(۱۶۹)مسلئہ ۱۶۷ میں موجود صورت کے علاوہ اگر مکلف بھول جائے ،بے ہوشی ،مسلئہ سے ناآشنائی یامیقات کو نہ پہنچاننے کی وجہ سے بغیر احرامِ میقات سے گزر ے تو ااس مسئلہ کی چار صورتیں ہیں ۔
احرام میں تین چیزیں واجب ہیں ۔
۱۔ نیت ۔ یعنی مکلف ارادہ کرے کہ عمرہ یا حج قربة الی اللہ انجام دوں گا ۔نیت میں معتبر نہیں کہ اعمل کوتفصیل سی جانتاہو۔ بلکہ اجمالی معرفت بھی کافی ہے ۔ لہذا اگرنیت کرتے وقت مثلاعمرہ میں جو کچھ واجب ہے تفصیلا نہ جانتاہوتو ایک ایک عمل کو رسالہ عملیہ یا قابل اعتماد شخص سے سیکھ کر انجام دینا کافی ہے۔
۱۔ قصد قربت وقصد اخلاص ،جیساکہ ساری عبادتوں میں ضروری ہیں ۔
۲۔ خاص جگہ سے احرام کی نیت کرنا ،اس کی تفصیل میقاتوں میں بیان ہوچکی ہے ۔
۳۔ احرام کو معین کرنا کہ عمرہ کا ہے یاحج کا اورحج کی صورت میں معین کرنا کہ حج تمتع کاہے یا قران کااورکسی کی جانب سے حج کر رہا ہو تو نیابت کا قصد کرنااورکسی جانب سے قصد نہ کرنا ہی کافی ہو گا کہ عبادت خود اسکی جانب سے ہے ۔ اظہر یہ ہے کہ جو حج نذرکی وجہ سے واجب ہواہو اسکی ساقط ہونے کے لیے کافی ہے کہ نذر کردہ عمل اسکی انجامکردہ عمل پر منطبق ہوجائے اوراسکا صحیح ہونا حج نذر ہونے پر موقوف نہیں ہے ۔ جس طرح اس شخص کیلیے جو حج کرے تو اس حج کوحج اسلام سمجھنے کے لیے یہی کافی ہے کہ جو حج الاسلام اس پر واجب تھا وہ اس عمل پر جسے یہ بجالایا ہے منطبق ہوجائے اورمزید کسی قصد کی ضرورت نہیں ہے۔
(۱۷۷) نیت کے صحیح ہونے کے لیے معتبر نہیں کہ زبان سے کہے اگرچہ مستحب ہے جس طرح قصد قربت میں دل سے گزارنا معتبر نہیں ہے بلکہ داعی کافی ہے (یعنی عبادت پرابھارنے والے چیز قربت خداہو)جیساکہ دوسری عبادات میں داعی کافی ہے ۔
(۱۷۸)احرام کے صحیح ہونے میں محرامات احرام کو ترک کرنیکا عزم اول سے آخر تک ہونا معتبر نہیں ہے ۔ اس بناء پراس بناء پر محرمات کو انجام دینے کا عزم ہو پھر بھی احرام صحیح ہوگا۔لیکن عمرہ مفردہ کے احرام کے دوران اگرکوئی اپنی بیوی سے ،سعی سے فارغ ہونے سے پہلے ،جماع کا ارادہ رکھتاہو یاجماع کرنے میں متردد ہوتو طاہر یہ ہے کہ اس کا احرا م باطل ہے ۔ اور بناء بر احوط استمناء کا بھی یہی حکم ہے ۔ اگر احرام کے وقت جماع یا استمناء کو ترک کرنے اک عزم ہومگر بعد میں اس عزم پر باقی نہ رہے یعنی احرام کے بعد دونوں افعال میں سے کسی ایک کو انجام دینے کا قصد کرے تو اس کااحرام باطل نہیں ہو گا۔
تلبیہ اس طرح کہے ۔ لبیک اللھم لبیک ،لبیک لاشریک لک لبیک اوراحوط اولی ہے کہ اس جملے کا اضافہ کرے ۔ ان الحمد ونعمة لک والملک ،لاشریک لک ۔ اور جائز ہے کہ اس جملے کے آخر میں لبیک کا اضافہ کرے اوریوں کہے لاشریک لک لبیک ۔
(۱۷۹)نامز میں تکبیرة الاحرام کی طرح تلبیہ کے الفاظ بھی سیکھنا اورصحیح اداکرنا ضروری ہے ۔ خواہ کسی دوسرے شخص کی مدد سے صحیح ادا کرسکے ۔ لیکن اگرکسی کو تلبیہ یاد نہ ہو اور کوئی پڑھانے والا بھی نہ ہو تو جسطرح سے ادا کرسکتاہو اد اکرے ۔ بشرطیکہ اتنا غلط نہ ہوکہ عمومی کطور پرتلبیہ ہی نہ سمجھا جائے ۔ اور اس صور ت میں احوط یہ ہے کہ جمع کرے یعنی دوسری زبانکے حروف مگر عربی زبان میں تلبیہ پڑھے ،ترجمہ بھی پڑھے اور کسی کو تلبیہ پڑھنے کے لیے نائب بھی بنائے ۔
(۱۸۰)اگر کسی حادثے میں گونگاہونے والا شخص اگر تلبیہ کے کچھ الفاط کی کچھ مقدر ادا کرسکتاہو تو جتنی مقدار تلبیہ کہہ سکتاہے کہے اور اگر بالکل ادانہ کرسکتاہو تو تلبیہ کودل سے گزارے اور دل سے گزارتے وقت اپنے ابان اور ہونٹوں کو حرکت دے اوراپنی انگلی سے اس طرح اشارہ کرے کہ گویاالفاظ تلبیہ کی تصویر پیش کر رہاہے ۔ لیکن وہ شخص جو پیدائشی گونگاہو یاپیدائشی گونگے کی طرح ہو تو وہ اپنی زبان اورہونٹوں کو اس طرح حرکت دے جس طرح تلبیہ کہنے والا شخص حرکت دیتاہے ۔ اور اس کے ساتھ انگلی سے بھی اشارہ کرے ۔
(۱۸۱)عیر ممیز بچے کی طرف سے دوسرا شخص تلبیہ کہے ۔
(۱۸۲) حج تمتع ،عمرہ تمتع ،حج افراداور عمرہ مفردہ کے حرام بغیرتلبیہ کے نہیں باندھے جاسکتے ۔لکین حج قران کا احرام نہ صرو تلبیہ بلکہ اشعار (جانور پر علامت لگانا )اورتقلید (جانور کے گلے میں کوئی چیز لٹکانا)سے بھی باند ھا جاسکتاہے ۔ اشعار اونٹ کی قربانی کے لیے مخصوص ہے جب جب کہ تقلید تمام جانوروں میں مشترک ہے ۔ اولی وبہتر یہ ہے کہ اون تکی قربانی میں اشعارو تقلید کو جمع کیا جائے اوراحج قران کرنے والااگر اپنے احرام کو شعاریا تقلید سے باندھے تو احوط اولی یہ ہے کہ تلبیہ بھی کہے ۔
تلیبہ یہ ہی کہ اونٹ کے کوہان کوایک طرف سے چیرکر خون الودہ کیاجائے تاکہ معلوم ہو کہ یہ قربانی ہے ۔ اور احوط یہ ہی کہ دائیں حصہ کو چیراجاے لیکن اگر قربانی کیلیے اونٹ زیادہ ہوں تو ایک شخص دو اونٹوں کے درمیان میں کھڑا ہوکر ایک اونٹ کے دائیں اوردوسرے ے بائیں جانب سے کوہان کو چیرناجائز ہے ۔
تقلید یہ ہے کہ حاجی رسی یا چمڑے کاپٹہ یانعلین یااسی طرح کی کویی چیز قربانی کی گردن میں لٹکائے تاکہ پتہ چلے کہ یہ قربانی ہے ۔ بعید نہیں ہے کہ تقلیدکی بجائے تجلیل کافی ہو اورتجلیل یہ ہے کہ حاجی کپڑے یااسی طرح کی کسی چیز سے قربانی کو ڈھانپدے تاکہ معلوم ہو کہ یہ قربانی ہے ۔
(۱۸۳) احرم کے صحیح ہونے میں حدث اصغر یا اکبر سے پاک ہونا شرط نہیں چنانچہ وہ شخص جو حدث اصغر یااکبر کی وجہ سے محدث ہوا ہو مثلامجنب ،حائض اورنساء وغیرہ تواس کا احرام صحیح ہے ۔
(۱۸۴)تلبیہ یاحج قران کرنے والے کے لیے اشعار یا تقلید کی منزلت سیدی ہے جیسے نماز پڑھنے والے کے لیے تکبیرة الاحرام کی ہے ۔ لہذا تلبیہ یا حج قران کی صورت میں اشعار و تقلیدکے بغیر احرام نہیں باندھا جاسکتا۔ چنانچہ اگر کوئی احرام کی نیت کرکے احرام باندھ لے اور تلبیہ کہنے سے پہَلے محرمات احرام میں سے سی کا مرتکب ہو تو نہ گنہگارہو اورنہ ہی اس پر افارہ واجب ہو گا ۔
(۱۸۵)افضل یہ ہے کہ جو مسجد شجرہسے حرام باندھے وہ تلبیہ کو اول بیدا،جو ذی الحلفیہ کی آخرم یں ہے اورجہاں سے زمیں ہموار ہوتی ہے تک تاخیر کرے ۔ اگرچہ احوط یہہے کہ تلبیہ کہنے میں کہنے میں جلدی کرے (یعنی میقات میں کہے )اور بلند آواز یں کہنے میں بیدا ء تک تاخیر کرے یہ حک م مرد کی لیے ہے جب کہ عور ت کوکسی بھی مقام پر تلبیہ کنہے کے لیے اواز کو بلند نہیں کرنی چاہیے ۔
دیگر میقاتوں سے ہرام باندھنے والوں کے لیے اولی اوبہتر یہ ہے کہ چند قدم چلں۴ ے تک تلبیہ کو تاخیر کریں اسی طرح مسجدالحرامسے اہرام باندھنے والوں کیلیے اولی وبہتر یہ ہے کہ تلبیہ کو رقطاتک تاخیرکریں ۔رقطاردم سے پہلے کا مقام ہے ۔ ردم مکہ میں ایک جگہ کانام ہے جسے آجکل مدعی کہتے ہیں ۔جومسجدراعیہ کے قریب کا مقام ہے ۔ اورمسجدجن سے پہلے کا مقام ہے ۔
(۱۸۶)تلبیہ ایک دفعہ کہنا واجب ہے جب کہ زیادہ کہنا بلکہ جتنی مرتبہ کہہ سکتاہو اسکاتکرارکرنامستحبہے اورعمرہ تمتع اداکرنے والے کے لیے احوط یہ ہے کہ جب پرانے مکہ کے گھروں کے مقام پہنچے تو تلبیہ کہنابند کردے اورپرانے مکہ کے گھروں کا مقاماس شخص کیلیے جو مکہکی اوپری جانب سے مدینہ کے راتے آئے اسکی حد عقبہ مدینین ہے ۔ اورجو شخص مکہ کے نچلے حصہ سے آئے ۔اسکی حد عقبہ ذی طوی ہے ۔اسی طرح عمرہ مفردہ انجام دینے والے کے لیے اوحوط یہ ہے کہ اگر وہ حرم کے باہر سے داخل ہو تو حرم میں داخل ہوتے وقت تلبیہ کہنا بند کردے لیکن اگراس نے ادنی حل کے مقام سے احرام باندھ اہو تو پھر مکہ کے گھروں کو نظر آنیکی جگہسے تلبیہ کہنا بند نہ کرے اور کسی بھی حجکا ادااکرنے والاتلبیہ کوعرفہ کے دن زوال کے وقت بندکردے۔
(۱۸۷)اگر کوئی احرام کے دو کپڑے پہننے کے بعداوراس جگہ سے گزرنے سے پہلے جس جگہ تلبیہ کہنے میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے شک کرے کہ تلبیہ کہی ہے یا نہیں تو سمجھے کہ نہیں کہی اور اگرتلبیہ کنہے کے بعد شک کرے کہ صحیح تلیبہ کہی ہے یا نہیں تو سمجھے کہ صحیح تلبیہ کہی ہے ۔
۔احرام کے دو کپڑوں (لنگ اورچادر )کا پہننا۔
۳۔احرام کے دو کپڑوں (لنگ اورچادر )کا پہننا۔مگر انہیں اس لباس کو اتارنے کے بعد پہناجائے جس کا پہننا احرام والے پر حرام ہے ۔ اس سی بچے مستثنی ہیں اوربجے لباس اتارنے میں مقام فخ تک تاخیر کرسکتے ہیں ۔جب کہ وہ اس راستے سے جارہے ہوں ۔
طاہر یہ ہے کہ ان دو کپڑوں کو پہننے کا کوئی طریقہ معتبر نہیں ہے چنانچہ ایک جس طرح چاہے لنگ کے طورپر استعمال کرے اوردوسرے کو چادر کے طور پربغل سے نکال کر کندھے پر ڈال لے یا کسی بھی طرح سے اوڑھے اگرچہ اوحوط یہ ہے کہ جس طرح عام طور پر ان کپڑوں کو استعمال کیاجاتاہے اسی طرح استعمال کرے ۔
(۱۸۸)اظہر یہ ہے کہ احرام کے دو کپڑوں کا پہننا واجب ہے اور احرام کے درست ثابت ہونے میں بطور شرط نہیں ہے ۔
احیتاط یہ ہے کہ لنگ اتناہو کہ ناف سے لے کر زانو ت ک چھپالے اورچادر اتنی ہو کہ دونوں کندھوں ،دونوں بازوں اورکمر کاکافی حصہ چھپالے ۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ احرام کونیت اورتلبیہ سے پہلے پہنے اوراگر نیت اورتلبیہ کواحرما سے پہلے انجام دے تو احوط اولی یہ ہے کہ احرامکے بعددوبارہ نیت اورتلبیہ کا اعادہ کرے ۔
(۱۹۰)اگر کوئی مسئلہ نہ جاننے کی بنا پر یابھول کر قمیص پر حرام باندھ لے تو قمیص اتار دے ،اسکا احرام صحیح ہو گا۔ بلکہ اظہر یہ ہے کہ اگرجان بوجھ ک ر قمیص کے اوپر احرام باندھ لے تب بھی اس کا احرم (قمیص اتارنے کی بعد )صحیح ہو گا۔
لیکن اگر احرام کے بعد قمیص پہن لے تو اسک احرام بغیر شک کے صحیح ہے ۔ تاہم لازم ہے کہ قمیص پھاڑ دے ۔ اورپاؤں کی طرف سے اتاردے ۔
(۱۹۱)حالت احرام میں خواہ شروع میں یا بعد میں سردی یا گرمی سے بچنے کے لیے یا کسی دوسری وجہ سے دوکپڑوں سے زیادہ پہننے میں اشکا ل نہیں ہے ۔
