پینتیسواں جلسہ
قوانین اور حکومت سے آزادی کی نسبت
1۔ حاکم کا نصب کرنا آزادی اور ڈیموکریسی سے مطابقت نھیں رکھتا۔
(ایک اعتراض)
ھم نے گذشتہ جلسوں میں عرض کیا کہ قوانین کو براہ راست خداوندعالم بنائے یا اس کی اجازت اور اذن سے بنائے جائیں، اسی طرح قوانین کو جاری کرنے والا شخص بھی یا براہ راست خداوندعالم کی طرف سے معین ھو یا خداوندعالم کی طرف سے اذن یافتہ ھو؛ بھرحال نظام حکومتی (چاھے قوہ مجریہ ھو، یا قوہ قضائیہ ھو یا پارلیمنٹ) خداکے اذن کی طرف مستند ھوں اس کے علاوہ دینی اور شرعی لحاظ سے اس کی مشروعیت نھیں ھوگی ھم نے گذشتہ بحثوں میں قانون گذاری اور قانون کو جاری کرنے کے سلسلہ میں بھت سے اعتراضات کو بیان کرکے ان کے جوابات پیش کئے قانون گذاری کے سلسلہ میں ایک اعتراض یہ تھا کہ عوام الناس کا خداوندعالم کے قوانین کا پابند ھونے کا مطلب انسانی آزادی اور انسان کے اپنے اختیار کے مخالف ھے؛ اور ھم اس کا جواب قانون گذاری کی بحث میںدے چکے ھیں اسی کے مثل بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت لھجہ سے قوانین کو جاری کرنے کے سلسلہ میں بھی ھوتا ھے؛ اور وہ یہ ھے کہ اگر ھم یہ مان لیں کہ قانون کا جاری کرنے والا خدا وندعالم کی طرف سے معین ھونا چاھئے یا اس کی طرف سے اذن یافتہ ھو، تو اس صورت میں عوام الناس سے حق انتخاب کو چھین لیا ھے اور عوام الناس کو اس چیز کی اجازت نھیں ھے کہ خدا کے فرمان اور اس کے معین کردہ کے خلاف اپنی مرضی سے کسی کا انتخاب کریں؛ اور یہ بات در حقیقت ڈیموکریٹک کے خلاف ھے۔
قارئین کرام ! اگرچہ گذشتہ بحثوں میں ھم اس اعتراض کا جواب عرض کر چکے ھیں لیکن چونکہ اسلامی نظام کے مخالف بلکہ در حقیقت اسلام کے مخالفین اس طرح کے اعتراض مسلسل کئے جارھے ھیں اور مختلف صورتوں میں اس طرح کے شبھات اور اعتراضات بیان کررھے ھیں، اس وجہ سے ھم اس سلسلہ میں مزید وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ھیں پھلے آزدای کے سلسلہ میں کچھ چیزیں بیان کریں گے اس کے بعد اسلامی حکومت کی تشکیل کا طریقہ کار اور قوانین اسلامی کو جاری کرنے کا طریقہ بیان کریں گے۔
2۔ تکوینی آزادی اور نظریہ جبر کی تحقیق اور ردّ
ھمارے سامنے آزادی کا مسئلہ ھے جس کو اصطلاح میں تکوینی آزادی کھا جاتا ھے جس کے مقابلہ میں نظریہ جبر ھے جس کو بعض دانشمندوں نے بیان کیا ھے قدیم زمانہ سے انسان کے سلسلہ میں یہ اختلاف چلا آرھا ھے کہ وہ مختار ھے یا مجبور بعض لوگوں کا کھنا ھے کہ انسان مجبور ھے اور اپنی زندگی میں ذرا بھی اختیار نھیں رکھتا اور اگر کوئی انسان یہ تصور کرے کہ وہ اپنے ارادہ سے اپنے امور انجام دیتا ھے تو یہ اس کا خیال خام کے علاوہ کچھ نھیں ھے انسان در حقیقت مجبور ھے وہ جو بھی کام کرتا ھے مجبوراً اور فشار کے تحت انجام دیتا ھے؛ اگرچہ وہ خود اس چیز کا احساس نہ کرتا ھو۔
