اسلامی نظریہ حکومت
  325
ضميمہ جات


326
باسمہ تعالى
ضميمہ نمبر1
سوال : كيا اہلسنت كے نزديك بھى ''ولايت فقيہ'' نام كى كوئي چيز ہے؟

مختصر جواب:
اہلسنت كے نزديك خود'' خلافت'' در حقيقت '' ولايت فقيہ '' كى مثل ايك چيز ہے _ ليكن كيفيت اور شرائط كے لحاظ سے مختلف ہے _ اہم ترين فرق يہ ہے كہ شيعوں كے اعتقاد كے مطابق زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين (ع) كى حكومت كا تسلسل ہے_ ولى فقيہ بطور عام يا خاص آنحضرت(ص) كى جانب سے منصوب ہونا چاہيے_ ليكن جس خلافت كے اہلسنت قائل ہيں وہ اس طرح نہيں ہے _ تاريخ گواہ ہے كہ خود ان كے اعتقاد كے مطابق خليفہ اول كا تقرر بھى آنحضرت(ص) كى طرف سے نہيں تھا_ بلكہ ان كا تقرر بعض صحابہ كى بيعت كے نتيجہ ميں ہوا تھا_اموى اور عباسى دور ميں جو خلافت تھى اسلامى حكومت سے ذرا بھى مشابہت نہيں ركھتى تھي_

تفصيلى جواب:
انسان نے طول تاريخ ميں معاشرتى انصاف اور اپنى سياسى زندگى كيلئے مختلف نظاموں اور حكومتوں كا

327
تجربہ كيا ہے _ ليكن رسول خدا(ص) اور امير المؤمنين (ع) كى مختصر دورانيہ كى حكومت كے سوااس نے اپنے بنيادى اہداف اور منطقى آرزؤوں كو ان حكومتوں سے حاصل نہيں كيا _ جبكہ اسلامى نظام نظرياتى لحاظ سے اور تھيورى كى حد تك مكمل تھا اور زمانہ كى پيشرفت اور ارتقاء كے ساتھ مكمل طور پر ہم آہنگ تھا _ ليكن كيوں عملى نہ ہوا _ يہ ايك سربستہ راز ہے جس كى وضاحت كسى اور وقت پر اٹھا ركھتے ہيں_
لفظ '' ولايت فقيہ'' قديم زمانہ سے شيعہ فقہ اور كلام ميں ايك جانا پہچانا كلمہ ہے كہ جوايران ميں اسلامى جمہورى نظام كے نفاذ كے ذريعے مرحلہ عمل ميں آيا _ اور وہ نام ہے '' كائنات اور انسان پر اللہ تعالى كى حاكميت مطلقہ كى بنياد پر زمانہ غيبت ميں وسيع اسلامى سرزمين ميں امت مسلمہ كے دينى اور دنياوى امور ميں ايك زمانہ شناس ' بہادر'اور مدبر فقيہ عادل كى مكمل اور بھر پور حاكميت '' (1)
امام خمينى فرماتے ہيں : حاكميت كى شرائط براہ راست اسلامى حكومت كى حقيقت سے پھوٹتى ہيں_ عام شرائط يعنى عقل اور تدبر كے علاوہ اس كى دوبنيادى شرطيں اور ہيں _ ايك '' قانون كا علم '' اور دوسرى ''عدالت'' اگر كسى شخص ميں يہ دو شرطيں پائي جاتى ہوں اور وہ قيام كرے وہ حكومت تشكيل دے سكتاہے اور اسے وہى ولايت حاصل ہوگى جو آنحضرت(ص) معاشرتى امور ميں ركھتے تھے اور تمام افراد پر واجب ہے كہ وہ اس كى اطاعت كريں (2) اس وضاحت كے ساتھ شيعہ نكتہ نظر سے زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ در حقيقت امام معصوم (ع) كى حكومت كا تسلسل ہے اور اس وقت ولى فقيہ امام معصوم (ع) كا نائب سمجھا جاتاہے اس لحاظ سے خدا كى حاكميت، رسول خدا(ص) اور ائمہ معصومين ( عليہم السلام)كى حكومت اور زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ بالترتيب ايك ہى سلسلہ كى كڑياں ہے جو آپس ميں جڑى ہوئي ہيں (3)
1) عباس كعبى '' بررسى تطبيقى مفہوم ولايت فقيہ '' قم ، مؤسسہ انتشاراتى ظفر0 138 ، ص 41 _ قانون اساسى جمہورى اسلامى ايران اصل پنجم_