(۱۹۲)احرامکے کپڑے میں جو شرائط معتبر ہیں جو نمازی کی لباس میں معتبر ہیں ۔ چانچہ لازم ہے کہ حرام لے لباس میں خالص ریشم یا درندوں کی اجزاء نہ ہوں بلکہ احوط یہ ہے کہ کسی بھی حرامگوشت جانور کے اجزااورسونے کی تاروں کابناہوا نہ ہو اسی طرح ضروری ہے کہ پاک ہو تاسہم جو نجاست نماز میں معاف ہے وہ احرام میں بھی معاف ہے ۔
(۱۹۳)احوط یہ ہے کہ لنگ ایسے کپڑے کا نہ ہو جس سے بد ن ظاہرہو بلکہ بدن کو چھپانے والا ہو مگر یہ شرط چادر میں معتربر نہیں ہے ۔
(۱۹۴)لباس احرام میں احوط اولی یہ ہے کہ دونوں کپڑے بنے ہونے ہوں اور چمڑے کھال اور کمبل کی طرح نہ ہوں ۔
(۱۹۵)مردوں کیلئے لنگ اور چادر پہننا واجب ہے جب کہ عورتوں کیلئے جائز ہے کہ وہ اپنے عام لباس پر احرام باندھ سکتی ہیں بشرطیکہ ان میں ذکر شدہ شرائط موجود ہوں ۔
(۱۹۶)اگرچہ ریشم کا لباس پہننا صرف مردوں پر حرام ہے ۔ اور عورتوں پ رحرام نہیں ہے ۔ مگر احوط یہ ہے کہ عورتو ں کے احرام کا کپڑا بھی ریشم کا نہ ہو بلکہ احوط یہہے کہ عورتیں حالت احرام میں خالص ریشم کی کوئی بھی چیز نہ پہنیں ۔ مگر یہ کہ ضرورت ہو جسے گرمی یا سردی سے حفاظت کے لیے پہنناپڑے ۔
(۱۹۷) اگر حرام باندھنے ے بعد ایک یادونوں کپڑے نجس ہوجائیں ۔ تو احوط یہ ے کہ اس کو پاک کرنے یا تبدیل کرنیمیں جلدی کرے ۔
(۱۹۸)احرم کے کپڑوں کو ہر وقت پہنے رکھنا ضروری نہیں ہے ۔ چنانچہ چادر کو کندھے سے ہٹانے میں خواہ خواہ ضرورت کے تحت ہٹائے یا بلاضرورت کے ۔ کوئی اشکال نہیں ہے ۔ اسی طرح جب دوسری چادر میں شرائط موجودہوں تو بدلابھی نہیں جاسکتاہے ۔
احرام میں ترک کی جانے والی چیزیں ۔
گذشتہ مسائل میں بیان ہو اکہ تلبیہ اور تلبیہ کاحکم رکھنے والی چیزوں (مثلا اشعار و تقلید حج قران میں ) کے بغیر احرام نہیں باندھا جاسکتا چاہے نیت بھی کر لی جائے
جب مکلف احرام باندھ لے تو ذیل میں درج پچیس چیزیں اس پر حرام ہو جاتی ہیں
(۱) خشکی کے جانور کا شکار
(۲ )جماع کرنا
(۳) عورت کا بوسہ لینا
(۴) عورت کو مس کرنا
(۵) عورت کو دیکھنا اور چھیڑچھاڑ کرنا
(۶) استمناء
(۷)عقد نکاح
(۸) خوشبو لگانا
(۹)مردوں کے لئے سلا ہو ا کپڑا یا ایسا کپڑا پہننا جو سلے ہوئے لباس کے حکم میں آتا ہو
(۱۰) سرمہ لگانا
(۱۱) آئینہ دیکھنا
(۱۲) مردوں کے لئے بند جوتے یا موزے پہننا
(۱۳) فسوق (جھوٹ بولنا ، مغلظات بکنا )
(۱۴) بحث و جھگڑا کرنا ایسا طرز عمل اختیا ر کرنا جو کسی مومن کے لئے اہانت کا باعث ہو
(۱۵)جسم کی جوئیں وغیرہ مارنا
(۱۶) آرائش کرنا بننا سورنا
(۱۷)بدن پر تیل ملنا
(۱۸ ) بدن کے بال صاف کرنا
(۱۹) مردوں کیلئے سر ڈھانپنا اسی طرح پانی میں سر ڈبونا اور یہ عورتوں پر بھی حرام ہے
(۲۰ ) عورتوں کا اپنے چہرے کو چھپانا
(۲۱)مردوں کا سائے میں رہنا
(۲۲) جس سے خون نکالنا
(۲۳) ناخن کاٹنا
(۲۴)ایک قول کے مطابق دانت نکالنا
(۲۵) ہتھیار لے کر چلنا
(۱۹۹) محرم کے لئے خشکی کے جانوروں کا شکار کرنا ، ہلاک کرنا زخمی کرنا یا ان کے کسی عضو کو توڑنا بلکہ کسی قسم کی اذیت جائز نہیں اسی طرح محل ّ (جوحالت احرام میں نہ ہو ) کے لئے بھی حرم میں حیوانات کو اذیت پہنچانا جائز نہیں یہاں خشکی کے جانو ر سے مراد وہ جانور ہیں جو جنگلی ہو ں چاہے اس وقت کسی وجہ سے پالتو ہوگئے ہوں او ر ظاہر یہ ہے کہ اس حکم میں حلال و حرام گوشت جانور میں فرق نہیں
(۲۰۰) محرم کے لئے خشکی کے جانور کو شکار کرنے میں کسی او رکی مدد کرنا بھی حرام ہے خواہ دوسرا شخص محرم ہو یا محل یہاں تک کہ اشارہ وغیرہ کے ذریعے بھی مدد کرنا حرام ہے بلکہ احوط یہ ہے کہ محرم شخص ہر اس کام میں جو خودمحرم پر حرام ہیں جو مسئلہ (۱۹۹ ) میں بیان ہوئے کسی دوسرے کی مد دنہ کرے
(۲۰۱) محرم کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ شکار کو اپنے پاس محفو ظ رکھے چاہے احرام سے پہلے حود اس نے کیا ہویا کسی او رنے حرم میں کیا ہویا حرم سے باہر
(۲۰۲)محرم کیلئے شکار کا کھانا جائز نہیں چاہے محل نے حرم سے باہر شکار کیا ہو اسی طرح محل کے لئے بھی اس حیوان کا گوشت کھانا جسے محرم (احرام والے شخص نے سے شکار کیا ہو، خواہ شکار کو مارا ہو یا شکا ر کر کے ذبح کیا ہو بنابر احوط حرام ہے نیز محل پر اس حیوان کا گوشت کھانا بھی حرام ہے جسے کسی محرم یا کسی اور شخص نے حرم میں شکار یا ذبح کیا ہو ۔
(۲۰۳)بری جانوروں کا بھی وہی ہخم ہے جو خود جاانوروں کا حکم ہے ۔ چنانچہ بعید نہیں کہ اس حیوان کے انڈے کوکھانا ،توڑنا اوراٹھانا بھی محرم پر حرام ہے ۔ لہذا احوط یہ ہی کہ انڈوں کے اٹھانے کھانے اورتوڑے میں بھی کسی کی مدد بھی نہ کرے ۔
(۲۰۴)جیسا کہ بیان ہو اہے کہ یہ مسائل خشکی کے مانوروں کی لیے مخصوص ہیں اورٹڈی بھی انہیں میں سے ہے ۔ لیکن دریائی جانوروں کے شکار میں کوئی حرج نہیں ہے۔ دریائی حیونات سے مراد وہ جانورہیں جو صرف پامی میں زندگی گزارتے ہوں مثلامچھلی ،۔خشکی اورپانی دونوں میں زندگی گزرانے والے جانوروں کاشمار خشکی کے جانوروں۴ میں ہوگ ا۔ اگرچہ اظہر یہ ہے ةکہ وہ حیوان جس کے خشکی کے ہونے میں شک ہو ،اسکا شکار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(۲۰۵) جس طرح خشکی کے جانورکا شکار حرام ہے اسی طرح ہلاک کرنا،خواہ شکار نہ بھی کرے حرام ہے اس حکم سے چدن چیزیں مستثنی ہیں ۔
۱۔پالتو جانورچاہے کسی وجہ سے وحشی بن گئے ہوں مثلابھیڑ گائے ۔اونٹ اور پرندے جو مستقل طور اڑ نہیں سکتے مثلامرغ ،چینی مرغ وغیرہ کو ذبح کرنا محرم کے لیے جائز ہے ۔ اسی طرح ان حیوانات کو بھی ذبح کر نا جائزہے جنکے پالتو ہونے کا احتمال ہو ۔
۲۔ درنوں او رسانپ وغیرہ جن سے محرم کواپنی جان کا خطرہ ہوتو انکومارنا جائز ہے ۔
۳۔ درندہ صفت پرندے جو حرم کے کبوتروں کو اذیت دیں انکو مارناجائز ہے ۔
۴۔زہریلا سیاہ سانپ بلکہ ہر خطرناک سانپ ،بچھواو ر چوہا،انکو ہر ہال میں مارنا جائزہے اور انکو مارنیمیں کوئی کدفارہ نہیں ہے ۔ مشہور قول کے بناپرشیر مستثنی ہے ۔ مزید
بر آں جن درندوں سے جان کا خوف نہ ہو ان کو مارنے سے کفارہ واجب ہو جاتا ہے ا ور ان کا کفارہ ان کی قیمت ہے ۔
(۲۰۶)محرم کے لئے کوے او ر شکاری باز کو تیر مارنا جائز ہے اور اگر وہ تیر لگ جانے سے مر جائیں تو کفارہ واجب نہیں ہے ۔
(۲۰۷) اگر محرم شتر مرغ کو ہلاک کر دے تو ایک اونٹ کفارہ دینا ہو گا اگر جنگلی گائے کو مارے تو ایک گائے کا کفارہ دے بنابر احوط وحشی گا ئے کو بھی مارنے کا بھی یہی حکم ہے ہرن اورخرگوش کے مارنے پر ایک بکری دے بنابر احوط لومڑی کو مارنے کا بھی یہی حکم ہے
(۲۰۸) جو شخص ایسے جانور کا شکار کرے جس کا کفارہ اونٹ ہواور اس کے پاس اتنا مال نہ ہوجس سے اونٹ خرید سکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا واجب ہے اور ہر مسکین کوایک مدّ (تقریبا ۷۵۰گرام )کھانا دے اور اگر اس پر بھی قادر نہ ہو تو (۱۸ ) روزے رکھے اگر وہ ایسا جانور ہو کہ جس کا کفارہ گائے ہو او رگائے خریدنے کے پیسے نہ ہوں تو تیس مسکینوں کو کھانا کھلائے او رکھانا نہ کھلا سکتا ہو (۹) روزے رکھے اگروہ ایسا جانور ہو جسکا کفارہ بکری ہو اور اگر بکری نہ خرید سکتا ہو تو(۱۰) مسکینوں کو کھانا کھلائے او ریہ بھی نہ کر سکے تو ۳ دن روزے رکھے
(۲۰۹)قطاة، چکور اورتیتر کو مارنے پر بھیڑکا ایسا بچہ جو دودھ چھوڑ کرگھاس چرناشروع کر دے بطور کفارہ دینا واجب ہے چڑیا ، چنڈول اور ممولا وغیرہ مارنے پر اظہر یہ ہے کہ ایک مد طعام دے او رمذکورہ پرندوں کے علاوہ کبوتر یا کوئی اور پرندہ مارنے پر ایک دنبہ کفارہ دے او ران کے بچے کو مارنے پر ایک بکری کا بچہ یا بھیڑ کا بچہ کفارہ دے اورانڈے کہ جس میں بچہ حرکت کر رہا ہو ،کا بھی یہی حکم ہے اور اگر انڈے میں بچہ ہو جو حرکت نہ کر رہا ہو توایک درھم کفارہ دے بلکہ بنابر احوط اگرانڈے میں بچہ نہ بھی ہو توبھی ایک درھم کفارہ دے ایک ٹڈی کے قتل پرایک کھجور یا مٹھی بھرطعام کفارہ دے اور مٹھی بھر طعام دینا افضل ہے اور اگر متعدد ٹڈیاں ہو ں توکفارہ بھی متعدد ہو جائے گا لیکن اگر عمومی طورپر وہ بہت زیادہ شمار ہوں تو کفارہ پھر ایک بکری دینا ہو گا
(۲۱۰)جنگلی چوہے ، خار پشت او رسوسمار (گوہ) وغیرہ مارنے پر بکری کا بچہ او رصحرائی چھپکلی مارنے پر مٹھی بھر کفارہ دے
(۲۱۱) زنبور (بھڑ) کو عمدا مارنے پر کچھ مقدارطعام کفارہ دے تاہم اذیت سے بچنے کے لئے مارنے پر کوئی کفارہ نہیں ہے
(۲۱۲)اگر محرم حرم سے باہر شکار کرے تو اس کو ہر حیوان کے مطابق کفارہ دیناہوگااور جن حیوانات کے لئے کفارہ معیّن نہ ہو تو انکی بازار میں موجود ہ قیمت کفارہ کے طور پر دے اور اگر کسی حیوان کو محل (بغیر احرام والا ) شخص مار دے تو اس کی قیمت کفارہ دے سوائے شیر کے اظہر یہ ہے کہ اس کا کفارہ ایک میں ڈھا دینا ہوگا اور اگر محرم حرم میں شکار کرے تو اسے دونوں کو جمع کر کے دینا ہوگا
(۲۱۳)محرم کے لئے ایسے راستے کو ترک کرنا جس پر ٹڈے زیادہ ہوں واجب ہے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو تو پھر ان کے مارنے میں کوئی حرج نہیں ہے
(۲۱۴) اگر کچھ لوگ جو کے حالت احرام میں ہوں مل کر شکار کریں تو ان میں سے ہر ایک کوعلیحدہ کفارہ دیناپڑے گا
(۲۱۵) شکار کئے گئے جانور کا گوشت کھانے کا کفارہ او رشکار کرنے کا کفارہ برابرہے چنانچہ اگرکسی نے حالت احرام میں شکار کیا اور پھر اس کو کھا لیاتو دو کفارے واجب ہوں گے ایک شکار کا ، دوسرا کھانے کا
(۲۱۶) محرم کے علاوہ اگر کوئی ارو شخص شکار کو لے کرحرم میں داخل ہو تو اس پر واجب ہے کہاسے چھوڑ دے ۔ چنانچہ اگر وہ نہ چھوڑے اور وہ مجائے تو اس پر کفارہ دیناواجب ہے مسئلہ نمبر ۲۰۱میں بیان شدہ تمام صورتوں میں احرام باندھتے وقت شکار کو ساتھ رکھنا حرام ہے ۔ چنانچہ اگر اس نے آزاد نہ کیااوروہمرگیا تو کفارہ دے اوراحوط یہ ہے ہ خواہ حرم میں داخلہونے سے پہلے بھی مرجائے تب بھی کفارہدے ۔