ھمیشہ اس نظریہ جبر کے طرفدار لوگ پائے گئے ھیں اور بعض اسلامی علماء نے بھی اس نظریہ کی طرفدار ی کی ھے اسلامی فرقوں میں ”فرقہ اشاعرھ“ (جو اھل سنت کا ایک کلامی فرقہ ھے) جبر کا اعتقاد رکھتا ھے؛ البتہ اتنی شدت اور غلظت سے نھیں جتنے دوسرے مانتے ھیں لیکن ھمارے اور اکثر مسلمانوں کے لحاظ سے یہ نظریہ باطل اور مردود ھے، چاھے انسان اپنے اعمال وافعال میں اپنے کو صاحب اختیار اور آزاد تصور کرے اور اگر صرف جبر انسان کے اوپر حاکم ھوتا تو پھر اخلاقی، تربیتی اور حکومتی نظام کی کوئی ضرورت باقی نہ بچتی۔
اخلاقی اور تربیتی سلسلہ میں اگر انسان نیک یا برے کام پر مجبور ھوتا اور اس کا کوئی اختیار ان چیزوں پر نہ ھوتا تو پھر اس کے نیک کاموں پر اس کی تعریف اور تمجید کوئی معنی نھیں رکھتی اور نہ ھی اس کے لئے کوئی جزا یا انعام کی ضرورت ھے، اسی طرح اگر انسان مجبور ھوتا تو برے کاموں پر اس کی مذمت اور سرزنش بھی نھیں ھونا چاھئے،اگر کوئی بچہ اپنے کسی فعل میں مجبور ھو تو پھر اس کی تربیت لا حاصل ھے اور اس کے اخلاقی کردار کو سنوارنے کے لئے برنامہ ریزی کی کوئی ضرورت نھیں ھے جس وقت معلم اور مربیّ ؛ بچے اور شاگرد سب ھی اپنے کردار میں مجبور ھوں تو پھر استاد بچے سے یہ نھیں کھہ سکتا کہ فلاں کام انجام دو یا فلاں کام نہ کرو اسی طرح حقوقی، سیاسی اور اقتصادی مسائل میں جو نصیحتیں کی ھیں ان کا مطلب یہ ھے کہ انسان اپنے اعمال اور افعال میں مختار اور آزاد ھے۔
جب انسان اپنے افعال اور اعمال کے کرنے یا نہ کرنے میں آزاد ھو تو اسی وقت اس کو یہ کھنا درست ھے کہ اس کام کو انجام دے اور اس کام سے پرھیز کرے، لیکن اگر انسان مجبور ھو اور اپنے کاموں کو انتخاب کرنے کا اختیار نہ ھو تو اس کے یہ کھنے کا کوئی مطلب نھیں ھے کہ اس کام کو کرے یا اس کام کو انجام نہ دے۔
یہ آزادی اور اختیار جس کو سبھی سمجھتے ھیں یہ ایک ”تکوینی امر“ ھے اور ”نظریہ جبر“ کے مقابلہ میں ھے،اور یہ اختیار اور آزادی خدا داد نعمت ھے جو انسان کی خصوصیات میں سے ھے اور اسی کی بنا پرانسان دوسری موجودات پر فضیلت اور برتری رکھتا ھے وہ تمام موجودات جن کا ھم علم رکھتے ھیں ان میں صرف انسان ھی ایک ایسی مخلوق ھے جو مختلف نظریات بلکہ بعض اوقات متضاد (ایک دوسرے سے ٹکرانے والی) نظریات میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے، اور وہ اپنے خواھشات کا جواب دینے میں مکمل طریقہ سے صاحب اختیار اور آزاد ھے چاھے وہ خواھشات ”حیوانی خواھشات“ ھوں یا وہ خواھشات ”الٰھی اور معنوی“ خواھشات ھوں بے شک خداوندعالم نے اس انسان کو اپنی اس نعمت سے نوازا ھے تاکہ وہ اپنے اختیار اور انتخاب سے راہ حق یا راہ باطل کا انتخاب کرے، اور انسان کا یھی وہ امتیاز ھے جو دوسری تمام مخلوقات یھاں تک کہ فرشتوں پر رکھتا ھے یھی قدرت انتخاب ھے اگر اس نے اس قدرت کا صحیح استعمال کیا اور الٰھی احکام کا انتخاب کیا اور حیوانی خواھشات کو ترک کیا تووہ کمال کے اس درجہ پر پھنچ جائے گا کہ اس کے سامنے فرشتے خضوع وخشوع کرتے ھوئے نظر آئیں۔
