|
رسول
رسول بھی مذ ہبی وہی ہے جو کہ عقلی ہے۔ تفرقہ کرنا اپنی عقل کی کوتاہی ہے۔
نبی اور رسول اصطلاحی لفظیں۔ لغت کے اعتبار سے مجاز، اصطلاح کے لحاظ سے حقیقت ہیں۔
نبی کے معنی خبر دینے والا، یعنی ان حقیقتوں کا بتلانے والا جو عام نگاہوں سے اوجھل ہیں۔ پیشین گوئی اور غیب کی خبر دینی، اس کی حقیقت کاجزو نہیں ہے بلکہ نبی کی تصدیق کے لئے بطور اعجاز ایک خارجی صفت ہے۔ رسول کے معنی فرستادہ، خدا کا پیغام پہنچانے والے ہیں۔ مگر معنی کی حقیقت میں محل کے اختلاف سے تبدیلی ہوتی ہے۔ بھیجنے کا تعلق کسی مادی ہستی کے ساتھ ہو تو وہ بھیجنا بھی مادی ہو گا یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا لازم ہو گا لیکن جب غیرمادی ذات یا غیرمادی چیز کے ساتھ اس کا تعلق ہو تو بھیجنے والے کا مقام۔ قیام اور جسم کچھ بھی درکار نہیں۔ اس کے معنی ہیں صرف یہ کہ خدا کی مرضی اور حکم کی بناء پر کوئی اصلاح خلق اور دنیا کو سچائی کی تعلیمات پہنچانے کا ذمہ دار ہو۔
وہ ظاہر و باطن ہر طرح انسان ہوتے ہیں مگر عامہٴ بشر سے مافوق۔ مافوق البشر نہیں بلکہ بلند مرتبہ والے بشر۔ نور سے خلقت کا ہونا ایک مجازی تعبیر ہے صفائے نفس اور کمال عقل کی۔
فضائل اور مناقب کی حدیثیں جو محمد و آل محمد کے لئے وارد ہوئی ہیں انہیں رسالت و نبوت کے عمومی عقائد میں داخل کرنا ہرگز درست نہیں، نبیوں کی فہرست طولانی ہے۔ سب کے لئے کس نے کہا ہے اور کب کہ تمام مخلوق و ملائکہ سے پہلے خلق کئے گئے ہیں یا خدا نے اپنے ہی نور سے خلق فرمایا ہے۔ یاان ہی کی خاطر سب چیزوں کو خلق کیا ہے۔ یا یہاں سے سننے سمجھنے، دیکھنے رہنے آسمان پر جایا کرتے ہیں۔
خداوند عالم کی خصوصی تعلیم جو انبیاء تک پہنچتی ہے اسی کا نام وحی ہے۔ بیشک بعض انبیاء کو کتاب بھی عطا ہوئی۔
روحانی حیثیت کے سفیر کا پیام و سلام پہنچانا بھی عقل کے نزدیک لائق انکار نہیں ہے۔ کارخانہ قدرت کو بے شک بخوبی دیکھا بھالا، غور کیا اور سمجھا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو معرفت ان کی ناقص ہوتی۔ دوسروں کی تکمیل و تربیت کس طرح کرتے اکثر رموز الٰہی سے واقب بھی کئے جاتے ہیں مگر دونوں جہان کا مالک سوائے اللہ کے کوئی نہیں، سب طرح کی قوت سوائے اس کے کسی کو نہیں۔ وہ جتنے اختیارات جس کو دیدے۔ جتنی قوت جس کو عطا کر دے اتنی اس کو ہے۔ اسی قوت سے انبیاء کام لیتے ہیں۔ اس قوت کا درجہ بھی مصلحت اور ضرورت کے لحاظ سے خدائے تعالیٰ کی مرضی پر ہے۔ نظام عالم کبھی ٹوٹتا نہیں۔ مگر عام معمول اور ظاہری دستور کا انتظام کبھی کبھی ان کے ہاتھوں خدا توڑ بھی دیتا ہے۔ دنیا میں ہر زمانہ میں بہت سے واقعات عام دستور کے خلاف ہوتے رہتے ہیں اور نظام عادت اکثر ٹوٹتا رہتا ہے۔ مگر یہی خلاف دستور و عادت امر جب نبی کے دعوے کے مطابق، اس کے قول کے ثبوت میں ہو جاتا ہے تو معجزہ کہلاتا ہے۔ وفات پانے کے بعد مادی زندگی انبیاء کے لئے بھی ثابت نہیں، ہاں روح جتنی کامل ہو اس کے ادراکات اتنے قوی اور کامل ہوں گے۔ ان معنوں سے ان کو روحانی زندگی حاصل ہے۔ اور ان کا ذریعہ خدا کی بارگاہ میں کارآمد ہے۔