(۲۱۷)حیوان کا شکاریااس کا گوشت کھانے پر کفارہ واجب ہوجاتاہے ۔اوراس سے فرق نہیں پڑتاکہ یہ فعل جان بوجھ کر کرے یا بھول کریا لاعلمی کی وجہ سے سرزد ہو اہو ۔
(۲۱۸)شکار کے تکرار سے کفارہ بھی مکر ر ہوجاتاہے ۔ چاہے اس کی وجہ غلطی ،یابھول یا لاعلمی ہو اسی طرح ابغیر احرامولاشخص عمدا حرم میں اور محرم شخص متعدد احراموں میں شکار کا تکرار کریں تو تو کفارہ بھی مکرر ہوجائے ۔ لیکن اگر محرم عمدا ایک ہی اہرام میں شکار کی تکرار کرے تو صرف ایک کفارہ واجب ہو جائے بلکہ یہ ن افراد میں سے ہوگا جن کے بارے میں خدانے کہاکہ ومن عادفینتقم اللہ منہ یعنی جو تکرار کرے گا اللہ اس سے انتقام لے گا۔
(۲۱۹) محرم پر عمرہ تمتع کے دوران ، عمرہ مفردہ کے دوران اور اثنائے حج نماز طواف النساء سے پہلے جماع کرنا حرام ہے
(۲۲۰) اگر عمرہ تمتع کرنے والا عمدا اپنی بیوی سے جماع کرے توچاہے قبل (آگے )میں کرے یا دبر (پیچھے ) میں کرے اگر سعی کے بعد کیا ہوتو اس کا عمرہ باطل نہیں ہو گا تا ہم کفارہ واجب ہوگا اور بنابر احوط کفارے میں ایک اونٹ یا ایک گائے دیاور اگر سعی سے فارغ ہو نے سے پہلے جماع کرے تو اس کا کفارہ بھی وہی ہے جو بیان ہوچکا او راحوط یہ ہے کہ اپنا عمرہ تمام کرے پھر اس کے بعد حج کرے او رپھر آئندہ سال ان کودوبارہ انجام دے
(۲۲۱) اگر حج کے لئے احرام باندھنے والا جان بوجھ کر اپنی بیوی کے ساتھ مزدلفہ کے وقوف سے پہلے جماع کرے خواہ قبل میں کرے یا دبر میں،تو اس پر کفارہ واجب ہے او ر واجب ہے کہ اس حج کو پورا کرے اور آئندہ سال اس کا اعادہ کرے خواہ حج واجب ہو یا مستحب ، عورت کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر وہ احرام کی حالت میں ہو اور حکم کو جانتی ہو اوراس عمل پر راضی ہو تواس پر کفارہ واجب ہے او رضروریہے کہ حج کوپورا کر کے آئندہ سال اس کا اعادہ کرے لیکن اگر عورت کے ساتھ زبردستی کی گئی ہو تو اس پھر کچھ واجب نہیں ہے اورشوہر پر دو کفارے واجب ہیں جماع کا کفارہ ایک اونٹ ہے او راگر اونٹ نہ دے سکے تو ایک بکری کفارہ دیاور اس حج میں واجب ہے کہ شوہر و بیوی جدا جدا رہیں یعنی دونوں اس وقت تک ایک جگہ جمع نہ ہوں جب تک کوئی تیسرا موجودنہ ہویہاں تک کہ دونوں اعمال حج سے فارغ ہو جائیں حتی کہ منی کے اعمال سے بھی فارغ ہو کر اس جگہ جائیں جہاں جماع کیا تھا لیکن اگر کسی اور راستے سے آئیں( یعنی جماع کی جگہ اس راستے میں نہ ہو)توجائز ہے کہ اعمال تمام ہونے کے بعد وہ ایک ساتھ آئیں اسی طرح دوبارہ کیے جامے والے حج میں بھی جماع کرنے والی جگہ پر پہنچنے سے لے کر منی میں ذبح کرنے تک دونوں کا جدا رہنا واجب ہے بلکہ احوط یہ ہے کہ اس وقت تک جدارہیں جب تک کہ تمام اعمال حج سے فارغ ہو کر واپس اس جگہ آ جائیں جہا ں جماع ہوا تھا
(۲۲۲)اگر محرم عمدا وقوف مشعرکے بعد اور طواف النساء سے پہلے اپنی بیوی سے جماع کرے تو سابقہ مسئلہ میں بیان شدہ کفارہ واجب ہے لیکن حج کااعادہکدنا واجب نہیں او ریہی حکم ہے اگر طواف النساء کا چوتھا چکر مکمل کرنے سے پہلے جما ع کرے لیکن اگرچوتھا چکر مکمل ہونے کے بعدہو تو کفارہ بھی واجب نہیں ہے
(۲۲۳)اگر محرم عمرہ مفردہ میں عمدا اپنی بیوی سے جماع کرے تو سابقہ بیان شدہ کفارہ اس پر واجب ہے اور سعی کے بعد جماعکرنے پر اس کا عمرہ باطل نہیں ہوگا لیکن اگر سعی سے پہلے کر ے تو اس کا عمر ہ باطل ہوجائے گاچنانچہ واجب ہے کہ اگلے مہینے تک مکہ میں رہے اور مشہور پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک میقات سے عمرہ کا اعادہ کرنے کے لئے احرام باندھے، بنابر احوط ادنی حل سے احرام باندھنا کافی نہیں ہے اور یہ بھی احوط ہے کہ باطل ہونے والے عمرہ کو بھی مکمل کریا۔
(۲۲۴)اگر محل (بغیراحرام ولا)شخص اپنی حراموالی بیوی کے ساتھ جماع کرے تو اگر بیوی راضی ہوت وعورت پر وواجب ہے کہ ایک اونٹ کفارہ دے ۔ لیکن اگر راضی نہ ہو بلکہ مجبوری ہو تو کچھ واجب نہیں ہے ہے اور احوط ہے کہ شووہر اپنی بیوی پر واجب ہونے ولے کفارے کا نقصان ادا کرے یعنی کفارے کی قیمت ادا کرے ۔
(۲۲۵) اگر محرم شخص لاعلمی کی وجہ سے یا بھول کی وجہ سے اپنی بیوی سے جماع کرے تو اس کا عمرہ اور حج صحیح ہے اور اس پعر کفارہ بھی واجب نہیں ہے ۔ یہ حکم کفارہ کا موجب بننے والے محرمات انجام دینے میں بھی جاری ہوگا ۔جن کی تفصیل آگے آئے گی ۔یعنی لاعلمیی یا بھول کی وجہ سے محرم ان محرمات کا مرتکب ہو تو اس پر کفارہ وجاب نہیں ہو گ ا۔ تاہم مندرجہذیل بعض موارد مستثنی ہیں ۔
۱۔ حج یا عمجرہ میں طواف کرنا بھول جائے ۔ یہاں تک کہ اپنے ۔شہر واپس آ کر اپنی بیوی سے مجامعت کرے ۔
۲۔عمرہ تمتمع میں سعی کی کچھ مقدار بھول جائے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ سعی مکمل ہوگئی ہے احرام سی فار غ ہو جائے ۔
۳۔ اگر بلاوجہ اپنے سر یا داڑھی پر ہاتھ پھیری جس کی وجہ سے ایک سی زیادہ بال گر جائیں ۔
۴۔ اگرکوئی لاعملی کی وجہ سے خوشبودار تیل یاجسمیں خوشبو ملائے گئی ہو اپنے بدن میں ملے ان سب کا حکم اپنی جگہ پر آئے گا۔
(۲۲۶) محرم کا لذت کے ارادہ سے اپنی بیوی کا بوسہ لیناجائز نہیں ہے ۔ چنانچہ اگر اس نے لذت سی بوسہ لیا اور منی نکل گئی تو اونٹ کفارہ واجب ہوجائے گی اوراگر منی خارج نہ ہو ت وبعید نہیں کہ ایک گوسفند کا کفارہ واجب ہو اگر لذت سے بوسہ لیاہو احتیاط واجب یہ ہی ہ ایک بکری کفارہ دے ۔
(۲۲۷)اگر محل (بغیر احرام والا)شخص اطنی بیوی کا بوسہ لے تو احتیاط یہ ہی ہ ایک بکری کفارہ د ے۔
۴۔ محرم کا شہوت کے ساتھاپنی بیوی کو مس کرنا ،اٹھانایااپنے بازؤں میں بھیچنا جائز نہیں ہے ۔ اور اگر کسی نے ایس اکیا تو لازمہے کہ ایک بکر ی کفارہ دے خواہ منی خارج ہو یا نہ ہو ۔لیکن اگرایساکرنا لذت کے لیے ہو تو کفارہ واجب نہیں ہے ۔
۔عورت کو دیکھنااورچھیڑ چھاڑ کرنا۔
(۲۲۹) محرم کے لیے جائز نہیں کہ اپنی بیوی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے چنانچہ اگر ایس اجنرے سے منی خارج ہو جائے ت وایک اونٹ کفارہ دے اوراگر اونٹ نہ دے سکتاہو تو ایک بکری دے اگر شوہر کو معلوم ہو کہ شہوت سے دیکھنے کی وجہ سے منی خارج ہو جائے گی تو واجب ہے کہ وہ نہ دیکھے بلکہ احوط اولی یہ ہے کہ جاہے منی خارج ہو یانہ ہو شہوت سے اپنی بیوی کی طرف نگاہ کرے ۔ چنانچہ شہوت کی نظر سے بیوی ک ودیکھنے پر اگرمنی خارج ہو تو اہوط یہ ہے کہ کفارہدے جو کہ ایک اونٹ ہے ۔ لیکن اگر منی خارج نہ ہو یا بغیر شہوت کے دیکھنے پر منی خارج ہو تو پھر کفارہواجب نہیں ہے ۔
(۲۳۰)اگر محرم اجنبی عورت کوایسی نگاہ سے دیکھے جو اس کے لیے جائز نہیں ہے اور منی نہ نکلے تو کفارہ واجب نہیں ہے ۔ اور اگر منی نکل آئے تو لازم ہے کہ کفارہ دے ۔ اور احوط یہ ہی کہ اگرمالدار ہوتو ایک اونٹ کفارہ دے اور اگر متوسط ہو تو ایک گائے اوراظہر یہ ہے کہ ایک فقیر کو ایک بکری کفارہ دے ۔
(۲۳۱) محرم کا اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھ نے یا باتیں کرنے سے لزت حاصل کرناجائز ہے اگرچہ احوط یہ ہے کہ محرم اپنی بیوی سے ہر قسم کی لذت حاصل کرنے کو تر ک کرے ۔
(۲۳۲) استمنا ء کی چند اقسام ہیں ۔
۱۔ عضو تناسل کو ہاتھ سے ملنا یا کسی اور چیز سے مطلقا حرام ہے ۔ حج میں اسکا حکم وہی ہے جو جماع کا اور عمرہ مفردہ میں بھی بنابر احوط اسک احکم یہی ہے ۔ لہذا اگر محرم مذکورہ عمل کو احرام حج میں مشعر کے وقوف سے پہلے انجام دیتو لازم ہی کہ کفارہ دے اور اس حج کو تمام کرے اور آئندہ سال اس حج کا اعادہ بھی کرے اگر عمرہ مفردہ میں میں سعی سی فارغ ہونے سے پہلے یہ عمل انجام دے تو احتیاط واجبکی بناپر کفارہ دے ۔ اس عمرہ کو تمام کر کے اگے ماہ اسکا اعادہ بھی کرے ۔
۲۔ اپنی بیوی کا بوسہ لینے ،چھونے ،دیکھنے یا چھیڑ چھاڑ کے ذریعے استمناء وہی حکم رکھتاہے جو گزشتہ مسئلہ میں بیان ہوچکا ہے ۔
۳۔عورت سے متعلق باتیں سننے سے یااس کے اوصاف یا اس کاخیال و تصور کرنے سے استمناء کرن ابھی محرم پرحرام ہے ۔لیکن اظہر یہ ہے کہ موجب کفارہ نہیں ہے ۔
(۲۳۳)محرم کا نکاح کرنایا کسی دوسر یکا نکاح پڑھناجائز نہیں ہے چاہے دوسراآدمی محرم ہو یا نہ ہو ،چاہے نکاح دائمی ہویا غیر دائمی اور مذکورہ تمام صورتوں میں عقد باطل ہے ۔
(۲۳۴)اگر محرم کا کسی عورت سے نکاح کردیاجائے اور وہ اسکے ساتھ جماع کرے تو اگر یہ لوگ حکم شرعی بلحاظ موضوع جانتے تھے تو محرم ،عورت اورنکاح خواں پر ایک ایک اونٹ کفارہ واجب ہے اوراگر ان میں سے بعض حکم شرعی بلحاظ موضوع جانتے ہوں اور بعض نہ جانتے ہوں تو جو نہیں جانتے تھے ان پر کفارہ واجب نہیں ہوگ ااس سے فرق نہیں پڑتا کہ نکاح خواں اور عورت محرم تھے یانہیں ۔
(۲۳۵)فقہاکے درمیاں مشہور ہے کہ محرم کے لیے کسی نکاح کی کی محفل میں شریک ہو نا جائز نہیں ہے حتی کہ بنابر احوط اولی نکاح پر گواہی بھی نہ دے خواہ احرام باندھنے سے پہلے نکاح کی محفل میں شریک ہوا ہو ۔
(۲۳۶)احوط اولی یہ ہی کہ محرم نکاح کے لیے پیش کش بھی نہ کرے تاہم طلاق رجعی میں محرم رجوع کرسکتاہے ۔جسطرح طلاق دینابھی جائز ہے ۔
(۲۳۷) محرم کے لیے خوشبو کا استعمال حرام ہے چاہے سونگھے ،کھانے ،ملنے ،رنگ یابخارات لینے کی صورت میں ہو اسی طرح ایس لبناس پہننا بھی حرام ہے جس میں خوشبو کے اثرات باقی ہو ں ۔خوشبوسے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے جسم ،لباس یاخوراک کو خوشبودار کیاجائے ۔ مثلا مشک عنبر ،ورس اورزعفران وغیرہ ۔ اظہریہ ہے کہ محرم تمام معرف خوشبوؤں مثلا گل محمدی ،کل یاسمیں،ل رازقی وغیرہ سے اجتناب کرے تاہم خلوق کعبہ (خاص قسم کی خوشبو)کو سونگھنے سے اجتناب کرنایااسکو جسم پر یالباس پر ملنے سے پرہیز کرنا واجب نہیں ہے ۔ خلوق کعبہ ایک عطر ہے جو کہ زعفا اور دوسری چیزوں سے بنایاجاتاہے اوراس سے کعبہ معظمہ کومعطر کیاجاتاہے ۔
