71
دوسرا باب :
اسلام اور حكومت
سبق نمبر 9،10 : آنحضرت (ص) اور تاسيس حكومت
سبق نمبر 11 : آنحضرت (ص) كے بعد سياسى ولايت
سبق نمبر 12 : شيعوں كا سياسى تفكر
سبق نمبر 13، 14 : سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار
72
تمہيد :
گذشتہ باب ميں ہم نے كہا تھا كہ دينى حكومت كا معنى '' حكومتى امور ميں دينى تعليمات كى دخالت اور مختلف سياسى امور ميں دين كى حاكميت كو قبول كرناہے'' _ دينى حكومت كے مخالفين كى ادلّہ پر ايك نگاہ ڈالتے ہوئے ہم يہ ثابت كرچكے ہيں كہ اجتماعى و معاشرتى امور ميں دين كى حاكميت اور دينى حكومت كى تشكيل ميں كوئي ركاوٹ نہيں ہے _
اس باب ميں اس نكتہ كى تحقيق كى جائے گى كہ كيا اسلام مسلمانوں كو دينى حكومت كى تشكيل كى دعوت ديتا ہے يانہيں ؟ اور حكومت كى تشكيل، اس كے اہداف و مقاصد اور اس كے فرائض كے متعلق اس كا كوئي خاص نظريہ ہے يا نہيں ؟ دوسرے لفظوں ميں كيا اسلام نے دين اور حكومت كى تركيب كا فتوى ديا ہے ؟ اور كوئي خاص سياسى نظريہ پيش كيا ہے ؟
واضح سى بات ہے كہ اس تحقيق ميں دينى حكومت كے منكرين كى پہلى قسم كى آراء اور نظريات جو كہ گذشتہ باب ميں بيان ہوچكے ہيں پر تنقيد كى جائے گى _ يہ افراد اس بات كا انكار نہيں كرتے كہ معاشرے اور سياست ميں دين كى دخالت ممكن ہے _ اسى طرح اس كے بھى قائل ہيں كہ اجتماعى امور ميں دين كى حاكميت ميں كوئي ركاوٹ نہيں ہے بلكہ ان كا كہناہے كہ'' اسلام ميں ايسا ہوانہيں '' _ يعنى ان كى نظر ميں اسلام نے حكومت كى تشكيل ، اس كى كيفيت اور حكومتى ڈھانچہ جيسے امور خود مسلمانوں كے سپرد كئے ہيں اور خود ان كے متعلق كسى قسم كا اظہار رائے نہيں كيا _
73
نواں سبق:
آنحضرت (ص) اور تاسيس حكومت (1)
كيا اسلام نے دينى حكومت كى دعوت دى ہے؟ كيا مختلف سياسى اور حكومتى امور ميں اپنى تعليماتپيش كى ہيں ؟ اس قسم كے سوالات كے جواب ہميں صدر اسلام اور آنحضرت (ص) كى مدنى زندگى كى طرف متوجہ كرتے ہيں_
آنحضرت (ص) نے اپنى زندگى كے جو آخرى دس سال مدينہ ميں گزارے تھے اس وقت امت مسلمہ كى قيادت اور رہبرى آپ كے ہاتھ ميں تھى _سوال يہ ہے كہ يہ قيادت اور رہبرى كيا مسلمانوں پر حكومت كے عنوان سے تھي؟ يااصلاً آ پ (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى بلكہيہ رہبرى و قيادت صرف مذہبى اور معنوى عنوان سے تھى ؟
گذشتہ زمانے كے تمام مسلمانوں اور موجودہ دور كے اسلامى مفكرين كى اكثريت معتقدہے كہ تاريخى شواہد بتاتے ہيں كہ اس وقت آنحضرت (ص) نے ايك اسلامى حكومت تشكيل دى تھى جس كا دارالحكومت مدينہ تھا _ اس مشہور نظريہ كے مقابلہ ميں قرن اخير ميں مسلمان مصنفينكى ايك قليل تعداد يہ كہتى ہےكہ پيغمبر
74
اكرم (ص) صرف دينى رہبر تھے اور انہوں نے كوئي حكومت تشكيل نہيں دى تھى _
آنحضرت (ص) كى قيادت كے سلسلہ ميں دو بنيادى بحثيں ہيں :
