|
قربانی
ابراہیم(ع) پیغمبر نے اپنے ہاتھ سے بیٹے کے ذبح کا حکم خدا کے موافق تہیا کر لیا تھا بڑے استقلال اور ثبات قدم سے اپنے ارادہ پر آخر تک قائم رہے۔
سب سامان ہو گیا تھا۔ بالکل عین وقت پر حکم تبدیل ہوا۔ بیٹے کو ہٹا کر بھیڑا ذبح کر دیا گیا۔ اس قربانی کے ارادہ کی یادگار ہے جو مسلمان بقرعید کے دن قرباتی کرتے ہیں۔ اس سے غریبوں کا پیٹ بھی بھرتا ہے اور جذبہٴ ایثار و قربانی بھی پیدا ہوتا ہے۔
کعبہ شروع شروع خدائے واحد کی عبادت کا خالص گھر تھا۔ بعد میں مشرکوں نے بت خانہ بنایا۔ آنحضرت نے اس کی پہلی حالت کو پلٹایا اور خدائے لامکن کا عبادت خانہ بنایا۔ کوئی مسلمان اینٹ چونے پتھر کو نہیں پوجتا یہ تو عبادت کی جگہ ہے۔ عبادت ہوتی ہے خدائے واحد کی جو لاشریک ہے۔ قدرت تو کسی چیز کی احتیاج نہیں۔ نہ حیوان کے جان و خون کی، نہ ہماری اٹھا بیٹھی اور رکوع و سجدہ کی جس کا نام ہے نماز۔ یہ سب احکام ہمارے نفس کی پاکیزگی۔ ہماری ریاضت، ہم میں فرض شناسی کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے ہیں۔
وہ مقصد جس طرح نماز سے پورا ہوتا ہے۔ روزہ سے پورا ہوتا ہے اسی طرح قربانی سے پورا ہتا ہے۔
مگر مذہب اور احکام شریعت پر اعتراض کرنا اس زمانہ کا فیشن ہے۔ نکتہ چینی اور جدت طرازی کا موسم ہے۔ سمجھنے غور کرنے سے مطلب نہیں، وہی آوازیں سنائی دیں گی جو برسات کی موسمی ہوا کا تقاضا ہے۔
وحشی پرندوں کا صدقہ جس صورت سے عام طور پر ہوتا ہے بے شک ایک بے اصل و حقیقت رسم ہے۔ جو اڑا دیئے جانے کے قابل ہے۔
بے آزار چرندوں پرندوں پر بلاضرورت نشانہ آزمائی قابل اعتراض طرز عمل ہے۔ ترک کئے جانے کا مستحق ہے۔
حرام حلال
فروعی احکام ہیں جن میں زمانہ کے حالات کے لحاظ سے محدود شریعتوں میں تبدیلی ہوتی رہی ہے لیکن جس طرح ہر نصاب کے لئے ایک آخری درجہ ہوتا ہے جس کے لئے تعلیمات نسبتہً مکمل اور جامع ہوتے ہیں اسی طرح خدائے واحد کی طرف کے قانون شریعت کا آخری نصاب جو خاتم المرسلین کے ذریعہ سے پہنچایا گیا۔ ایسا جامع اور مکمل اور معتدل اور ہمہ گیر نصاب ہے جس میں کلی تبدیلی کی ضرورت نہیں اور جزئی تبدیلیاں جو ضروری بھی ہوں وہ اس کے وسیع کلیات کے ماتحت ہوں گی اس لئے بحیثیت مجموعی اس میں تبدیلی کی گنجائش نہیں سمجھنا چاہئے۔ رواج جو اس قانون کے موافق ہو وہ حق بجانب ہے جواس کے خلاف ہے وہ رواج ناجائز ہے۔
حرامی کو خطاکار کون کہتا ہے؟ یہ اور بات ہے کہ اس کا حرامی پن رنگ لائے اور وہ کام ہی ایسے کرے جو خطاکاروں کے ہوتے ہیں تو اسے ویسی ہی پاداش بھی دی جائے گی۔
عقد و مہر
قانون شرع کی پابندی میں عورت اور مرد کے درمیان مضبوطی کے لئے جو عہد باندھا جاتا ہے ا س کو عقد کہتے ہیں مہر اس کا معاوضہ ہے۔
اسلام فطرت کے تقاضوں کو اعتدال میں رکھنے کا ذمہ دار ہے اس لئے اس نے قواعد مقرر کئے پابندیاں لگائیں پھر بھی اعتدال کی شرط کے ساتھ تعدد ازدواج کی اجازت دی۔
فطرت کے جوش و جذبات کو روکا اس حد تک کہ فرض شناسی کا احساس قائم رہے مذہب ہے لیکن اس سے زیادہ بیکار کا دباؤ ہے۔ اسلام کے وقت جس حد تک تعداد بڑھانے کی ضرورت تھی اسی قدر جنگ جوئی کے لئے نہ سہی۔ اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے اب بھی ضرورت ہے۔ ویسا ہی زمانہ اور ویسا ہی عہد ہے۔ پھر اصلاح کا کون سا موقع ہے۔
