرنے پر قادر ہو جائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ قربانی کرے

۳۹۶۔ اگر اکیلے قربانی کرنے پر قادر نہ ہو لیکن کسی کے ساتھ مل کر قربانی کر سکتا ہو تو احوط یہ ہے کہ کسی کے ساتھ مل کر قربانی بھی کریا ور مذکورہ تریب کے مطابق روزی بھی رکھے ۔

۳۹۷۔ اگر جانور ذبح کرنے کیلئے کسی کو نائب بنایا جائیا ور شک ہو کفہ نائب نے اس کی جانب سے قربانی کی ہے یا نہیں تو یہی سمجھاجائے کہ قربانی نہیں کی اور اگر نائب خبر دے کہ قربانی کر دے ہے لیکن اطمیں ان نہ آئے تو اکتفا کرنا مشکل ہے

۳۹۸۔ جو شرائط قربانی کے جانور میں معتبر ہیں وہ کفارے کے جانور میں معتبر ہوں

۳۹۹۔ ذبح یا نحرجو واجب ہے چاہے حج کی قربانی ہو یا کفار اس میں خود ذبح یا نحر کرنا معتبر نہیں ہے بلکہ اختیار حالت میں بھی کسی دوسرے کو نائب بنانا جائز ہے تاہم ضروری ہے کہ ذبح کی نیت نائب کرے اور قربانی کرنے والے پر نیت کرنا شرط نہیں ہیا گر چح احوط ہے کہ وہ بھی نیت کرے نائب کیلئے مسلمانوں ہونا ضروری ہے

حج تمتع کی قربانی کا مصرف

احوط اولی یہ ہے کہ نقصان دہ نہ ہونے کی صورت میں حج تمتع کرنے والا اپنی قربانی کی کچھ مقدار کھائے چاہے کم مقدار ہی کائے قربانی اک ایک تہائی حصہ اپنے یا اپنے گھر والون کیلئے مخصوص کرنا جائز ہے اسی طرح جائز ہے کہا س کے دوسرے ایک تہائی حصے کو جس مسلمان کو چاہے ہدیہ دے اور تسیرا تہائی حصہ احتیاط واج کی بناء پر مسلمان فقراء کو صدقہ دے اگر صدقہ دینا ممکن نہ ہو یا زیادہ زحمت و مشقت کا سبب ہو تو صدقہ دینا ساقط ہو جائے گا یہ واجب نہیں ہے کہ قربانی کا گوشت خود فقیر ہی کو دیا جائے بلکہ اس کے وکیل کو بھی دیا جا سکتا ہے چاہے قربانی کرنے والا فقیر کا وکیل ہی ہو وکیل اپنے موکل کی اجازت سے اس گوشت میں تصرف مژلاھبہ فروخت یا واپس کر سکتا ہے اگر منی میں موجود افراد میں سے کسی وک گوشت کی ضرورت نہ ہو تو گوشت کو منی سے باہر لے جانے جائز ہے

۴۰۰۔ وہ تہائی حصہ جو صدقہ دے رہا ہو اور وہ تہائی حصہ جو ھدیہ دے رہا ہو انہیں جدا کرنا شرط نہیں ہے بلکہ صرف وصول شرط ہے چنانچہ اگر تہائی مشاع کو صدقہ کرے اور فقیر وصول کر لے خواہ پورے جانور کو قبضے میں لینے کی وجہ سے تو یہ کافی ہے اور تہائی ھدیہ کی صورت بھی یہی ہے

۴۰۱۔ صدقہ و ھدیہ کو قبضے میں لینے والوں کیلئے جائز ہے کہ ہ اس حصے میں جس طرح سے جاہیں تصرف کریں لہذا وہ اسے کسی غیر مسلم کو بھی دے سکتے ہیں

۴۰۲۔ اگر کوئی جانور کی قربانی کرے اور بعد میں وہ چوری ہو جائے یا کوئی زبردستی اس سے چھین لے تو قربانی کرنے والا ضامن نہیں ہے لیکن اگر مالک خود اسے چھین لے تو قربانی کرنے والا ضامن نہیں ہے لیکن اگر مالک خود اسے ضائع کر دے چاہے غیر مستحق کو دینے کی وجہ سے تو احوط یہ ہے کہ فقراء کے حصے کا ضامن ہو گ ا۔

۳۔ حلق یا تقصیر

حج کے واجبات میں سے چھٹا واجب حلق ٰ یعنی سر مونڈنا یا تقصیر ٰیعنی کچھ بال کاٹنا ہے اس میں قصد قربت اور اخلاص معتبر ہے اس عمل کی عید کے دن سے پہلے حتی کہ شب عی میں بھی انجام دینا جائز نہیں ہے سوائے اس شخص کے جسے خوف ہو لہذاس کے لئیے احوط یہ ہے کہ حمرہ عقبہ کی رمی اور قربانی کے جانور کے حصول کے بعد انجام دے احوط اولی یہ ہے کہ ذبح و نحر کے بعد انجام دے البتہ عید قربانی کے دن کے وقت سیآ گے تاخیر نہ کی جائیا گر رمی سے پہلے یا قربانی کا جانور حاصل کرنے سے پہلے بھول کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے حلق یا تقصیر انجام دے تو کافی ہو گا اور دوبار انجام دینا ضروری نہیں ہے

۴۰۳۔ مرد کو حلقو تقصیر میں اختیار ہے البتہ حلق افضل ہے سوائے اس شخص کے کہ جس نے جوؤں سے بچنے کی خاطر شہد یا گوند سے سر کے بالوں کو چپکا یا ہو یا جس نے سر کے بالوں کو جمع کرکے باندھ کر لپیٹا ہوا ہو یا ضرورہ ٰ پہلی مرتبہ حج پر جانے والا ہو تو ان کیلئے احتیاط واجہ یہ ہے کہ یہ حلق کو اختیار کریں

۴۰۵۔ جو شخص حلق کرنا چاہتا ہو اور جانتا ہو کہ حجام اس کا سر سے حلق کر ائے بلکہ انتہائی باریک مشین سے سر مونڈوانٰے یا اگر اسے ہقل و تقصیر میں اختیار ہو تو پہلے تقصیر کرائے اور پھر اگر چاہے تو استرے سے سر مونڈوائے اگر اس بیان شد حکم کی مخالفت کرے تو بھی کفایت کرے گا اگرچہ گنہگار ہو گا

۴۰۶۔ حنشی مشکلہ نے اگر نہ اپنے بالوں کو چپکایا ہو نہ الجھا کر باندھا ہو یا اس کا پہلا سال نہ ہو تو اس پر تقصیر واجب ہے ورنہ پہلے تقصیر کرے اور احوط یہ ہے کہا س کے بعد حلق بھی کرے

۴۰۷۔ جب محرم حلق یا تقصیر انجام دیتو وہ چیزیں جو احرام کیوجہ سے حرام ہوئی تھیں حلال ہو جائیں گی سوائے بیوی خوشبو اور بنا بر احوط شکار کے ظاہر یہ ہے کہ حلق و تقصیر کے بعد بیوی جو حرام ہے تو صرف جماع حرام نہیں ہے بلکہ باقی تمام لذتیں بھی حرام ہیں جو احرام کی وجہ سے حرام ہوئی تھیں البتہ اقوی یہ ہے کہ تقصیر یا حلق کے بعد کسی عورت سے عقد نکاح پڑھنا یا نکاح جپر گواہ بنا جائز ہے

۴۰۸۔ واجب ہے کہ حلق و تقصیر منی میں ہو اور اگر حاجی جان بوجھ کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے منی میں انجام نہ دے اور باہر چلا جائے تو اس پر واجب ہے کہ منی واپس جائے اور وہاں ہقل یا تقصیر انجام دے بنا بر احواط بھولنے والے کا بھی یہی حکم ہے اگر واپس جانا ممکن نہ ہو یا بہت مشکل ہو تو جہاں موجود ہو وہیں پر حلق یا تقصیر انجام دے اور اپنے بال ممکن ہو تو منی بھیجے جو شخض جان بوجھ کر منی کے علاوہ کسی اور جگہ حلق یا تقصیر انجام دے تو یہ کافی ہو گا لیکن اگر ممکن ہو تو واجہ ہے کہ اپنی بال منی بھیجے

۴۰۹۔ اگر کوئی بھول کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے حلق یا تقصیر انجام نہ دے اور اعمال حج سے فارغ ہونے کے بعد آئے یا مسئلہ پتہ چلے تو حلق یا تقصیر انجام دے اظہر یہ ہے کہ طواف و سعی کو دوبارہ کرنا ضروری نہیں ہے اگرچہ احوط ہے ۔

حج کا طوا ف نماز طواف اور سعی

واجبات حج میں سے ساتواں آٹھواں اور نواں واجب طواف نماز طواف اور سعی ہیں

۴۱۰۔ حج کے طواف نماز طواف اور سعی کو ہی طریقہ اور شرط ہیں جو عمرہ کے طواف نماز طواف اور سعی میں بیاں کی گئی ہیں

۴۱۱۔ مستحب ہے کہ طواف حج عید قربانی کے دن انجام دیا جائے اور بنا بر احوط گیارھیوں ذی الحجہ سے زیادہ تاخیر نہ کی جائے اگرچہ ظاہر یہ ہے کہ تاخیر کرنا جائز ہے بلکہ ایام تشریق سے کچھ مقدار دیر کرنا بلکہ آخری ذی الحجہ تک تاخیر کا جائز ہونا قوت سے کالی نہیں ہے

۴۱۲۔ احوط یہ ہے کہ حج کے دووقوف عرفات و مزدلفہ سے پہلے حج کے طواف نماز طواف اور سعی کو انجام نہ دیا جائے اگر کوئی مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے پہلے انجام دے تو کافیہونے میں اشکال ہے اگرچہ وجہ سے خالی نہیں ہے ۔

