103
بارہواں سبق :
شيعوں كا سياسى تفكر
سياسى ولايت كے سلسلہ ميں آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد شيعہ ''نظريہ امامت ''كے معتقد ہيں _ شيعہ معتقد ہيں كہ ائمہ معصومين صرف سياسى ولايت اور شان و منزلت كے حامل نہيں تھے بلكہ ان كا ايمان ہے كہ ائمہ معصو مين وحى الہى كے علاوہ آنحضرت (ص) كى تمام صفات و كمالات ميں آپ (ص) كے جانشين ہيں _ بنابريں ائمہ معصومين سياسى ولايت سميت ولايت معنوي، معاشرہ كى دينى راہنمائي اور لوگوں كو دينى حقائق كى تعليم دينے جيسى خصوصيات كے بھى حامل ہيں _ وہ رسولخد ا (ص) كے حقيقى خلفاء ، وارث اور جانشين ہيں اور اس وراثت كا لازمہ يہ ہے كہ معنوى ، علمى اور سياسى اوصاف ميں رسولخدا (ص) كے بعد ائمہ معصومين تمام لوگوں سے افضل ہوں اور امامت اور خلافت نبوى كے منصب كيلئے اپنے دور كے تمام افراد سے زيادہ شائستہ ہوں _ اسى وجہ سے اہلسنت كے بعض علماء نے شيعہ كى تعريف ميں اسى نكتہ كى طرف اشارہ كيا ہے _
ابن حزم '' اہل تشيع'' كى تعريف كرتے ہوئے كہتے ہيں :
104
''و مَن وافق الشيعة فى أنّ عليّاً أفضل الناس بعد رسول اللہ (ص) و أحقّہم بالامامة و وُلدہ من بعدہ، فہو شيعى و إن خالفہُم فيما عدا ذلك مما اختلف فيہ المسلمون، فإن خالَفَہُم فيما ذكرنا فليس شيعيّاً''(1)
جو شخص شيعوں كى اس بات سے اتفاق كرتا ہے كہ رسولخدا (ص) كے بعد على سب سے افضل ہيں_ اور آپ(ع) اور آپ (ع) كى اولاد دوسروں سے زيادہ حقدار امامت ہے وہ شيعہ ہے اگر چہ مسلمانوں كے نزديك مورد اختلاف ديگر چيزوں ميں شيعوں سے اختلاف رائے ركھتا ہو اور اگر وہ اس چيز ميں شيعوں سے اتفاق نہيں كرتا جسے ہم نے ذكر كيا ہے تو وہ شيعہ نہيں ہے_
شيعوں كا سياسى نظريہ اہلسنت كے نظريہ خلافت سے دو بنيادى نكات ميں مختلف ہے پہلانكتہ يہ ہے كہ آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد امر حكومت اور سياسى ولايت كے متعلق شيعہ دينى نصوص كو ساكت نہيں سمجھتے بلكہ معتقد ہيں كہ آنحضرت (ص) كے بعد خليفہ كے تقرر كے سلسلہ ميں بہت سى معتبر نصوص موجودہيں _ اسى وجہ سے وہ ائمہ معصومين كى ولايت كے جواز كا مبداء و سرچشمہ ،ارادہ الہى اور خدا كى طرف سے تعيين كو سمجھتے ہيں_ اہلبيت كى ولايت اور امامت ايك الہى منصب ہے جيسا كہ امت پر رسولخد ا (ص) كى ولايت كا سرچشمہ الہى تھا اور اس كا جواز لوگوں كى بيعت اور رائے كا مرہون منت نہيں تھا_
دوسرا نكتہ اختلاف يہ ہے كہ شيعوں كى نظر ميں لفظ ''امام'' خليفہ رسول كے حقيقى معنى ميں ہے يعنى معنوي، علمى اور سياسى تمام جہات ميں رسولخدا (ص) كا جانشين _ جبكہ اہلسنت خلفاء كى جانشينى كو اس كے لغوى معنى ميں ليتے ہيں _ يعنى بعد ميں آنے والا _ البتہ ائمہ معصومين كے متعلق شيعوں كے اعتقاد سے متاثر ہوكر
