132
تيسرا باب:
ولايت فقيہ كا معنى ، مختصر تاريخ اور ادلّہ
سبق 15 : ولايت فقيہ كا معني
سبق16: وكالت و نظارت فقيہ كے مقابلہ ميں انتصابى ولايت
سبق 17 _18: ولايت فقيہ كى مختصر تاريخ
سبق 19 : ولايت فقيہ ايك كلامى مسئلہ ہے يا فقہي؟
سبق 20،21،22 : ولايت فقيہ كے اثبات كى ادلّہ
سبق 23 : ولايت فقيہ پر عقلى دليل
133
تمہيد :
پہلے گذرچكاہے كہ شيعوں كا سياسى تفكر'' نظريہ انتصاب ''پر استوار ہے اور شيعہ معتقدہيں كہ ائمہ معصومين كى امامت اور ولايت خدا كى طرف سے ہے اور اس كا اعلان خود رسول خدا (ص) نے فرمايا ہے _ اہم سوال جو زير بحث ہے وہ يہ ہے كہ كيا زمانہ غيبت ميں فقہاء عادل كو ولايت عامہ اور ائمہ معصومين كى نيابت حاصل ہے ؟ مذكورہ باب اسى اساسى سوال كى تحقيق كے متعلق ہے _
اس باب ميں ابتداً ولايت فقيہ كا معنى واضح كيا جائے گا اور محل نزاع پر عميق نظر ڈالى جائے گى _ تا كہ اس كے متعلق جو غلط فہمياں ہيں انہيں دور كيا جاسكے_
اس كے بعد علمائ شيعہ كے اقوال اور ولايت فقيہ كى تاريخ پر ايك نگاہ ڈاليں گے _ ولايت فقيہ كے اثبات كى ادلّہ كى تحقيق اس باب كى اہم ترين بحث ہے اور اس سے پہلے يہ واضح كريں گے كہ مسئلہ ولايت فقيہ ايك كلامى بحث ہے يا فقہي؟ اس مسئلہ كا جواب براہ راست ان ادلّہ پر اثر انداز ہوتاہے جو ولايت فقيہ كے اثبات كيلئے قائم كى گئي ہيں _ مسئلہ ولايت فقيہ كو كلامى سمجھنا يا كم از كم يہ اعتقاد ركھنا كہ مسئلہ فقہى ہونے كے ساتھ ساتھ اس ميں كلامى پہلو بھى ہے اس سے ولايت فقيہ پر عقلى ادلہ پيش كرنے كى راہ ہموار ہوجائے گي_
134
پندرہواں سبق:
ولايت فقيہ كا معني
لغوى لحاظ سے ولايت '' و _ ل _ ي'' سے ماخوذ ہے _ واو پر زبر اور زير دونوں پڑھے جاتے ہيں _ اس كے ہم مادہ ديگر كلمات يہ ہيں _ توليت ، موالات ، تولّى ، وليّ، متولّي، استيلائ، ولائ، مولا، والى _
لغوى لحاظ سے ولايت كے متعدد معانى ہيں مثلاً نصرت ، مدد، امور غيركا متصدى ہونا اور سرپرستى وغيرہ_البتہ ان معانى ميں سے سرپرستى او رغير كے امور ميں تصرف ولايت فقيہ سے زيادہ مناسبت ركھتے ہيں_جو شخص كسى منصب يا امر كا حامل ہو اسے اس امر كا سرپرست، مولى اورولى كہا جاتاہے، بنابريں لفظ ولايت اور اس كے ہم مادہ الفاظ يعنى ولي، توليت ، متولى اور والى سرپرستى اور تصرف كے معنى پر دلالت كرتے ہيں اس قسم كے كلمات كسى دوسرے كى سرپرستى اور اس كے امور كى ديكھ بھال كيلئے استعمال ہوتے ہيں اور بتلاتے ہيں كہ ولى اور مولا دوسروں كى نسبت اس تصرف اور سرپرستى كے زيادہ سزاوار ہيںاور ولى و مولا كى ولايت كے ہوتے ہوئے دوسرے افراد اس شخص كى سرپرستى اور اس كے امور ميں تصرف كا حق نہيں ركھتے (1)
1) مولى اور ولى كے معانى كى مزيد تفصيل كيلئے كتاب الغدير ، جلد1، صفحہ 609 ، 649 اور فيض القدير ،صفحہ 375_ 448 كى طرف رجوع كيجئے _