(۲۳۸)ریاحین کو سونگھنا محرمکے لیے حرام ہے چاہے وہ ریاحین ہو جنسے عطر تیار کیاجاتاہے مثلایاسمیں،گلاب وغیرہ یاان کے علاوہ دوسرے پودے ریاحین ایسی جڑی بوٹیاں ہیں جن سے خوشبوآتی ہے اورانہیں سونگھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔اظہریہ ہے کہ بعض صحرائی خودراؤ سبزیوں کی خوشبو کو سونگھنا حرام نہیں ہے مثلاشیح (ایک قسم کی گھاس ہے )اذخر(خوشبودار گھاس )خزامی (ایک خوشبودار پودا)کا سونگھنااشکال نہیں رکھتا۔ لیکن خثوشبداپھلوں اور سبزیوں مثلاسیب ،بہ(ایک قسم کا پھل )اور طودینہ کوکھانامحرم کے لیے جایز ہے ۔ لیکن احوط یہ ہے کہ کھاتے وقت نہیں نہ دیکھے یہی حکم خوشبودار تیل کاہے چنانچہ اظہر یہ ہے ہ مہک دار تیل جو کھانے میں استمال ہوتاہے اور عام طور پر رطرات میں شمار نہیں ہو ااسکا کاھان جائز ہے لیکن احوط یہ ہی کھاتے وقت نہ سونگھے ۔
(۲۳۹)صفامرورہ کے درمیاں سعی کرتے وقت اگر وہاں عطر بیچنے والے موجود ہوں تو محرم کا اپنے آپ کو خوشبوسے بچانا واجب نہیں ہے لیکن سعی کے علاوہ اس پر واجب ہے کہ خوشبو سونگھنے سے اپنے آپ کو بچائے سوائے خصوق کعبہ کے سونگھنے سے ،جیسے مسئلہ ۲۳۷میں بیان ہو اہے کہ کعبہ کی خوشبوسونگھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
(۲۴۰)اگر محرم عمدا کوئی خوشبودارچیز کھائے یالیسا لباس پہنے جس میں خوشبو کا ا ثر باقی ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ ایک بکر اکفارہ دے لیکن ان دو موارد کے علاوہ خوشبوکیاسعمتال پر کفارہ واجب نہیں ہے ۔لیکن اگرچہ احوط یہہے کہ کفارہ دے ۔
(۲۴۱)محرم کا بدبو کی وجہ سے اپنے ناک کو بند رکھنا حرام ہے ۔ تاہم اس مقام سے تیزی سے گزر جانیمیں کوئی حرج نہیں ہے ۔
۔ مرد کے لیے سلا ہو ایاایسا لباس پہنناجو سلے ہوئے لباس کے حکم آتاہو ۔
(۲۴۲) محرعم کے لیے جائز نہیں کہ یسا لباس پہنے جس میں بٹن یا ایسی چیز ہو جو بتنکا کام دے سکتی ہو (یعنی ایسی چیز جس کا حیک حصہ دوسرے حصہ سے بٹن یاکسی ایسی چیزسے ملاہو ہو ) اسی طرح زردہ کی طرح لباس کا پہننا بھی جائز نہیں ہے (یعنی ایسا لبا س جس میں آستین گریباں ہو اورسر کو گریبان اورہاتھوں کو آستینوں سینکالے )اسی طرح پاجامہ اوراس جیسی چیز وں مثلاپتلون وغیرہ کو شرمگاہ کے چھپانے کے لیے پہنناجائز نہیں ہے ۔ ۔سوائے اس کے کہ ا ن میں بٹن نہہوں ۔ او راحتیاط واجب یہ ہے کہ عموما استعمال ہونے والے لباس مثلاقمیص ،قبا،جنہ اوردوسرے عربی لباس نہ پہنے خواہ ان میں بٹن لگے ہوئے ہوں یا نہ ہوں۔لیکن مجبوری کی حالت میں قمیص یا کسی ایسی چیز کا اپنے کندھوں پر قباڈالانا،قباکوالٹا کر کے پہننا،قبالی اتینوں سے اپناہاتھ نکالے بغیر پہنناجائز ہے ۔ مذکورہ حکم میں لباس کا سلاہو ا،بنا ہو ا،یاتہدارہونے سے فرق نہیں پڑتا۔ محرم کے لیے پیسوں ے تھیلی کا کمر سے باندھنا جائز ہے ۔ چاہے سلی ہوئے ہو ۔مثلاہمیان (وہ چیز جسمیں پیسے رکھ کرکمرسے باندھا جاتاہے ۔)اورمنطقہ (ایس کمبند جسے مخلتف مقاصد کے لیے کمر سے باندھاجاتاہے )اسی طرح ہرنیا کے مرض میں مبتلامحرم فتق بند(ایس کمر بند جو مریض انتڑیوں کونیچے آنے سے روکتاہے ۔)چاہے سلاہو بوقت ضروت استعمال کرسکتاہے ۔اسی طرح محرم کے لیے سوتے وقت یااس کے علاوہ اپنے جسم کو(سوائے سرکے )سلے ہوئے لحاف وغیرہ کے ڈھانپنا جائز نہیں ہے ۔
(۲۴۳)احوط یہ ہے کہ محرم اپنی لنگ کو اپنی گردن میں ڈال کر نہ باندھے بلکہ کسی جگہ پر بھی نہ باندھے اورسوئی وغیرہ سے بنھی اسی مضبوط نہ کرے بلکہ بنابر اہوط چادر میں بھی گرہ نمہلگائے لیکن سوئی وغیرہسے چاد کو مضبوط ومحکم کرنے میں کوئی حر ج نہیں ہے ۔
(۲۴۴)عورت کے لیے حالت احرام میں سوائے دستانوں کے ہر قسم کاسلاہوا لبا سپہنناجائز ہے ۔
(۱۴۵)اگر محرم عمد ایسا لباس پہنے جس کا پہننااس کے لیے جائز نہیں تھاتوواجب ہے کہ ایک بکری کفارہ دے بلکہ احوط یہ ہے کہ اگر مجبورا پہنے تب بھی کفارہ دے ۔ اگر اس نے کئی مرتبہ اس لباس کو پہنا یا یک مشت کئی لباس پہنے ہوں تو ان کے عدد کے مطابق کفارہ دے مثلاکچھ کپڑوں ک وایک دوسرے کے اوپر ایک ہی مرتبہ پہنے جب کہ وہ مختلف لباس ہوں تب بھی انک ییتعداد کے برابر کفارہ دے ۔
(۲۴۶)سرمہلگانے کی دوصورتیں ہیں ۔
۱۔سیاہ سرمہ لگانا ایس سرمہ لگایا جائے جسے عرف عام میں زینت شمار کیاجاتاہوتو اظہریہ ہے کہ محرم کے لیے زینت کی خاطر سرمہ لگاناحرام ہے ۔بلکہ احوط یہ ہی کہ اگر زینت کی لیے نہ بھی لگائے تب بھی حرام ہے ۔لیکن بحالت مجبوری مثلابطور دوائی سرمہ لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
۲۔سیاہ سرمہ یاایسا سرمہکہ جو زینت کی لے استعمال ہوتاہے ان دونوں قسم کے سرمہ کے علاوہ کوئی اور سرمہ لگائے تو اگر زینت کے لیے نہ لگائے تو کوئی حرج نہیں ہے ورنہ احوط یہ ہے کہ اس سرمہ کو بھی نہ لگائے ۔ تمامصورتوں میں مے نسرمہ لگانے پر کفارہ واجب نہیں ہے اگرچہ حرام سرمہ لگانے کی صورت میں بہتر ہے کہ ایک بکری کفارہ دے ۔
۱۱۔محرم کے لیے زینت کی خاطر آئینہ دیکھنا جائز نہیں ہے لکین کسی دوسری غرض مثلااپنے چہرے کے زخم پر مرحم لگانے کے لئیے یا چہری پر وضوکے لیے پانی پہچننے سے روکاوٹ تلاش کرنے کیلیے یا ڈرائیورکا پیچھے آنے والی گاڑی کو دیکھنے کے لیے یا کسی اور ڑورت کے لیے آئینہ دیکھنا جائز ہے اور تمام صورتوں میں وہ چیزیں جو صاف شفاف ہوں اورآئینہ کا کام دی سکتی ہوں آئینہ کا حکم رکھتی ہیں ۔ وہ شخص زینت کے لیے آئینہ دیکھے تو اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ تلبیہ دوبارہ کہے ۔تاہم عینک لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم اگر چشمہ لگانے میں عرفا زینت شمارہوتو اس سے اجتناب کرناچاہیے ۔
۔مردوں کے لیے بو ٹ یا موزے پہننا۔
(۲۴۸)محرممرد کے لیے ایس چیز پہننا حرام ہے جو اسکے پاؤں کے اوپر کا تمام حصہ ڈاھانپ لے مثلا بو ٹ او رموزے ۔ سوائے مجبوری کے مثلامرد کو ہوائی چپل ایسی ہی کوئی اور چپل نہ مل سکے اور مجبورا بوٹ پہنناپڑے لیکن اہوط یہ ہی کہ اوپر کا حصہ پھاڑ کرپہنے تاہم ایسی چیزپہننا جائز ہے جوپاؤں کے بعض حصوں کو چھپائے ۔ اسی طرح بو ٹ و موزے وغیرہ پہنے بغیر پاؤں کے اوپر کے حصے کو چھپانا مثلا بیٹھکر چادر کو اپنے پاؤں پر لپیٹنا جائز ہے ۔ بوٹ یااس جیسی چیزوں کو پہننے سے کفارہ واجب نہیں ہے ۔
چہے مجبرا پہنے یا بعیر مجبوری کے لیکن موزے یاا س جیسی چیز کو عمدا پہننے بنابر اہوط کفارہ واجب ہوجائیگا جو کہ ایک بکری ہے ۔ عورتوں کے لیے بوٹ یا موزے یااس جیسی کوئی اور چیز جو پاؤں کے اوپر کے حصے کو چھپا دے پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
۔فسوق۔(جھوٹ بولنا،گالی گلوچ کرنا اورفخر و غرور کرنا)
(۲۴۹)فسوق میں جھوٹ بولنا،گالی دینااورفخر کرنا شامل ہے اگرچہ فسوق ہر حال میں حرام ہے مگر حالت حرام میں اس کی حالت تاکیدی ہے ۔ فخر کرنے سے مرادیہ ہے کہ کوئی اپنے حسب نسب ،مال ،رتبہ یا اس جیسی چیزوں پر فخر کرے ۔ فخر اس وقت حرام ہے جب اسک یبن اپر مومن کی توہین یا تحقیر ہو رہی ہو ورنہ حرام نہیں ہے ۔ نہ محرم پر اور نہ غیر محرم پرفسوق کا استغفار کے علاوہ اور کچھ کفارہ نہیں ہے اگرچہ احوط یہ ہے کہ ایک گائے کا کفارہ دے
(۲۵۰)محرم کا اس طرح سے بحث یا جھگڑا کرنا جس میں اللہ کی قسم کھا کر کسی چیز کو ثابت کیا جائے یا کسیچیز کا انکا ر کیا جائے حرام ہے ۔ اظہر یہ ہے کہ قسم میں صرو ان دو لفظوں بلی واللہ یا لاواللہ کا لحاظ کرنا معتبر نہیں حی بلکہ ذات حقیقی کی قسم ہو تو کافی ہے چاہے اسم مخصوص اللہ کے ذریعے قسن کھائے یا اسکے علاوہ کسی اور اسم سے اور چاہے قسم لا،یا ,,بلی ،،سے شروع ہو یا نہ ہو ،اسی طرح حاہے قسم عربی زبان میں کھائے یا کسی اور زبان میں ،اللہ کے نام کے علاوہ کسی اورمقدس کی قسم کا کوئی اعتبار نہیں ہے چہ جائے کہ کوئی یوں کہے کہ میری جان کی قسمایس ہے ایسا نہیں ہے ۔ اسی طرح خبر دینے کے علاوہ قسم کا کوئی اثر نہیں ہے مثلا کسی سے التما س کرنے کے لیے قسم کھانااور کہنا کہ,, اللہ کی قسم مجھے فلاں چیز دی دو ،،خود اپنے ارادے کی تاکید کے لیے قسم کھاناکہ میں مستقبل میں یہ کام کرونگا اوریوں کہنا کہ ,,اللہ میں فلاں چیز تمہیں دونگا،،فقہاکا کہنا ہے کہ سچی قسم میں جدال متحقق ہونے میں قسم کا تین مرتبہ پے در پے تکرار کرنا ضروری ہے ۔ ورنہ جدال متحقق نہیں ہو گا تاہم یہ قول اشکا ل سے خالی نہیں ہے اگرچہ احوط اسکے خلاف میں ہے یعنی ایک مرتبہ میں بھی جدال متحقق ہوجائے گا ۔ اور جھوٹی قسم میں جدال کے متحقق ہونے میں بلااشکال تعدد معتبر نہیں ہے ۔
(۲۵۱)حرمت جدال سے ہروہ مورد مستثنی ہے کہ ۔جہاں قسم کو ترک کرنے سے مکلف کو نقصان ہورہاہو جیسے قسم کو ترک کرنے کی وجہ سے اسکا حق ضائع ہو جائے گا ۔
(۲۵۲) اگر کسل کرنے والاتین مرتبہ پے در پے سچی قسم کھائے تو اس پر ایک بکری کفارہ واجب ہو گی اور تین مرتبہ سے زیادہ تکرار کرنے کای وجہ سے متعدد کفارہ نہیں ہو گا ۔ لیکن اگر تین یا زیادہ مرتبہ قسم کھانے کے بعدپھر تین یازیادہ مرتبہ قسمیں کھائے تو ان دو صورتوں میں کفارہ بھی متعدد ہو جائیگا ۔ اگرایک جھوٹی قسم کھائے تو ایک مرتبہ پر ایک بکری اوور دومرتبہ پر دو بکری اورتین مرتیبہ قسم کھانے پر ایک گائے کفارہ واجب ہے تین مرتبہ سے زیادہ قسم کھانے پ رکفارہ نہ دی اہو تو ایک ہی کفارہ واجب ہو گا ۔ تاہم دوسری مرتبہ جھوٹی قسم کا کفرہ دینے کے بعد تیسری مرتبہ جھوٹی قسم کھانے پر ایک بکری ہی کفارہ ہوگی نہ کہ گائے ۔
