280
انتيسواں سبق :
دينى حكومت كے اہداف اور فرائض (1)
كسى سياسى نظام كے دوسرے سياسى نظاموں سے امتياز كى ايك وجہ وہ فرائض ، اختيارات اور اہداف ہيںجو اس كے پيش نظر ہيں _ مختلف مكا تب اور سياسى نظام اپنى حكومت كيلئے مختلف اہداف اور فرائض قرار ديتے ہيں _ اگر چہ بہت سے اہداف مشترك ہوتے ہيں مثلاً امن عامہ كا برقرار كرنا اور دشمن كے تجاوز اور رخنہ اندازى سے خود كو محفوظ ركھنا ايسے اہداف ہيں كہ جنہيںتمام سياسى نظاموں نے اپنے اپنے ذوق و سليقہ كے مطابق اپنے اوپر فرض قرار دے ركھاہے _
آج سياسى ماہرين اور مفكرين كے در ميان حكومت كے فرائض اور اختيارات كے متعلق بڑى سنجيدہ بحثيں ہو رہى ہيں _ بعض سياسى نظريات'' حكومت حداقل'' كا دفاع كرتے ہيں _ ان سياسى فلسفوںكا عمومى اعتقاد يہ ہے كہ جتنا ممكن ہو سكے حكومت مختلف امور ميں كم سے كم مد اخلت كيا كرے_ انيسويں صدى كے كلاسيكى اور آج كے نيولبرل ازم (New Liberalism) اقتصادى لحاظ سے بازار تجارت ميں حكومت كى كمترين مداخلت كے قائل ہيں انكا نظريہ يہ ہے كہ بازار ميں موجود كارو بار و تجارت ميں حكومت كى عدم مداخلت سے
281
اقتصادى توازن بر قرار رہے گا _اور حكومت كى مداخلت آزاد تجارت كے نظم و نسق كو در ہم بر ہم كردے گى _ اس كے مقابلہ ميں سو شلزم كى طرف مائل افراديہ چاہتے ہيں كہ حكومت براہ راست اقتصادى امور ميں مداخلت كرے حتى كہ تمام اقتصادى مراكز حكومت كے ہاتھ ميں ہونے چاہئيں_ اس نظريہ كى ہلكى سى جھلك لبرل ازم كى تاريخ كے ايك مختصر دور ميں دكھائي ديتى ہے _جديد لبرل ازم جو كہ بيسويں صدى كے اوائل سے ليكر 1970 تك رہا ہے رفاہى رياست (1)كا خواہاں ہے _ وہ چاہتاہے كہ حكومت آزاد تجارت ميں مداخلت كرے تا كہ ايك طرف بازار رونق پكڑے اور دوسرى طرف آسيب پذير طبقے كا دفاع ہو اور معاشرتى اور اجتماعى امور پر كوئي زد نہ پڑے _
اقتصاد سے ہٹ كر سياسى فلسفہ كى ايك اہم ترين بحث يہ بھى ہے كہ سعادت ، اخلاقيات اور معنويات ميں حكومت كا كيا كردار ہے _ اور ان كے ارتقاء كے سلسلہ ميں حكومت كے كيا فرائض ہيں ؟كيا عوام كى سعادت اور نجات بھى حكومت كے اہداف اور فرائض ميں سے ہے؟
ماضى ميں بھى بہت سے سياسى فلسفے خير و سعادت پر گہرى نگاہ ركھتے تھے _سياسى ماہرين اپنے سياسى نظاموں كو خير و سعادت كى بنياد پر متعارف كرواتے تھے اورخيرو سعادت كى جو مخصوص تعريف كرتے تھے اسى لحاظ سے اپنے اہداف اور دستور العمل كو متعين كرتے تھے _آخرى دو صديوں ميں ہم نے ايسے ايسے سياسى نظريات ديكھے ہيں جو اس سلسلہ ميں حكومت كے كردار اور فرائض كوبالكل نظر انداز كرتے ہيں ان نئے نظريات كى بنياد پر خير و سعادت جيسے امور حكومت كے فرائض و اہداف سے خارج ہيں_ حكومت كا كام فقط امن وامان اور رفاہ عامہ كے متعلق سو چناہے _ اور اسے چاہيے كہ خيروسعادت ، اور اخلاق و معنويت جيسے امور خود عوام اور معاشرے كے افراد كے حوالہ كردے_
1) Welfare State.