135
قرآن كريم ميں جو الفاظ ان معانى ميں استعمال ہوئے ہيں _ وہ اللہ تعالى ، رسول -(ص) اور امام كيلئے استعمال ہوئے ہيں _
'' إنَّمَا وَليُّكُمُ الله ُ وَرَسُولُہُ وَالَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَيُؤتُونَ الزَّكَاةَ وَہُم رَاكعُونَ'' (1)
سواے اس كے نہيں كہ تمہارا ولى خدا ، اس كا رسول اور وہ مومن ہيں جو نماز قائم كرتے ہيں اور حالت ركوع ميں زكوة ديتے ہيں _
و ، ل ، ى كے مشتقات كے معانى اور قرآن و روايات ميں ان كے استعمال كى تفصيلى بحث ہميں ہمارى اصلى بحث سے دور كردے گى ، كيونكہ ولايت اور اس سے ملتے جلتے الفاظ يعنى والى اور ولى و غيرہ كا اصطلاحى معنى واضح اور روشن ہے_
جب ہم كہتے ہيں : كيا رسول خدا (ص) نے كسى كو مسلمانوں كى ولايت كيلئے منصوب كيا ہے ؟ يا پوچھتے ہيں : كيا زمانہ غيبت ميں فقيہ عادل و لايت ركھتا ہے ؟ واضح ہے كہ اس سے ہمارى مراد دوستي، محبت اور نصرت وغيرہ نہيں ہوتي_ بلكہ اس سے مراد اسلامى معاشرہ كے امور كى سرپرستى ہوتى ہے _ ولايت فقيہ كا معنى يہ ہے كہ فقيہ عادل اسلامى معاشرہ كى سرپرستى اور حاكميت كا حقدار ہے اور اس شرعى اور اجتماعى منصب كيلئے منتخبكيا گيا ہے _
ولايت كى حقيقت اور ماہيت
ولايت فقيہ كى ادلہ كے ذريعہ فقيہ عادل كيلئے جو ولايت ثابت كى جاتى ہے وہ شرعى اعتبارات اور مجعولات ميں سے ہے _ فقاہت ، عدالت اور شجاعت جيسى صفات تكوينى ہيں جبكہ رياست اور ملكيت جيسے امور اعتباري
1) سورہ مائدہ آيت 55_
136
اور وضعى ہيں _ اعتبارى اور وضعى امور ان امور كو كہتے ہيں جو جعل اور قرار دينے سے وجود ميں آتے ہيں يعنى بذات خود خارج ميں ان كااپنا وجود نہيں ہوتا_ بلكہ بنانے والے كے بنانے اور قرار دينے والے كے قرار دينے سے وجود ميں آتے ہيں _ لہذا اگر قرار دينے والا شارع مقدس ہو تو انہيں ''اعتبارات شرعي''كہتے ہيں اورا گر عقلاء اور عرف عام ہوں تو پھر انہيں ''اعتبارات عقلائي ''كہا جاتاہے_(1)
جو شخص فقيہ بنتاہے يا وہ شخص جو ملكہ عدالت اور تقوى كو حاصل كرليتاہے وہ ايك حقيقت اور ''تكوينى صفت'' كا حامل ہوجاتاہے _ليكن اگر كسى شخص كو كسى منصب پر فائز كيا گيا ہے اوراس كے لئے ايك حاكميت قرار دى گئي ہے تو يہ ايك حقيقى اور تكوينى صفت نہيں ہے بلكہ ايك قرار داد اور ''عقلائي اعتبار'' ہے ''امر اعتبارى ''اور'' امر تكوينى ''ميں يہ فرق ہے كہ '' امر اعتبارى '' كا وجود واضع اور قرار دادكرنے والوں كے ہاتھ ميں ہوتاہے_ ليكن ''تكوينى حقائق '' كسى بنانے والے يا قرار دينے والے كے ہاتھ ميں نہيں ہوتے كہ قرار كے بدلنے سے ان كا وجود ختم ہوجائے_