2) '' ولايت فقيہ'' امام خمينى ، مؤسسہ تنظيم و نشر آثار امام خمينى 1373 ص 37_
3) ايضاً ص 40_
328
اہلسنت كے نظريہ كے مطابق خلافت نام ہے جانشينى رسول (ص) كے عنوان سے دينى اور دنياوى امور ميں مكمل حاكميت كا _
ابن خلدون كہتے ہيں : خلافت نام ہے دين كى حفاظت اور سياست دنيا كيلئے صاحب شريعت كى طرف سے جانشين ہونا (1)
ماوردى (متوفى 450 ھ ) كہتے ہيں :
الامامة موضوعة لخلافة النبوة فى حراسة الدين و سياسة الدنيا(2)
خلافت نام ہے دين كى حفاظت اور سياست دنيا كيلئے رسول خدا(ص) كى طرف سے جانشين ہونے كا _
اخوان الصفا كہتے ہيں : بادشاہ زمين پر خدا كے جانشين ہيں _اور دين كے پاسبان ہيں (3) ماوردى خلافت كى تعريف كرنے كے بعد كہتے ہيں ' ' اصم'' كے علاوہ تمام علماء اسلام متفق ہيں كہ امام كى بيعت واجب ہے _البتہ اس كے وجوب كے مدرك اور دليل ميں اختلاف ہے كہ كيا وہ عقل ہے يا شرع؟ ليكن شريعت نے ''حاكميت'' ولى خدا كے حوالے كى ہے _
اللہ تعالى قرآن ميں فرماتاہے:
يا ايہا الذين آمنوا اطيعوا اللہ و اطيعوا الرسول و اولى الامر منكم (4)
1_ مقدمہ ابن خلدون ص 166_
2 _ '' الاحكام السلطانيہ'' على بن محمد الماوردى ، بيروت لبنان، دار الكتب الاسلاميہ 1985 ، 1405 ق ص 5_
3_ ''نظام حكومتى و ادارى در اسلام'' باقر شريف قرشى ترجمہ عباس على سلطانى مشہد ،بنياد پوہش ہاى اسلامى 1379 ص 240_
4_ سورہ نساء 59_
329
اے ايمان والو خدا كى اطاعت كرو اور رسول او ر اپنے ميں سے صاحبان امر كى اطاعت كرو_
اس طرح خدا نے '' اولى الامر'' جو كہ معاشرے كے رہبر ہيں كى اطاعت ہم پر واجب قرار دى ہے _
ہشام بن عروة، ابوہريرہ سے روايت كرتے ہيں : رسول خدا(ص) نے فرمايا : ميرے بعد تم پر رہبر حكومت كريں گے _ نيك حاكم نيكى كےساتھ اور بدكردار حاكم برائي كےساتھ _ پس جو حق كے مطابق ہو اس كى اطاعت كرو _ كيونكہ اگر نيك كام كريں گے تو تمہارے اور ان كے فائدے ميں ہوں گے اور اگر برے كام انجام ديں گے تو تمہارے فائدے اور خود ان كے نقصان ميں ہوں گے (1)
علمائے اہلسنت نے اصل خلافت كو آيت '' اولى الامر'' سے ليا ہے (2)جبكہ تمام شيعہ علماء اور مفسرين اس بات پر متفق ہيں كہ اس آيت ميں اولى الامر سے مراد ائمہ معصومين (ع) (ع) ہيں جو كہ مادى اور معنوى رہبر ہيں _ اس كى دليل يہ ہے كہ اس آيت ميں اطاعت كو بغير كسى قيد اور شرط كے اور خدا و رسول (ص) كى اطاعت كے رديف ميں ذكر كيا گيا ہے _ لہذا ايسى اطاعت صرف معصومين(ع) كيلئے قابل تصور ہے _ جبكہ دوسرے افراد جن كى اطاعت واجب ہوتى ہے وہ محدود اور قيود و شرائط كے ساتھ ہوسكتى ہے (3) بہر حال رہبر يا خليفہ كى شرائط بھى متفق عليہ نہيں ہيں _ ماوردى امامت كيلئے درج ذيل شرائط كو معتبر قرار ديتے ہيں _

عدالت اپنى تمام شرائط كےساتھ مرتبہ اجتہاد پر فائز ہونا
1 _ الماوردى ص 5_
2_ تفسير كبير فخر الدين رازى بيروت دار الكتب العلمية 1411 ق 1990 م ج 9 ، 10 ص 116 ، 117، جامع البيان فى تفسير القرآن طبرى ج 5 ص 241 ، 242 تفسير المنار ج5 ص 181_
