83
دسواں سبق:
آنحضرت (ص) اور تأسيس حكومت (2)
محمد عابد الجابرى نامى ايك عرب مصنف آنحضرت (ص) كى دينى حكومت كى نفى كرتے ہوئے كہتے ہيں كہ آپ (ص) نے كوئي سياسى نظام اور دينى حكومت تشكيل نہيں دى تھى بلكہ آپ (ص) كى پورى كوشش ايك ''امت مسلمہ ''كى تاسيس تھى _ آپ (ص) نے كوئي حكومت قائم نہيں كى تھى بلكہ آپ (ص) نے لوگوں ميں ايك خاص اجتماعى اور معنوى طرز زندگى كو رائج كيا اور ايسى امت كو وجود ميں لائے جو ہميشہ دين الہى كى حفاظت كيلئے كوشش كرتى رہى اور اسلام اور بعثت نبوى كى بركت سے ايك منظم معنوى اور اجتماعى راہ كو طے كيا_ اس معنوى و اجتماعى راہ كى توسيعكى كوششوں اور امت مسلمہ كى پرورش كے باوجود آنحضرت (ص) نے اپنے آپ (ص) كو بادشاہ ، حكمران يا سلطان كا نام نہيں ديا _ بنابريںدعوت محمدى سے ابتدا ميں ايك ''امت مسلمہ'' وجود ميں آئي پھر امتداد زمانہ كے ساتھ ايك خاص سياسى ڈھانچہ تشكيل پايا جسے اسلامى حكومت كا نام ديا گيا _ سياسى نظم و نسق اور
84
حكومت كى تشكيل عباسى خلفا كے عہد ميں وقوع پذير ہوئي _ صدر اسلامكےمسلمان اسلام اور دعوت محمدى كو دين خاتم كے عنوان سے ديكھتے تھے نہحكومت كے عنوان سے_ اسى لئے ان كى تمام تر كوشش اس دين كى حفاظت اور اس امت مسلمہ كى بقا كيلئےرہى نہ كہ سياسى نظام اور نوزائيدہ مملكت كى حفاظت كيلئے_ صدر اسلام ميں جو چيز اسلامى معاشرے ميں وجود ميں آئي وہ امت مسلمہ تھى پھر اس دينى پيغام اور الہى رسالت كے تكامل اور ارتقاء سے دينى حكومت نے جنم ليا_
عابد جابرى نے اپنے مدعا كى تائيد كيلئے درج ذيل شواہد كا سہارا ليا ہے_
الف _ زمانہ بعثت ميں عربوںكے پاس كوئي مملكت اور حكومت نہيں تھى _ مكہ اور مدينہ ميں قبائلى نظام رائج تھا جسے حكومت نہيں كہا جا سكتا تھا كيونكہ حكومت كا وجود چند امور سے تشكيل پاتا ہے: اس سرزمين كى جغرافيائي حدود معين ہوں ،لوگ مستقل طور پر وہاں سكونت اختيار كريں_ايك مركزى قيادت ہو جو قوانين كے مطابق ان لوگوں كے مسائل حل كرے _جبكہ عرب ميں اس قسم كى كوئي شئے موجود نہيں تھي_
ب _ آنحضرت (ص) نے اس دينى اور معاشرتى رسم و رواج اور طرز زندگى كى ترويج كى جسے اسلام لايا تھا اور خود كو حكمران يا سلطان كہلو انے سے اجتناب كيا _
ج _ قرآن مجيد نے كہيں بھى اسلامى حكومت كى بات نہيں كى بلكہ ہميشہ امت مسلمہ كا نام ليا ہے ''و كنتم خير امّة ا ُخرجت للناس''تم بہترين امت ہو جسے لوگوں كيلئے لايا گيا ہے_ (1)
د _ حكومت ايك سياسى اصطلاح كے عنوان سے عباسى دور ميں سامنے آئي _ اس سے پہلے صرف'' امت مسلمہ '' كا لفظ استعمال كيا جاتا تھا جب امويوں سے عباسيوں كى طرف اقتدار منتقل ہوا تو ان كى اور ان
1) سورہ آل عمران آيت 110_
85
كے حاميوں كى زبان پر'' ہذہ دولتنا'' ( يہ ہمارى حكومت ہے) جيسے الفاظ جارى ہوئے جو كہ دين و حكومت كے ارتباط كى حكايت كرتے ہيں اور امت كى بجائے حكومت اور رياست كا لفظ استعمال ہونے لگا _(1)
