140
سولہواں سبق :
فقيہ كى وكالت اور نظارت كے مقابلہ ميں ولايت انتصابي
اس سبق كا مقصد اس امر كى مزيد وضاحت كرنا ہے كہ'' فقيہ كى ولايت انتصابى سے كيا مراد ہے''؟ اوران لوگوں كے اس نظريہ كے ساتھ اس كا كيا فرق ہے جو ''ولايت فقيہ'' كى بجائے ''وكالت فقيہ ''كے قا ئل ہيں يعنى فقيہ لوگوں كا وكيل ياوہ حكومتى امور پرنظارت كھنے والا ہے _ اس سے ولايت فقيہ كى بحث ميں محل نزاع كے واضح ہونے ميں مدد ملے گى ليكن اس بحث ميں داخل ہونے سے پہلےان غلط فہميوںكى طرف اشارہ كرديا جائے جو ولايت فقيہ كے معنى كے متعلق پائي جاتى ہيں _وہى غلط فہمى جس كى طرف گذشتہ سبق كے آخر ميں ہم اشارہ كرچكے ہيں _ فقيہ كى سياسى ولايت كے بعض مخالفين اس بات پر مصرہيں كہ ولايت فقيہ ميں ''ولايت'' كاوہ معنى كيا جائے جو دوسرے سياسى نظاموں ميں موجود سياسى اقتدار اور قانونى حاكميت سے بالكل مختلف ہے_ گويا اس نظام ميں سياسى اقتدار كى حقيقت مكمل طور پر دوسرے نظاموں كے سياسى اقتدار كى حقيقت سے مختلف ہے _اس فكر اور نظريہ كا منشاو سرچشمہ فقيہ كى ولايت سياسى اور اُس ولايت كو ايك ہى طرح كا قرار دينا ہے جو محجور اور بے بس افراد پرہوتى ہے _وہ يہ سمجھتے ہيں كہ مختلف فقہى ابواب ميں جس ولايت كا ذكر كيا جاتا
141
ہے وہ ان موارد ميں ہوتى ہے جن ميں '' مولّى عليہ'' (جس پر ولايت ہو)محجور ،بے بس اور عاجز ہو پس ان لوگوں نے سياسى ولايت كو بھى اسى قسم كى ولايت خيال كيا ہے اور اس بات كے قائل ہوئے ہيں كہ فقيہ كى ولايت عامہ كا معنى يہ ہوا كہ معاشرہ كے افراد محجور وبے بس ہيں اور انھيں ايك ولى اور سرپرست كى ضرورت ہے_ لوگ رشد وتشخيص دينے سے قاصر ہيں اور اپنے امور ميں ايك سرپرست كے محتاج ہيں اس نظريہ كے حاميوں ميں سے ايك كہتے ہيں -:
ولايت بمعنى ''سرپرستي'' مفہوم اور ماہيت كے لحاظ سے حكومت اور سياسى حاكميت سے مختلف ہے كيونكہ ''ولايت'' وہ حق تصرف ہے جو ولى امر ''مولّى عليہ '' كے مخصوص مال اور حقوق ميں ركھتا ہے _وہ تصرفات جو ''مولّى عليہ '' عدم بلوغ و رشد اورشعور و عقل كى كمى يا ديوانگى كى وجہ سے اپنے حقوق اور اموال ميں نہيں كرسكتا _جبكہ حكومت يا سياسى حاكميت كا معنى ايك مملكت كوچلانا ہے _
اس قسم كے مطالب دوبنيادى نكات سے غفلت كى وجہ سے بيان كئے جاتے ہيں _
