187
اكيسواں سبق:
ولايت فقيہ كے اثبات كى ادلّہ (2)
ب: مقبولہ عمر ابن حنظلہ (1)
محقق كر كى نے كتاب ''صلوة الجمعة ''ميں اور محقق نراقى ، صاحب جواہر اور شيخ انصارى نے ''كتاب القضائ'' ميں اور دوسرے بہت سے فقہاء نے ''فقيہ كى ولايت عامہ'' پر عمر ابن حنظلہ كى اس روايت سے استدلال كيا ہے_
محمد بن يعقوب، عن محمّد بن يحيي، عن محمّد بن الحسين، عن محمّد بن عيسي، عن صفوان بن يحيي، عن داود بن الحصين، عن عمر بن حنظلة، قال: سألت أبا عبدالله (ع) عن رجلين من أصحابنا بينہما مُنازعة فى دين أو ميراث، فتحاكما الى السلطان والى القضاة، أيحلّ ذلك؟ قال(ع) : ''من تحاكم اليہم فى حق أو باطل فانّما تحاكم إلى الطاغوت،وما يحكم لہ فانّما يأخذ سحتاًوان كان حقّاً ثابتاً لہ ; لانہ أخذہ بحكم الطاغوت و ما أمر الله أن يكفر بہ ، قال الله تعالى : (يريدون أن يتَحاكَموا الى الطاغوت و قد أمروا أن يَكفروا بہ)
1) شيخ طوسى اور برقى نے عمر ابن حنظلہ كو امام صادق اور امام باقر كے اصحاب ميں سے قرار ديا ہے عمر ابن حنظلہ ايك مشہور راوى ہيں _ زرارہ، ہشام ابن سالم ، عبدالله ابن بكير ، عبدالله ابن مسكان اور صفوان ابن يحيى جيسے ممتاز روايوں نے ان سے روايات نقل كى ہيں_
187
قلت: فكيف يصنعان؟ قال: '' ينظران من كان منكم ممَّن قد رَوى حديثنا و نظر فى حلالنا و حرامنا و عرف أحكامنا فليَرضَوا بہ حَكَماً ; فانى قد جعلتہ عليكم حاكماً، فإذا حكم بحكمنا فلم يقبل منہ فانّما استخفَّ بحكم الله و علينا ردّ والرادُّ علينا الرّادُّ على الله و ہو على حدّ الشرك بالله ''
محمد ابن يعقوب، محمد ابن يحيى سے ،وہ محمد ابن الحسين سے ، وہ محمد ابن عيسى سے ، وہ صفوان ابن يحيى سے، وہ داود ابن الحسين سے اور وہ عمر ابن حنظلہ سے روايت كرتے ہيں وہ كہتے ہيں ميں نے امام صادق سے ان دو شيعہ افراد كے متعلق پوچھا جو قرض يا ميراث كے جھگڑے كا فيصلہ كرانے كيلئے سلطان يا قاضى كے پاس جاتے ہيں _ كيا ايسا كرناان كے لئے جائز ہے ؟ آپ نے فرمايا :جو ان كے پاس حق يا با طل فيصلہ كرانے جاتا ہے وہ گويا طاغوت كے پاس فيصلہ كروانے كيلئے جاتا ہے _ اور جو وہ اس كے حق ميں فيصلہ ديتا ہے اگر چہ صحيح ہى كيوں نہ ہو تب بھى اس نے حرام كھا يا ہے كيونكہ اس نے اسے طاغوت كے حكم سے ليا ہے _ جبكہ خدا نے طاغوت كے انكاركا حكم ديا ہے _ خدا فرماتا ہے : وہ چاہتے ہيں اپنے فيصلے طاغوت كے پاس لے جائيں حالانكہ انہيں اس كے انكار كا حكم ديا گيا ہے (1)راوى كہتا ہے ميں نے پوچھا: پھر وہ كيا كريں؟ آپ نے فرمايا: اس كى طرف رجوع كريں جو تم ميں سے ہمارى احاديث كو نقل كرتا ہے ، ہمارے حلال و حرام ميں غور و فكر كرتا ہے اور ہمارے احكام كو پہچانتا ہے پس اسے حَكَم ( فيصلہ كرنے والا) بنائيں ميں نے اسے تم پر حاكم قرار ديا ہے _ پس جب وہ ہمارے حكم كے مطابق فيصلہ كرے_