الف_ كيا آپ (ص) نے حكومت تشكيل دى تھى ؟
ب_ بنابر فرض تشكيل حكومت كيا آنحضر ت (ص) كى يہ رياست اور ولايت ،وحى اور دينى تعليمات كى رو سے تھى يا ايك معاشرتى ضرورت تھى اور لوگوں نے اپنى مرضى سے آپ(ص) كو اپنا سياسى ليڈر منتخب كر ليا تھا؟ پہلے ہم پہلے سوال كى تحقيق كريں گے اور ان افراد كى ادلّہ پر بحث كريں گے جو كہتے ہيں : آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى _
حكومت كے بغير رسالت
مصرى مصنف على عبدالرازق اس نظريہ كا دفاع كرتے ہيں كہ آنحضرت (ص) كى قيادت ورہبرى صرف مذہبى عنوان سے تھى اور اس قيادت كا سرچشمہ آپ كى نبوت اور رسالت تھى اسى وجہ سے آپ كى رحلت كے بعد اس قيادت كا خاتمہ ہوگيا _ اور يہ امر جانشينى اور نيابت كے قابل نہيں تھا _ آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد خلفاء نے جو قيادت كى وہ آنحضرت (ص) والى رہبرى نہيں تھى بلكہ خلفاء كى قيادت سياسى تھى اور اپنى اس سياسى حكومت كى تقويت كيلئے خلفاء نے آنحضرت (ص) كى دينى دعوت سے فائدہ اٹھايا_ اس نئي حكومت كے اہلكاروں نے خود كو خليفہ رسول كہلوايا جس كى وجہ سے يہ سمجھ ليا گيا كہ ان كى رہبرى رسول اكرم (ص) كى قيادت كى جانشينى كے طور پر تھى حالانكہ آنحضرت (ص) صرف دينى قيادت كے حامل تھے اور يہ قيادت قابل انتقال نہيں ہے_ پيغمبر اكرم (ص) سياسى قيادت كے حامل نہيں تھے كہ خلفا آپ كے جانشين بن سكتے(1)_
1) ''الاسلام و اصول الحكم ''على عبدالرازق صفحہ 90، 94_
75
عبدالرازق نے اپنے مدعا كے اثبات كيلئے دو دليلوں كا سہارا ليا ہے _
الف _ پہلى دليل ميں انہوں نے بعض قرآنى آيات پيش كى ہيں ان آيات ميں شان پيغمبر (ص) كو رسالت ، بشير اور نذير ہونے ميں منحصر قرار ديا گيا ہے _ ان كے عقيدہ كے مطابق ''اگر آنحضرت (ص) رسالت اور نبوت كے علاوہ بھى كسى منصب كے حامل ہوتے يعنى حكومت اور ولايت كے منصب پر بھى فائز ہوتے تو كبھى بھى ان آيات ميں ان كى شان كو نبوت ، بشير اور نذير ہونے ميں منحصر نہ كيا جاتا'' (1)
ان ميں سے بعض آيات يہ ہيں_
''ان ا نا الّا نذيرو بشير '' (2)
ميں تو صرف ڈرانے اور بشارت دينے والا ہوں _
''وَ مَا على الرسول الّا البلاغ المبين ''(3)
اور رسول كے ذمہ واضح تبليغ كے سوا كچھ بھى نہيں ہے _
''قل انّما ا نا بشر مثلكم يُوحى الي'' (4)
كہہ ديجيئے ميں تمھارے جيسا بشر ہوں مگر ميرى طرف وحى آتى ہے_
''انّما ا نت منذر'' (5)
يقيناً تو صرف ڈرانے والا ہے _
1) ''الاسلام و اصول الحكم ''على عبد الرازق صفحہ 73_
2) سورہ اعراف آيت188_
3) سورہ نور آيت 54_
4) سورہ كہف آيت110_
5) سورہ رعد آيت 7_
76
''فان ا عرضوا فما ا رسلناك عليہم حفيظاً ان عليك الا البلاغ''(1)
اگر يہ روگردانى كريں تو ہم نے آپ كو ان كا نگہبان بنا كر نہيں بھيجا ہے _ آپ كا فرض صرف پيغام پہنچا دينا ہے_
