231
پچيسواں سبق :
رہبر كى شرائط اور خصوصيات
دوسرے سياسى مكاتب فكركے مقابلہ ميں اسلام كے سياسى تفكر كى امتيازى خصوصيات ميں سے ايك خصوصيت يہ ہے كہ يہ معاشرہ كے سياسى رہبر كيلئے مخصوص شرائط اور اوصاف كا قائل ہے_ آج كے رائج جمہورى نظاموں ميں محبوبيت اورووٹ حاصل كرنے كى صلاحيت كو بہت زيادہ اہميت دى جاتى ہے اورانہيں مكمل طور پر صاحبان اقتدار كے انفرادى كمالات اور خصوصيات پر ترجيح دى جاتى ہے_پروپيگنڈہ ، عوام پسند حركات اور پر كشش نعروں سے لوگوںكے اذہان كو ايك مخصوص سمت متوجہ كرنا اور پھر مقابلہ كے وقت لوگوں كى آراء كو اپنے حق ميں ہموار كرنا رائج جمہورى نظاموں ميں خصوصى اہميت ركھتاہے_
اس كے برعكس اسلام كے مطلوبہ سياسى نظام ميں وہى شخص ولايت كے منصب كا حامل ہوسكتا ہے جو مخصوص انفرادى كمالات اور فضائل كا حامل ہو_ يہاں ہم ان اوصاف ميں سے اہم ترين اوصاف كو ذكر كرتے ہوئے ان آيات و روايات كى طرف اشارہ كرتے ہيں جو ان اوصاف كے ضرورى ہونے كى شرعى ادلّہ ہيں_
232
الف : فقاہت
اسلامى معاشرہ كے حاكم كى واضح اور اہم ترين صفت اس كا اسلام اور دين كى اعلى تعليمات سے مكمل طور پر آگاہ ہونا ہے_ گذشتہ سبق ميں ہم اسلامى معاشرہ كے حاكم ميں اس شرط كے وجود كے فلسفہ كى طرف اشارہ كر چكے ہيں_ اس صفت كى اہميت اس نكتہ سے واضح ہوجاتى ہے كہ زمانہ غيبت ميں شيعوں كے سياسى نظام كے تعارف كيلئے اس صفت سے مدد حاصل كى جاتى ہے_ اور اس نظام كو ''ولايت فقيہ'' پر استوار كہا جاتاہے_ حالانكہ اسلامى معاشرہ كے حاكم كيلئے اور بھى شرائط ہيں_ ہم اس نظام كو'' ولايت عادل'' ، ''ولايت مدبر'' يا ''ولايت مومن و متقى '' پر استوار بھى كہہ سكتے ہيں كيونكہ يہ تمام اوصاف بھى اسلامى حاكم كيلئے شرط ہيں _ ليكن دوسرے اوصاف كى نسبت اس وصف'' فقاہت '' كى اہميت كى وجہ سے اسے دوسرے اوصاف پر ترجيح ديتے ہيںاور اسلامى معاشرہ كى ولايت كو ''ولايت فقيہ'' كے نام سے موسوم كرتے ہيں_
فقاہت كى شرط كا ''ولايت فقيہ ''كى روائي ادلّہسے واضح ثبوت ملتا ہے_ ہم نمونہ كے طور پر ان روايات كے بعض جملوں كى طرف اشارہ كرتے ہيں_
مقبولہ عمر ابن حنظلہ ميں ہے:
''من كان منكم ممّن قد روى حديثنا و نظر فى حلالنا و حرامنا و عرف احكامنا فليرضوا بہ حكما، فانّى قد جعلتہ عليكم حاكماً''(1)
تم ميں سے جس شخص نے ہمارى احاديث كى روايت كى ہو اورہمارے حلال و حرام ميں غور و
1) وسائل الشيعہ ج 27، ص 136، 137، باب 11 ، از ابواب صفات قاضى ح 1_
233
فكر كيا ہو اور ہمارے احكام سے واقف ہو اسے اپنا حَكَم( فيصلہ كرنے والا) قراردو كيونكہ ميں نے اسے تم پر حاكم بنايا ہے_