1) الفصَل فى الملل و الاہواء و النحل ج 2، ص 113_
105
اہلسنت كے بعض علماء نے يہ نظريہ قائم كرليا ہے كہ آنحضرت (ص) كے بعد پہلے چار خُلفاء بالترتيب تمام لوگوں سے افضل ہيں _ حالانكہ اس عقيدہ كا صدر اسلام حتى كہ خليفہ اول اور دوم كے دور ميںبھى كوئي وجود نہيں تھا_ اہلسنت ميں يہ عقيدہ اموى اور عباسى خلفاء كے ذريعہ آيا جس كى تقويت انہوںنے اپنے سياسى اغراض اور شيعوں كى ضد ميں آكر كى انہوں نے اس عقيدہ كى ترويج كى بہت زيادہ كوششيں كيں كہ وہ بھى رسولخدا (ص) كى بعض خصوصيات كے حامل ہيں (1)_
بہت سى معتبر روايات دلالت كرتى ہيں كہ امامت كا ايك خاص اجتماعى اور ايمانى مقام و منزلت ہے امامت اسلام كے دوسرے فروع اور اجزا كى طرح نہيں ہے _ بلكہ بہت سے احكام اور فروع كا قوام اور اسلام و مسلمين كى اساس ''امامت'' پر ہے _ ہم بطور نمونہ بعض روايات كى طرف اشارہ كرتے ہيں _
مرحوم شيخ كليني جناب زرارہ كے واسطہ سے امام باقر سے نقل كرتے ہيں :
بُنى الاسلام على خمسة أشيائ: على الصلاة و الزكاة و الحجّ والصوم و الولاية قال زرارة: فقلت و أيّ شيء من ذلك أفضل؟ فقال: الولاية أفضل; لانّہا مفتاحہنّ والوالى ہو الدليل عليہنّ ... ثمّ قال: ذروة الامر و سنامہ و مفتاحہ و باب الا شياء و رضا الرحمان الطاعة للامام بعد معرفتہ ان الله (عزوجل) يقول:( مَن يُطع الرَّسولَ فَقَد أطاعَ الله َ و مَن تَولّى فَما أرسلناك عَليہم حَفيظاً)(2)
1) الاسلام السياسي، محمد سعيد العشماوى ص 93و 94_
2) الكافى جلد 2 صفحہ 18_19، باب دعائم الاسلام حديث 5 جبكہ حديث ميں مذكور آيت سورہ نساء كى 80 نمبر آيت ہے_
106
اسلام كى بنياد اور اساس پانچ چيزوں پر ہے : نماز ، زكوة ، حج، روزہ اور ولايت _
جناب زرارہ كہتے ہيں : ميں نے پوچھا كہ ان ميں سے افضل كونسى چيز ہے ؟ امام نے فرمايا :ولايت سب سے افضل ہے كيونكہ يہ ان تمام كى كنجى ہے اور ولى ان پرراہنمائي كرنے والا ہے ... پھر فرمايا: امر دين كا بلندترين مرتبہ اور اس كى كنجى ، تمام اشياء كا دروازہ اور خدا كى رضا، امام كى معرفت كے بعد اس كى اطاعت ميں پنہاں ہے _ الله تعالى فرماتا ہے: جس نے رسول كى اطاعت كى اس نے خدا كى اطاعت كى اور جس نے روگردانى كى تو ہم نے تمھيں ان پر نگران بنا كر نہيں بھيجا_
امام رضا ايك حديث ميں امامت كو زمام دين ، مسلمانوں كا نظام حيات ، اسلام كى اساس اور بہت سے احكام كى تكميل كى بنياد قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں :
''انّ الامامة زمام الدين و نظام المسلمين و صلاح الدنيا و عزّ المؤمنين انّ الامامة أسّ الاسلام النامى و فرعہ السامي_ بالامام تمام الصلاة و الزكاة والصيام والحجّ والجہاد و توفير الفيء و الصدقات وامضاء الحدود والأحكام و منع الثغوروالاطراف الامام يحلّ حلال الله و يحرم حرام اللہ و يقيم حدود الله و يذبّ عن دين الله ''(1)
يقيناً امامت زمام دين ، مسلمانوں كا نظام حيات ، صلاح دنيا اور صاحبان ايمان كى عزت ہے_ امامت اسلام كى نشو و نما كرنے والى جڑ اور اس كى بلندترين شاخ ہے _ نماز، روزہ، حج،زكوة اور جہاد كى تكميل امام كے ذريعہ سے ہوتى ہے _ غنيمت اور صدقات كيشرعى قانون
1) الكافى جلد 1، صفحہ 200 ، باب نادرجامع فى فضل الامام وصفاتہ حديث1 _
107
كے مطابق تقسيم ، حدود و احكام كا اجر اء اور اسلامى سرزمين اور اس كى سرحدوں كى حفاظت امام كے وسيلہ سے ممكن ہے _ امام ہى حلال خدا كو حلال اور حرام خدا كو حرام كرتا ہے حدود الہى كو قائم كرتا ہے اور دين كا دفاع كرتاہے_
حضرت على بھى امامت كو امت كا نظام حيات اور اسكى اطاعت كو اسكى تعظيم قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں :
''فَرَضَ الله الإيمان تَطہيراً من الشرك ... والإمامة نظاماً للأُمة والطاعة تعظيماً للإمامة''(1)
الله تعالى نے ايمان كو شرك سے بچنے كيلئے ، امامت كو نظام امت اور اطاعت كو امامت كى تعظيم كيلئے واجب قرار دياہے _
قابل ذكر ہے كہ شيعوں كا سياسى تفكر دو مرحلوں ميں قابل تحقيق ہے _
الف: امام معصوم كے حضور كے زمانہ ميں
ب : امام زمانہ( عجل اللہ فرجہ الشريف ) كى غيبت كے زمانہ ميں
امام كے حضور كے زمانہ ميں سياسى ولايت كے متعلق شيعہ علماء كا نظريہ مكمل طور پر متفقہ اور واضح ہے_ شيعہ نظريہ امامت كے معتقد ہيں اور امت كى ولايت كو امام معصوم كى امامت كا ايك حصہ اور جز سمجھتے ہيں _ تمام وہ حكومتيں جو اس حق خدا كو پامال كر كے تشكيل پائي ہوں انہيں غاصب اور ظالم قرار ديتے ہيں اور اس نظريہ ميں كسى شيعہ عالم كو اختلاف نہيں ہے ، كيونكہ شيعوں كى شناخت اور قوام اسى اعتقاد كى بناپر ہے _وہ شئے جو قابل بحث و تحقيق ہے وہ غيبت كے زمانہ ميں شيعوں كا سياسى تفكر ہے _
1 ) نہج البلاغہ حكمت 252_
108
زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر :
زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر اس طرح واضح ، روشن اور متفق عليہ نہيں ہے جس طرح زمانہ حضور ميں ہے _ شيعوں كا كوئي عالم دين ائمہ معصومين كى سياسى ولايت اور امامت ميں شك و ترديد كا شكار نہيں ہے كيونكہ امامت ميں شك تشيّع سے خارج ہونے كے مترادف ہے _ائمہ معصومين كى امامت پر نہ صرف سب كا اتفاق ہے بلكہ تشيّع كى بنياد ہى امامت كے نظريہ پر ہے _ ليكن سوال يہ ہے كہ امام معصوم كى غيبت كے زمانہ ميں بھى ان كى سياسى ولايت كے متعلق يہى اتفاق نظر ہے ؟