1) سورہ نساء آيت 60_
189
اور پھر اس فيصلے كو قبول نہ كيا جائے تو گويا قبول نہ كرنے والے نے خدا كے حكم كو خفيف شمار كيا ہے اور ہميں جھٹلايا ہے _ اور جو ہميں جھٹلائے اس نے خدا كو جھٹلاياہے اور خدا كو جھٹلانااس سے شرك كرنے كے مترادف ہے (1)_
فقيہ كى ولايت عامہ پر اس روايت كى دلالت درج ذيل مقدمات پر توجہ كرنے سے واضح ہوجاتى ہے _
1_ عمر ابن حنظلہ كا سوال فيصلہ كيلئے قضات كيطرف رجوع كرنے كے بارے ميں نہيں ہے بلكہ اپنے تنازعات ميں سلطان اور قاضى كے پاس جانے كے جواز كے متعلق ہے _ عام طور پر ايسے تنازعات ہوتے ہيں جن كے حل اور فيصلہ كيلئے والى اور سلطان كى دخالت ضرورى ہوتى ہے اور قاضى كے پاس رجوع كرنے كى قسم سے نہيں ہوتے مثلاً علاقائي اور قومى و قبائلى جھگڑے ايسے ہوتے ہيں كہ اگروالى اور سياسى اقتدار كے حامل افراد بر موقع ان ميں دخالت نہ كريں تو قتل و غارت اور سياسى و اجتماعى حالات كے خراب ہونے كا خطرہ پيدا ہوجاتا ہے _ البتہ چھوٹے موٹے انفرادى جھگڑوں كا فيصلہ كرنا قاضى كا كام ہے اور والى يا سلطان كے ساتھ ان كا كوئي تعلق نہيں ہوتا_
2_ امام نے دونوں قسم كے فيصلوں كيلئے ،چاہے وہ والى كے ساتھ مربوط ہوں يا سلطان كے ساتھ، ان كى طرف رجوع كرنے كو طاغوت كى طرف رجوع كرنے كے مترادف قرار ديا ہے اور اسے ممنوع قرار ديتے ہوئے سورہ نساء كى آيت 60 سے استدلال كيا ہے كہ جس ميں صاحبان ايمان كو طاغوت كے انكار كرنے كا حكم ديا گيا ہے اور فيصلوں كيلئے طاغوت كے پاس جانے سے منع كيا ہے _ اس آيت ميں طاغوت سے مراد خاص طور پر نامشروع سلطان نہ بھى ہو مگريقينى طور پر يہ والى اور سلطان اس ميں شامل ہے _
كيونكہ اولا قاضى كا صفت طاغوت كے ساتھ متصف ہونے كا سبب اس كا فاسق و فاجر حكومت كے
1) وسائل الشيعہ، جلد 27صفحہ 136، 137، باب 11، از ابواب صفات قاضى ،حديث 1_
190
ساتھ منسلك ہونا ہے وہ قاضى جو نامشروع اور فاسق و فاجر حكومت سے منسلك ہو وہ طاغوت اور ناحق ہے_
ثانياً اس آيت سے پہلے والى دو آيات ميں صرف قاضى كى طرف رجوع كرنے كا ذكر نہيں ہے بلكہ ان ميں قاضى اور سلطان كے فيصلے اور قضائي و حكومتى امور دونوں كے متعلق تنازعات كا ذكر ہے _ الله تعالى سورہ نساء كى آيت 58ميں فرماتا ہے :
''ان اللہ يأمركم ا ن تُؤدُّوا الا مانات الى ا ہلہا و اذا حكمتم بين النّاس ا ن تحكُمُوا بالعَدل''
بے شك خدا تمھيں حكم ديتا ہے كہ امانتوں كو ان كے اہل تك پہنچا دو اور جب لوگوں كے در ميان كوئي فيصلہ كرو تو انصاف كے ساتھ كرو _