مشہورہ ابى خديجہ ميں امام صادق فرماتے ہيں:
''ولكن انظروا الى رجل منكم يعلم شيئاً من قضائنا فاجعلوہ بينكم''(1)
ليكن ديكھو تم ميں سے جو شخص ہمارى قضاوت سے واقف ہو اسے اپنے درميان ( قاضي) قراردو_
حضرت امير المومنين فرماتے ہيں:
قال رسول الله (ص) ''اللہم ارحم خلفائي'' ثلاث مرّات قيل يا رسول الله : و من خلفائك ؟ قال ''الذين ياتون من بعدى يروون حديثى و سنتي'' (2)
پيغمبر اكرم (ص) نے تين دفعہ فرمايا: خدايا ميرے خلفا پر رحم فرما پوچھا گيا يا رسول اللہ آپكے خلفا كون ہيں ؟ تو فرمايا جو ميرے بعد آئيں گے اور ميرى حديث و سنت كى روايت كريں گے_
توقيع امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف ميںہے:
''اما الحوادث الواقعة فارجعوا فيہا الى رواة احاديثنا''(3)
پيش آنے والے واقعات ميں ہمارى احاديث كے راويوں كى طرف رجوع كرو_
ولايت فقيہ كى ادلّہ روائي كى متعلقہ بحث ميں ہم نے ان روايات پر تفصلى بحث كى ہے اور ثابت كرچكے ہيں كہ '' رواة احاديث ''سے يہاں مراد صرف احاديث كو نقل كرنے والے نہيں بلكہ وہ علماء ہيں جو دين ميں
1) كافى ج 7 ، ص 412، كتاب القضا و الاحكام باب كراھية الارتفاع الى قضاة الجور ،ح 4_
2) كمال الدين ،شيخ صدوق ،ج 2 ، باب 45 ، ح 4_
3) عيون اخبار الرضا ،ج 2 ، ص 37 ، باب 31 ، ح 94_
234
سمجھ بوجھ ركھتے ہيں اور ائمہ معصومين كى احاديث كے مفاہيم اور دقيق اشارات سے آگاہ ہيں _ وگرنہ صرف نقل حديث مرجعيت اور ولايت كيلئے كافى نہيں ہے_
ب : عدالت
سياسى ولايت اور اجتماعى امور كى تدبير سے كم مرتبہ امور مثلاً امامت جماعت اور قضاوت ميں بھى شيعہ فقہا عدالت كو شرط سمجھتے ہيں _ پس اس سے انكار نہيں كيا جاسكتا كہ امت كى امامت جيسے عظيم امر جو كہ لوگوں كى سعادت اور مصالح كے ساتھ مربوط ہے ميں عدالت ايك بنيادى شرط ہے_
بہت سى آيات اور روايات سے استفادہ ہوتا ہے كہ فاسق اور ظالم كا اتباع جائز نہيں ہے_ قرآن مجيد ميں اللہ تعالى ہميںظالموں كى طرف جھكاؤ سے منع كرتا ہے_
''و لا تَركَنوا إلى الّذين ظَلَموا فتمسَّكم النار و ما لَكُم من دون الله من أولياء ثمّ لا تُنصرون''(1)
اور ظالموں كى طرف جھكاؤ مت اختيار كرو ورنہ جہنم كى آگ تمھيں چھولے گى اور خدا كے علاوہ تمھارا كوئي سر پرست نہيں ہے پھر تمہارى مدد بھى نہيں كى جائے گي_
ظالموں كى طرف تمايل اور ان پر تكيہ كرناان كى دوستى اور اتباع سے وسيع تر ايك مفہوم ہے _ پس غير عادل امام اور رہبر كى نصرت ، مدد اور اطاعت بھى اس ميں شامل ہے _ ظالموں كى طرف جھكاؤ كى وضاحت كے ذيل ميں على بن ابراہيم ايك روايت نقل كرتے ہيں:
''ركون مودّة و نصيحة و طاعة'' (2)
