مذھب و عقل
 

امامت
بارھویں امام(ع) کی حیات کے لئے عقلی دلائل کی تلاش ہے، عقل بتلاتی ہے کہ خدا کا وعدہ غلط نہیں ہو سکتا۔ رسول کی پیشین گوئی جھوٹ نہیں ہو سکتی۔ قطعی دلائل سے ثابت ہو جانے والے پیشوایاں اور ائمہ معصومین(ع) کی بات مہمل نہیں ہو سکتی۔
زندگی اور موت دونوں ممکن الوقوع باتیں ہیں۔ ہر ممکن کے ثبوت یا نفی کی تعین ذرائع اطلاع سے ہوتی ہے۔ بارھویں امام کی زندگی کے لئے خبریں موجود ہیں۔ موت کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس لئے عقل کا فیصلہ ثبوت کے حق میں ہے۔
یاد رہے کہ امکانی حوادث میں عقلی دلائل صرف امکان سے متعلق ہو سکتے ہیں وقوع سے نہیں۔ روزمرہ کے ہونے والے حوادث میں بھی دلیل عقلی سے وقوع کا کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ مثلاً زید کی عمر ساٹھ برس ہونا کس عقلی دلیل سے ثابت ہے؟ اس کے باپ کی عمر پچاس سال ہونا۔ اس کے دادا کی عمر پینسٹھ سال ہونا۔ اس کے کسی بھائی کا صرف بیس برس کی عمر مں انتقال ہو جانا۔ اس کے کسی فرزند کا تین ہی برس کی عمر میں باپ کو داغ جدائی دے دینا۔ اس کے ایک بچہ کا شیرخوارگی ہی کے عالم میں رخصت ہو جانا وغیرہ ان تمام واقعات کو اور اس افتراق حالات کو اگر عقلی معیار سے جانچنے کی کوشش کی جائے تو دلائل ساتھ چھوڑ دیں گے، حجت و برہان جواب دے دیں گے اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔ جب ان حوادث روزگار میں کسی ایک کے عقلی ثبوت کا مطالبہ کیا جائے تو اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی بات بھی غیرممکن اور محال نہیں ہے پھر جب معتبر اشخاص نے اس کے وقوع کو بیان کیا اور متعلقہ افراد نے جو واقف ہو سکتے تھے خبر دی ہے تو یہی ذریعہ اس کے وقوع کے تسلیم کرنے کا ہے۔
عمر کے متعلق جہاں تک غور کیا گیا عقلائے عالم، حکمائے زمانہ، اطبائے دہر شروع سے اب تک اس کا کوئی معیار ہی نہیں مقرر کر سکے ہیں کہ کس بناء پر کس کی عمر زیادہ اور کس کی کمی ہوئی ہے اور یہ کہ واقعی اس کی ایک منضبط حد کیا ہے پھر جب عقلی حیثیت سے اس کا کوئی معیار ہی نہیں مقرر ہو سکا تو اس میں حدبندی کا حق کیا ہے کہ اتنی عمر تو ہو سکتی ہے مگر اس سے زیادہ نہیں۔ رہ گیا مشاہدہ تو حوادث کائنات میں ہر زمانہ میں ایسی صورتیں ظاہر ہوتی رہتی ہیں جن کے مثل مشاہدہ اس کے قبل نہ ہوا تھا حالانکہ اگر صرف مشاہدہ کی بناء پر ہم کوئی مقدار مقرر کریں تو جو بھی زیادہ سے زیادہ مقدار مقرر کریں گے اس میں کوئی ایک فرو غیرمعمولی ضرور ہو گی۔
کوئی کتنا ہی جئے، چاہے ہزاروں برس کی عمر ہو پھر بھی آخر میں تو یہ زندگی ختم ہونا ہے۔ قرآن ٹھیک کہہ رہا ہے کہ کسی بشر کو سدا کی زندگی نہیں دی گئی۔ سدا یعنی ہمیشہ کی زندگی کسی کو بھی نہیں۔

تاریخی مشاہدے:
دو ہزار برس یا اس کے پہلے سے تاریخی دور ہے۔ اس مدت میں بہت سوں کے متعلق تاریخ غیرمعمولی طور پر طولانی عمر کا پتہ دیتی ہے۔

نام شخص عمر نام شخص عمر
شریح قاضی ۱۲۱ سال عمرو بن المسیح ۱۵۰ سال
ارطاة بن سہیہ ۱۳۰ قروة بن نفاثہ سلولی ۱۵۰
فرزدق شاعر ۱۳۰ معاذ بن مسلم ہراء ۱۵۰
منقذ بن عمرو ۱۳۰ ابورہم بن مطعم ۱۵۰
ابو عثمان الہندی ۱۳۰ بحر بن حارث کلبی ۱۶۰
جبیر بن اسود ۱۳۴ بشر بن معاذ توزی ۱۶۰
لبید بن ربیعہ ۱۴۰ میمون بن حریز ۱۷۵
طفیل بن زید حارثی ۱۴۰ صبیرہ بن سعد ۱۸۰
طفیل بن یزید مازنی ۱۴۰ نابغہ جعدی ۱۸۰
قیس بن سائب ۱۴۰ اوس بن حارثہ بن لام طلائی ۲۰۰
جابر بن عبداللہ عقیلی ۱۵۰ حتطلہ بن شرتی ۲۰۰
زربن حبیش ۲۱۲ اماناة بن قیس بن شیباں ۳۲۰
عبید بن شریہ ۲۴۰ جہمتہ بن عوف ۳۶۰
سلمان فارسی ۲۵۰ شیخ یمن ۳۹۰
حظر بن مالک ۲۸۰ جبیر بن حارث ۵۷۰
عمرو بن صممہ ۳۰۰ زریب بن ثرملا ۱۹۰۰

