اسلامی نظریہ حکومت
  112
تيرہواں سبق:
سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار (1)
اہلسنت كے سياسى نظريہ كى وضاحت كے دوران ميں اس نكتہ كى طرف اشارہ ہو چكا ہے كہ وہ آنحضرت (ص) كے بعد سياسى ولايت كے سلسلہ ميں دينى متون كو ساكت سمجھتے ہيں اور معتقد ہيں كہ سياسى ولايت كا كام خود امت كے سپرد كيا گيا ہے _ شورى يعنى ''اہل حل و عقد'' كى رائے اور'' بيعت مسلمين ''اسلامى حاكم كى تعيين كرتے ہيں _ واضح ہے كہ ايسا دعوى شيعہ عقائد كے ساتھ سازگار نہيں ہے _ علم كلام كى كتابوں ميں امامت كے متعلق جو معتبر اور متعدد ادلّہ قائم كى گئي ہيں وہ اس دعوى كو بے معنى قرار ديتى ہيں _ ائمہ معصومين كى امامت ''انتصابى ''يعنى خدا كى طرف سے مقرركردہ ہے_ لوگوں كى بيعت صرف امام كے اختيارات كو عملى جامعہ پہنانے ميں مددگار ثابت ہوتى ہے اوراس كا امامت كى حقيقت ميں كوئي كردار نہيں ہوتا_ ليكن سوال يہ ہے كہ كيا امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف كى غيبت كے دوران بھى اس دعوے كو تسليم كيا جاسكتا ہے ؟ اور كيازمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كا اختيار خود شيعوں كو حاصل ہے اور بيعت اور شورى سياسى رہبر كا انتخاب كرے گي؟ يہ بحث اس مفروضہ كى بناپر ہے كہ ائمہ معصومين كى نيابت عامہ موجود نہيں ہے اور روايات كى روسے فقيہ

113
عادل كو ولايت تفويض نہيں كى گئي _
اس سبق اور اگلے سبق ميں ہم ان دونكتوں كى تحقيق كريں گے _ پہلا يہ كہ كيا روايات ميں اس دعوى كے تسليم كرنے پر كوئي دليل موجود ہے ؟ اور كيا زمانہ غيبت ميں بيعت اور شورى ''سياسى زندگي'' كا تعيّن كرسكتے ہيں ؟ دوسرا يہ كہ اصولى طور پر اسلام كے سياسى تفكر ميں بيعت اور شورى كا كيا كردار ہے ؟
حضرت اميرالمومنين سے بعض ايسى روايات منقول ہوئي ہيں جو صريحاً كہتى ہيں كہ سياسى ولايت كا حق خود امت كو حاصل ہے _ لہذا اگر مسلمانوں كى شورى كسى كو مقرر كردے اور لوگ اس كى بيعت كرليں تو وہى مسلمانوں كا حاكم اور ولى ہے _ اس قسم كى روايات كى تحقيق سے پہلے ضرورى ہے كہ بيعت اور اس كى اقسام كے متعلق مختصر سى وضاحت كردى جائے _

بيعت كا مفہوم اور اس كى اقسام :
بيعت ايك قسم كا عہد و پيمان اور عقد ہے جو ظہور اسلام سے پہلے عرب قبائل ميں رائج اور مرسوم تھا لہذا يہ ايسا مفہوم نہيں ہے جسے اسلام نے متعارف كروايا ہو _ البتہ متعدد مواقع پر سيرت نبوى (ص) نے بيعت مسلمين كو شرعى جواز بخشا ہے _
بيعت اور بيع لفظ ''باع'' كے دو مصدر ہيں اسى وجہ سے بيعت كا مفہوم بڑى حد تك بيع كے مفہوم سے مطابقت ركھتا ہے جو كہ خريد و فروخت كے معنى ميں ہے _ بيع وہ عقد اور معاملہ ہے جس ميں فروخت كرنے والے اور خريدار كے در ميان مال كا تبادلہ ہوتا ہے _ اسى طرح بيعت وہ معاملہ ہے جو ايك قوم كے رہبر اور اس كے افراد كے درميان قرار پاتا ہے اس بنياد پر كہ بيعت كرنے والے اپنى اطاعت ، اپنے وسائل و امكانات اور اموال كو اس كے زير فرمان قرار دے ديتے ہيں_