3 _ '' ترجمہ تفسير الميزان'' محمد حسين طباطبائي ج 4 ص 636_663 سورہ بقرہ ذيل آيت 59 پيام قرآن ، ناصر مكارم شيرازى و ہمكاران ج9 ص 54_
330
ناقص الاعضاء نہ ہو
صاحب را ے ہونا
شجاعت و بہادري
نسب يعنى امام كا تعلق قبيلہ قريش سے ہو (1)
البتہ اكثر علمائے اہلسنت عدالت كو شرط نہيں سمجھتے (2) چنانچہ كہتے ہيں : اولو الامر سے مراد حكام، امراء اور بادشاہ ہيں اور ہر حاكم جو حكومت حاصل كرلے اس كى اطاعت واجب ہے چاہے وہ عادل ہو يا ظالم_
تفسير المنار ميں اشارةً كہا ہے كہ بعض كا نظريہ ہے كہ آيت تمام حاكموں كى اطاعت كے متعلق ہے اور اسے واجب قرار ديتى ہے (3) اور اس بارے ميں انہوں نے روايات بھى نقل كى ہيں (4)
مختصر طور پر يوں كہاجاسكتاہے كہ ہمارے عقيدہ كے مطابق خلافت ''الاحكام السلطانيہ'' ميں مذكور تعريف اور خصوصيات كے پيش نظر حيات اسلامى كى ضروريات ميں سے ہے_ ليكن قابل غور نكتہ يہ ہے كہ وہ خلافت جو اموى اور عباسى دور يا حتى رحلت رسول (ص) كے بعد سامنے آئي ، حقيقى اسلامى حكومت كے ساتھ اس كا كوئي تعلق نہيں تھا_ اس دن سے خلافت ابہام كا شكار ہے _ ليكن پہلا سوال يہ ہے كہ رسول خدا(ص) كى طرف سے مقرر كردہ خليفہ كون ہے ؟ تاريخ بتاتى ہے كہ رسول خدا(ص) نے ''يوم الدار''(5) ميں لفظ خليفہ ، نيابت اور جانشينى كے معنى ميں حضرت على (ع) كيلئے استعمال كيا تھا_
حضرت ابوبكر كى خلافت كے بارے ميں ابن خلدون كہتے ہيں : رسول خدا(ص) كى وفات كے وقت صحابہ نے پيش قدمى كى اور ان كى بيعت كرلى ...(6) لہذا وہ آنحضرت(ص) كے مقرر كردہ نہيں ہيں_
1) الماوردى ايضاًص 6_
2) الاردشاد ،امام الحرمين جوينى ص 426 ، 427 _ايضاً باقر شريف قرشى ص 256 ، 260 _
3) تفسير المنار ج5 ص 181_
4) صحيح مسلم ج 3 ، كتاب الامارہ باب اطاعة الامراء و ان منعوا الحق ص 474 ، 467_
5) يوم الدار وہ دن ہے جس دن رسول خدا (ص) نے حكم خدا سے اپنے رشتہ داروں كو اسلام كى دعوت دى تھى _
6) باقر شريف القرشى ص 246_
331
علاوہ برايں '' الاحكام السلطانيہ'' ميں اسلامى حاكم كى جو خصوصيات بيان كى گئي ہيں اگر انكا مصداق خارجى وجود ميں آجائے تو يہ ان صفات كے بہت قريب ہيں جو علماء شيعہ نے ولى فقيہ كے متعلق بيان كى ہيں _ سوائے قريشى ہونے كے كہ جو خالصةً اہلسنت كا نظريہ ہے _البتہ اہلسنت كے چار مذاہب كے بعض فقہاء معتقد ہيں كہ ممكن ہے خلافت اور حكومت طاقت كے زور پر حاصل كى جائے _ اور جو طاقت كے زور پر حاكم بن جائے اسكى اطاعت واجب ہے (1) احمد ابن حنبل'' علم اور عدالت ''كو شرط نہيں سمجھتے _ اور ايك حديث نقل كرتے ہيں جس كے مطابق ہر وہ شخص جو تلوار (طاقت ) كے زور پر بر سر اقتدار آجائے وہ خليفہ اور امير المؤمنين ہے _ كسى كيلئے جائز نہيں ہے كہ اس كى امامت كا انكار كرے چاہے وہ نيك ہو يا فاسق و فاجر(2)
ان تمام تنازعات اور اختلافات سے صرف نظر كرتے ہوئے شيعہ اور اہلسنت كے نظريات كے درميان بنيادى فرق يہ ہے كہ شيعہ معتقدہيں زمانہ غيبت ميں صرف وہى افراد حق حكومت ركھتے ہيں جو بطور خاص يا عام اس ذمہ دارى كيلئے آنحضرت(ص) كى طرف سے مقرر كئے گئے ہوں_ اصطلاح ميں اسے ولايت فقيہ كہتے ہيں يعنى اس نظريہ كے مطابق حكومت كا تعين اوپر سے ہوتاہے حتى كہ جو حق عوام كو حاصل ہے وہ خدا كى جانب سے ہے_ايك خدا پرست انسان كبھى بھى حكومت كى بنياد كے طور پر مخلوق كے ارادہ كو قبول نہيں كرسكتا جب تك وہ خالق كے ارادہ سے منسلك نہ ہو _