فطرت الٰہی سے نہیں بلکہ اکثر نقائص مادی سے اپنے عقلی و روحانی کمال کی بدولت بری ہیں۔ گناہوں سے بالکل معصوم، غلطی سے بے شک بری ہیں۔ نہیں تو ان کا قول و فعل تمام خلق کے لئے سند نہیں ہو سکتا۔
یہ ہیں انبیاء کے عمومی صفات، اس کے علاوہ بہت باتیں خاص خاص انبیاء کے مناقب کی ہیں۔ جو منقول طور پر بتائی گئی ہیں اور عقل ان کے انکار کا کوئی خاص سبب نہیں پاتی۔
سختی کے وقت ملائکہ کا مدد کو آنا۔ قیامت میں بخشوانا۔ شفیع روز محشر۔ خاتم المرسلین اور اشرف الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ کے خصوصی اوصاف و مناقب ہیں۔
محال (عقلی) کا ممکن بنانا ہرگز کسی نبی و رسول کا کام نہیں۔ بلکہ محالات سے تو خدا کی قدرت بھی متعلق نہیں ہوتی۔
آنحضرت عملی طور سے اصلاحِ خلق کا کام اور رسالت کے فرائض ابتدائے عمر سے انجام دے رہے تھے۔ جب چالیس برس تک اپنے عقلی اور عملی کمال کو قوم سے منوا لیا تو آواز غیبی سے زبانی دعوائے رسالت پر مامور ہوئے۔
واہمہ خلاق اس کا ہوتا ہے جس کی عقل ناقص ہو اور مالیخولیا یا خبط میں مبتلا ہو لیکن وہ انسان جس کے کمال عقل کی گواہی واقعات، حالات اور اس کے حکیمانہ تعلیمات نے دے دی ہو وہ اس خبط میں کبھی مبتلا نہیں ہو سکتا۔ وہ آواز سنے گا تو حقیقت ہو گی۔ خواہ وہ صدا فلک کی ہو یا ملک کی بہرحال اصلیت رکھے گی۔
بشر ہونے میں آپ کے کوئی شک نہیں۔
آپ خود فرماتے تھے کہ انا بشرمثلکم۔ اگر بشر نہ ہوتے تو عالم بشری کے لئے نمونہ کیسے بنتے مگر بشر ایسے تھے جو کمال بشری کا نمونہ بن سکے۔ ذاتی طور پر غیب دان کوئی رسول نہیں تھا۔ مگر خداوندی تعلیم ہے۔ آپ نے غیب کی خبریں ضرور دیں۔ پارہ ۲۱ سورہ روم آیت۔ ۱ ۔
۲۸۔ مقام پر قرآن میں موجود ہے کہ آپ کو معجزہ عطا ہوا۔
وحی ذہنی تصور کا نام نہیں ہوتا۔ ورنہ ہر مالیخولیائی اور خبطی وحی کا مرکز سمجھا جائے بلکہ وحی نام ہے خداوندی پیغام کا خواہ بذریعہٴ ملک ہو یا صدائے غیب سے،
خدا دکھائی نہیں دے سکتا اس لئے سورہٴ والنجم میں بھی جبرئیل ہی مراد ہو سکتے ہیں۔
صدائے غیب کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی جسم میں پیدا ہو اس لئے اللہ جب چاہے جہاں چاہے اسے خلق کر سکتا ہے۔
نبی کی ضرورت اس وقت ہوئی جب شریعت محدود مدت تک کے ضروریات کو پیش نظر رکھ کر جاری کی گئی ہوئی لیکن جب نوع انسانی کی تعلیم کا نصاب آخری درجہ تک پہنچا۔ تو شریعت ایسی بھیجی گئی جس کے قواعد و ضوابط سے ہر زمانہ کے ضروریات میں رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایسی شریعت کے پہنچا دینے کے بعد کسی پیغام لانے والے معلم کی ضرورت باقی نہیں رہی اور جس کے ہاتھوں یہ کامل شریعت آئی وہ آخری پیغمبر ہوا۔