پہلا نكتہ يہ كہ فقہ ميں دو طرح كى ولايت پائي جاتى ہے _ايك وہ ولايت جو معاشرتى امور كى سرپرستى ہے كہ جس كا تعلق حكومت اور انتظامى امور سے ہے اور يہ ولايت اُس ولايت سے بالكل مختلف ہے جو محجور وقاصر افراد پر ہوتى ہے _ولايت كى يہ قسم قرآن كى رو سے رسولخدا (ص) اور اولى الامركيلئے ثابت ہے _كيا رسولخدا (ص) كا مسلمانوں كے ولى امر ہونے كا مطلب يہ ہے كہ صدر اسلام كے مسلمان محجوروعاجز تھے؟ اور اس دور كى ممتازاور سركردہ شخصيات ناقص تھيں ؟جيسا كہ كئي بار وضاحت كى گئي ہے كہ ولايت فقيہ وہى ائمہ معصومين كى ولايت كى ايك قسم ہے البتہ اس فرق كے ساتھ كہ ائمہ معصومين كى ولايت اس اعتبارى ولايت ميں منحصر نہيں ہے- بلكہ ائمہ معصومين مقامات معنوى اور تمام ترولايت و خلافت الہيہ كے بھى حامل
142
ہيں _
دوسرانكتہ يہ كہ روايات كى روسے امام قيّم و سرپرست ہو تا ہے _ولايت اور امامت كے عظيم عہدہ كے فلسفہ كے متعلق فضل ابن شاذان امام رضا سے روايت نقل كرتے ہيں جس ميں امام كو دين خدا كے نگران اور قيّم،احكام الہى كے محافظ اور بدعتى و مفسد افراد كا مقابلہ كرنے والے كے طور پر متعارف كرواياگيا ہے _روايت كے الفاظ يہ ہيں :
''انہ لولم يجعل لھم اماماً قيمّاً اميناً حافظاً مستودعاً ،لدرست الملّة وذھبت الدين وغيّرت السّنن ...فلولم يجعل لھم قيّماحافظاً لما جاء بہ الرسول (ص) لفسدوا'' (1)
اگر خداوند متعال لوگوں كيلئے سرپرست، دين كا امين ، حفاظت كرنے والااور امانتوں كا نگران امام قرار نہ ديتا تو ملت كا نشان تك باقى نہ رہتا، دين ختم ہوجاتا اور سنتيں تبديل ہوجاتيں ... پس اگر خدا ،رسول اكرم (ص) كے لائے ہوئے دين كيلئے كسى كو سرپرست اور محافظ نہ بناتا تو لوگ اس دين كو تباہ كرديتے_
اس قسم كى روايات ميں موجود لفظ ''قيّم ''سے مراد وہ سرپرستى نہيں لى جا سكتى جو باپ اور ولى كو چھوٹے بچے يا كم شعور پر حاصل ہوتى ہے _كيونكہ قرآن اور روايات كى اصطلاح ميں'' قيّم ''اس چيز يا اس شخص كو كہتے ہيں جو خود بھى قائم ہو اور دوسروں كے قوام كا ذريعہ ہو_اسى لئے قرآن كريم ميں دين اور كتاب خدا كو اس صفت كے ساتھ متصف كيا گيا ہے _سورہ توبہ كى آيت 36 ميں ارشاد ہو تاہے:
''ذلك الدين القيم ''يہى دين قيم ہے_
1) بحارالانوار ج6 ، صفحہ 60 ، حديث 1_
143
سورہ روم كى آيت 43 ميں ہے:
''فاقم وجھك للدّين القيّم ''
آپ اپنے رخ كو دين قيم كى طرف ركھيں_
سورہ بينہ كى آيت 2 اور 3 ميں ہے:
''رسولٌ من الله يتلوا صحفاً مطھّرة *فيھا كتب قيّمة''
اللہ كى طرف سے رسول ہے جو پاكيزہ صحيفوں كى تلاوت كرتا ہے _ جن ميں كتب قيمة ہيں_
