مثالی معاشرے کی اہم خصوصیات۔
مثالی معاشرے کی ضروت اور ارکان کی وضاحت کے بعد اب اسکی اہم اور بے مثال خصوصیات کی جانب اشارہ کرتے ہیں جو اسے دوسرےغیر اسلامی مشرقی اور مغربی معاشرے سے الگ اور متمایز کردیتی ہیں یہ خصوصیات معاشرے کے سیاسی، اجتماعی، ثقافتی، معیشتی، امنیتی میادین وغیرہ سے مکمل رابطہ رکھتی ہیں امام کی نظر میں جب تک ایک مثالی اور آئیڈیل سوسائٹی کے اندرایسی خصوصیات اور صفات نہ پائی جائیں تب تک اسکے اہداف اور خلقت کے اصلی مقاصد کی دستیابی بھی ناممکن ہے۔ اگر چہ مکتب امام کے ایسے معاشرے میں بہت ساری صفات اور خصوصیات کی جانب اشارہ ملتا ہے لیکن مقالہ کی وسعت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری کوشش یہی ہے کہ اس کی اہم ترین خصوصیات کو بیان کرنے پہ ہی اکتفا کریں گے۔
آزادی
اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادای انسان کا پیدایشی حق ہے عصر حاضر میں جتنا آزادی بشر کے بارے میں لکھا اور کہاجاتا ہے شاید ہی انسانی تاریخ کے کسی اور دور میں اس سلسلے میں گفت و شنید ہوئی ہوامام علی(ع) کے مثالی معاشرے کی سب سے اہم اور بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر طرح کی آزادی سے مالا مال ہے اس میں زندگی گزارنے والے افراد اپنی ذاتی اور معنوی آزادی سے لیکر سیاسی آزادی پر مکمل اختیار رکھتے ہیں آپکی آرزو یہی ہے کہ اس معاشرے کے سارے افراد کے اندر اپنے آپ کو ہر طرح کے قید و بند سے آزاد سمجھنے کا شعور اور سلیقہ پیدا ہوجائے نہ یہ کہ آزادی کو حکمران کی جانب سے لایا ہو ایک تحفہ جانیں۔ شہید مطہری فرماتے ہیں:سیاسی اور اجتماعی آزادی تک پہنچنے کے لئے معنوی آزادی بھی ضروری ہے یعنی انسان اپنی قید اوراسارت سے بھی آزاد ہوجائے۔ امام(ع) اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(لاَ تَكُنْ عَبْدَ غَيْرِكَ وَقَدْ جَعَلَكَ اللهُ حُرّاً َ) ”کسی کا غلام مت بنو کیونکہ خدا نے تمہے آزاد پیدا کیا ہے“
آپ سخت اور دشوارترین حالات میں بھی لوگوں کے اس ذاتی حق کا بھرپور خیال رکھتے تھےچنانچہ جب سہل بن حنیف نے مدینہ میں معاویہ کے ساتھ لوگوں کی ملاقات کی شکایت کی، آپ نے فرمایا:
(فَلاَ تَأْسَفْ عَلَى مَا يَفُوتُكَ مِنْ عَدَدِهِمْ، وَيَذْهَبُ عَنْكَ مِنْ مَدَدِهِمْ، فَكَفى لَهُمْ غَيّاً وَلَكَ مِنْهُمْ شَافِياً، فِرَارُهُمْ مِنَ الْهُدَى والْحَقِّ، وَإِيضَاعُهُمْ إِلَى الْعَمَى وَالْجَهْلِ)”خبردار تم اس عدد کے کم ہوجانے اور اس طاقت کے چلے جانے پر ہرگز افسوس نہ کرنا کہ ان لوگوں کی گمراہی اور تمہارے سکون نفس کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ لوگ حق و ہدایت سے بھاگے ہیں اور گمراہی اور جہالت کی طرف دوڑپڑے ہیں“
