199
بائيسواں سبق:
ولايت فقيہ كے اثبات كى ادلّہ (3)
عمر ابن حنظلہ اور ابى خديجہ كى روايات ميں امام نے فقيہ كيلئے ''منصب ''قرار ديا ہے اور جيسا كہ گذشتہ سبق كے آخر ميں اشارہ كرچكے ہيں : عمر ابن حنظلہ كى روايت ميں بيان كئے گئے منصب كا دائرہ اختيار بہت وسيع ہے كيونكہ اس ميں فقيہ كو منصب ''حاكميت ''پر مقرر كيا گيا ہے اورابى خديجہ كى روايت ميں منصب قضاوت پر_ اگر چہ مشہورہ ابى خديجہ ميں بھى قضائي اور حكومتى دونوں قسم كے امور ميں شيعوں كو فاسقوں كى طرف رجوع كرنے سے منع كيا گيا ہے _ اس سے يہ اشارہ ملتا ہے كہ حكومتى امور ميں بھى شيعوں كو'' فقيہ عادل'' كى طرف رجوع كرنا چاہيے_ جيسا كہ پہلے گزر چكا ہے كہ'' منصوب كرنے'' اور ''وكالت ''ميں بنيادى فرق ہے لہذا فقيہ عادل كا ولايت كى مختلف اقسام پر فائز ہونا ، جن كا ان دو روايات سے استفادہ ہوتا ہے_ امام عليہ السلام كى زندگى كے ساتھ مشروط نہيں ہے_ جبكہ اس كے بر عكس وكالت موكل كى وفات كے ساتھ ختم ہوجاتى ہے_چونكہ بعد والے امام اور معصوم نے اس منصب كو ختم نہيں كيا ہے لہذا فقيہ عادل اس منصب ولايت پر باقى ہے_
200
ولايت انتصابى كے متعلق كچھ ابہامات كا جواب :
ان دو روايات ميں موجود'' انتصاب'' كے متعلق كچھ ابہامات اور سوالات اٹھائے گئے ہيں_ يہاں ہم انہيں اختصار كے ساتھ بيان كرتے ہيں_
1_ شيعہ معتقدہيں كہ امام صادق اور ان كے بعد ان كے معصوم فرزند، امت كے امام ہيں_ لہذا امام معصوم كے ہوتے ہوئے فقيہ عادل كو ولايت پر منصوب كرنے كا كيا مطلب ہے ؟كيا ايسا ممكن ہے كہ جس زمانہ ميں امام معصوم موجود ہيں_ اور ولايت عامہ كے حامل ہيں _ كوئي دوسرا شخص يا افرادان كى طرف سے ولايت عامہ كے حامل ہوں_
جواب : امام معصوم كى موجودگى ميں كسى كو ولايت پر منصوب كرنا اسى طرح ہے _ جس طرح كوئي صاحب اختيار حكمران دوسرے شہروں ميں اپنے نمايندے مقرركرتا ہے_ كيا مسلمانوں كے امور كے انتظام كيلئے رسولخد ا (ص) نے مدينہ سے دور دوسرے شہروں ميں اپنے نمائندے نہيں بھيجے تھے؟ جس طرح امير المؤمنين كو يمن بھيجا تھا_ يا خود امير المؤمنين نے مالك اشتر كو مصر اور چند دوسرے افراد كو مختلف علاقوں كا والى اور حاكم بنا كر بھيجا تھا_ بنابريں اس ميں كيا حرج ہے كہ امام صادق اپنے زمانہ ميں ان شيعوں كے امور كى سرپرستى كيلئے جو آپ (ع) سے دور رہتے ہيں اور تقيہّ يا طولانى سفر كى وجہ سے آپ كے پاس نہيں آسكتے_ ايك فقيہ عادل كو مقرر كريں _ اور اپنى طرف سے اسے امت پر ولايت عطا كريں؟
2_ خود امام صادق بسط يد نہيں ركھتے تھے اور امت پر ولايت عامہ كا اجر انہيں كر سكے تو كيسے مان ليا جائے كہ ان كى طرف سے مقرر كردہ شخص يعنى فقيہ عادل ''ولايت عامہ'' كا حامل ہے؟
جواب :يہ ہے كہ ولايت دوسروں كے امور ميں جواز اور اولويت تصرف كے سوا كوئي چيز نہيں ہے_
