اسلامی نظریہ حکومت
  211
تيئيسواں سبق :
ولايت فقيہ پر عقلى دليل
ہم گذشتہ چند اسباق ميں ولايت فقيہ كى اصلى ترين ادلّہ روائي پر نظر ڈال چكے ہيں اب ولايت فقيہ پر قائم عقلى ادلّہ كى تحقيق و بررسى كرتے ہيں _
ہمارے علماء نے ہميشہ نبوت اور امامت كى بحث ميں عقلى ادلّہ سے استدلال كيا ہے '' برہان عقلى '' عقلى اور يقينى مقدمات سے تشكيل پاتا ہے _ يہ مقدمات چار خصوصيات يعنى كليت ، ذاتيت، دوام اور ضرورت كے حامل ہونے چاہي ں_
اسى وجہ سے ان سے جو نتيجہ حاصل ہوتا ہے وہ بھى كلى ، دائمى ، ضرورى اور ذاتى ہوتا ہے اور كبھى بھى جزئي يا افراد سے متعلق نہيں ہوتا_ اسى وجہ سے نبوت اور امامت كے متعلق جو برہان قائم كئے جاتے ہيں وہ كسى خاص شخص كى نبوت يا امامت كے متعلق نہيں ہوتے _ اور نہ ہى كسى خاص فرد كى نبوت يا امامت كو ثابت كرتے ہيں _ بنابريں ولايت فقيہ كے مسئلہ ميں بھى وہ عقلى دليل جو خالصةً عقلى مقدمات سے تشكيل پاتى ہے جامع الشرائط

212
فقيہ كى اصل ولايت كو ثابت كرتى ہے _اور يہ كہ كونسا ''فقيہ جامع الشرائط ''اس ولايت كا حامل ہو ؟يہ ايك جزئي اور فردى امر ہے لہذا اس كا تعيّن عقلى دليل سے نہيں ہوگا _(1)
دليل عقلى كى دو قسميں ہيں _
الف: عقلى محض ب: عقلى ملفّق
دليل عقلى محض وہ دليل ہے جس كے تمام مقدمات خالصةً عقلى ہوں اور ان ميں كسى شرعى مقدمہ سے استفادہ نہ كيا گيا ہو _
دليل عقلى ملّفق يا مركب وہ دليل عقلى ہے جس كے بعض مقدمات شرعى ہوں مثلاً آيات يا روايات يا كسى شرعى حكم سے مدد لى گئي ہو اور اس برہان كے تمام مقدمات خالصةً عقلى نہ ہوں _ولايت فقيہ كے باب ميں ان دونوں قسم كى عقلى ادلّہ سے استدلال كيا گيا ہے _ ہم بھى اس سبق ميں بطور نمونہ دونوں قسموں سے ايك ايك نمونہ ذكر كريں گے _
ولايت فقيہ كى عقلى ادلّہ كے بيان كرنے سے پہلے دو نكات كا ذكر كرنا ضرورى ہے _
اس ميں كوئي مانع نہيں ہے كہ عقلى دليل كا نتيجہ ايك شرعى حكم ہو _كيونكہ عقل بھى شرعى احكام كے منابع ميں سے ہے اور شارع مقدس كى نظر كو كشف كرسكتى ہے _ علم اصول ميں مستقلات عقليہ اور غير مستقلات عقليہ پر تفصيلى بحث كى گئي ہے اور علماء علم اصول نے بتايا ہے كہ كن شرائط پر عقل شرعى حكم كو كشف كرسكتى ہے _ شرعى حكم كے استنباط ميں عقلى دليل كا بھى وہى كردار ہے جو دوسرى شرعى ادلّہ كا ہے شارع مقدس كى نظر كو كشف كرنے
1) ولايت فقيہ، عبدالله جوادى آملى ،صفحہ 151_
213
ميں عقلى دليل كا قابل اعتبار ہونا اپنى جگہ پر ثابت ہوچكا ہے بنابريں ولايت فقيہ پر '' دليل عقلى محض'' مستقلات عقليہ كى قسم سے ہے اور مستقلات عقليہ ميںكسى نقلى دليل سے مدد نہيں لى جاتى _
دوسرا نكتہ: يہ ہے كہ امامت اور نبوت پر قائم عقليدليل كى تاريخ بہت پرانى ہے _ ليكن ولايت فقيہ پر عقلى دليلبعد والے ادوار ميں قائم كى گئي ہے _ محقق نراقى پہلے شخص ہيں جنہوں نے ولايت فقيہ كے اثبات كيلئے عقلى دليل كا سہارا ليا ہے پھر ان كے بعد آنے والے فقہاء نے اسے آگے بڑھايا ہے _ مختلف طرز كى عقلى ادلّہ كى وجہ ان كے مقدمات كا مختلف ہونا ہے اور بہت سے موارد ميں ايك مشترك كبرى مثلاً ''قاعدہ لطف ''يا ''حكمت الہى ''سے مدد لى گئي ہے _