جھكاؤ سے مراد دوستى ، نصيحت اور اطاعت والا جھكاؤہے _
1) سورہ ہود آيت 113_
2) تفسير على ابن ابراہيم قمى ج 1 ، ص 338 ، اسى آيت كے ذيل ميں_
235
اللہ تعالى نے بہت سى آيات ميں لوگوں كومسرفين گناہگاروں اور ہوا پرست افراد كى اطاعت سے منع كيا ہے_ يہ تمام امور بے عدالتى كى علامت ہيں_
''و لا تُطيعوا أمرَ المُسرفين* الّذين يُفسدون فى الا رض و لا يُصلحون''(1)
اور زيادتى كرنے والوں كى اطاعت نہ كرو_ جو زمين ميں فساد برپا كرتے ہيں اور اصلاح نہيں كرتے_
''و لا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذكرنا و اتبع ہواہ و كان امرہ فرطاً''(2)
اور اس كى اطاعت نہ كرو جس كے قلب كو ہم نے اپنى ياد سے غافل كر ديا ہے وہ اپنى خواہشات كا تابع ہے اور اس كا كام سراسر زيادتى كرنا ہے_
بہت سى روايات ميں بھى امام اور رہبر كيلئے عدالت كو شرط قرار ديا گيا ہے_
حضرت امام حسين اہل كوفہ كو لكھتے ہيں:
''فلعمرى ما الامام الاّ الحاكم بالكتاب ، القائم بالقسط والدائن بدين اللہ''(3)
مجھے اپنى جان كى قسم امام وہى ہو سكتا ہے جو قرآن كے مطابق فيصلہ كرے، عدل و انصاف قائم كرے اور دين خدا پر عمل كرے_
1) سورہ شعراء آيت 151، 152_
2) سورہ كہف آيت 28_
3) ارشاد مفيد ج 2 ، ص 39_
236
امام باقر محمد ابن مسلم كو مخاطب كر كے فرماتے ہيں:
'' ...واللہ يا محمّد، مَن اصبح من ہذہ الا مة لا امامَ لہ من الله (عزوجل) ظاہر عادل أصبح ضالاً تائہاً ، و ان ماتَ على ہذہ الحالة مات ميتة كفر و نفاق و اعلم يا محمّد، أنّ أئمة الجور وأتباعہم لمعزولون عن دين الله قد ضلّوا و ا ضلّوا''(1)
اے محمد، خدا كى قسم اس امت ميں سے جس شخص نے خدا كى طرف سے مقرر كردہ امام عادل كے بغير صبح كى اس نے گمراہى اور ضلالت كى حالت ميں صبح كى اور اگر وہ اس حالت ميں مرگيا تووہ كفر و نفاق كى موت مرا _ اے محمد، جان لو يقيناً فاسق اور فاجر ائمہ اور ان كا اتباع كرنے والے دين خدا پر نہيں ہيں_ وہ خود بھى گمراہ ہيں اور دوسروں كو بھى گمراہ كرتے ہيں_
معاويہ كے سامنے امام حسن خطبہ ديتے ہوئے فرماتے ہيں: جو شخص ظلم كرے اور عدالت كى راہ سے ہٹ جائے وہ مسلمانوں كا خليفہ نہيں ہوسكتا_
''انما الخليفة مَن سار بكتاب اللہ و سنة نبيّہ (صلى الله عليہ وآلہ و سلم) و ليس الخليفة من سار بالجور''(2)
يقيناخليفہ وہى ہے جو كتاب خدا اور سنت رسول (ص) پر عمل كرے_ جو ظلم و جور كى راہ پر چلے وہ خليفہ نہيں ہے_
يہ آيات و روايات جن كى طرف ہم نے بطور نمونہ اشارہ كيا ہے _ ان سے معلوم ہوتا ہے كہ فاسق و فاجر اور ظالم شخص امت كا شرعى حاكم نہيں ہوسكتا اور غير عادل كى ولايت ولايت طاغوت كى اقسام ميں سے ہے_