اس فيصلہ كرنے ميں سلطان ، والى اور قاضى كا فيصلہ بھى شامل ہے _ اور اس كے'' قاضى كے فيصلہ'' ميں منحصر ہونے كى كوئي دليل نہيں ہے _ اس آيت كى رو سے ہر حاكم انصاف كے ساتھ فيصلہ كرنے كا پابند ہے چاہے وہ قاضى ہو يا حاكم و والى _
اسى سورہ كى آيت 59 ميں خدا فرماتا ہے :
''اطيعوا اللہ و اطيعوا الرسول و ا ولى الا مر منكم فان تَنازَعتم فى شيئ: فردّوہ الى اللہ والرسول''
الله كى اطاعت كرو اور رسول (ص) كى اطاعت كرو اور اپنے ميں سے صاحبان امر كى پھر اگر تمھارا آپس ميں كسى بات پر اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول (ص) كى طرف پلٹا دو _
رسول اور اولى الامر كى اطاعت صرف شرعى احكام اور قضاوت ميں منحصر نہيں ہے _بلكہ ان كے حكومتى اوامر و نواہى بھى اس ميں شامل ہيں يعنى وہ احكام اور اوامر جو ''والي'' حاكم ہونے كے عنوان سے صادر كرتا ہے
191
_ بنابريں اس روايت ميں طاغوت كى طرف رجوع كرنے كى ممانعت ميں_ كہ جس پر اس روايت ميں سورہ نساء كى آيت(60) سے استدلال كيا گيا ہے _ ان دو آيات كے قرينہ كى بناپر ''طاغوتى حاكم ''اور'' طاغوتى قاضي'' دونوں شامل ہيں نہ كہ صرف طاغوتى قاضى _
3_ امام اس كے راہ حل كيلئے شيعہ فقيہ كو بعنوان حاكم مقرر فرما رہے ہيں _'' انّى قد جعلتہ عليكم حاكماً '' ( ميں نے اسے تم پر حاكم مقرر كيا ہے ) يہ تقرر، قضاوت اور ولايت و حكومت دونوں ميں ہے_ كيونكہ مذكورہ بالا دو مقدموںكى رو سے سلطان اور قاضى دونوں كى طرف رجوع كرنے كے متعلق پوچھا گيا ہے_(1)
شيخ انصارى نے كتاب ''قضاء و شہادات'' ميں امام كے قول ''انى قد جعلتہ عليكم حاكما'' سے يہ استنباط كيا ہے كہ فقيہ كى ولايت قضاوت اور تنازعات ميں منحصر نہيں ہے بلكہ اس سے عام ہے _ بالخصوص اس چيز كے پيش نظر كہ سياق عبارت كا تقاضا يہ تھا كہ امام يہ فرماتے: '' انّى قد جعلتہ عليكم حَكَماً ''حضرت امام صادق نے ''حَكَما'' (2) كى بجائے ''حاكم'' كا لفظ استعمال كر كے اس نكتہ كى وضاحت كى ہے كہ فقيہ عادل كے احكام كا دائرہ نفوذ، قضاوت اور تنازعات تك محدود نہيں ہے بلكہ تمام امور ميں اس كے احكام نافذ ہيں _ يعنى ہر وہ كلى يا جزئي حكم جس ميں امام اور سلطان مداخلت كا حق ركھتے ہيں _ ان كى طرف سے مقرر كردہ حاكم بھى ان ميں ولايت اور تسلط ركھتا ہے شيخ انصارى فرماتے ہيں:_
''ثم ان الظاہر من الروايات المتقدمة ، نفوذ حكم الفقيہ فى جميع خصوصيات الاحكام الشرعية و فى موضوعاتہا الخاصة ، بالنسبة الى ترتب الاحكام عليہا _
1) ''كتاب البيع ''امام خمينى ،جلد 2، صفحہ 476، 479_
2) حَكَم يعنى فيصلہ كرنے والا _
192
