|
روح
حیوان کی جان کو روح کہتے ہیں مگر وہ ہے کیا؟ اس کی حقیقت لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے اس لئے جاننا چاہئے کہ امر رب ہے۔
انسانی روح اس کے ساتھ بہت سے خصائص ادراک کی حامل ہے اور جسمانی خواص سے الگ ہے اس لئے اس کے ماننے میں کیا عذر ہے کہ وہ وجود جسم سے ماقبل ہے اور مرنے کے بعد بھی ناپید نہیں ہوتی۔ جب کہ اس کے خواس جسم سے الگ ہیں جسم کی ناتوانی کے باوجود وہ توانا اور جسم کی توانائی کے باوجود وہ ناتوان ہوتی ہے۔ جسم کے مرض کی حالت میں وہ صحیح اور جسم کی صحت کی حالت میں وہ اکثر مریض ہوتی ہے۔ پھر اگر جسم کی فنا کے ساتھ وہ باقی رہے تو اس میں عقل کو کیا گنجائش انکار ہے۔ فضا میں اس کی سیرکرنا۔ جسم سے پھر ملحق ہونا۔ وادی السلام یا وادی برہوت میں قیام ہونا، یہ باتیں مذہبی روایات میں وارد ہیں۔ جو کسی عقلی اصول کے خلاف نہیں ہیں۔ لیکن دوسرے جسموں میں حلول کرنا، سر پر آنا، شیطان بننا، ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوا کرنا۔
بھوت پریت، برم راکس، اگیابیتال، شہید مرد، نٹ بن جانا، درختوں میں عمارتوں میں ٹھکانا بنا لینا۔ بازاری باتیں ہیں جن کی مذہب پر ذمہ داری نہیں۔ شریر آدمی اس دنیا میں ہیں شیطان ہیں۔ بعد مردن ان کے شیطان بننے کی کوئی اصلیت نہیں دوسرے جسموں میں حلول کرنا آریوں کا آواگون ہے اس کو مذہب اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔
اسباب و سامان خانہ داری سے مستفید ہونے کے معنی صرف اتنے صحیح ہیں کہ اگر کسی غریب کو اس کے ذریعہ سے امداد پہنچائی گئی تو اس کا نیک صلہ قدرت کی طرف سے دینے والے کی نیت کے لحاظ سے میت کی روح کو حاصل ہو سکتا ہے جو اخروی نعمتوں کے لباس میں ہو گا۔
ایسا ہرگز نہیں کہ یہ دینوی سازوسامان بجنسہٖ روح کے کام آئے۔ اور اس سے وہ فائدہ اٹھائے۔
قوت جاذبہ و نامیہ کو روح کہنا غلط ہے اس لئے کہ یہ توپھول پتی گھانس اور درخت میں بھی موجود ہے۔ مگر روح اس میں نہیں مانی جاتی وہ حیوان سے مخصوص ہے۔ اور انسانی روح وہ اس سے خاص ہے۔
ہوا کی ضرورت نباتات کے لئے بھی ویسی ہی ہے جیسے حیوان کے لئے پھر اس کی جان کو روح کیوں نہیں کہتے۔
پرانے زمانہ کے ریاضت کرنے والے سادھوں برسوں تک سانس روکے رکھنے کی مشق کرتے تھے۔ اس عرصہ میں خارجی ہوا ان کے جسم میں اعضاء کے ذریعہ سے نہیں پہنچتی تھی پھر بھی اس عالم میں روح ان کے جسم میں موجود تھی۔
پھر جب وہ چاہتے ہیں تو برسوں کے بعد سانس لے لیتے ہیں ہوا کی آمد نہیں تھی پھر بھی روح موجود تھی اگر روح نہ رہتی تو ہمیشہ کے لئے مر جاتے پھر سانس کیسے لیتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ روح کوئی اور چیز ہے۔
