258
ستائيسواں سبق :
حكومتى حكم اور مصلحت
پہلے گذر چكا ہے كہ ''فقيہ عادل'' ولايت عامہ كا حامل ہوتا ہے اور اس كا حكومتى فرمان نہ صرف اس كے مقلدين كيلئے بلكہ دوسرے فقہاء اور ان كے مقلدين كيلئے بھى واجب الاطاعت ہوتا ہے _ يہاں چند سوال ہيں_ حكومتى حكم سے كيا مراد ہے؟ حكومتى حكم اور فتوى ميں كيا فرق ہے؟ حكومتى حكم كن مبانى كى بنياد پر صادر ہوتا ہے؟ كيا حكومتى حكم، قاضى كے حكم كى قسم سے ہے يا اس سے مختلف ہے؟ كيا حكومتى حكم ''فقہ كے احكام ثانويہ'' كى قسم سے ہے؟ كيا حكومتى احكام كے صدور كى كوئي مخصوص حد ہے؟ اس قسم كے سوالات، حكومتى حكم كى حقيقت و ماہيت ، مبنى اور اس كى حد ،كے متعلق بحث كے ضرورى ہونے كو آشكار كرتے ہيں_ اس لئے ضرورى ہے كہ پہلے حكم كى اقسام كى تحقيق و بررسى كى جائے_ تا كہ حكم حاكم اور دوسرے شرعى احكام اور فتوى كے درميان فرق واضح ہوجائے_
259
حكم كى اقسام
الف : شرعى حكم
حكم كى مشہورترين قسم، شرعى حكم ہے_ شرعى حكم سے مراد يہ ہے كہ اسے شارع مقدس نے ''وضع'' كياہو_ قوانين الہي، شرعى حكم كى واضح مثاليں ہيں_ شرعى حكم كو شارع مقدس صادر كرتا ہے_ اور اسى كے وضع كرنے سے وجود ميں آتا ہے_ شرعى حكم كى دو قسميں ہيں_حكم تكليفى اورحكم وضعي_ ''احكام تكليفي'' سے مراد وہ شرعى قوانين ہيں جو مكلفين كے افعال كے جائز يا ناجائز ہونے كے متعلق اظہار نظر كرتے ہيں_ اس قسم كے احكام اس بات كو واضح اور روشن كرتے ہيں كہ كونسے كام انجام دينا ضرورى ہيں ، اور كن كاموں سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_ كونسے كاموں كو انجام دينا بہتر ہے_ اور كونسے كاموں كو ترك كرنا بہتر ہے احكام تكليفى كى پانچ قسميں ہيں_ واجب ، حرام ، مستحب ، مكروہ اور مباح _
شرعى احكام كى دوسرى قسم'' احكام وضعي'' ہے_احكام وضعى بھى شارع مقدس كے وضع كردہ ہيں_ يہ احكام براہ راست مكلف كے فعل كے جائز يا ناجائز ہونے كے متعلق اظہار نظر نہيں كرتے_ احكام وضعى ميں شارع مقدس كے جعل كى وجہ سے شرعى معانى وجود ہيں آجائے ہيں جو'' مخصوص احكام تكليفى ''كا موضوع قرار پاتے ہيں_ مثلا طہارت ، نجاست ،مالكيت اور زوجيت و غيرہ وضعى احكام كے مصاديق ہيں_ نجاست كوئي تكليفى حكم نہيں ہے _ ليكن وہ امور جو شارع كے جعل كردہ اس حكم وضعى كے تحت نجس قرار ديئے گئے ہيں حكم تكليفى كا موضوع قرار پاتے ہيں _ ان كا كھانا پينا اور بعض موارد ميں ان كى خريد و فروخت، حرام ہوجاتى ہے_'' شرعى حكم'' كى اور بھى اقسام ہيں مثلا حكم ظاہرى ، حكم واقعي، حكم اوّلى اور حكم ثانوى و غيرہ كہ دوران بحث ان ميں سے بعض پر ايك نظر ڈاليں گے_
260