(۲۵۳)محرم کے لیے جوئیں مارنا اور بنابر احوط اپطنے لباس یا جسمسے نکا ل کر باہرپھیکنا جائز نہیں ہے ۔ تاہم جسم کةی ایک جگہ سے پکڑ کردوسری جگہ چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اگر کوئی جوؤں کو ماردے یا پھینک دے تو احوط اولی یہ ہے کہ مٹھی بھر کھانا کفارہ دے ۔ احوط یہ ہے کہ اگر مچھر ،کھٹمل اور ان جیسے جانور محرم کو ضرر نہ پہچائیں تو انکو بھی نہ مارے لیکن اظہر یہ ہے کہ انہیں اپنے قریب آنے سے روکنا جائز ہے ۔ اگرچہ احوط یہ ہے کہ اس کو بھی ترک کرے ۔
۔ آرائش کرنا(بناؤ سنگھار کرنا)
(۲۵۴)احوط یہ ہے کہ محرم مرد اور عورت اپنے آپ کو ہر اس چیز سے بچائیں جو عموما زینت شمار ہوتی ہے ۔ خواہ زینت کا قصد کرے یانہ کرے ویسے تو عام طور پر مہندی لگانا بھی زینت میں شمار ہجوتاہے لیکن اگر مہندی لگانا زینت میں شمار نہ ہوتاہو مثلا علاج کی غرض سی استعمال کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ اسی طرح احرام باندھنے سے پہلے لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ چاہے اسک ے اثرات احرام باندھنے تک باقی رہیں ۔
(۲۵۵)زینت کے بغیر انگوٹھی پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ چنانچہ انگوٹھی پہننا ایک مستحب عمل ہونے کی وجہ سے،یا گم ہونے سے بچانے کے لیے ،طواف کے چکروں کو شمار کرنے کی لیے یا سی طرح کے کسی اور کام کے لیے پہننے میں کوئی حرج نہیں تاہم احوة یہ ہے کہ زینت کے لیے نہ پہنے ۔
(۲۵۶)محرم عورت کے لیے زینت کی نیت سے زیوارات پہنان حرام ہے بلکہ احوط یہ حی خہ اگر زینت شمار ہوتے ہوں تو زینتکی نیت کی بغیر بھی نہ پہنے تاہم اتنی مقدار میں زیورات پہنناجنہیں وہ عام طور پر احرم سے پہلے پہنتی تھی اس حکم سے مستثنی ہے لیکن احوط اولی یہ ہے کہ زیورات پہن کراپنے شوہر یا دوسرے محرم مردوں کو نہ دیکھائے مذکورہ بالا تمام موارد میں اگر کوئی زینت کرے تو کو ئی کفارہ واجب نہیں ہے ۔
(۲۵۷)محرم کے لیے تیل لگانا حرام ہے چاہے وہ خوشبودار نہ بھی ہولیکن خوشبودار تیل کھاناجائز ہے چاہے وہ تیل اچھی خوشبو الاہوجیساکہ مسئلہ ۲۳۸ میں بیان ہوامحرم کے لیے بعیر خوشبو کاتیل بغیر دوا کے استعمال کرنا جائزہ ہے بلکہ ضرورت ومجبوری کے وقت خوشبودار تیل چاہے اسکی خوشبوطبعی ہو یا ملائی گئی ہو استعال کرنا بھی جائز ہے ۔
(۲۵۸)عمدا خوشبودار تیل اسکی خوشبو خواہ طبعی ہو یا غیر طبعی استعمال کرنے اک کفارہ ایک بکری ہے ۔ اور اگرتت لاعملی کی وجہ سے استعمال کیاجائے تو دونوں تیلوں کا کفارہ بنابر احوط ایک فقیر کوکھانا کھلاناہے ۔
(۲۵۹)محرم کا اپنے یا کسی دوسرے کے بدن سے بال صاف کرنا جائز نہیں ہے چاہے دوسرا بغیر احرام کے ہی کیوں نہ ہو اور چاہے مونڈ کر صاف کرے یا اکھاڑ کر اس حکم میں بالوں کے کمیا زیادہ ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ بلکہ ایک بال کا کچھ حصہ مثلا آدھا بال کاٹنا جائز نہیں ہے لیکن اگر سر میں جوئیں زیادہ ہونے کے وجہ سے اسے اذیت اورتکلیف ہوتی ہو تو پھر سر منڈوانا جائز ہے ۔ اسی طرح سے اگر ضرورت ہو تو بال صاف کرنابھی جائز ہے وضو یا غسل اور تیمم یانجاست سے پاک ہونے یا ایسی روکاوٹ کو دورکرتے وقت جو جسم سے چپکی ہوئی ہو حدث یاخبث طہارت سے مانع بن رہی ہو یا کسی اورضرورت کے وقت اگر بال گریں تو کوئی حرج نہیں ہے جبکہ وہ اسکا قصد نہ رکھتاہو ۔
(۲۶۰) بغیر ضرورت کے سر منڈوانے کا کفراہایک بکری یاتین دن کے روزے یا چھ مسکینوں کوکھاناکھلاناہے ۔ ہر مسکین کا طعام دو مد (یعنی تقریبا ۱۵۰۰ ۔گرام کے برابر ہے )اگر محرم اپنی دنوں بغلوں کے نیچے کے بالوں کو نوچ کر نکالے تو ایک بکری کا کفارہ دے اوراحوط یہ ہے کہ اگر ایک بغل کے نیچے کے بال نوچ کر نکالے تب بھی ایک بکری کا کفارہ دے ۔ اگر داڑھی یا کسی اور جگہ کے بال نکالے تو ایک مسکین کو مٹھی بھر کھانا دے۔
مذکورہ بالاموارد میں اگر کوئی منڈنے یا نوچ کر نکالنے کے علاوہ کسی اورطرح سے بال نکالے تو احوط یہ ہے کہ اسکابھی یہی حکم ہے ۔ اگر محرم کسی دوسرے کا سر مونڈے تو دوسرا سر مونڈوانے والاحالت ہرام میں ہو یا بُغیر حرام کے تو محرم پرکوئی کفارہ واجب نہیں ہے ۔
(۲۶۱)محرم کے لیے اس طرح سر کھجانے میں جہ جب بال نہ گریں یا خون نہ نکلے کوئی حرج نہیں ہے ۔ یہی حکم بدن کھجانے کابھی ہے ۔ اگر محرم بلاوجہ اپنا سر یا داڑھی پر ہاتھ پھیر ے اور ایک یا کچھ بلا گر جائیں تو مٹھی بر کھاناصدقہ دے ۔ اور اگر وضوکرتے وقت کچھ بال گریں تو اس پر کچھ واجب نہیں ہے ۔
(۲۶۲)محرم مر دکے لیے مقنع یاکپڑے یا دوپٹے وغیرہ سے اپنا پورا سر یا کچھ حصہ ڈھانپنا جائز نہیں ہے ۔بلکہ احوط یہ ہے کہ گیلی مٹیی یا جھاڑی وغیرہ کے ذریعے بھی سر نہ ڈھانپے تاہم مشک کا تسمہ یا سر درد کی وجہ سے سر پر رومال باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اس مسئلہ میں سر سے مراد بال اگنے کی جگہ ہے اوراقرب یہ ہے کہ اس میں دونوں کان بھی شامل ہیں ۔
(۲۶۳)بدن کے کسی حصے مثلاہاتھوں سے سر ڈھانپنا جائز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اس سے بھی اجنتاب ضروری ہے ۔
(۲۶۴)محرم کے لیے پورے سر کو پانی یابنابر احوط کسی اورچیز میں ڈبونا جائز نہیں ہے ۔ اب ظاہر ہے کہ اس حکم میں مر د اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اورسر سے مرادگردن کے اوپر کا پوراحصہ ہے ۔
(۲۶۵) احوط یہ ہے کہ اگر محرم سر کو چھپائے تو ایک بکری کفارہ دے اورجن موارد میں سر چھپانا جائز نہیں ہے یا مجبورا سر چھپائے توظاہر یہ ہےْ کہ کوئی کفارہ واجب نہیں ہے ۔
۔ عورتوں کے لیے چہرے کا چھپانا۔
(۲۶۶)حالت اہرام میں عورتوں کے لیے برقعہ ،نقاب یا چہرے سے چپکنے والی چیز سے چہرہ چھپانا حرام چنانچہ احوط یہ ہے کہاپنے چہرے یا چہرے کے کچھ حصے کوبھی کسی چیز سے نہ چھپائے تاہم سوتے وقت اور نامز میں سر چھپاتے وقت مقدمہ کے طور پر جب سر پر موجود چادر کو لٹکانے سے نہ چھپ سکتاجوتو چہرے کا کچھ حصہ ڈانپنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
(۲۶۷) حالت احرام میں عورت اپنی چادر کو لٹکاکر ،نامحرم پردہ کر سکتی ہے یعنی سر پر موجود چادر کو اپنی ناک بلکہ گردن کے مقابل تک کھینچ لے۔اور اظہر یہ ہے کہ چادر کے اس حصے کوہاتھ وغیرہ سے چہرے سے دور رکھنا واجب نہیں ہے ۔ اگرچہ احوط ہے ۔
(۲۶۸)احوط اولیٰ یہ ہے کہ چہرہ ڈھانپنے کاکفارہ ایک بکری ہے ۔
(۲۶۹)سائے میں ہونا دو طرح سے تصور کیا جاسکتا ہے :
۱۔ متحرک اشیاء مثلا چھتری، محمل کی چھت ، گاڑی یا ہوائی جہاز کی چھت ، وغیرہ کے زیر سایہ چلنا ، جب کہ سایہ دار چیز مذکورہ مثالوں کی طرح اس کے سر کے اوپرہوں تومحرم مرد پر حرام ہے خواہ وہ سوار ہو یا پیدل تاہم بدل کے نیچے کھڑاہونا جائز ہے ۔ لیکن اگر سائیہ دار چیز اسکی سیک طرف مثلا سامنے یا پیچھے ہو تو ظاہریہ ہی کہ پیدل شخَص کے لیے ایسا سایہ جائز ہے لہذا محمل یا گاڑی کے سائے میں چلنا محرم مرد کے لے جائز ہے اور سوار کے لیے احتیاط یہ ہے کہ وہ اس سے پرہیز کرے سوائے اسک یکہ عام سورج سے بچنے کا نہ ہو یعنی وہ چیزکھلی ہوئی گاڑی کی دیوار میں محرم مرد کسی ایک طرف ہوں اوراتنی چھوٹی ہو محرم کا سر اور سینہ اس سی نہ چھپتاہو ۔
۲۔ ثابت اور غیر متحرک اشیاء مثلادیواریں ،درخت و پہاڑ یا انہیں جیسی کسی اور چیز کے سائے میں ہو نا محرم مرد کے لیے بنا بر احوط جائز ہے خواہ سوار ہو یا پیدل ۔ اسی طرح محرم کا اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو بچاناسورج کی تپش سے بچانا جائز ہے اگرچہ ہواط اس کو ترک کرنے میں ہے ۔
(۲۷۰)سائے میں ہونے سے مراد اپنے اآپ کو سورج سے بچاناہے اوراحوط یہ ہے کہ اس حکم میں سورج کے ساتھ بارش کو بھی شامل کیاجائے لیکن اظہریہ ہے ہ ہو ا،سردی ،گرمی ،یاان جسیی دوسری چیزوں سیاپنے آپ کو بچانا جائز ہے لیکن احتیاط اسمیں بھی ترک کرنے میں ہے ۔ چنانچہ بنابر احوط جب بارش نہ ہو رہی ہو تو محرم کے لیے چھت والی گاڑی یا کسی اور چیز میں سوار ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اگرچہ یہ سواری محرم شخص کو ہو اسے بچا رہی ہو ۔
(۲۷۱)زةر سایہ چنے کی چو حرم ت بیان ہو ئے ہے وہ حالت سفر میں مخصوص ہے ۔ لہذااگر محرم کسی جگہ پہنچے او راس جگہ کو رہنے کے لیے منتخب کرے یا نہ کرے مثلا دوران سفر آرام کرنے یا دوستوں سے ملاقات کرنے یا کسی اور وجہ سے رکے تو اس وقت سائے میں رہنے میں اشکا ل نہیں ہے ۔ لیکن اس صورت میں کہ جب یہ کسیجگہ پہنچنے اور رہنے ے لیے قرار دے مگر چاہتاہو کہ اپنے کاموں کو انجام دینے کے لیے ادھر ادھر جائے مثلا مکہ میں پہنچے اورچاہتاہو کہ طواف سعی کرنے کے بعد مسجد الحرام جائے یا مثلا منی پہنچے اورقربان یا رمی جمرات کے لیے جانا چاہتاہوتو اس صورعت میں اسکے لیے چھت والی گاڑی میں یا چھتری سے سر پر سائہ کرن اجائز ہے یا نہیں ۔ اس کے جواز کا حکم دینا کافی مشکل ہے ۔چنانچہ احتیاط کو ترک نہیں کرناچاہیے ۔
(۲۷۲)اگر محرم اپنے آپ کو سورج سے بجائے تو اس پر کفارہ واجب ہے ۔اورظاہر یہ ہے کہ کفارہ واجب ہونے میں اختیاری حالت اور مجبوری کی حالت ہونے میں فرق نہیں ہے ۔ لہذ ااگر کوئی باربار سائے میں چلے تو ااظہر یہ ہے کہ ہر احرام کے لیے ایک کفارہ دے ۔ اگرچہ ہر دن کے لیے ایک کفارہ بنابر احوط کافی ہے اوراکفارہ میں ایک بکری کافی ہے ۔
احوط یہ ہے کح محرم کے لیے اپنے چسن سے کون نکالنا جائزنہیں ہے ۔سوائے کسی مجبوری ے یاضرورت کے گرچہ فصد کھولنے ،حجامت ،دانت نکلوانے ،جسم کو کھجانے یا کسی اوروجہ سے ۔ لیکن اظہر یہ ہے کہ مسواک کرنا جائزہے چاہے اسکی وجہ سے خون نکلے احوط اولی یہ حی کہ بغیر ضرورت کے خون نکالنے کا کفارہ ایک بکری ہے ۔
