94
گيا رہواں سبق:
آنحضرت (ص) كے بعد سياسى ولايت
گذشتہ سبق ميں اس نكتہ كى طرف اشارہ كرچكے ہيں كہ آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت، شرعى نص اور وحى الہى كى بنياد پر تھى اور اس ولايت كى مشروعيت كا سرچشمہ فرمان الہى تھا _ اب سوال يہ ہے كہ كيا رحلت كے بعد مسلمانوں كے سياسى نظام اور امت كے سياسى اقتدار كے متعلق اسلامى تعليمات اور دينى نصوص ميں اظہار رائے كيا گيا ہے ؟ يا اسلام اس بارے ميں خاموش رہا ہے اور امر ولايت اور سياسى اقتدار اور اس كى كيفيت كو خود امت اور اس كے اجتہاد و فكر پر چھوڑ ديا ہے ؟
يہ مسئلہ جو كہ'' كلام اسلامي'' ميں ''مسئلہ امامت'' كے نام سے موسوم ہے طول تاريخ ميں عالم اسلام كى اہم ترين كلامى مباحث ميں رہا ہے اوراسلام كے دو بڑے فرقوں يعنى شيعہ و سنى كے درميان نزاع كا اصلى محور يہى ہے _ اہلسنت كہتے ہيں: آنحضرت(ص) كى رحلت كے بعد امر حكومت كے متعلق دينى نصوص ساكت ہيں اور نظام حكومت ، مسلمانوں كے حكمران كى شرائط اور اس كے طرزانتخاب كے متعلق كوئي واضح فرمان نہيں ديا گيا _ آنحضرت(ص) كے بعد جو كچھ ہوا وہ صدر اسلام كے مسلمانوں كے اجتہاد كى بناپرتھا _ اہل سنت اس اجتہاد كا نتيجہ
95
''نظام خلافت''كے انتخا ب كو قرار ديتے ہيں _
جبكہ اس كے مقابلے ميں اہل تشيع يہ كہتے ہيں كہ آنحضرت (ص) نے اپنى زندگى ميں ہى حكم خدا سے متعدد شرعى نصوص كے ذريعہ امت كى سياسى ولايت اور'' نظام امامت'' كى بنياد ركھ دي_
ان دو بنيادى نظريات كى تحقيق سے پہلے جو كہ آپس ميں بالكل متضاد ہيں اس نكتہ كى وضاحت ضرورى ہے كہ اہلسنت نے ''مسئلہ امامت'' كو وہ اہميت اور توجہ نہيں دى جو شيعوں نے دى ہے _ اہلسنت كے نزديك مسئلہ خلافت ، شرائط خليفہ اور اس كى تعيين كا طريقہ ايك فقہى مسئلہ ہے _ جس كا علم كلام اور اعتقاد سے كوئي تعلق نہيں ہے _ اسى لئے انہوں نے اسے اتنى اہميت نہيں دى _ ان كى كلامى كتب ميںاس مسئلہ پر جووسيع بحث كى گئي ہے وہ در حقيقت ضد اور شيعوں كے رد عمل كے طور پر كى گئي ہے _ كيونكہ شيعوں نے اس اہم مسئلہ پر بہت زور ديا ہے اور'' مسئلہ امامت'' كو اپنى اعتقادى مباحث كے زمرہ ميں شمار كرتے ہوئے اسے بہت زيادہ اہميت دى ہے _ لہذا اہلسنت بھى مجبوراً اس فرعى اور فقہى بحث كو علم كلام اور اعتقادات ميں ذكر كرنے لگے بطور مثال ،غزالى مسئلہ امامت كے متعلق كہتے ہيں :
''النظر فى الامامة ليس من المہمات و ليس ايضاً من فنّ المعقولات بل من الفقہيات''
امامت كے بارے ميں غور كرنا اتنا اہم نہيں ہے اور نہ ہى يہ علم كلام كے مسائل ميں سے ہے بلكہ اس كا تعلق فقہ سے ہے (1)