فقہاء كے اجتہاد كا معنى يہ ہے كہ منابع و مصادر سے شرعى حكم كو كشف كرنے كى كوشش كى جائے_ بنابريں مجتہد كافقہى فتوى در حقيقت شارع مقدس كے ''شرعى حكم كا بيان'' ہے_ فقيہ اپنے فتوى سے شرعى حكم جعل نہيں كرتا بلكہ شارع مقدس كے بنائے ہوئے حكم كو بيان كرتا ہے_ مقام استنباط ميں فقيہ اور مجتہد كا فريضہ شارع مقدس كے بنائے ہوئے شرعى حكم كو كشف كرنا ہے_
ب: قاضى كا حكم
تنازعات اور لڑائي جھگڑوں كى تحقيق كے بعد قاضى جو حكم صادر كرتا ہے وہ خود قاضى كا جعل كردہ حكم ہے_ فتوى كى قسم سے نہيں ہے_ كيونكہ فتوى جعل شارع كا بيان كرنا ہے جبكہ مقام قضاوت ميں قاضى حكم كوجعل كرتا ہے_اگر چہ قاضى كا حكم شرعى احكام سے غير مربوط نہيں ہوتا اور قاضى شرعى موازين كے مطابق حكم صادر كرتا ہے جھگڑوں كا فيصلہ كرتا ہے ليكن اس كا كام شرعى حكم كا بيان كرنا نہيں ہوتا بلكہ شرعى احكام كو مد نظر ركھتے ہوئے حكم صادر كرنا ہوتا ہے_ قاضى دونوں طرف كے دلائل سنتا ہے ، پھر ايك طرف'' قرائن و شواہد'' اور دوسرى طرف ''شرعى احكام اور قوانين'' كو مد نظر ركھتے ہوئے حكم صادر كرتا ہے_ پس قاضى كا حكم'' شرعى حكم'' كے علاوہ ايك الگ حكم ہے_
ج: حكومتى حكم
اب تك يہ معلوم ہو چكا ہے كہ فقيہ فتوى دينے كے علاوہ بھى حكم جعل كرسكتا ہے _ اور يہ جعل حكم ''مقام قضاوت'' ميں ہوتا ہے_ سوال يہ ہے كہ فقيہ عادل كا جعل كردہ حكم، فقط تنازعات كے حل اور جھگڑوں كے ختم كرنے تك محدود ہے؟ يقينى طور پر ايسے موارد آتے ہيں جہاں فقہاء نے يہ تسليم كيا ہے كہ ''فقيہ عادل'' تنازعات كے حل كے علاوہ دوسرے مقامات پر بھى حكم ''جعل'' كرسكتا ہے_
261
اس قسم كے احكام كے دو مشہور مورد ،''رؤيت ہلال ''اور ''حدود الہى كا اجرا'' ہيں_ شيعہ فقہاء نے صراحت سے كہا ہے كہ حدود الہى كا اجرا ،جامع الشرائط فقيہ كى خصوصيات ميں سے ہے اور ان حدود كا اجرا، حاكم شرعى كے حكم كا محتاج ہے _ حدود الہى كا اجرا، تنازعات كى قسم سے نہيں ہے تا كہ اسے قضاوت كے موارد ميں سے قرار ديا جائے_
اس بات كو تسليم كرنے كے بعد كہ فقيہ ''ولايت عام ''ركھتا ہے ، اور جامع الشرائط فقيہ كى ''ولايت '' فتوى دينے ، قضاوت اور بے بس افراد كى سرپرستى كرنے تك محدو دنہيں ہے_ وہ ولايت تدبيرى (سياسى ولايت) كا بھى حامل ہوتا ہے اور جانشينى كے قابل ، تمام امور ميں امام معصوم كا نائب ہوتا ہے_ حكومتى حكم كے صدور كو فقط ''رؤيت ہلال'' اور '' حدود الہى كے اجرا ''ميں منحصر نہيں كيا جاسكتا _ جواہر الكلام كے مصنف فقيہ كى ولايت عامہ كے حامى كے عنوان سے مقبولہ عمر ابن حنظلہ كے جملہ ''انى جعلتہ حاكماً'' كے اطلاق كے پيش نظر ''فقيہ عادل كے حكم كو قضاوت ميں منحصر نہيں سمجھتے'' بلكہ اس سے وسيع اور عام سمجھتے ہيں_ وہ اس مطلب كو حكم حاكم اور فتوى كے درميان فرق كى وجہ بيان كرنے كے ضمن ميں يوں ذكر كرتے ہيں_