282
لبرل ازم اس نظريہ كى سخت حمايت كرتا ہے كہ اس قسم كے امور عوام كے ساتھ مربوط ہيں لہذا ان امور ميں حكومت كسى قسم كى مداخلت نہيں كر سكتى ، بلكہ اس قسم كے مسائل ميں مداخلت لوگوں كے ذاتى مسائل ميں مداخلت ہے اور ان كے حقوق اور ان كى شخصى آزادى كو سلب كرنے كے مترادف ہے_ حكومت كو اپنے فرائض عوامى حقوق اور شخصى آزادى كو ملحوظ خاطر ركھ كر انجام دينے چاہيں_ لبرل نظريات كے حامى افراد كى نظر ميں ''حقوق بشر كا عالمى منشور'' جو كہ لبرل نظريات كے اصولوں كى بنياد پر بنايا گياہے، حكومت كے اہداف و فرائض متعين كرنے كيلئے انتہائي مناسب راہنماہے حكومت كو اسى كا دفاع كرنا ہے اور اسے امن وامان برقرار ركھنے ، شخصى مالكيت كى حفاظت، ثقافتى ، مذہبى اور اقتصادى آزادى كيلئے كوشش كر نى چاہيے _ خير و سعادت اور اخلاقيات كو خود عوام كے سپرد كرد ے تا كہ ہر شخص اپنى مرضى كى خير و سعادت كے متعلق اپنے مخصوص نظر يہ كے مطابق زندگى گزار سكے_
ا س تمہيد كو مد نظر ركھتے ہوئے يہ ديكھنا ہے كہ اسلام كن اہداف اور فرائض كو حكومت كے كندھوں پر ڈالتا ہے _حكومت كے متعلق اسلام كا نظر يہ كيا ہے ،اور اس كيلئے كس مقام كا قائل ہے ؟
ہم اس تحقيق كو تين مرحلوں ميں انجام ديں گے ، پہلے حكومت اور اس كے مقام كے متعلق اسلامى نظر يہ كى تحقيق كريں گے _پھر دينى حكومت كے اہداف پر ايك نگاہ ڈاليں گے اور آخر ميں اسلامى سربراہوں كے جزئي وظائف اور فرائض كى طرف اشارہ كريں گے _
حقيقت حكومت از نظر اسلام
دوسرے باب ميں ''اسلام كى نظر ميں امامت اور سياسى قيادت كے مقام و مرتبہ'' كے متعلق ہم تفصيلى گفتگو كر چكے ہيں _يہاں حقيقت و ماہيت كے متعلق بحث سے ہمارى يہ مراد نہيں ہے كہ ہم نئے سرے سے اس كى
283
اہميت كا تذكرہ كرنا چاہتے ہيں _ بلكہ يہاں ہم يہ جاننا چاہتے ہيں كہ حكومت كو اسلام كس نگاہ سے ديكھتاہے اور اس كے نزديك اس كى ماہيت اور حقيقت كيا ہے ؟
آيات و روايات كى طرف رجوع كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ اسلام كى نگاہ ميں حكومت اور دنيوى مقامات و مناصب بذات خود كوئي اہميت و كمال نہيں ركھتے، ''حكومت'' ذمہ دارى اور امانت كا بوجھ اٹھانے كا نام ہے _ اس ذمہ دارى اور امانت كا بوجھ اٹھانے كيلئے اہليت ، صلاحيت اور انفرادى كمالات كى ضرورت ہے -_ اسى وجہ سے اسلامى معاشرہ كے حاكم كيلئے مخصوص خصوصيات اور شرائط كا لحاظ ركھا گيا ہے - _اسلام كى نگاہ ميں ہر قسم كا اجتماعى منصب خصوصاًحكومت اور امارت ايك الہى امانت ہے لہذا اسے كوئي كمال شمار نہيں كيا جاتا -_ سورہ نساء كى آيت 58 ميں ارشاد خداوندى ہے:
''إنَّ الله َ يَأمُرُكُم أَن تُؤَدُّوا الأَمَانَات إلَى أَہلہَا وَإذَا حَكَمتُم بَينَ النَّاس أَن تَحكُمُوا بالعَدل إنَّ الله َ نعمَّا يَعظُكُم بہ إنَّ الله َ كَانَ سَميعا بَصيرا''(58)
يقينا خدا تمہيں حكم ديتا ہے كہ امانتوں كو ان كے اہل تك پہنچا دو اور جب لوگوں كے درميان كوئي فيصلہ كرو تو انصاف كے ساتھ كرو _ خدا تمھيں بہترين نصيحت كرتا ہے بے شك خدا سننے والا اور ديكھنے والا ہے_
حضرت اميرالمومنين آذربايجان ميں لشكر اسلام كے سپہ سالار اشعث ابن قيس كو ايك خط ميں تاكيد كرتے ہيں كہ حكومت اور امارت تيرے لئے ايك لذيذ لقمہ نہيں ہے كہ تو اس سے لطف اندوز ہو -_ بلكہ ايك بار امانت ہے جسكا تجھے جواب دينا ہے _ بيت المال در حقيقت خدا كا مال ہے _ لہذا اس كيلئے امانتدار محافظ بنو_
284
انّ عملك ليس لك بطعمة ، و لكنّہ ف عْنقك أمانة ، و أنت مسترعى لمَن فوقك ليس لك أن تفتات ف رعيّة ، و لا تخاطر إلّا بوثيقة ، و ف يديك مال من مال اللہ (عزّوجلّ) و أنت من خْزّانة حتى تسلّمہ إلّ (1)
يہ امارت تيرے لئے روزى كا وسيلہ نہيں ہے- بلكہ تيرى گردن ميں امانت (كا طوق) ہے تمہارے لئے ضرورى ہے كہ اپنے فرمانروا اور امام كى اطاعت كرو، اور تمہيں يہ حق حاصل نہيں ہے كہ اپنى رعيت كے معاملہ ميں جو چاہو كر گزر و خبردار كسى مضبوط دليل كے بغير كوئي اہم قدم مت اٹھانا اور تيرے ہاتھ ميں خدا كا مال ہے تو اس كا ايك محافظ ہے يہاں تك كہ اسے ميرے پاس پہنچا دے ...
اپنے ايك اور عامل كے نام لكھے گئے خط ميں مقام و منصب سے غلط اور ناجائز فائدہ اٹھانے كو امانت الہى ميں خيانت كے مترادف قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں:
''فَقَد بلغنى عنك أمر إن كنت فعلتہ فقد أسخطت ربّك و عصيت إمامك و أخزيتَ أمانتك '' (2)
تمھارے متعلق مجھے ايك اطلاع ملى ہے _ اگر واقعاً تونے ايسا كيا ہے تو پھر تو نے اپنے رب كو غضبناك كيا ہے، اپنے امام كى نافرمانى كى ہے اور اپنى امانت كو رسوا كيا ہے _
حضرت اميرالمومنين حكومت اور اسكے منصب كو ايك امانت سمجھتے ہيں اور اس ميں خيانت كرنے كو بارگارہ پروردگار ميں ذلت و رسوائي كا باعث قرار ديتے ہيں_ اسلامى نقطہ نظر سے حكومتى اہلكار، خدا كى بارگاہ
1) نہج البلاغہ ،مكتوب 5_
2) نہج البلاغہ ، مكتوب 40_
285
ميں اس امانت الہى كے سلسلہ ميں جوابدہ ہيں جو انہوں نے اپنے كندھوں پر اٹھا ركھى ہے _ اہواز كے قاضى ''رفاعہ'' كو لكھتے ہيں :
''اعلم يا رفاعة انّ ہذہ الامارة امانة فَمَنْ جعلہا خيانة فعليہ لعنة اللہ الى يوم القيامة و من استعمل خائنا فان محمد (ص) برى منہ فى الدنيا والاخرة''(1)
اے رفاعہ جان لو كہ يہ امارت ايك امانت ہے جس نے اس ميں خيانت كى اس پر قيامت تك خدا كى لعنت ہے _اور جو كسى خائن كو عامل بنائے رسولخدا (ص) دنيا و آخرت ميں اس سے برى الذمہ ہيں_-