201
ولايت پر منصوب كرنے كا معنى اس تصرف كو قانونى اور شرعى جواز عطا كرنا ہے_ فقيہ عادل كو ولايت پر منصوب كرنے كا معنى يہ ہے كہ صاحب ولايت اور وہ ذات جس كے ہاتھ ميں امر ولايت اور اس كى مشروعيت كا اختيار ہے كى طرف سے فقيہ عادل ان تصرفات ميں زيادہ حق ركھتا ہے_ اور اس قسم كے تصرفات پر اس كى ولايت مشروع اور حق ہے_ چاہے يہ تصرفات قضاوت اور امور حسبيہ ميں ہوں يا امت كى سرپرستى اور تمام امور عامہ تك اس كا دائرہ اختيار وسيع ہو_
ولايت پر منصوب ہونا ،اور جسے منصوب كيا گيا ہے ولايت كے عملى كرنے ميں اس كے ہاتھوں كا كھلا ہونا، دو مختلف چيزيں ہيں_ عملى طور پر ولايت كو بروئے كار لانا اور اس سے متعلقہ امور كو انجام دينا وسائل اور امكانات كے تابع ہے_ كبھى ولايت كے اصلى حامل يعنى امام معصوم كيلئے ولايت كے اعمال اور ذمہ داريوں كو بروئے كار لانے كيلئے ماحول سازگار نہيں ہوتا _ اور اس كى شرائط و امكانات فراہم نہيں ہوتے_ ليكن اس كا معنى يہ نہيں ہے كہ امام كى ولايت ختم اور لغو ہوگئي ہے_ كيونكہ منصب ولايت پر فائز ہونا اور خارج ميں اس كا عملى وجود دو الگ الگ چيزيں ہيں_ علاوہ بريں امام كے زمانہ ميں ولايت كو بروئے كار لانے كى راہيں كلى طور پر مسدود نہيں تھيں_ يعنى محجور اور مبسوط اليد ہونا دو نسبى امر ہيں_ امام كى طرف سے مقرر كردہ شخص اگرچہ اس حالت ميں نہيں تھا كہ وہ شيعوں كے امور عامہ كى سرپرستى كرے ليكن ان كے امور قضائي اور امور حسبيہ كى سرپرستى كرنے كى قدرت ركھتا تھا _ ان دو روايات سے پتہ چلتاہے كہ امام فقيہ عادل كيلئے ولايت عامہ كو ثابت سمجھتے تھے، اور اسے اپنى طرف سے مقرر فرماتے تھے_ اب اس ولايت كو بروئے كار لانے ميں فقيہ كى بے بسى اور اختيار ايك دوسرا امر ہے جو حالات و شرائط كے تابع ہے_
3_ امور مسلمين كى ولايت پر سب فقہاء كومنصوب كرنا ہرج و مرج اور اختلال نظام كا باعث بنتا ہے_
202
چونكہ فرض يہ ہے كہ ان دو روايات كى بنا پر فقيہ عادل شيعوں كے امور كى سرپرستى كرتا ہے_ دوسرى طرف مقرر كردہ فقہاء كى تعداد معين نہيں ہے اور يہ بھى ممكن ہے كہ ايك ہى وقت ميں سينكڑوں جامع الشرائط فقيہ عادل موجود ہوں _ كيا يہ معقول ہے كہ ايك ہى وقت ميں سب فقہاء منصب ولايت كے بالفعل حامل ہوں _ لہذا اس مشكل كو ديكھتے ہوئے اس انتصاب كے دائرہ اختيار كى محدوديت كے قائل ہونے كے سوا كوئي چارہ نہيں ہے اور ضرورى ہے كہ ان دو روايات ميں فقيہ كى ولايت كو ''قضاوت'' ميں منحصر قرار ديں_