درج بالا حکم سے بعض موارد مسثنی ہیں

۱۔ وہ عورتیں جنہیں حیض یا نفاس آنے کا خوف ہے

۲۔ بوڑھا شخص مریض زخمی اور وہ افراد جن کیلئے مکہ واپس آنا مشکل ہو یا وہ افراد جن کیلئے ہجوم وغیرہ کی وجہ سے واپس آ کر طواف کرنا مشکل ہے

۳۔ وہ شخص جو کسی ایسی چیز سے ڈرتا ہو جس کی وجہ سے وہ مکہ واپس نہیں آ سکے گا ۔ چنانچہ درج بالا افراد کیلئے طواف نماز طواف اور سعی کو احرام حج کے بعد دونوں وقوف سے پہلے انجام دینا جائز ہے احوط اولی یہ ہے کہا گر بعد میں آخری ذی الحجہ تک ممکن ہو تو دوبارہ بھی انجام دیں ۔

۴۱۳۔ طواف حج کو دونوں وقوف کے بعد انجام دینے والے کیلئے ضروری ہے کہ وہ طواف کو حلق و تقصیر کے بعد انجام دے تو طواف کو دوبارہ انجام دینا واجب ہے اور ضروریہے کہا یک بکری کفارہ دے ۔

۴۱۴۔ جو شخص حج میں طواف نماز طواف اور سعی خود انجام دینے سے عاجز ہو تو اس کا وہی حکم ہے جو عمرہ میں یہ اعمال انجام نہ دے سکنے والے کا ہے جو مسئلہ ۳۲۶اور۳۴۲ میں بیاں ہو ا وہ عورت جسے حیض یا نفاس آ جائے اور اتنا ٹھہرنا کہ پاک ہو کر طواف بجا لائے ممکن نہ ہو تو اس کیلئے ضروری ہے کہ طواف اور نماز طواف کے لئے کسی کو نائب بنائے بنائے پھر نائب کے طواف کے بعد سعی کو خود انجام دے

۴۱۵۔ حج تمتع کرنے والے پر طواف نماز طواف اور سعی سے فارغ ہو جانے کے بعد خوشبو بھی حلال ہو جائے گی جبکہ بیوی مسئلہ ۴۰۷ میں موجود تفصیل کے مطابق اور احوط کی بناء پر شکار حرام رہیں گے ۔

۴۱۶۔ جس شخص کیلئے طواف اور سعی کی ادئیگی دونوں وقوف سے پہلے جائز ہو اور وہ طواف اور سعی دونوں وقوف سے پہلے انجام دے تو ایسے شخص کیلئے خوشبو اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ منی کے اعمال مژلا رمی و ذبح و حلق یا تقصیر انجام نہ دیدے ۔

طواف النساء

واجبات حج میں سے دسواں اور گیارھواں واجب طواف النساء اور اس کی نماز ہے یہ دونوں اگرچہ واجب ہیں لیکن رکن نہیں ہیں اس لئے اگر انہیں جان بوجھ کر چھوڑ بھی دیا جائے تب بھی حج باطل نہیں ہوتا ۔

۴۱۷۔ طواف النساء مردوں اور عورتوں سب پر واجب بے چنانچہ اگر کوئی مرد اسے چھوڑ دے تو اس کی بیوی اس پر حرام ہو جائے گیا ور اگر عورت اسے چھوڑ دے تو اس کا شوہر اس پر حرام ہو جائے گا نیابتی حج میں نائب طواف النساء کو منسوب عنہ ٰ جس کی جانب سے حج کر رہا ہے کی جانب سے انجام دینہ کہ اپنی جانب سے ۔

۴۱۸۔ طواف النساء اور اس کی نماز کی شرائط اور طریقہ وہی ہے جو حج کے طواف اور اس کی نماز کا ہے صرف نیت کا فرق ہے

۴۱۹۔ وہ شخص جو طواف النساء اور اس کی نماز خود انجام نہ دے سکتا ہو اس کا حکم وہی ہے جو عمرہ کو طواف اور اس کی نماز خود انجام نہ دے سکنے والے کا ہے جو کہ مسئلہ ۳۲۶میں بیان ہو چکا ہے ۔

۴۲۰۔ جو شخص چاہے مسئلہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو جان بوجھ کر یا بھولنے کی وجہ سے طواف النساء انجام نہ دے تو ا سکا جبران و تدارک کرنا واجب ہے اور جبران کرنے سے پہلے اس کی بیویا س پر حلال نہیں ہو گی لہذا اگر خود انجام دینا ممکن نہ ہو یا بہت مشکل ہو تو جائز ہے ہ کسی کو نائب بنانے نائب کا اس کی جانب سے وطاف انجام دینے پر اس کی بیوی اس پر حلال ہو جائے گیا گر یہ شخص طواف النساء کے جبران سے پہلے مر جائے اور اس کا ولی یا کوئی اور اس کی جانب سے طواف کی قضاء کرے تو کوئی اشکال نہیں ہے ورنہ احوط یہ ہے کہ اس کے بالغ ورثا کی اجازت سے ان کے مال سے قضاء کرائی جائے ۔

۴۲۱۔ طواف النساء کو سعی سے پہلے انجام دینا جائز نہیں ہے چنانچح اگر کوئی طواف النساء کو عمدا سعی سے پہلے انجامد ے تو ضروری ہے کہ سعی کے بعد دوبارہ انجام دے لیکن اگر حکم شرعی نہ جاننے یا بھول کر ایسا کیا ہو تو اظہر یہ ہے کہ کفایت کرے گا اگرچہ دوبارہا دائیگی احوط ہے ۔

۴۲۲۔ مسئلہ ۴۱۲۔ میں مذکور افراد کیلئے طواف النساء کو دونوں وقوف سے پہلے انجام دینا جائز ہے لیکن منی کے اعمال مژلا رمی ذبح اور حلق یا تقصیر سے پہلے ان کیلئے بیوی حلال نہیں ہو گی ۔

۴۲۳۔ اگر عورت حائض ہو جائے اور قافلہ اس کی طہارت کا انتظار نہ کرے نیز قافلے سے جدا ہونا بھی ممکن نہ ہو تو اس کیلئے جائز ہے کہ طواف النساء کو چھوڑ کر قافلے کے ساتھ وطن واپس آ جائے تاہم احوط یہ ہے کہ کسی کو طواف النساء اور اس کی نماز کیلئے نائب بنائے اگر طواف النساء کا چوتھا چکر پورا ہونے کے بعد حیص آئے تو اس کے لئے جائز ہے کہ باقی کو چھوڑ کر قافلے کے ساتھ واپس آ جائے اور احوط یہ ہے کہ ابقی طواف اور اس کی نماز کیلئے کسی کو نائب بنائے ۔

۴۲۴۔ طواف النساء کی نماز بھول جانے کا وہی حخم ہے جو عمرہ کے طواف کی نماز کو بھول جانے کا ہے جو مسئلہ ۴۲۹۔ میں بیان ہو چکا ہے

۴۲۵۔ مرد کا طواف النساء اور اس کی نماز انجام دینے پر اس کی بیویا ور اسی طرح عورت کا طواف النساء اور اس کی نماز انجام دینے پر کا شہور حلال ہو جائیں گے احوط یہ ہے کہ شکار تیرھویں ذی الحجہ زوال آفتاب تک حرام رہے گا اوراس کے بعد احرما کی وجہ سے حرام ہونے والی تمام چیزیں حلا ل ہو جائیں گی ۔

منی میں رات گزارنا

واجبات حج میں سے بارھویں واجب منی میں گیارہ اور بارہ کی رات گزارنا ہے اس میں قصد قربت اور خلوص نیت معتبر ہے اگر حاجی عید کے دن طواف اور سعی کرنے کیلئے مکہ جائے تو منی میں راگت گزارنے کیلئے واپس آنا واجب ہے حالت احرام میں شکار سیا جتناب نہ برتنے والے شخص پر تیرھویں ذی الحجہ کی شب بھی منی میں گزارنا واجہ ہے اسی طرح وہ شخص بھی کہ جس نے اپنی بیوی سے نزدیکی کی ہو بناء بر احوط تیرھویں ذی الحجہ کی شب منی میں گزارے مذکورہ اشخاص کے علاوہ باقی حجاج کیلئے جائز ہے کہ بارہ تاریخ کو ظہر کے بعد منی سے باہر چلے جائیں لیکن اگر وہاں رکیں یہاں تک کہ تیرھویں رات آ جائے تو ضروری ہے کہ تیرھویں کی رات بھی طولع فجر تک وہیں گزاریں ۔

۴۲۶۔ اگر منی سے نکلنے کیلئے اپنی جگہ سے سفر کا آغاز کیا جائے لیکن ہجوم وغیرہ کی وجہ سے غروب سے پہلے منی کی حدود سے باہر نہ جایا جا سکے تو اگر رات منی میں گزارنا ممکن ہو تو منی میں قیام کرے لیکنا گر ممکن نہ ہو یا حرج وشدید تکلیف کا باعژ ہو تو منی سے نکلنا جائز ہے تاہم بنا ور احتیاط ایک دنبہ کفار دے

۴۲۷۔ قبل ازیں ذکر شدہ سبب کے علاوہ یہ معتبر نہیں ہے کہ منی میں پوریر ات گزاری جائے چنانچح اول شب سے نصف شب تک قیام کے بعد منیس ے جایا جا سکتا ہے لیکن اگر اول شب یا اس سے پہلے کوئی نکلے تو ضروری ہے کہ طلوع فجر سے پہلے بلکہ بناء بر احتیاط نصف شب سے پہلے منی واپس آ جائے جو شخص اول شب سے نصف شب تک منی میں قیام کے بعد نکلے اس کیلئے احوط اولی یہ ہے کہ طلوع فجر سے پہلے مکہ میں داخل نہ ہو ۔