جابرى كے نظريئےا جواب :
گذشتہ سبق كا وہ حصہ جو عبدالرازق كى دوسرى دليل كے جواب كے ساتھ مربوط ہے جابرى كے اس نظريہ كے رد كى دليل ہے كہ آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى _ يہاں ہم جابرى كے نظريہ كے متعلق چند تكميلى نكات كى طرف اشارہ كرتے ہيں_
1_ اسلام اور ايمان كى بركت سے عرب كے متفرق اور مختلف قبائل كے درميان ايك امت مسلمہ كى تشكيل اور ايك مخصوص اجتماعى اور معنوى طرز زندگى اس سے مانع نہيں ہے كہ يہ امت ايك مركزى حكومت قائم كر لے _كسى كو بھى اس سے انكار نہيں ہے كہ آنحضرت (ص) مختلف اور متعدد قبائل سے'' امت واحدہ'' كو وجود ميں لائے_ بحث اس ميں ہے كہ يہ امت سياسى اقتداراور قدرت كى حامل تھى _ حكومت كا عنصراس امت ميں موجود تھا اور اس حكومت اور سياسى اقتدار كى قيادت و رہبرى آنحضرت (ص) كے ہاتھ ميں تھى _
گذشتہ سبق كے آخر ميں ہم نے جو شواہد بيان كئے ہيں وہ اس مدعا كو ثابت كرتے ہيں_
2_ عبدالرازق اور جابرى دونوں اس بنيادى نكتہ سے غافل رہے ہيں: كہ ہر معاشرہ كى حكومت اس معاشرہ كے مخصوص اجتماعى اور تاريخى حالات كى بنياد پر تشكيل پاتى ہے_ ايك سيدھا اور سادہ معاشرہ جو كہ پيچيدہ مسائل كا حامل نہيں ہے اس كى حكومت بھى طويل و عريض اداروں پر مشتمل نہيں ہوگى _جبكہ ايك وسيع معاشرہ جو كہ مختلف اجتماعى روابط اور پيچيدہ مسائل كا حامل ہے واضح سى بات ہے اسے ايك ايسى حكومت
1) الدين و الدولہ و تطبيق الشريعة محمد عابد جابرى ص 13_ 24 _
86
كى ضرورت ہے جو وسيع انتظامى امور اور اداروں پر مشتمل ہوتا كہ اس كے مسائل حل كر سكے _ جس غلط فہمى ميں يہ دو افراد مبتلا ہوئے ہيں وہ يہ ہے كہ انہوں نے آنحضرت (ص) كے دور كے اجتماعى حالات پر غور نہيں كيا _ انہوں نے حكومت كے متعلق ايك خاص قسم كا تصور ذہن ميں ركھا ہے لہذا جب آنحضرت (ص) كے دور ميں انہيں حكومت كے متعلق وہ تصور نہيں ملا توكہنے لگے آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى بلكہ عباسيوں كے دور ميں ا سلامى حكومت وجود ميں آئي _
يہ نظريہ كہ جس كا سرچشمہ عبدالرازق كا كلام ہے كى ردّ ميں ڈاكٹر سنہورى كہتے ہيں :
عبد الرازق كى بنيادى دليل يہ ہے كہ ايك حكومت كيلئے جو انتظامى امور اور ادارے ضرورى ہوتے ہيں_ وہ رسولخدا (ص) كے زمانہ ميں نہيںتھے_ ليكن يہ بات عبدالرازق كے اس مدعاكى دليل نہيں بن سكتى كہ آپ (ص) كے دور ميں حكومت كا وجود نہيں تھا_ كيونكہ اس وقت جزيرة العرب پر ايك سادہ سى طرز زندگى حاكم تھى جو اس قسم كے پيچيدہ اور دقيق نظم و نسق كى روادار نہيں تھى لہذا اس زمانہ ميں جو بہترين نظم و نسق ممكن تھا آنحضرت (ص) نے اپنى حكومت كيلئے قائم كيا _ پس اس اعتراض كى كوئي گنجائشے نہيں رہتى كہ ''اگر آپ نے حكومت تشكيل دى تھى تو اس ميں موجود ہ دور كى حكومتوں كى طرح كا نظم و نسق اور انتظامى ادارے كيوں نہيں ملتے_ كيونكہ اس قسم كانظم و نسق اور طرز حكومت آنحضرت (ص) كے زمانہ كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتا تھا ليكن اس كے باوجود آپ نے اپنى اسلامى حكومت كيلئے ماليات ، قانون گذارى ، انتظامى امور اور فوجى ادارے قائم كئے_(1)