پھیپھڑوں کی کشش، دل کی حرکت سے ہوا کی آمد ورفت کے ذریعہ فضا کے حیات بخش اجزاء کا پہنچنا، اور برے اور مضر اجزاء کا نکال پھینکنا، خون کا دوران، عناصر کا اعتدال اور امتزاج، اجزاء کی ترکیب اور ترتیب، اندرونی اعضا کا عمل یہ سب روح کے آثار و لوازم ہیں۔ روح کے نکلنے سے یہ تمام مشینری بے کار اور معطل ہو جاتی ہے روز ہزار پرزے بگڑیں جب تک روح ہے اسی وقت تک زندگی قائم رہتی ہے اور نفس کی آمدوشد برقرار رہتی ہے۔
قدرت نے عالم کا نظام اسباب پر قرار دیا ہے مگر اپنے سے علاقہ قطع نہیں کیا ہے وہ جب چاہتا ہے اسباب کا نظام بدل دیتا ہے۔ اور نتائج میں تبدیلی کر دیتا ہے۔ اس لئے ہر شے جو فنا ہوتی ہے کسی سبب سے فنا ہوئی مگر پھر خدا کی مشیت کے ماتحت۔ بے شک خصوصی حیثیت سے مشیت کا عمل اس وقت نمایاں ہے جب نظام اسباب کی رفتار کو روکنا اور ان کے رویہ کا بدلنا ہو ورنہ جو عام نوعی نظام جاری کر دیا اسی کے مطابق ہو گا اور اس کے ہر ہر جزو میں خصوصی منشا او رمفاد کے ڈھونڈنے کی ضرورت نہ ہو گی۔ جبکہ بحیثیت مجموعی وہ پورا نظام ایک خاص حکمت اور مصلحت پر مبنی کیا گیا ہے۔
بڑے فائدے کے لئے چھوٹے نقصانات گوارا کئے جاتے ہیں اور میزان میں آ کر وہ نقصان نقصان نہیں رہتے بلکہ فائدہ بن جاتے ہیں۔ یہی حالت نظام کائنات کی ہے۔
خالق کا کام بے شک بنانا ہے۔ اور بگاڑنا بھی اس کا حقیقت میں بنانا ہی ہوتا ہے۔ کوتاہ نظر انسان اسے بگاڑنا سمجھتا ہے پھر بننے بگڑنے میں خود اسی نے اسباب کا عمل دخل رکھا ہے اسی لئے بیماری میں علاج سے عناصر، اعضا، اعصاب کا امتزاج درست کیا جاتا ہے اور یہ قدرت کے خلاف مقابلہ نہیں قرار پاتا، نہ حفظان صحت کے کالجوں میں اس کے مقابلہ کو امدادی افواج کی تیاریاں ہیں بلکہ یہ سب بھی قدرت کے منشاء پر عملدرآمد ہے۔
اس نے ان اسباب کو مقرر کیا ہے اور اس نے ان میں اثر دیا، بے شک وہی کبھی اس اثر کو سلب بھی کر لیتا ہے۔ مگر ہمیں تو عام قانون پر عمل چاہئے اور کامیابی کے لئے پھر بھی قدرت سے لو لگانا چاہئے کہ اسی کی یہ سب فوج ہے اور اسی سے ان افواج کی کامیابی کی ڈھارس ہے۔
عقائد و مراسم
جو باتیں مدت سے چلی آئی ہیں، انہی کے مطابق عملدرآمد کو رواج کہتے ہیں۔ عقیدہ کو رواج پر ہرگز مبنی نہیں ہونا چاہئے بلکہ عقل اور استدلال پر مبنی ہونا چاہئے۔ بے شک مراسم رواج سے متعلق ہوتے ہیں۔ وہ اگر خلق خدا کے لئے فائدہ رسان ہیں اور ان کی کوئی عقلی بنیاد ہے تو انہیں باقی رہنا چاہئے ورنہ ختم ہونا چاہئے۔
مراسم اکثر بڑھ کر موروثی خلل دماغ ہو گئے ہیں یہ یقیناً اصلاح طلب ہیں۔