۴۲۸۔ منی میں رات گزارنا جن افراد پر واجہ ہے ان میں سے درج ذیل چند لوگ مستژنی ہیں

۱ ۔ وہ شخص جس کیلئے منی میں رات گزارنا زحمت اور تکلیف کا باعژ ہو یا سے اپنی جان مال یا عزت کا خطرہ ہو

۲۔ وہ شخص جو منی سے اول شب یا اس سے پہلے نکل جائے اور مکہ میں آدھی رات سے پہلے عبادت مفیں ۴شغول ہو کر طولع فجر تک تمام وقت ضروری حاجات مژلا کھانے پینے کے علاوہ عبادت میں گزارنے کی وجہ سے واپس نہ آ سکے

۳۔ وہ جو مکہ سے منی جانے کیلئے نکلیا ور عقبہ مدینین سے گزر جائے تو اس کیلئے جائز ہے کہ راستے میں منی پہنچنے سے پہلے سو جائے

۴۔ وہ لوگ جو مکہ میں حاجیوں کو پانی پہنچاتے ہیں

۴۲۹۔ جو منی میں رات نہ گزارے اس پر ہر رات کے بدلے ایک دنبہ کفارہ واجب ہے مذکورہ چار گروہوں میں سے دوسرے تیسرے اور چوتھے رپ کفار واجب نہیں ہے لیکن پہلا گروہ بنابر احوط کفار دے اسی طرح وہ شخص بھی کفارہ دے جو بھولنے یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے رات منی میں نہ گزارے ۔

۴۳۰۔ جو شخص منی سے جا چکا ہو اور پھر تیرھویں شب کسی کام سے منی واپس پہنچ جائے تو اس پر یہ رات منی میں گزارنا واجب نہیں ہے

رمی جمرات

واجبات حج میں سے تیرھواں واجب تین جمرات اولی وسطی اور جمرہ عقبہ کو رمی کرنا (کنکر مارنا ) ہے واجہ ہے کہ رمی گیارھیوں اور بارھیوں ذی الحجہ کو کی جائے اور تیرھویں شب منی میں گزارنے والوں پر بنی بر احوط تیرھیوں ذی الحجہ کے دن میں بھی رمی کرنا وجاہ ہے حالت اکتیار میں خود رمی کرنا واجہ ہے اور نیابت کافی نہیں ہو گی

۴۳۱۔ واجہ ہے کہ رمی جمرہ اولی سے شروع کرے پھر جمرہ وسطی کو اور پھر جمرہ عقبہ کو رمی کرے اگر بھول یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے اس سے مختلف عمل کرے توا جہ ہے کہ پھر وہیں سے رمی شروع کرے جہاں سے ترتیب حاصل ہو جائے لیکن اگر پہلے جمرہ کوچار کنکنر مارنا شروع کر دے تو پہلے والے کو باقی تین کنکر مارنا کافی ہے اور دوسرے جمرہ کو دوبارہ کنکر مارنا ضروری نہیں ہے ۔

۴۳۲۔ واجہ واجب چیزیں جو واجبات حج کے چوتھے واجب جمرہ عقبہ کی رمی کی ذیل میں بیان ہو ئیں تینوں جمرات کی رمی میں بھی واجب ہے ۔

۴۳۳۔ واجب ہے کہ رمی جمرات دن کے وقت کی جائے اس حکم سے چروا ہے اور ہر وہ شخص جو خوف بیماری یا کسی اور وجہ سے دن کے وقت منی میں نہ رہ سکتا ہو مستژنی ہیں چنانچہ ان افراد کیلئے ہر دن کی رمی ازس دن کی رات میں کرنا جائز ہے لیکنا گر ہر شب میں بھی ممکن نہ ہو تو تمام راتوں کی رمی ایک شب میں کرنا جائز ہے

۴۳۴۔ جو شخص گیارہ تاریخ کو دن کے وقت بھول کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے رمی نہ کرے تو واجہ ہے کہ ابرہ تاریخ کو اس کی قضا کرے اور جو بارہ تاریخ کی رمی کو بھول کریا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے نہ کر سکے تو وہ تیرہ تاریخ کو اس کی قضاء کرے احوط یہ ہے کہ جان بوجھ کر رمی نہ کرنے والے کا بھی یہی حکم ہے بناء بر احتیاط ادا اور قضا میں فرق رکھے اور قضا کو ادا سے پہلے انجام دے احوط اولی یہہے کہ قضا کو دن کے شروع میں اور ادا کو زوال کے وقت انجام دے ۔

(۴۳۵)جو شخص جان بوجھ کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے رمی جمرات کو انجامنہ دے اورپھر مکہ میں ااسے جیا اء۷ یا مسلہ پتہ چلے ت واجو ہے کہ منیواپس جائے اور وہاں رمی کرے ۔ اگر دو یا تین دن کی رمی چھوڑ تو اہوط یہ ہے کہ وجس دن کی رمیپہلے چھوڑ چھٹی ہو اسکی قضا پہلطے انجام دے اوثثر دونوں کی عمنی کے درمیاں کچھ فاصلہ رکھے ۔ اگر مکہ سے نکلنے کے بعد یاد ایئے یا مسلئکہ پتہ چلے تو رمی بجالانے کے لیے واپس جان الازن نہیں ہے تاہم احوط اولی یہ ہی کہ اگر اکلے سال خود حج پرجائے تو قض اکرے اثو راگر خود نہ جائے تو سکی کو قضاکے لیے نائب بنائے ۔

(۴۳۶)وہ شخص جو خود رمی نہ کرسکے مثلا مریض ہو تو کسی کو نائب بنائے ارو بہتر یہ ہے کہ اگفر ممکن ہو تو رمی کے وقت وہاں موجود ہو اور نائب اسکے سامنے رمی انجامن دے ۔ اگر نایب اسک ی جانب سے رمی انجام دے ۔اور خودرمی کا وقت ختم ہونے سے پہلے عذر ختم ہونے سے مایو امہ ہو اور اتفاقا عذر ختم ہوجایئے تو احوط یہ ہے کہ خود بھی رمی کرے ۔ لیکن جو شخص نائیب نہ بنا سلتاہو مثلا بیہوش ہو تو تو اسکا ولی یا کوئے شخص اس کی جانب سے رمی کرے ۔

(۴۳۷)جو شخص ایام تشریق (۱۱،۱۲،۱۳ذی الحجہ )میں جان بوجھ کر رمی چھوڑ دے تو اسکا حج باطل نہیں ہو گا ،احوط یہ ہے کہ اگر آئندہ ساخود حج کرے تو خود ورنہ بنایب کے ذریعے اسکی قضااکرے ۔

مصدود کے احکام

(۴۳۸)مصدود وہ شخص ہے کہ جسے دشمن یا کوئی اور احرام باندھنے کے بعد حج کے اعمال کی بجا آوری کے لیے مقدس مقامات پرجانے سے رو کے ۔

(۴۳۹)ج سشخ صکو عمرہ مفردہ سے روکا جائے اگر وہ قرنای جککو سارو لایئا ہو تو اسک ے لیے قربانی کے ذبح یا نحر کرنے کے ذریعے احرم کو اسی جگہ پر کھولانا جائنب ہے جہاں ساسے روکا گیا ہو ۔ اگر قربیانی کا جانور ساتھ نہ لایئا ہو اور احرم کھولنا چاہتاہو تو ضروری ہے کہ قربانی کا جانور حاصل کرے اور اسے زبح یا نحر کرکیحرم کھولے ،بنابر احتیاط قربانی کیے بغیر احرم بہ کھولے حتیاط واجب یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں ذبح یا بہر کے ستھ حلق یا تقصیر بھی انجام دے ۔وہ شخص جسے عمرہ تمتع کے ساتھ ساتھ حج سے بھی روکا جائے تو اسکا وہی حکم ہے جو اوپر بیان ہو اہے ۔ لیکن اگر اسکو دونوں وقوف کے بعد کعبہ جانے سے روکا جائیے تو بعید نہیں ہے کہ اس کا فریضہ ،،حج افراد ،، میں تبدیل ہوجائے گا۔

(۴۴۰)وہ شخص جسے حج تمتع سے روکا جائے تگ اگر دونوں وقوف یا صرف ایک وقف مشعر سے روکاتو احتیاط یہ ہے کہ طواف کرتتے سعی ،حلق اور ذبح کرکے احرام کھول دے ۔اگر صرف طواف اور سعی کرنے سے روکا جاے اور نایب بنانا ممکن نہ ہو تو چنانچہ ار احرم کھولنا چاہتاہہو تو احوط یہ ہے کہ قربانی کرے اور حلق یق تقصیر انجام دے ۔ لیکن اگر نایب بنانا ممکن ہو ت وبعید نہیں ہے جہنائب بنا کافی ہو لہذ ااپنے طواف افر سعی کے لیے نایب بنائے اور نیاب کے طو اف کرنے کے بع دنماز طواف خو د پڑھے ۔ اگر اعمال بجالانے کے لیے منی میں پہنچنے سے روکا جائے تواگرنائب بنانان ممکن ہو تو رمی اور قرنبانی کے لیے نیائب بنائے اور پھر حلق یا تقصیر انجام دے ، اگر ممکن ہو تو اپنے بال منی میں بھیج دے پھر باقی اعمال انجام دے ۔ لیکن اگر نایب بنانان ممکن نہ ہوتو قربانی کرنا واجب نہیں ہو گا ہے ۔لہذا قربانی کے بدلے روزے رکھے ۔ اسی طرح رمی واجب نہیں رہے گی ۔ تاہم احتیاط یہ ہے کہ رمی اگلے سال خود یانائب کے ذریعے انجام دے ۔اب باقی تمام اعمال مثلاحلق یا تقصیر و اعمال کو مکہ میں انجام دے اور ان اعمال سے فارغ ہونے کے بعد رتمام مہرمات اس پر حلال ہو جائیں گے ہتی کہ زوجہ بھی حلال ہو جائے گی اور کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ۔