مسئلہ امامت شيعوں كے نزديك صرف ايك فرعى اور فقہى مسئلہ نہيں ہے اور نہ ہى معاشرتى نظام كے چلانے كى كيفيت اور سياسى ولايت ميں منحصر ہے بلكہ ايك كلامى مسئلہ ہے اور جزء ايمان ہے لہذا ائمہ
1) الاقتصاد فى الاعتقاد، ابوحامد غزالى ص 95_
96
معصومين كى امامت پر اعتقاد نہ ركھنا در حقيقت دين كے ايك حصّے كے انكار اور بعض نصوص اور دينى تعليمات سے صرف نظر كرنے كے مترادف ہے ،جس كے نتيجہ ميں ايمان ناقص رہ جاتا ہے _ شيعوں كے نزديك امامت ايك ايسا بلند منصب ہے كہ سياسى ولايت اس كا ايك جزء ہے _ شيعہ ہونے كا اساسى ركن امامت كا معتقد ہونا ہے _ يہى وجہ ہے كہ اہلسنت كے مشہور عالم ''شہرستاني'' '' شيعہ'' كى تعريف كرتے ہوئے كہتے ہيں: الشيعة ہم الذين شايعوا علياً على الخصوص و قالوا بامامتہ و خلافتہ نصاً و وصيتاً اما جلياً و اما خفيا و اعتقدوا ان امامتہ لا تخرج من اولادہ (1 ) شيعہ وہ لوگ ہيں جو بالخصوص حضرت على كا اتباع كرتے ہيں اور آنحضرت (ص) كى ظاہرى يا مخفى وصيت اور نص كى روسے انكى امامت اور خلافت كے قائل ہيں اور معتقد ہيں كہ امامت ان كى اولاد سے باہر نہيں جائے گى _
اہلسنت اور نظريہ خلافت :
اگر موجودہ صدى كے بعض روشن فكر عرب مسلمانوں كے سياسى مقاصد اور نظريات سے چشم پوشى كرليں تو اہلسنت كا سياسى تفكر تاريخى لحاظ سے نظام خلافت كے قبول كرنے پر مبتنى ہے _
اہلسنت كے وہ پہلے مشہور عالم ماوردى (2)كہ جنہوں نے اسلام كى سياسى فقہ كے متعلق ايك مستقل كتاب لكھى ہے كے زمانہ سے ليكر آج تك سياسى تفكر كے بارے ميں انكى سب تحريروں كا محور نظريہ خلافت ہے_
اہلسنت كى فقہ سياسى اور فلسفہ سياسى دينى نصوص كى بجائے صحابہ كے عمل سے متاثر ہے _ اہلسنت سمجھتے ہيں كہ خليفہ كى تعيين كى كيفيت اورشرائط كے متعلق قرآن اور سنت ميں كوئي واضح تعليمات موجو د نہيں ہيں
1) الملل و النحل، شہرستانى ج 2 ص 131_
2) على ابن محمد ابن حبيب ابوالحسن ماوردى ( 364 _ م 450 ق) شافعى مذہب كے عظيم فقہا ميں سے ہيں فقہ سياسى كے متعلق ''احكام سلطانيہ'' كے علاوہ ديگر كتب كے بھى مؤلف ہيں جيسے ''الحاوي'' اور ''تفسير قرآن'' _
97
بلكہ يہ امر اجتہاد امت كے سپرد كيا گيا ہے _ سياست ، معاشرہ كے انتظامى امور ، حاكم اور خليفہ كے انتخاب كا طريقہ اور اس كے اختيارات كے متعلق آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعدجو كچھ بھى ہوا ہے وہى حجت ہے كيونكہ يہ سب كچھ رسولخد ا (ص) كے صحابہ كے اجتہاد اور راے كى بناپر ہوا ہے اور ان كا ا جتہاد حجت اور معتبر ہے _
