امت کی رھبری
تالیف: آیة اللہ جعفر سبحانی

عرض ناشر
عالم اسلام کی موجودہ صورت حال ، مسلمان حکومتوں اور ملکوں کا باھم متحد نہ ھونا اسلامی اخوت و مساوات کا فقدان، اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بجائے غیر اسلامی تعلیمات کی طرف رجحان اور الٰھی طاقت و قوت پر اعتماد کے بجائے ان کا غیر الٰھی اور کھوکھلی طاقتوں پر ایمان۔ نتیجہ میں استعماری طاقتوں اور عالمی صھیونزم کا ان پر تسلط مسلمانوں کا بے مھابا قتل عام اور ان کے طبیعی و زمینی ذخائر کی اندھا دھند لوٹ کھسوٹ اور ساتھ ھی کلمہ ٴ لا الہ الا الله پڑھنے والوں کی بے بسی و بیکسی ایک صائب اور صحیح فکر رکھنے والے مسلمان کو بھت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ھے۔
ھم چودہ سو سال سے آج تک متفرق کیوں ھیں ۔ مسلمانوں کے درمیان صدیوں سے اس فرقہ واریت کے اسباب کیا ھیں ، مسلمانون میں کلام الٰھی کی یہ عملی تصویر کیوں نظر نھیں آتی جس میں وہ ارشاد فرماتا ھے < اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخواناً> بلکہ مسلمان خود ایک دوسرے کے جانی دشمن کیوں بنے ھوئے ھیں کیا ھم عملاً کھہ سکتے ھیں کہ اسلامی تعلیمات عالم انساںیت کی فلاح کےلئے بھترین تعلیمات ھیں ۔قرآن کے آئیڈیل مسلمان جو <اشداء علی الکفار رحماء بینھم>کی عملی تصویر ھیں پوری اسلامی تاریخ میں انگلیوں پر گننے کے قابل کیوں ھیں۔
اس کا صاف جواب یہ ھے کہ ھمارے پاس آنحضرت کی رحلت کے بعد سے کوئی عملی قرآنی لیڈر شب نھیں رھی مسلمانوں نے ابتدا ھی سے پیغمبر اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد نہ قرآنی تعلیمات پر سنجیدگی سے عمل کیا اور نہ پیغمبر اکرم ﷺ کے ارشادات پر کان دھرے اور خدا پسند مسلمان بننے کے بجائے خود پسند مسلمان بنے۔ قرآن کریم کے معلم اول حضرت محمد ﷺ اپنے بعد قرآن کے جن معلموں کو ” حدیث ثقلین“ کی روشنی میں ھمارے درمیان چھوڑ گئے تھے مسلمانوں نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ میں محفوظ ھے اور کسی باھوش مسلمانوں سے پوشیدہ نھیں ھے۔
لھذا ان حالات کی روشنی میں آج بھی یہ بحث تازہ اور گرما گرم ھے کہ پیغمبر اکرم ﷺ جو خدا کی جانب سے بھیجے گئے تھے اور الٰھی تعلیمات اور قرآنی دستور العمل ھماری حیات کےلئے لئے آئے تھے۔ ان کی رحلت کے بعد کیا مسلمان تمام الٰھی تعلیمات اور قرآنی دستور حیات سے اتنے آگاہ ھوچکے تھے کہ انھیں پھر کسی الٰھی معلم قرآن کی ضرورت نھیں رہ گئی تھی اور وہ اپنی مرضی سے الٰھی نظام حیات کو چلا سکتے تھے؟ دوسرے لفظوں میں کیا وہ خدا سے زیادہ اپنے حالات و معاملات سے آگاہ ھوگئے تھے؟
یا ” عدول“ کا لقب پانے والے آنحضرت کے اصحاب نے خدا ، قرآن اور پیغمبر اکرم ﷺ کے دستورات کے خلاف خدا و رسول کی مرضی کے بجائے اپنی مرضی کو عملی جامہ پھنایا اور ” امت کی رھبری“ اپنے ھاتھوں میں لے لی۔ انجام کار سامنے ھے کہ مسلمان آج چودہ سو برسوں سے ترقی کے بجائے زوال کی طرف مائل ھیں اور خدا کی جانب سے ” مغضوب“ اور ” ضالین“ شمار کی جانے والی قومیں ان پر غالب ھیں ۔
یہ کتاب ” امت کی رھبری“ جو آپ کے ھاتھوں میں ھیں اسی موضوع پر آیة اللہ شیخ جعفر سبحانی مد ظلہ کی ایک بھترین کاوش ھے جسے موجودہ افکار و خیالات کی روشنی میں نئے رخ سے پیش کیا گیا ھے امید ھے کہ خداوند عالم اس کے ذریعہ حق کے جویا افراد کی ھدایت فرمائے ۔