یہ چند واقعات ہیں جو سردست عرب کی تاریخ سے پیش نظر ہیں۔ ہندوستان کی قدیم تاریخ اور ایران کے سلاطین کی تاریخ میں ایک ایک کی عمر سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال تک کی مندرج ملتی ہے۔
اب کوئی ان سب کا انکار کرے اور پھر کہے کہ ”بتائیے تاریخ میں کس کو زندگی کے لئے یہ دن نصیب ہوئے ہیں۔“ تو اس کا کیا علاج ہے۔
فطرت کا کوئی آئین ایسا منضبط نہیں دکھلایا جا سکتا جس کی بناء پر عمر کے لئے خاص مدت ثابت ہو۔
یہ کہنا کہ قدرت کا قانون ہے کہ بچہ جوان ہو کر بوڑھا ہو جاتا ہے کیا مشاہدہ کے سوا کسی عقلی استدلال پر مبنی ہے؟ پھر مشاہدہ کا حال تو اس کے پہلے معلوم ہو چکا ہے۔
”جوان ہو کر بوڑھا ہوتا ہے“ مگر جوانی کتنے دن تک قائم رہ سکتی ہے اس کا کوئی کلیہ اور اصول نہیں۔
فطرت کے آئین ہیں کہ بڑھاپے میں اعضاء روزبروز مضمحل ہوتے ہوتے روح فراہم کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ مگر بڑھاپا کب آ جائے گا۔ یہ عمر کے لحاظ سے مختلف ہے، پھر جب کہ عمر کی کوئی میعاد نہیں تو بڑھاپے کی حد کون مقرر کر سکتا ہے۔
فطرت کا آئین جو واقعات کی بناء پر ثابت ہے اس آئین کا انضباط خود سنے ہوئے غیرمعمولی واقعات کی تصدیق اور تکذیب پر ہے یعنی اگر ان واقعات کو تسلیم کر لیا جائے تو حدود آئین اتنے وسیع ہو جائیں گے اور تکذیب کی جائے تو حدود آئین مختصر۔
اس صورت میں خود آئین اس واقعہ کی تصدیق یا تکذیب کا معیار کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے۔
قدرت کے قاعدوں کی کوئی لفظی کتاب ہرگز نہیں ہے۔ اگر ہے تو واقعاتی کتب جس کے سطور حوادث کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ اگر کوئی واقعہ غیرمعمولی صورت پر ہوا ہے تو وہ بھی اس کتاب کا ایک جزو ہے۔ اس کا انکار کر دینا اس کتاب کی ایک سطر کو چھیل دینا یا محو کر دینا ہے۔
ذاتی تجربے؟ اللہ اللہ کہاں عالم کی وسیع اور لامحدود کائنات اور کہاں انسان کا محدود تجربہ۔ اگر انسان کے محدود تجربہ ہی میں ”قضا کی فضا“ کو محدود کر دیا جائے تو گولر کے بھنگے کی دنیا بے شک گولر کی اندرونی محدود فضا ہی ہے۔
انسان اشرف المخلوقات، صرف اس لئے ہے کہ وہ اپنی جہالت کا احساس کرتا ہوا اآگے بڑھتا رہتا ہے اور اگر کہیں وہ اپنے کو جہانیاں جہاں گشت محقق ماضی و حال، مستقبل اندیش، نکتہ رس، حقیقت آشنا سمجھ کر طلب سے قدم روک بیٹھا اور کائنات کو اپنے محدود تجربوں اور مشاہدوں کا پابند سمجھنے لگا تو وہ ہرگز گولر کے بھنگے اور کنوئیں کے مینڈک یا فضا کے بلند پرواز تیزنظر گدھ سے زیادہ نہیں ہو گا۔ بے شک عقیدہ عقل کے مطابق ہے اور عقل بتلاتی ہے کہ خالق قویٰ جس کسی کی قوت کو چاہے جتنی مدت تک برقرار رکھے۔ اس میں ہمارا اور کسی کا اختیار نہیں ہے۔ جن چیزوں کو ضروریات زندگی سمجھا جاتا ہے۔ اول تو عقلی حیثیت سے ضروریات زندگی نہیں بلکہ اس دنیا کی کثیف و ثقیل غذاؤں کے پیداکردہ ضروریات ہیں۔ دوسرے یہ کہ ضروریات زندگی پورا کرنے کے لئے کسی خاص عمر کی حد نہیں مقرر ہے۔ وہ قوائے طبعی کے سلامت رہنے کے ساتھ بہرحال پورے ہو سکتے ہیں۔
گمراہی کا دور انبیاء و مرسلین(ع) کی موجودگی میں بھی رہا۔ ائمہ کے زمانہ میں بھی رہا۔ اب بھی ہے۔ ہدایت پانے والے جب بھی ہدایت پاتے تھے اب بھی ہدایت پاتے ہیں۔ امامت گیارہ اماموں کی، زمانہ والوں کی مخالفانہ سرگرمیوں کے باعث پوشیدہ رہی مگر وہ بزرگوار برابر کسی نہ کسی پردہ میں ہدایت کے فرائض انجام دیتے رہے اسی طرح بارھویں امام بھی اپنا فرض انجام دیتے رہے ہیں جو حاصل ان امامتوں کا تھا وہی اس امامت کا بھی ہے اور یہی عدل الٰہی کا تقاضا ہے۔