ليكن اہلسنت كے نظريہ كے مطابق ايسا نہيں ہے _ جيسا كہ خليفہ اول كى خلافت بھى رسول خدا (ص) كے تقرر سے نہيں تھي_ بلكہ بعض صحابہ كى بيعت كے نتيجہ ميں وجود ميں آئي تھي_ اور اسى طرز سے آگے بڑھي_
1) ''الفقہ الاسلامى و ادلتہ ''ج 6 ص 682_
2) ''الماوردي'' ص 20_
332
باسمہ تعالى
ضميمہ نمبر 2
سوال:ايسا معاشرہ جس ميں شيعہ ، غير شيعہ، مسلم اور غير مسلم افراد بستے ہيں اس ميں ولى فقيہ كے حكم كى حد ودكيا ہيں ؟

مختصر جواب:
حكومتى مسائل كے سلسلہ ميں وہ ولايت مطلقہ جو اللہ تعالى كى طرف سے رسول خدا (ص) كو عطا كى گئي ہے وہى حكومتى اختيارات ائمہ معصومين (ع) اور ان كے بعد فقيہ عادل كو ديئے گئے ہيں _ اور اس ميں كوئي فرق نہيں ہے_
قرآن مجيد اور شيعہ و سنى احاديث ميں غور كرنے سے معلوم ہوتاہے كہ اسلام ايسا دين نہيں ہے جو فقط عبادات اور انفرادى آداب و رسوم ميں منحصر ہو_ اور سياسى ، اجتماعى اور اقتصادى مسائل پراس كى نگاہ نہ ہو _ فقيہ كا حكم بھى خدا و رسول كا حكم ہے _ اسلام ايك عالمگير دين ہے _ فقط مسلمانوں كےساتھ مخصوص نہيں ہے _ بلكہ آيات و روايات نے صراحت كے ساتھ اس حقيقت كو بيان كيا ہے _اور اسلامى احكام دنيا كے تمام افراد كيلئے ہيں _

تفصيلى جواب:
اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين (ع) كى ولايت ، اس حكومت و ولايت كے واضح ترين مصاديق ميں سے ہے جو ہر دور و زمانہ ميں معاشرے كى ضرورت رہى ہے _ يہ ولايت اورخلافت

333
خداوند كريم كى طرف سے معصومين (ع) اور زمانہ غيبت ميں '' جامع الشرائط فقيہ '' كو تفويض كى گئي ہے(1)
ولايت چاہے تكوينى ہو يا تشريعى ، اللہ تعالى كى ذات ميں منحصر ہے _اور اس حاكميت ميں كوئي بھى اس كا شريك نہيں ہے _
عقل نے ہميشہ انسان كو خدا كى اطاعت كا پابند قرار ديا ہے _اور الہى قوانين كى مخالفت كو اس كيلئے حرام قرار ديا ہے _اور يہ ولايت مطلقہ اور اطاعت ہميشہ خدا كى ذات واحدہ ميں منحصر ہے _ مگر يہ كہ خداند متعال مقام تشريع ميں ولايت كا كوئي مرتبہ كسى دوسرے كو تفويض كردے كتاب و سنت كى رو سے اللہ تعالى نے يہ ولايت انبياء اور ائمہ معصومين عليہم السلام كو عطا فرمائي ہے _
مذكورہ سوال كى وضاحت كيلئے ضرورى ہے كہ پہلے فتوى اور حكم كے دقيق معانى بيان كئے جائيں _ نيز حكم اور فتوى كے درميان موجود فرق كو واضح كيا جائے _پھر ولى فقيہ كے حكم كى حدود اور شيعہ و سنى اور مسلم غير مسلم تمام افراد كيلئے اس كى اطاعت كے لازم ہونے كى تحقيق كى جائے_ جناب عميد زنجانى كہتے ہيں لغت ميں حكم: استقرار ، ثبوت اور استحكام كو كہتے ہيں _ ليكن قرآنى اصطلاحى ميں حق كو باطل سے ممتاز كرنے ، اختلاف كو ختم كرنے اور فيصلہ كرنے كو '' حكم'' كہتے ہيں _ جبكہ فقہى اصطلاح ميں ''حكم'' كا اطلاق عام طور پر قانون الہى پر ہوتاہے _ اس كى تعريف بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں حكم نام ہے اس خطاب شرعى كا جو مكلفين كے افعال كے ساتھ مربوط ہو_ اور اس كى دو قسميں ہيں تكليفى اور وضعى (2)