اسی طرح حکمیت کے بارے میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہونے پر فرمایا:
(وَلَيْسَ لِي أَنْ أَحْمِلَكُمْ عَلَى مَا تَكْرَهُونَ!) ”میں تمہے کسی ایسی چیز پر آمادہ نہیں کرسکتا ہوں جو تمہیں ناگوار اور ناپسند ہو“
سیاسی امور میں آزادی کے حوالے سے لوگوں کا سب سے اہم حق، انتخاب کا حق ہوتا ہے یہ بات طلحہ اور زبیر کو لکھے گئے ایک خط سے روشن ہو جاتی ہے کہ امام نے اس حوالے سے بھی لوگوں کومکمل آزادی دے رکھی تھی ۔
(أَنِّي لَمْ أُرِدِ النَّاسَ حَتَّى أَرَادُونِي، وَلَمْ أُبَايِعْهُمْ حَتَّى بَايَعُونِي، وَإِنَّكُمَا مِمَّنْ أَرَادَنِي وَبَايَعَنِي، وَإِنَّ العَامَّةَ لَمْ تُبَايِعْنِي لِسُلْطَان غَاصِب، وَلاَ لِعَرَض حَاضِر) ”میں نے خلافت کی خواہش نہیں کی لوگوں نے مجھ سے خواہش کی ہے اور میں نے بیعت کے لئے اقدام نہیں کیا ہے جب تک انہوں نے بیعت کرنے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے تم دونوں بھی انہیں افراد میں شامل ہو جنہوں نے مجھے سے چاہاتھا اور میری بیعت کی تھی اور عام لوگوں نے بھی میری بیعت نہ کسی سلطنت کے رعب دأب سے کی ہے اور نہ کسی مال و دنیا کی لالچ میں کی ہے“
یعنی لوگ ہر طرح سے آزاد تھے کسی مجبوری یا جبر و زیادتی کی وجہ سے میری بیعت نہیں کی ہے اسی طرح اھل کوفہ کو ایک خط لکھتے ہوئے لوگوں کے آزاد اور مختار ہونے کی جانب اشارہ فرماتے ہیں:
(بَايَعَنِي اَلنَّاسُ غَيْرَ مُسْتَكْرَهِينَ وَ لاَ مُجْبَرِينَ بَلْ طَائِعِينَ مُخَيَّرِين ) ”لوگوں نے میری بیعت کی جس میں نہ کوئی جبر تھا اور نہ اکراہ، بلکہ سب کے سب اطاعت گذار تھے اور مختار“
پس ان اقوال کی روشنی میں یہ بات ہمارے لئے روشن ہوجاتی ہےکہ امام علی (ع)کا معاشرہ آزاد معاشرہےیہاں اپنی ذاتی اور معنوی آزدی سے لیکر سیاسی امور کی آزادی کا پوراخیال رکھاجاتا ہے اس مثالی معاشرے میں آزاد نسل پروان چڑھتی ہے غلامی کا یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
صالح قیادت:
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک چھوٹے سے گھرانے سے لیکر ایک بڑی جماعت تک کے لئے ایک قائد کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے ہر طرح کی سستی اور بے انضباطی سے بچاتے ہوے اس کے اندر نظم و انضباط پیدا کرسکےامام علی (ع)کی نظر میں ہر معاشرے کے لئے ایک حاکم اور قائد کی ضرورت ہے۔ (لاَبُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ أَمِير بَرّ أَوْ فَاجِر ) ”لوگوں کے لئے ایک حاکم اور قائد کا ہونا ضروری ہے چاہے وہ نیک ہو یا برا“لیکن مثالی معاشرے کی قیادت کے کچھ معیار ہیں امام کا مثالی معاشرہ صالح اور نیک قیادت کی حاکمیت پر استوار ایک ایسا منفرد معاشرہ ہے جس کے سیاسی، معاشرتی، ثقافتی امور کو ادارہ کرنے کے لئے شایستگی، اور صلاحیت کو دیکھا جاتا ہے نہ کسی حسب و نسب کو، اسی لئے ایسے افراد کی باتوں پر اظہار تعجب کرتے ہیں جوخلافت اور امت مسلمہ کی حاکمیت کی گدی پربیٹھنے کے لئے صرف آنحضور(ص)کے صحابی ہونے کے معیار کو کافی جانتے تھےاگر یہی معیار ہے تو پھر میں زیادہ مستحق خلافت ہوں کیونکہ میں صحابی کے علاوہ قرابت دار بھی ہوں۔ (وَا عَجَبَاهْ أَتَكُونُ الْخِلَافَةُ بِالصَّحَابَةِ وَ الْقَرَابَةِ) ”واعجباہ!خلافت صرف صحابیت کی بناپر مل سکتی ہے لیکن اگر صحابیت اور قرابت دونوں جمع ہوجائیں تو نہیں مل سکتی ہے“
آپ ہر طرح کے حسب و نسب اورذاتی روابط کی نفی کرتے ہوے مثالی معاشرے کے لائق اور صالح قائد اور رہبرکی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں:(وَمَكَانُ الْقَيِّمِ بِالاَْمْرِ مَكَانُ النِّظَامِ مِنَ الْخَرَزِ يَجْمَعُهُ وَيَضُمُّهُ: فَإِنِ انْقَطَعَ النِّظَامُ تَفَرَّقَ وَذَهَبَ، ثُمَّ لَمْ يَجْتَمِعُ بِحَذَافِيرِهِ أَبَداً) ”ملک میں ایک رہبر کی جگہ اس محکم دھاگے کی مانند ہے جو مہروں کو متحد کر کے آپس میں ملاتی ہے اور وہ اگر ٹوٹ جائے گاتوسارا سلسلہ بکھر جائے گا اورپھرہرگز دوبارہ جمع نہیں ہوسکتا ہے“
اور اسی طرح رھبر اور قائد امت مسلمہ ہونے کے ناطے اپنا تعارف یوں کراتے ہیں:
(و انما انا قطب الرحا تدور علیّ و انا بمکانی ، فاذا فارقته استحار مدارها و اضطرب ثفالا) ”میں حکومت کی چکی کا محور ہوں جسے میرے گرد چکر لگانا چاہیے اگر میں اپنے محور سے دور ہوا تووہ اپنے مدار سے ڈگمگا جائے گی اور اسکی نیچے کی بساط بھی متزلزل ہوجائیگی“
امام علی (ع)کے مثالی معاشرے میں غیر صالح قائدکی کوئی جگہ نہیں ہےکیونکہ رعیت اپنے حاکم کی اتباع کرتی ہے لہذا فاجر اور فاسق حاکم کی صورت میں پوری رعیت فاسد ہوجائے گی لیکن صالح اور نیک حاکمیت کی صورت میں معاشرہ بھی صالح اور نیک بن جاتا ہے اسی بناپرآپ ایک صالح رھبر اور قائد کے بغیر مثالی معاشرے کی تشکیل بھی ناممکن جانتے ہیں۔
(فَلَيْسَتْ تَصْلُحُ الرَّعِيَّةُ إِلاَّ بِصَلاَحِ الْوُلاَةِ) ”رعایا کی اصلاح تب تک ممکن نہیں ہے جب تک والی صالح نہ ہو“
اسی طرح آپ نے مختلف مقامات پر ایک صالح اور مثالی رھبر اور قائد کی خصوصیات اور صفات بھی بیان فرمائے ہیں عادل اور منصف قائد کی اطاعت اور فرمانبرداری کے سائے میں پیدا ہونے والے مثالی معاشرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(اتقوا الله و اطیعوا امامکم فان الرعیة الصالحة تنجو بالامام العادل، الا و ان الرعیة الفاجر تهلک بالامام الفاجر) ”خدا سے ڈرو اور اپنے رہبر اور پیشوا کی اطاعت کرو کیونکہ صالح قوم عادل پیشوا کے ذریعہ سے نجات پاتی ہے خبردار فاسد قوم فاسد پیشوا کی وجہ سے ہلاک ہو جاتی ہے“