لان المتبادر عرفاً من لفظ ''الحاكم'' ہو المتسلّط على الاطلاق، فہو نظير قول السلطان لاہل بلدة: ''جعلت فلاناً حاكماً عليكم'' حيث يفہم منہ تسلّطہ على الرعيّة فى جميع ما لہ دخل فى اوامر السلطان جزئياً او كلياً ''و يؤيدہ العدول عن لفظ ''الحكم'' الى ''الحاكم'' مع ان الانسب بالسياق حيث قال : ''فارضوا بہ حكما ''ان يقول:'' فانى قد جعلتہ عليكم حكما''(1)
سند كے حوالے سے اس روايت ميں كوئي خاص مشكل نہيں ہے كيونكہ عمر ابن حنظلہ كے علاوہ اس روايت كے تمام راوى توثيق شدہ ہيں _ مشكل صرف عمر ابن حنظلہ كے سلسلہ ميں ہے كہ علماء كى طرف سے اس كى توثيق نہيں ہوئي _ ليكن يہ مشكل بھى درج ذيل وجوہات كى بناپر باقى نہيں رہتى _
الف : عمر ابن حنظلہ بہت مشہور آدمى تھے _ اور انہوں نے كثرت سے روايات نقل كى ہيں اور زرارہ ، ہشام ابن سالم ، صفوان ، عبدالله ابن بكير اور عبدالله ابن مسكان جيسے امام كے جليل القدر صحابہ نے ان سے روايات نقل كى ہيں اور ان بزرگوں كانقل كرنا اور كثير الرواية ہونا ان كے قابل و ثوق ہونے كى دليل ہے _
ب: كافى ميں ايك روايت موجود ہے جس ميں امام صادق عليہ السلام نے عمر ابن حنظلہ كى تعريف كى ہے(2)
1) القضاء و الشہادات صفحہ 48، 49 _عبارت كا مفہوم پہلے بيان ہوچكاہے ( مترجم )_
2) على ابن ابراہيم، محمد ابن عيسى سے ،وہ يونس سے، اور وہ يزيد ابن خليفہ سے نقل كرتے ہيں : وہ كہتے ہيں ،ميں نے امام صادق سے عرض كيا : عمر ابن حنظلہ نے'' وقت'' كے متعلق آپ سے روايت كى ہے امام صادق فرمايا: وہ ہم پر جھوٹ نہيں بولتا ...كافى جلد 3 صفحہ 275 باب وقت الظہر و العصر حديث 1_
193
سب سے اہم بات يہ ہے كہ اس روايت پر علماء نے عمل كيا ہے اور اسے قابل قبول سمجھا ہے اسى وجہ سے اس كا نام ''مقبولہ عمر ابن حنظلہ ''پڑ گيا ہے _ شہيد ثانى نے عمر ابن حنظلہ كى وثافت پر تاكيد كرتے ہوئے اس روايت كو علماء كيلئے قابل قبول قرار ديا ہے _فرماتے ہيں :
و عمر بن حنظلة لم ينصّ الأصحاب فيہ بجرح و لا تعديل ، و لكن أمرہ عند سہل ; لأنّى حقّقت توثيقہ من محلّ آخر و إن كانوا قد أہملوہ ، و مع ما ترى ف ہذا الإسناد قد قبل الأصحاب متنہ و عملوا بمضمونہ ، بل جعلوہ عمدة التفقّہ ، واستنبطوا منہ شرائطہ كلّہا ، و سمّوہ مقبولّا (1)
علماء كى طرف سے عمر ابن حنظلہ كے بارے ميں كوئي واضح جرح و تعديل واقع نہيں ہوئي ليكن يہ امر ميرے لئے بہت سہل و آسان ہے _ چونكہ ميں نے ايك دوسرے ذريعہ سے ان كى توثيق ثابت كردى ہے _ اگرچہ علماء نے اس كے بارے كچھ نہيں كہا _ اور اس سند كے باوجود علماء نے اس روايت كے متن كو قبول كيا ہے، اس كے مضمون پر عمل كيا ہے بلكہ اسے تفقہ كا ايك اہم ذريعہ قرار ديا ہے اور اس كى تمام شرائط كا اس سے استنباط كيا ہے _ اور اس كا نام مقبولہ ركھا ہے _