حكم اور فتوى ميں فرق
اگر حاكم يا جامع الشرائط مجتہد كسى خاص موضوع كے متعلق كوئي حكم صادر كرے تو دوسرے مجتہدين اس
1) قال الامام حسن العسكرى (ع) فانى قد جعلتہ عليكم حاكما فاذا حكم بحكمنا فلم يقبلہ منہ فانما استخف بحكم اللہ و علينا رد و الراد علينا الراد على اللہ و ہو على حد الشرك باللہ _ بحار الانوار ج 2 ص 221 ح1_
2) عميد زنجانى ، عباس على '' فقہ سياسي'' ج2 ص 148 انتشارات 1377_
334
حكم كى مخالفت نہيں كرسكتے اور تمام افراد پر چاہے وہ دوسرے مجتہدين كے مقلد ہوں اس حكم كا اتباع كرنا واجب ہوتاہے _ بلكہ يہ حكم حاكم اور دوسرے مجتہديں پر بھى حجت ہوتاہے _ جبكہ فتوى ميں اگر كوئي مجتہد كسى مسئلہ كے متعلق ايك فتوى ديتاہے تو ممكن ہے بعض ديگر مجتہدين كا فتوى اس كے خلاف ہو(1)

ولى فقيہ كے حكم كى حدود
''مسئلہ ولايت فقيہ '' كى ايك اہم ترين بحث '' ولى فقيہ كے اختيارات كى حدود'' كے بارے ميں ہے _ كيا يہ اختيارات محدود اور نسبى ہيں ؟ يا ولى فقيہ رسول خدا(ص) كے تمام حكومتى اختيارات كا حامل ہوتاہے ؟ دوسرے لفظوں ميں حكومتى امور ميں فقيہ عادل كى ولايت رسول خدا(ص) كى ولايت كى طرح ہے ؟ يا نہ ؟ اگر چہ بعض افراد فقيہ كے اختيارات كو امور حسبيہ اورمال مجہول المالك ميں تصرف جيسے امور ميں محدود قرار ديتے ہيں _ اور فقيہ عادل كے مكمل اور مطلق اختيارات كے قائل نہيں ہيں _ بلكہ اسے نسبى سمجھتے ہيں _ ليكن اس بات كو ديكھتے ہوئے كہ فقيہ عادل ايك اسلامى حكومت كا سربراہ ہے _ لہذاضرورى ہے كہ وہ اسے بہترين طريقہ سے چلاسكتاہو_ لہذا عوام كے مصالح ، قوانين الہى اور اسلامى موازين و ضوابط كى حدود كے علاوہ ولى فقيہ كے اختيارات كى كوئي حد نہيں ہے _اسى لئے ولايت فقيہ كو ولايت مطلقہ فقيہ سے تعبير كرتے ہيں حكومتى مسائل كے سلسلہ ميں خداوند كريم كى طرف سے رسول خدا كو جو ولايت مطلقہ تفويض ہوئي ہے _ بالكل وہى حكومتى اختيارات ائمہ معصومين (ع) اور ان كے بعد فقيہ عادل كو ديئے گئے ہيں _ اور اس سلسلہ ميں كسى قسم كا كوئي فرق نہيں ہے (2)
اسى بارے ميں امام خمينى فرماتے ہيں : يہ خيال بالكل غلط ہے كہ رسول خدا (ص) كے حكومتى اختيارات امير المؤمنين (ع) سے زيادہ تھے يا امير المؤمنين كے اختيارات كا دائرہ فقيہ كے اختيارات سے وسيع تر ہے_ البتہ رسول خدا(ص) كے فضائل تمام كائنات سے بڑھ كر ہيں_ اور ان كے بعد حضرت امير المؤمنين كے فضائل
1) احكام تقليد و اجتہاد ، موگہى عبدالرحيم ص 164 ، سال 1375_
2) ودموكراسى در نظام ولايت فقيہ كواكبيان ، مصطفى ص 126 انتشارات عروج سال 1370_
335
سب سے زيادہ ہيں _ ليكن معنوى فضائل كى زيادتى حكومتى اختيارات ميں اضافہ كا باعث نہيں بنتى (1)