114
جس طرح بيع (خريد و فروخت)ميں معاملہ كرنے والوں كے درميان ابتدا ميں قيمت اور دوسرى شرائط طے پاتى ہيں پھر معاملہ انجام پاتا ہے _ '' غالباًيہ معاملہ گفتگو كے ذريعہ انجام ديا جاتا ہے ليكن كبھى كبھى فعل يعنى صرف عملى طور پر بھى انجام پاتا ہے كہ جسے بيع معاطات كہتے ہيں ''_ بيعت ميں بھى اسى طرح پہلے گفتگو ہوتى ہے اور تمام شرائط پر رضايت حاصل كى جاتى ہے پھر دوسرے كے ہاتھ ميں ہاتھ دے كر اپنى رضايت كا اقرار كيا جاتا ہے _ اس طرح بيعت ہوجاتى ہے يہ معاہدہ بيعت مختلف طرح كا ہوسكتا ہے اسى لئے ہميں بيعت كى مختلف قسميں ديكھنے كو ملتى ہيں _بيعت كى جو قسم غالب اور رائج ہے وہ مقابل كى سياسى ولايت كو قبو ل كرنے سے متعلق ہے_ عربوں كے در ميان ايك شخص بيعت كے ذريعہ دوسرے شخص كى سياسى ولايت كو قبول كرليتا تھا _ سقيفہ ميں حضرت ابوبكر كى بيعت ، قتل عثمان كے بعد امير المومنين حضرت على كى بيعت اور خليفہ كے تعيّن كے لئے حضرت عمر نے جو شورى تشكيل دى تھى اس ميں عبدالرحمن ابن عوف كا حضرت عثمان كى بيعت كرنا يہ سب خلافت اور سياسى ولايت پر بيعت كرنے كے موارد ہيں_ ليكن بيعت صرف اسى قسم ميں منحصر نہيں ہے كيونكہ كبھى بيعت اس لئے كى جاتى تھى تا كہ دشمن كے مقابلہ ميں جہاد اور ثابت قدمى كا عہد ليا جائے _ جس طرح بيعت رضوان كا واقعہ ہے جو كہ حديبيہ كے مقام پر 6 ہجرى ميں لى گئي_ سورہ فتح كى اٹھارہويں آيت ميں اس كى طرح اشارہ ہے _
''لَقَد رَضيَ الله ُ عَن المؤمنينَ اذيُبا يعُونَك تَحْتَ الشَّجرة فَعَلمَ ما فى قلُوبہم فا نْزَلَ السَّكينَةَ عَلَيْہم''
خدا صاحبان ايمان سے راضى ہوگيا جب وہ درخت كے نيچے تيرى بيعت كر رہے تھے جو كچھ ان كے دلوں ميں تھاوہ اسے جانتا تھا پس اس نے ان پر سكون نازل كيا _

115
6 ہجرى تك مسلمانوں پر رسولخدا (ص) كى سياسى اور دينى قيادت اور ولايت كو كئي سال گذر چكے تھے _ لہذا يہ بيعت آنحضرت (ص) كو سياسى قيادت سونپے كيلئے نہيں ہوسكتى _ جناب جابر جو كہ اس بيعت ميںموجود تھے كہتے ہيں : ہم نے يہ بيعت اس بناپر كى تھى كہ دشمن كے مقابلہ ميں فرار نہيں كريںگے_ ''بايَعنا رسول الله (يَومَ الحُدَيبية) على ا ن لانَفرّ''(1)_
بعض اوقات بيعت كا مقصد ايك شخص كى اس كے دشمنوں كے مقابلہ ميں حمايت اور دفاع كا اعلان كرنا ہوتاتھا _ جس طرح بعثت كے تيرہويں سال مقام عقبہ ميں اہل يثرب كے نمائندوں نے آنحضرت (ص) كى بيعت كى تھى _ (2)
بيعت كى ان تمام اقسام ميں يہ بات مشترك ہے كہ ''بيعت كرنے والا ''بيعت كى تمام طے شدہ شرائط كا پابند ہوتا ہے _ بيعت ايك ايسا عہد و پيمان ہے جس كا پورا كرنا بيعت كرنے والے كيلئے ضرورى ہوتا ہے _