حقيقت يہ ہے كہ تمام جہات سے ايسا اتفاق نظر موجود نہيں ہے _ يعنى ايك واضح و ثابت قول كى تمام علماء شيعہ كى طرف نسبت نہيں دى جاسكتى _ كيونكہ اس بحث كے بعض پہلوؤں ميں ان كے در ميان اختلاف پايا جاتا ہے _ آئندہ كى بحثوں ميں آئے گا كہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف كى غيبت كے دوران علماء شيعہ ''فقيہ عادل'' كى ولايت كے قائل ہيں _ اور فقيہ عادل كو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف كا نائب عام سمجھتے ہيں _ ليكن اس فقيہ عادل كى ولايت كى حدود اور اختيارات ميں اتفاق نہيں ہے _ ولايت فقيہ كى حدود كے سلسلہ ميں ايك واضح اور مشخص نظريہ كى تمام علماء كى طرف نسبت نہيں دى جاسكتى _
ولايت فقيہ كى تاريخ پر بحث كے دوران تفصيل سے آئے گا كہ علماء شيعہ ''اصل ولايت فقيہ'' اور فقيہ عادل كى بعض امور ميں امام معصوم كى جانشينى پر اتفاق نظر ركھتے ہيں _اختلاف اس ميں ہے كہ اس ولايت كا دائرہ اختيار كس حد تك ہے _
بعض بڑے شيعہ فقہاء اس ولايت اور جانشينى كو عام اور ان تمام امور ميں سمجھتے ہيں كہ جن ميں امام كى جانشينى ممكن ہے اور اس طرح فقيہ كى ''ولايت عامہ'' كے قائل ہيں _ جبكہ بعض دوسرے فقہا اس جانشينى كو محدود اور خاص موارد ميں قرار ديتے ہيں _
109
مسلمان معاشرے كے اجتماعى اور سياسى امور ميں فقيہ كى سياسى ولايت اس كى ولايت عامہ كے اثبات پر موقوف ہے _ كيونكہ امام معصوم كى خصوصيات ميں سے ايك آپ كى سياسى ولايت بھى ہے اور يہ خصوصيت قابل نيابت ہے _ جبكہ ائمہ معصومين كا مقام عصمت، علم الہى اور معنوى كمالات قابل نيابت نہيں ہيں _ تيسرے باب ميں ہم ولايت فقيہ اور اس كى ادلّہ پر تفصيلى بحث كريں گے _ اسى طرح'' فقيہ عادل'' كا منصب ولايت پر فائز ہونا اور اس كے دائرہ اختيار پر بھى گفتگو كريں گے _
البتہ اس بات كا اعتراف كرنا پڑے گا كہ شيعہفقہا نے ''فقہ سياسي'' يعنى ''فقہ حكومت'' كى مباحث كو اس قدرا ہميت نہيں دى جس طرح دوسرى عبادى اوربعض معاملاتى مباحث كو دى ہے _ بہت سے فقہا نے تو اس قسم كى فقہى فروعات كو بيان ہى نہيں كيا اور انہيں مورد بحث ہى قرار نہيں ديا _ اور اگر بيان بھى كياہے تو بہت مختصر اور اس كے مختلف پہلوؤں اور مسائل كا اس طرح دقيق تجزيہ و تحليل نہيں كيا جس طرح عبادى اور معاملاتى مسائل كا كيا ہے _ يہ بات دوسرے فقہى ابواب كى نسبت ''فقہ سياسي'' كے باب كے ضعف كا باعث بنى ہے _ يقينا اگر شيعوں كے جليل القدر فقہاء دوسرے عبادى ابواب كى طرح '' فقہ الحكومة '' كے باب ميں بھى دقيق بحث كرتے تو آج شيعوں كے سياسى تفكر ميں مزيد ارتكاء ديكھنے كو ملتا _