ولايت فقيہ پر دليل عقلى محض
نبوت عامہ كى ضرورت پرفلاسفہ كى مشہور برہان كو اس طرح بيان كيا جاسكتا ہے كہ جس كا نتيجہ نہ صرف ''ضرورت نبوت ''بلكہ ''ضرورت امامت'' نيز ''ضرورت نصب فقيہ عادل ''كى صورت ميں سامنے آئے _ يہ برہان جو كہ ''معاشرہ ميں ضرورت نظم ''كى بنياد پر قائم ہے قانون خدا اور اسكے مجرى كے ضرورى ہونے كو ثابت كرتى ہے _ قانون كو جارى كرنے والا پہلے مرحلہ ميں نبى ہوتا ہے اس كے بعد اسكا معصوم وصى اور جب نبى اور امام معصوم نہ ہوں تو پھر ''قانون شناس فقيہ عادل'' كى بار ى آتى ہے _ بوعلى سينا جيسے فلاسفر كہ جنہوں نے اس برہان سے تمسك كيا ہے نے اسے اس طرح بيان كيا ہے كہ وہ صرف ''اثبات نبوت'' اور ''بعثت انبياء كے ضرورى ہونے'' كيلئے كار آمد ہے _(1)
1) الالہيات من الشفاء ،صفحہ 487، 488_ المقالة العاشرہ، الفصل الثانى _
214
ليكن ہمارا مدعا يہ ہے كہ اسے اس طرح بيان كيا جاسكتا ہے كہ امام معصوم كى امامت اور فقيہ عادل كى ولايت كے اثبات كيلئے بھى سودمند ثابت ہو _ اس برہان كے مقدمات درج ذيل ہيں :
1_ انسان ايك اجتماعى موجود ہے اور طبيعى سى بات ہے كہ ہر اجتماع ميں تنازعات اور اختلافات رونما ہوتے ہيں _ اسى لئے انسانى معاشرہ نظم و ضبط كا محتاج ہے _
2_ انسان كى اجتماعى زندگى كا نظم و ضبط اس طرح ہونا چاہيے كہ وہ انسانوں كى انفرادى اور اجتماعى سعادت اور كمال كا حامل ہو _
3_ اجتماعى زندگى كا ايسا نظم و ضبط جو ناروا اختلافات اور تنازعات سے مبرّا اور انسان كى معنوى سعادت كا ضامن ہو وہ مناسب قوانين اور شايستہ مجرى قانون ( قانون جارى كرنے والا) كے بغير ناممكن ہے _
4_ خدا تعالى كى مداخلت كے بغيرتنہا انسان اجتماعى زندگى كے مطلوبہ نظم و ضبط كے قائم كرنے كى قدرت نہيں ركھتا _
5_ خدائي قوانين اور معارف الہى كے كسى نقص و تصرف كے بغير مكمل طور پر انسان تك پہنچنے كيلئے ضرورى ہے كہ اس كولانے اور حفاظت كرنے والا'' معصوم ''ہو _
6_ دين كامل كى تبيين اور اس كے اجرا كيلئے وصى اور امام معصوم كى ضرورت ہے _
7_ اور جب نبى اور امام معصوم نہ ہوں تو پھر مذكورہ ہدف( مطلوبہ اجتماعى زندگى اور قوانين الہى كا نفاذ ) وحى شناس اور اس پر عمل كرنے والے رہبر كے بغير حاصل كرنا ممكن نہيں ہے _
اس برہان كا چھٹا مقدمہ'' تقرر امام'' كى ضرورت كيلئے سود مند ہے جبكہ ساتواں مقدمہ زمانہ غيبت ميں رہبر كے تقرركى ضرورت كو ثابت كرتا ہے _

215
اسى برہان كو آيت ا لله جوادى آملى نے يوں بيان كيا ہے :