بيعت كے مفہوم كى وضاحت كے بعد ان بعض روايات كو ذكر كرتے ہيں جن سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ اسى شخص كى ولايت قابل اعتبار ہے جس كى لوگ بيعت كر ليں _ ظاہرى طور پر يہ روايات ''نظريہ انتخاب'' كى تائيد كرتى ہيںيعنى سياسى ولايت كے تعيّن كا حق خود مسلمانوں كو دياگيا ہے _

نظريہ انتخاب كى مؤيد روايات
امير المومنين حضرت على فرماتے ہيں :
''إنّہ بايعنى القوم الذين بايعوا أبابكر و عمر و عثمان على ما
1) جامع البيان ابن جرير طبري، جلد 26، صفحہ 110، 113 مذكورہ آيت كے ذيل ميں_
2) السيرة النبويہ، جلد2، صفحہ 84،85_
116
بايعوہم عليہ ، فلم يكن للشّاہد أن يختار و لا للغائب أن يردّ ، و إنّما الشورى للمہاجرين والانصار، فإن اجتمعوا على رجل سمّوہ إماماً كان ذلك لله رضي''(1)
جن لوگوں نے ابوبكر ، عمر اور عثمان كى بيعت كى تھى انہى لوگوں نے انہى شرائط پر ميرى بھى بيعت كى ہے لہذا جو بيعت كے وقت حاضرتھا اسے نئے انتخاب كا اختيار نہيں اور جو غائب تھا اسے ردّ كرنے كا حق حاصل نہيں يقينا شورى مہاجرين اور انصار كيلئے ہے پس اگر وہ كسى شخص پر متفق ہو جائيں اور اسے امام منتخب كرليں تو خدا اس پر راضى ہے _
ايك اور مقام پر فرمايا :
''و لعمرى لئن كانت الإمامة لا تنعقد حتّى يحضرہا عامّة الناس فما إلى ذلك سبيل، و لكن أہلہا يحكمون على من غاب عنہا ثمّ ليس للشّاہد أن يرجع و لا للغائب أن يختار''(2)
مجھے اپنى جان كى قسم اگر امامت كے انتخاب كيلئے تما م لوگوں كا حاضر ہونا شرط ہوتا تو امام كا انتخاب كبھى بھى نہ ہوتا ليكن اہل حل و عقد غائب افراد پر حجت ہوتے ہيں پھر حاضر كيلئے پلٹنے كا اختيار نہيں اور غائب كو نئے انتخاب كا حق حاصل نہيں _
1) نہج البلاغہ ، مكتوب 6 _
2) نہج البلاغہ ، خطبہ 173_
117
شيخ مفيد كہتے ہيں :جب عبدالله ابن عمر، سعد ابن ابى وقاص ، محمد بن مسلمہ ، حسان ابن ثابت اور اسامہ ابن زيد نے حضرت على كى بيعت سے انكار كيا ، تو آپ نے خطبہ ديتے ہوئے فرمايا :
''أيّہا الناس، إنّكم بايعتمونى على ما بويع عليہ من كان قبلي، و إنّما الخيار إلى الناس قبل أنْ يبايعوا ، فإذا بايَعوا فلا خيار لہم، وإنّ على الإمام الاستقامة، و على الرعية التسليم و ہذہ بيعة عامّة و من رغب عنہا رغب عن دين الاسلام ، و اتّبع غير سبيل أہلہ ...''(1)
اے لوگوں تم نے انہى شرائط پر ميرى بيعت كى ہے كہ جن شرائط پر مجھ سے پہلے والوں كى بيعت كى تھي_ لوگوں كو بيعت كرنے سے پہلے اختيار حاصل ہے ليكن جب وہ بيعت كرليں تو پھر اختيار نہيں ہے _ امام كيلئے استقامت و پائيدارى اور رعيت كيلئے اطاعت اور پيروى ہے _ يہ بيعت عامہ ہے جس نے اس سے روگردانى كى اس نے دين سے منہ پھيرا اور اہل دين كے راستہ سے ہٹ گيا ...