ولايت دو طرح كى ہوتى ہے _ تكوينى اور اعتبارى _ وہ ولايت جو فقيہ كو حاصل ہے اور ولايت فقيہ كى ادلہ سے جس كا اثبات ہوتاہے _'' ولايت اعتبارى ''ہے _ولايت تكوينى ايك فضيلت اور معنوى و روحانى كمال ہے _رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين كو دونوں قسم كى ولايت حاصل ہے آپ عصمت، عبوديت اور علم الہى كے اعلى مراتب پر فائز ہونے اور خليفہ خدا ہونے كى وجہ سے ولايت تكوينيہ اور الہيہ كے حامل محسوب ہوتے ہيں جبكہ مسلمانوں كى رہبرى اور قيادت كى وجہ سے سياسى ولايت ركھتے ہيں جو كہ ''ولايت اعتباري''ہے _ امام خمينى اس بارے ميں فرماتے ہيں :
1) وہ حاكميت جس كا ايك قوم وقبيلہ اپنے سردار كيلئے اور ايك معاشرہ اپنے حاكم كيلئے قائل ہوتاہے ''اعتبارات عقلائي'' كے نمونے ہيں _ اسى طرح ٹريفك كے قوانين كہ سرخ لائٹ پر ركنا ہے يا يہ سڑك يك طرفہ ہے يہ تمام اعتبارات و مجعولات عقلائي كى مثاليں ہيں_
137
جب ہم يہ كہتے ہيں كہ وہ ولايت جس كے رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين حامل تھے وہى ولايت زمانہ غيبت ميں فقيہ عادل كو حاصل ہے تو كوئي ہرگز يہ نہ سمجھے كہ فقہاء كو وہى مقام حاصل ہے جو رسولخدا (ص) اور ائمہ معصومين كو حاصل تھا، كيونكہ يہاں بات مقام كى نہيں ہے بلكہ فريضے اور ذمہ دارى كى ہے_ ولايت يعنى ''حكومت اورملك ميں شرعى قوانين كا اجرا'' ايك سنگين اور اہم ذمہ دارى ہے _ نہ يہ كہ كسى شخص كو ايك عام انسان سے ہٹ كر كوئي اعلى و ارفع مقام ديا جارہا ہے_ دوسرے لفظوں ميں مورد بحث ولايت يعنى حكومت اور اس كا انتظام بہت سے افراد كے تصور كے برعكس كوئي مقام نہيں ہے بلكہ ايك بھارى اور عظيم ذمہ دارى ہے ''ولايت فقيہ '' ايك ''امر اعتبارى عقلائي'' ہے _ لہذا جعل كے سوا كچھ بھى نہيں ہے (1)_
ياد رہے كہ اس اعتبار سے كہ ولايت فقيہہ ، منصب حكومت اور معاشرتى نظام كے چلانے كو فقيہ كى طرف منسوب كرتى ہے_ ولايت فقيہ ايك'' اعتبار عقلائي ''ہے كيونكہ تمام معاشروں ميں ايسى قرارداد ہوتى ہے اور كچھ افراد كيلئے يہ منصب وضع كيا جاتاہے_ دوسرى طرف چونكہ يہ منصب اور اعتبار روايات معصومين اور شرعى ادلّہ سے فقيہ كو حاصل ہے اس لئے يہ ايك شرعى اعتبار اور منصب بھى ہے _ پس اصل ولايت ايك ''اعتبار عقلائي''ہے اور فقيہ كيلئے شارع مقدس كى طرف اس كى تائيد ايك ''اعتبار شرعى ''ہے _
اسلامى فقہ ميں دوطرح كى ولايت
ولايت كے متعلق آيات اور روايات كو كلى طور پر دو قسموں ميں تقسيم كيا جاسكتاہے يا دقيق تعبير كے مطابق فقہ ميں دو قسم كى ولايت پائي جاتى ہے_ ايك ولايت كا تعلق مومنين كے امور كى سرپرستى سے ہے يہ وہى ولايت ہے جو رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومينكى طرف سے ''زمانہ غيبت'' ميں'' فقيہ عادل '' كو حاصل
1) ولايت فقيہ صفحہ 40 ، 41_
138