1) كافى ج 1، ص 184، باب معرفة الامام و الرد عليہ ح 8_
2) مقاتل الطالبين، ابو الفرج اصفہانى ص 47_
237
ج : عقل ،تدبير ، قدرت ، امانت
مذكورہ بالا شرائط عقلائي پہلو كى حامل ہيں _ يعنى سرپرستى كا طبيعى تقاضا يہ ہے كہ انسان ان خصوصيات و شرائط كا حامل ہو اور لوگ ان صفات كو معاشرے كے منتظم كيلئے ضرورى سمجھتے ہيں_ آيات و روايات ميں بھى تاكيد كى گئي ہے كہ معمولى منصب پرفائز لوگوں كيلئے ان خصوصيات كا ہونا ضرورى ہے_
جبكہ معاشرہ كى امامت و رہبرى تو بہت بڑا منصب ہے_
ارشاد خداوندى ہے:
''لا تؤتوا السُفہائَ ا موالكم الّتى جعل الله لكم قياماً ''
ناسمجھ لوگوں كو اپنے وہ اموال نہ دو جن پر اللہ نے تمہارا نظام زندگى قائم كرركھاہے_(1)
جب بادشاہ مصر سے حضرت يوسف نے كہا كہ مجھے وزير خزانہ بنادے تو اپنى دو خصوصيات ''علم اور امانت دارى ''كو ذكر كيا _ يہ اس بات كى دليل ہے كہ معاشرہ كے رہبر كو ان خصوصيات كا حامل ہونا چاہيے_
'' قال اجعلنى على خزائن الارض انّى حفيظ عليم''(2)
كہا مجھے زمين كے خزانوں پر مقرر كردو ميں محافظ بھى ہوں اور صاحب علم بھي_
حضرت شعيبكى بيٹى نے جب حضرت شعيب كے اموال كى سرپرستى كيلئے حضرت موسى كا تعارف كروايا تو آپ (ع) كى خصوصيات ميں سے ''قدرت و توانائي ''اور '' امين'' ہونے كا خاص طور پر تذكرہ كيا _ لہذا معاشرہ كے سرپرست كو بطريق اولى ان خصوصيات كا حامل ہونا چاہيے_
'' قَالَت إحدَاہُمَا يَاأَبَت استَأجرہُ إنَّ خَيرَ مَن استَأجَرتَ
1) سورہ نساء آيت 5_
2) سورہ يوسف آيت 55_
238
القَويُّ الأَمينُ''(1)
ان ميں سے ايك لڑكى نے كہا اے بابا جان اسے اجير ركھ ليجيئے _ كيونكہ آپ جسے بھى اجير ركھيں گے ان ميں سے سب سے بہتر وہ ہوگا جو صاحب قوت بھى ہو اور امانتدار بھي_
حضرت على تاكيد فرماتے ہيں كہ امت كے امور كى باگ ڈور كم عقل، نالائق اور فاسق افراد كے ہاتھ ميں نہيں ہونى چاہيئے_
''و لكنَّنى آسى أن يليَ أمر ہذہ الا ُمَّة سُفہاؤُ ہا و فُجّارُہا ، فيتَّخذوا مالَ الله دُوَلاً و عبادَہ خَوَلاً والصالحين حَرباً والفاسقين حزباً''(2)
ليكن مجھے يہ غم رہے گا كہ اس امت كى حكومت بيوقوفوں اور فاجروں كے ہاتھ ميں آجائے گى ، وہ بيت المال پر قابض ہوجائيں گے، خدا كے بندوں كو غلام بناليں گے، نيك لوگوں سے لڑيں گے، اور بدكاروں سے دوستى كريںگے_
فضل ابن شاذان امام رضا سے روايت كرتے ہيں كہ ''امين امام'' كے نہ ہونے سے شريعت نابود ہوجاتى ہے_
''انّہ لو لم يَجعل لَہُم ، اماماً قَيّماً أميناً حافظاً مستودعاً لَدَرَست الملَّة''
اگر ان كيلئے امين ، حفاظت كرنے والا اور امانتدار امام قرار نہ ديا جائے تو ملت محو ہوجائے_(3)