اہلسنت كے سياسى نظام كے دينى نصوص كى بجائے رحلت رسول (ص) كے بعد پيش آنے والے واقعات سے وابستہ ہونے كى وجہ سے سياسى تفكر كے سلسلہ ميں علماء اہلسنت مشكل ميں پڑگئے ہيں كيونكہ يہ سياسى واقعات ايك طرح كے نہيں تھے لہذا ان كے مختلف ہونے كى وجہ سے انكى آراء بھى مختلف ہيں_ بطور مثال خليفہ كے انتخاب كى كيفيت اوراس كى سياسى ولايت كى مشروعيت كے سرچشمے كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے_
خليفہ اول كا انتخاب سقيفہ ميں موجود بعض مہاجرين و انصار كى بيعت سے عمل ميں آيا _ جبكہ امير المومنين حضرت على ، حضرت ابوذر ،حضرت سلمان، حضرت مقداد اور حضرت زبير جيسے جليل القدر صحابہ اس بيعت كے مخالفت تھے_ خليفہ دوم حضرت ابوبكركى تعيين كے ذريعے منتخب ہوئے خليفہ سوم كا انتخاب اس چھ ركنى شورى كى اكثريت رائے سے عمل ميں آيا جسے حضرت عمر نے بنايا تھا _ جبكہ حضرت على كا انتخاب مہاجرين و انصار كے اتفاق رائے اور عامة الناس كى بيعت سے ہوا _ جيسا كہ آپ نے ملاحظہ فرمايا: خلفاء كے بر سر اقتدار آنے كا طريقہ ايك نہيں تھا _ ان چار خلفاء كے بعد سياسى ولايت كاسرچشمہ مزيد مشكلات اور ابہامات كا شكار ہوگيا كيونكہ معاويہ سميت بہت سے اموى اور عباسى خلفاء نے طاقت اور غلبہ كے زور پر حكومت حاصل كى _ ان كا انتخاب مسلمانوں كى رائے ، بيعت يا اہل حل و عقد كے ذريعہ عمل ميں نہيں آيا_
خلافت اور اس كے انتخاب كے متعلق اہلسنت كے صاحبان نظر كا نظريہ كلى طور پر آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد پيش آنے والے واقعات سے متاثر ہے _ ان كى ہميشہ يہ كوشش رہى ہے كہ اپنے سياسى نظام كو
98
اس طرح پيش كيا جائے كہ وہ ان تمام واقعات كے ساتھ ہم آہنگ ہوسكے_ مثلاً آپ خليفہ كے انتخاب كى كيفيت اور مشروعيت كے متعلق ''ماوردي'' كے كلام كو ديكھيں كہ وہ كس طرح انتخاب خليفہ كے ان مختلف طريقوں كو جمع كرتے ہيںوہ كہتے ہيں :امامت كا اثبات دو طريقوں سے ممكن ہے _ ايك اہل حل و عقد كے اختيار اورانتخاب سے اور دوسرا سابق امام كى وصيت و تعيين سے _ اس دوسرے طريقہ ميں يہ اختلاف پايا جاتا ہے كہ كيا اہل حل و عقد كے اجماع كے بغير خلافت ثابت ہوسكتى ہے؟
حق يہ ہے كہ كسى امام كى امامت و خلافت سابقہ امام كى تعيين سے ثابت ہوجاتى ہے اور اس كيلئے اہل حل و عقد كى رضايت ضرورى نہيں ہے كيونكہ حضرت عمر كى امامت صحابہ كى رضايت پر موقوف نہيں تھى _ دوسرا يہ كہ سابقہ خليفہ بعد والے خليفہ كے تعيّن كا دوسروں كى نسبت زيادہ حق ركھتا ہے_ اور وہ دوسروں يعنى اہل حل و عقد سے زيادہ با اختيار ہے_(1)
اہل سنت كے نظريہ خلافت كے متعلق دوسرا اہم نكتہ يہ ہے كہ كيا خليفة المسلمين ہونا ،صاحب خلافت كيلئے كسى خاص اخلاقى اور معنوى مقام و منزلت پر دلالت نہيں كرتا؟