(۴۴۱)جسے حج یا عمرہ سے روکا جائے اور قربانی کرنے کی وجہ سے وہ احرم کھول دے تو یہ حج و عمرہ کافی نیں یج بلکہ اگر اوہ حج اسلام انجام دینا جہتاہو اور اسے روکا جائیاور وہج قربان یکی وجہ سے ہرام کھول دے تو اس پر واجب ہے اگر استعطاعت باقی ہو یا حج اسکے ذمے ثابت ہو تو آئندہ سال حج پر جائے ۔

(۴۴۲)اگر منی میں رات گزارنے اور رمی جمرات کرنے سے روک جائے تو اس سے حج متاثر نہیں ہوگا چنانچہ اس شخص پر مصدود کا حکم جاری نہیں ہو گا ۔ لیکن اگ گراسی سا رمی کے لیے نائب بنانا ممکن ہو تو کسی کو نائب بنائے ورنہ اہوط اولی یہ ہے کہ آئبندہ سال خو د یا نائب کے ذریعے اس کی قضا کرے۔

(۴۴۳)مصدود شخص جو قربانی کرے اس میں اس سے فرق نہیں پڑتاہکہ قربانی کا جانور اونٹ ،گائے یابکری ہو ۔ اگر قربانی کرنا ممکن نہ ہو تو احوط یہ ہے کہ اسکے بدلے ۱۰دن روزے رکھے ۔

(۴۴۴)اگر حج کے لیے حرم امپہننے ولا وقوف معشر سے پہلے اپنی بیوی سے مجامعت کرے تو واجب ہے کہ اپنے حج کو پور کرے اور دوبارہ بھی بجالائے ۔ جیسا کہ محرمات حرام میں بیان ہو ہے ۔ پھر اگر اسکو حج تمام کرنے سے روکا جائے تو اس پر مصدود کے ہاکام جاری ہوں گے ۔لکین احرام کھونے کے لیے قربانی دینے کے علاوہ اس پرجماع کاکفارہ بھی واجب ہو گا۔

محصور کے احکام

(۴۴۵)محصور وہ شخص ہے جو احرام باندھنے کے بعد اعمال حج یا عمرہ کی ادائیگی کی لیے مرض یا کسی اور وجہسے مقدس مقامات تک نہ پہنچ سکے ۔

(۴۴۶)اگر کوئی شخص عمرہ مفردہ یا رعمرہ تمتع میں محصور ہوجائے ور اہرم کھولانا جہاہے رتو اسک افریض ہ یہ ہی کہ قرنببانی یا سکی قمیت اپنے ساتھیوں خے ساتھ بھیجے اور ان سے واعدہ لے کہ قربانی کو وقت معین میں مکہ میں انجام دیں گے تو طھر لکجب وقت معین ,اجئی تو یہ شخ ص جہاں ہو وہیں پر حلق ی اتقصیر کرے افور حرعم کھول دے ۔ لیکن اگر ساتھی نہ ہونے کی وجہ سے قربانی یا اس کی قمیت بھیجنا ممکن نہ ہو رتو اسکے جائز ہے کہ جہاں ہو ہویں پر قرببانی کرے اور ہرام کھو ل دے اگر حج میں مہصور ہجو جائے تو اسک حکم وہی جو اوپر بیان ہو اہے مگر قربانی کو منی میں عید کے دن کرنے کو کہے ۔

مذکورہ موارد میں محصور پر بیوی کے علامہ باقی تمام چیزیں حلال ہو جائیں گی اور بیوی اس وقت تک حلال نہیں ہو گتی جب تک حج یا عمرہ میں پواف ااوثر صف او مروہ کے درمیان سعی انجام نہ دے ۔

(۴۴۷)اگر کوئے عمرہ کے احرام کے بعد بیمار ہوجائے اور قربانی کو مکہ بھیجوادے اور پھر اس قدر تندرست ہو جا ئے کہ خود سفر اورقربانی سے پہلے مکہ میں پہنچنا ممکن ہو تگو اسے چاہیے کہ خو دمکہ میں پہنچے اور اگر اسکا فریضہ عمرہ مفردہ ہو تو اسے مکمل کرے ۔لہذا اب وہ بری الذمہ ہے ۔اگر اسکا عمرہ عمرہ تمتع ہوتو عرفہ کے دن زوال آفتاب سے پہلے اعمال کو مکمل کرسکتاہو تو کوئے اسکال نہیں ہے ورنہ طاہرہ ء۰ہ حةظء کہ اسک احج حج افرادمیں تبدیل ہوجائے گادونوں صورتوں میں اگر قربانی بھیجے اور صبرکرے یہاں تک کہ اسکی بیماری کم ہوجائے افر یہ خود سفر کرنے پر قادرہو جائے تب بھی یہی حکم ہے ۔

(۴۴۸)اگر حج کے حرام کے بعد حاجی بیمار ہوجائے اور قربانی کو بھیجنے کے بعد بیماری کم ہو جایے اور گمان ہو کہ حج ہو جائے گا تو اعمال حج میں شامل ہوناواجب ہے چنانچہ اگر دونونں وقوف یا صرف وقوف معشر حاصل ہو گتو جیسے کہ بیان ہو اس کا حج ہو گیا ،لہذا اعمال حج اور قربانی انجام دے ۔ لیکن اگر کوئے بھی وقوف اہاصل نہکرے تاہم اسک ے پہنچنے سے پہلے اس کی جانب سے قربانی ادا نہ کی گئی ہو تو اسک ی احج عمرہ مفردہ میں تبدیل ہوجائے گا اور اگرر اسکی جاانب سے قربانی اد اکردی گی ہو تو یہ تقصیر یا حلق انجام دے افور بیوی کے علاوہ بقی چیزیں اس پر حلال ہوجائیں گی ۔ بیوی اس وقت تک حلا ل نہ ہو گی جب تک حج یا عمرہ میں طواف یا سعی بجالانہ لائے ۔لہذ ااگر انہیں انجام دے گا تو عورت بھی حلال ہوجائے گی ۔

(۴۴۹)اگر حاجی بیامرے یا کسی اور وجہ سے طواف و سعی کے لیے نہہیں پہنچ سکتا ہو تو اس کے لیے نائب بنانا جائز ہے اور نائب کے طواف کے بعد نماز طواف خود انجام دے ۔ اگر منی میں جا کر وہاں کے اعمال انجا م دینے سے محصور ہو تو رمی اور ذبح کی لیے نایبن بنائے اور حلق یا تقصیر انجامدے افر اسک احج پور اہوجائے گا۔

(۴۵۰)اگرکویئے محصور ہوجائے ارو اپنی قربانی بھجوا دے اور اس سے پہلے کہ قربانی اپنی جگہ پہنچے اسک ے سر میں تکلیف ہوتو اس کی لیے سرمونڈوانا جائز ہے ۔ لہذا اگر سر مونڈے تو واجب ہے کہ جس جگہ ہو وہیں ایک بکری ذبح کرے یا تین دن روزے رکھے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاے ،ہر مسکین کو دو مد(ہر مد تقریبا ۷۵۰گرام )کھانادے ۔(۴۵۱)حج یا عمرہ میں مہصور ہونے وال اگ قربانی بھجواکر احرم کھل دے تو اس سے حج یا عمرہ ساقط نہیں ہوگا ۔لہذا حج اسلام انجام دینے والا اگر محصور ہوجائے اور قربانی بھیج کر احرام کھول دے تو اس پرواجب ہے کہ اگر استعطاعت باقی ہو یاحج اسکے ذمے ثابت ہوچکا ہو تو اگلے سال حج اسلام بجالائے۔

(۴۵۲)اگر کمحصور کے پاس قربانی یا اسکی پیسے نہ ہوں ت وہ اسکے بدلے میں دس روزے رکھے ۔

(۴۵۳)اگر محرم کے لیے حج یا عمرہ اعمال کی ادائیگی کی لیے مقدس مقامات تک خود جانا مصدود یا محصور ہونے کے علاوہ کسی اور وجہ سے ممکن نہ ہو تو اگر عمرہ مفردہ کے لیے ہرام باندھا ہو تو اسکے لیے جائزن ئہے کہ وہ جس جگہ ہو وہیں قربانی کرے ور بابر احتیاط اسکے ساتھ حلق یا تقصیر انجامدے کر احرام کھول دے اسی طرح جب عمرہ تمتع کا احرام ہو اور حج کو حاصل کرنا ممکن نہ ہو تگو یہ ی حکم ہے ورنہ ظاہر یہ ہی کہ اسک افریضہ ہج افراد میں تبدیل ہوجائے گا اگر حج کا احرام ہو اور دونوں وقوف یا صرف ایک وقوف مشعر حاصل کرنا ممکن نہ ہو تو عمرہ مفردہ کے ذریعے احرما کھول سکتاہے ۔ اگر طواف وسعی کی مقام تک پہنچنا یا منی کے اعمال بجالانے کی لیے منی جانا ممکن نہ ہو تو اسک وہی حکم ہے جو مسلئلہ ۴۴۹ میں بیان ہو ا۔

(۴۵۴)فقہاء کی ایک گروہ کا کہنا ہے کہ حج یا عمرہ کرنے والا جب قربانی ساتھ نہ لائے اور اس نے خدا سے