1) سورہ قصص آيت 26_
2) نہج البلاغہ ، مكتوب 62_
3) علل الشرائع شيخ صدوق ،باب 182، ح 9 ، ص 253_
239
حضرت امير المؤمنين حسن تدبير اور سياست كو اطاعت كى شرط قرار ديتے ہوئے فرماتےہيں :
''من حسنت سياستہُ وجبت طاعتُہ''
جس كى سياست صالح ہو اس كى اطاعت واجب ہے_(1)
''مَن احسن الكفاية استحق الولاية''(2)
جو حسن تدبير ركھتا ہو وہ حكومت كا حقدار ہے_
ايك روايت ميں حضرت امير المؤمنين لشكريوں كے امور كى سرپرستى كيلئے علم ، حسن تدبير ، سياست اور حلم و بردبارى جيسى صفات كو ضرورى قرار ديتے ہيں _
''و لّ أمر جنودك أفضلہم فى نفسك حلماً وأجمعہم للعلم و حسن السياسة و صالح الا خلاق''(3)
تيرے لشكر كى سرپرستى اور كمانڈ اس شخص كے ہاتھ ميں ہونى چاہيئے جو تيرے نزديك ان سب سے زيادہ بردبار ہو _ علم ، حسن سياست اور اچھے اخلاق كا حامل ہو_
ولايت اور رہبرى كى اہم ترين صفات اور شرائط ہم بيان كرچكے ہيں _ ليكن ايك اہم اور قابل توجہ بحث يہ ہے كہ كيا فقہ ميں اعلميت ( سب سے زيادہ فقہ كو جاننے والاہونا) بھى معاشرہ كى امامت اور ولايت كيلئے شرط ہے؟ اس بحث كو ''فقاہت'' كے شرط ہونے كو ثابت كرنے كے بعد ذكر كيا جاتا ہے_
1) غرر الحكم آمدي،ج 5 ، ص 211، ح 8025_
2) غرر الحكم ، صفحہ 349 حديث 8692_
3) دعائم الاسلام ج 1 ص 358_
240
فقہ ميں اعلميت كى شرط
سياسى ولايت اور رہبرى كى شروط كى بحث كا ايك اہم نكتہ ''اعتبار اعلميت ''ہے _ يعنى كيا ضرورى ہے كہ ولى فقيہ شرعى احكام كے استنباط اور قوت اجتہاد ميں دوسرے تمام فقہاء سے زيادہ اعلم ہو؟ جامع الشرائط فقيہ مختلف ولايات كا حامل ہوتا ہے_ شرعى فتاوى دينا اس كى شان ہے ،منصب قضاوت پر فائز ہوتا ہے_ امور حسبيہ پر ولايت ركھتا ہے_ ولايت عامہ اور حاكميت كا حامل ہوتا ہے_ سوال يہ ہے كہ ان تمام ولايات ميں فقہى اعلميت شرط ہے؟ فقيہ كے بعض امور و اوصاف ميں اعلميت كى شرط زيادہ كار آمد ہے_ مثلاً منصب قضاوت كى نسبت فتوى دينے اور مرجعيت كيلئے فقہ ميں اعلميت كى شرط زيادہ مناسبت ركھتى ہے كيونكہ اگر منصب قضاوت كيلئے اعلميت كو شرط قرار ديں تو اس كا لازمہ يہ ہے كہ تمام اسلامى ممالك ميں صرف ايك ہى قاضى ہو_ اور يہ عسر و حرج اور شيعوں كے امور كے مختل ہونے كا باعث بنے گا_ اب بحث اس ميں ہے كہ كيا ''ولايت تدبيرى ''اور '' سياسى حاكميت'' قضاوت كى مثل ہے يا فتوى كى مثل ؟ اور كيا فقہى اعلميت اس ميں شرط ہے؟
اگر ہم روايات كو ان كى سند كے ضعف و قوت سے قطع نظر كركے ديكھيں تو ان سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ '' اعلميت شرط'' ہے _ كتاب سليم ابن قيس ہلالى ميں حضرت اميرالمؤمنين سے روايت كى گئي ہے كہ :