1) الرعاية لحال البداية فى علم الدراية صفحہ 131، اس بارے ميں مزيد تحقيق كيلئے شہيد ثانى كے فرزند صاحب معالم كى كتاب منتقى الجمان'' جلد 1، صفحہ19 كى طرف رجوع كيجئے_ شہيد ثانى كے علاوہ سيد جعفر مرتضى عاملى بھى ابن حنظلہ كى روايت كو صحيح سمجھتے ہيں اور آيت الله سيد محمد على موحد ابطحى كہتے ہيں: ہم نے اپنى كتب رجاليہ ميں ابن حنظلہ كى وثاقت كى ادلّہ ذكر كى ہيں اور ہم نے ان ميں ذكر كيا ہے كہ امام باقر ، امام صادق اور امام كاظم عليہم السلام كے موثق اصحاب نے ان سے روايات نقل كى ہيں ان ميں سے ايسے اصحاب بھى ہيں جو قابل وثوق افراد كے سوا كسى سے روايت نقل نہيںكرتے _ مثلاً صفوان ابن يحيى اور يہى دليل يزيد ابن خليفہ كے متعلق بھى جارى كى جاسكتى ہے (رسالہ فى ثبوت الہلال صفحہ 77)_
194
ج: مشہورہ ابى خديجہ :
شيخ طوسى امام صادق كے ايك قابل اعتماد صحابى جناب ابى خديجہ سے درج ذيل روايت كو نقل كرتے ہيں اور اس روايت سے بھى امور عامہ ميں فقيہ كى ولايت كو ثابت كيا گيا ہے_
''محمد بن حسن إےسنادہ عن محمّد بن على بن محبوب، عن أحمد بن محمّد، عن حسين بن سعيد، عن أبى الجَہْم، عن أبى خديجة، قال: بعثنى أبو عبد الله (ع) إلى أصحابنا فقال: ''قل لہم : إيّاكم إذا وقعتْ بينكم الخصومة أو تَدَارَى فى شى ء من الا خذ والعطاء أن تحاكموا إلى أحد من ہولاء الفُسّاق_ اجعلوا بينكُم رجلاً قد عرف حلالنا و حرامَنا; فانّى قد جعلتُہ عليكم قاضياً و ايّاكم أن يُخاصم بعضكم بعضاً إلى السّلطان الجائر'' (1)
محمد ابن حسن اپنے اسناد كےساتھ محمد ابن على ابن محبوب سے ، وہ احمد ابن محمد سے ، وہ حسين ابن سعيد سے، وہ ابى جہم سے، اور وہ ابى خديجہ سے نقل كرتے ہيں :
وہ كہتے ہيں : مجھے امام صادق نے اپنے ماننے والوں كے پاس بھيجا اور فرمايا:
ان سے كہہ دو كہ جب تمھارے در ميان كوئي جھگڑا ہوجائے _ يالين دين كے معاملہ ميں كوئي تنازع ہوجائے تو اسے حل كرنے كيلئے خبردار كسى فاسق حاكم كے پاس مت جانا اپنے در ميان ايك ايسے شخص كو مقرر كرو جو ہمارے حلال اور حرام سے واقف ہو، ميں اسے تم پر قاضى مقرر كرتاہوں _ خبردار اپنے جھگڑے ليكر فاسق وفاجر حاكم كے پاس مت جانا _
اس روايت سے فقيہ كى ولايت عامہ پر استدلال بہت حد تك مقبولہ عمر ابن حنظلہ كے استدلال سے
1) وسائل الشيعہ جلد 27 ، صفحہ 139، باب 11 _ از ابواب صفات قاضى حديث 6_
195
قريب ہے _ كيونكہ اس روايت ميں بھى اپنے تنازعات كے سلسلہ ميں نہ صرف فاسق و فاجر قاضيوں كے پاس جانے سے منع كيا گيا ہے بلكہ حاكم اور سلطان كے پاس جانے سے بھى منع كيا گياہے _ اور اس كى بجائے فقيہ عادل كے پاس جانے كى تاكيد كى گئي ہے _