شرط کی ہو کہ اگر اعمال حج مکمل کرنے سے پہلے معذور ہو گیا ہو تو احرام کھول دونگااور پھر کجوئے عزر پیش آجائے مثلا بیماری ،دشمن یاکسی ور وجہ سے کعبہ یا وقوف کی جگہوں پر نہ پہنچ سکے تو اس شرط کے نتیجہ میں عذر پیش آنے پر احرم کھول سکتاہے اور تمام چیزیں اس پر حلال ہیں اور حرام کھولنے کے لیے قربانی حلق یاتقصیر کرنا ضروری نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئیے مہصور ہوجائے تو بیوی کے حلالل ہونے کی لیے طاف و سرعی واججب نہیں ہیں ۔ یہ قول اگرچہ وجہ سے خالی نہیں ے مگر ہتیاط واجب یہ ہے کہ جب مہصور یا مصدود ہوجائے تو جوحکام ہرام کھولنے کی لیے بتائے گئے ہیں ان کی رعایت کرے ار شرط کی ۔

نتیجہ میں محل ہونے پر مذکورہ اثار مرتب نہ کرے۔

یہاں تک واجبات حج کو بیان کریا گیا ،اب ہم آداب بیان کریں گے ۔فقہاء نے حج کے لیے بہت زیادہ آداب ذکر کیے ہیں جن کی گنجائش اس مختصر سی کتاب میں نہیں ہے لہذا ہم چند آداب بیان کرنے پر اکتفاکریں گے ۔

یہ جان لینا چا ہیے کہ مذکورہ آداب میں سے بعض کا مستحب ہو نا،، قاعدہ تسامح فی ادلتہ السنن ،،پر مبنی ہے چنانچہ ضروری ہی کہ اہیں رجا مطلبیت کی نیت سے انجام دیا جائے نہ کہ ااس نیت سے یہ شارع مقدس سے وارد ہوئے ہیں یہی حکم مکروہات میں بھی ہے جو آگے بیان کیے جائیں گے ۔

محصور کے احکام

(۴۴۵)محصوور وہ شخص ہے کہ جو احرام باندھنے کے بعد اعمال حج یا عمرہ کی ادائیگی کے لیے مریض یا کسی اور وجہ سے مقدس مقامات تک پہنچ نہ سکے

(۴۴۶)اگر کوئی شخص عمرہ مفردہ یا عمرہ تمتع میں محصور ہوجائے اور احرام کھولنا چاہیے تو اس کا فریضہ ہے کہ قربانی یااسکی قیمت اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھیجے اور ان سے وعدہ لے کہ قربانی کو وقت معین میں مکہ میں انجا م دیں گے اور پھر جب وقت معین آجائے تویہ شخص جہاں وہیں پر ہے یا تقصیر کرے اوراحرام کھول دے ۔ لیکن اگر ساتھی نہ ہونے کی وجہ سے قربانی یا اس کی قیمت بھیجنا ممکن نہ ہو تو اس کی لیے جائز ہے کہ جہاں ہو وہیں پر قربانی کرے اور احرام کھول دے ۔ اگر حج میں محصور ہو جائے

تواس کا حکم وہی ہے جو اوپر بیان ہو اہے مگر قربانی کو منیٰ میں عید کے دن کرنے کو کہے ۔

مذکورہ موارد میں محصور پر بیوی کے علاوہ باقی تمام چیزیں حلال ہوجائیں گی اور بیوی اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک حج یا عمرہ میں طواف اور صفا و مروہ کے درمیاں سعی انجام نہ دے ۔

(۴۴۷)اگر کوئی عمرہ کے احرام کے بعد بیمارہوجائے اور قربانی کو مکہ بھجوا دے اور پھر اس قدر تندرست ہوجائے کہ خود سفر کرنا اور قربانی سے پہلے مکہ میں پہنچنا ممکن ہو تواسے چاہیے کہ خود مکہ میں پہنچے اور اگر اس کا فریضہ عمرہ مفردہ ہو تو عرفہ کے دن زوال آفتاب سے پہلَے اعمال کو مکمل کر سکتا ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ورنہ ظاہر یہ ہے کہ ا س کا حج افراد میں تبدیل ہو جائے گا ۔ دونوں صورتوں میں اگر قربانی نہ بھیجے اور صبر کرے یہاں تک کہ اس کی بیماری کم ہوجائے اور یہ خود سفر کرنے پر قادر ہوجائے تب بھی یہی حکم ہے ۔

(۴۴۸)اگر حج کے احکام کے بعد حاجی بیمار ہوجائے اور قربانی بھیجنے کے بعد بیماری کم ہوجائے اور گمان ہوکہ حج ہوجائے گا تو اعمال حج میں شامل ہونا واجب ہے چنانچہ اگردنوں وقوف یا صرف وقوف مشعر حاصل ہو توجیسے کہ بیان ہو ااس کا حج ہو گیا لہذا اعمال حج اور قربانی انجا م دے ۔ لیکن اگر کوئی بھی وقوف حاصل نہ کر سکے تاہم اس کے پہنچنے سے پہلے اس جانب سے قربانی اد ا نہ کی گئی ہوتو اس کا حج عمرہ مفردہ میں تبدیل ہو جائے گا اوراگر اسکی جانب سے قربانی اد اکر دی گئی ہو تو یہ تقصیر یا حلق انجام دے اور بیوی کے علاوہ باقی تمام چیزیں اس پر حلا ل ہوجائیں گی ۔ بیوی اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک حج اور عمرہ میں طواف اور سعی بجا نہ لائے لہذا اگر انہیں انجام دے گا تو عورت بھی حلال ہوجائے گی ۔

(۴۴۹)اگر حاجی بیماری یا کسی اور وجہ سے طواف و سعی کے لیے نہیں پہنچ سکتا ہو تو اس کے لیے نائب بنانا جائز ہے ۔ اور نائب کے لیے طواف کے بعد نمازطواف خود انجام دے ۔ اگر منیٰ میں جاکر وہاں کے اعمال انجام دینے سے محصور ہو تو رمی اور ذبح کے لیے نائب بنائے اور حلق یا تقصیر انجام دے ممکن ہو تو اپنے بال منیٰ بھیجے ۔ اس کے بعد باقی تمام اعمال انجام دے اور اس کا حج پورا ہو جائے گا ۔

(۴۵۰)اگر کوئی محصور ہوجائے اور اپنی قربانی بھجوا دے اور اس سے پہلے کہ قربانی اپنی جگہ پہنچے اس کے سر میں تکلیف ہو تو اس کیلیے سر مونڈنا جائز ہے ۔ لہذا اگر سر مونڈے تو واجب ہے کہ جس جگہ ہو وہیں ایک بکری ذبح کرے یاتین دین روزے رکھے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلائے ہر مسکین کو دو مد ہر مد تقریبا ۷۵۰ گرام کھانا دے ۔

(!۲۵)حج یا عمرہ میں محصور ہونے ولا اگر قربانی بھجواکر احرام کھول دے تو اسکا حج یا عمرہ ساقط نہیں ہوا لہذا حج اسلام انجام دینے والا اگر محصور ہو جائے اور قربانی بھیج کر احرام کھول دے تو اس پر واجب ہے کہ اگر استطاعت باقی ہو تو یا حج اس کے ذمہ ثابت ہو چکا ہو تو اگلے سال حج اسلام بجا لائے ۔

(۴۵۲)اگر محصور کے پاس قربانی یا اس کے پیسے نہ ہوں تو وہ اس کے بدلے دس روزے رکھے ۔

(۴۵۳)اگر محرم کے لیے حج یا عمرہ کے اعمال کی ادائیگی کے لیے مقدس مقامات تک خود جانا محصورو مصدود ہونے کے علاوہ کسی اور وجہ سے ممکن نہ ہو توا گر عمرہ مفردہ کے لیے احرام باندھنا ہو تو اسکے َیے جائزہے کہ وہ جس جگہ ہو وہیں قربانی کرے اور بنا پر احتیاط اس کیسا تھ حلق یا تقصیر انجام دے کر احرام کھول دے ۔ اسی طرح جب عمرہ تمتع کا احرام ہو اور حج کو حاصل کرنا بھی ممکن نہ ہو تو یہی حکم ہے ورنہ ظاہریہ ہے کہ ا س کا فریضہ حج افراد میں تبدیل ہوجائے گا ۔ اگر طواف و سعی کے مقام تک پہنچنا یامنی کے اعمال بجا لانے کیلیے منی جانان ممکنن ہہ ہو تو اس ک اوہی ہخم ہے جو مسئلہ ۴۴۹ میں بیان ہو اہے ۔

(۴۵۴)فقہاء کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ حج یا عمرہ کرنے ولاجب قربانی ساتھ نہ لائے اور اس نے خد ا سے شرط کی ہو کہ اگر اعمال حج مکمل کرنے سے معذور ہو گیا تو احرام کھول دونگا ۔ اور پھر کوئی عذر پیش آجا ئے مثلا بیماری دشمن یا کسی اور وجہ سے کعبہ یاوقوف کی جگہوں پر نہ پہنچ کسی تو اس شرط کے نتیجہ میں عذر پیش آنے پر حرام کھول سکتا ہے ۔ اور تمام چیزیں اس پر حلال ہوجا ئیں گی اور حران کھولنے کے لیے قاربابی دینا وار حلق و تقصیر کرنا ضروری ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی محصور ہوجائے تو بیوی کے حلال ہونے کے لیے طواف و سعی واجب نہیں ہیں یہ قول اگرچہ وجہسے خالی نہیں ہے مگر احتیاط واجب یہ ہے کہ جب محصور یامصدود ہوجائے تو جو حکام حرام کھولنے کے لیے بتائے گئے ہیں ان کی رعایت کریاور شرط کے نتیجہ محل ہونے پر مذکورہ آثار مرتب نہ کرے ۔