''الظاہر أنّ المراد بالاولى الفتوي الإخبار عن اللہ تعالى بحكم شرعى متعلق بكلى ، كالقول بنجاسة ملا قى البول أو الخمر ... وأمّا الحكم فہو انشاء إنفاذ من الحاكم لا منہ تعالى لحكم شرعى أو وضعى أو موضوعہما فى شيء مخصوص_ و لكن ہل يشترط فيہ مقارنتہ لفصل خصومة كما ہو المتيقّن من أدلّتہ؟ لا أقل من الشك والاصل عدم ترتّب الآثار على غيرہ، أو لا يشترط; لظہور قولہ(ع) : '' إنّى جعلتُہ حاكماً'' فى أنّ لہ الانفاذ
262
والإلزام مطلقاً و يندرج فيہ قطع الخصومة التى ہى مورد السؤال، و من ہنالم يكن إشكال عندہم فى تعلّق الحكم بالہلال والحدود التى لا مخاصمة فيہا''(1)
ظاہراً فتوى سے مراد اللہ تعالى كے اس شرعى حكم كا بيان كرنا اور اسكى خبر ديناہے جو ايك كلى كے ساتھ مربوط ہوتا ہے، مثلا پيشاب يا شراب كے ساتھ لگنے والى شئے كا نجس ہونا ... جبكہ ''حكم'' خود حاكم كى طرف سے جعل كردہ ہے نہ كہ اللہ تعالى كى طرف سے كسى شرعى يا وضعى حكم كيلئے يا كسى مخصوص شئے كے موضوع كيلئے_ ليكن كيا اس جعل كردہ حكم ميں شرط ہے كہ صرف تنازعات كے متعلق ہو؟جيسا كہ ادلّہ سے بھى يقينى مقدار يہى معلوم ہوتى ہے يا كم از كم اگر يقينى مقدار نہ بھى ہو تو اس بات كا گمان ہے كہ ادلہ كى دلالت يہى ہے _ اور اصل يہ ہے كہ اس كے علاوہ كسى اور چيز پر يہ آثار مرتب نہيں ہوں گے، يا شرط نہيں ہے؟ كيونكہ معصوم كے قول '' ميں نے اسے تم پر حاكم قرار ديا ہے'' سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ اس كا حكم ہر لحاظ سے نافذ ہے _ اور تنازعات كے فيصلے بھى اسى حكم ميں آجاتے ہيں كہ جس كے متعلق خصوصى طور پر سوال كيا گيا ہے _ اسى لئے علماء اس بات كو تسليم كرتے ہيں كہ رؤيت ہلال اور اجرائے حدود، ميں حاكم كا حكم نافذ العمل ہے _ حالانكہ ان كا تعلق تنازعات سے نہيں ہے_
حكم كى يہ دوسرى اور تيسرى قسم اس لحاظ سے مشترك ہيں كہ دونوں فقيہ كے جعل اور انشاء ہيں اور شارع
كے جعل كو كشف كرنے يا بيان كرنے كى قسم سے نہيں ہيں_ البتہ ان دونوں ميں فرق يہ ہے كہ قاضى كا حكم، تنازعات اور جھگڑوں كے فيصلہ كرنے ميں منحصر ہے جبكہ حكومتى حكم تنازعات ميں محدود نہيں ہے_
1) جواہر الكلام، ج 40 ، ص 100_
263
حكومتى حكم كے صدور كى بنياد:
حاكم شرع اور فقيہ عادل كے حكم كى چند قسميں ہيں_ جيسا كہ پہلے گزر چكا ہے كہ ماہ مبارك رمضان، شوال اور دوسرے مہينوں كے آغاز كا اعلان، حاكم شرعى كے اختيارات ميں سے ہے_ اگر فقيہ عادل چاند ثابت ہونے كا اعلان كردے تو اس كى اطاعت واجب ہے _ اسى طرح حدود الہى كا اجرا بھى حكم حاكم كى اقسام ميں سے ہے _ اگر چہ شريعت ميں زانى ، محارب ( خدا و رسول سے جنگ كرنے والا)اور شارب الخمر كى حدود بيان كى گئي ہيں _ ليكن ان كے اجرا كيلئے فقيہ عادل كے حكم كى احتياج ہوتى ہے_ حاكم شرع كے احكام كى ايك اور قسم معاشرتى امور اور اسلامى معاشرہ كے اجتماعى مسائل كے ساتھ مربوط ہے حكومتى احكام كى يہى قسم اس وقت ہمارے زير بحث ہے_
اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ ہر سياسى اقتدار كا اہم ترين فريضہ شہريوں كو بعض امور كے انجام دينے اور بعض سے اجتناب كرنے كا پابند كرنا ہوتا ہے_ اجتماعى امور كا انتظام انہى پابنديوں اور امر و نہى كے سايہ ميں پروان چڑھتا ہے_ ولايت فقيہ پر مبتنى سياسى نظام ميں فقيہ عادل جو كہ حاكم شرع ہے عوام كو ان امور پر پابند كرنے كا حق ركھتا ہے اور اس كى حكومتى پابنديوں كى اطاعت شرعاً واجب ہے_
حكومتى احكام كے صدور كى بنياد مسلمانوں اور اسلامى نظام كى مصلحت ہے _ ولى فقيہ مسلمانوں كے مختلف امور كى مصلحت اور رعايت كى بنا پر اسلامى معاشرہ كے اموال ميں تصرف كرتا ہے اور مختلف امور كے انتظام كيلئے احكام صادر كرتا ہے _ امام خمينى اس بارے ميں فرماتے ہيں :
''فللفقيہ العادل جميع ما للرسول و الا ئمة (ع) مما يرجع الى الحكومة و السياسة و لا يعقل الفرق، لانّ الوالى _ آيّ شخص كان ہو مجرى ا حكام الشريعة والمقيم للحدود الإلہية والآخذ للخراج و سائر الماليات والمتصرّف فيہا بما ہو صلاح المسلمين _
264
فالنبيّ (ص) يضرب الزانى ما ة جلدة والإمام (ع) كذلك والفقيہ كذلك و يا خذون الصدقات بمنوال واحد و مع اقتضاء المصالح يا مرون الناس بالا وامر التى للوالي، و يجب إطاعتہم ''(1)
حكومت اور سياست سے متعلقہ تمام اختيارات جو رسولخدا (ص) اور ائمہ معصومين كو حاصل ہيں فقيہ عادل كو بھى حاصل ہيں_ ان ميں تفريق كرنا معقول نہيں ہے كيونكہ والى جو بھى ہو وہى شرعى احكام كو نافذ كرتا ہے، حدود الہيہ كو قائم كرتا ہے ، خراج اور دوسرے ماليات كو وصول كرتا ہے، اور انہيں مسلمانوں كے رفاہ عامہ كے امور ميں خرچ كرتا ہے_ رسولخدا (ص) زانى كو سو كوڑے مارسكتے ہيں_ امام بھى اسى طرح ہيں اور فقيہ بھى _ يہ سب ايك ہى ضابطہ كے مطابق صدقات وصول كرتے ہيں اور مصالح كى بنياد پر لوگوں كو ان اوامر كا حكم ديتے ہيں جو والى كے اختيار ميں ہيں اور لوگوں پر ان احكام كى اطاعت واجب ہے_
يہاں ايك اہم سوال پيش آتا ہے اور وہ يہ كہ وہ مصلحت جو حكومتى حكم كے صدور كى بنياد ہے، اسے اہميت كے لحاظ سے كس درجہ پر ہونا چاہيے كہ حاكم اس حكومتى حكم كے صادر كرنے پر مجبور ہوجائے؟ كيا ہر قسم كى مصلحت ايسے الزامى حكم كے صدور كيلئے كافى ہے؟ يا مصلحت كو اس قدر اہم ہونا چاہيے كہ اسے نظر انداز كرنے سے عسرو حرج اور اختلال نظام لازم آتا ہو؟
اس سوال كو دوسرے انداز سے بھى بيان كيا جاسكتا ہے _ ہم نے علم فقہ اور كلام سے يہ سمجھا ہے كہ ہر فعل كا شارع مقدس كے نزديك ايك'' حكم واقعي'' ہے اور افعال مكلفين ميں سے كوئي بھى فعل پنجگانہ احكام تكليفيہ سے خالى نہيں ہے_ بنابريں حكومتى احكام طبيعى طور پر اس فعل كے حكم واقعى كے مخالف ہوں گے_ بطور مثال تحريم تمباكوكے سلسلہ ميں ميرزا شيرازى كے حكومتى حكم كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے_ شريعت اسلام ميں تمباكو كا استعمال اور اس كى خريد و فروخت مباح ہے_ ليكن اس فقيہ كے حكومتى حكم كى وجہ سے وقتى طور پر اور ان