جواب : يہ ہے كہ اس نكتہ كى ہم پہلے وضاحت كرچكے ہيں كہ ولايت پر منصوب ہونے اورعملى طور پر افعال و اعمال كو بجالانے ميں واضح فرق اور ہر ايك كى اپنى مخصوص شرائط اور خصوصيات ہيں_ فقيہ كى ولايت انتصابى كا معنى يہ ہے كہ ہر جامع الشرائط فقيہ منصب ولايت و نيابت كا حامل ہے اور اس كے متعلقہ امور ميں اس كے احكام اور تصرفات، شرعى لحاظ سے معتبر ہيں اس كا يہ معنى نہيں ہے كہ ہر وہ مورد جس ميں ''ولايت فقيہ '' كے حكم كى ضرورت ہو اس ميں تمام فقہاء اپنى نظرديں اور حكم صادر كرديں_ جس طرح ايك شہر ميں اگر پچاس قاضى موجود ہوں اور تحقيق كيلئے كيس كى فائل ايك كے پاس آئے تو دوسرے قاضى اس ميں مداخلت نہيں كرتے_ اور ايك قاضى كا اس كيس كو اپنے ہاتھ ميں لے لينا دوسروں كو فيصلہ صادر كرنے سے روك ديتا ہے_اسى طرح فقيہ عادل كا ولايت كا حامل ہوناذمہ دارى كو اس كى طرف متوجہ كرتا ہے اور لوگوں پر ايك فريضہ عائد ہو جاتا ہے _ لوگ پابند ہيں كہ اپنے معاملات ميں فقيہ عادل كى طرف رجوع كريں، طاغوت سے منہ پھير ليں ، اور اسلامى معاشرہ كے امور كى باگ ڈور كسى غير اسلام شناس كے ہاتھ ميں نہ ديں بلكہ فقيہ عادل اور امين كے ہاتھ ميں ديں_ فقيہ عادل كا بھى يہ فرض ہے كہ جب شرائط مكمل ہوں ، حالات سازگار ہوں اور لوگ اس كى طرف رجوع كريں تو وہ اس الہى فريضہ كو پورى طرح نبھائے _ اب اگر صاحب ولايت، فقيہ كى طرف لوگ
203
رجوع كرتے ہيں ياا ہل حل و عقد كے انتخاب كے ذريعہ لوگوں كے امور كى سرپرستى اس كے ہاتھ ميں دے دى گئي ہے تو دوسرے فقہا ء كا فريضہ ساقط ہوجاتا ہے _ بنابريں تمام جامع الشرائط فقہاء منصب ولايت كے حامل ہيں اور ايك فقيہ عادل كے امور كى سرپرستى اپنے ذمہ لينے سے دوسرے فقہاء كى ذمہ دارى ختم ہوجاتى ہے _
دوسرے لفظوں ميں ہر فقيہ كے كسى امر ميں تصرف كا جواز اس بات كے ساتھ مشروط ہے كہ دوسراكوئي فقيہ اس كام ميں اپنى ولايت كو بروئے كار نہ لارہا ہو _ اس صورت ميں كسى قسم كا اختلال نظام لازم نہيں آتا _ اختلال نظام اس وقت لازم آتا ہے جب ولايت كے عہدہ پر فائز تمام فقہاء عملى اقدامات شروع كرديں_
ولايت فقيہ كى تائيد ميں مزيدروايات
ان تين روايات كے علاوہ جو اب تك ولايت فقيہ كے اثبات كيلئے پيش كى گئي ہيں دوسرى روايات بھى ہيں جن سے استدلال كياگيا ہے البتہ دلالت اور سند كے لحاظ سے يہ اُن روايات كى مثل نہيں ہيں ليكن اس كے باوجود فقيہ كى ولايت عامہ كى تائيد كے عنوان سے ان سے تمسك كيا جاسكتا ہے _ ہم يہاں اختصار كے طور پر انہيں بيان كرتے ہيں _
1_ صحيحہ قدّاح :
على ابن ابراہيم عن ابيہ عن حماد بن عيسي، عن القدّاح (عبدالله بن ميمون)، عن أبى عبدالله (عليہ السلام) قال: قال رسول الله (ص) : '' مَن سلك طريقاً يطلب فيہ علماً، سلك الله بہ طريقاً الى الجنّہ ... و انّ العلماء ورثة الانبيائ،إنّ الانبياء لم يُورثُوا ديناراً و لا درہماً
204
و لكن ورّثوا العلم; فَمَن أخذ منہ أخذ بحَظّ وافر''(1)