محرم کے لیے ناخن کاٹناجائز نہیں ہے ۔ اگرچہ کچھ مقدار میں کاٹے ،سوائے کسی مجبوری وضرورت مثلاناخن باقی رکھنے میں اذیت وتکلیف ہوتی ہو ۔ یعنی اگرناخن کاکچھ حصہ ٹوٹ ۔گیاہو اورباقی حصہ میں دردہورہاہو توباقی ناخن کو کاٹنا بھی جائز ہے ۔
(۲۷۴)ہاتھ یا پاؤں کا ایک ناخن کاٹنیکا کفارہ ایک مدیعنی تقریبا۷۵۰گرام کھاناہے ۔چنانچہ اگردوناخن کاٹے تو کفارہ دو مد طعام اوراسی طرح نوناخنوں تک (ناخن کاٹنے کے لحاظ سے کفارہ ہو گا)۔ لیکن اگرہاتھ اور پاؤں کے پورے ناخن متعدد نشتوں میں کاٹے تو کفارہ دو بکریاں (ایک ہاتھ اوردوسری پاؤں کے ناخنوں کے لیے )ہوگا ۔ اوراگر ایک ہی نشت میں کاٹے تو پھر ایک بکری کفارہ واجب ہو گا ۔
(۲۷۵)اگر محرم ایسے شخص کے فتوی پر عمل کرنتے ہوئے ناخن کاٹے جس نے ناخن کاٹنے کے جائز ہونے کا فتوی غلطی سے دیا ہو اورکاٹتے ہوئے خون نکل آئے تو احوط یہ ہے کہ کفارہ فتوی دینے والے پر واجب ہے ۔
(۲۷۶)بعَض فقہاء نے محرم کے لیے دانت نکلوانا حرام قرار دیا ہے چاہے خوان نہ بھی نکلے اوراس کا ایک دنبہ کفارہ واجب ہے ۔لیکن اس حکم کی دلیل میں تامل ہے ۔ بلکہ بعید نہیں ہے کہ یہ کا م جائز ہو ۔
(۲۷۷)محرم کے لیے اسلحہ پہننا بلکہ بن ابر احوط اس طرح ساتھ رکھنا کہ مسلح شمار ہو جائز نہیں ہے ۔ اسلحہ سے مراد ہر وہ چیز جو عموما اسلحہ کہلاتی ہے مثلا۔تلوار،بندوق،تیروغیرہ تاہم زرہ سپر وغیرہ حفاظتی آلات ہیں نہ کہ اسلحہ ۔
(۲۷۸)محرم کے پا ساسلحہ ہونے میں جبکہ اس نے پہنا ہو ان ہ ہو کوئی حرج نہیں ہے ۔ اسی طرح اسلحہ ساتھ رکھنا جبکہ عرفا مسلح شمار نہ ہو تاہو کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن پھر بھی ترک کرنا احوط ہے ۔
(۲۹۷)حالت اختیاری میں اسلہح رکھناحرام ہے ۔ لیکن وقت ضرورت مثلادشمن ی اجوری کا خوف ہو تو جائز ہے ۔
(۲۸۰)بغیر ضرورت کے اسلحہ ساتھ رکھنے کا کفارہ ایک دنبہ ہے ۔ ابتک محرم پر حرام ہونے والی چیزی ں بیان ہوئی ہیں ۔ذیل میں ہرم میں حرم ہونے والے امور بیان کیے جارہی ہیں ۔
۱۔خشکی کے حیوانات کا شکارکرناجیساکہ مسلئہ ا۹۹ میں بیان ہو اہے ۔
۲۔ حرم میں اگنے والی کسی چیز کو اکھاڑنا یا کاٹنا خواہ وہ درخت ہو یا کوئی اور چیز لیکن معمول کے مطابق چلنے سے گھاس اکھڑے یا جانور یا کھانے کیلیے جانور کو حرم میں چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن حیوانات کیلیے ذخیرہ کرنے کے لیے گھاس نہیں توڑا جہاسکتاچاہے وہ جانور اونٹ ہی کیوں نہ ہو۔درست ترین قول کے مطابق گھاس وغیرہ اکھاڑنے یا توڑنے لکے حکم سے چند چیزیں مستثنی ہیں۔
(۱ ) اذخر ۔ جو مشہور خوشبودار گھاس ہے ۔
(ب)کھجور اور دوسرے پھلدار درخت
(ج)وہ درخت یاگھاس جسے خود لگایاہو یعنی اپنی ملکیت میں یا کسی دوسرے کی ملکیت میں ہو۔
(د)وہ درخت یاگھاس جو کسی کے گھر میں اگیں لیکن اسکی ملکیت میں یانے سے پہلے اس گزر میں موجود درخت اورگھاس وغیرہ کاحکم باقی تامم درختوں اورگھاس کے حکم جیس اہے ۔
(۲۸۱)و ہدرخت جس کی جڑیں حرم میں اور شاخیں حرم سے باہر ہوں یا ایسا درخت جسکی جڑیں حرم میں ہوں افور شاخیں باہر ہوں وہ پور ادرخت حرم میں شمار ہو گا۔
(۲۸۲)درخت اکھاڑنے کا کفارہ اس درخت کی قیمت ہے ۔ اور درخت کے کچھ حصے کوکاٹنا کا کفارہ کچھ حصے کی قیمت ہے گھاس کو کاٹنے یا اکھاڑنے کا کوئی کفارہ نہیں ہے ۔
۳۔حرم کے باہر کسی پر ظلم کر کے حرم میں پناہ لینے والے شخص پر حد ،قصاص یا تعزیرجاری کرناجائز نہیں ہے ۔لیکن ظالم کو کھانااورپانی نہ دیاجائے ۔نہ ہی اس سے بات چیت کی جائے اورنہ ہی اس سے خرید وفرخت کی جائے نہ ہی اسکو کوئی پناہ یاجگہ دے جائے یہاں تک کہ وہ حرم سے باہر آنے پر مجبور ہو جائے اورپھر اسے پکڑ کر اسے اس کے جرم کی سز ادی جائے
۴۔ ایک قول کے مطابق حرم میں پڑی ہوئی کسی چیز کو اٹھانا حرام ہے ۔ جبکہ اظہر یہ ہی خہ سخت مکروہ ہے ۔ چنانچہ اگرکوئی شخص حرمن میں پڑی ہوئے چیز اٹھالے اوراس پر کوئی اسی علامت نہ ہوجسکی وجہ سے اسے اسکے مالک تک پہنچایاجاسکے تو ااسے اپنی ملکیت میں لینا جائز ہے خواہ وہ چیز ایک درہم یا اس سے زیادہ مالیت کی ہی کیون نہ ہو۔ لیکن اگر اس پر کوئی ایسی علامت ہو جسکی وجہ سے اسے اسکی مالک تک پہنچا یاجاسکتاہو اور اسکی مالیت ایک درہم ساے کم ہو تواعلان کرناواجب نہیں ہے اوراحوط یہ ہے کہ اسکے مالک کی طرف سے صدقہ کردے اگر اسی قیمت ایک درہم یااس سے زیادہ ہوتو پھر پوواراایک سال تک اعلان کرن اواجب ہے اوراسکے باوجودمالک نہ ملے تواحوط یہ ہے کہ مالک کی طرفسے صدقہ کردے۔
کفارے کے جانور ذبح کرنے کی جگہ۔
(۲۸۳)اگر محرم پر عمرہ مفردہ میں شکار ککی وجہ سے کفارہ واجب ہو تو اجانور کو مکہ مکرمہ میں ،اگر عمرہ تمتعیا حج کیاہرام میں شکار کرے توکفارے کے جانور کو منی میں ذبح کرے ۔ جب شکارکے علاوہ کسی ار وجہ سے کفارہ واجب ہو جائے تو اہتیاط کی بن اپر یہی حکم ہے ۔
(۲۸۴)اگرم محرم پر شکار یاکسی اوروجہ سے(جانور ذبح کرنے کا )کفارہ واجب ہوجائے اوروہ اسے کسی عذر یا بغیرعذرکے مکہی منی میں ذبح نہ کرے توا ظہر یہ ہے کہ کسی بھی گجہ ذبح کرناجائز ہے ۔
کفارہ کا مصرف (کفارہ خرچ کرنے کی جگہ)
محرم پر واجب ہونے والے کفارات کو فقراء ومساکین پر صدقہ کرناواجب ہے اوراحوط یہ ہے کہ کفارہ دینے والاا س میں سے کچھ نہ کھائے اوراگر خود کھالے تو احتیاط یہ ہے کہ ج سمیقدار من کھایاہو اسکی قیمت فقراء میں صدقہ کرے ۔
عمرہ تمتع میں دوسراواجب عمل طواف ہے طواف کو عمدا چھوڑنے سے حج باطل ہوجاتاہے چاہے اس حکم کا علم ہو یانہ ہو اورحکم سے ناآشنا شخص پربنابر احوط ایک اونٹ کفارہ ہو گا۔
طواف ترک کرنے کا مطلب یہ ہی کہطواف انجام دینے میں اتنی تاخیر کی جائے کہ عرفہ کے دن زوال سے پہلے اعمال عمرہ ادانہ کیے جاسکیں ۔ اظہر یہ ہے کہ اگر عمرہ باطل ہوجائے تو احرام بھی باطل ہوجاتاہے چنانچہ عمرہ تمتع سے حج افراد ِمی طرف عدول و رجوع کرناکافی نہیں ہے ۔ اگرچہ احوط ہے ۔ یعنی حج افردکے اعمال انجام دے جائیں بلکہ احوط یہ ہے کہ طواف ،نامز طواف ،سعی ،حلق یاتقصیر کوحج افرادوعمرہ تمتع کی عمومی نیت سے انجام دے کہ ان دو میں سے جو واجب ہے اسے انجام دے رہاہوں ۔
طواف میں چند چیزیں شرط ہیں ۔
۔ نیت ۔ طواف قربت کی نیت اور خضوع کے ساتھ خداکا حکم اوربندگی کی بچاآوری کے لیے انجام دے ۔ طواف میں عبادت کو معین کرنا ہبھی معتبر ہے جیساکہ حرام کی نیت کے مسئلہ میں بیان ہو چکاہے ۔
۔ طہارت ۔ حدث اکبر واصغرسے پاک ہو،چنانچہ عمدا یا لاعلمی یابھول کر حالت حدث میں کیا ہو ا طواف باطل ہے ۔
(۲۸۵) اگر طواف کے دوران حدث صادر ہو جائے تو ااسکی چند صورتیں ہیں ۔
(۱) چوتھا چکر مکمل کرنے سے پہلے ہوتو طواف باطل ہو جائیگا چنانچہ پاک ہونے کے بعد طوف دوبارہ انجام دینا ضروری ہے بلکہ اظہر یہ ہے کہ چوتھے چکر کے نصف تک پہنچنے کے بعد بھی اگر حدث صادر ہوتب بھی طواف باطل ہے اوردوبارہ انجام دینا ضروری ہے ۔
(ب) چوتھا چکر مکملہونے کے بعد غیراختیارة طور پر حدث صادر ہو تو اپنا طواف قطع کرکے طہارت کرے اوربعد از طہارت اپناطواف وہیں سے شروع کرکے مکمل کرے جہاں سے چھوڑاتھا۔
(ج) چوتھا چکر مکمل ہونے کے بعد اختیاری طور پر ہدث صادر ہو تو احوط یہ ہے کہ طہارت کے بعد اس طواف کو پوراکرے اوراسکا اعادہ بھی کرے ۔
(۲۸۶ )اگر طواف شروع کرنے سے پہلے طہارت میں شک ہو تو اگر جانتا ہو کہ پہلے طہارت پر تھا اور بعد میں حدث کے صادر ہونے میں شک ہو تو اس شک کی پروہ نہ کی جائے ورنہ طواف سے پہلے طوا ف کرنا واجب ہے
(۲۸۷)طواف سے فارغ ہونے کے بعد طہارت میں شک ہو تو شک کی پروہ نہ کی جائے ،تاہم طواف کو دوبارہ انجام دینا احوط اور نماز طواف کے کئے طہارت کرنا واجب ہے
(۲۸۸)اگر مکلف کسی عذر کی وجہ سے وضو نہ کر سکتا ہو اور عذر کے زائل ہونے کی امید بھی نہ ہو تو تیمم کر کے طواف انجام دے اور اگر تیمم بھی نہ کر سکتا ہو تو اس پر اس شخ کا حکم جاری ہو گا جو طواف کرنے پر قادر نہ ہو اگر امید نہ ہو کہ تیمم کر سکے گا تو طواف کے لئے نائب بنانا ضروری ہے اور احوط یہ ہے کہ خود بغیر طہارت کے طواف کرے
(۲۸۹)حائض اور نفسائپر ایام ختم ہونے کے بعد اور مجنب شخص پر طواف کے لئے غسل کرنا واجب ہے اور اگر غسل نہ کر سکتے ہوں اور امید بھی نہ ہو کہ غسل کر سکیں گے تو پھر تیمم کر کے طواف انجام دیں نیز احوط ا ولی یہ ہے کہ کسی کو طواف کے لئے نائب بنا دیا جائے اگر تیمم بھی نہ کر سکتا ہواورامید بھی نہ ہو کہ بعد دمیں تیمم کر سکے گا تو کسی کو طواف کے لئے نائب بنانا ہی معین ہے ۔
(۲۹۰) اگرکوئی عورت احرام کے دوران یا احرام سے پہلے یا بعد میں مگر طواف سے پہلے حائض ہو جائے اوور اتنا وقت ہو کہ ایام حیض گزرنے کے بعداورحج کا وقت آنے سے پہلے وہ اعمال عمرہ کوبجا لاسکے تو پاک ہونے کے بعد غسل کر کے اعمال عمرہ انجام دے اور اگر اتنا وقت نہ ہوتو اس کی دو صورتیں ہیں:
۱ احرام سے پہلے یا احرام کے باندھتے وقت حیض آئے تو اس کا حج ، حج افراد میں تبدیل ہوجائے گا چنانچہ حج افراد مکمل کرنے کے بعد اگر ممکن ہو تو عمرہ مفردہ انجام دے
۲ احرام حج کے بعد حیض آئیتو احوط یہ ہے کہ پہلی صورت کی طرح عمرہ تمتع حج افراد میں بدل دے اگرچہ ظاہر یہ ہے کہ عمرہ تمتع پربھی باقی رہناجائز ہے یعنی طواف اورنماز طواف کے بغیر عمرہ تمتع کے اعمال انجام دے اس کے بعد سعی کرے اور تقصیر کرے اور پھر حج کیلئے احرام باندھ کر منی میں اعمال انجام دینے کے بعد مکہ واپس آکر حج کے طواف سے پہلے عمرہ کا طواف اورنماز طواف کی قضا ء انجام دے اگر عورت کو یقین ہوکے اس کا حیض باقی رہے گا اوروہ طواف نہیں کر سکے گی یہاں تک کہ منی سے واپسآجائے اورسا کا سبب خواہ قافلے والوں کا عدم صبر ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ طواف او رنماز طواف کیلئے نائب بنائے اور پھر سعی کو خود انجام دے