یہاں تک واجبات حج کو بیان کیا گیا اب ہم حج کے آداب بیان کریں گے ۔ فقہا ء نے حج کے لیے بہت زیادہ آداب ذکر کئے ہیں جن کی گنجائیش اس مختصر سی کتاب میں نہیں ہے لہذا ہم چند آداب بیان کرنے پر اکتفا کریں گے ۔

یہ جان لینا چاہیے کہ مذکورہ آداب میں سے بعض مستحب ہونا قاعدہ تسامح فی ادلتہ السنن پر مبنی ہے چنانچہ ضروری ہے کہ انہیں رجا مطلوبیت کی نیت سے ناجم دیاجائے نہ کہ اس نیت سیہ یہ شارع مقدس سے وارد ہوئے ہیں یہی حکم مکروہات میں بھی ہے جو آگے بیان کئے جائیں گئے ۔

مستحبات احرام

1 ۔احرام پہننے سے پہلے بدن کو پاک صاف کرنا جاخن کاٹنا مونچھوں کی تراش خراش کرنا زیر بغل اور زیر ناف بالوں کو صاف کرنا مستحب ہے ۔

۲۔ جو شخص حج کرنا چاہتا ہو وہ ابوتدا ذیعقدہ سے ارو جو عمرہ مفردہ کرنا چاہتا ہ وہ ایک مہینہ پہلے سے سر اور داڑھی کے بال بڑھائے ۔ بعض فقہاء اسکے واجب ہونے کے قائل ہی انکا قول اگرچہ ضعیف ہے مگر احوط ہے ۔

۳۔ احرام کے لیے میقات سے غسل کرنا اور اظہر یہ ہی خہ حائض و نفسا کے لیے بھی یہ غسل کرنا صحیح ہے ۔ اگر میقات پر پانی نہ ملنے کا خوف ہو اس سے پہلے غسل کرے پھر اگر میقات میں پانی مل جائے تو دوبارہ غسل کرے ۔اگر غسل کرنے کے بعد حدث اصغر صادر ہو یا ایسی چیز کھائے یا پہنے جو محرم پر حرام ہو تو دوبارہ غسل رکے جو غسل دن میں کرے گا وہ اگلی شب تک کافی ہو گا اور جو رات میں غسل کریگا وہ اگلے دن کے آکر تک کافی ہے ۔

۴۔ احرام کے دو کپڑے پہنے

۵۔ دونوں کپڑ ے سوتی ہوں ۔

۶۔ نماز ظہر کے بعد احرام باندھے اور اگر نماز ظہر کے بعد نہ باندھ سکتا ہو تو کسی اور واجب نماز کے بعد باندھے ورنہ دو رکعت نافلہ نماز پڑھنے ے بعد باندھے جب کہ چھ رکعت افضل ہے ۔ پہلی رکعت میں سورة الحمد اور سورة توحید اوردوسری رکعت میں سورة الحمد کے بعد سورة الکافرون پڑھے ۔ نماز سے فارغ ہوکر خدا کی حمد و ثنا ء بیان کرے اور رسول اکرم اور انکی پاک آل پر درود بھیجے۔

۷۔احرام کی نیت کو زبان سے تلفظ کرے اور بیت کی الفاظ تلبیہ کے ساتھ ملائے۔

۸۔مرد تلبیہ بلند آواز میں کہیں ۔

۹۔حالت احرام میں نیند سے بیدار ہو کر ہر نماز کے بعد سوار ہوتے وات سواری سے اترتے وقت ٹیلے کے اوپر چڑھتے ہوئے یا اترتے ہوئے سوار شخص سے ملاقات کے وقت اور سحر کے وقت تلبیہ کو کثرت سے پڑھنا مستحب ہے چاہے محرم مجنب یا حائض ہو ۔عمرہ تمتع کرنے والا تلبیہ کو اس وقت تک کہتا رہے جب تک اسے پرانے مکہ کے گھر نظر نہ ائیں اور حج تمتع میں عرفہ کے دن زوال تک تلبیہ کہتا رہے جیسا کہ مسئلہ186 میں بیان ہوچکا ہے ۔

مکروہا ت احرام

احرام میں چند چیزیں مکروہ ہیں ۔

۱۔ سیاہ کپڑے سے احرام باندھنا بلکہ احوط ہے ہ اسے ترک کریدیں چونکہ احرام میں سفید کپڑا افضل ہے ۔

۲۔ زردرنگ خے بستر اور تکیہ پ سونا

۳۔ میلے کپڑے سے احرام باندھنا تاہم اگرا حرام باندھنے کے بعد میلا ہوتو بہترہے کہ جب تک احرام کی حالت میں ہے اسے نہ دھوئے البتہ احرام بدلنے میں کوئی حرج نہیں ہی ۔

۴۔منقش یا اس جیسے کپڑے سے احرام باندھنا۔

۵۔احرام سے پہلے مندیی لگانا جب کہ اس کا اثر حرام کے وقت تک باقی رہے ۔

۶۔حمام میں جانا اولی بلکہ احوط یہ ہیہ محمرماپنے جسم کو من ملے اور نہگھے ۔

۷۔ کسی کے بکارنے کے جوابن میں لبیک کہنا بلکہ اسے ترک کرنا احوط ہے ۔

حرم میں داخل ہونے کے مستحبات

حرم میں داخل ہوتے وقت چند چیزیں مستحب ہیں۔

۱۔ حرم پہنچ کر سواری سے اترنا اورداخل ہونے کے لیے غسل کرنا ۔

۲۔ حرم میں داخل ہوتے وقت جوتے اتار کر انہیں خضوع و خشوع کی نیت سے ہاتھ میں پکڑنا۔

حرم میں داخلَ ہوتے وقت دعا کا پڑھنا

اللھم انک قلت فی کتابک المنزل

۴۔ حرم میں داخل ہوتے وقت اذخر (خوشبودار گھاس) میں سے کچھ مقدار کا چبانا۔

مکہ مکرمہ اور مسجد الحرام میں داخل ہو نے کے آداب

جو شخص مکہ میں دخل ہونا چہاتا ہو اس کے لککی مستحب ہے ہ مکہ میں داخل ہونے سے پہلے غسل کرے اورسکون و وقار کے ساتھ داخل ہجو ۔ مدینے کیرستے سے آنے ولے کے لے مستحب ہے کہ وہ مکہ کی بالائی سمت سے داخل ہو اورجاتے وقت مکجہ کی زیریں سمت والے راستے سے باہر جائے ۔

مستحب ہے ہ مسجد الحرام میں ننگے پیر سکون و وقار اور خشوع کے ساتھ باب بنی شیبہ سے داخل ہو ۔ اگرچہ یہ دروازہ مسجد کی وسیع ہونے کی وجہ سے پتہ نہیں چلتا مگر بعض افرادکا کہنا ہے کہ یہ باب السلام کے مقابل ہے چنانچہ بہتر یہ ہی کہ باب السلام سے داخل ہو کر یہاں تک کہ ستونونں سے گزر جائے ۔

مستحب ہے کہ مسجد کے دروازہ پر کھڑے ہوکریہ کہے۔

السلام علیک ایھا النبی ورحمة اللہ وبرکاتہ بسم اللہ وبااللہ ومن اللہ و ما شائاللہ والالسم علی انبیاء اللہ و رسلہ والسلام علی رسول اللہ والسلام علی ابراہیم خلیل اللہ والحمد اللہ رب العالمیں۔

نماز طواف کے آداب

نماز طواف میں پہلی رکعت میں سورہ الحمد کے بعد سورہ توحید اور دوسری رکعت میں سورہ الحمد کے بعد سورہ کافرون پڑھنا مستحب ہے نماز سے فارغ ہو کر خدا کی حمد ثناء بیان کرے اور محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وآل محمد علیہم ا لسلام پر درود بھیجے اور خدا سے قبولیت کی دعا کرے

امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے نماز طواف کے بعد سجدہ کیا اور سجددہ میں فرمایا

سجد وجھی لک تعبد ا ورق لاالہ الا انت حقا حقا الاول قبل کل شئی والاخر بعد کل شئی وھا انا ذابین یدیک ناصیتی بیدک ، واغفرلی انہ لا یغفر الذنب العظیم غیرک فاغفرلی فانی مقر بذنوبی علینفسی ولا یدفع الذنب العظیم غیرک

مستحب ہے کہ صفا جانے سے پہلے آب زم زم پیے اور کہے

اللہم اجعلہ علما نافعا ورزقا واسعا وشفا من کل داء و سقم

اگر ممکن ہو تو نماز طواف کے بعد آبزم زم کے کنویں کی طرف آئے اور اس سے ایک یا دو ڈول آبزم زم لے اور اس میں سے کجھ پانی پی کر باقی اپنے سر کمر اور پیٹ پر ڈالے اور یہ دعا پڑھے

اللہم اجعلہ علما نافعا ورزقا واسعا وشفا من کل داء و سقم

پھر حجر اسود کی طرف آئے اور وہاں سے صفا کی طرف روانہ ہو جائے

سعی کے آداب

مستحب ہے کہ سکون اور وقار کے ساتھ حجر اسود کے مقابل دروازیسے صفا کی طرف جائے اور جب صفا پر چڑھے تو کعبہ کی طرف دیکھے اور اس رکن کی طرف متوجہ فو جس میں حجر اسود ہے اور اللہ کے حمد ثناء بیان کرے اور اس کی نعمتوں کو یاد کرے پھر سات مرتبہ اللہ اکبر سات مرتبہ الحمد للہ اور سات مرتبہ لاالاہ الا اللہ کہے اور پھر تین مرتبہ کہے

لا الہ الا اللہ وحدہ لاشیرک لہ ، لہ الملک ولہ الحمد یحیی و یمیت وہو علیکل شئی قدیر

پھر محمد صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اور آل محمد علیہم السلام پر درود بھیجے اور پھر تین مرتبہ کہے