على ابن ابراہيم اپنے والد سے ، وہ حماد ابن عيسى سے اور وہ قداح ( عبدالله ابن ميمون) سے اور وہ امام صادق سے نقل كرتے ہيں كہ رسول خدا (ص) نے فرمايا: ''جو طلب علم كيلئے نكلتا ہے خدا اس كيلئے جنت كى راہ ہموار كرديتا ہے ... بے شك علماء انبياء كے وارث ہيں انبيائ كاورثہ درہم و دينار نہيں ہوتے بلكہ ان كا ورثہ '' علم'' ہے _ جس نے اس سے كچھ پاليا گويا اس نے بہت بڑا حصہ لے ليا ''_
اس روايت كى سند صحيح ہے _ اور اس كے تمام رواى ''ثقہ ''ہيں _بعض فقہا مثلاً '' عوائد الايام'' ميں ملا احمد نراقى اورولايت فقيہ ميں امام خمينى نے ولايت فقيہ كے اثبات كيلئے اس روايت سے تمسك كيا ہے اس روايت سے استدلال كى كيفيت يہ ہے كہ اس كے جملہ ''العلماء ورثة الانبيائ'' كے مطابق فقہا اور علمائے دين ،رسول خدا (ص) كى تمام قابل انتقال خصوصيات ميں آپ (ص) كے وارث ہيں اور ان خصوصيات اور ذمہ داريوں ميں سے ايك '' امت كى سرپرستى اورحاكميت '' بھى ہے _ علماء كيلئے انبياء كى وراثت صرف علم تك محدود نہيں ہے كيونكہ يہ وراثت مطلق ہے _ صرف وہ خصوصيات جو كسى خاص دليل كے ذريعہ مقام نبوت كے ساتھ مخصوص ہيں وراثت ميں نہيں آئيں گئيں_ البتہ اس روايت ميں ايك احتمال يہ ہے كہ پہلے اور بعد والے جملوں كو ديكھتے ہوئے اس روايت سے يہ اشارہ ملتا ہے كہ يہ وراثت علم ، احاديث اور معارف انبياء ميں منحصر ہے اور انكى ديگر ذمہ داريوں كو شامل نہيں ہے _ اگر يہ جملات اختصاص اور محدوديت كيلئے قرينہ بن سكتے ہوں تو پھر ''العلماء ورثة الانبياء ''كے اطلاق سے تمسك نہيں كيا جاسكتا_(2)
1) كافى جلد 1 ، صفحہ 42 ، باب ثواب العالم و المتعلم حديث1_
2) ولايت فقيہ، امام خميني، صفحہ 86، 92_
205
2_ مرسلہ صدوق :
شيخ صدوق نے اپنى مختلف كتب ميں اس روايت كو نقل كيا ہے :
قال امير المؤمنين(ع) قال رسول الله (ص) : ''اللہمّ ارحم خلفائي'' _ ثلاث مرّات: _ قيل : يا رسول الله ، و مَن خلفاؤك؟ قال: '' الّذين يأتون من بعدى يروون عنّى حديثى و سُنّتي''(1)
اميرالمؤمنين فرماتے ہيں: رسولخدا (ص) نے تين مرتبہ فرمايا: اے پروردگار ميرے خلفاء پر رحم فرما _پوچھا گيا اے الله كے رسول (ص) آپ كے خلفا ء كون ہيں ؟ فرمايا :وہ افراد جو ميرے بعد آئيں گے اور ميرى حديث اور سنت كو نقل كريںگے_
شيخ صدوق نے اپنى متعدد كتب ميں اس روايت كو معصوم كى طرف نسبت دى ہے اور بطور مرسل نقل كيا ہے_ مراسيل صدوق بہت سے علماء كيلئے قابل اعتبار ہيں خصوصاً اگر انہيں بطور جزم معصوم كى طرف نسبت ديں_ بہت سے فقہاء مثلاً صاحب جواہر ، ملا احمد نراقى ، صاحب عناوين يعنى مير عبد الفتاح مراغى ، آيت الله گلپائيگانى اور امام خمينى نے ولايت فقيہ كے اثبات كيلئے اس روايت سے استدلال كيا ہے _ كيفيت استدلال اس طرح ہے _