امام اور اسلامى معاشرہ كا سرپرست اس معنى ميں لوگوں كا قيّم ہے كہ وہ ان كيلئے مايہ انسجام اور زندگى كا سہارا ہو تا ہے _قرآن اور روايت ميں استعمال ہونے والے لفظ ''قيّم ''كو اس معنى ميں نہيں لياجاسكتا جو فقہى كتب ميں محجور وبے كس افراد كى سرپرستى كيلئے استعمال ہو تا ہے _بنابريں ولايت فقيہ كے منكرين كے اس گروہ كويہى غلط فہمى ہوئي ہے كہ انہوں نے فقيہ كى ولايت كو اسى قسم كى سرپرستى سمجھاہے جو محجور و قاصر افراد پرہو تى ہے (1)_
ولايت انتصابى اور وكالت ونظارت ميں فرق
ولايت فقيہ كى بحث كا بنيادى اور اصلى محور يہ ہے كہ كيا ائمہ معصومين كى طرف سے فقيہہ عادل كو امت پر ولى نصب كيا گيا ہے ؟مسلم معاشرے كے سياسى اور اجتماعى امور كى ديكھ بھال، احكام كے اجرا اور امام معصوم كى نيابت كا اہم ترين فريضہ ادا كرنے كيلئے فقيہ كا امام كى طرف سے مقام ولايت پر منصوب ہونا درحقيقت ولايت فقيہ كى اصلى و بنيادى مباحث ميں سے ہے _''ولايت انتصابي'' كے معنى كى مزيد وضاحت كيلئے ضرورى ہے كہ ''ولايت انتخابي'' يا ''وكالت فقيہ'' سے اس كے فرق كى تحقيق كى جائے _جس طرح اس بات كى وضاحت بھى ضرورى ہے كہ'' ولايت فقيہ'' اور''نظارت فقيہ'' ميں كيا فرق ہے _
1) مزيدتفصيل كيلئے كتاب'' حكومت ديني'' صفحہ177تا185كى طرف رجوع كيجئے_
144
زمانہ غيبت ميں عادل اور جامع الشرائط فقيہ امام زمانہ(عجل اللہ فرجہ الشريف) كا نائب اور آپ كى طرف سے اسلامى معاشرہ كا منتظم و نگران ہو تا ہے _فقيہ عادل آپ كى طرف سے لوگوں پر ولايت ركھتا ہے يہ ''ولايت''،'' وكالت'' سے جدا ايك عہدہ ہے _فقيہ كى ''ولايت انتصابي'' اور ''ولايت انتخابى ''ميں بنيادى فرق اسى نكتہ ميں پوشيدہ ہے _''ولايت انتخابي'' كے نظريہ كى بنياد پر لوگ انتخاب اور بيعت كے ذريعہ فقيہ كو ''ولايت'' عطا كرتے ہيںگويا كہ لوگوں كا منتخب شدہ شخص ان كا وكيل اور مملكت كے انتظامى امور كا سرپرست ہو تا ہے_ ليكن فقيہ كى ''ولايت انتصابى ''كے نظريہ كى بنياد پر فقيہ عادل لوگوں كا وكيل نہيں ہوتابلكہ اسے يہ منصب شرعى دليلوں اور امام كے منصوب كرنے سے حاصل ہو تا ہے _اور لوگوں كا اسے تسليم كرنا اور اسكى مدد كرنا،اسكے ''منصب اور ولايت'' ميں كوئي بنيادى كردار ادا نہيں كرتا_بلكہ ولايت كو بروئے كار لانے اور اس كے اختيارات كے عملى ہونے ميں مددگار ثابت ہو تا ہے دوسرے لفظوں ميں لوگوں كا فقيہ كى ولايت كو قبول كرلينا اسكى ولايت كے شرعى ہونے كا باعث نہيں بنتا_بلكہ لوگوں كى طرف سے حمايت اور ساتھ دينے سے اس كى مقبوليت اور خارجى وجود كا اظہار ہوتاہے _