ب_ آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى _ عبدالرازق اس كى دوسرى دليل يہ ديتے ہيں كہ آج كل ہر حكومت بہت سے شعبوں اور اداروں پر مشتمل ہوتى ہيں _ ضرورى نہيں ہے كہ گذشتہ دور كى حكومتيں بھى اسى طرح وسيع تر اداروں پر مشتمل ہوں ليكن جہاں بھى حكومت تشكيل پاتى ہے كم از كم كچھ سركارى محكموں مثلاً انتظاميہ ،داخلى و خارجى اور مالى امور سے متعلقہ اداروںو غيرہ پر مشتمل ہوتى ہے_ يہ وہ كمترين چيز ہے جس كى ہر حكومت كو احتياج ہوتى ہے ليكن اگر ہم آنحضرت (ص) كے دور فرمانروائي كى طرف ديكھيں تو كسى قسم كے انتظامى اداروں كا نشان نہيں ملتا _ يعنى آنحضر ت (ص) كى حاكميت ميں ايسے كمترين انتظامى ادارے بھى مفقود ہيں جو ايك حكومت كيلئے ضرورى ہوتے ہيں_
ممكن ہے ذہن ميں يہ خيال آئے كہ چونكہ آنحضرت (ص) ايك سادہ زندگى بسر كرتے تھے لہذا انہوں نے اپنى حكومت كے دوران اس قسم كے اداروں كے قائم كرنے كى ضرورت محسوس نہيں كى ليكن عبدالرازق كے نزديك يہ احتمال صحيح نہيں ہے كيونكہ اس قسم كے ادارے ايك حكومت كيلئے ناگزير ہيں اور سادہ زندگى كے منافى بھى نہيں ہيں _ لہذا ان امور اور اداروں كا نہ ہونا اس بات كى دليل ہے كہ آنحضر ت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى اور يہ كہ اسلام صرف ايك دين ہے اور رسالت پيغمبر اكرم (ص) دينى حكومت كے قيام كو شامل نہيں تھي_(2)
1) سورہ شورى آيت 48_
2) الاسلام و اصول الحكم صفحہ 62_ 64_
77
پہلى دليل كا جواب
قرآن مجيد كى طرف رجوع كرنے سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ آنحضرت (ص) كے مناصب اور ذمہ دارياں پيام الہى كے ابلاغ اور لوگوں كو ڈرانے ميں منحصر نہيں تھے بلكہ قرآن كريم نے كفار اور منافقين كے ساتھ جہاد، مشركين كے ساتھ جنگ كيلئے مومنين كى تشويق ، عدالتى فيصلے اور معارف الہى كے بيان جيسے امور كو بھى آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى قرار ديا ہے_
اور يہ امور پيام الہى كے ابلاغ اور لوگوں كو ڈرانے جيسے امور كے علاوہ ہيں _ ان ميں سے ہر منصب كيلئے ہم بطور دليل ايك آيت پيش كرتے ہيں_
''يا ايھا النبى جاہد الكفار و المنافقين و اغلظ عليہم ''(1)
اے پيغمبر (ص) آپ كفار اور منافقين سے جہاد كريں اور ان پر سختى كريں_
''يا ايھا النبى حرّض المومنين على القتال ''(2)
اے پيغمبر مومنين كو جہاد پر آمادہ كريں_
''وما كان لمومن و لا مومنة اذا قضى اللہ و رسولہ امراً ان يكون لہم الخيرة من امرہم ''(3)
كسى مومن مرد يا عورت كو اختيار نہيں ہے كہ جب خدا اور اس كا رسول كسى امر كے بارے ميں فيصلہ كريں تو وہ بھى اپنے امر كے بارے ميں صاحب اختيار بن جائے_
1) سورہ تحريم آيت 9_
2) سورہ انفال آيت 65_
3) سورہ احزاب آيت36_
78
''و انزلنا اليك الذكر لتبين للناس ما نزّل اليہم ''(1)