قتل عثمان كے بعد جب لوگوں نے بيعت كرنا چاہى اور خلافت كى درخواست كى توآپ (ع) نے فرمايا :
بيعت تمھارے ساتھ مربوط نہيں ہے بيعت كا تعلق اصحاب بدر سے ہے جسے وہ خليفہ منتخب كرليں وہى مسلمانوں كا خليفہ ہوگا _(2)
1) ارشاد جلد 1، صفحہ 243 _ نہج البلاغہ مكتوب 6 _
2) ا نساب الاشراف، بلاذرى جلد4، صفحہ 559_
118
اس قسم كى روايات سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ خليفة المسلمين كے انتخاب كا اختيار مسلمانوں كے ہاتھ ميں ہے وہ افراد جو انتخاب كى صلاحيت ركھتے ہيں اور'' اہل حل و عقد'' شمار ہوتے ہيں، اگر كسى كى بيعت كرليںتو وہى مسلمانوں كا امام اور خليفہ ہے اور اس كى اطاعت واجب ہے اور دوسروں كو اس كى مخالفت كا حق حاصل نہيں ہے _ آخرى روايت صريحاً جبكہ بعض ديگر روايات ظاہرى طور پر يہ كہہ رہى ہے كہ حاكم اور خليفة المسلمين كے تعيّن ميں تمام افراد كى رائے اور بيعت كى اہميت ايك جيسى نہيں ہے بلكہ ايمان، جہاد اور شہادت ميں سبقت حاصل كرنے والے اس انتخاب كى اہليت ركھتے ہيں _ بہر حال يہ روايات صراحتاً اس قول كے متضاد ہيں كہ امام '' منصوب من الله '' ہوتا ہے _ كيونكہ ان روايات سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ امت كى سياسى ولايت انتخابى ہے اور اس كے انتخاب كا حق امت كے اہل حل و عقد كو حاصل ہے _(1)

صدور روايات كا زمانہ اور ماحول:
سوائے ان مختصر كلمات كے جو بيعت سقيفہ اور حضرت عمر كى مقرر كردہ چھ نفرى شورى كے متعلق ہيں _ بيعت اور شورى كے متعلق حضرت على سے جو اقوال منقول ہيں آپ كى خلافت كے مختصر عرصہ اور لوگوں كے بيعت كرنے كے بعد صادر ہوئے ہيں _
بيعت اور شورى كے متعلق اپنى خلافت كے دوران آپ نے جو بيانات ديئے ہيں انہيں تين حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _ ان ميں سے بعض اپنى بيعت كى توصيف اور وضاحت كے بارے ميں ہيں اور يہ كہ كونسى شرائط پر بيعت ہوئي اور پہلے تين خلفاء كى بيعت كى نسبت يہ بيعت كونسى خصوصيات كى حامل تھى _ نمونہ
1) مذكورہ بحث ان روايات كى سند كى تحقيق سے صرف نظر كرتے ہوئے اور انہيں صحيح فرض كرتے ہوئے كى جارہى ہے_ وگرنہ اگر روايات كے مصادر پر غور كيا جائے تو اكثر روايات سند كے اعتبار سےضعيف ہيں_
119
كے طور پرہم اس قسم كے بعض بيانات كى طرف اشارہ كرتے ہيں _ حضرت اميرالمؤمنين فرماتے ہيں:
''بايَعَنى الناس غَير مُستكرہين و لا مُجبرين ، بل طائعين مُخيَّرين''(1)
لوگوں نے ميرى بيعت اكراہ اور مجبورى كے عالم ميں نہيں كى بلكہ رضا و رغبت كے ساتھ كى ہے _
مزيد فرماتے ہيں:
''لم تكن بيعتكم ايّاى فَلتة ، و ليس أمرى و أمركم واحد، إنّى أريدكم لله و أنتم تريدوننى لانفسكم''(3)
تمھارا ميرى بيعت كرنا اچانك پيش آنے والا واقعہ نہيں تھا، اور ميرا اور تمھارا معاملہ بھى ايك جيسا نہيں ہے ، ميں تمھيں خدا كيلئے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنے لئے چاہتے ہو _
جب بعض افراد نے بيعت پر اصرار كيا تو آپ (ع) نے انہيں فرمايا: ميرى بيعت مخفى طور پر نہيں ہونى چاہيے_