''ولايت انتصابى ''كى حقيقت مكمل طورپر''حقيقت وكالت ''سے بھى مختلف ہے _وكالت ميں ايك مخصوص شخص يعنى وكيل ايك خاص مورد ميں ايك دوسرے شخص يعنى ''موكل'' كى جگہ پر قرار پاتا ہے اور اس كى طرف سے عمل انجام ديتا ہے _اصل اختيار موكل كے ہاتھ ميں ہوتا ہے وكيل انہى اختيارات كى بنياد پر كام كرتا ہے جو ايك يا چند موكل اسے ديتے ہيں _جبكہ ولايت ميں ايسا نہيں ہوتا _حتى كہ اگر امام معصوم بھى ايك شخص كو وكيل اور دوسرے كو ولايت كے مقام پر منصوب فرمائيںتو ان دونوں كى حقيقت وحيثيت بھى ايك جيسى نہيں ہوتي_آيت الله جوادى آملى اس بار ے ميں كہتے ہيں :
145
''ولايت'' اور'' وكالت'' ميں فرق ہے_ كيونكہ وكالت ''موكل'' كے مرنے سے ختم ہوجاتى ہے ليكن ولايت ميں ايسا نہيں ہوتا يعنى اگر امام معصوم كسى كو كسى امر ميں اپنا وكيل قرار ديتے ہيں تو امام كى شہادت يا رحلت كے بعد اس شخص كى وكالت ختم ہوجاتى ہے_ مگر يہ كہ بعد والے امام اس كى وكالت كى تائيد كر ديں_ ليكن ولايت ميں ايسا نہيں ہوتا مثلا اگر امام كسى كو منصوب كرتے ہيں اور وہ آپ (ع) كى طرف سے كسى موقوفہ پر ولايت ركھتا ہو تو امام كى شہادت يا رحلت كے بعد اس شخص كى ولايت ختم نہيں ہوگى _ مگر يہ كہ بعد والے امام اس كو ولايت سے معزول كرديں_(1)
دوسرا نكتہ يہ ہے كہ'' ولايت فقيہ ''،''نظارت فقيہ ''سے مختلف ہے _ ولايت كا تعلق نظام كے چلانے اور اجراسے ہے_ ولايت اسلامى معاشرہ كے اہم ترين اور مختلف مسائل اور انتظامى امور كو اسلامى موازين اور قواعد كے مطابق حل كرنے كو كہتے ہيں_ جبكہ نظارت ايك قسم كى نگرانى ہے اور اجرائي عنصركى حامل نہيں ہوتى _ زمانہ غيبت ميں سياسى تفكر ميں محل نزاع ''فقيہ عادل كيلئے ولايت كا اثبات'' ہے جبكہ'' نظارت فقيہ'' موافقين اور مخالفين كے درميان محل نزاع و بحث نہيں ہے اصلى نزاع اور جھگڑا اس ميں ہے كہ كيا فقيہ عادل كو شريعت كى طرف سے ولايت پر منصوب كيا گيا ہے يا نہيں؟ لہذا اس باب ميں فقہى بحث كا محور ہميشہ ''ولايت فقيہ'' رہا ہے نہ كہ ''نظارت فقيہ''_
فقيہ كى ''ولايت انتصابى ''كے نظريہ كى بنياد پر يہ سوال سامنے آتا ہے كہ جامع الشرائط فقيہ كيلئے يہ ولايت كس طرح محقق ہوتى ہے؟
1) ولايت فقيہ صفحہ 395_
146
كيا ہر عادل اور جامع الشرائط فقيہ ''شان ولايت'' ركھتا ہے يا ''بالفعل'' اس منصب پر فائزہے ؟
حق يہ ہے كہ اگر'' ولايت فقيہ ''پر روايات كى دلالت صحيح ہو تو پھر ہر ''جامع الشرائط فقيہ '' كيلئے منصب ''ولايت'' ثابت ہے_ اور يہ عہدہ '' اہل حل و عقد ''كے انتخاب يا رائے عامہ جيسے كسى اور امر پر موقوف نہيں ہے_ پس ولايت فقيہ كى ادلّہ كى روسے فقيہ عادل بالفعل ولايت كا حامل ہے _ جس طرح ہر فقيہ عادل بالفعل منصب قضا كا حامل ہوتا ہے اور جھگڑوں كا فيصلہ كر سكتا ہے_