جلال الدين سيوطى اپنى تفسير ميں حضرت على سے يوںنقل كرتے ہيں :
''حقّ على الإمام أن يحكم بما أنزل اللّہ و أن يؤدّ الأمانة ، فإذا فعل ذلك فحقّ على النّاس أن يسمعوا لہ و أن يطيعوا ، و أن يجيبوا إذا دعوا'' (2)
امام كيلئے ضرورى ہے كہ وہ خدا كے احكام كے مطابق فيصلے كرے اور امانت كو ادا كرے _ پس جب وہ ايسا كرے تو لوگوں پر واجب ہے كہ اس كى بات سنيں اس كى اطاعت كريں اور جب وہ بلائے تو لبيك كہيں_
حكومت بذات خود كوئي معنوى حيثيت نہيں ركھتي_ اور نہ ہى حاكم كيلئے كوئي كمال شمار ہوتا ہے_ مگر يہ كہ وہ اس سياسى اقتدار كے ذريعہ اس ذمہ دارى اور امانت الہى كو صحيح طور پر ادا كرے_
عبدالله ابن عباس كہتے ہيں كہ بصرہ كى طرف جا تے ہوئے '' ذى قار'' نامى ايك جگہ پر ميں اميرالمومنين كے پاس گيا _ وہ اپنے جوتے كو ٹانكا لگا رہے تھے _ مجھ سے پوچھتے ہيں اس جوتے كى قيمت كيا ہے ؟ ميں نے جواب ديا: كچھ بھى نہيںتو آپ نے فرمايا :
1) دعائم الاسلام، ج 2 ، ص 531_
2) الدر المنثور ،ج 2 ، ص 175_
286
''واللّہ لہ أحبّ إلّ من إمرتكم ، إلّا أن أْقيم حقّا أو أدفع باطلا''(1)
خدا كى قسم ميں اسے تم پر حكومت كرنے سے زيادہ پسند كرتا ہوں _ مگر يہ كہ حق كو قائم كروں اور باطل كو دور كردوں _
بنابريں حكومت اور قيادت اس وقت اہميت ركھتے ہيں جب اس كے اہداف عملى شكل اختيار كرليں اور سياسى اقتدار كے حامل افراد كى تمام تر كوشش ان اہداف كو پورا كرنے كيلئے ہو _
دينى حكومت كے اہداف :
دينى منابع كى طرف رجوع كرنے سے يہ حقيقت عياں ہوجاتى ہے كہ اسلام ،حكومت كے اہداف كو رفاہ عامہ اور امن وامان برقرار كرنے ميں محدود نہيں كرتا _ بلكہ اسلامى معاشرہ كى خير و سعادت اور معنويات سے مربوط امور كو بھى حاكميت كے دستورالعمل ميں سے قرار ديتا ہے دينى حكومت كيلئے ضرورى ہے كہ وہ معاشرے كو ايمان اور اخلاق سے لبريز زندگى فراہم كرئے اور رفاہ عامہ كے ساتھ ساتھ دينى ثقافت اور الہى پيغامات كے فروغ پر بھى زور دے _ دينى حكومت كے اہداف كو بيان كرنے والى بعض آيات اور روايات كى مدد سے ہم ان اہداف ميں سے بعض كى طرف اشارہ كريں گے _ كلى طور پر ہم ان اہداف كو دو بنيادى حصوں ميں تقسيم كرسكتے ہيں _ ايك حصہ معنوى اہداف پر مشتمل ہے اور دوسرا دنيوى اہداف پر_ دينى حكومت كے دنيوى اہداف ايسے امور پر مشتمل ہيں جو بڑى حد تك غير دينى حكومتوں كے بھى مورد نظر ہوتے ہيں _ جبكہ دينى حكومت كے معنوى اہداف وہ امور ہيں جو فقط اسلامى حكومت كے ساتھ مخصوص ہيں اوراسلامى حكومت كو دوسرى حكومتوں سے ممتاز كرتے ہيں_ دينى حكومت كى خصوصيت وہ عہد و پيمان ہے جو ان اہداف كو پورا كرتا ہے _