آمین یا رب العالمین

ناشر
******

مقدمہ
اس کتاب کی تحریر کامقصد
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد امت کی قیادت ورھبری کامسئلہ اسلام کے ان اھم مسائل میں سے ھے جس کی تحقیق ھر طرح کے تعصب وغرض و مرض سے دور پر سکون ماحول میں کی جانی چاھئے۔
سب سے پھلا مسئلہ جو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد زبانوںپر آیا اور بحث کا موضوع بنا اور آج بھی اس پر بحث وتحقیق جاری ھے وہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد مسلمانوں کی سیاسی وسماجی قیادت ورھبری کا مسئلہ تھا کیونکہ اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ھر جھت سے مسلمانوں کے س رپرست ورھبر تھے ۔ قرآن کی متعدد آیتیں آنحضرت کی وسیع قیادت ورھبری کی گواھی دیتی ھیں جن میں سے بعض آیتیں ھم یھاں ذکر کرتے ھیں :
1۔ ”اطیعوااللہ واطیعواالرسول واولی الامر منکم “ (1)
اللہ ،رسول اور اپنے حاکموںکی اطاعت کرو
2۔ ”النبی اولیٰ بالموٴمنین من انفسھم “( 2(
پیغمبر مومنوں (کی جان ومال )پر ان سے زیادہ سزاوار ھے۔
اس وسیع وعریض قیادت ورھبری کاایک پھلو اسلامی سماج میں عدالت قائم کرنا ھے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلممدینہ میں اپنے قیام کے دوران خود یامدینہ سے باھر دوسروں کے ذریعہ سماج میں عدالت برقرار کرتے تھے ۔قرآن مسلمانوں کو حکم دیتاھے کہ اپنے معاملات اور اختلافات میں
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلوں کو بے چون وچرا تسلیم کریں:
”فلا وربک لا یوٴمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لایجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما“ ( 3)
)تمھارے پروردگار کی قسم وہ لوگ ھرگز مومن واقعی شمار نھیں ھوں گے جب تک وہ اپنے اختلاف میں تمھیں حَکَم اور قاضی قرار نہ دیں اوراس پر ذرا بھی ملول نہ ھوں اور تمھارے فیصلہ پر مکمل تسلیم ھوں)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی سماجی رھبری کاایک پھلو اسلام کے مالی واقتصادی امور کاادارہ کرناھے کہ ٓانحضرت اپنی حیات میں ان کاموںکوانجام دیتے تھے۔قرآن مجید نے ان الفاظ میں آپ کوخطاب کیاھے:
”خذ من اموالھم صدقة تطھرھم وتزکیھم بھا“) 4)
ان کے اموال میں سے زکوات لو اور اس طرح انھیں پاک کرو۔
دوسری آیات میں زکات اور ٹیکس کی مقدار اور ان کے مصارف کا بھی پوری باریکی کے ساتھ ذکر کیا گیاھے۔
ان آیات کے معانی،ان کی وضاحت کرنے والی روایات اور خود آنحضرت کاطرز عمل یہ بتاتاھے کہ آنحضرت مسلمانوں کے سرپرست ،سماج کے حاکم ،اور ملت وامت کے فرمانروا تھے۔اور جو سماج کامطلق العنان حاکم انجام دیتا ھے وہ انجام دیتے تھے ۔ فرق یہ تھا کہ یہ سرپرستی اور حکومت لطف الٰھی کی شکل میں خدا کی طرف سے آپ کو عطا ھوئی تھی۔لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس منصب کے لئے منتخب نھیں کیاتھا۔نقطہ ٴحساس یہ ھے کہ ھم یہ جانیںکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی رحلت کے بعد امت کی باگڈور اور سرپرستی کس کے ذمہ ھے اور اسلامی سماج کی اجتماعی وسیاسی قیادت کس کے ھاتھ میں ھونی چاھئے جو سماج کو ھرج ومرج ،فساد اور پسماندگی سے محفوظ رکھے؟
اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ اسلام جیسے عالمی وجاودانی دستور میں اس امر کو فراموش نھیں کیاگیا ھے اور اس کے لئے ایک بنیادی منصوبہ پیش کیاھے اور وہ ھے ”اولی الامر“کی پیروی واطاعت جو ھم پر واجب کی گئی ھے اور اس سلسلہ میں کوئی بحث نھیں ھے۔پس یھاں جو نکتھ قابل بحث ھے یہ ھے کہ جن حکام کی اطاعت واجب کی گئی ھے مسلمان ان کی شخصیت کو پھچانیں تاکہ خوب اطاعت کریں۔
مسلمانوںکا ایک گروہ یہ کھتاھے کہ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خداوند عالم کے حکم سے اسلامی سماج کے سیاسی واجتماعی امور کو ادارہ کرنے کے لئے اپنے بعد حاکم ےا حکام معین کئے ھیں ۔اس گروہ کے مقابل ایک دوسرا گروہ ھے جو یہ کھتا ھے کہ خداوند عالم نے لوگوں کو یہ اختیار دیاھے کہ
پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعداپنے لئے حکام کاانتخاب کریں۔شیعہ پھلے نظریہ کے اوراھل سنت دوسرے نظریہ کے طرفدار ھیں۔
اگر مسلمانوں کی امامت وپیشوائی کامسئلہ اسی حد میں ھو کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم(کی رحلت کے بعد اسلام کے اس سیاسی واجتماعی منصب پر کون فائز ھوا،اس شخص کی تعیین کس شکل میں ھوئی پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس منصب پر کسی کو معین کیا یاکوئی شخص عوام کی جانب سے اس منصب کے لئے منتخب ھوا ،تو یہ بحث صرف ایک تاریخی پھلو کی حامل ھوگی اور چودہ صدیوں کے بعد آج کی نسل کے لئے کوئی خاص سازگار اور مفید نھیں ھوگی۔(اگر چہ ان افراد کی شناخت بھی اس عھد کے لوگوں کے لئے ضروری اور اھم شمار ھوتی تھی)لیکن اگر بحث کی شکل تبدیل ھو اور یہ کھا جائے کہ بحث کا موضوع پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد اسلامی سماج کی صرف سیاسی و اجتماعی قیادت ھی نھیں ھے بلکہ پیغمبر اکر م (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اس منصب کے علاوہ ”دین کے اصول و فروع میں بھی مرجعیت ورھبری کا منصب رکھتے تھے ۔تو اب سوال یہ ھے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد اس پھلو کی قیادت کس کے ذمہ ھے؟ اور کیسے اشخاص کو حلال و حرام اور امر و نھی کا منصب دار ھونا چاھئے تا کہ اسلامی حقائق کے سلسلہ میں ان کے اقوال اور نظریات صبح قیامت تک انسانوں کے لئے حجت ھوں؟اس صورت میں امام کی شناخت اور دینی امامت و پیشوائی کے سلسلہ میں بحث ھر مسلمان کی زندگی کا حصہ قرار پاتی ھے اور کوئی شخص بھی اس معرفت سے بے نیاز نھیں ھوسکتا ۔اب اس مطلب کی و ضاحت پر توجہ دیں:

اسلامی معارف و احکام میں قیادت و مرجعیت:
اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی قیادت و رھبری صرف سیاسی و سماجی امور میں نھیں تھی بلکہ آپ قرآنی آیات کے مطابق اس الٰھی کتاب کے معلم 1 ، قرآن کے مشکل مطالب کی تبیین و وضاحت کرنے والے 2 ،اور الٰھی احکام و سنن کو بیان کرنے والے تھے 3 ۔اس اعتبار
1۔”یعلمھم الکتاب والحکمة“ (5)
2۔”و انزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما انزل الیھم“)6)
3۔” وما آتاکم الرسول فخذوہ و مانھاکم عنہ فانتھوا“ (حشر/7)(7)
سے پورے اسلامی معاشرہ کا اس پر اتفاق ھے اور قرآنی نصوص بھی گواھی دیتی ھیں کہ اسلام کی اعلیٰ تعلیمات اور بندوں کے فرائض میں آنحضرت کا قول و عمل لوگوں کے لئے سند اور حجت ھے۔