اور آپ (ص) كى طرف قرآن كو نازل كيا تا كہ لوگوں كيلئے جواحكام آئے ہيں انہيں بيان كرديں_
اس حقيقت كو ديكھتے ہوئے كہ آنحضرت (ص) مختلف مناصب كے حامل تھے معلوم ہوتاہے كہ عبدالرازق كى پيش كردہ آيات ميں موجود '' حصر'' حقيقى نہيں بلكہ ''اضافي'' ہے _ حصر اضافى كا مطلب يہ ہے كہ جب سامنے والا يہ سمجھ رہا ہو كہ موصوف دو صفتوں كے ساتھ متصف ہے تو متكلم تاكيداً مخاطب پر يہ واضح كرتا ہے كہ نہيں موصوف ان ميں سے صرف ايك صفت كے ساتھ متصف ہے _ مثلاً لوگ يہ سمجھتے تھے كہ آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى پيام الہى كا پہنچانا بھى اور لوگوں كو زبردستى ہدايت كى طرف لانا بھى ہے_ اس و ہم كو دور كرنے كيلئے آيت نے حصر اضافى كے ذريعہ آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى كو پيام الہى كے ابلاغ ميں منحصر كر ديا ہے اور فرمايا ہے : ''و ما على الرسول الا البلاغ'' اور رسول كے ذمہ تبليغ كے سوا كچھ نہيں ہے(2) يعنى پيغمبر اكرم (ص) كا كام لوگوں كو زبردستى ايمان پر مجبور كرنا نہيں ہے بلكہ صرف خدا كا پيغام پہنچانا اور لوگوں كو راہ ہدايت دكھانا ہے_ لوگ خود راہ ہدايت كو طے كريں اور نيك كاموں كى طرف بڑھيں_ پس آنحضرت (ص) لوگوں كى ہدايت كے ذمہ دار نہيں ہيں بلكہ صرف راہ ہدايت دكھانے كے ذمہ دا ر ہيں آنحضرت (ص) صرف ہادى ہيں اور لوگوں كى ہدايت كے ذمہ دار نہيں ہے _ بلكہ لوگ خود ہدايت حاصل كرنے اور نيك اعمال بجا لانے كے ذمہ دار ہيں_ اس حقيقت كو آيت نے حصر اضافى كے قالب ميں يوں بيان فرمايا ہے_(3)
1) سورہ نحل آيت44_
2) سورہ نورآيت 54_
79
3) تفسير ميزان ج 12 ، ص 241، 242 سورہ نحل آيت 35 كے ذيل ميں _ ج 10 ص 133 سورہ يونس آيت نمبر108 كے ذيل ميں _
''فمن اہتدى فانما يھتدى لنفسہ و من ضل فانما يضّل عليہا و ما انا عليكم بوكيل''(1)
پس اب جو ہدايت حاصل كرے گا وہ اپنے فائدہ كيلئے كرے گا اور جو گمراہ ہوگا وہ اپنے آپ كا نقصان كرے گا اور ميں تمہارا ذمہ دار نہيں ہوں _
بنابريں عبدالرازق سے غلطى يہاں ہوئي ہے كہ انہوں نے مذكورہ آيات ميںحصر كو حقيقى سمجھا ہے اور ان آيات ميں مذكورمخصوص صفت كے علاوہ باقى تمام اوصاف كى آنحضرت (ص) سے نفى كى ہے_ حالانكہ ان آيات ميںحصر'' اضافي'' ہے بنيادى طور پريہ آيات دوسرے اوصاف كو بيان نہيں كررہيںبلكہ ہر آيت صرف اس وصف كى نفى كر رہى ہے جس وصف كا وہم پيدا ہوا تھا_
دوسرى دليل كا جواب :