امام خمينى اس روايت سے استدلال كرتے ہوئے فرماتے ہيں :
روايت ميں مذكور جملہ '' تدارى فى شئي '' سے مراد ''معاملاتى اختلافات'' ہيں يعنى اپنے معاملاتى اختلافات اور ايك دوسرے كے خلاف دعاوى ميں فساق كى طرف رجوع نہ كرو اور بعد والے جملہ '' كہ ميں نے تمھارے لئے قاضى مقرر كيا ہے '' سے معلوم ہوتا ہے كہ فسّاق سے مراد وہ قاضى ہيں جو اس وقت كے ناجائز حكمرانوں كى طرف سے منصب قضاوت پر فائز تھے _ اور حديث كے ذيل ميں فرماتے ہيں: و اياكم ان يخاصم بعضكم بعضاً الى السلطان الجائر _ يعنى وہ امور جن كا تعلق ''اجرائي طاقت '' سے ہے ان ميں ان حكّام كى طرف رجوع نہ كرو ، اگر چہ فاسق سلطان كلى طور پر ايك ناجائز طاقت ہے اور تمام غير اسلامى حكمران ، اسى طرح قاضى ،قانون بنانے والے، اوراس قانون كا اجرا كرنے والے تينوں اس ميں شامل ہيں، ليكن يہ ديكھتے ہوئے كہ ابتدا ميں ہى فاسق قاضيوں كے پاس جانے سے منع كرديا گيا ہے لہذا يہ ممانعت دوسرے گروہ يعنى قانون كا اجرا كرنے والوں كے سلسلہ ميں ہے _ آخرى جملہ اسى پہلے جملہ كى تكرار '' يعنى فساق كى طرف رجوع كرنے كى ممانعت'' نہيں ہے _ كيونكہ ابتدا ميں ان امور ميں فاسق قاضى كى طرف رجوع كرنے سے منع كيا گيا ہے جو اس كے ساتھ مربوط ہيں _ مثلاً بازپرسى اور گواہى و غيرہ پھر امام نے خود قاضى كو مقرر كيا ہے اور اپنے ماننے والوں كا فريضہ بيان كيا ہے اور آخر ميں امام نے سلاطين كى طرف رجوع كرنے سے روكا ہے_(1)
1) ولايت فقيہ ، صفحہ 82_
196
عظيم فقيہ شيخ مرتضى انصارى معتقد ہيں كہ قاضى كو منصب قضاوت پر قرار دينا قاضى كے دائرہ اختيارات كو صرف جھگڑوں كا فيصلہ كرنے تك محدود نہيں كرتااور ائمہ معصومين كے زمانہ ميں منصب قضاوت وسيع تر اختيارات كاحامل ہوتا تھا،يعنى قاضى بہت سے امور عامہ كے انتظام كا ذمہ دار ہوتا تھا لہذا يہ روايت امور عامہ ميں فقيہ كى ولايت كو ثابت كرتى ہے_ اور ہمارے زمانے كى اصطلاحى قضاوت تك محدود نہيں ہے_
''المتبادر من لفظ ''القاضي'' عرفاً: من يُرجَع اليہ و ينفذ حكمہ و الزامہ فى جميع الحوادث الشرعيّة كما ہو المعلوم من حال القضاة ، سيّما الموجودين فى ا عصار الا ئمّة عليہم السلام من قضاة الجور _ و منہ يظہر كون الفقيہ مرجعاً فى الامور العامّة ، مثل الموقوفات وا موال اليتامى والمجانين والغيّب ; لا نّ ہذا كلّہ من وظيفة القاضى عرفاً'' (1)
لفظ قاضى سے عرفاً ذہن ميں اس شخص كا تصور آتا ہے جس كا حكم تمام شرعى مسائل ميں نافذ العمل ہے_ جيسا كہ قضاوت كے حالات سے معلوم ہے_ خصوصاً سلاطين ظلم وجور كے مقرر كردہ وہ قاضى جو ائمہ معصومين كے دور ميں موجود تھے_ اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ فقيہ امور عامہ كا بھى ذمہ دار ہے_ مثلا موقوفات ، يتيموں ، ديوانوں اور غائب افراد كے اموال وغيرہ_ كيونكہ عرفاً يہ تمام قاضى كے فرائض ميں شامل ہيں_