البتہ انسان کے پاس یہ آزادی کا ھونا ایک تکوینی مسئلہ ھے اور آج تقریباً کوئی ایسا نھیں ھے جو اس پر اعتقاد نہ رکھے اور اپنے کو سو فی صد مجبور سمجھے، اور اپنے لئے ذرا بھی آزادی نہ سمجھے ، قرآن مجید نے اس مسئلہ کے واضح ھونے پر زور دیا ھے:
( وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُر )(1)
”(اے رسول )تم کھہ دو کہ سچی آیات (کلمہ توحید )تمھارے پروردگار کی طرف سے (نازل ھو چکی)ھے بس جو چاھے مانے اور جو چاھے نہ مانے “
( إِنَّا ھدَیْنَاہ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُورًا )(2(
”اور اس کو راستہ بھی دکھادیا(اب وه)خواہ شکر گزار ھو یا نا شکرا “
سیکڑوں آیات بلکہ پورا قرآن انسان کے مختار ھونے پر تاکید کرتا ھے، کیونکہ قرآن مجید انسان کی ھدایت کے لئے ھے اور اگر انسان مجبور ھوتا اور اس کی ھدایت جبر کے تحت ھوتی اسی طرح اس کی گمراھی بھی جبر کے تحت ھوتی توپھر انسان کے لئے ھدایت کو اختیار کرنے کا کوئی مقصد نھیں تھا اور اس صورت میں قرآن کریم بے فائدہ اور بے اثر ھوجاتا۔
اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ ھماری گفتگو تکوینی آزادی کے بارے میں نھیں ھے کیونکہ اس میں کسی کو بھی کوئی شک وشبھہ نھیں ھے ا ور اس کی بحث کامقام فلسفہ اور علم کلام ھے ، حقوق اور سیاست میں یہ بحث نھیں کی جاتی۔
3۔ معنوی اور اندورنی اقدار کا آزادی سے کوئی ٹکراؤ نھیں
قارئین کرام ! یھاں پر ایک ضروری گفتگو یہ ھے کہ ھر انسان کے پاس ایک اندرونی طاقت ھوتی ھے جو انسان کے اعمال اور کردار کے لئے دائرہ معین کرتی ھے، اور ایک اصطلاح کے مطابق انسان ایک ارزشی اور اقداری مشین رکھتا ھے جس کی بنا پر ھر انسان یہ طے کرسکتا ھے کہ اس کواخلاقی طور پر کون سے کام انجام دینا چاھئے اور کن چیزوں کو ترک کرنا چاھئے،جن کے طے کرنے کے بعد مخصوص کاموں کو انجام دیتا ھے اور کچھ چیزوں کو ترک کرتا ھے ھمیں کسی ایسے معاشرہ کا علم نھیں ھے جس میں”باید ھا اور نباید ھا“ (کرنا چاھئے اور نہ کرنا چاھئے) نہ ھوں ، اور اچھے کاموں کو بُرا اور برے کاموں کو اچھا سمجھتا ھو۔
چنانچہ انسانی اسی اچھے اور برے کاموں کو سمجھنے والی اندرونی طاقت کو ”عقل عملی“ یا”وجدان“ کھا جاتا ھے جو انسان کو عقلی اور اخلاقی رفتار وگفتار کی ھدایت کرتی ھے، اور یھی وہ طاقت ھے جو ھمیشہ سے تمام انسانوں کے پاس رھی ھے، جس کی بنا پر انسانیت کے لئے ایک راھنما کا کام کرتی ھے ھر انسان کی ”عقل عملی“ یا”وجدان“ اس بات کو سمجھتی ھے کہ عدل، امانت داری اور سچائی نیک کام ھیں، لھٰذا ان پر عمل کرنا چاھئے اسی طرح ھر انسان کی ”عقل عملی“ یا”وجدان“ ظلم اور ستم کو بُرا سمجھتی ھے اور ظلم نہ کرنے کا حکم دیتی ھے، خصوصاً جبکہ اگر کسی ایسے شخص پر ظلم و ستم کرے جو اپنے دفاع پر بھی قادرنہ ھو اسی طرح انسانی عقل جھوٹ اور خیانت کو بُرے کاموں میں سے شمار کرتی ھے اور اس سے دوری کرنے کا حکم دیتی ھے۔