ظہور اسلام سے پہلے كى تاريخ عرب كااگر مطالعہ كيا جائے تو يہ حقيقت واضح ہوجاتى ہے كہ ظہور اسلام سے پہلے جزيرہ نما عرب ميں كوئي منظم حكومت نہيں تھى _ ايسى كوئي حكومت موجود نہيں تھى جو ملك ميں امن و امان برقرار كر سكے اور بيرونى دشمنوں كا مقابلہ كر سكے صرف قبائلى نظام تھا جو اس وقت اس سرزمين پر رائج تھا_ اس دور كى مہذب قوموں ميں جو سياسى ڈھانچہ اور حكومتى نظام موجود تھا جزيرة العرب ميں اس كا نشان تك نظر نہيں آتا _ ہر قبيلے كا ايك مستقل وجود اور رہبر تھا_ ان حالات كے باوجود آنحضرت (ص) نے جزيرة العرب ميں كچھ ايسے بنيادى اقدامات كئے جو سياسى نظم و نسق اور تأسيس حكومت كى حكايت كرتے ہيں حالانكہ اس ماحول ميں كسى مركزى حكومت كا كوئي تصور نہيں تھا_ يہاں ہم آنحضرت (ص) كے ان بعض اقدامات كى طرف اشارہ كرتے ہيں جو آپ (ص) كے ہاتھوں دينى حكومت كے قيام پر دلالت كرتے ہيں_
1) سورہ يونس آيت نمبر108_
80
الف _ آنحضرت (ص) نے مختلف اور پراگندہ قبائل كے درميان اتحاد قائم كيا _ يہ اتحاد صرف دينى لحاظ سے نہيں تھا بلكہ اعتقادات اور مشتركہ دينى تعليمات كے ساتھ ساتھ سياسى اتحاد بھى اس ميں شامل تھا _ كل كے مستقل اور متخاصم قبائل آج اس سياسى اتحاد كى بركت سے مشتركہ منافع اور تعلقات كے حامل ہوگئے تھے_ اس سياسى اتحاد كا نماياں اثر يہ تھا كہ تمام مسلمان قبائل غير مسلم قبائل كيساتھ جنگ اور صلح كے موقع پر متحد ہوتے تھے_
ب _ آنحضرت (ص) نے مدينہ كو اپنا دارالحكومت قرار ديا اور وہيں سے دوسرے علاقوں ميں والى اور حكمران بھيجے طبرى نے ايسے بعض صحابہ كے نام ذكر كئے ہيں_ اُن ميں سے بعض حكومتى امور كے علاوہ دينى فرائض كى تعليم پر بھى مامور تھے جبكہ بعض صرف اس علاقہ كے مالى اور انتظامى امور سنبھالنے كيلئے بھيجے گئے تھے جبكہ مذہبى امور مثلانماز جماعت كا قيام اور قرآن كريم اور شرعى احكام كى تعليم دوسرے افراد كى ذمہ دارى تھى _
طبرى كے بقول آنحضرت (ص) نے سعيد ابن عاص كو ''رمَعْ و زبيد '' كے درميانى علاقے پر جو نجران كى سرحدوں تك پھيلا ہوا تھا عامر ابن شمر كو ''ہمدان ''اور فيروز ديلمى كو ''صنعا ''كے علاقے كى طرف بھيجا _ اقامہ نماز كيلئے عمرو ابن حزم كو اہل نجران كى طرف بھيجا جبكہ اسى علاقہ سے زكات اور صدقات كى جمع آورى كيلئے ابوسفيان ابن حرب كو مامور فرمايا_ ابو موسى اشعرى كو ''مأرب ''اور يعلى ابن اميہ كو ''الجند ''نامى علاقوں كى طرف روانہ كيا (1)
ج _ مختلف علاقوں كى طرف آنحضرت (ص) كا اپنے نمائندوںكو خطوط ديكر بھيجنا اس بات كى واضح دليل ہے كہ آپ (ص) نے اپنى قيادت ميں ايك وسيع حكومت قائم كى تھى _ ان ميں سے بعض خطوط اور عہد نامے ايسے ہيں جو دلالت كرتے ہيں كہ آنحضرت (ص) نے ان افراد كو حاكم اور والى كے عنوان سے بھيجا تھا_ عمرو بن حزم
1) تاريخ طبرى ( تاريخ الرسل و الملوك ) ج 3 ص 318_
81
كو آپ نے حكم نامہ ديا تھا اس ميں آپ (ص) نے لكھا تھا :لوگوں سے نرمى سے پيش آنا ليكن ظالموں سے سخت رويہ ركھنا _ غنائم سے خمس وصول كرنا اور اموال سے زكات ان ہدايات كے مطابق وصول كرنا جو اس خط ميں لكھى گئي ہيں ... (1)واضح سى بات ہے كہ ايسے امور حاكم اور والى ہى انجام دے سكتا ہے_