مہر کا زیادہ رکھنا اس زمانہ کی یادگار ہے جب دولت گھر کی لونڈی تھی۔ اور روپے ٹھیکروں کی طرح پیروں کے نیچے ٹھوکریں کھاتے تھے اس وقت وہی لاکھوں کے مہر کی حیثیت کے موافق تھے۔
اب وقت بدل گیا۔ زمانہ دوسرا ہو گیا۔ اب مہر کا اتنا باندھنا بیکار کی اپچ ہے۔ عقل کے خلاف ہے۔
مہر کی کمی میں ہم چشموں میں خفت کا خیال کیسا۔ کون سی حیثیت اپنی پہلے کی سی ہے جو مہر پہلے کا سا بندھے۔ سواری کا تزک و احتشام پہلے کا سا نہیں۔ دروازہ کی چہل پہل اور رونق پہلے کی سی نہیں۔ محل کی شان و شوکت پہلے کی سی نہیں، نوکروں چاکروں کی کثرت پہلے کی سی نہیں۔ دسترخونوں پر کھانوں کی فراوانی پہلے کی سی نہیں، مہمانوں کی میزبانی پہلے کی سی نہیں، جسم پر لباس پہلے کا سا نہیں، گھر کا اثاثہ پہلے کا سا نہیں۔ اس سبب میں جب خفت نہیں تو پھر مہر پہلے کا سا نہ ہو گا تو کیا خفت ہو جائے گی۔
بہترین صلاح یہی ہے کہ اس خفت کا خیال بالکل چھوڑو۔ بہتر تو ہے کہ مہر فاطمی باندھو اور زیادہ بھی اتنا جو دولہا کی حیثیت کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ تم مقرر کر سکو۔ مگر اتنا نہیں جس کی اون اس کے وہم و خیال میں بھی نہ آ سکے۔
اگر اس خلاف عقل طرز عمل سے مہر اور اس کے عقد کی رسم کو بالکل ڈھکوسلا سمجھا اور حقیقت خیال نہ کیا تو یاد رکھو کہ عقد تشریف لے گیا اور حلال کے پردے میں عمربھر حرام ہوتا رہے گا جس کی ذمہ داری اس غلط طرز عمل پر ہو گی۔
کثرت ازدواج
شرع نے مجبور نہیں کیا ہے۔ کوئی ضرورت نہ ہو اور خرابیاں دیکھو تو ہرگز ایسا نہ کرو۔ کرو تو بہت سمجھ بوجھ کر کرو۔
حق تلفیاں اور خون ریزیاں ناحق شناس طبیعتوں کا خاصہ ہیں۔ خود اسلام میں کثرت ازدواج کے ساتھ سوتیلے بھائیوں کے خوشگوار تعلقات کی بھی نظیریں موجود ہیں۔ ایسے بھائی جو یک جان و دو قالب ہوں۔ حسین(ع) اور عباس کو دیکھ لو پھر ایک کے مرنے کے بعد دوسری سے نکاح کے تم بھی منکر نہیں مگر پہلی کی اولاد سے دوسری کو اور اس کے خاندان والوں کو سوتیلے پن کی جلن وہاں بھی ہوتی ہے اسلام کی ابتدا سے حق تلفیاں، حق ناحق کی خونریزیاں، گھروں میں جھگڑے اور گھرانو ں میں لڑائیاں بہت سی اسی کے ماتحت تھیں پھر اس کو کثرت ازدواج کے سر کیوں عائد کرو۔
پردہ
کہا جاتا ہے کہ پردہ اٹھ رہا ہے اور دعوے ہیں کہ اٹھ کر رہے گا۔ مگر ہمارا اندازہ ہے کہ جو رفتار پردہ کے اٹھنے کی دس برس پہلے تک تھی اس میں اب سستی پیدا ہو گئی ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ استادوں نے خود اپنی غلطی محسوس کر لی ہے۔ ہندوستان نے قدم آگے اس وقت بڑھائے جب یورپ قدم پیچھے ہٹاتا یا ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ عورتوں کی حد سے بڑھی ہوئی آزادی پر پابندیاں عائد ہونے لگی ہیں۔
ہندوستان میں خراب نتائج بہت جلدی ایسے ظاہر ہوء ےکہ دیکھنے والے دہل کئے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ وبا زیادہ نہیں پھیےل گی اور جتنی پھیل گئی ہے اس کی بھی رفتہ رفتہ اصلاح ہو جائے گی۔
بے شک ممکن ہے کہ ہندوستان کے خاص حصوں کی، شرفاء کے گھروں کی پابندیاں اور پردہ کی مروجہ صورت زیادہ تر قائم نہ رہے۔ بہت سے گھرانوں میں عراق اور ایران کا سا چادر اوربرقعہ کا رواج ہ جائے۔ وہ بھی غنیمت ہے اگرچہ ہندوستان کے حالات ویسے ہی پردہ کے متقاضی ہیں جیسا شرفاء کے یہاں کا عام دستور ہے۔
| |