مذھب و عقل
 

جزا، سزا، قیامت
انسان جو کچھ سوچتا یا کرتا ہے ان میں اچھی باتیں بھی ہوتی ہیں بری بھی اچھی باتوں کا بدلا جزا۔ برے کاموں کا بھگتان سزا اور وہ موقع جب سب کو ان کے کئے کی آخری جزا یا سزا ملے اس کا نام قیامت ہے۔
دل میں خواہش، دماغ میں عقل قدرت کی جانب سے ودیعت ہے۔ دماغ دل کا مشیر قانونی ہے۔ دل مچلا عقل نے اچھا برا سمجھا دیا۔ مگر عقل کی آوا ز اسی کو سنائی دیتی ہے جس کا ضمیر مردہ نہ ہوا ہو۔ عادی مجرم جن کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے عیب کو ہنر سمجھ کر کرتے ہیں۔ یہ سمجھنا ان کا اپنے عمل کا نتیجہ ہے اس لئے وہ اس میں الزام سے بچ نہیں سکتے۔ مگر سوال یہ ہے کہ احساس گناہ کا نتیجہ جو روحانی تکلیف ہو سکتی ہے وہ تو ان کو نہیں ہوتی۔
اگر دل کے دھڑکے، ضمیر کے اضطراب، نتیجہ کی دہشت ہی سزائے جرم قرار دی جائے تو نتیجہ یہ ہے کہ ابتدائی مجرم نوسکھیے گناہگار کی سزا سخت اور عادی مجرموں کی سزا اس سے کم اور ایک وقت میں بالکل مفقود ہو جائے۔
بھلا یہ اصول کس انصاف کے قانون پر ٹھیک ہو گا کہ جتنا جرم کا ارتکاب ہوتا جائے سزا ختم ہوتی جائے اور جو گناہ میں بالکل منج جائے اس کے سزا بالکل رخصت ہو جائے۔
زبردست کمزور کا گلا کاٹتا، اس کے مال اسباب جائداد پر قبضہ کرتا اور خوش ہوتا ہے۔
وکیل جھوٹا مقدمہ بنا کر عدالت سے ڈگری حاصل کرتا ہے۔ اور ناز کرتا ہے۔
گواہ جھوٹی گواہی دے کر حقدار کا حق مارتا اور جرح میں نہ ٹوٹنے پر بغلیں بجاتا ہے۔
ڈاکو، چور، اٹھائی گیرے کمزور حکومتوں کے دور میں خوب مزے اڑاتے ہیں اور پھر بھی بال بیکا نہیں ہوتا۔
مہاجن ہزاروں غریبوں کے گھر برباد کرکے اپنی دولت میں اضافہ کرتا ہے اور مونچھوں پر تاؤ دیتا ہے۔ آئین و قانون کی آڑ میں حکام کی طرف سے سینکڑوں مظلوموں کے گلے کٹتے ہیں اور وہ مطمئن ہیں اس لئے کہ قانون خود ان ہی کے ہاتھ کا کھیل ہے۔
بتائیے ان تمام جرائم کی پاداش میں کون سا دل کا دھڑکا، ضمیر کا اضطراب، نتیجہ کی دہشت، صحت کی خرابی، انجام کی دھمکی حشر برپا کر دیتی ہے۔ کون سی عدالت کی زحمتیں اور قانونی سزائیں قیامت ڈھاتی ہیں۔
رہ گئی بدنامی و رسوائی یعنی آدمیوں کا برا کہنا تو اس سے تو اچھے آدمی بچتے ہیں نہ برے۔ اچھے آدمیوں کو یہ تکلیف بروں سے زیادہ برداشت کرنا پڑتی ہے اور ان کی روح کو ایذا بھی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ ان پر عائدکردہ الزامات حقیقت سے دور ہوتے ہیں۔
تو بتائیے ان کے لئے یہ اچھے کاموں کی جزا ہے یا سزا، بے شک بہت سے جرائم کے برے نتائج خود ان ہی جرائم کے بعد ظاہر ہو جاتے ہیں مگر جزا و سزا کو ان وقتی نتائج میں محدود بناؤ گے تو بہت سے اچھے کام تمہیں مورد سزا نظر آئیں گے اور بہت سے برے کاموں پر تمہیں جزا کا قائل ہونا پڑے گا اگر انصاف اور عدالت کی دنیا میں اچھے برے میں حد فاصل کا برقرار رہنا ضروری ہے تو ان وقتی اور عارضی نتائج کے آگے تم کو ایک مستقل اور مختتم جزا و سزا کا ماننا ضروری ہے۔ وہی قیامت ہے۔ جو اس کے حقیقی معتقد ہیں وہ ہرگز گناہوں کے ارتکاب کی جسارت نہیں رکھتے۔ جو اندیشہٴ معاد سے آزاد ہیں انہیں جرائم سے با زرکھنے کے لئے صرف قانونی تحفظ کا سامان کافی ہے اس لئے وہ جرائم سے متنفر نہیں ہوتے بلکہ صرف اپنے بچاؤ کے خواہاں ہی رہتے ہیں۔