پس یہ بات کافی حد تک واضح ہوگی کہ امام علی کے مثالی معاشرے کا ایک اہم جز صالح قیادت ہے یہاں صلاحیت اور اچھائی کی پرورش ہوتی ہےنہ حسب و نسب کی بناپر برائی کی ترویج اسی لئے یہ معاشرہ ہر طرح کی برائی سے پاک ہے۔
قانون گرایی:
نہج البلاغہ کی دنیا میں تشکیل پانے والے مثالی معاشرے کی ایک اور بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک قانون گرا معاشرہ ہے یہاں قانون اور ضوابط کی حاکمیت ہے کسی کو حق نہیں بنتا کہ اپنے نفع کی خاطر یا نقصان سے بچنے کے لئے قانون کو پاؤں تلے روند دے آپ معاشرے میں اٹھائے گئے کسی بھی سیاسی، اجتماعی یا فوجی اقدامات کی وجہ نفاذ قانون اور شریعت ہی بتلاتے ہیں آپ خالق کائنات کے ساتھ مناجات کرتے ہوئے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں:
(اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ اَنَّهُ لَمْ يَكُنِ الَّذِي كانَ مِنّا مُنافَسَةً فِي سُلْطانٍ وَ لا الْتِماسَ شَيْءٍ مِنْ فُضُولِ الْحُطامِ وَ لكِنْ لِنَرُدَّ الْمَعالِمَ مِنْ دِينِكَ وَ نُظْهِرَ الْإِصْلاحَ فِي بِلادِكَ فَيَأمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبادِكَ وَتُقامَ الْمُعَطَّلَةُ مِنْ حُدُودِكَ) ”بار الٰہا! تو خوب جانتا ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہم سے (جنگ و پیکار کی صورت میں)ظاہر ہوا اس لیے نہیں تھا کہ ہمیں تسلط و اقتدار کی خواہش تھی یا مال دنیا کی طلب تھی بلکہ یہ اس لیے تھا کہ ہم دین کے نشانات کو (پھر ان کی جگہ پر )پلٹائیں اور تیرے شہروں میں امن و بہبودی کی صورت پیدا کر یں تاکہ تیرے ستم رسیدہ بندوں کو کوئی کھٹکا نہ رہے اور تیرے وہ احکام (پھر سے )جاری ہو جائیں جنہیں بیکار بنا دیا گیاہے “
آپ کی نظر میں مثالی معاشرے کی تشکیل کا ایک اہم ذریعہ حکومت اسلامی کا قیام ہے جس کے سائے میں اس کے اصلی مقصد یعنی قانون الہی کو بھی اجرا کیا جاسکتا ہے آپ عملی صورت میں خلافت اسلامی کو قبول کرنے کی ایک اہم وجہ بھی یہی نفاذ شریعت ہی بتلاتے ہیں۔
(وَاللهِ مَا كَانَتْ لِي فِي الْخِلاَفَةِ رَغْبَةٌ، وَلاَ فِي الْوِلاَيَةِ إِرْبَةٌ وَلكِنَّكُمْ دَعَوْتُمُونِي إِلَيْهَا، وَحَمَلْتُمُونِي عَلَيْهَا، فَلَمَّا أَفْضَتْ إِلَيَّ نَظَرْتُ إِلَى كِتَابِ اللهِ وَمَا وَضَعَ لَنَا، وَأَمَرَنَا بِالْحُكْمِ بِهِ فَاتَّبَعْتُهُ، وَمَا اسْتَسَنَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله فَاقْتَدَيْتُهُ) ”خدا کی قسم! مجھے تو کبھی بھی اپنے لئے خلافت اور حکومت کی حاجت و تمنا نہیں رہی تم ہی لوگوں نے مجھے اس کی طرف دعوت دی اور اس پر آمادہ کیا۔ چنانچہ جب وہ مجھ تک پہنچ گئی تو میں نے اللہ کی کتاب کو نظر میں رکھا اور جو لائحہ عمل اس نے ہمارے سامنے پیش کیا اور جس طرح فیصلہ کرنے کا اس نے حکم دیا میں اسی کے مطابق چلا اورجو سنت پیغمبر قرار پاگئی اس کی پیروی کی“