قرآن كريم ، شيعہ و سنى احاديث اور مختلف ابواب ميں فقہاء كے فتاوى ميں غور كرنے سے معلوم ہوتاہے كہ اسلام ايك ايسا دين نہيں ہے جو فقط عبادات اور انفرادى آداب و رسوم ميں محدود و منحصر ہو_ اور سياسى ، اجتماعى اور اقتصادى مسائل پر اس كى نگاہ نہ ہو_ خدا ، حكومت ، خاندان ، امت مسلمہ اور غير مسلم امتوں كے متعلق انسان كو اپنى پيدائشے سے ليكر زندگى كے آخرى مراحل تك جو كچھ انجام دينا ہے اس كيلئے اسلام كے پاس قوانين و ضوابط ہيں _ جيسا كہ پہلے كہا جاچكاہے كہ فقيہ كا حكم خدا اور رسول (ص) كا حكم ہے _ اور اسلام ايك عالمگير دين ہے _ فقط مسلمانوں كے ساتھ مربوط نہيں ہے _ جس طرح آيات اور روايات اس حقيقت كى وضاحت كرتى ہيں _ ہم بطور نمونہ بعض كى طرف اشارہ كرتے ہيں _
و ما ارسلناك الا كافة للناس بشيراً و نذيراً و لكن اكثر الناس لا يعلمون (2)
اور ہم نے تمہيں تمام افراد كيلئے بشارت دينے اور ڈرانے والا بناكر بھيجا ہے _ ليكن اكثر لوگ نہيں جانتے_
لفظ '' الناس'' ميں شيعہ ، سنى ، مسلمان اور غير مسلمان سب شامل ہيں _ نيز ارشاد ہوتاہے يا ايہا الناس انى رسول اللہ اليكم جميعا ...(3) اے لوگوں ميں تم سب كى طرف خدا كا بھيجا ہوا ہوں _ لفظ ''الناس '' ضمير '' كم'' اور لفظ '' جميعاً'' سے معلوم ہوتاہے كہ خطاب سب لوگوں سے ہے اور سب اس ميں شامل ہيں _ آيت سے معلوم ہوتاہے كہ رسول خدا(ص) كا تعلق كسى ايك قوم ، گروہ يا قبيلہ كے ساتھ نہيں ہے بلكہ آپ (ص) خدا كى طرف سے تمام افراد كيلئے بھيجے گئے ہيں _
1) ولايت فقيہ ، امام خمينى ص 64 مؤسسہ نشر آثار امام خمينى چاپ اول 1373_
2) سورة نساء 28_
3) سورة اعراف 158_
336
بسم اللہ الرحمن الرحيم

ضميمہ نمبر 3
سوال : ولى فقيہ كے ساتھ مسلمانوں كا رابطہ اور تعلق كس طرح كا ہونا چاہيئے؟

مختصر جواب:
1 _ ولايت فقيہ كے الہى اور عوامى جواز والے نظريے كے مطابق غير مسلم ممالك ميں رہنے والے مسلمانوں پر بھى ولى فقيہ كى اطاعت واجب ہے _
2 _ امام خمينى فرماتے ہيں : ولى فقيہ تمام صورتوں ميں ولايت ركھتاہے_ ليكن مسلمانوں كے امور كى سرپرستى اور حكومت كى تشكيل مسلمانوں كى اكثريت آرا كے ساتھ وابستہ ہے_
3 _ جب دوسرے ممالك ميں مسلمانوں كى سرپرستى كرنے ميں كوئي مشكل در پيش نہ ہو تو پھر امت مسلمہ پر ولايت كے سلسلہ ميں كوئي ركاوٹ نہيں رہتى _
4 _ امير المؤمنين (ع) امام اور امت كے رابطے كو مندرجہ ذيل موارد كے قالب ميں بيان فرماتے ہيں امت كے امام پر يہ حقوق ہيں خيرخواہي، حقوق كى ادائيگي، تعليم، آداب سكھانا اور امت پر امام كے حقوق ہيں بيعت پر قائم رہنا، خيرخواہى كا حق ادا كرنا اور مطيع رہنا_

337
تفصيلى جواب:
مذكورہ سوال كے جواب كے متعلق سب سے پہلے تو مسئلہ كے تمام مفروضات اور اس كے متعلقہ مسائل پر گفتگو كريں گے _ اور آخر ميں رابطہ كى اقسام كو مورد تحقيق قرار ديں گے_