ياد رہے كہ تمام ''و اجدالشرائط فقہاء ''جو كہ'' منصب ولايت ''كے حامل ہيں براہ راست معاشرے كے امور كى نگرانى كے عہدہ پر فائز نہيں ہوسكتے _ جس طرح ايك كيس كے سلسلہ ميں تمام قاضى فيصلہ نہيں دے سكتے _ واضح سى بات ہے كہ جب ايك ''جامع الشرائط فقيہ'' امور كى سرپرستى اپنے ذمہ لے ليتا ہے تو باقى فقہا سے يہ ذمہ دارى ساقط ہوجاتى ہے _ بنابريں ايك فقيہ عادل كو اہل حل و عقد كا منتخب كرنا يا عوام كا اسے تسليم كر لينا دوسرے فقہاء سے منصب ولايت كو سلب نہيں كرتا بلكہ جب تك ايك فقيہ عادل امور كى سرپرستى كر رہا ہے تو دوسروں سے يہ ذمہ دارى ساقط ہے_
147
خلاصہ :
1) جوافراد ولايت فقيہ كو اس ولايت كى قسم سمجھتے ہيں جو محجور و بے كس افراد پر ہوتى ہے وہ ولايت كى قانونى حقيقت و ماہيت كو دوسرے سياسى اقتدار كى قانونى حقيقت سے مختلف قرار ديتے ہيں_
2) اس نظريہ كے قائلين ''فقيہ كى ولايت عامہ ''كو لوگوں كے كم شعور اور بے بس ہونے كا لازمہ سمجھتے ہيں_
3) اس نظريہ كے قائلين اس سے غافل رہے ہيں كہ اسلامى معارف ميں لفظ ولايت كے مختلف استعمال ہيں_
4) روايات ميں امام كومعاشرہ كا قيّم كہا گيا ہے_ اور ان روايات ميں ''قيم''،'' ذريعہ حيات و قوام '' كے معنى ميں استعمال ہوا ہے_ جس معنى ميں قرآن نے دين اور آسمانى صحيفوں كو'' قيّم ''كہا ہے_
5) ''ولايت انتصابى ''مكمل طور پرلوگوں كى طرف سے ''ولايت انتخابي'' اور ''وكالت فقيہ '' كے نظريہ سے مختلف ہے_
6) ولايت انتصابى ايك قانونى حقيقت ہونے كے لحاظ سے وكالت كى ماہيت سے مختلف ہے_
7)'' ولايت فقيہ ''حاكميت اور امور كى سرپرستى كے معنى ميںہے لہذا'' نظارت فقيہ '' سے واضح فرق ركھتى ہے_
8) ولايت فقيہ كى ادلّہ كى رو سے يہ ولايت بالفعل ہر جامع الشرائط فقيہ كو حاصل ہے _ يعنى ہر فقيہ عادل امام كى طرف سے منصوب ہوتا ہے اور اس كى ولايت شرعى ہوتى ہے_
148
سوالات :
1) كيا ولايت فقيہ كى قانونى حقيقت دوسرى حكومتوں كے سياسى اقتدار سے مختلف ہوتى ہے؟
2) وہ افراد جو ولايت فقيہ كو وہ ولايت سمجھتے ہيں جو محجور افراد پر ہوتى ہيں_ انہوں نے كن نكات سے غفلت كى ہے؟
3) فقيہ كى ''ولايت انتصابى ''،''وكالت فقيہ ''سے كيا فرق ركھتى ہے؟
4) كيا ولايت فقيہ اور نظارت فقيہ ايك ہى چيز ہے؟
5) ولايت فقيہ كى ادلّہ كى روسے جامع الشرائط فقيہ كيلئے كس قسم كى ولايت ثابت كى جاسكتى ہے؟
|