''ففى المسجد، فإنّ بيعتى لا تكون خفيّاً و لا تكون إلاّ عن رضا المسلمين ''(3)
ميرى بيعت مسجد ميں ہوگى مخفى نہيں ہوگى بلكہ تمام مسلمانوں كى رضا مندى سے ہوگى _
1) نہج البلاغہ مكتوب 1_
2) نہج البلاغہ ، خطبہ 136_
3) تاريخ طبرى ج 4 ، ص427_
120
اس قسم كى روايات ہمارى بحث سے خارج ہيں جو حضرت اميرالمؤمنين كى بيعت كى كيفيت كو بيان كرتى ہيں _
دوسرى قسم كے بيانات وہ ہيں جو آپ نے بيعت نہ كرنے والے عبدالله ابن عمر ، اسامہ ابن زيد اور سعد ابن ابى وقاص اور بيعت توڑنے والے طلحہ و زبير جيسے افراد كو مخاطب كر كے فرمائے ہيں _
حضرت اميرالمؤمنين سے منقول اس قسم كى روايات دونكتوں پر اصرار كرتى ہيں پہلا نكتہ يہ ہے كہ جن افراد نے رضا و رغبت كے ساتھ بيعت كى ہے ان پراطاعت واجب ہے دوسرا يہ كہ لوگوں كا آپ كى بيعت كرنا بيعت عمومى اور اختيارى تھى لہذا بيعت توڑنے اور نہ كرنے والے پيمان شكن اور مسلمانوں كى مخالفت كرنے والے شمار ہوں گے _
تيسرى قسم كے كلمات جو كہ سب سے اہم ہيں، وہ ہيں جو معاويہ اور اہل شام كے دعووں كے مقابلے ميں بيان كئے گئے ہيں _ انہوں نے حضرت اميرالمؤمنين كى بيعت كے صحيح ہونے پر اعتراض كيا تھا اور ان كا كہنا تھا كہ معاويہ ، عمرو ابن عاص اور دوسرے قريش شام كا خليفہ كو منتخب كرنے والى شورى ميں شامل نہ ہونا آپ كى خلافت كو غير معتبر قرار ديتا ہيں _آپ (ع) سے صادر ہونے والے بہت سے كلمات كا تعلق اسى تيسرى قسم سے ہے _آنے والے سبق ميں ہم ان كلمات كا تجزيہ و تحليل اور يہ بحث كريں گے كہ كيا يہ كلمات سياسى ولايت كے انتخابى ہونے كى تائيد كرتے ہيں يا نہيں _

121
خلاصہ:
1) بعض لوگ اس نظريہ كے حامى ہيں كہ بعض روايات كى رو سے سياسى ولايت كے سلسلہ ميں بيعت اور شورى پر اعتبار كيا جاسكتاہے_بنابريں زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت خود لوگوں كے سپرد كى گئي ہے اور انتصابى نہيں ہے_
2) بيعت ايك ايسا عہد و پيمان ہے جو ظہور اسلام سے پہلے موجود تھا اور رسول خدا (ص) نے اس كى تائيد فرمائي ہے_
3)بيعت كى مختلف قسميں ہيںلہذا يہ صرف ''سياسى ولايت'' كے انتخاب ميں منحصر نہيں ہے_
4) اسلامى معاشرہ كے حاكم كى تعيين كيلئے بيعت اور شورى كے معتبر ہونے كے سلسلہ ميں حضرت اميرالمؤمنين سے روايات نقل ہوئي ہيں_
5) يہ روايات كچھ خاص سياسى حالات كے پيش نظر صادر ہوئي ہيں _ اور يہ روايات ان لوگوں كے مقابلہ ميں بيعت اور شورى كى تائيد كرتى ہيں جنہوں نے حضرت امير المؤمنين كى بيعت پر اعتراض كيا تھا يابيعت سے انكار كيا تھا يا طلحہ و زبير كى طرح بيعت شكنى كى تھي_
سوالات
1) وہ افراد جو زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كو انتخابى سمجھتے ہيں ان كى دليل كيا ہے ؟
2) بيعت كيا ہے اور اس كى كتنى قسميں ہيں ؟
3) كيا ''بيعت رضوان'' رسول خدا (ص) كو سياسى ولايت سونپنے كيلئے تھي؟
4) حضرت امير المؤمنين سے منقول بعض روايات سے بيعت اور شورى كے متعلق كس نكتہ كى طرف اشارہ ملتاہے؟
5) اس قسم كى روايات كے صادر ہونے ميں كونسے حالات كار فرما تھے؟