(۲۹۱)اگر عورت طواف کے دوران حائض ہو جائے تواگر چوتھا چکرمکمل ہونے سے پہلے حیض آئے تو طواف باطل ہوگا اور اسکا حکم وہی ہے جوگزشتہ مسئلہ میں بیان ہوا اگر چوتھا چکرمکمل ہونے کے بعد حیض آئے ت وجتنا طواف وہ کرر چکی ہے وہ صحیح ہوگا اور اس پر واجب ہے کہ حیض سے پاک ہونے اورغسل کرنے کے بعد اسے مکمل کرے نیز احوط اولی یہ ہے کہ اس طواف کومکمل کرنے کے بعد اس کا اعادہ بھی کرے یہ حکم وقت کے وسیع ہونے کی صورت میں ہے ، اگر وقت تنگ ہو توسعی اورتقصیر کر کے حج کے لئے احرام باندھے اور باقی طواف کی قضاء جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوامنی سے واپس آکر حج کے طواف سے پہلے انجام دے
(۲۹۲)اگر عورت طواف کے انجام دینے کے بعد مگر نماز طواف سے پہلے حیض دیکھے تواس کا طواف صحیح ہوگا اور یہ عورت پاک ہونے اورغسل کرنے کے بعدنماز طواف انجام دے اگر وقت تنگ ہو تو پھر سعی اورتقصیر کرکے حج کے طواف سے پہلے نماز طواف کی قضا ء انجام دے ۔
(۲۹۳)اگر عورت کو طواف اور نماز طواف کے بعدپتہ چلے کہ وہ حائضہ ہے اور یہ نہ جانتی ہو کہ حیض طواف سے پہلے یا دوران طواف یا نمازطواف سے پہلے یانماز طواف کے یا نماز طواف کے بعد آیا ہے تو طواف اور نماز طواف کو صحیح سمجھے اگر یقین ہو کہ حیض طواف سے پہلے یا دوران نماز آیا ہے تو اس کا وہی حکم ہے جو گزشتہ مسئلہ میں بیان ہوا
(۲۹۴)اگر عورت عمرہ تمتع کیلئے احرام باندھے اوراعمال کو انجام دینا بھی ممکن ہو اوریہ جاننے کہ بعدمیں حائض ہونے اور وقت کی کمی کی وجہ سے اعمال انجام نہیں دے سکے گی اعمال کوانجام نہ دے اور حائض ہوجائے نیز حج سے پہلے اعمال عمرہ انجام دینے کا وقت بھی نہ بچے توظاہریہ کہ اس کا عمرہ بھی باطل ہوجائے گا اوراس کاحکم بھی وہی ہے جواحکام طواف کے شرو ع میں بیان ہوچکا ہے
(۲۹۵)مستحب طواف میں حدث اصغر سے پاک ہونا معتبرنہیں ہے اسی طرح قول مشہور کی بناء پرحدث اکبر سے بھی پاک ہونا معتبر نہیں ہے لیکن نماز طواف طہارت کے بغیر صحیح نہیں ہے ۔
(۲۹۶)وہ شخص جو کسی عذر کے وجہ سے کسی خاص طریقے سے طہارت کرتا ہو وہ اپنی اسی طہارت پر اکتفا کرے مثلا جبیرہ والا شخص یا وہ شخص جو اپنا پیشاب یاپاخانہ نہ روک سکتا ہو ، اگرچہ مبطون (جوپاخانہ نہ روک سکے )کیلئے احوط یہ کہ اگرممکن ہو توجمع کرے یعنی خودبھی خاص طریقے سے طہارت کرکے طواف اور نماز انجام دے اور کسی کو نائب
بھی بنائے
وہ عورت جسے استحاضہ آئے تو اگر اس کا استحاضہ ,,قلیلہ ،، ہوتو طواف اور نماز طواف کے لئے ایک ایک وضو کرنا ,,متوسطہ،،ہوتودونوں کیلئے ایک ایک وضو علاوہ ایک غسل اور اگر ,,کثیرہ ،، ہوتو دونوں کیلئے ایک ایک غسل کرے اوراگرحدث اصغر سے پاک ہو تو وضوکی ضرورت نہیں ہے ورنہ احوط اولی یہ ہے کہ وضو بھی کرے
تیسری چیز جو طواف میں معتبرہے وہ ہے خبث سے پاک ہونا ہے چنانچہ نجس لباس یا بدن میں طواف صحیح نہیں ہے احوط یہ ہے کہ ایک درہم سے کم خون جو نماز میں معاف ہے وہ طواف میں معاف نہیں ہے اسی طرح چھوٹے لباس مثلا جراب وغیرہ کی نجاست جو کہ نماز کیلئے مضر نہیں لیکن طواف کیلئے مضر ہے وہ نجاست بھی طواف کیلئے مضر ہے جس کے ساتھ نمازمکمل نہیں ہو سکتی لیکن متنجس چیز کے کو طواف کی حالت میں اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے چاہے نجاست کم لگی ہو یا زیادہ
(۲۹۷)اگر حالت طواف میں بدن یا لباس پر زخم یا پھوڑے کا خون لگا ہو جب کہ زخم یا پھوڑا ابھی صحیح نہ ہوا ہو اور پاک یا تبدیل کرنا بہت زیادہ تکلیف کا سبب ہو اسی طرح بحالت مجبوری بدن یا لباس نجس ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر پاک یا تبدیل کرنے میں بہت سی مشقت یا تکلیف نہ ہو تو احوط یہ ہے کہ نجاست کو دور کرناوواجب ہے ۔
(۲۹۸)اگر کسی کواپنے بدن یا لباس کے نجس ہونے کا علم نہ وہ اورطواف کے بعد پتہ چلے تو اس کا طواف صحیح ہے اوراعادہ کرنا ضروری نہیں ہے ۔ اسی طرح جب نجاست کا نماز طواف سے فارغ ہونے کے بعد پتہ چلے جب کہ نما ز سے پہلے اس نجاست کے موجود ہونے کا شک نہ ہو یا پہلے سے شک ہو مگر کتحقیق کر چکا ہو اور نجاست کا پتہ نہ چلا ہو تو نماز طواف بھی صحیح ہو گی لیکن اگرکسی کو پہلے سے نجاست کاشک ہو اوراس نے تحقیق بھی نہ کی ہو اور پھر نماز کے بعد اسے نجاست کا پتہ چلے تو احتیاط واجب کی بنا پرنماز دوبارہ پڑھے ۔
(۲۹۹)اگر کوئی شخص بھول جائے کہ اس کا بدن یا لباس نجس ہے اوراسے طواف کے بعد یادآئے تو اظہر یہ ہے کہاسکا طواف صحیح ہے اگرچہ اعادہ کرنااحواط ہے نماز طواف کے بعد یاد آئے تو اگر اسکا بھولنالاپرواہی کی وجہ سے ہو تو احوط یہ ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے ۔ورنہ اظہر یہ ہے کہ اعادہ ضروری نہیں ہے ۔
(۳۰۰)اگر دوران طواف بدن یا لباس کے نجس ہونے کا پتہ چلے یا طواف سے فارغ ہونے سے پہلے اس کا بدن یا لباس نجس ہو جائے تو اگر موالات عرفی منقطع کیے بغیرنجاست دورکرنا ممکن ہو چاہے اس کے لیے ستر پوشی کی معتبر مقدار کا لحاظ رکھتے ہوئے نجس کپڑا اتارنا پڑے یا پاک کپڑامیسر ہونے کی صورت میں نجس کپڑااتار کر پاک کپڑاپہننے ہر دوصورتوں میں نجاست دور کر کے طواف پوراکرے اوراسکے بعد کوئی ذمہ داری باقی نہیں رہ جاتی ورنہ احوط یہ ہے کہ طواف بھی پوارکرے اورنجاست دورکرنے کے بعد اسکا اعادہ بھی کرے اعادہ اس صورت میں کرے جب کہ نجاست کا علم یا نجاست کالگناچوتھاچکر مکمل کرنے سے پہلے ہو اگرچہ اعادہ کرنامطلقا ً واجب نہیں ہے ۔
طواف میں چوتھی شرط مردوں کا ختنہ شدہ ہونا ہے ۔ احوط بلکہ اظہر یہ ہے کہ ممیز بچے میں بھی یہ شرط معتبر ہے لیکن غیر ممیز بچہ میں جسے اسکا ولی طواف کرائے ۔ اس شرط کا معتبر ہونا ظاہرہے اگرچہ ا س صورت میں بھی احوط یہ ہے کہ اسے معتبر سمجھاجائے ۔
(۳۰۱) محرم خواہ بالغ ہویاممیز بچہ اگرچہ ختنہ طواف نہ کرے تو طواف کافی نہیں ہوگا۔لہذا ختنہ کے بعد دوبارہ طواف نہ کرے تو احوط یہ ہے کہ طواف مطلقا ترک کرنے والے کے حکم میں ہوگااورطواف کے ترک کرنے والے کے احکام جو آئندہ بیان ہونے والے ہیں اس پر بھی جاری ہوں گے ۔
(۳۰۲)ایساشخص جس کا اختنہ نہ ہو ہو اوروہ مساوروہ مستطیع ہوجائے تو اگر اسی سال ختنہ کرئے کے حج پر جاسکتاہوتو حج پر جائے ورنہ ختنہ کرنے تک حج میں تاخیر کرے ۔ اگر ختنہ کراناکسی نقصان ،رکاوٹ ،تکلیف یاکسی اور وجہ سے ممکن نہ ہو تو حج ساقط نہ ہوگالیکن احوط یہ ہے کہ حج عمرہ میں خود بھی طواف کرے اورکسی کو نائب بھی بنائے اورنماز طواف نائب کے طواف کے بعدپڑھے ۔
احوط یہ ہے کہ حالت طواف میں بھی اتنی ہی مقدار میں شرمگاہ کو چھپانا واجب ہے جتنی مقدار کا نماز میں اولی بلکہ احوط یہ ہے کہ جو نمازی کے لباس کی شرائط معتبر ہیں ساتر (وہ چیزیں جن سے شرمگاہ کو چھپایاجائے )میں ،بلکہ طواف کرنے والے کے تمام لباس میں ان شرائط کا خیال رکھاجائے ۔
طواف میں آٹھ چیزیں معتبر ہیں ۔
۱۔۲۔ہر چکر کو حجر اسودسے شروع کرکے اسی پر ختم کرنا ۔طاہر یہ ہے کہ یہ شرط اس وقت حاصل ہوگی جب حجر اسود کے جس حصے سے چکر شروع کیاجائے وہیں پر ختم کرے ۔اگرچہ احوط یہہے کہ ابتدا و انتہاء میں اپنے بدن کو تمام حجر اسودسے گزارے ۔اس احتیاط کے لیے کافی ہے کہ حجر اسود سے کچھ پہلے کھڑاہوجائے اورطواف کی نیت اس جگہ سے کی جائے جہاں سے حقیقت میں حجر اسود سے سامنا ہو رہاہو ۔پھر خانہ کعبہکی گرد سات مرتبہ چکر لگائے جائیں اورآخری چکر کے اختتام پر حجر اسود سے یہ نیت کرتے ہوئے تھوڑاآگے تک جائے کہ طواف کہ طواف معتبر مقام سے پرپوراہوجائے ۔ اس طرح یقین ہوجائیگا کہ حقیقت می حجر اسود جس جگہ سے شروع ہوناتھا اورجہاں ختم ہوناتھاوہ اس عمل سے حاصل ہوگیا ہے ۔
۳۔طواف کرتے وقت خانہ کعبہ کو اپنے بائیں طرف قرار دے چنانچہ اگر دوران طواف کسی رکن کو بوسہ دینے یارش کی وجہ سے کعبہ کی طرف رخ یا پشت ہوجائے یاکعبہ دائیں جانب قرار پائے تواتنی مقدار طواف میں شمار نہیں ہوگی ۔کعبہ کو بائیں طر ف قرار دنیے میں ظاہر ہے کہ اگر عرفایہ کہا جائے کہ کعبہ حاجیکے بائیں طرف ہے تو کافی ہے جیساکہ نبی کریم کاسواری پر طواف کرنے سے ظاہر ہے ہوتاہے ۔ لہذا جب جسم کعبہ کے چاروں ارکان اورحجر اسمعیل کے دووں سروں سے گزر رہاتو جسم کو بائیں جانب کعبہ کی طرف کرنے میں دقت اٹھانے بدن کو موڑنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
۴۔حجراسمعیل کو بھی طواف میں شامل کرنا یعنی حج اسمعیل کے باہر سے چکر لگایاجائے نہ ہی اس کے اوپر سے گزرے اور نہ ہی اندرسے ۔
۵۔طواف کرنے والادیوار کعبہ اوراسکے اطراف میں وجود چبوترے (شازروان )سے ہٹ کر چلے ۔
۶۔کعبہ کے گرد سات چکر لگانا سات سے کم کافی نہیں ہونگے اگر کوئی جان بوجھ کر سات سے زیادہ چکر لگائے تو اسکااطواف باطل ہو جائگا۔ جسکا بیان بعد میں آئے گا۔
۷۔ساتو ں چکر اس طرحسے کیے جائیں خہ عرفا اسے پیے در پے شمارہوں یعنی بأغیر زیادہ توقفکے ایک کے بعد ایک بجالایاجئے ۔ اس حکم سے کچھ موارد مستثنی ہیں ۔ ج سکا بیان بعد میں آئے گا ۔
۸۔ طوااف کرنے ولااپنے ارداے اور اختیار سے کعبہ گرد چکر لگائے اگر رش یا کسی ور وجہ سے کچھ مقدار بے اختیار ی کی وجہ سے بجالائے تو یہ کافی نہیں ہو گا اور اسکاجبران ور تدارک کرنا ضروری ہے ۔