الف: رسول خدا (ص) وحى ، اس كے ابلاغ ، عصمت اور علم الہى جيسى خاص صفات سميت قضاوت ، تنازعات كے فيصلے اور اسلامى معاشرے كے امور كى سرپرستى ايسى خصوصيات كے بھى حامل تھے _ آنحضرت (ص) كى بعض خصوصيات دوسروں كى طرف منتقل ہونے كى صلاحيت ركھتى ہيں _ قضاوت اور اسلامى معاشرہ كى سرپرستى انہى خصوصيات ميں سے ہيں جو دوسروں كى طرف منتقل ہوسكتى ہيں _
1) عيون اخبار رضا ،جلد 2، صفحہ 37، باب 31،حديث 94_ من لايحضرہ الفقيہ، جلد 4، صفحہ 420_ معانى الاخبار، صفحہ 374_
206
ب : اس روايت كى رو سے آنحضرت (ص) نے ايك گروہ كو اپنے خلفاء كے عنوان سے مورد لطف و دعا قرار ديا ہے اس گروہ كيلئے آنحضرت (ص) كى جانشينى ،قابل انتقال صفات ميں ہے اور ان صفات ميں امت كے امور كى سرپرستى يقينا شامل ہے _
ج: ''خلفائي'' كى تعبير مطلق ہے اور ائمہ معصومين ميں منحصر نہيں ہے بنابريں خلفاء بلاواسطہ ( ائمہ(ع) ) اور خلفاء بلواسطہ ( علمائ) دونوں اس ميں شامل ہيں _
د: جملہ '' الذين يأتون من بعدى يروون حديثى و سنّتى '' سے مراد عام راوى اور محدثين نہيں ہيں_ بلكہ وہ راوى مراد ہيں جو روايات ميں تفقہ اور سمجھ بوجھ بھى ركھتے ہوں _ پس يہ تعبير صرف امت كے فقہا اور علماء كى شان ميں ہے نہ كہ ہرر وايت كرنے والے كى شان ميں _ (1)
3_ ''غرر الحكم و دررالكلم ''ميں امير المومنين حضرت على سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا:
''العلماء حُكّامٌ على الناس''(2)
علماء لوگوں پر حاكم ہيں _
اسى مضمون كى ايك روايت كراجكى مرحوم نے ''كنزالفوائد'' ميں امام صادق سے بھى نقل كى ہے آپ (ص) فرماتے ہيں :
''الملوك حُكّامٌ على النّاس وا لعلمائُ حُكّامٌ على الملوك''(3)
بادشاہ لوگوں پر حاكم ہوتے ہيں اور علماء بادشاہوں پر حاكم ہوتے ہيں _
1) كتاب البيع، امام خمينى جلد 2 ، صفحہ 468_470_
2) غرر الحكم، آمدى جلد 1 صفحہ 137و 506_
3) كنزالفوائد جلد 2 صفحہ 33_
207
ولايت فقيہ پر اس روايت كى دلالت واضح ہے ليكن سندى ضعف كى وجہ سے اسے ولايت فقيہ كے مؤيّدات ميں سے شمار كيا ہے _
4_ ابن شعبہ حرانى نے '' تحف العقول'' ميں امر بالمعروف و نہى عن المنكر كے متعلق امام حسين كا ايك خطبہ نقل كيا ہے جس ميں آپ نے اپنے دور كے علماء كو متنبہ كرتے ہوئے فرمايا ہے كہ تمھارے مقام و منزلت كو غاصبوں نے غصب كرليا ہے _ مسلمانوں كے امور كى سرپرستى تم علماء امت كے ہاتھ ميں ہونى چاہيئے _ امام فرماتے ہيں :
''و أنتم أعظم النّاس مصيبة ً كما غلبتم عليہ من منازل العلماء لو كنتم تشعرون; ذلك بأنّ مجارى الأمور والاحكام على أيدى العلماء بالله و الاُمناء على حلالہ و حرامہ فأنتم المسلوبون تلك المنزلة و ما سلبتم ذلك الا بتفرّقكُم عن الحقّ واختلافكم فى السنّة بعد البيّنة الواضحة_ و لو صبرتم على الاذى و تحمّلتم المؤونة فى ذات الله كانت أمور الله عليكم ترد، و عنكم تصدر، و اليكم ترجع و لكنّكُم مكّنتم الظلمة من منزلتكم''(1)