د _ آنحضرت (ص) كے ہاتھوں حكومت كے قيام كى ايك اور دليل يہ ہے كہ آپ (ص) نے مجرموں اور ان افراد كيلئے سزائيں مقرر كيں جو شرعى حدود كى پائمالى اور قانون شكنى كے مرتكب ہوتے تھے اور آپ (ص) نے صرف اخروى عذاب پر اكتفاء نہيں كيا اورحدود الہى كا نفاذ اور مجرموں كيلئے سزاؤں كا اجراحكو متى ذمہ داريوں ميں سے ہيں_
ہ_ قرآن كريم اور صدر اسلام كے مومنين كى زبان ميں حكومت اور سياسى اقتدار كو لفظ''الامر''سے تعبير كيا جاتا تھا_
'' و شاورہم فى الامر'' (2) اور اس امر ميں ان سے مشورہ كرو _''و امرہم شورى بينہم'' (3) اور آپس كے معاملات ميں مشورہ كرتے ہيں _
اگر آنحضرت (ص) كى رہبرى اور قيادت صرف دينى رہبرى ميں منحصر تھى تو پھر رسالت الہى كے ابلاغ ميں آپ (ص) كو مشورہ كرنے كا حكم دينا ناقابل قبول اور بے معنى ہے لہذا ان دو آيات ميں لفظ ''امر'' سياسى فيصلوں اور معاشرتى امور كے معنى ميں ہے_
1) اس خط كى عبارت يہ تھى _'' امرہ ان ياخذ بالحق كما امرہ اللہ ، يخبر الناس بالذى لہم و الذى عليہم ، يلين للناس فى الحق و يشتدّ عليہم فى الظلم ، امرہ ان ياخذ من المغانم خمس اللہ ''
ملاحظہ ہو: نظام الحكم فى الشريعة و التاريخ الاسلامى ، ظافر القاسمي، الكتاب الاول ص 529_
2) سورہ العمران آيت 159_
3) سورہ شورى آيت 38_
82
خلاصہ :
1) آنحضرت (ص) اپنى امت كے قائد تھے اور تمام مسلمان قائل ہيں كہ آپ نے حكومت تشكيل دى تھى _ موجودہ دور كے بعض مسلمان مصنفين آپ (ص) كى دينى قيادت كے معترف ہيں ليكن تشكيل حكومت كا انكار كرتے ہيں_
2) آپ (ص) كى حكومت كے بعض منكرين نے ان آيات كا سہارا ليا ہے جو شان پيغمبر كو ابلاغ وحى ، بشارت دينے اور ڈرانے والے ميں منحصر قرار ديتى ہيں اور ان آيات ميں آپ كى حاكميت كاكوئي تذكرہ نہيں ہے_
3) ان آيات سے'' حصر اضافي'' كا استفادہ ہوتا ہے نہ كہ'' حصر حقيقي'' كا _ لہذايہ آنحضر ت (ص) كے سياسى اقتدار كى نفى كى دليل نہيں ہيں_
4)بعض منكرين كى دوسرى دليل يہ ہے كہ مسلمانوں پر آپ (ص) كى حاكميت ميں ايسے كمترين امور بھى نہيں پائے جاتے جو ايك حكومت كى تشكيل كيلئے انتہائي ضرورى ہوتے ہيں_
5) تاريخ شاہد ہے كہ آنحضرت (ص) نے اس دور كے اجتماعى ، ثقافتى اور ملكى حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے حكومتى انتظامات كئے تھے_
6) مختلف علاقوں كى طرف صاحب اختيار نمائندوں كا بھيجنا اور مجرموں كيلئے سزائيں اور قوانين مقرر كرنا آنحضرت (ص) كى طرف سے تشكيل حكومت كى دليل ہے_
سوالات :
1) آنحضرت (ص) كى زعامت اور رياست كے متعلق كونسى دو اساسى بحثيں ہيں؟
2) آنحضرت (ص) كے ہاتھوں تشكيل حكومت كى نفى پر عبدالرازق كى پہلى دليل كونسى ہے؟
3) عبدالرازق كى پہلى دليل كے جواب كو مختصر طور پر بيان كيجئے_
4)عبدالرزاق كى دوسرى دليل كيا ہے ؟
5) آنحضرت (ص) كے ذريعے تشكيل حكومت پر كونسے تاريخى شواہد دلالت كرتے ہيں؟
|