3_ ہمارا مدعا يہ ہے كہ آنحضرت (ص) سياسى اقتدار اور ايك مركزى حكومت كى ماہيت كو وجود ميں لائے_ ہمارى بحث اس ميں نہيں ہے كہ اس وقت لفظ حكومت استعمال ہوتا تھا يا نہيں يا وہ الفاظ جو كہ عموماً حكمران
1) ''فقہ الخلافة و تطورہا ''عبدالرزاق احمد سنہورى ص 82_
87
استعمال كرتے تھے مثلاً امير ، بادشاہ يا سلطان و غيرہ آنحضرت (ص) نے اپنے لئے استعمال كئے يا نہيں؟تاكہ جابرى صرف اس بنا پر كہ آپ (ص) نے خود كو حكمران يا بادشاہ نہيںكہلوايا ياعباسيوں كے دور ميں ''ہمارى حكومت '' جيسے الفاظ رائج ہوئے تشكيل حكومت كو بعد والے ادوار كى پيداوار قرار ديں_
وہ تاريخى حقيقت كہ جس كا انكار نہيں كيا جاسكتا يہ ہے كہ آنحضرت (ص) كے دور ميں مدينہ ميں سياسى اقتدار وجود ميں آچكا تھا _ البتہ يہ حكومت جو كہ اسلامى تعليمات كى بنياد پر قائم تھى شكل و صورت اور لوگوں كے ساتھ تعلقات ميں اس دور كى دوسرى مشہور حكومتوں سے بہت مختلف تھى _
آنحضرت (ص) كى حكومت كا الہى ہونا :
اس نكتہ كى وضاحت كے بعد كہ آنحضرت (ص) نے مدينہ ميں حكومت تشكيل دى تھى اور آپ كى رسالت اور نبوت سياسى ولايت كے ساتھ ملى ہوئي تھى _ اس اہم بحث كى تحقيق كى بارى آتى ہے كہ آنحضرت (ص) كو يہ حكومت اور سياسى ولايت خداوند كريم كى طرف سے عطا ہوئي تھى يا اس كا منشأ رائے عامہ اور بيعت تھى ؟ دوسرے لفظوں ميں كيا آ پ (ص) كى سياسى ولايت كا منشأدينى تھا يا عوامى اورمَدني؟
اس سوال كا جواب اسلام اور سياست كے رابطہ كى تعيين ميں اہم كردار ادا كرے گا _ اگر آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت اور حكومت كا منشا دينى تھا_ اور يہ منصب آپ (ص) كو خدا كى طرف سے عطا كيا گيا تھا تو پھر اسلام اور سياست كا تعلق'' ذاتي'' ہوگا _ بايں معنى كہ اسلام نے اپنى تعليمات ميں حكومت پر توجہ دى ہے اور مسلمانوں سے دينى حكومت كے قيام كا مطالبہ كيا ہے لہذا آنحضرت (ص) نے اس دينى مطالبہ پر لبيك كہتے ہوئے حكومت كى تشكيل اور مسلمانوں كے اجتماعى اور سياسى امور كے حل كيلئے اقدام كيا ہے_ اور اگر آنحضرت (ص) كى حكومت اور سياسى ولايت كا منشأ و سرچشمہ صرف لوگوں كى خواہش اور مطالبہ تھا تو اس صورت ميں اسلام اور حكومت كے درميان تعلق ايك ''تاريخى تعلق ''كہلائے گا _ اس تاريخى تعلق سے مراد يہ
88