امويوں اور عباسيوں كے زمانہ ميں حكمرانوں كى طرف سے شيعوں پر اس قدر دباؤ تھا اور ان كے حالات اسقدر ناسازگار تھے كہ اولاً ائمہ معصومين تك دسترسى كے امكان كى صورت ميں بھى تقيہ كى وجہ سے اس قسم كے حساس سياسى مسائل پر گفتگو كرنے سے اجتناب كرتے تھے _ كيونكہ اس سے موجودہ حكومتوں كى واضح نفى ہوتى تھى لہذا اس قسم كے مسائل پر بحث كرنے كيلئے حالات سازگار نہيں تھے _ ثانياً يہ اقليت اس قدر دباؤ اور محروميت كا شكار تھى كہ خود كو بر سر اقتدار لانے اور ايك صحيح دينى حكومت كى تشكيل كو انتہائي مشكل سمجھتى
110
تھى لہذا اس نے اپنى تمام تر ہمت اپنى بقا اور غاصب حكومتوں سے نفرت ميں صرف كردى اور حكومتى روابط ، مسائل اور سياسى نظام كے متعلق سوالات كے بارے ميں بہت كم فكر كى _بنابريں عبادى احكام كى نسبت'' فقہ سياسي'' كے متعلق روايات كا ذخيرہ بہت كم ہے _
اسى طرح امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف كى غيبت كے بعد بھى شيعوں كيلئے اجتماعى اور سياسى حالات سازگار نہيں تھے_ لہذا علماء شيعہ نے سياسى مباحث كے پھيلاؤ اور اس كى تحقيقات ميں كوئي خاص اہتمام نہيں كيا _
111
خلاصہ :
1) شيعہ ائمہ معصومين كيلئے سياسى ولايت سے وسيع تر مقام و منزلت كے قائل ہيں _
2) يہ مخصوص شان و منزلت جو ان كى افضليت كے اعتقاد كا باعث ہے _ شيعہ كى پہچان ہے اور امامت كے متعلق شيعہ اور سنى كے درميان وجہ افتراق يہى ہے _
3) مكتب اہلبيت اور معصومين كى روايات كى روشنى ميں امامت ايك عظيم اجتماعى اور دينى شان ومنزلت كى حامل ہے اور سياسى ولايت ميں محدود نہيں ہے _
4) شيعوں كا سياسى تفكر دو مرحلوں ميں قابل تحقيق ہے _
الف : امام معصوم كے زمانہ ظہور ميں
ب : زمانہ غيبت ميں
5) زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر زمانہ حضور ميں سياسى تفكر كى طرح واضح اور روشن نہيں ہے _
6) زمانہ غيبت ميں تمام شيعہ علمائ'' اصل ولايت فقيہ ''كے قائل ہيں ليكن اس ولايت كے دائرہ اختيار ميں اختلاف نظر ركھتے ہيں _
7) شيعہ علماء كے درميان ''سياسى فقہ'' كے متعلق مباحث كى كمى كى وجہ ظالم اور فاسق حكومتوں كا دباؤ ہے _
سوالات :
1) اہل تشيع كے نظريہ'' امامت ''اور اہلسنت كے نظريہ ''خلافت ''كے در ميان دو بنيادى فرق بيان كيجيئے _
2) روايات اہلبيت نے امامت كيلئے كونسى اجتماعى اور ايمانى شان و منزلت كو بيان كيا ہے ؟
3) شيعوں كے زمانہ حضور اور زمانہ غيبت كے سياسى تفكر ميں كيا فرق ہے ؟
4) زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ كے متعلق علماء شيعہ كے درميان وجہ اشتراك اور وجہ اختلاف كيا ہے ؟
5) شيعہ علماء كے درميان عبادى مباحث كى نسبت ''سياسى فقہ'' كى مباحث كے كم ہونے كى وجہ كيا ہے ؟
|