عنوان: مذھب و عقل
مصنف: سید علی نقی نقوی
***
تمہید
جب کہ دنیا میں صد ہا مذہب چل رہے ہیں اور ہر ایک اپنے سوا اوروں کو گمراہ بتاتا ہے، تو ایک جویائے حقیقت کا فرض ہے کہ وہ ان سب کو عقل سے پرکھے اور جہاں تک عرصہٴ حیات میں گنجائش پائے، برابر قدم آگے بڑھاتا چلا جائے یہاں تک کہ کسی ایک کو پورے طور پر صحیح سمجھ لے۔ راستوں کی کثرت سے گھبرا کر تحقیق سے جی چرانا اور ناچار سب کو خیرباد کہہ دینا دماغی کاہلی ہے جس کا نتیجہ ہرگز اطمینان بخش نہیں ہو سکتا۔
نظام ہستی میں دانائی کارفرما ہے، جس کے مظاہرات کو آنکھ دیکھ رہی ہے۔ عقل سمجھ رہی ہے، دل مان رہا ہے۔
اس دانائی کا مرکز ایک ہستی ضرور ہے جس کا اس تمام نظام کے ساتھ یکساں تعلق ہے۔ ذہن اس کا اقرار کر لے، یہ ذہن کی حقیقت شناسی ہے مگر وہ ذہنی تخلیق کا نتیجہ نہیں ہے۔ تخلیق کی ضرورت تو اس کے لئے ہوتی ہے جس کی کوئی اصل حقیقت نہ ہو مگر اس حقیقت کا جلوہ تو خود ذہن کو ہر چیز میں دکھائی دیتا ہے۔ یقیناً وہ ”حقیقت“ ثابت ہے جو ذہن اور اس کی تخلیق سے بالاتر ہے۔
صناعیوں میں قدرت کا ظہور ہے اس لئے قادر صناع کا پتہ چلتا ہے۔ وہ صناعیوں سے علٰیحدہ ضرور ہے کیونکہ صناعیاں تو بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں مگر وہ برابر قائم ہے جو اس کے موجود ہونے کا قائل ہو گا اسے وجود کا مقرر ہونا پڑے گا۔ مگر یہ وجود اس کی ذات سے علٰیحدہ نہیں ہے۔ نہ اس کی قدرت ذات سے جدا ہے۔
شرع محمدی اور قرآنی ہدایتوں کے پیرو ”مسلمان“ کہلاتے ہیں۔ یہ کلام اللہ اور رسول اللہ کو منجانب اللہ سمجھتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ کلام جسمانی طور پر ذات الٰہی سے صادر ہوتا ہے یا وہ کسی خاص مقام پر بیٹھ کر رسول کو بھیجتا ہے ہرگز نہیں۔ خدا جسم سے بری اور مقام سے بے نیاز ہے۔ مطلب صرف اتنا ہے کہ وہ اس کلام کا خالق ہے یعنی اپنے خاص ارادہ سے کسی مخلوق کی زبان پر اس کو جاری کراتا ہے اور کسی خاص شخص کو اپنے منشا کے موافق احکام پہنچانے اور خلق کی رہنمائی کے لئے مقرر کرتا ہے۔
امامیہ فرقہ میں بارہویں امام کی امامت اور غیبت کا ماننا ضرور ہے۔ گیارہ امام سب مختلف پردوں میں امامت یعنی ہدایت خلق کا کام انجام دیتے رہے ویسے ہی بارہویں امام بھی انجام دیتے ہیں۔
جن عقلی پتوں پر گیارہ اماموں کی امامت کو تسلیم کیا انہی سے بارہویں کی امامت اور حیات کا ثبوت ہے۔
کوئی شے عدم سے وجود میں آ کر بالکل فنا نہیں ہوتی۔ کسی نہ کسی صورت سے باقی رہتی ہے۔ انسان کے لئے بھی کوئی مستقبل ہے۔ جس پر جزا و سزا کا انحصار ہے۔ یہ عقل کا فیصلہ ہے۔ پہلے کی باتیں خود یاد نہ ہوں نہ سہی مگر معتبر بتانے والوں کی اطلاع دہی کو غلط کیسے کہا جائے جب کہ اپنے آپ کو کچھ یاد نہیں اور کہنے والوں کو عقل سچائی کی سند دے چکی۔
یوں ہی آئندہ کی باتیں، کچھ تو عقل عقل خود سمجھتی ہے اور کچھ کے لئے بتانے والوں کے چہرے دیکھتی ہے۔ جو کچھ وہ بتلاتے ہیں اس پر سر جھکاتی ہے کیونکہ اس کے خلاف وہ خود کوئی فیصلہ نہیں رکھتی۔
عقیدوں پر عقل کا پہرا ہے۔ بے شک مراسم کو حیثیت کا پابند ہونا چاہئے اسی بنا پر ”مذہب اور عقل“ کو کتابی صورت میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ عقل و مذہب کی جدائی کا جو دھنڈورا پیٹا جاتا ہے اس کی حقیقت کھلے۔ آئینہ سے جھائیاں دور ہو جائیں او ر حقیقت کا چہرہ صاف نظر آنے لگے۔
علی نقی النقوی
۱۶۔ ماہ صیام ۱۳۶۰ھ
|