ہے كہ اسلام نے اپنى تعليمات ميں دينى حكومت كى تشكيل كا مطالبہ نہيں كيا اور آنحضرت (ص) كيلئے سياسى ولايت جيسا منصب يا ذمہ دارى قرار نہيں دى بلكہ رسولخدا (ص) كے ہاتھوں دينى حكومت كا قيام ايك تاريخى واقعہ تھا جو اتفاقاً وجود ميں آگيا _ اگر مدينہ كے لوگ آپ(ص) كو سياسى قائد كے طور پر منتخب نہ كرتے اور آپ (ص) كى بيعت نہ كرتے تو اسلام اورحكومت كے درميان اس قسم كا تعلق پيدا نہ ہوتا كيونكہ اس نظريہ كے مطابق اسلام اور سياست كے درميان كوئي ''ذاتى تعلق'' نہيں ہے اور نہ ہى اس دين ميں سياسى ولايت كے متعلق اظہار رائے كياگيا ہے _
اس نظريہ كے حاميوں ميں سے ايك كہتے ہيں :
آسمانى پيغام كو پہنچانے كيلئے رسولخدا (ص) كى اجتماعى ، سياسى اور اخلاقى قيادت سب سے پہلے لوگوں كے منتخب كرنے اور بيعت كے ذريعہ وجود ميں آئي پھر اس بيعت كو خداوند كريم نے پسند فرمايا جيسا كہ سورہ فتح كى آيت'' لقد رضى اللہ عن المومنين اذ يبايعونك تحت الشجرة ''(1)''بے شك اللہ تعالى مومنوں سے اس وقت راضى ہو گيا جب وہ درخت كے نيچے تيرى بيعت كر رہے تھے''_ سے معلوم ہوتا ہے ايسا نہيں ہے كہ آنحضرت (ص) كى سياسى قيادت الہى ماموريت اور رسالت كا ايك حصہ ہو بلكہ آپ كى سياسى قيادت اورفرمانروائي جو كہ لوگوں كى روزمرہ زندگى اور عملى و اجرائي دستورات پر مشتمل تھى لوگوں كے انتخاب اور بيعت كے ذريعہ وجود ميں آئي لہذا يہ رہبرى وحى الہى كے زمرے ميں نہيں آتي_
يہ نظريہ صحيح نہيں ہے كہ دين اور سياست كا تعلق ايك تاريخى تعلق ہے اور آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت ايك مدنى ضرورت تھى _ آپ (ص) كى حكومت اس دور كے تقاضے اور لوگوں كے مطالبہ سے اتفاقاً وجود ميں نہيں
1) سورہ فتح آيت نمبر18_
89
آئي تھى _بلكہ اس كا سرچشمہ اسلامى تعليمات تھيں اور جيسا كہ آگے ہم وضاحت كريں گے كہ لوگوں كى خواہش اور بيعت نے درحقيقت اس دينى دعوت كے عملى ہونے كى راہ ہموار كى _ متعدد دلائل سے ثابت كيا جاسكتا ہے كہ آپ (ص) كى سياسى ولايت كا سرچشمہ اسلام اور وحى الہى تھى ان ميں سے بعض دلائل يہ ہيں_
الف _ اسلام كچھ ايسے قوانين اور شرعى فرائض پر مشتمل ہے كہ جنہيں دينى حكومت كى تشكيل كے بغير اسلامى معاشرہ ميں جارى نہيں كيا جاسكتا _ اسلامى سزاؤں كا نفاذ اور مسلمانوں كے مالى واجبات مثلا ً زكوة ، اور اموال و غنائم كے خمس كى وصولى اور مصرف ايسے امور ہيں كہ دينى حكومت كى تشكيل كے بغير ان كا انجام دينا ممكن نہيں ہے _ بنابريں دينى تعليمات كے اس حصہ كو انجام دينے كيلئے آپ (ص) كيلئے سياسى ولايت ناگزير تھي_ ہاں اگر مسلمان آپ (ص) كا ساتھ نہ ديتے اور بيعت اور حمايت كے ذريعہ آپ (ص) كى پشت پناہى نہ كرتے تو آپ كى سياسى ولايت كو استحكام حاصل نہ ہوتا اور دينى تعليمات كا يہ حصہ نافذ نہ ہوتا _ ليكن اس كا يہ معنى نہيںہے كہ آپ(ع) كى سياسى ولايت كا منشأ عوام تھے اور اسلام سے اس كا كوئي تعلق نہيں تھا_
ب _ قرآنى آيات رسولخدا (ص) كى سياسى ولايت كو ثابت كرتى ہيں اورمؤمنين سے مطالبہ كرتى ہيں كہ وہ آپ (ص) كى طرف سے ديے گئے اوامر اور نواہى كى اطاعت كريں:
'' النبى اولى بالمومنين من انفسہم ''(1)
بے شك نبى تمام مومنوں سے ان كے نفس كى نسبت اولى ہيں _
'' انما وليّكم اللہ و رسولہ و الذين آمنوا الذين يقيمون الصلوة و يؤتون الزكوة و ہم راكعون'' (2)
1) سورہ احزاب آيت 6_
2) سورہ مائدہ آيت55_
90
يقينا ً تمہارا ولى خدا ، اس كا رسول اور وہ صاحبان ايمان ہيں جو نماز قائم كرتے ہيں اور حالت ركوع ميں زكوة ديتے ہيں _
'' انا انزلنا اليك الكتاب بالحق لتحكم بين الناس بما اريك اللہ''(1)
ہم نے تمہارى طرف بر حق كتاب نازل كى تا كہ لوگوں كے درميان حكم خدا كے مطابق فيصلہ كريں_
اس قسم كى آيات سے ثابت ہوتا ہے كہ آنحضرت (ص) مومنين پر ولايت ،اولويت اور حق تقدم ركھتے ہيں_ بحث اس ميں ہے كہ يہ ولايت اور اولويت كن امور ميں ہے _ ان آيات سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ يہ ولايت اور اولويت ان امور ميں ہے جن ميں لوگ معمولاً اپنے رئيس كى طرف رجوع كرتے ہيں يعنى وہ اجتماعى امور جن كے ساتھ معاشرہ اور نظام كى حفاظت كا تعلق ہے _ مثلاً نظم و نسق كا برقرار ركھنا ،لوگوں كے حقوق كى پاسدارى ، ماليات كى جمع آورى ، انكى تقسيم اورمستحقين تك ان كا پہنچانا اور اس طرح كے دوسرے ضرورى مصارف ، مجرموں كو سزا دينا اور غيروں سے جنگ اور صلح جيسے امور _
ج_ وہ افراد جو آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت كو مدنى اور غير الہى سمجھتے ہيں ان كى اہم ترين دليل مختلف موقعوں پر مسلمانوں كا رسولخدا ا(ص) كى بيعت كرنا ہے _ بعثت كے تير ہويں سال اہل يثرب كى بيعت اور بيعت شجرہ( بيعت رضوان) كہ جس كى طرف اسى سبق ميں اشارہ كيا گيا ہے يہ وہ بيعتيں ہيں جن سے ان افراد نے تمسك كرتے ہوئے كہا ہے كہ آنحضرت (ص) كى حكومت كا منشأ دينى نہيں تھا _
بعثت كے تير ہويں سال اعمال حج انجام دينے كے بعد اور رسولخدا (ص) كى مدينہ ہجرت سے پہلے اہل يثرب كے نمائندوں نے آنحضرت (ص) كى بيعت كى تھى _ جسے بيعت عقبہ كہتے ہيں_ اگر اس كا پس منظر ديكھا
1) سورہ نساء آيت 105_
91
جائے تو بخوبى واضح ہوجاتا ہے كہ اس بيعت كا مقصد مشركين مكہ كى دھمكيوں كے مقابلہ ميں رسولخدا (ص) كى حمايت كرنا تھا _ اس بيعت ميں كوئي ايسى چيز نہيں ہے جو دلالت كرتى ہو كہ انہوں نے آنحضرت (ص) كو سياسى رہبر كے عنوان سے منتخب كيا ہو _ اس بيعت كے وقت آنحضرت (ص) نے فرمايا:
'' امّا مالى عليكم فتنصروننى مثل نسائكم و ابنائكم و ان تصبروا على عضّ السّيف و ان يُقتل خياركم ''
بہر حال ميرا تم پر يہ حق ہے كہ تم ميرى اسى طرح مدد كرو جس طرح اپنى عورتوں اور بچوں كى مدد كرتے ہو اور يہ كہ تلواروں كے كاٹنے پر صبر كرو اگر چہ تمہارے بہترين افراد ہى كيوں نہ مارے جائيں_
براء بن معرور نے آنحضرت (ص) كا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں ليا اور كہا :
''نعم و الذى بعثك بالحق لنمنعنّك ممّا نمنع منہ ازرنا ''(1 )