یہ ہمارے رسول حضرت محمد مصطفیﷺ ہیں۔ افراد کے عمل نہ کرنے اور منحرف ہونے سے اور اس طرح خلق کے گمراہ ہونے سے شریعت و رسول کی ضرورت پیدا نہیں ہوا کرتی۔ ورنہ بہت سے انبیاء وہ تھے جن کے زمانہ میں فیصدی ۹۹ آدمی گمراہ تھے اور ایک آدمی راہ راست پر تھا۔ خود آنحضرت کے زمانہ میں اوراس کے بعد کسی وقت میں ایسا نہیں ہوا کہ حق پرستوں کی تعداد گمراہوں سے بڑھ جائے۔ پھر اس سبب سے اگر آج کسی رسول کی ضرورت پیدا ہو تو اس کے بہت پہلے یہ ضرورت پیدا ہو چکی اور خود آنحضرت کی موجودگی میں اور رسول کی بعثت ہونا چاہئے تھی۔
معلوم ہوتا ہے کہ رسول کی بعثت کا یہ سبب نہیں ہوتا بلکہ یہ سبب ہوتا ہے کہ گزشتہ شریعت کے تعلیمات جتنی مدت کے حالات کے لحاظ سے بھیجے گئے تھے وہ میعاد ختم ہو گئی اس لئے دوسرا رسول بھیجا جاتا ہے۔ اب اگر کسی رسول کے تعلیمات کو بغیر کسی مقررہ میعاد کے ہمیشہ کے لئے جاری کیا گیا ہو تو اس کے بعد کسی رسول کی ضرورت بھی نہیں ہو گی۔ ہر دین اپنے اپنے وقت کے مصالح کے لحاظ سے کامل ضرور تھا مگر بلااستثناء کامل دین وہی ہے جس کے بعد دوسرے دین کی ضرورت باقی نہ رہے۔ پارہ ۶ سورہ مائدہ آیت ۴ میں پیغمبر کو مخاطب کرکے نہیں کہا گیا ہے کہ تمہارا دین کامل ہوا یا تم پر نعمتیں تمام کی گئیں بلکہ نوع بشر کو مخاطب کرکے یہ ارشاد ہوا ہے کہ اس لئے سمجھنا صحیح نہیں ہے کہ دین کامل ہوا ہے تو آنحضرت کا۔ نعمتیں تمام کی گئی ہیں تو آنحضرت پر، بلکہ دین کامل ہوا تو تمام خلق کا اور نعمتیں تمام ہوئیں تو نوع بشر پر اس لئے نہ اس دین کے بعد کوئی دین، اور نہ اس نعمت سے مکمل تر اس کے بعد کوئی نعمت۔ یہی ایک نعمت تا ابد تمام دنیا کے لئے ہے اس لئے نہیں کہا جا سکتا کہ دنیا تاابد نعمتوں سے محروم ہو گئی۔
پارہ ۸ سورہ اعراف آیت ۳۵۔
یابنی اٰدم امّا یأتینکم رسل منکم یقصون علیکم اٰیاتی کا یہ ترجمہ بالکل غلط ہے کہ ”اے اولاد آدم(ع) تمہارے پاس تمہارے ہی ہم جنس رسول ضرور آئیں گے جو میری آیتیں تم کو پڑھ کر سنائیں گے“۔
آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اے اولاد آدم(ع)، اگر آئیں تمہارے پاس تمہارے ہم جنس رسول جو میری آیتیں پڑھ کر سنائیں تو جو شخص پرہیزگاری اختیار کرے او راپنے اعمال کی اصلاح کرے تو وہ محزون نہ ہو گا۔
اس میں ایک عام اصول کا اعلان کیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا رسول جو آیا ہے اس پر اگر ایمان لاؤ گے تو نجات پاؤ گے لیکن اب اس کے بعد کوئی رسول آنے والا ہے یا نہیں، اس کا یہاں پر کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ بلکہ دوسری آیت میں بتلا دیا ہے کہ اس رسول کے بعد کوئی دوسرا نبی آنے والا نہیں۔
اب اس آیت کی برکت سے نہ مرزا غلام احمد صاحب کا رسول بنایا جانا درست ہے۔ نہ آئندہ اس آیت کے رو سے لوگ رسول بن سکتے ہیں۔ اس کے انسداد کے لئے قرآن کا فرمان کہ (ولکن رسول اللّٰہ و خاتم النبین) اور یہ اعلان کہ (اکملت لکم دینکم واتمت علیکم نعمتی )کافی ہے۔
| |