''ا فينبغى أن يكونَ الخليفة على الا ُمّة الاّ اعلمہم بكتاب الله و سنّة نبيّہ و قد قال الله : (أفمن يَہدى الى الحقّ أحقّ أن يتّبع أمّن لا يَہدّى إلاّ أن يُہدي)(1)
1) كتاب سليم بن قيس ہلالي، ص 118_
241
امت پر خليفہ وہى ہو سكتا ہے جو دوسروں كى نسبت كتاب خدا اور سنت رسول (ص) كو زيادہ جانتا ہو _ كيونكہ اللہ تعالى فرماتا ہے : كيا جو شخص حق كى طرف ہدايت كرتا ہے زيادہ حقدار ہے كہ اس كا اتباع كيا جائے يا وہ شخص جو ہدايت كرنے كے قابل نہيں ہے بلكہ يہ كہ خود اس كى ہدايت كى جائے_
برقى اپنى كتاب ''المحاسن'' ميں رسولخدا (ص) سے روايت كرتے ہيں:
''مَن أمّ قوماً و فيہم أعلم منہ أو أفقہ منہ لَم يَزَل أمرہم فى سفال الى يوم القيامة''(1)
جب كسى قوم كا حاكم ايسا شخص بن جاتا ہے كہ اس قوم ميں اس سے زيادہ علم ركھنے والا اور اس سے بڑا فقيہ موجودہو تو قيامت تك وہ قوم پستى كى طرف گرتى رہے گے_
معاويہ كے سامنے امام حسن خطبہ ديتے ہوئے فرماتے ہيں:
''قال رسول الله (ص) :'' ما ولّت أُمة أمرہا رجلاً قطّ و فيہم من ہو أعلم منہ الاّ لم يزل أمرہم يذہب سفالاً حتّى يرجعوا الى ما تركوا''(2)
رسولخدا (ص) نے فرمايا ہے كہ جب امت اپنى حكومت ايسے شخص كے حوالہ كرديتى ہے جس سے زيادہ علم ركھنے والے موجو د ہوں تو وہ امت ہميشہ پستى اور زوال كى طرف بڑھتى رہتى ہے _ يہاں تك كہ اسكى طرف پلٹ آئيں جسے انہوں نے ترك كيا تھا_
1) المحاسن برقى ،ج 1 ، ص 93 ، ح 49_
2) غاية المرام ،بحراني، ص 298_
242
اس مسئلہ كے حل كيلئے درج ذيل نكات پر غور كرنا ضرورى ہے_
1_ شيعہ فقہاء كے اقوال كا مطالعہ كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ فتوى ، تقليد اور مرجعيت كے علاوہ كسى اور امر ميں اعلميت شرط نہيں ہے_ جنہوں نے اعلميت كو شرط سمجھا ہے انہوں نے اسے مرجعيت اور تقليد ميں منحصر قرار ديا ہے_آيت اللہ سيد كاظم طباطبائي كتاب ''العروة الوثقى '' ''جو كہ بعد والے فقہاء كيلئے ہميشہ سے قابل توجہ رہى ہے '' ميں كہتے ہيں:
لا يعتبر الأعلمية فى ما أمرہ راجع إلى المجتہد إلاّ فى التقليد ; و أمّا الولاية ... فلا يعتبر فيہا الأعلمية(1)
مجتہدكے ساتھ مربوط امور ميں سے تقليد كے علاوہ كسى ميں اعلميت شرط نہيں ہے، ولايت ...ميں بھى اعلميت شرط نہيں ہے_
وہ فقہاء جنہوں نے كتاب العروة الوثقى پر حواشى تحرير فرمائے ہيں انہوں نے بھى اس مسئلہ كو قبول كيا ہے_ بنابريں آيت اللہ حائرى ، آيت اللہ نائينى ، آيت اللہ ضياء عراقى ، آيت اللہ كاشف الغطائ، سيد ابوالحسن اصفہانى ، آيت اللہ بروجردى ، سيد احمد خوانسارى ، امام خمينى ، آيت اللہ ميلانى ، آيت اللہ گلپايگانى ، آيت اللہ خوئي ، آيت اللہ محسن حكيم اور آيت اللہ محمود شاہرودى (رحمة اللہ عليہم) بھى حاكم شرعى كيلئے فقہى اعلميت كو شرط قرار نہيں ديتے_