1) نہج البلاغہ ، خطبہ 33 _ارشاد مفيد ،ج 1، ص 247ميں يہى حديث مختصر سے فرق كے ساتھ بيان كى گئي ہے _
287
الف: معنوى اہداف
دينى حكومت كے معنوى اہداف سے مراد وہ كوششيں ہيں جو معاشرے كى فطرت الہى كے مطابق رشد و ترقى كى خاطر سازگار ماحول فراہم كرنے كيلئے كى جاتى ہيں_ ان ميں سے بعض كا تعلق تہذيب و ثقافت اور صحيح مذہبى پروپيگنڈے سے ہے _ اور بعض احكام شريعت اور حدود الہى كے نفاذ اور آلودگى و تباہى سے معاشرہ كو محفوظ ركھنے كے ساتھ تعلق ركھتے ہيں _ يہاں پر ہم ان آيات و روايات كو بطور نمونہ پيش كرتے ہيں جو دينى حكومت كے معنوى اہداف كو بيان كرتى ہيں _ پھر ان اہداف كى فہرست بندى كريں گے _
جو لوگ زمين پراقتدار حاصل كرليتے ہيں، اللہ تعالى ان كے ليئے كچھ مخصوص فرائض بيان كرتاہے_
مثلا نماز كا قائم كرنا ، نيكى كا حكم دينا اور برائي سے روكنا _سورہ حج كى آيت 41 ميں ارشاد خداوندى ہے_
''الذين ان مَكّنا ہم فى الارض أقاموا الصلوة و آتوا الزكوة و أمروا بالمعروف و نہوا عن المنكر ولله عاقبة الامور_''
يہ وہ لوگ ہيں اگرہم انہيں زمين ميں اختيار ديں تو وہ نماز قائم كريں گے اور زكوة ادا كريں گے ، نيكى كا حكم ديں گے اور برائي سے منع كريں گے _ اور يقينا تمام امور كا انجام خدا كے اختيار ميں ہے_
معاشرتى عدل و انصاف پر اسلام نے بہت زيادہ زور ديا ہے _ يہاں تك كہ اسے دينى حكومت كے بنيادى اہداف ميں شمار كيا ہے _سورہ نحل كى آيت 90 ميں ارشاد ہوتاہے:
''ان الله يأمر بالعدل والاحسان''
يقينا خدا عدل و انصاف اور نيكى كا حكم ديتا ہے _
سورہ شورى كى آيت 15 ميں ارشاد ہے :
'' اُمرت لاعدل بينكم''
مجھے حكم ملاہے كہ تمھارے در ميان انصاف كروں_
288
سورہ نساء كى آيت 58 ميں حكم ہے :
''ان الله يأمركم ا ن تُودّوا الامانات الى اہلہا و اذا حكمتم بين الناس ا ن تحكموا بالعدل ...''
بے شك خدا تمھيں حكم ديتا ہے كہ امانتوں كو ان كے اہل تك پہنچادو _اور جب لوگوں كے درميان فيصلہ كرو تو انصاف كے ساتھ كرو _
ابوحمزہ ثمالى نے امام باقر سے امام اور لوگوں كے باہمى حقوق كے متعلق پوچھا تو امام نے عدل و انصاف كو لوگوں كا امام پر حق قرار ديا _ ابوحمزہ ثمالى كہتے ہيں :
''سألت أبا جعفر (ع) ما حقّ الإمام على الناّس؟ قال: '' حقہ عليہم ان يسمعوا لہ و يطيعوا'' قلت: فما حقّہم عليہ ؟ قال: '' يقسّم بينہم بالسوية و يعدل فى الرعية ...'' (1)
ميں نے امام باقر سے پوچھا كہ امام كا لوگوں پر كيا حق ہے ؟آپ نے فرمايا امام كا ان پر يہ حق ہے كہ وہ امام كى بات سنيں اور اطاعت كريں _پھر ميں نے پوچھا لوگوں كا امام پر كيا حق ہے ؟آپ نے فرمايا: بيت المال كو ان كے در ميان بطور مساوى تقسيم كرے اور رعيت كے درميان عدل و انصاف كرے ...