ہاں اس ذات كى قسم جس نے آپ كو حق كے ساتھ مبعوث كيا ہے ہم ہراس چيز سے آپ كا دفاع كريں گے جس سے اپنى قوت و طاقت كا دفاع كرتے ہيں_
بيعت رضوان كہ جس كى طرف سورہ فتح كى اٹھارويں آيت اشارہ كر رہى ہے سن چھ ہجرى ميں ''حديبيہ'' كے مقام پر ہوئي اس بيعت سے يہ استدلال كرنا كہ آنحضرت(ص) كى حكومت كا منشا مدنى اور عوامى تھا ناقابل فہم بہت عجيب ہے كيونكہ يہ بيعت مدينہ ميں آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت اور اقتدار كے استحكام كے كئي سال بعد ہوئي پھر اس بيعت كا مقصد مشركين كے ساتھ جنگ كى تيارى كا اظہار تھا _ لہذا سياسى رہبر كے انتخاب كے مسئلہ كے ساتھ اس كا كوئي تعلق نہيں تھا _
1) مناقب آل ابى طالب ج 1، ص 181_
92
خلاصہ :
1) عصر حاضر كے بعض مصنفين قائل ہيں كہ آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى بلكہ ايك امت مسلمہ كى نبياد ركھى تھى _ امت مسلمہ كى تشكيل كے بعد عباسيوں كے دور ميں دينى حكومت قائم ہوئي _
2) اس مدعا كى دليل يہ ہے كہ رسولخد ا (ص) كے دور ميں جو قبائلى نظام رائج تھا اس پر حكومت كى تعريف صادق نہيں آتى _ دوسرا يہ كہ آنحضرت (ص) نے اپنے آپ كو امير يا حاكم كا نام نہيں ديا نيز قرآن نے بھى مسلمانوں كيلئے ''امت ''كا لفظ استعمال كيا ہے _
3) اس نظريہ كے حامى اس نكتہ سے غافل رہے ہيں كہ ہر معاشرے اور زمانے كى حكومت اس دور كے اجتماعى حالات كے مطابق ہوتى ہے لہذا دور حاضر ميں حكومت كى جو تعريف كى جاتى ہے اس كا رسولخدا (ص) كے زمانے كى حكومت پر صادق نہ آنا اس بات كى نفى نہيں كرتاكہ مدينہ ميں آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل دى تھى _
4) دوسرا نكتہ جس سے غفلت برتى گئي ہے وہ يہ ہے كہ بحث لفظ ''حكومت، رياست اور امارت'' ميں نہيں ہے _ ہمارا مدعا يہ ہے كہ رسولخدا (ص) كے زمانہ ميں حكومت اور سياسى ولايت موجود تھى _
5) مسلمانوں ميں حكومت كا وجود ان پر لفظ ''امت'' كے اطلاق كے منافى نہيں ہے _
6) اصلى مدعا يہ ہے كہ آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت اسلام اور سياست كے در ميان ذاتى تعلق كا نتيجہ ہے نہ كہ ايك اتفاقى اور تاريخى واقعہ _ پس اسلام اور سياست كا تعلق ايك تاريخى تعلق نہيں ہے_
7) آنحضرت (ص) كى حكومت كے الہى اور غير مدنى ہونے پر بہت سى ادلّہ موجود ہيں _
93
سوالات :
1) جو لوگ يہ كہتے ہيں كہ آنحضرت (ص) نے حكومت كى بجائے امت مسلمہ كى نبياد ركھى تھى اس سے ان كى مراد كيا ہے ؟
2) اس مدعا پر انہوں نے كونسى ادلّہ پيش كى ہيں ؟
3) آنحضرت (ص) كے ہاتھوںتشكيل حكومت كے منكرين كے اس گروہ كو كيا جواب ديا گيا ہے؟
4) اسلام اور سياست كے درميان ''ذاتى تعلق'' اور ''تاريخى تعلق'' سے كيا مراد ہے ؟
5)اس بات كى كيا دليل ہے كہ آنحضرت (ص) كى حكومت الہى تھى اور اس كا سرچشمہ دين تھا ؟ اور يہ كہ آپ (ص) كى حكومت مدنى نہ تھي_
|