صدر اسلام ميں لفظ ''خليفہ ''كو اس كے لغوى معنى ميں استعمال كيا جاتا تھا اور اس پر كوئي خاص معنوى شان و منزلت مترتب نہيں كرتے تھے_ ''خلافت ''لغوى لحاظ سے مصدر ہے_ جس كے معني'' غير كى جانشينى '' اور ''نيابت'' كے ہيں _ خليفہ وہ ہے جو كسى دوسرے كى جگہ پر آئے _بنابريں خليفہ رسول وہ شخص ہے جو آنحضرت(ص) كے بعد مسلمانوں كى قيادت اپنے ہاتھ ميں لے_ خليفہ اول كے بعد خليفہ وہ ہے جو رسولخدا (ص) كے جانشين كے بعد مسلمانوں كا قائد بنے_ يعنى وہ رسولخدا (ص) كے خليفہ كا خليفہ ہے_ خود خلفاء كے كلام
1) الاحكام السلطانيہ، ابوالحسن ماوردى ص ،6و 10 _
99
سے بھى ظاہر ہوتا ہے كہ ابتدائے استعمال ميں عنوان ''خليفہ ''كسى خاص معنوى معانى كا حامل نہيں تھا اور آنحضرت (ص) كى ذاتى صفات و كمالات كا حامل ہونے سے حكايت نہيں كرتا تھا_ ليكن امتداد زمانہ كے ساتھ ساتھ حكومتوں كے استحكام كيلئے اس منصب كو معنوى تقدس اور احترام كا لبادہ پہنايا جانے لگا اور خليفہ رسول كو آنحضرت (ص) كے معنوى كمالات كا حامل بھى سمجھا جانے لگا_
آخرى نكتہ جس كى طرف اشارہ ضرورى ہے يہ ہے كہ خلافت اسلاميہ كى تاريخ گواہ ہے ، كہ ايسے افراد بھى بر سر اقتدار آئے جو اگر چہ خليفہ رسول كے نام پر حكومت كر رہے تھے_ ليكن سيرت و كردار ، اور اخلاقى صفات و كمالات كے لحاظ سے نہ صرف رسولخدا (ص) بلكہ ايك عام مسلمان سے بھى كو سوں دور تھے_ يہ مسئلہ خود اس سوال كيلئے كافى ہے كہ اہلسنت جس نظام خلافت پر بہت زور ديتے ہيں اس نظام اور نظام سلطنت و ملوكيت ميں كيا فرق ہے؟ اس ابہام ميں مزيد اضافہ اس بات سے ہوتا ہے كہ نظام خلافت كے حاميوں ميں سے بعض نے تو امام يا خليفہ كى مخصوص شرائط بھى بيان نہيں كيں_ بلكہ بعض كے كلام سے تو يہ ظاہر ہوتا ہے كہ مسلمانوں كے حكمران كى اطاعت كے واجب ہونے ميں اس كا متقى اور عادل ہونا سرے سے شرط ہى نہيں ہے_ ابوبكر باقلانى (م403ھ ) جمہور اہل حديث سے نقل كرتے ہيں : ''حاكم يا امام كے فسق و فجور كا ظاہر ہونا، اس كے ہاتھوں نفوس محترمہ كى ہتك حرمت ، حدود الہى كى پائمالى اور لوگوں كے مال كا غصب ہونا اس كى قدرت كے فقدان اور اطاعت سے خارج ہونے كا باعث نہيں بنتا'' _ اس نظريہ كى تائيد كيلئے اہل حديث آنحضرت (ص) اور صحابہ سے منقول روايات كا سہارا ليتے ہيں _ مثلا:
''اسمعوا وأطيعوا و لو لعبد اجدع و لو لعبد حبَشى و صَلُّوا وَرائَ كلّ برّ و فاجر''
100
'' حاكم كى اطاعت كرو اگر چہ وہ ناك كٹا غلام ہى كيوں نہ ہو اور اگر چہ وہ حبشى غلام ہى كيوں نہ ہو اور ہر نيك يا بد كے پيچھے نماز پڑھو''_
يا يہ روايت كہ:
''أطعہم و ان أكَلُوا مالَك و ضَرَبُوا ظہرَك''(1)
'' حكمرانوں كى اطاعت كرو چاہے انہوں نے تمہارے اموال غصب كئے ہوں اور تمھيں مارا پيٹا ہو''_
