|
|
|||||
|
|
|
||||
|
زیارت حضرت عباس بن امیرالمومنین علی علیہ السلام شیخ اجل جعفر ابن قولویہ قمی نے معتبر سند کے ساتھ ابو حمزہ ثمالی سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا:جب تم عباس بن امیر المومنین + کی قبر مبارک کی زیارت کا ارادہ کرو کہ جو دریائے فرات کے کنارے حائر حسینی کے مقابل واقع ہے تو آپ کے روضئہ پاک کے دروازے پر کھڑے ہو کر یوں کہو: سلامُ اللهِ وسلامُ ملائِکتِہِ الْمُقرّبِین، وأنْبِیائِہِ الْمُرْسلِین،وعِبادِہِ الصّالِحِین وجمِیعِ الشُّھداءِ و سلام ہو خدا کا اور سلام ہو اس کے مقرب فرشتوں کا اس کے بھیجے ہوئے نبیوں کااس کے نیک بندوں کا الصِّدِّیقِین والزّاکِیاتُ الطّیِّباتُ فِیما تغْتدِی وترُوحُ علیْک یابْن أمِیرِ الْمُؤْمِنِین، أشْھدُ لک اور تمام شہیدوں اور صدیقوں کا سلام ہو اور بہترین رحمتیں ہوں ہر صبح اور ہرشام آپ پر اے امیرالمومنین کے نور چشم میں گواہی دیتا ہوں آپ کی اس بِالتّسْلِیمِ والتّصْدِیقِ والْوفاءِ والنّصِیحةِ لِخلفِ النّبِیِّ الْمُرْسلِ والسِّبْطِ الْمُنْتجبِ والدّلِیلِ الْعالِمِ اطاعت تائید وفاداری اور خیر خواہی پر جو آپ نے نبی اکرم ﷺ کے جانشین سے کی ہے کہ جو نیک اصل نواسے صاحب علم رہبر تبلیغ کرنے ولے قائم والْوصِیِّ الْمُبلِّغِ والْمظْلُومِ الْمُھْتضمِ فجزاک اللهُ عنْ رسُولِہِ وعنْ أمِیرِ الْمُؤْمِنِین وعنِ الْحسنِ مقام اور وہ ستم دیدہ ہیں جن کوتنگ کیاگیا پس خدا جزادے آپ کو اپنے رسول کی طرف سے امیر المؤمنین کی طرف سے اور حسن و حسین کی طرف سے والْحُسیْنِ صلواتُ اللهِ علیْھِمْ أفْضل الْجزاءِ بِما صبرْت واحْتسبْت وأعنْت فنِعْم عُقْبی الدّارِ، ان سب پر خدا کی رحمتیں ہوں آپکو بہترین جزا دے کہ آپ نے صبر کیا خیر خواہی کی اور مدد و نصرت کی کیا ہی اچھا ہے آپکا انجام خدا لعنت کرے آپ کے لعن اللهُ منْ قتلک، ولعن الله منْ جھِل حقّک، واسْتخفّ بِحُرْمتِک، ولعن اللهُ منْ حال قاتل پر خدا لعنت کرے اس پر جس نے آپ کا حق نہ پہچانااور آپ کی بے احترامی کی خدا لعنت کرے اس پر جو آپ کے اور فرات کے پانی کے درمیان بیْنک وبیْن ماءِ الْفُراتِ أشْھدُ أنّک قُتِلْت مظْلُوماً وأنّ الله مُنْجِزٌ لکُمْ ما وعدکُمْ جِیْتُک رکاوٹ بنامیں گواہی دیتا ہوں کہ آپ مظلومی میں قتل ہوئے اور خدا آپ کو وہ جزا دے گا جس کا آپ لوگوں سے وعدہ کیا ہے آپ کے ہاں آیا ہوں اے یابْن أمِیرِ الْمُؤْمِنِین وافِداً إِلیْکُمْ وقلْبِی مُسلِّمٌ لکُمْ وتابِعٌ، وأنا لکُمْ تابِعٌ، ونُصْرتِی لکُمْ مُعدّةٌ امیرالمومنین کے فرزند آپ کا مہمان ہوں میرادل آپ کے حوالے اور تابع ہے اور میں آپکا پیروکارہوں میں آپکی نصرت پر آمادہ ہوں یہاں تک کہ خدا حتّی یحْکُم اللهُ وھُو خیْرُ الْحاکِمِین فمعکُمْ معکُمْ لا مع عدُوِّکُمْ، إِنِّی بِکُمْ وبِإِیابِکُمْ مِن فیصلہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے آپکے ساتھ ہوں آپ کے ساتھ نہ کہ آپ کے دشمن کے ساتھ بے شک میں آپ پر اور آپکے وآپس آنے الْمُؤْمِنِین، وبِمنْ خالفکُمْ وقتلکُمْ مِن الْکافِرِین، قتل اللهُ أُمّةً قتلتْکُمْ بِالْایْدِی والْالْسُنِ۔ پر ایمان رکھتا ہوں اور آپکے مخالف اور آپکے قاتل سے میرا کوئی تعلق نہیں خدا قتل کرے اس گروہ کو جس نے ہاتھ اور زبان سے آپکے ساتھ جنگ کی ۔ پھر روضہٴ مبارک کے اندر داخل ہوجائے خود کو قبر شریف سے لپٹائے اور کہے: السّلامُ علیْک أیُّھا الْعبْدُ الصّالِحُ الْمُطِیعُ لِلّٰہِ ولِرسُولِہِ ولاِمِیرِ الْمُؤْمِنِین والْحسنِ والْحُسیْنِ سلام ہو آپ پرکہ آپ خدا کے پارسا بندے ہیں آپ الله کے اطاعت گذار ہیں اس کے رسول کے اور امیرالمومنین کے اور حسن صلّی اللهُ علیْھِمْ وسلّم، السّلامُ علیْک ورحْمةُ اللهِ وبرکاتُہُ ومغْفِرتُہُ ورِضْوانُہُ وعلی رُوحِک و حسین کے خدا ان پر رحمت کرے اور درود بھیجے آپ پر سلام ہو اور خدا کی رحمت ہو اور اس کی برکتیں ہوں اس کی بخشش اور خوشنودی حاصل وبدنِک، أشْھدُ وأُشْھِدُ الله أنّک مضیْت علی ما مضی بِہِ الْبدْرِیُّون والْمُجاھِدُون فِی ہو آپکی روح اور بدن پر رحمت ہو میں گواہی دیتا ہوں اور خدا کو گواہ بناتا ہوں کہ آپ نے اس مقصد کیلئے جان دی جس کے لیے شہدائے بدر اور خدا کی راہ سبِیلِ اللهِ الْمُناصِحُون لہُ فِی جِھادِ أعْدائِہِ الْمُبالِغُون فِی نُصْرةِ أوْلِیائِہِ، الذّابُّون عنْ أحِبّائِہِ، میں جہاد کرنے والے مجاہدوں نے جانیں دیں وہ اس کے دشمنوں سے لڑنے میں مخلص اسکے حامیوں کی مدد کرنے میں آگے اور اس کے دوستوں کادفاع فجزاک اللهُ أفْضل الْجزاءِ وأکْثر الْجزاءِ، وأوْفر الْجزاءِ، وأوْفی جزاءِ أحدٍ مِمّنْ وفی بِبیْعتِہِ، کرتے تھے پس خدا آپ کو جزا دے بہترین جزا بہت زیادہ جزا فراواں تر جزا اور کامل تر جزا دے جو اس شخص کو دی جس نے اس کی بیعت کا حق ادا کیا اس واسْتجاب لہُ دعْوتہُ، وأطاع وُلاة أمْرِہِ۔ أشْھدُ أنّک قدْ بالغْت فِی النّصِیحةِ، وأعْطیْت غایة کے بلانے پرحاضر ہوا اور اسکے صاحبان امر کی اطاعت کی میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے دلی طور پر پوری طرح خیر خواہی کی اور اس میں اپنی انتہائی کوشش الْمجْھُودِ، فبعثک اللهُ فِی الشُّھداءِ، وجعل رُوحک مع أرْواحِ السُّعداءِ، وأعْطاک مِنْ سے کام لیا لہذا خدا نے آپ کو شہیدوں میں جگہ دی آپ کی روح کو خوش بختوں کی روحوں کے ساتھ رکھااور آپ کو اپنی جِنانِہِ أفْسحھا منْزِلاً، وأفْضلھا غُرفاً، ورفع ذِکْرک فِی عِلِّیِّین، وحشرک مع النّبِیِّین و جنت میں سب سے بڑا محل عطا کیا اور بلند تر بالا خانہ نیز اس نے مقام علیین میں آپ کو شہرت بخشی اور میدان حشر میں الصِّدِّیقِین والشُّھداءِ والصّالِحِین وحسُن أُولئِک رفِیقاً۔ أشْھدُ أنّک لمْ تھِنْ ولمْ تنْکُلْ، آپ کو نبیوں صدیقوں شہیدوں اور نیکوکار کے ساتھ رکھے گااور وہ لوگ کیسے اچھے ساتھی ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نہ ہمت ہاری نہ وأنّک مضیْت علی بصِیرةٍ مِنْ أمْرِک، مُقْتدِیاً بِالصّالِحِین ومُتّبِعاً لِلنّبِیِّین، فجمع اللهُ بیْننا پیٹھ دکھائی اور بے شک آپ اپنے عمل کا شعور رکھتے ہوئے گامزن رہے اس میں آپ نیکوکاروں کا پیروی اور نبیوں کی اتباع کر رہے تھے پس خدا ہمیں وبیْنک وبیْن رسُولِہِ وأوْلِیائِہِ فِی منازِلِ الْمُخْبِتِین فإِنّہُ أرْحمُ الرّاحِمِین۔ آپکے ساتھ اور اپنے رسول اور اپنے ولیوں کیساتھ جمع کرے اہل حق کی منزلوں میں کہ وہ سب سے زیادہ رحم والا ہے۔ مولف کہتے ہیں بہتر یہ ہے کہ اس زیارت کو پشت قبر کی طرف قبلہ رو کھڑے ہو کر پڑھے جیسے شیخ نے تہذیب میں تحریر فرمایا ہے کہ حرم مبارک میں داخل ہو کر خود کو قبر شریف سے لپٹائے اور قبلے کی طرف منہ کر کے کہے: السّلامُ علیْک ایّھاالعبْدُ الصّالِحُ․․․الخ سلام آپ پر کہ آپ خدا کے پارسا بندے ہیں۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ اس سے پہلے ذکر شدہ روایت کے مطابق حضرت عباس- کی زیارت یہی ہے جو ہم نے ابھی لکھی ہے لیکن سید ابن طاؤس شیخ مفید اور دیگر بزرگ علما کا ارشادہے کہ یہ زیارت پڑھنے کے بعد ضریح مقدس کے سرہانے جا کر دو رکعت نماز بجا لائے اور اور اس کے بعد وہاں مزید جس قدر چاہے نماز ادا کرے اور دعائیں مانگے اور بعد از نماز یہ کہے: اللّٰھُمّ صلِّ علی مُحمّدٍ وآلِ مُحمّدٍ ولا تدعْ لِی فِی ھذا الْمکانِ الْمُکرّمِ والْمشْھدِ الْمُعظّمِ اے معبود! محمد و آل محمد پر رحمت نازل کر اور اس عزو شرف والے مقام اور محترم زیارت گاہ میں اب میرا کوئی گناہ نہ رہنے دے کہ تونے اسے نہ بخش دیا ہو کوئی ذنْباً إِلاّ غفرْتہُ، ولا ھمّاً إِلاّ فرّجْتہُ، ولا مرضاً إِلاّ شفیْتہُ ولا عیْباً إِلاّ سترْتہُ، ولا رِزْقاً إِلاّ بسطْتہُ، اندیشہ نہ ہو کہ اسے دورنہ کر دیا ہو کوئی بیماری نہ ہو کہ اس سے صحت یاب نہ کر دیا ہو کوئی عیب نہ ہو کہ اسے ڈھانپ نہ لیا ہو کوئی رزق نہ ہو کہ تو نے اسے بڑھا نہ ولا خوْفاً إِلاّ آمنْتہُ، ولا شمْلاً إِلاّ جمعْتہُ، ولا غائِباً إِلاّ حفِظْتہُ وأدْنیْتہُ، ولا حاجةً مِنْ حوائِجِ دیا ہو کوئی خوف نہ ہو اس سے امن نہ دیا ہو کوئی پریشانی نہ ہو کہ اسے مٹانہ دیا ہو کوئی غائب نہ ہو کہ تو اس پر نظر نہ رکھے اور قریب نہ کئے ہو اور دنیا و آخرت کی الدُّنْیا والْاخِرة ِلک فِیھا رِضیً ولِی فِیھا صلاحٌ إِلاّ قضیْتہا یا أرْحم الرّاحِمِین پھر ضریح پاک کی حاجتوں میں کوئی حاجت نہ ہو کہ جس میں تیری خوشنودی نہ اور میرے لیے مفید نہ ہو مگر یہ کہ تو اسے برلائے اے سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے۔ پائیتی میں جائے اور وہاں کھڑے ہو کر کہے:السّلامُ علیْک یا أباالْفضْلِ الْعبّاس ابْن أمِیرِ الْمُؤْمِنِین، السّلامُ آپ پر سلام ہو اے ابا الفضل عباس فرزند امیر المومنین آپ پر سلام ہو اے سردار اوصیاء کے فرزند سلام ہو آپ پر اے علیْک یابْن سیِّدِ الْوصِیِّین،السّلامُ علیْک یابْن أوّل الْقوْمِ إِسْلاماً، وأقْدمِھِمْ إِیماناً، وأقْومِھِمْ اسکے فرزند جو اسلام لانے میں امت سے اول، ایمان میں سے ان سے مقدم دین خدا میں ان سے بڑھ کر ثابت قدم اور اسلام کی ان سے زیادہ حفاظت بِدِینِ اللهِ، وأحْوطِھِمْ علی الْاِسْلامِ۔ أشْھدُ لقدْ نصحْت لِلّٰہِ ولِرسُولِہِ ولاِخِیک فنِعْم الْاخُ کرنے والے تھے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے خیر خواہی کی خدا کی اور اس کے رسولکی اور اپنے برادر حسین کی پس آپ بڑے ہی ہمدرد بھائی تھے خدا الْمُواسِی، فلعن اللهُ أُمّةً قتلتْک، ولعن اللهُ أُمّةً ظلمتْک، ولعن اللهُ أُمّةً اسْتحلّتْ مِنْک الْمحارِم، کی لعنت ہو اس گروہ پر جس نے آپکو قتل کیا خدا کی لعنت ہو اس گروہ پرجس نے آپ پر ستم ڈھایا اور خدا کی لعنت ہو اس گروہ پر جس نے آپکی بے احترامی کو وانْتھکتْ حُرْمة الْاِسْلامِ فنِعْم الصّابِرُ الْمُجاھِدُ الْمُحامِی النّاصِرُ والْاخُ الدّافِعُ عنْ أخِیہِ الْمُجِیبُ جائز سمجھا اور اسلام کی حرمت کو بھیپامال کیا پس وہ کیسے صابر جہاد کرنے والے حمایت کرنے والے نصرت کرنے والے اور اپنے بھائی کیطرف سے لڑنے إِلی طاعةِ ربِّہِ، الرّاغِبُ فِیما زھِد فِیہِ غیْرُہُ مِن الثّوابِ الْجزِیلِ، والثّناءِ الْجمِیلِ،وألْحقک اللهُ والے اچھے بھائی تھے وہ اپنے پروردگار کی فرمانبرداری پر آمادہ اس عمل کے شائق جسکے بڑے اجر و ثواب اور تعریف و توصیف سے دوسروں نے منہ موڑا بِدرجةِ آبائِک فِی جنّاتِ النّعِیمِ اللّٰھُمّ إِنِّی تعرّضْتُ لِزِیارةِ أوْلِیائِک رغْبةً فِی ثوابِک، ورجاءً اور محروم رہے خدا آپ کو ان بزرگوں کے مقام پر پہنچائے نعمتوں بھری جنت میں اے معبود! بے شک میں تیرے ولیوں کی زیارت لِمغْفِرتِک وجزِیلِ إِحْسانِک، فأسْألُک أنْ تُصلِّی علی مُحمّدٍ وآلِہِ الطّاھِرِین، وأنْ تجْعل کو آیا تیرے ہاں سے ملنے والے ثواب کے شوق تیری طرف سے بخشش کی امید اور تیرے عظیم احسان کی خواہش سے پس سوال کرتا ہوں تجھ سے کہ محمد اور رِزْقِی بِھِمْ دارّاً، وعیْشِی بِھِمْ قارّاً، وزِیارتِی بِھِمْ مقْبُولةً، وحیاتِی بِھِمْ طیِّبةً، وأدْرِجْنِی إِدْراج ان کی پاکیزہ آل پر رحمت فرما نیز یہ کہ ان کے واسطے سے میرارزق بڑھا دے ان کے ذریعے میری زندگی برقرار رکھ میری یہ زیارت قبول کر میری حیات الْمُکْرمِین واجْعلْنِی مِمّنْ ینْقلِبُ مِنْ زِیارةِ مشاھِدِ أحِبّائِک مُفْلِحاً مُنْجِحاً قدِ اسْتوْجب میں پاکیزگی پیدا فرما اور مجھ کو عزت والوں کے مقام پر پہنچا دے مجھے ان لوگوں میں رکھ جو تیرے دوستوں کے مشاہد کی زیارت سے فلاح و کامرانی کیساتھ غُفْران الذُّنُوبِ وستْر الْعُیُوبِ وکشْف الْکُرُوبِ إِنّک أھْلُ التّقْویٰ وأھْلُ الْمغْفِرةِ۔ واپس ہوئے ہیں جب ان کے گناہوں کی بخشش واجب ان کے عیب پوشیدہ اور مصیبتیں دور کر دی جاتی ہیں بے شک تو بچانے والا اور بخشنے والا ہے۔ جب حضرت عباس- سے وداع کرناچاہے تو قبر مبارک کے قریب جائے اور وہ دعا پڑھے جو ابو حمزہ ثمالی سے روایت ہوئی اور علماء نے بھی اس کا ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہے: أسْتوْدِعُک الله وأسْترْعِیک وأقْرأُ علیْک السّلام، آمنّا بِاللهِ وبِرسُولِہِ وبِکِتابِہِ وبِما جاء بِہِ آپ کو سپرد خدا کرتا ہوں آپ کا التفاف چاہتا ہوں اور آپ کو سلام کہتا ہوں ہمارا ایمان ہے خدا پر اس کے رسول پر اس کی کتاب پر او رجو مِنْ عِنْدِ اللهِ، اللّٰھُمّ فاکْتُبْنا مع الشّاھِدِین، اللّٰھُمّ لا تجْعلْہُ آخِر الْعھْدِ مِنْ زِیارتِی قبْر ابْنِ أخِی کچھ خدا کی طرف سے ان پر نازل ہوا پس اے معبود! ہمیں گواہی دینے والوں میں لکھ دے اے معبود! میری اس زیارت کو آخری زیارت قرار نہ دے جو رسُولِک صلّی اللهُ علیْہِ وآلِہِ، وارْزُقْنِی زِیارتہُ أبداً ما أبْقیْتنِی واحْشُرْنِی معہُ ومع آبائِہِ فِی میں نے تیرے رسول ﷺ کے بھائی کے فرزند پر کی ہے جب تک تو مجھے زندہ رکھے اس قبر کی زیارت نصیب کرتے رہنا اور مجھے انکے اور انکے بزرگوں الْجِنانِ وعرِّفْ بیْنِی وبیْنہُ وبیْن رسُولِک وأوْلِیائِک اللّٰھُمّ صلِّ علی مُحمّدٍ وآلِ مُحمّدٍ و کیساتھ جنت میں رکھنا میرے اور انکے درمیان اور اپنے رسول اور اپنے دوستوں کے درمیان جان پہچا ن کرا دینااے معبود! محمد و آل محمدپر رحمت فرما اور اس توفّنِی علی الْاِیمانِ بِک والتّصْدِیقِ بِرسُولِک، والْوِلایةِ لِعلِیِّ بْنِ أبِی طالِبٍ والْائِمّةِ مِنْ وقت جب میری موت واقع ہو تجھ پر ایمان اور تیرے رسول پرعقیدہ اور میرا یقین ہو علی بن ابی طالب کی ولایت پر اور انکی اولاد سے ائمہ کی ولایت پر ان وُلْدِہِ، والْبرائةِ مِنْ عدُوِّھِمْ، فإِنِّی قدْ رضِیتُ یا ربِّی بِذلِک، وصلّی اللهُ علی مُحمّدٍ وآلِ مُحمّدٍ۔ سب پر سلام ہواورا نکے دشمنوں سے میرا کوئی واسطہ نہ ہو پس میں یقیناً راضی ہوں اے میرے رب اس صورت میں اور خدا محمد و آل محمد پررحمت فرمائے۔ اس کے بعد اپنے لیے اور مومنین و مسلمین کے لیے دعائیں مانگے اور پھر منقولہ دعاؤں میں سے جو دعا چاہے پڑھے:مولف کہتے ہیں کہ امام علی بن الحسین+ سے ایک روایت ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ نے فرمایا: خدائے تعالیٰ حضرت عباس- پر رحمت کرے کہ جنہوں نے اپنی کچھ پروا نہ کی اور اپنی جان اپنے بھائی امام حسین- پر قربان کردی۔ یہاں تک کہ بھائی کی نصرت کرتے ہوے ان کے دونوں بازو قلم ہو گئے۔ تاہم حق تعالیٰ نے ان کو کٹے ہوئے بازوؤں کے بدلے میں دو پر عطا کر دیئے ہیں کہ جن سے وہ جنت میں جعفر طیار کی طرح فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں۔ نیز خداوند عالم کے ہاں حضرت عباس کی اتنی قدر و عزت ہے کہ جس کو دیکھ کر دیگر شہداء قیامت میں ان پر رشک کریں گے اور ان کے مقام و مرتبہ کی خواہش کریں گے۔ بیان کیا گیا ہے کہ وقت شہادت حضرت عباس کی عمر چونتیس برس تھی اورجناب ام البنین = جو ان کی والدہ تھیں وہ مدینہ کے باہر قبرستان بقیع میں آ کر حضرت عباس- اور ان کے دیگر تین بھائیوں کا ماتم کرتے ہوئے اس طرح روتیں اور بین کرتی تھیں کہ جو بھی وہاں سے گزرتا وہ آنسو بہانے لگتا تھا دوستوں اور چاہنے والوں کا رونا تو کوئی بڑی بات نہیں ان بی بی کا نوحہ و ماتم سن کر تو مروان بن الحکم بھی رو دیتا تھا جو خاندان رسول ﷺ کا سخت ترین دشمن تھا حضرت عباس- اور انکے بھائیوں کے مرثیہ میں یہ اشعار بی بی ام البنین = سے نقل ہوئے ہیں: یامنْ رأیٰ الْعبّاس کرّعلی جماھِیرِالنّقد ووراہُ مِنْ أبْناءِ حیْدرکُلُّ لیْثٍ ذِی لبد اے وہ جس نے عباس کو دیکھا جب بزدلوں پر حملہ کرتا تھا ان کے پیچھے حیدر کرار کے بیٹے تھے جو ببر شیروں کی طرح تھے أُنْبِیْتُ أنّ ابْنِی أُصِیب بِرأْسِہِ مقْطُوع ید ویْلِی علیٰ شِبْلِی أمال بِرأْسِہِ ضرْبُ الْعمد مجھے خبر ملی کہ میرا بیٹا سر کے بل گرا اور اس کے بازو کٹے ہوئے تھے ہائے میری مصیبت کہ گرز کی ضرب سے میرے بیٹے کا سرکٹ گیا لوْ کان سیْفُک فِی یدیْک لما دنا مِنْہُ أحد۔ بیٹے اگر تیری تلوار تیرے ہاتھ میں ہوتی تو کوئی قریب نہ آ سکتا۔ نیز یہ اشعار بھی جناب ام البنین= کی طرف منسوب ہیں۔ لا تدْعُوِنِّی ویْکِ أُمّ الْبنِین تُذکِّرِینِی بِلُیُوثِ الْعرِین اب مجھے بیٹوں کی ماں نہ کہا کرو کہ تم مجھے شیر دل بہادروں کی یاد دلاتے ہو کانتْ بنُون لِی أُدْعی بِھِمْ والْیوْم أصْبحْتُ ولا مِنْ بنِین میرے بیٹے تھے تو مجھے بیٹوں والی کہا جاتا تھا اب جو صبح ہوتی ہے تو میرے بیٹے کہیں نظر نہیں آتے أرْبعةٌ مِثْلُ نُسُورِ الرُّبیٰ قدْ وا صلُوا الْموْت بِقطْعِ الْوتِین میرے چاروں بیٹے پہاڑوں کے شہباز تھے وہ باری باری شہید ہوئے ان کی گردنیں کٹ گئیں تنازع الْخِرْصانُ أشْلائھُمْ فکُلُّھُمْ أمْسی صرِیعاً طعِین ان پر نیزہ برداروں نے ہر طرف سے ہجوم کیا تو وہ زخموں سے چور ہو کر زمین پر گر گئے یا لیْت شِعْرِی أکما أخْبرُوا بِأنّ عبّاساً قطِیعُ الْیمِین ہائے افسوس میں سمجھ پاتی جیسے لوگوں نے کہا کہ عباس کا دایاں بازو پہلے کٹا تھا
|
|
||||
|
|
|