انسان كى اجتماعى زندگى اور اس كا انفرادى اور معنوى كمال ايك طرف تو ايسے الہى قانون كا محتاج ہے جو انفرادى اور اجتماعى لحاظ سے ہر قسم كے ضعف و نقص اور خطا و نسيان سے محفوظ ہو اور دوسرى طرف اس قانون كامل كے نفاذ كيلئے ايك دينى حكومت اور عالم و عادل حكمران كى ضرورت ہے _ انسان كى انفرادى يا اجتماعى زندگى ان دو كے بغير يا ان ميں سے ايك كے ساتھ متحقق نہيں ہو سكتى _ اجتماعى زندگى ميں ان دو كا فقدان معاشرہ كى تباہى و بربادى اور فساد و خرابى كا باعث بنتا ہے جس پر كوئي بھى عقلمند انسان راضى نہيں ہوسكتا يہ عقلى برہان كسى خاص زمانہ يا مقام كے ساتھ مخصوص نہيں ہے _ زمانہ انبيائ بھى اس ميں شامل ہے كہ جس كا نتيجہ ضرورت نبوت ہے اور آنحضرت (ص) كى نبوت كے بعد والا زمانہ بھى اس ميں شامل ہے كہ جس كا نتيجہ ضرورت امامت ہے اسى طرح امام معصوم كى غيبت كا زمانہ بھى اس ميں شامل ہے كہ جس كا نتيجہ ''ضرورت ولايت فقيہ ''ہے _(1)
''دليل عقلى محض ''صرف مذكورہ دليل ميں محدود نہيں ہے بلكہ اس كے علاوہ بھى براہين موجود ہيں جو خالصةً عقلى مقدمات سے تشكيل پاتى ہيں اور زمانہ غيبت ميں نصب ولى كى ضرورت كو ثابت كرتى ہيں _

دليل عقلى ملفق
ولايت فقيہ كى عقلى دليل كو بعض شرعى دلائل اور مقدمات عقليہ كى مدد سے بھى قائم كيا جاسكتا ہے _ يہاں ہم اس طرح كے دو براہين كى طرف اشارہ كرتے ہيں _
استاد الفقہاء آيت الله بروجردى درج ذيل عقلى اور نقلى مقدمات كى مدد سے فقيہ كى ولايت عامہ كو ثابت كرتے ہيں _
1) ولايت فقيہ صفحہ 151، 152_
216
1_ معاشرہ كا رہبر ايسى ضروريات كو پورا كرتا ہے جن پر اجتماعى نظام كى حفاظت موقوف ہوتى ہے _
2_ اسلام نے ان عمومى ضروريات كے متعلق خاص احكام بيان كئے ہيں اور ان كے اجرا كى ذمہ دارى مسلمانوں كے حاكم اور والى پر عائد كى ہے_
3_ صدر اسلام ميں مسلمانوں كے قائد اور راہنما رسول خدا (ص) تھے اور ان كے بعد ائمہ معصومين اور معاشرے كے امور كا انتظام ان كا فريضہ تھا _
4_ سياسى مسائل اور معاشرتى امور كى تدبير و تنظيم اس زمانے كے ساتھ مخصوص نہيں تھى _ بلكہ ان مسائل كا تعلق ہر زمانہ اور ہر جگہ كے مسلمانوں سے ہے _ ائمہ معصومين كے دور ميں شيعوں كے پراگندہ ہونے كى وجہ سے آسانى كے ساتھ ا ئمہ تك ان كى دسترسى ممكن نہيں تھى _ اس كے باوجود ہميںيقين ہے كہ آپ نے ان كے امور كى تدبير و انتظام كيلئے كسى كو ضرور مقرر كيا ہوگا تا كہ شيعوں كے امور مختل نہ ہوں _ ہم يہ تصور بھى نہيں كرسكتے كہ ايك طرف زمانہ غيبت ميں ائمہ معصو مين نے لوگوں كو طاغوت كى طرف رجوع كرنے سے منع كيا ہو اور دوسرى طرف سياسى مسائل ، تنازعات كے فيصلے اور دوسرى اجتماعى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے كسى كو مقرر بھى نہ كيا ہو _
5_ ائمہ معصومين كى طرف سے والى اور حاكم كے تقرر كے ضرورى ہونے كو ديكھتے ہوئے فقيہ عادل اس منصب كيلئے متعين ہے _ كيونكہ اس منصب پر غير فقيہ كے تقرر كا كوئي بھى قائل نہيں ہے _ پس صرف دو احتمال ممكن ہيں _
الف : ائمہ معصومين نے اس سلسلہ ميں كسى كو مقرر نہيں كيا صرف انہيں طاغوت كى طرف رجوع كرنے سے منع كيا ہے _

217
ب: اس ذمہ دارى كيلئے فقيہ عادل كو مقرر كيا ہے _
مذكورہ بالا چار مقدمات كى رو سے پہلا احتمال يقينى طور پر باطل ہے _ پس قطعى طور پر فقيہ عادل كو ولايت پر منصوب كيا گيا ہے _ (1)
