|
شب برات پندرہ شعبان
دن کے حلوے، روٹی کی کوئی اصلیت نہیں۔ رات کو بے شک حضرت امام عصر(ع) کی ولادت کی خوشی ہے۔ آتشبازی مظاہرہٴ مسرت ہے۔ سوچ سمجھ کر پرانے لوگوں نے رکھا ہے۔ نفسیاتی طور پر اپنی خوشی کے دوسروں کے بھی گھروں میں منائے جانے کا ذریعہ ہے۔ عرائض دلوں کو غیبی رہنما کی طرف متوجہ کرنے کا وسیلہ ہیں۔ دونوں باتیں اچھی ہیں۔ دوسرے ہنستے ہیں تو ہنسنے دو۔ ہماری کونسی بات ان کی ہنسی سے خالی ہے۔ ہماری نماز کی اٹھا بیٹھی۔ حج کی دوڑ دھوپ اور بہت باتیں ان کی ہنسی کا سرمایہ ہیں۔ صرف دوسروں کی ہنسی کی وجہ سے اپنے شعائر دینی اور رسوم مذہبی کا ترک کرنا دوسروں کی خاطر ناک کٹانا ہے۔ دوسروں کو ہنسنے دو۔ اپنا کام کئے جاؤ۔ اسی میں کامیابی ہے۔
مراسم
کوئی شک نہیں کہ شادی بیاہ پیدائش اور وفات اور زندگی کی ہزاروں رسمیں جو رائج ہو گئی ہیں۔ ان کی کوئی اصلیت و حقیقت نہیں ہے۔ وہ ہماری زندگی کو تباہ کرنے کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ پرانے زمانہ میں جب دولت افراط سے تھی اس وقت یہ رسمیں بھی کھلتی نہ تھیں۔ بیکار کی دولت لٹانے کا ایک اچھا ذریعہ تھا۔
اب جبکہ پیسہ پاس نہیں، فاقوں مر رہے ہیں تو ان رواسم کی بہتات، مرے پر سو درے والی بات ہے۔ ان مراسم کو یک قلم ترک ہونا چاہئے۔
”اصلاح المراسم“ اس سلسلہ میں اچھی کتاب ہے اس میں ان تمام رسموں کی حقیقت اور ان کی نوعیت پر کافی تبصرہ کیا ہے۔
تتمہ
مذکورہ بیانات کو جو ”مذہب اور عقل“ کے تحت میں آپ کے سامنے پیش کئے گئے ہیں سامنے رکھئے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ عقل کو مذہب سے الگ کرنا صریحی غلطی ہے۔ سچے مذہب کے طریقہ پر چلنے والے ہی عقل کے راستے پر گامزن ہوں گے۔ وہ آزاد خیال افراد جن کو دہریہ یا لامذہب یا نیچری کہا جاتا ہے عقل کے نام پر وہم کے شکنجہ میں اسیر ہیں ایسا نہ ہوتا تو مشاہدات کے آگے حقیقتوں کو قبول کرنے سے انکار نہ کرتے حالانکہ عقل کا کام ہی آنکھ سے اوجھل چیزوں کا سمجھنا اور ان پر حکم لگانا ہے۔
مذہبی حضرات جو شریعت کے پابند قرآن کے زیرفرمان ہیں وہ بھی عقل کے فیصلہ کی بناء پر ہیں۔ حکایتوں پر بھی ایمان لاتے ہیں تو عقل کی رائے اور اشارہ سے۔ بعید از مشاہدہ واقعات کو بھی باور کرتے ہیں تو عقل کے سمجھانے سے۔
انہوں نے عقل کے صاف اور شفاف آئینہ میں حقیقتوں کا جلوہ پہلے ہی سے دیکھ لیا ہے۔ اچھے برے کی تمیز کر لی ہے۔ میلااور داغدار آئینہ نگاہ کو ملگجا اور حقیقت کو داغدار بناتا ہے۔ اسی لئے جھائیاں دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر اجمالی تبصرہ دھندلی نگاہوں کے لئے ناکافی ثابت ہو سکتا تھا اس لئے تفصیلی تبصرہ کی ضرورت محسوس کی گئی۔
اب یہ آپ کے سامنے ہے۔ سب ”مسئلہ“ ”مسائل“ جو اس ذیل میں پیش ہوں۔ ان کا اسی میں جواب ہے۔ پھر بھی آسانی کے لئے خلاصہ اور اصل کتاب کا حوالہ ذیل میں درج ہے۔
| |