حضرت على فرماتے ہيں : ''امام عادل خيرٌ من مطر وابل''
امام عادل موسلہ دھار بارش سے بہتر ہے _(2)
امام رضا مخصوص معنوى اورثقافتى اہداف كو امام كے فرائض ميں سے شمار كرتے ہوئے فرماتے ہيں :
والإمام يحلّ حلال اللہ و يحرّم حرام اللہ و يقيم حدود اللہ ويذبّ عن دين اللہ و يدعوا إلى سبيل ربہ بالحكمة و الموعظة
1) كافى ،ج 1، ص 405، باب مايجب من حق الامام على الرعية، ح1_
2) غررالحكم ،آمدى ج 1 ، ص 386، ح 1491_
289
الحسنة و الحجةالبالغة(1)
امام حلال خدا كو حلال اور حرام خدا كو حرام قرار ديتا ہے ، حدود الہى كو قائم كرتا ہے ، دين خدا كا دفاع كرتا ہے اور(لوگوں كو ) حكمت ، موعظہ حسنہ اور محكم دليل كے ذريعہ راہ خدا كى طرف دعوت ديتا ہے_
حضرت اميرالمومنين خدا سے مناجات كرتے ہيں _ اور اس نكتہ'' كہ مسلمانوں پر حكومت قبول كرنے كاميرامقصد كوئي دنيوى منصب و اقتدار اور بے قيمت دنيوى مال و متاع كا حصول نہيں تھا ''كے ضمن ميں تين اہداف كا ذكر كرتے ہيں جن ميں سے دو معنوى اہداف ہيں :
''اللہمّ إنّك تعلم انّہ لم يكن الذى كان منّا منافسة فى سلطان، ولا التماس شي من فضول الحطام ، و لكنّ لنرد المعالم من دينك ، و نُظہر الاصلاح فى بلادك فيأمن المظلومون من عبادك، و تقام المعطّلة من حدودك ''
اے پروردگار تو جانتا ہے كہ ميں نے يہ كام نہ ملك و سلطنت كے حصول كيلئے كيا ہے اور نہ ہى اس دنيا كے پست و بے قيمت مال كو اكھٹا كرنے كيلئے كيا ہے _
ميں نے يہ قدم اس لئے اٹھايا ہے تا كہ تيرے دين كى تعليمات كو واپس لے آؤں، صلح و سلامتى كو تيرے شہروں ميں برقرار كروں تا كہ تيرے مظلوم بندے امن سے رہ سكيں اور تيرے ان قوانين كو زندہ كروں جنہيں معطل كر ديا گيا ہے_(2)
حق كا قيام اور باطل سے مبارزت بھى دينى حكومت كے اہداف ميں سے ہے سورہ ص كى آيت 26 ميں ارشادہے : ''يا داود انّا جعلناك خليفة فى الارض فاحكم بين الناس بالحق'' اے داود ہم نے تمھيں زمين پر خليفہ مقرركيا ہے _ پس لوگوں كے درميان حق كے ساتھ فيصلہ كرو_
1) كافي، ج 1، ص200، باب نادر جامع فى فضل الامام و صفاتہ ،ح 1_
2) نہج البلاغہ ، خطبہ 131_
290
حضرت على اور ابن عباس كے درميان ''ذى قار'' كے مقام پر جو مكالمہ ہوا تھا اس ميں آپ (ع) نے حكومت كرنے كا مقصد حق كا قيام اور باطل كو روكنا قرار ديا تھا آنحضرت (ص) نے جب معاذ ابن جبل كو يمن كا والى بنا كر بھيجا تو انہيں كچھ اہم نصيحتيں كيں _ جن ميں سے بعض دينى حكومت كے معنوى اہداف كى طرف اشارہ كرتى ہيں آپ نے فرمايا :