شيخ انصارى (رحمة اللہ عليہ) بھى اختلاف فتوى كے وقت اعلميت كو معتبر سمجھتے ہيں حاكم شرع كى ولايت ميں اسے شرط قرار نہيں ديتے_
1) العروة الوثقى ،مسئلہ 68، اجتہاد و تقليد_
243
آپ فرماتے ہيں :
''و كذا القول فى سائر مناصب الحكم كالتصرّف فى مال الإمام و تولّى أمر الأيتام و الغيّب و نحو ذلك; فإنّ الاعلمية لا تكون مرجّحاً فى مقام النصب و إنّما ہو مع الاختلاف فى الفتوى ''(1)
اور يہى قول تمام مناصب حكم ميں جارى ہے_ مثلا مال امام ميں تصرف ، يتيموں اور غائب كے امور كى سرپرستى و غيرہ ، كيونكہ ان سب مناصب ميں اعلميت كو ترجيح حاصل نہيں ہے البتہ جب فتاوى ميں اختلاف ہوجائے تو اس وقت اعلميت كو ترجيح دى جائے گى _
صاحب جواہر كہتے ہيں : نصب ولايت كے متعلق جو نصوص اور روايات ہيں ان ميں فقاہت كى شرط ہے نہ كہ اعلميت كى _
''بل لعل اصل تأہل المفضول و كونہ منصوباً يجرى على قبضہ و ولايتہ مجرى قبض الافضل من القطعيات التى لاينبغى الوسوسة فيہا، خصوصاً بعد ملاحظة نصوص النصب الظاہرة فى نصب الجميع الموصوفين بالوصف المذبور لا الافضل منہم، والا لوجب القول '' انظروا الى الافضل منكم'' لا ''رجل منكم'' كما ہو واضح بأدنى تأمّل''(2)
1) التقليد ،شيخ انصارى ،ص 67_
2) جواہر الكلام ،ج 40، ص 44، 45_
244
2_اجتماعى امور كى تدبير كيلئے حكم كى شناخت كے علاوہ موضوع كى پہچان اورشناخت بھى ضرورى ہے _ دوسرے لفظوں ميں معاشرے كے امور كے انتظام اورتدبير كيلئے فقط جزئي احكام اور فقہى فروعات كے استنباط كى صلاحيت كافى نہيں ہے _ بنابريں ممكن ہے ان روايات ميں موجود لفظ اعلميت سے مراد يہ ہو كہ حكم اور موضوع كى شناخت سميت ہر لحاظ سے توانائي اور صلاحيت ركھتا ہو، يعنى وہ امت جس ميں ايك ايسا شخص موجود ہو جو انتظامى امور كے سلسلہ ميں اعلم ہو اور علمى اور عملى صلاحيت كے لحاظ سے دوسروں سے آگے ہو، اسے چھوڑ كر اپنے امور اس شخص كے حوالہ كرنا جو اعلم نہيں ہے كبھى بھى سعادت و كاميابى كا باعث نہيں بن سكتا_
3_فقاہت اور اجتہاد كے مختلف پہلو ہيں; ممكن ہے ايك فقيہ عبادات كے باب ميں اعلم ہو ، دوسرا معاملات ميں اور تيسرا اجتماعى اور سياسى امور ميں اعلم ہو_