1) البيع ،امام خمينى ج 2 ص 467_
265
خاص حالات ميں تمباكو كا استعمال اور اس كى خريد و فروخت حرام ہوجاتى ہے _ اب سوال يہ ہے كہ كن موارد ميں مصلحت اور حالات كا تقاضا حكم واقعى كے ملاك( ہمارى مثال ميں اباحت كا ملاك ) پر مقدم ہوجاتے ہيں؟ كيا صرف اسى صورت ميں ہے كہ جب حكومتى حكم كے صدور كى مصلحت كو نظر انداز كرنے سے مومنين كيلئے عسرو حرج لازم آتا ہو اور نظام مسلمين كے اختلال كا باعث بنتا ہو تو فقيہ اس حكم واقعى كے مقابلہ ميں حكومتى حكم صادر كرسكتا ہے؟ يا صرف اگر اسلام اور مسلمين كى مصلحت ،احكام واقعى كے ملاك پر ترجيح ركھتى ہو تويہى ترجيح حكومتى حكم كے صدور كيلئے كافى ہے_ اگر چہ اضطرار ، عسر و حرج اور اختلال نظام كى حد تك نہ بھى پہنچے؟ اس سوال كا جواب اس نكتہ كى وضاحت پر موقوف ہے كہ كيا حكومتى حكم اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے يا احكام ثانوية ميں سے؟ اگر حكومتى حكم احكام ثانويہ ميں سے ہے تو اس كا صدور، اضطرار ، عسرو حرج يا اختلال نظام پر موقوف ہے_ دوسرے لفظوں ميں اگر ہم حكومتى حكم كو احكام ثانويہ ميں سے شمار كريں تو اس كا لازمہ يہ ہے كہ وہ مصلحت جو حكومتى حكم كے صدور كى بنياد ہے اسے اس قدر قابل اہميت ہونا چاہيے كہ اسے نظر انداز كرنے سے اختلال نظام مسلمين يا عسرو حرج لازم آتا ہو _ اس مجبورى ميں جب تك ايسے حالات ہيں فقيہ احكام اوليہ كے خلاف وقتى طور پر حكومتى حكم صادر كرے گا_
احكام اوّليہ اور ثانويہ:
پہلے گذر چكاہے كہ انسان كے تمام اختيارى افعال پنجگانہ احكام تكليفيہ ميں سے كسى ايك حكم كے حامل ہوتے ہيں_ بنابريں مكلفين كا ہر فعل ايك حكم اولى ركھتا ہے _ شارع مقدس نے ہر واقعہ اور فعل كے حكم اولى كو مصالح و مفاسد اور اس كے ذاتى اور واقعى ملاكات كے مطابق وضع كيا ہے _ افعال اور اشياء كے احكام اوّليہ ''ذات موضوع'' كو مد نظر ركھتے ہوئے وضع كيئےجاتے ہيں اور اس ميں كسى قسم كے خاص حالات كو پيش نظر نہيں ركھا جاتا _ مردار كا حكم اوّلى ''حرمت'' ہے ، حكم اولى يہ ہے كہ ماہ رمضان كا روزہ ہر مسلمان مكلف پر
266
واجب ہے ، حكم اولى يہ ہے كہ ہر مسلمان مكلف پر واجب ہے كہ وہ نمازپنجگانہ كيلئے وضو كرے_
كبھى خاص حالات پيش آجاتے ہيں كہ جن كى وجہ سے ''افعال كے حكم اولى ''كو بجا لاناممكن نہيںہوتا_ يہ حالات مكلف كو ايسے دوراہے پرلے آتے ہيں كہ اس كا'' احكام اوليہ'' پر عمل كرنا بہت مشكل ہوجاتا ہے اس صورت ميں شارع مقدس نے مكلف كيلئے ''احكام ثانويہ'' وضع كئے ہيں مثلا اگر چہ مردار كا كھانا حرام ہے، ليكن اگر مكلف اپنى جان بچانے كيلئے اس كے كھانے پر مجبور ہے تو اس صورت ميں اس كيلئے مردار حلال ہے_
'' فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا أثم عليہ '' (1)
اگر كوئي مضطر ہوجائے اور بغاوت كرنے والا اور ضرورت سے تجاوز كرنے والا نہ ہو تو اس پر كوئي گناہ نہيں ہے_
بنابريں اضطرار ايك عارضى عنوان ہے جو كہ مكلف كو ايك خاص حالت ميں عارض ہوكر سبب بنتا ہے كہ جب تك مكلف اس حالت ميں گرفتار ہے اس پر حكم اولى كى بجائےحكم ثانوى لاگو ہوگا _
حكم ثانوى اضطرار ، ضرر،اكراہ ، عسرو حرج اور اختلال نظام جيسے خاص عناوين كے ساتھ مربوط ہوتا ہے_ البتہ احكام اوّليہ اور ثانويہ دونوں حكم واقعى كى قسميں ہيں_ دونوں شارع مقدس كے جعل كردہ ہيں_ البتہ اتنا فرق ہے كہ حكم ثانوى كا مرتبہ حكم اولى كے بعد ہے_ يعنى حكم ثانوى كى بارى اس وقت آئے گى جب كوئي مخصوص عنوان اس پر عارض ہوجائے اور حكم اولى پر عمل كرنا ممكن نہ ہو_ دوسرا يہ كہ حكم ثانوى عارضى ہوتا ہے_
حكم اوّلى اور حكم ثانوى كى وضاحت كے بعد اب يہ ديكھنا ہے كہ حكومتى حكم احكام ثانويہ ميں سے ہے يا اوّليہ ميں سے؟
1) سورہ بقرہ آيت 173_
267
خلاصہ :
1) حكم كے تين مشہور معانى ہيں_ شرعى حكم ، قاضى كا حكم ، حكومتى حكم_
2) شرعى حكم سے مراد يہ ہے كہ اسے شارع مقدس نے وضع و جعل كيا ہے_
3)مجتہد كا فتوى شرعى حكم كا كشف و استنباط ہوتا ہے_ يعنى فقيہ مقام فتوى و استنباط ميں شرعى حكم كے بارے ميں خبر ديتا ہے_ اپنى طرف سے حكم جعل نہيں كرتا _
4) قاضى فيصلہ كے وقت اپنا حكم صادر كرتا ہے اور اس كا حكم فتوى كى قسم سے نہيں ہے_
5)فقيہ عادل كے اختيارات كو صرف ''مقام قضاوت ميں جعل حكم ''ميں منحصر نہيں كيا جاسكتا _
6)فقيہ كى ولايت عامہ كى بنياد پر ''حاكم شرع اور فقيہ عادل كے جعل حكم ''كو رؤيت ہلال اور حدود الہى كے نفاذ و اجرا ميں منحصر نہيں كيا جاسكتا _
7)حكومتى حكم اور حكم قاضى دونوں انشاء اور جعل ہيں_
8)حكومتى حكم كے صدور كى بنياد مسلمانوں اور اسلامى نظام كى مصلحت ہے_
9) كيا ہر قسم كى مصلحت حكومتى حكم كے صدور كى بنياد بن سكتى ہے؟ يا اسے اس قدر قابل اہميت ہونا چاہيے كہ اس كے نظر اندازكرنے سے عسروحرج اور اختلال نظام لازم آتا ہو؟
10) اس سوال كا جواب اس نكتہ كى وضاحت پر موقوف ہے كہ حكومتى حكم ،اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے يا احكام ثانويہ ميں سے_
11)احكام ثانويہ كا مرتبہ احكام اوّليہ كے بعد ہے_
268
سوالات :
1) حكم شرعى ، حكم تكليفى اور حكم وضعى سے كيا مراد ہے؟
2) حكم قاضى اور فتوى ميں كيا فرق ہے؟
3)حكومتى حكم اور قاضى كے حكم ميں كيا فرق ہے؟
4)حكومتى حكم كے صدور كى بنياد كيا ہے؟
5)حكم اوّلى اور حكم ثانوى كى بحث كا حكومتى احكام كى بحث ميں كيا كردار ہے؟
6) احكام ثانويہ كيا ہيں اور احكام اوليہ سے ان كا كيسا تعلق ہے؟
|