ہے _ اس سبق كى ابتدا ء ميں جو آيت ذكر كى گئي ہے _ وہ اسى ولايت كى طرف اشارہ كرتى ہے _ دوسرى ولايت وہ ہے جس ميں ان افراد كى سرپرستى كى جاتى ہے جو فہم و شعور نہيں ركھتے يا اپنے امور انجام دينے سے قاصر ہيں يا موجود نہ ہونے كى وجہ سے اپنے حق سے فائدہ نہيں اٹھاسكتے _ لہذا ضرورى ہے كہ ان كى طرف سے ايك ولى اپنى صواب ديد كے تحت انمحجور، غائب اور بے بس افراد كے امور كى سرپرستى كرے _
باپ اور دادا كى اپنے كم سن، كم عقل اور ديوانے بچوں پر ولايت، مقتول كے اولياء كى ولايت اورميت كے ورثا كى ولايت تمام ا سى ولايت كى قسميں ہيں _ درج ذيل آيات اسى ولايت كى اقسام كى طرف اشارہ كررہى ہيں_
''و من قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّہ سلطانا فلا يُسرف فى القتل''(سورہ اسراء آيت33)
جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس كے وارث كو ( قصاص كا) حق ديا ہے پس اسے چاہيے كہ قتل ميں زيادتى نہ كرے_
''فان كان الذى عليہ الحق سفيہاً او ضعيفا او لا يستطيع ان يملّ ہو فليملل وليہ بالعدل'' (سورہ بقرہ آيت 282)
اور اگر قرض لينے والا كم عقل يا معذور يا خود لكھوا نہ سكتا ہو تو اس كا سرپرست انصاف سے لكھوادے_
ان دو قسم كى ولايت كے درميان بنيادى فرق سے غفلت اور ان دونوں كو ايك ہى سمجھنے كى وجہ سے ولايت فقيہ كے بعض مخالفين ايك بڑى اور واضح غلطى كے مرتكب ہوئے ہيں _ وہ يہ سمجھنے لگے ہيں كہ ولايت فقيہ وہى محجور و قاصر افراد پر ولايت ہے اور ولايت فقيہ كا معنى يہ ہے كہ لوگ مجنون، بچے ، كم عقل اور محجور افراد كى طرح ايك سرپرست كے محتاج ہيں اور ان كيلئے ايك سرپرست كى ضرورت ہے_ لہذا ولايت فقيہ كا لازمہ لوگوں اور ان كے رشد و ارتكاء كى اہانت ہے _ آنے والے سبق ميں ہم اس غلط فہمى كا جواب ديں گے_
139
خلاصہ
1)ولايت كے متعدد معانى ہيں _ ولايت فقيہ سے جو معنى مراد ليا جاتاہے وہ ايك لغوى معنى يعنى سرپرستى اور تصرف كے ساتھ مطابقت ركھتاہے _
2)ولايت فقيہ ''اعتبارات شرعى ''ميں سے ہے _
3) معصومين '' ولايت اعتبارى ''كے علاوہ '' ولايت تكوينى ''كے بھى حامل ہيں جو كہ ايك كمال اور معنوى فضيلت ہے _
4) فقہ ميں دو قسم كى ولايت پائي جاتى ہے_
الف:محجور و عاجز افراد پر ولايتب : مومنين كے اجتماعى امور كى سرپرستي
5) وہ ولايت جو قرآن كريم ميں رسول خدا (ص) اور اولى الامر كيلئے ثابت ہے اور ان كى پيروى ميں فقيہ عادل كيلئے بھى ثابت ہے ولايت كى يہى دوسرى قسم ہے_
6) ان دو قسم كى ولايت كے درميان اشتباہ اور دوسرى قسم كى ولايت كے وجود سے غفلت سبب بنى ہے كہ بعض افراد نے ولايت فقيہ كو اس ولايت كى قسم سمجھا ہے جو محجور اوربے بس افراد پر ہوتى ہے_
سوالات:
1) ولايت فقيہ كا اصطلاحى معنى ولايت كے كونسے لغوى معنى كے ساتھ مناسبت ركھتاہے ؟
2)اس سے كيا مراد ہے كہ فقيہ عادل كى ولايت ايك'' امر اعتبارى ''ہے ؟
3) ولايت تكوينى سے كيا مراد ہے ؟
4) ولايت فقيہ اور ائمہ معصومين كى ولايت ميں كيا فرق ہے ؟
5) محجور افراد پر ولايت سے كيا مراد ہے؟
|