حكم اور موضوع كى مناسبت كا تقاضا يہ ہے كہ اگر اعلميت كى شرط پر مصرّ رہيں تو پھر اجتماعى اور سياسى امور ميں اعلميت ''سياسى رہبر اور ولى ''كيلئے معيار ہونى چاہيے كيونكہ صرف عبادات يا معاملات ميں اعلميت'' سياسى ولايت'' كيلئے ترجيح كا باعث نہيں بنتى _بعض روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ معاشرتى اور سياسى امور ميں ''اعلميت'' معيار ہے _ مثلا اس روايت ميں '' فيہ'' كى ضمير اعلميت كو حكومت ميں محدود كر رہى ہے_
''ايہا الناس، انّ احق الناس بہذا الامر ا قواہم عليہ، و اعلمہم با مر اللہ فيہ''(1)
اے لوگو حكومت كرنے كا سب سے زيادہ حقدار وہ ہے جو اس پر سب سے زيادہ قادر ہو اور اس حكومت كے سلسلہ ميں دوسروں كى نسبت امر خدا كو زيادہ جانتا ہو _
1) نہج البلاغہ خطبہ 173_
245
خلاصہ :
1) اسلام كے سياسى نظام كى ايك خصوصيت يہ ہے كہ وہ سياسى اقتدار كيلئے ذاتى اور انفرادى خصوصيات اور كمالات كا بھى قائل ہے_
2) اسلامى معاشرہ كے حاكم كى اہم ترين صفت ''فقاہت'' اور اسلام كے بارے ميں مكمل اور عميق آگاہى ہے_
3) ولايت فقيہ كى ادلّہ روائي سے ''فقاہت كى شرط'' كا صاف پتہ چلتا ہے_
4)بہت سى نصوص ميں شيعوں كو احاديث كى روايت كرنے والے راويوںكى طرف رجوع كرنے كى ترغيب دلائي گئي ہے كہ جس سے مراد فقہاء ہيں، كيونكہ فقاہت اور تفكر كے بغير فقط احاديث كا نقل كرنا مرجعيت كيلئے كافى نہيں ہے_
5)اسلامى حاكم كى دوسرى اہم ترين شرط اسكا ''عادل'' ہوناہے_
6)قرآن مجيد ميں اللہ تعالى نے مختلف آيات كے ذريعہ لوگوں كو ان افراد كى اطاعت كرنے سے منع كيا ہے جن ميں كسى لحاظ سے بے عدالتى ہو_
7) ادلّہ روائي سے معلوم ہوتا ہے كہ فاسق و فاجر كى ولايت ، ''ولايت طاغوت ''كى قسم ہے_
8)رہبرى اور حاكميت كى بعض صفات اور شرائط مثلا ً عقل ، حسن تدبير اور صلاحيت، عقلائي پہلو كى حامل ہيں_
9) شرائط رہبرى كى مباحث ميں سے ايك اہم بحث اعلميت كى شرط كا معتبر ہونا ہے_
10) اكثرفقہا كى نظر ميں اعلميت فتوى كى شرط ہے_ ليكن فقيہ كى دوسرى ذمہ داريوں مثلا قضاوت اور امور حسبيہ كى سرپرستى ايسے امور كيلئے اعلميت شرط نہيں ہے_
246
11) معاشرتى امور كى تدبير كيلئے حكم كى شناخت كے علاوہ موضوع كى شناخت ، سياسى حالات سے آگاہى اور داخلى و عالمى روابط كے متعلق معلومات بھى ضرورى ہيں لہذا بعض روايات ميں جو اعلميت كو شرط قرار ديا گيا ہے اسے صرف حكم كى شناخت كے استنباط ميں محدود نہيں كيا جاسكتا_
سوالات :
1) سياسى ولايت ميں '' فقاہت كى شرط''پر كيا دليل ہے؟
2) سياسى ولايت ميں عدالت كى شرط كى بعض ادلّہ كو اختصار كے ساتھ بيان كيجئے_
3)استنباط ميں اعلميت ،شرعى ولايت كى كونسى قسم كے ساتھ زيادہ مناسبت ركھتى ہے؟
4)قضاوت كے منصب كيلئے اعلميت شرط نہيں ہے _كيوں؟
5)كيا ''سياسى ولايت ''ميں ''اعلميت'' شرط ہے؟
|