کتاب: مثالی معاشرہ نہج البلاغہ کی روشنی میں
مصنف: (بی،اے،کوثری)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انسان آغاز خلقت سےہی تنہائی سے گریز کرتے ہوئے اجتماعی زندگی اور اپنے آس پاس میں زندگی بسر کرنے والوں سے مختلف نوعیت کے رابطے اور میل و ملاپ بڑھانے کی سعی و تلاش میں رہا ہے
یہ نہ فقط اسکی طبیعت کی خاصیت تھی بلکہ اسکی فطرت کا بھی تقاضا تھا اسلامی نقطہ نظر سے بھی اگر دیکھا جائے تو کائنات کی ہر چیز جوڑے کی صورت میں خلق ہوئی ہے اسی فطری اور طبیعی غریزے کو پورا کرنے
اور دوسرے موجودات کی نسبت عقل کے نایاب گوہر سے بہرمند ہونے کی وجہ سے اپنی اجتماعی اور معاشرتی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی تگ و دو میں رہا
آہستہ آہستہ تاریخ انسانیت کی ترقی کے ساتھ ساتھ نہ فقط ایک معاشرے سے وابستہ افراد کے درمیان آپسی رابطے بڑھنے لگے بلکہ معاشروں کےدرمیان ایک دوسرے سے رابطے بھی عمیق اور گہرے ہونے لگےخاص کرعصرحاضر میں علم و صنعت اور ٹکنولوجی کی روز افزوں ترقی کی بناپر یہ رابطے اتنے وسیع ہونے لگے کہ عصر حاضر کو عصر ارتباط (Cominication World)کے خطاب سے بھی نوازا گیا اس سے بڑھ کر ان گہرے روابط کی وجہ سے پورا عالم ایک معاشرے میں تبدیل ہوکے رہ گیا جس کی بنا پر عالم کاری وغیرہ جیسے نظریات بھی وجود میں آئے
لیکن اس تگ و دو میں مشرق اور مغرب سارے معاشروں کی یہی کوشش رہی ہے
کہ اپنے آپ کو دوسروں کے سامنے ہر زاویے سے لائق اور بہتر سے بہتر معاشرہ کی شکل میں پیش کرے یہاں تک کہ مغرب والے دوسروں سےایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اس بات کے دعوے دار بھی بن بیٹھے کہ سب سے بہترین معاشرہ انکے یہاں ہی پایا جاتا ہے
لہذا اگر دنیا میں دوسرے معاشروں کے لئے کوئی نمونہ عمل ہوسکتا ہے تو وہ ہمارا معاشرہ ہے۔ یہ بھی انسان کی فطرت کے رازوں میں سے ایک راز ہے کہ انسان یا تودوسروں کے لئے اپنے آپ کو نمونہ عمل پیش کرنے پر فخر کرتا ہے
یا پھر کافی توانایی نہ ہونے کی صور ت میں دوسروں کے نقش قدم پہ چل کے اپنے اندر پائے جانے والے ضعف اور کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہےلوگوں کی طرح معاشرے اور سوسائٹی کا بھی یہی حال ہے اسی لئے انسان کے اس دیرینہ آرزو اور خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے طویل مدت سے انسانیت کے دوست اور دشمن دونوں ایک مثالی معاشرے یا ماڈل سوسائٹی کا خاکہ پیش کرتے رہےوہ پتھر کے زمانے کا انسان ہو یا قدیم یونان کے حکیم ہوں عصر جاہلیت کے سردار ہوں یا تاریخ اسلام کے نامور حکیم اور فلاسفر ، ہر ایک نے اپنی علمی اورفکری سطح کے اعتبار سے مثالی معاشرے کی سنگ بنیاد ڈالنے کی نظریاتی جدوجہد کی ہے
لیکن چنانچہ عقل بشری کتنا ہی علمی اور فکری آسمانوں کی معراج کرتی رہے،ابھی تک کائنات اور انسان کے بہت سارے اسرار و رموز سے ناواقف ہےاور جب تک انسان اپنی فکر جولان گاہ کو وحی الہی کے چشمہ فیضان سے سیراب نہ کرے انسانیت کے عروج اور سربلندی کے لئے ایک مثالی معاشرے کی تشکیل بھی ادھوری رہے گی آج اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے وحی الہی کے چشمہ فیض سے سیراب ہونے والے کائنات کی بے مثال ہستی کے انمول بیانات کی روشنی میں ایک ایسے مثالی معاشرے کی سنگ بنیاد ڈالتے ہیں جن کے مبارک اقوال کو‘‘دون کلام خالق اور فوق کلام بشر’’ کہا گیا ہے
جی ہاں یہ مولائے کونین علی(ع) کا مبارک کلام ہےیہ انسانیت کے لئے نہج البلاغہ جیسی نایاب اقوال پر امام (ع) کا ایک عظیم تحفہ ہے جس میں مثالی معاشرے کے خدو خال بیان کرنے میں ہم اپنی کم علمی اور ہزاروں عیب کو مدنظر رکھتے ہوئے فقط ایک اجمالی سیر کریں گے اور ہماری کوشش یہی رہے گی امام علی کے ہاتھوں تشکیل پانے والے مثالی معاشرے کے تمام جوانب کی طرف اشارہ کیا جائے
نہج البلاغہ کی نورانیت میں جو معاشرہ چاند، ستاروں کی طرح چکمتا نظر آرہا ہے وہ انسان کے ہراخلااقی ، ثقافتی،معاشرتی، سیاسی، معیشتی، اور کئ دوسری خصوصیات اپنے تمام جوانب کے ساتھ بیان کررہا ہے
یہ مثالی معاشرہ منفر د ہے یہ انسانوں کا معاشرہ ہے اسے مثالی انسانی معاشرہ کہا جائے تو زیادہ بہتر رہے گانہج البلاغہ کی روشنی میں ایک ایسے مثالی معاشرے کو تلاش کرناخود ہی بہت اہمیت کا حامل ہے آج کے دور میں تڑپتی اورسسکتی ہوئی انسانیت جہاں انسانما افراد کے ہاتھوں لہولہاں ہے، وہیں انسانیت کے دوستداروں کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ معاشرے کو ہر انداز سے بہتر سے بہتر بناکے انسانیت اور اسکے اقدا کو ہمیشہ کے لئے زندہ اور جاوید رکھا جائے
میں پھر سے اپنی کمی علمی کا اعتراف کرتا ہوں اور ساتھ ہی اس بات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کہ میری کوشش یہی رہی ہے کہ دوسری کتابوں سے کم سے کم استفادہ کرکے نہج البلاغہ پر ہی زیادہ توجہ کروں اسی لئے پروردگار عالم کے بعد اپنے مولائے کائنات کےچوکھٹ پہ سرخم کرکے آپ ہی سے مدد کا طلبار ہوں کہ میری فکری توانائیوں میں اپنے مبارک کلام کوصحیح ادراک کرنےکی صلاحیت عطاکرے اور قلم کی روانی میں مثالی معاشرے کی انمول خصوصیات بیان کرنے کی سکت عنایت فرمائے۔
آمین یا رب العالمین
|