اسی طرح مالک اشتر کو قانون الہی اجرا کرنے کی سخت تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مثالی معاشرے میں سعادتمند زندگی کے حصول کے لئے قانون کا نفاذ ضروری ہے و گرنہ معاشرہ بربادی کے دلدل میں گرجائے گا۔
(امره بتقوي الله،و ايثار طاعته، واتباع ما امر به في کتابه من فرائضه وسننه، التي لايسعد احد الا باتباعها ولايشقي الا مع جحودها و اضاعتها) ”سب سے پہلا امر یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو اس کی اطاعت کو اختیار کرو اور جن فرائض کا اپنی کتاب میں حکم دیا ہے ان کا اتباع کرو کہ کوئی شخص ان کے اتباع کئے بغیر نیک بخت نہیں ہوسکتا ہے اور کوئی شخص ان کے انکار اور بربادی کے بغیر بدبخت نہیں قرار دیا جاسکتا“
مثالی معاشرے میں قانون ہی ایک ایسی چیز ہے جو معاشرے میں برابری اور مساوات قائم کردیتی ہے اور ہر طرح کی تبعیض ختم کرکے ایک صالح معاشرہ وجود میں لاتی ہے امام علی(ع) کے قانون میں تبعیض کی کوئی گنجایش نہیں اپنے سیاسی پیغام میں مالک اشتر سے یہی چاہتے ہیں کہ قانون میں مساوات سے کام لے کیونکہ قانون کے آگے سب برابر ہیں۔
(وَإيَّاكَ وَالاْسْتِئْثَارَ بِمَا النَّاسُ فِيهِ أُسْوَةٌ) ”دیکھو جس چیز میں تمام لوگ برابر کے شریک ہیں اسے اپنے ساتھ مخصوص نہ کرلینا“
اسی طرح حلوان کے سپاہیوں کے سپہ سالار اسود ابن قطبہ کے نام لکھے ایک خط میں قانون کی برابری پر زور دیتے ہیں۔
(فَلْيَكُنْ أَمْرُ النَّاسِ عِنْدَكَ فِي الْحَقِّ سَوَاءً) ”لیکن تمہاری نگاہ میں تمام افراد کے معاملات کو ایک جیسا ہونا چاہیے“
لیکن ان الہی قوانین کو ہر کوئی اجرا نہیں کرسکتایہ تھوڑے ہی مغربی معاشرے کے قانون گذار ہیں جو اپنے نفع و نقصان کو دیکھ کے قانون بناتے ہیں اور ہر طرح کی برائیوں میں ملوث ہونے کے بعد بھی قانون اجراکرنے کے دعو ے دار بن جاتے ہیں یہ امام علی(ع) کا مثالی معاشرہ ہےیہاں قانون نافذ کرنے والے افراد کو ہر طرح کے عیب اور نقائص سے پاک ہونا چاہیے۔
(لَا يُقِيمُ أَمْرَ اللَّهِ سُبْحَانَهُ إِلَّا مَنْ لَا يُصَانِعُ وَ لَا يُضَارِعُ وَ لَا يَتَّبِعُ الْمَطَامِعَ) ”حکم الہی کا نفاذ وہی کرسکتا ہے جو حق کے معاملہ میں مروت نہ کرتا ہو اور عاجزی و کمزوری کا اظہار نہ کرتا ہو اور لالچ کے پیچھے نہ دوڑتا ہو“
پس نہج البلاغہ میں تشکیل پانے والا مثالی معاشرہ قانون گرا اور قانون مدار معاشرہ ہے ایک ادنی اور عام آدمی سے لیکر ایک حاکم اعلی تک سب کے سب قانون کے آگے یکسان اور برابر ہیں یہان نفاذ قانون کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی تبعیض نہیں کی جاسکتی۔
|