قدرت نے ہم کو لامحدود عقل اور گویائی دے کر انسان بنا دیا۔ دماغ دیا ہے کہ سوچ کر سمجھئے، نطق دیا ہے کہ پوچھ کر سمجھئے، آنکھیں دی ہیں کہ پرانے قضیے، گزرے افسانے، قدیم مقولے، موجودہ فضا کو دیکھ بھال کر سمجھئے، سمجھ کی اصلاح یا صحیح اندازے کے لئے عقل عنایت کی ہے۔
بہترین انسان وہی ہے جو قدرت کی دی ہوئی نعمتوں کو اچھی صورت سے صرف میں لائے۔ کسی بات کا بلادلیل اقرار نہ کرے۔ کسی بات کا بلادلیل انکار نہ کرے جبکہ یہ صحیح ہے کہ فطرت کے آئین میں قوت، خواہش، قد، نیند، عمر، وغیرہ کی کوئی حد مقرر نہیں تو پھر کمی یا زیادتی کے درجہ پر ناک بھوں چڑھانا عقل کے اصول پر صحیح نہیں ہے۔ عام و خاص کے اعتدال اور کم و بیش کے اوسط پر دل کی تسلی ہو جائے تو ہو جائے۔ دماغ کوسکون نہیں ہو سکتا جب کہ انہی اوسط حدود میں آخری نقطہ معمول سے باہر ہی ہو گا۔ تو پھر اس آخر پر بھی اضافہ کا امکان کیوں نہ ہو۔
قوت! کوئی شخص دو چار چھ من کا وزن اٹھا لے، اور رام مورتی صاحب بقول شخص ترکیب سے ۳۸ من پتھر کا سینہ پر توڑ ڈالیں تو آخر ۳۸ دوناچھہتر من کا وزن اٹھانا غیرممکن کیسے سمجھا جائے۔ دماغ یہاں خاموش اور عقل دم بخود رہے گی انکار کی جرات نہ کرے گی۔ واہمہ ہے جو مشاہدہ کے آگے ایک انچ قدم آگے بڑھانے میں تھراتا ہے۔ وہ تو رام مورتی صاحب کا قصہ بھی اگر پہلے پہل سنتا تو انکار پر تل جاتا اس لئے کہ اس کے سامنے وہ انوکھا تھا تو اس سے زیادہ طاقت کے مظاہرہ پر بھی وہ انکار کی جرات کرتا ہے۔ مگر عقل دوراندیش کہتی ہے کہ جب قوت کی کوئی حد نہیں مقرر تو اس سے زیادہ بھی قوت کا امکان ہے یوں ہی خواہش، قد اور نیند کو سمجھ لو، عمر کے لئے کسی نے کوئی میعاد مقرر نہیں کی۔ کوئی حد قرار نہیں دی۔ اب تم اصول فطرت کے مشاہدے تک مانتے ہو تو جو آخری مشاہدہ قراردو گے وہ عام نظام فطرت سے الگ ہی ہو گا۔
پھر جب عام نظام سے وہ الگ ہے اور مانا گیا اس لئے کہ مشاہدہ میں آ گیا تو اس سے زیادہ مقدار کے مشاہدہ کا اگر کوئی ادعا رکھتا ہو تو تم کس عقلی اصول کی بناء پر اس کا انکار کرو گے۔ اس کا باور نہ کرنے والا اپنے محدود مشاہدات کے حلقہ کا قیدی واہمہ ہے۔ اس کو عقل سے کوئی تعلق نہیں۔
عقل کو بیکار بدنام کرنا اپنی انسانیت کو دھبا لگانا ہے۔ عقل تو دلیل کی پابند ہے۔ وہ بلادلیل ہرگز کوئی مفروضہ قائم نہیں کرتی۔ نہ کسی بات کا انکار کرتی ہے۔ نہ وہ واقعات کو مشاہدات کا پابند سمجھتی ہے۔
نظام قدرت میں مداخلت اور آسمان پر دست درازی اگر اسی کے منشاء سے ہو جو اس نظام کا موجد اور آسمان کا بانی ہے تو ہمارا یا کسی کا اجارہ نہیں ہے۔ اس کی قدرت کو مان کر اس کی کارفرمائی کا انکار بالکل بعید از انسانیت ہے۔
| |