اس کتاب کے چوتھے حصہ میںواضح طور سے بیان کیا گیا ھے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے ساتھ لوگوں کی تعلیم و تربیت کی ضرورت پوری نھیں ھوئی تھی اور ابھی اسلام کی علمی و عملی تحریک اپنے کمال کو نھیں پھنچی تھی کہ پھر سماج کو معصوم رھبروں کی ضرورت نہ رھے۔لھٰذا ضروری ھے کہ رسول خدا کی رحلت کے بعد کوئی شخص یا جماعت اسلام کے احکام اور اس کے علمی ،فکری وتربیتی اصول کی رھبری و مرجعیت کا عھدہ اس روز تک سنبھالے جب تک اسلام کا یہ انقلاب پوری طرح سے بارور ھوجائے۔
اب دیکھنا یہ ھے کہ اس منصب و مقام کے لئے کون سے افراد شائستہ ھیں تا کہ اسلامی معاشرہ ھر عھد اور ھر زمانہ میں ان کے افکار و کردار و گفتار سے فائدہ اٹھائے۔اور ان کی ھدایات و رھنمائی میںحلال خدا کو حرام سے اور واجبات کو محرمات سے تشخیص دے سکے ۔نتیجہ میں اپنے دینی فرائض پر عمل کرسکے ۔اس گروہ کی شناخت اور ان کی تعلیمات و ھدایات سے آگاھی حاصل کرنا ھر مسلمان پر لازم و ضروری ھے۔ اس کتاب میں اسی بات کی کوشش کی گئی ھے کہ پیغمبر اکرم کے شائستہ اور سچے جانشینوں کا تعارف کرایا جاسکے۔
ظاھر ھے کہ (پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد امت کی رھبری )کی بحث کو پیش کرنے کا مطلب یہ ھرگز نھیں ھے کہ موجودہ حساس حالات میں مذھبی اختلافات کو بھڑ کایا جائے یا تعصب آمیز اور بے ثمر و غیر مفید بحث کو جاری رکھا جائے۔ کیونکہ ان حساس اور نازک حالات میں نہ صرف حالات کو پھیلنے سے روکا جانا ضروری ھے بلکہ انھیں کم سے کم کرنے کی کوشش کرنا چاھئے اور در حقیقت انسان کی عمر اس سے کھیں زیادہ قیمتی ھے کہ تعصب آمیز بحث چھیڑی جائے اور اپنی اور دوسروں کی عمر تباہ کی جائے۔بلکہ مقصد یہ ھے کہ ھر طرح کے تعصب و کینہ سے دور رہ کر ایک اھم اور اساسی مسئلہ کو واضح کرنے کے لئے حقائق کی بنیاد پر اس کی محققانہ اور منطقی تحقیق کی جائے۔تا کہ اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان مزید قربت اور تفاھم پیدا ھو اور وہ زھر افشانیاں ختم ھوجائیں جو ھمارے دانا دشمن اور نادان دوست اس سلسلہ میں کیا کرتے ھیں۔امت کی رھبری سے مربوط بحثوں میں دو بنیادی اصل ھمارے پیش نظر ھیں :
1۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی جانشینی جیسے اھم مسئلہ میں حقائق و واقعیات کو پھچانا جائے۔
2۔مسلمانوں کے درمیان مفاھمت اور قربت پیدا کرنے میں مدد کی جائے اور ان عوامل و اسباب کو بر طرف کیا جائے جو سوء ظن کا باعث ھوتے ھیں اور جن سے دشمن فائدہ اٹھا کر ھم میں اختلاف پیدا کرتا ھے۔
اس کتاب کے مطالب چند برس پھلے تھران میں یونیورسٹی کے طلبہ کے لئے (حسینیہ ٴبنی فاطمہ(ۡع)) میں درس کے طور پر بیان کے گئے تھے جو کافی حد تک لوگوں کو مکتب اھل بیت(ۡع)سے آشنا کرنے اور آنحضرت کے شائستہ جانشینوں کی معرفت کا باعث ھوئے تھے۔جنھیں شائقین کے اصرار پر کتابی شکل میں شائع کیا جارھاھے یہ کتاب اس بحث کا پھلا حصہ ھے جو 24چوبیس فصلوں پر مشتمل ھے ۔انشاءاللہ دوسرا حصہ بھی جلد شائع ھوگا۔
وماتوفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب

جعفر سبحانی
حوزہٴ علمیہ قم المقدسہ
اسلامی جمھوریہ ایران
*****