مفروضات _ ايك اسلامى معاشرہ يا جغرافيايى حدود كے ساتھ متعين ايك اسلامى ملك جو ايك خاص سسٹم اور نظام بنام '' ولايت فقيہ'' كے تحت كام كرتاہو (1) دوسرے لفظوں ميں ايك ايسى سرزمين جس پر اسلامى حكومت كا مكمل تسلط ہو _ اور ايك خاص حيثيت كى حامل ہو كہ جسے ہم ام القرى كہتے ہيں (2) ام القرى كى اہم ترين اور اصلى خصوصيت يہ ہے كہ ايك تو اس سرزمين پر اسلامى حكومت قائم ہو اور دوسرا يہ كہ ام القرى كى رہبرى كا دائرہ كار تمام امت مسلمہ كى حد تك ہے _اگر چہ فى الحال سرزمين ام القرى كادائرہ كار محدود حد تك ہے (3) ان مفروضہ موارد كى طرف ديكھتے ہوئے ولى فقيہ كے ساتھ مسلمانوں كے روابط پر بحث كرتے ہيں_

رابطہ كى اقسام
1 _ سياسى فقہي2 _ امت اور امام
رابطہ كى اقسام سے پہلے اسلامى ممالك كى حدود، ولايت فقيہ كے معتبر ہونے كى ادلہ اور ولايت فقيہ كے معتبر ہونے ميں بيعت كے كردار جيسے مسائل كى تحقيق كرتے ہيں از نظر اسلام امت اور اسلامى معاشرہ كى وحدت كا اصلى عامل عقيدہ كى وحدت ہے _ ليكن اس كے باوجود يہ ياد رہے كہ ايك طرف تو طبيعى اور بين الاقوامى جغرافيايى حدود كى حامل سرزمين كلى طور پر فاقد اعتبار نہيں ہے _ چنانچہ ہم ديكھتے ہيں كہ دار الاسلام جو كہ مخصوص حدود كے ساتھ مشخص ہوتاہے اسلامى فقہ ميں اس كے خاص احكام موجود ہيں _
1) آيت اللہ مصباح يزدى '' اختيارات ولى فقيہ در خارج از مرزہا'' مجلہ '' حكومت اسلامي'' سال اول ش 1 ص 81_
2) محمد جواد لاريجانى '' مقولاتى در استراتى ملى '' تہران مركز ترجمہ و نشر كتاب 1367 ص 25_
3) محمد جواد لاريجانى '' حكومت اسلامى و مرزہاى سياسي'' مجلہ '' حكومت اسلامى '' سال اول ش 2 زمستان 75 ص 46 ، 45_
338
دوسرى طرف عقيدہ كا مختلف ہونا كلى طور پراختلاف كا يقينى عامل نہيں ہے _ كيونكہ ممكن ہے :اسلامى ممالك ميں موجود غير مسلم افرا دكو اسلامى حكومت كى حمايت حاصل ہو_ اورايك طرح سے اس كے شہرى ہوں (1) ولايت فقيہ كى مشروعيت والے نظريہ كى بناپر ممكن ہے اس كا سرچشمہ ولايت تشريعى الہى ہو يا عوامى ہو _ دوسرى صورت ميں در حقيقت '' بيعت'' ولايت فقيہ كو مشروعيت عطا كرنے ميں بنيادى كردار ادا كرتى ہے _ ولى فقيہ كے مسلمانوں كےساتھ سياسى فقہى تعلق كے بارے ميںآيت اللہ مصباح يزدى فرماتے ہيں :
اگر ہم ولايت فقيہ كى مشروعيت كے سلسلے ميں پہلے نظريہ كے قائل ہوں _ يعنى ولايت فقيہ كا سرچشمہ الہى ولايت تشريعى كو قرار ديں تو پھر اس كا فرمان ہر مسلمان كيلئے لازم الاجراء ہوگا _ پس غير اسلامى ممالك ميں رہنے والے مسلمانوں پر بھى اس كى اطاعت واجب ہوگي_
اور اگر دوسرے نظريہ كے قائل ہوں يعنى ولايت فقيہ كى مشروعيت كا سرچشمہ عوام ہوں _ تو كہہ سكتے ہيں كہ امت كى اكثريت كا انتخاب يا اہل حل و عقد اور شورى كے ممبران كى اكثريت كا انتخاب دوسروں پر بھى حجت ہے_
اس نظريہ كى بنياد پر بھى غير مسلم ممالك ميں رہنے والے مسلمانوں پر ولى فقيہ كى اطاعت ضرورى ہے چاہے انہوں نے اس كى بيعت كى ہو يا نہ (2)
اسى كے متعلق جب امام خمينى سے فتوى پوچھا گيا كہ كونسى صورت ميں جامع الشرائط ولى فقيہ اسلامى معاشرہ پر ولايت ركھتاہے تو آپ نے فرمايا :
بسمہ تعالى _ تمام صورتوں ميں ولايت ركھتاہے _ ليكن مسلمانوں كے امور كى سرپرستى اور حكومت كى تشكيل مسلمانوں كى اكثريت آراء كےساتھ مربوط ہے كہ جس كا ذكر اسلامى جمہوريہ ايران كے قانون
1) سابقہ مصدرآيت اللہ مصباح يزدى ص 84_