''يا معاذ، عَلّمہُم كتابَ الله وأحسن أدبَہم على الأخلاق الصالحة و أنزل النّاس منازلَہم خيرَہم و شرّہم ... و أمت أمرَ الجاہليّة إلاّ ما سنّہ الإسلام و أظہر أمر الإسلام كلَّہ، صغيرَہ و كبيرَہ، و ليكن أكثر ہمّك الصلاة: فإنّہا رأس الإسلام بعد الإقرار بالدين و ذكّر الناس بالله واليوم الآخر و اتّبع الموعظة; فإنّہ أقوى لہم على العمل بما يحبّ الله ثمّ بثّ فيہم المعلّمين، و اعبد الله الّذ إليہ ترجع، و لا تَخَف فى الله لومة لائم''(1)
اے معاذ لوگوں كو قرآن كى تعليم دينا _ اچھے اخلاق سيكھانا ، اچھے اور برے افراد كو ان كے مقام پرركھنا ...جاہليت كى ہر رسم كو فنا كردينا مگر جس كى اسلام نے اجازت دى ہے _ اسلام كے چھوٹے بڑے ہر حكم كو قائم كرنا _ ليكن تيرى زيادہ كوشش نماز كے متعلق ہونى چاہيے _ كيونكہ دين كا اقرار كرنے كے بعد نماز اسلام كا سب سے اہم ركن ہے ، لوگوں كو خدا اور قيامت كى ياد دلانا ، وعظ و نصيحت كو ياد ركھنا ، يہ ان كے لئے خدا كے پسنديدہ امور پر عمل كرنے كيلئے مدد گار ثابت ہوگا _ پھر معلمين كو ان ميں پھيلادينا اور اس خدا كى عبادت كرنا جس كى طرف تجھے پلٹ كرجانا ہے اور خدا كے سلسلہ ميں كسى ملامت كرنے والے كى ملامت سے مت ڈرنا_
1) تحف العقول ،ص 26_
291
خلاصہ :
1) دوسرے سياسى نظاموں سے دينى حكومت كو ممتاز كرنے والى ايك چيز اسلامى حكومت كے اہداف اور فرائض ہيں _
2) موجودہ دور ميں خصوصاً لبرل جمہوريت ميں نظريہ '' حكومت حداقل'' اور حكومت كے اہداف و فرائض كو محدود كرنے كى حمايت كى جاتى ہے _
3) لبرل جمہورى حكومتيں خير و سعادت اور اخلاق و معنويت جيسے امور كو انفرادى خصوصيات قرار ديتے ہوئے حكومت كے اہداف اور فرائض سے خارج سمجھتى ہے _
4)دينى حكومت كے اہداف و فرائض كى تحقيق و بررسى ''اسلام كى نگاہ ميں مقام حكومت كى وضاحت ''كے ساتھ مربوط ہے _
5) اسلام كى نظر ميں حكومت ايك سنگين ذمہ دارى اور عظيم امانت ہے ، اور حكومت كا حاصل كرلينا كسى مقام و منزلت يا كمال پر فائز ہونا نہيں ہے _
6)حكومت كى اہميت امانت الہى كى ادائيگى ميں ہے اور امانت كا ادا كرنا ان اہداف اور فرائض كے انجام دينے پر موقوف ہے جو حكومت اور حكمرانوں كيلئے مقرر كئے گئے ہيں _
7) دينى حكومت كے اہداف كو دو بنيادى قسموں يعني'' معنوى اہداف'' اور'' دنيوى اہداف'' ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _
8) آيات و روايات ميں حكومت كے معنوى اہداف پر بہت زور ديا گيا ہے _
سوالات :
1) حكومت كے اہداف اور فرائض كے متعلق لبرل ازم كا كيا نظريہ ہے ؟
2) لبرل جمہوريت كے معتقدين كے سياسى نظريہ ميں سعادت اور معنويت كا كيا مقام ہے ؟
3) اسلام كى نگاہ ميں حكومت كى حقيقت كيا ہے ؟
4) دينى حكومت كے ''معنوى اہداف ''سے كيا مراد ہے ؟
|