مخفى نہ رہےكہ احمد بن حنبل جيسے بعض گذشتہ علماء اہلسنت معتقد ہيں كہ حسن ابن على كے بعد والے حكمرانوں پر خليفہ كا اطلاق مكروہ ہے_ يہعلماء خلافت اور ملوكيت و سلطنت ميں فرق كے قائل ہيں_ ان كى دليل وہ روايت ہے جسے ابوداود اور ترمذى نے آنحضرت (ص) سے نقل كيا ہے :
''الخلافةُ فى أُمتى ثلاثونَ سنة ثمّ ملك بعد ذلك''(2)
ميرى امت ميں تيس (30) سال تك خلافت ہے اس كے بعد ملوكيت ہے_
اس كے باوجود اكثر علماء اہلسنت كى عملى سيرت يہ رہى ہے كہ انہوں نے اپنے حكمرانوں اور خلفاء كى اطاعت كى ہے اور ان كى مخالفت كرنے سے پرہيز كيا ہے_ اگر چہ ان ميں سے بہت سے خلفا ء فاسق و فاجر تھے_
1) التمہيد فى الردّ على الملحدة، ابوبكر باقلانى ،ص 238_
2) مأثر الانافة فى معالم الخلافہ ، احمد ابن عبداللہ قلقشندى ،ص 9_
101
خلاصہ :
1) اسلامى علم كلام ميں مسئلہ امامت اس سوال كا جواب ہے كہ كيا اسلامى تعليمات نے رحلت رسو ل (ص) كے بعد سياسى ولايت كے متعلق سكوت اختيار كيا ہے يا نہيں؟
2) اہلسنت معتقد ہيں كہ سياسى قيادت كا تقرر خود ا مت كے سپرد كيا گيا ہے اور صدر اسلام كے مسلمانوں نے اپنے اجتہاد اور رائے سے ''نظام خلافت ''كا انتخاب كيا_
3) شيعہ ''نظام امامت ''كے معتقد ہيں اور يہ عقيدہ ركھتے ہيں كہ دينى نصوص نے رحلت رسولخدا (ص) كے بعد مسئلہ امامت كو واضح كرديا ہے_
4)''امامت ''اہلسنت كے نزديك ايك فرعى مسئلہ ہے جبكہ شيعہ اسے ايك اعتقادى مسئلہ اور اصول دين ميں سے قرار ديتے ہيں_
5) اہلسنت كے سياسى تفكر اور نظريہ خلافت كى بنياد صحابہ كے عمل پر ہے_
6) صدر اسلام كے خلفاء كے تعيّن اور طرز انتخاب كے مختلف ہونے كى وجہ سے اہلسنت كا سياسى تفكر ايك جيسا نہيں رہا اور اتفاق نظر سے عارى ہے_
7) ابتداء ميں لفظ ''خليفہ ''معنوى خصوصيات كا حامل نہيں تھا ليكن مرور زمان كے ساتھ ساتھ خليفہ كو رسولخدا (ص) كے دينى اور معنوى جانشين كے طور پر متعارف كرايا گيا_
8) بہت سے موارد ميں اہلسنت كے مورد نظر ''نظام خلافت '' اور ''نظام سلطنت'' كے درميان فرق كرنا مشكل ہے_
102
سوالات :
1) مسئلہ امامت ميں اصلى نزاع كيا ہے؟
2)'' نظام خلافت'' سے كيا مراد ہے؟
3) اہل تشيع اور اہل تسنن كے نزديكمسئلہ امامت كا كيا مقام ہے؟
4) سياسى تفكر اور نظريہ خلافت كو بيان كرنے كيلئے اہلسنت نے كس چيز پر اعتماد كيا ہے؟
5) نظريہ خلافت سے متعلق سياسى ولايت كى مشروعيت كو بيان كرنے ميں اہلسنت كيوں مشكل سے دوچار ہوئے؟
6) اہلسنت كے در ميان لفظ ''خلافت اور خليفہ'' كے استعمال نے كن راہوں كو طے كيا ہے؟
7) نظام خلافت كو نظام سلطنت و ملوكيت سے تميز دينے ميں كونسى شئے ابہام كا باعث بنى ہے؟
|