2) آيت اللہ مصباح يزدى _ اختيارات ولى فيہ در خارج از مرزہا حكومت اسلامى سال اول ش 1 ص 88، 89_
339
اساسى ميں موجودہے _ اور جسے صدر اسلام ميں بيعت كے ساتھ تعبير كيا جاتا تھا _ روح اللہ الموسوى الخميني(1)
اس بارے ميں آيت اللہ جوادى آملى فرماتے ہيں :
يہاں دو باتيں ہيں جو ايك دوسرے سے جدا ہونى چاہيں ايك شرعى جہت كے ساتھ مربوط ہے اور دوسرى بين الاقوامى قانون كے ساتھ _شرعى لحاظ سے كوئي مانع نہيں ہے نہ فقيہ كيلئے كہ وہ سب كاوالى ہواور نہ ہى تمام دنيا كے مسلمانوں كيلئے كہ اس كى ولايت كو تسليم كرليں _ بلكہ ايسى ولايت كا مقتضى موجودہے جس طرح مرجع كى تقليد اور قضاوت كا نافذ ہونا ہے _كيونكہ اگر ايك مرجع تقليد (مجتہد) ايك خاص ملك ميں زندگى بسر كرتاہو اور اسى ملك كا رہنے والا ہو تو اس كا فتوى دنيا ميں رہنے والے اس كے تمام مقلدين كيلئے نافذ العمل ہے _ اسى طرح جامع الشرائط فقيہ اگر كوئي فيصلہ صادر كرتاہے تو تمام مسلمانوں پر اس پر عمل كرنا واجب ہے اور اس كى مخالفت كرنا حرام ہے_
اور دوسرا مطلب يعنى بين الاقوامى قانون كے لحاظ سے جب تك كوئي رسمى تعہد او ر قانونى عہد و پيمان اس ولايت كے نافذ ہونے ميں ركاوٹ نہ بنے اور نہ ولايت فقيہ كيلئے كوئي مانع ہو اور نہ ہى دنيا كے دوسرے ممالك كے رہنے والے مسلمانوں كى سرپرستى كيلئے كوئي ركاوٹ ہو تو پھر تقليد اور فيصلے كى طرح يہ ولايت بھى واجب العمل ہوگى _ ليكن اگر كوئي قانونى اور بين الاقوامى عہد اس ولايت كے نفوذ ميں مانع بن جائے اور مخالفين عملى طور پر اس كيلئے ركاوٹ بن جائيں تو پھر فقيہ اور عوام دونوں مجبور ہيں (2)
اب ہم رابطہ كى دوسرى قسم يعنى امت اور امام كے رابطہ پر بحث كرتے ہيں _ اور اس كيلئے يہاں ہم نہج البلاغہ سے امير المؤمنين (ع) كے كلام كا ايك ٹكڑا ذكر كرتے ہيں _امير المؤمنين قاسطين (اہل صفين) كے
1) مصطفى كواكبيان '' مبانى مشروعيت در نظام ولايت فقيہ '' تہران عروج چاپ اول 1378 ص 258 ، 257_
2) عبداللہ جوادى آملى '' ولايت فقيہ'' ولايت فقاہت و عدالت'' اسراء ، چاپ اول 1378 ، ص478، 479_
340
خلاف جنگ پر ابھارتے ہوئے لوگوں سے فرماتے ہيں :
اے لوگو ميرا تم پر ايك حق ہے او رتمہارا بھى مجھ پر ايك حق ہے _ مجھ پر واجب ہے كہ تمہارى خير خواہى سے دريغ نہ كروں_ بيت المال ميں سے جو تمہارا حق ہے اسے ادا كروں _ تمہيں تعليم دوں تا كہ جاہل نہ رہو_ اور تمہيں آداب سكھاؤں تا كہ اہل علم بنو_
اور ميرا تم پر يہ حق ہے كہ ميرى بيعت پر قائم رہو_ پوشيدہ اور علانيہ طور پر ميرى خير خواہى كا حق ادا كرو _ جب تمہيں بلاؤں تو آجاؤ اور جب حكم دوں تو اس پر عمل كرو (1)
1) نہج البلاغہ خطبہ 34_
341
اصطلاحات
1) Rationality
2) Secular Rationality
3) Industrial Democracy
4) Liberalism
5) Pluralism
6) Realism
7) Nazism
8) fascism
9) Absolute choiceism
10) Relativism
11) Pluralism
12) Individualism
13) Wholism
14) Political philosophy
15) Strategic Studies
16) Constitutionality
17) Assembly Of Experts.