1) القضاء و الشہادات صفحہ 49_
197
ياد رہے : امام عليہ السلام كے صرف اس جملہ ''انى قد جعلتہ عليكم قاضياً ''سے سياسى ولايت پر استدلال نہيں كيا جاسكتا _ اور وہ جو شيخ انصارى نے كہا ہے وہ قضاوت كے علاوہ امور حسبيہ ميں ولايت ہے_ اس بنا پر ولايت عامہ پر مقبولہ عمر ابن حنظلہ كى دلالت مشہورہ ابى خديجہ كى دلالت سے واضح اور روشن تر ہے_ كيونكہ اس ميں فقيہ كو '' منصب حكومت'' پر بھى مقرر كيا گيا ہے جبكہ مشہورہ ابى خديجہ ميں صرف منصب قضاوت پر مقرر كيا گيا ہے_ البتہ روايت ابى خديجہ ميں سلطان كى طرف رجوع كرنے كى ممانعت اس بات كى دليل ہے كہ شيعوں كو اس قسم كے امور ميں بھى سلطان كى بجائے فقيہ كى طرف رجوع كرنا چاہيے_ اگر چہ مقبولہ عمر ابن حنظلہ كى طرح اس كى دلالت اس قدر واضح نہيں ہے_
198
خلاصہ :
1) ولايت فقيہ پر دلالت كرنے والى روايات ميں سے اصلى روايت '' مقبولہ عمر ابن حنظلہ''ہے_
2) اس حديث ميں شيعوں كو نہ صرف فاسق حكومت كے قاضيوں، بلكہ فاسق حكمرانوں كى طرف رجوع كرنے سے بھى منع كيا گيا ہے_
3) اس حديث ميں امام نے شيعوں كو پابند قرار ديا ہے كہ وہ فاسق حكمران اور قاضى كى بجائے فقيہ كى طرف رجوع كريں اور اسى كو ''حاكم ''قرار ديا ہے_
4)اس روايت ميں كوئي سندى مشكل نہيں ہے كيونكہ اس كے تمام راوى ثقہ ہيں اور عمر ابن حنظلہ كى اگر چہ براہ راست توثيق نہيں كى گئي ليكن ان كى روايت علماء كے نزديك قابل قبول ہے_
5)ولايت فقيہ كى روائي ادلّہ ميں سے ايك روايت '' مشہورہ ابى خديجہ ''بھى ہے اور اس كا طرز استدلال مقبولہ عمر ابن حنظلہ كے طرز استدلال سے بڑى حدتك ملتا جلتا ہے_
6) ولايت فقيہ پر '' مقبولہ عمر ابن حنظلہ '' كى دلالت '' مشہورہ ابى خديجہ ''كى دلالت سے واضح تر ہے_كيونكہ ''مقبولہ '' ميں فقيہ كو براہ راست ''حاكم '' قرار ديا گيا ہے _
سوالات :
1) شيعوں كے كس ممتاز فقيہ نے ''فقيہ كى ولايت عامہ'' پر'' مقبولہ عمر ابن حنظلہ'' سے استدلال كيا ہے؟
2)ولايت فقيہ پر بطور مختصر'' مقبولہ عمر ابن حنظلہ'' سے استدلال كيجيئے؟
3) عمر ابن حنظلہ كى براہ راست توثيق نہيں كى گئي _ اس سندى مشكل كو كس طرح حل كيا جائے گا؟
4) مشہور ہ ابى خديجہ سے فقيہ كى ولايت عامہ پر استدلال كيجيئے؟
5) منصب قضاوت پر فائز فقيہ كے دائرہ اختيارات كے متعلق شيخ انصارى كا كيا نظريہ ہے؟
6)فقيہ كى ولايت عامہ پر'' مشہورہ ابى خديجہ'' كى دلالت ''مقبولہ عمر ابن حنظلہ'' كى دلالت كى نسبت وضاحت كے لحاظ سے كيوں كمتر ہے؟
|