(۳۰۳)فقہا ء کے درمیاں مشہورہی کہ کعبہ اور مقام ابراہیم کی درمیان چکر لگایاجائے ۔ جس کا فاصلہ ساڑھے چھبیس ہاتھ ہے (12/2میٹر) چونکہ حجر اسمعیل کو طوافکے اندر رکھنے ے وجہ سے حجر اممعیل کی جانب سے زیادہ نہیں ہے ۔ لکین بیعد نہیں کہ طواف اس حصے سے زیادہ میں بھی جائز ہو مگر کراہتکے ساتھ خصوصا ً اس شخص کے لیے جو ا مقدار میں طواف نہ کر سکتاہو یا اس مقدار میں اس کیلیے طواف کرنا حر ج و مشتق کا باعث ہولیکن اگر اس مقدار میں طواف کرنا ممکن ہو تو احتیاط ملحوظ خاطر رکھنا بہترہے ۔
مطاف(وہ جگہ جہاں طواف کیاجائے )سے خارج ہو نا ۔
(۳۰۴)اگرطواف کرنے والامطاف سے خارج ہو کرکعبہ میں داخل ہوجائے تو ااسکاطواف باطل ہوجائے گاجو دوبارہ کرباہوگا۔اگر آدھے طواف کے بعد مطاف سے باہر ہوتو بہتریہ ہے کہ پہلے اس طواف کو پورا کرے اورپھردوبارہ طواف کرے ۔
(۳۰۵)اگر کوئی مطاف سے نکل کر چبوترے سے (شازروان )پر جلے تو اتنی مقدار میں طواف باطل ہو گا چنانچہ اتنی مقدار کا تدارک وجبران کرنا ضروری ہے ۔احوط اولی یہ ہے کہ اتنی مقدار تدارک اورطواف پوراکرنے کے بعد یہ طواف دوبارہ بھی کرے ۔اسی طرح احوط اولی یہ ہے طواف کرنے والادوران طواف اپنے ہاتھث کعبنہ کی دیوار تک ارکان وغیرہ کو چھونے کے لییے نہ پھلائے ۔
(۳۰۶)اگرطواف کرنے ولا حج اسمعیل کے اندرچلا جائے چاہے مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے یا بھول کر تو اس کا یہ چکرباطل ہوجائے گااورضروری ہے کہ اسے دوبارہ انجام دے ۔احوط یہ ہے کہ طواف پوراکرنے کے بعددوبارہ انجام دے ۔ حجر اسمعیل کے اوپرسے گزرنے کا بنابر احوط وہ حکم ہے جو حکم اندرجانے کا ہے نیزاحوط یہ ہے کہ طواف کرتے وقت حجراسمعیل کی دیوار ہاتھ نہ رکھے ۔
طواف کوتوڑنااورطواف کے چکروں کا کم ہونا۔
(۳۰۷)مستحب طواف کی طرح واجب طواف بھی کسی ضرورت و مجبوری سے بلکہ بنابر اظہر بلاضرورت و مجبری بھی توڑناجائز ہے ۔
(۳۰۸)اگر واجب طواف چوتھاچکر پوراہونے سے پہلے بغیرکسی وجہ کے توڑاجائے تو طواف باطل ہوجائے کا وردوبارہ بجالانا ضروری ہے لیکن اگر چوتھا چکر پورا کرنے کے بعد توڑاجائے تو احوط یہ ہے کہ اس طواف کو بھی پوراکرے اوردوبارہ بھی انجام دے ۔ تاہم مستحب طواف میں کہ جہاں سے توڑا جائی وہیں سے شروع کر کے پوراکرے ۔چاہے چو تھے چکر سے پہلے توڑے یا بعد میں جب تک کہ عرفاموالات ختم نہ ہوجائے ۔
(۳۰۹)اگر عورت کو دوران طواف حیض آجائے تو اواجب ہے کہ طواف توڑ کر فورامسجدالحرام سے باہر نکل جائے اوراس طواف کا حکم مسئلہ نمبر ۲۹۱ میں بیان ہو چکا ہے ۔اسی طرح اگر طواف کرنے ولایسے دوران طواف حدث سرزد ہوجائے یا دوران طواف اسے بدن یا لباس کے نجس ہونے کا پتہ چل جائے اسکا حکم مسئلہ نمبر ۲۸۵اورتین سومیں بیان ہوچکا ہے ۔
(۳۱۰)اگر بیماری یا اپنی یا کسی مومن بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کوئی اپنا واجب طاف کر چوتھا چکر سے پہلے توڑے تو ظاہر یہ ہے کہ طواف باطل ہے اور دوبارہ کرنا ضروری ہے ۔ لیکن اگر چوتھے چکر کے بعد توڑے تو اظہر یہ ہے کہ طواف صحیح ہوگالہذا واپس آکر جہاں سے توڑاتھا وہیں سے شروع کرے اور احوط یہ ہے کہ اسے پواراکرنے کے بعد دوبارہ بھی بجالائے تاہم مستحب طواف میں جائز ہے کہ جہاں سے چھوڑاتھا وہیں سے شروع کرے چاہے چوتھے چکر سے پہلے چھوڑا ہو۔
(۳۱۱)طواف کے دوران آڑام کرن ابیٹژنا یا لیٹنا جائزہے لیکن ضروری ہے کہ اتنی دیر بیٹھے یالیٹے کہ تسلسل کاتائثر ختم نہ ہو۔ چنانچہ اتنی دیرلیٹنے یا بیٹھنے سے تسلسل ٹوٹ جائے طواف باطل ہوجائے گالہذا پھر سے شروع کرنا ضروری ہے ۔
(۳۱۲)اگرکوئی واجب نماز کو وقت پر پڑھنے کے لیے یا نماز کو جماعت سی پرنے کی لیے یا نافلہ نماز کو پڑھنے کے لیے جب کہ اسکا وقت تنگ ہو طواف توڑے تو جہاں سے طواف چھواڑ ہے نماز کے بعد وہیں سے شروع کرے چاہے طواف واجب ہویا مستحب اورچاہے چوتھے چکر سے پہلے چھوڑاہو یا بعد میں اگرچہ احوط یہ ہے کہ جب طواف چوٹھے چک رسے پہلے چھوڑا ہو تواس طواف کو پورا کرکے دوبارہ طواف کرے ۔
(۳۱۳)اگر طواف میں بھولے کمی ہوجائے اورتسلسل ختم ہونے سے پہلے یا د آجائے تو کمی کو پور اکرے اوراسکاطواف صحیح ہوگا۔اسی طرح اگر تسلسل ختم ہونے کے بعد یاد آئے اورایک یا دو یا تین چکر بھولاہوتو انہیں بجالائے اوراس کاطواف بھی صحیح ہوجائے گا۔اگر خود انجام دینے )ر قادر نہ ہو چاہیے اس لیے ک اپنے شہر واپس آکر یاد آیا ہو کسی کونائب بنائے ۔لیکن اگر تین سے زیادہ چکر بھول گیا ہوہو تو واپس جاجتنے چکر کم ہوں انہیں انجام دے ۔احوط یہ ہے کہ اس طوافر کو پوراکرنے کے بعد دوبارہ بھی انجام دے ۔
طواف میں زیادتی کی پانچ صورتیں ہیں۔
۱۔طواف کرنے والا زیادتی کواس طواف یادوسرے طواف کا جز نہ سمجھے یعنی سات چکر پورے کرنے کے بعد مستحب کی نیت سے ایک اور چکر انجام دینے سے طواف باطل نہیں ہوگا۔
۲۔طوافشروع کرتے وقت ہی ایہ ارادہ ہوکہ زائد حصے کو اس طواف کے جزکی نیت سے انجامدی گ اتواس صورت جین اسک اطواف ولااشکال باطل ہے اورضرفوریہظہ طواف کو دوبارہ انجام دے ۔۔ اسی طرح اگرطواف کے دوران اس قسم کا اراداہ کرے اورکچھ حصہ زیادہ انجام دے توایہی حکم ہے ۔ لیکن اگر زیادہ حصہ انجام نہ دے تواگرزیادتی کے ارادے سے نیت کرنے سے پہلے والے چکر کے باطل ہونے میں اشکال ہے ۔
۳۔زائد چکر اس نیت سے کرے کہ جس طواف سے فارغ ہو اہے یہ اس کا جز ہے جب عرفا موالات ختم نہ ہوئی ہویعنی طواف سے طواف سے فارغ ہونے کے بعد زاید چکر کا جز ہونے کا قصد کرے تو اظہر یہ ہے کہ طواف باطل ہے ۔
۴۔زائد چکر اس نیت سے کرے کہ یہ دوسرے طواف کاجز ہے اورپھر دوسرے طواف کو کوئی بھی جخر بجانہ لائے تو اس صورت میں نہ ہی زیادتی وجود میں آیئگی اورنہ ہی قران ہو گا لیکن بعض صورتوں میں ممکن ہے کہ اس وجہسے طواف کرنے والے کو قصد قربت حاصل نہ ہو نے کی وجہ سے اس کا طواف باطل بھی ہو سکتاہے مثلاکوئی شخص قران کی نیت رکھتاہو جو کہ حرام ہے اورجانتابھی ہو کہ قران کی وجہ سے طواف باطل ہوجاتاہے تواس صورت میں قصد قربت ثابت نہیں اگرچہ اتفاقا عملی طورپر قران بھی واقع نہ ہو ۔
(۳۱۴)اگر سہواطواف میں چکر زیادہ ہو جائے اوررکن عراقی تک پہنچنے کے بعدیاد آئے تو زائد چکر کو اباقی چکروں کے ساتھ ملاکر طواف کو پورا کرے ۔بنابر احوط یہ ہی ک طواف واجب یا مستحب کا تعین کیے بغیر یعنی مطلقا قصد قربت سے انجام سے دے اوراس کے بعد جار رکعت نماز پڑھے افضل بلکہ احوط یہ ہے کہ دونوں نمازوں کوجداجدا پڑھے یعنی دورکعت سعی سے پہلے و اجب طواف کی نیت سے اوردو رکعت سعی کے بعدمستحب طواف کی نیت سے اسی طرح اگر رکن عراقی تک پہنچنے سے پہلے یا دآئے تو بھی بنا بر احوط یہی حکم ہے ۔
چکروں کی تعدادمیں شک
(۳۱۵)چکروں کی تعدادیا چکروں کے صحیح ہونے کے بارے میں شک طواف کے بعد یا موقع گزرجانے کے بعد شک ہو تو اس شک کی پرواہ نہ کی جائے ۔اسی طرح اگر تسلسل کے ختم ہونے یا نماز طواف شروع کرنے کے بع دشک ہو تو اسکی بھی پرواہ نہ کی جائے ۔
(۳۱۶)اگر سات چکروں کا یقین ہو اورزیادہ کے بار ے میں شک ہو کہ یہ آٹھواں چکر تھاتو ایسے شک کی پرواہ نہ کی جائے اوریہ طواف صحیح ہو گالیکن اگر یہ شک آخری چکرپورا ہونے سے پہلے ہو تو ااظہر یہ ہے کہ طواف باطل ہے چنانچہ احوط یہ ہے کہ رجاء اسے بھی پوراکرے اوردوبارہ بھی انجام دے ۔
(۳۱۷)اگر چکر کے اختتام یاچکر کے دوراں کہ تیسرا چکر ہے کہ چوتھا یاپانچوان یا چھٹا ،یاسات چکر وں سے کم کا اورشک ہو تو طواف باطل ہوجائے گا حتی کہ اگر چکر کے اختتام پر چھ اورسات کا شک ہوجائے تب بھی احوط یہ ہے کہ طواف باطل ہے اگر اسی طرح سات سے کم یا زیادہ کاشک ہو مثلاآخر ی چکر کا چھٹا کا ساتواں یا آٹھواں ہونے میں شک ہو تب بھی طواف باطل ہے ۔
(۳۱۸)اگر کسی کو چھ اور سات میں شک ہو اور حکم نہ جاننے کی وجہ سے وہ چھٹا سمجھتے ہوئے اپناطواف تمام کرے اور اس کی جہالت ،جبران و تدارک کا وقت ختم ہونے تک برقرار رہے تو بعیدنہیں کہ اکس طواف صحیح ہو ۔
(۳۱۹)طواف کرنے کے لیے جائز ہے کہ کہ اگر اس کے ساتھی کو اسکے چکر وں کی تعداد ک ایقین ہو تو اوہ اسکی بات پر اعتماد کر سکتاہے ۔
(۳۲۰)اگر کوئی عمرہ تمتع میں جان بوجھ کرطواف چھوڑ دے تو چاہے حکم و مسئلہ جانتا ہو اورطواف ار عمرہ کے باقی اعمال ربز عرفہ کے زوال آفتاب تک انجام دینا ممکن نہ ہو تو اسکا عمرہ باطل ہو گا چنانچہ احوط یہ ہے کہ اگر مسئلہ نہ جانتاہو تو ایک اونٹ کفارہ بھی دے جیسا کہ اسک اذکرع طواف کے باب میں گزر چکا ہے ۔اگر حج میں جان بوجھ کر طواف چھوڑ دے تو اخواہ مسئلہ جانتاہو یا نہ جانتاہو اور اسکا طواف کا جنران کرنا بھی ممکن نہ ہو ،اسکا حج باطل اور۔اگر مسلئکہ نہ جاننے کی وجہ سے چھوڑا ہو تو ایک اونٹ کفارہ دینابھی ضروی ہے ۔
(۳۲۲)اگر بھول کر طواف چھوڑ دے اوراسکا وقت ختم ہونے سے پہلے یاد آجائے تو اسکا تدارک و جبران کرے اور اظہر یہ ہے کہ سعی بھی طواف کے بعد دوبارہ انجام دے ۔ اگر وقت ختم ہونے کے بعدیاد آئے مثلا عمرہ تمتع کا طواف وقوف عرفات تک بھولارہے یا حج کا طواف ماہ ذی الحجہ تمام ہونے تک یا د نہ آئے تو طواف کی قضا واجب ہے اوراحوط یہ ہے کہ سعیء بھی طواف کے بعدددوبارہ انجام دے ۔
(۳۲۳)اگر کوئی طواف بھول جائے یہاں تک کہ وطن واپس پہنچ کر اپنی بیوی سے مجامعت کرلے تو واجب ہے کہ اگر حج کا طواف بھولا ہو تو ایک قربانی منیٰ بھیجے اوراگرعمہ کا طپواف بھولاہوتو ایک قربانی مکہ بھیجے اوردنبہ کی قربانی کافی ہے ۔
(۳۲۴)اگر بھولا ہوا طواف اس وقت یاد آے جب خو د طواف انجام دے سکتاہو تو طواف کی قضا بجا لائے چاہے احرام اتار چکا ہو تاہم دوبارہ احرام باندھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگرمکہ سے نکل جانے کے بعد یاد آئے تو مکہ میں داخل ہونے کے لیے احرم باندھنا ضروی ہے ۔سوائے ان حالتوں کے جن کا بیان مسئلہ ۱۴۱ میں ہو چکا ہے ۔
0