اللہ اکبر الحمد للہ علی ماھدانا والحمد للہ علی مآ اولانا والحمد للہ الحی القیوم والحمد للہ الحی الدائم

پھر تین مرتبہ کہے

اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ن ان محمد اعبدہ ورسولہ ، لانعبد الا یاہ مخلصین لہ الدین ولو کرہ المشرکین

پھر تین مرتبہ کہے

اللھم انی اسئک العفو والعافیة والیقین فی الدینا والاخرة

پھر تین مرتبہ کہے

اللھم اتنا فی الدنیا حسنة و فی الاخرة حسنة وقنا عذاب النار

پھر سو مرتبہ اللہ اکبرسو مرتبہ لاالہ الا اللہ سو مرتبہ الحمد للہ اور سو مرتبہ سبحان اللہ کھے اور پھر یہ دعا پڑہے

لاالہالا اللہ و حدہ وحدہ انجز وعدہ و نصر عبدہ و غلب الحزاب و حدہ بارک لی فی الموت و فیما بعد لامو اللھم انی اعوذبک من ظلمة القبر و وحشتہ اللھم اظلنی فی اظل عرشک یوم لا ظل الا ظلک

 

پھر تکرار کے ساتھ اپنے دین اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اللہ کے سپرد کر ے اور کہے

استودع اللہ الرحمن الرحیم الذی لا تضیع و دائعہ دینی و نفسی و اھلی اللھم استعملی علی کتابک و سنة نبیک و توافنی علی ملة و اعذنی من الفتنة

پھر تین مرتبہ اللہ اکبر کہ کر اسے دوبارہ دو مرتبہ پڑھے اور پھر ایک مرتبہ تکبیر کہ کر پھر اسے دوبارہ پڑھے اور اگر یہ پورا ممکن نہ ہو تو جتنا ممکن ہو اتنا پڑھے امیرالمومنین علیہ السلام سے مروی ہے کہ جب آپ صفا پر چڑھتے تھے تو کعبہ رخ ہو کر ہاتھ بلند کر کے یہ دعا پڑھتے تھے

اللھم اغفرلی کل ذنب اذنبتہ قط فان عدت فعد علی بالمغفرة فانک انت الغفور الرحیم اللھم افعل بی ما انت اہلہ فانک ان تفعل ان تفعل بی ماانت اہلہ ترحمنی وان تعذبنی فانت غنی عن عذابی محتاج الی رحمتک فیا من انا محتاج الی رحمة ارحمنی ، اللھم لا تفعل بی ما ا اھلہ فانک ان تفعل ان تفل بی ما نا اھلہ ، تعذبنی ولن تظلمنی اصبحت اتقی عدلک ولا اخاف جورک ، فیما ہو عل لایجور ارحمنی

چھٹے امام علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ

اگر تم چاھتے ہو کہ تمھارا مال زیادہ ہو تو صفا پر زیادہ ٹھرو مستحب ہے کہ سعی سکون اور وقار کے ساتھ کی جائے یہاں تک کہ پہلے منارہ کے مقام تک پہنچے اور وہاں سے دوسرے منارہ کی طرف ھرولہ یعنی تیزتیز چلے لیکن عورتوں کے لٰے ھرولہ مستحب نہیں ہے وہاں سے سکون اور وقار سے چلتے ہوئے مروہ پر چڑھے اور پر پہنچ کر وہی اعمال انجام دے جو صفا پر انجام دئے تھے اور اسی پرح مروہ سے صفا واپس لوٹے اگر سوار ہو کر سعی کر رہا ہو تو دوناں مناروں کے درمیان سواریکو تھوڑا تیز کرے اور مناسب ہے کہ گریہ طاری کرنے کی کوشش کرے اور بارگاہ الہی میں گڑ گڑا کر کثرت سے دعاکرے

احرام سے وقوف عرفات تک کے آداب

جب حج کے لئے احرام باندہ کر مکہ سے باہر نکلے تو راسے میں آواز بلند کئے بغیر تلبیہ کہے ابطح پر پہنچ کر آواز کو بلند کرے اور منی کی طرف متوجہ ہو کر یہ کہے

اللھم ایاک ارجو ایاک ادعو فبلغنی املی و اصلح لی عملی

پھر سکون و وقار سے ذکر خدا کرتے ہوئے منی جائے اور منی پہنچ کر یہ دعا پڑھے

الحمد اللہ الذی اقد منیھا صالحا فی عافیة و بلغنیھذا المکان

پھر یہ دعا پڑھے

اللھم و ھذہ منی و ہی مما مننت بہ علی اولیائک من المناسک فاسئلک علی محمد ال محم دو ان تمن علی فیھا بما مننت علی اولیائک واہل طاعتک وانما اناعبدک و فی قبضتک

حاجی کے لئے مستحب ہے کہ شب عرفہ اللہ کی اطاعت گزاری کرتے ہوئے منی میں گزارے افضل یہ ہے کہ عبادت میں مشغول رہے خصوصامسجد خیف میں نماز پڑھنے کے بعد طلوع شمس تک تعقیبات پڑھے ااور پھر عرفات طرف جائے ۔ طلوع آفتاب سے پہلے بھی منی سے نکلنے سے پہلے کوئی حرج نہیں ہے ۔جب عرفاتکی طرف متوجہ کی طرف متوجہ ہو تو یہ دعا پڑھے ۔

اللھم الیک صمدت وایاک اعتمدت ووجھک اردت فاسئلک ان تبارک لی فی رحلتی و ان تقضی لی حاجتی وان تجعلنی ممن تباھی بہ الیوم من ہو افضل منی

پھر عرفات پہنچنے تک تلبیہ کہے

وقوف عرفات کے آداب

وقوف عرفات کی مستحبات بہت سی ہیں ۔ جن میں سے چند بیان کی جارہی ہیں ۔

۱حالت وقوف میں باطہارت ہونا

۲۔ زوال کے وقت غسل کرنا

۳۔دعااوراللہ کی طرف متوجہ ہونے کے لیے اپنے کو ہر چیز سی فارغ کردینا

۴۔ پہاڑ کے دامن میں الٹے ہاتھ کی طرف وقوف کرنا۔

۵۔نماز ظہر و عصر کو ایک اذان اوردواقامت کے ساتھ جمع کر کے پڑھنا

۶۔ جتنا ممکن ہو منقول دعاؤں کو پڑھنا تاہم منقول دعائیں افضل ہیں ۔ منقول دعاؤں میں سے ایک دعا عرفہ کے دن امام حسین علیہ السلام کی دعاہے ۔ اس دعا کے بارے میں روایت ہے کہ بشر و بشیر جو غالب اسدی کے فرزند تھے کہتے ہیں کہ عرفات میں جب عصر کا وقت ہو ا ہم امام حسین علیہ السلام کے قریب تھے امام حسین علیہ السلام نے چند اہل بیت فرزندوں اور ماننے والوں کے ساتھ حالت خشوع و خضوع اورسکون کے ساتھ اپنے خیمہ سے باہر تشریف لائے اور پہاڑ کی دائیں جانب روبقبلہ کھڑے ہو کر اپنے ہاتھں کوچہرہ مبارک کے برابر ت اس طرح بلند کیا جیسے کوئے مسکین کھانا مانگ رہاہو اور پھر اس دعا کو پڑھا

وقوف مزدلفہ کے آداب

یہ بہت زیادہ ہیں ہم ان میں سے چند بیان کریں گے ۔

۱۔ عرفات سے سکون اور وقار کیاساتھ استغفار کرتے ہوئے روانہ ہون اور سیدھے ہاتھ کی طرف سرخ ٹیلے کے قریب پہنچ کر یہ دعا پڑ ھیں ۔

اللھم ارحم مرقفی وزد فی عملی وسلم لی دینی وتقبل مناسکی

۔معتدل رفتار کے ساتھ چلنا

۔نماز مغرب و عشاء کو مزدلفہ کر ایک آذان اور اقامت کے ساتھ پڑھنا چاہے ایک تہائی رات گزر جائے ۔

۔ راستے کے دائیں طرف وادی کے درمایں پہنجچ کر مشعر کے کے قرتین ہے سواری سے اتر جائے ور پہلی مرتبہ حج کرنے ولاے کے لیے مستحب جگ مشعر الحرام کی زمیں پر پیر رکھے۔

۔رات عبادت اور منقولہ و غیر مبنوقولہ دعاؤں میں گزارے منقولہ دعاؤں میں سے ایک دعا یہ ی

اللھم ہذہ جمع اللھم انی اسئلک ان تجمع لی فیھا جوامع الخیر اللھم لاتویسنی من لاخیر الذی سئلتک ان ۔تجمعہ لی فی قلبی و اطلب الیک ان تعرفنی ما عرفت اولیایک فی منزلی ہذا اوان یقینی جوامع الشر

۶۔صبح تک طہارت میں رہے پھرع نماز فجر ادا کرکے خداکی حمد ثنا کبیان کرے اسکی نعمتوں کو اور محبوتوں کو یاد کرے اور نبی کریم پر درود بھیجے اوریہ دعا پڑھے۔

اللھم رب المشعر الحرم فک رقبتی من النار وااوسع علی من رزقک الحلال ودراعنی شر فسقة الجن واالنس ، اللھم انت خیر مطلوب الیہ و خیر مدعو وخیر مسئول ولکل وافد جائزآة فاچعل جائزت فی موطنمی ہذا ان تقلیلنی عثرتی وتقبل معذرتی وان تجاثز عن خطیئتی ، ثم الجعل التقوی من الدنا زادی