تم سب سے زيادہ مصيبت زدہ ہو اگر تمہيں كچھ شعور ہو تو جا ن لو كہ تمھارے مقام و مرتبہ پر تسلط قائم كر ليا گياہے_ امور كى تدبير اور احكام كا اجرا ان علماء ربانى كے ہاتھ ميں ہوتا ہے جو خدا كے حلال وحرام كے امين ہوتے ہيں پس تم سے يہ مقام و مرتبہ چھين ليا گيا _ اور اس كى وجہ يہ ہے كہ تم نے حق سے منہ پھيرليا ،واضح دليل آنے كے باوجود تم نے سنت ميں اختلاف
1) تحف العقول عن آل الرسول (ص) جلد 1، صفحہ 238_
208
كيا ،اگر تم تكليف پر تھوڑا ساصبر كرليتے اور خدا كى راہ ميں مصائب برداشت كرتے تو امور الہى تمہارى طرف پلٹاديئے جاتے، تم ان كے سرپرست ہوتے، اور تمھارى طرف رجوع كيا جاتا _ ليكن تم نے اپنا مقام و مرتبہ ظالموں كے حوالے كرديا _
اس روايت كى دلالت مكمل ہے ليكن گذشتہ روايت كى طرح سندى مشكل سے دوچار ہے اسى لئے ولايت فقيہ كے مؤيدات ميں شامل ہے _ ان كے علاوہ دوسرى روايات بھى ہيں جنہيں ہم طوالت سے بچنے كيلئے ذكر نہيں كررہے _
209
خلاصہ :
1) امام (ع) نے بعض روايات ميں فقيہ كو منصب عطا كيا ہے _ اور امام (ع) كے زمانہ حضور اور غيبت دونوں ميں يہ منصب ان كے پاس ہے_
2) امام كا ولايت كليہ كا حامل ہونا ،بعض امور ميں شيعوں كو فقہاء كى طرف رجوع كرنے كا حكم دينے سے مانع نہيں ہے _
3) امام صادق نے اس دور ميں فقہاء كو ولايت پر منصوب كيا جب آپ اپنے اختيارات استعمال كرنے ميں بے بس تھے _ اور اس سے كوئي مشكل پيدا نہيں ہوتى كيونكہ نصب ولايت اور ولايت كو بروئے كار لانا ،دو الگ الگ چيزيں ہيں _
4)فقيہ كى ولايت انتصابى كى ادلّہ پر بعض افراد كا اعتراض يہ ہے كہ امام كى طرف سے فقہا كو ولايت كا حاصل ہونا معاشرتى نظام كے مختل ہونے اور خرابى كا باعث بنتا ہے _
5) ايك ہى واقعہ ميں مختلف فقہا كا ولايت كو بروئے كار لانا اختلال نظام كا موجب بنتا ہے نہ ان كامنصب ولايت _
6) بعض روايات ضعف سند يا عدم وضاحت كى وجہ سے ولايت فقيہ كے مؤيّدات كے زمرہ ميں آتى ہيں_
7) وہ روايات جو علماء اور فقہاء كو انبياء (ع) كا وارث اور رسول خدا (ص) كا خليفہ قرار ديتى ہيں فقيہ كى ولايت كى دليل ہيں كيونكہ معاشرے كے امور كى تدبير اور ولايت بھى انبياء كى صفات ميں سے ہيں_
210
سوالات :
1) ''فقيہ كى ولايت انتصابى ''كا نظريہ كن اعتراضات اور ابہامات سے دوچار ہے ؟
2) اگر ہر فقيہ عادل ''منصب ولايت'' كا حامل ہو تو كيا اختلال نظام كا باعث بنتا ہے ؟
3) كيا وہ امام معصوم جو خود بے بس ہو وہ كسى اور كو ولايت عامہ پر منصوب كرسكتا ہے ؟
4) روايت'' اللہم ارحم خلفائي ''سے فقيہ كى ولايت پر استدلال كيجيئے _
5) روايت ''العلماء ورثة الانبياء '' كس طرح فقيہ كى ولايت پر دلالت كرتى ہے ؟
|