آيت الله جوادى آملى اس ''دليل عقلى مركب ''كو يوں بيان كرتے ہيں :
دين اسلام كا قيامت تك باقى رہنا ايك قطعى اور واضح سى بات ہے ... زمانہ غيبت ميں اسلام كا تعطل كا شكار ہوجانا، عقائد ، اخلاق اور اعمال ميں اسلام كى ابديت كے منافى ہے _ اسلامى نظام كى تأسيس ، اس كے احكام اور حدود كانفاذ اور دشمنوں سے اس دين مبين كى حفاظت ايسى چيز نہيں ہے كہ جس كى مطلوبيت اور ضرورى ہونے ميں كسى كو ترديد و شك ہو _ حدود الہى اور لوگوں كى ہتك حرمت ، لوگوں كى ضلالت و گمراہى اور اسلام كا تعطل كا شكار ہوجانا كبھى بھى الله تعالى كيلئے قابل قبول نہيں ہے_ اسلام كے سياسى اور اجتماعى احكام كى تحقيق و بررسى اور نفاذ جامع شرائط فقيہ كى حاكميت كے بغير ممكن نہيں ہے _ ان امور كو ديكھتے ہوئے عقل كہتى ہے : يقينا خداوند كريم نے عصر غيبت ميں اسلام اور مسلمانوں كو بغير سرپرست كے نہيں چھوڑا(2)
اس دليل كے تمام مقدمات عقلى نہيں ہيں بلكہ اسلام كے اجتماعى اور اقتصادى احكام كے نفاذ ، مثلاًحدود و قصاص ، امر بالمعروف و نہى عن المنكر ، زكات اور خمس سے با صلاحيت حكومت كے وجود پر مدد لى گئي ہے_ لہذا يہ دليل عقلى محض نہيں ہے _
1) البدر الزاہر فى صلاة الجمعة و المسافر 73 _ 78
2) ولايت فقيہہ ص 167_ 168_
218
خلاصہ :
1) بعض فقہى مسائل ميںعقلى دليل كا سہارا ليا جاتا ہے _ اور دليل عقلى نظر شارع كو كشف كرتى ہے_
2) دليل عقلى كى دوقسميں ہيں _ ''دليل عقلى محض ''اور'' دليل عقلى ملفق ''دليل عقلى محض مكمل طور پر عقلى اور يقينى مقدمات سے تشكيل پاتى ہے _ جبكہ دليل عقلى ملفق ميں عقلى مقدمات كے علاوہ شرعى مقدمات سے بھى استفادہ كيا جاتا ہے _
3) بحث امامت اور نبوت ميں دليل عقلى سے استدلال كرنا ايك قديمى اور تاريخى امر ہے _ ليكن ولايت فقيہ كى بحث ميں اس سے استفادہ كرنا بعد كے ادوار ميں شروع ہوا ہے_
4)وہ دليل جسے فلاسفہ نے نبوت عامہ اور بعثت انبياء كى ضرورت پر پيش كيا ہے اسے اس طرح بھى بيان كيا جاسكتا ہے كہ اس سے امام كى امامت اور فقيہ كى ولايت ثابت ہوجائے _
5)ولايت فقيہ پر قائم دليل عقلى ملفق كى روح اور جان يہ ہے كہ اسلام ہر دور اور ہر جگہ پر انسان كى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے ہے _ اور جس طرح اسلام كے نفاذ كيلئے امام معصوم كى ضرورت ہے اسى طرح زمانہ غيبت ميں ايك اسلام شناس مجرى قانون كى بھى ضرورت ہے _
6) دليل عقلى ،امام اور فقيہ كے تقرر كى ضرورت كو ثابت كرتى ہے ليكن كبھى بھى جزئي اور شخصى نتيجہ نہيں ديتى اور اس بات كو مشخص نہيںكرتى كہ امام كون ہوگا _

سوالات :
1)'' دليل عقلى محض'' كى تعريف كيجئے_
2) ''دليل عقلى ملفق يا مركب'' كى تعريف كيجئے _
3) فقہ ميں دليل عقلى كى كيا حيثيت ہے ؟
4)ولايت فقيہ پر قائم ايك ''دليل عقلى محض ''كو مختصر طور پر بيان كيجئے_
5) آيت الله بروجردى نے ولايت فقيہ پر جو دليل عقلى ملفق قائم كى ہے اسے اختصار كے ساتھ بيان كيجئے _