۷۔مزدلفہ سے رمی کے لیے سسرت کنکر اٹھائے ۔

۸۔جب وادی محسر سے گزرنے لگے تو سو قدم تیز تیز چلے اور یہ دعا پڑھے۔

اللھم سلم لی عھدی واقبل توبتی واجب دعوتی واخلفنی بخیر میممن ترکت بعدی

رمی جمرات کے مستحاب

رمی جمرات میں چند چیزیں مستحب ہیں

۱۔ کنکر مارتے وقت باطہارت ہونا

۲۔جب کنکر ہاتھ میں پکڑے تو یہ دعا پڑھے۔

اللھم ہذہ حصیاتی فاحصھن الی وارفعھن فی عملی

۳۔ہر کنکر پھینکتے وقت یہ دعا پڑھے

اللہ اکبر اللھم ادحر عنی الشیطان اللھم تصدیقا بکتابک وعلی سنة نبیک ، اللھم اجعلہ حجا مبرور و عملا مقبولا وسیعا مشکورا و ذنبا مغفورا

۴۔کنکر مارنے والا جمرہ عقبہ سے داس یا پندرہ ہاتھ کے فاصلے پر کھڑا ہو

۵۔ جمرہ عقبہ کوسمانے اور پشت بقلبلہ کھڑے ہوکر کنکر مارنا جب کہ جمرہ اولی و وسطی کو قبلہ رخ ہوکر کنکر مارنا ۔

۶۔ کنکر کو انگوٹھے پر رکھ کر انگشت شہادت کے ناخن سے پھیکنا

۷۔ منی میں اپنے خیمہ میں واپس آکر یہ دعا پڑھنا ۔

اللھم بک و ثقت و علیک توکلت فنعم الرب و نعم المولی و نعم النصیر

قربانی کے آداب

قربانی میں چند چیزیں مستحب ہیں ۔

۱۔قربانی کے لیے اونٹ یا گائے ہو ورنہ دنبہ ہو

۲۔ جانور موٹا

۳۔ ذبح یا نحر کرتے وقت یہ دعاپڑھے

وجھت وجھی للذی فطر السماوات ولارض حنیفا و ما انا من المشرکین ، ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمیں لاشریک لہ و بذالک امرت و انا من المسلمیں ، اللھم منک ولک بسم اللہ واللہ اکبر ، اللھم تقبل منی

۴۔ذبح خود کرے اوراگر یہ ممکن نہ تو چھری پر ہاتھ رکھے اور ذبح کرنے والا اس کا ہاتھ پڑھ ر ذبح کرے ورنہ ذبح کرتے ہوئے دیکھے اور اگر اپنا ہاتھ ذبح کرنے والے کے ہاتھ پر رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔

حلق سر مونڈوانے کے مستحبات

حلق میں درج ذیل مستحبات ہیں ۔

۱۔سر کو دائیں طرف سے منڈوانا شروع کرے اورحلق کے وقت یہ دعا پڑھے

اللھم اعطنی بکل شعرة نورا یوم القیامة

۲۔ منی میں اپنے خیمہ میں اپنے بال دفن کرے۔

۳۔حلق کے بعد داڑھی اور مونچھوں کی تراش خراش کرے اور اپنے ناخن کاٹے۔

حج کے طواف اور سعی کے آداب

عمرہ کے طواف ، نماز طواف اور سعی کے جوا آفداب بیانہوئے وہی آداب حج کے طواہ ، نماز طواف اورسعی کے بھی ہیں عید کے دن طواف کرنا مستحب ہے جب مسجد کے دروازے پر کھڑا ہو تو یہ دعا پڑھے

اللھم اعنی علینسکلک و سلمنی لہ او لسمہ لی اسئلک مسالة العلیل الذلیل المعترف نذنبہ ، ان تغفرلیذنوبنی و ان ترجعنی بحجتی اللھم انی عبدک والبلک بلدک ، والبیت بیتک ، جئت اطلب رحمتک واوم طاعتک متبعا لامرک راضیا بقدر ، اسئلک مسالة المضطر الیک ، المطیع لامر ک المشفق من عذابک ، الخائف لعقوبتک ، ان تبلغنی عفوک و تجیرنی من النار برحمتک

پھر حجر اسود کے پاس آئے اور اسے مس کر کے ہا تھ کو بوسا دے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو حجر اسود کے سامنے کھڑا ہو کر تکبیر کہے اوروہ دعا پڑھے جو مکہ آنے کے بعد طوا ف کے وقت پڑھی تھی جسکا بیان ,,مکہ مکرمہ اور مسجد الحرام کے داخل ہو نے کے آداب ،، میں ہو چکا ہے ۔

ایام منیٰ کے آداب

ایام تشریق میں منیٰ میں قیام کرنا اور وہاں سے باہر نہ جانا مستحب ہے حتی کہ مستحب طواف کے لیے بھی باہر نہ جائا جائے منی میں پندرہ نمازوں کے بعد تکبیر کہنا مستحب ہے اور پندرہ نمازوں میں پہلی نماز عید کے دن ظہرکی نماز ہے ۔ باقی مہیوں میں دس نمازوں کے بعد تکبیر مستحب ہے ۔ بہتر ہے کہ تکبیر اس طرح سے کہی جائے اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الا اللہ و اللہ اکبر وللہ الحمد اللہ اکبر علیی ماھدنا اللہ اکبر علی مارزقنا من بھیمۃ الانام والحمد للہ علی ماابلانا

مستحب ہے کہ فریضہ و نافلہ نمازوں کو مسجد خفیف میں پڑھے ابو حمزہ ثمالی نے پانچویں امام علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپں ے فرمای کہجس نے منی سے بارہ جانے سے پہلے مسجد خفیف می سو رکعت ناز پڑھی اسے ستر سال کی عبادت کا وثواب ملے گا اور جو وہاں سو مرتبہ سبحان اللہ کہے گا تو اس کے لیے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھا جائے گا ۔ جو سومرتبہ لاالہ الا اللہ کہے گا تو اس کا ثواب ایسا ہے کہ جسیے کسی کو مووت سے نجات دینے کاثواب ہے اور جو سو مرتبہ الحمد اللہ کہے گا اس کو عراقین کے خراج جنتا مال راہ خدا میں صدقہ کرنے کے برابر ثواب ملے گا ۔

مکہ معظمہ کے آداب

مکہ میں درج ذیل چند چیزیں مستحب ہیں ۔

۱۔ کثرت سے ذکر خدا کرنا ووارقرآن پڑھنا

۲۔مکہ میں ایک قرآن ختم کرنا ۔

۳۔آب زم زم پی کر یہ کہنا چاہیے

اللھم اجعلہ علما نا فعا ورزقا واسعا وشفآء من کل داء سقم

پھر یہ دعا پڑھو

بسم اللہ و باللہ والشکر للہ

۴۔کثرت سے کعبہ کو سیکھنا

۵۔کعبہ کے دس طواف کرنا رین ابتدا شب میں تین آخر شب میں دو فجر کے بعد ار دو طواف ظہر کے بعد۔

۶۔مکہ میں قیام کے دوران ۳۶۰ طواف کرنا اور اگر یہ ممکن نہ تو ۵۲ طواف کرنا ور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو جتنے طواف ممکن ہو اتنے طواف کرے۔

پہلی مرتبہ حج کرنے والے کے لیے کعبہ میں داخل ہونا مستحب ہے کہ داخل ہونے سے پہلے غسل کرے اور داخل ہونتے وقت یہ دعا پڑھے ۔

اللھم انک قلت ومن دخلہ کاآنا فامنی من عذاب النار

اس کے بعد دنوں ستونوں کے درمیاں سرخ پھتر پر دو رکعت نماز پرھے پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورہ حم سجدہ اور دودسری رکعت میں سورہ حمد کے بع طپورے قرں سیکوئے بنھی ۵۵آیات پڑھے۔

۸۔کعبہ کے حاروں کونوں میں نماز پڑھے اور نماز کے بعد کہے ۔

اللھم من تہیا اوتعبا اواعد اوستعدا لوفادة الی ۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

مستحب ہے کہ کعبہ سے نکلتے ووقت تین مرتبہ تکبیر کے بعد کہے

اللھم لا تجھد بلا ئنا ربنا ولا تشمت بنا اعدآئنا فانک انت الضآر النافع

پھر باہر آئے ور کعبہ رخ ہوکر سیڑھیوں کو اپنے بائیں جانب قرار د ے کر سیڑھیوں کینزدیک دو رکعت نماز پڑھے۔

طواف وداع

جوشخص مکہ سے رخصت ہونا چاہے اس کیلے مستحب ہے کہ وہ طواف وداع بجالائے اور ہر چکر میں ممکن ہو تو حجر اسود اوررکن یمانی کو مس کرے اورجب مستجار تک پہنچے تو مستحبات صفحہ ۳۳۵ پر بیان ہو چکے ہیں ۔ وہ بجالائے اور خدا سے دعا کرے پھر حجر اسود کو مس کرے اور پانے شکم کوخانہ کعبہ سے ملا دے ور اپنا ایک ہاتھ حجر اسود پر اوردوسراہاتھ دروازے کی طرف رکھے پھر خدا پھر خدا کی حمد و ثنا بجالائے اور ار پیغمبر اور انکی آل پر درود بھیجے ارو پھر کہے اللھم صل علی محمد عبدک و رسولک و نبیک وامینک و حبیبک و نجیک و خیرتک من خلقک اللھم کما بلغ رسالاتک و جاہد فی سبیلک و صدع بامرک واوذی فی جبنک و عبدک حری اتاہ الیقین اللھم اقلبنی مفلحا منحا مستجابا لی فافضل مایرع بہ احد من و فدک من المغفرة البرکۃوالرحمۃ الرضوان العافیۃ

اور مستحب ہے کہ باب الحناطین سے نکلے جو رکن شامی کے سامنے ہے اور کدا سے دوبارہ کانے کی توفیق طلب کرے اور مستحب ہے کہ نکلتے وقت ایک درہم کی کھجور خرید کر فقراء کو صدقہ دے۔