لھٰذا معلوم ھوا کہ انسان کے پاس ایک اندرونی اور باطنی ایسی طاقت ھے جو انسان کے لئے ھر حال میں اقداری مشین کا کام کرتی ھے جس کی بنا پر اچھے اور برے کاموں کی شناخت ھوجاتی ھے، اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ تمام ھی انسان عدالت اور صداقت کو نیک کام شمار کرتے ھیں اور کوئی بھی انسان صداقت کو بُرا نھیں سمجھتا اسی طرح تمام ھی انسان اس بات پر عقیدہ رکھتے ھیں کہ ظلم اور جھوٹ برے کام ھیں اور آپ کو کوئی بھی ایسا شخص نھیں مل سکتا جو ان کو اچھا سمجھتا ھو بےشک انسانی اقدار کو معین کرنے والی یہ طاقت اپنے فیصلہ میں مستقل اور آزاد ھوتی ھے اور کسی باھری طاقت کی کوئی ضرورت نھیں ھوتی، اور صرف اپنے نظریہ کے مطابق حکم کرتی ھے۔
انسانی عقل و وجدان کے ذریعہ بیان شدہ باید ھا و نباید ھا (کرنا چاھئے اور نہ کرنا چاھئے) یا امر و نھی کی ماھیت اور حقیقت کی تحقیق وجائزہ (کہ امر ونھی صرف اس کی تشخیص اور درک کی وجہ سے ھوتا ھے یا انسان کے اندر کوئی طاقت ایسی ھوتی ھے جو اس کو امر ونھی کرتی ھے) اخلاقی فلسفہ سے متعلق ھے جو ھمارا موضوع گفتگو نھیں ھے لیکن ھماری عقل کا یہ طے کرنا کہ کون سے کام نیک ھیں اور کون سے کام بُرے؟ یہ ایک طرح سے ھمارے لئے لازمی احکام صادر کرتی ھے جس کی بنا پر ھماری قدرتی آزدای محدود ھوجاتی ھے، یعنی خود ھماری عقل اور وجدان ھمیں حکم دیتی ھے کہ اپنی کچھ آزادی سے فائدہ نہ اٹھاؤ: (مثلاً) ھم دوسروں پر ظلم کرسکتے ھیں لیکن ھماری عقل کھتی ھے کہ کسی پر بھی ظلم نہ کرو، بلکہ عدالت کو برقرار رکھو، اسی طرح ھم جھوٹ بول سکتے ھیں لیکن ھماری عقل یہ حکم کرتی ھے کہ جھوٹ نہ بولو بلکہ صداقت سے کام لو ھماری عقل اس بات کاحکم کرتی ھے کہ اگرچہ تم امانت میں خیانت کرسکتے ھو لیکن (کسی بھی چیز میں) خیانت نہ کرو ، لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ انسانی عقل عملی اور اس کا وجدان انسان کی خصوصیت میں اور ان اسباب میں سے ھے جو ھماری آزادی کو محدود کرتی ھے،اور اگر کسی شخص میں ایسی طاقت وقدرت موجود نہ ھو اور اپنے لئے اچھے اور برے کی پھچان نہ کرسکتا ھو تو گویا وہ عقل سے بے بھرہ ھے اور اس کو دیوانہ کھا جائے گا۔
اب جبکہ انسانی عقل اس اپنی رفتار و گفتار کو محدود بنادیتی ھے اور انسان اس کام کو اپنے عقل اور وجدان کی طرف نسبت دیتا ھے لیکن کوئی بھی اس کو آزادی کا مخالف قرار نھیں دیتا یہ کوئی کھتا ھوا نظر نھیں آتا کہ ھماری عقل نے امر ونھی کے ذریعہ سے ھماری آزدای کو محدود کردیا ھے جب حقیقت یہ ھے کہ انسان اپنی اس اندورنی طاقت کی پیروی کرتے ھوئے اپنی آزادی کو محدود کرلیتا ھے جو خود اسی کی عقل کے تحت ھوتی ھیں اور باھر سے کوئی چیز سبب بھی نھیں ھوتی کیونکہ انسانی عقل کے ذریعہ انسان کی رفتار و گفتار کا محدود ھونا بالکل اس ڈاکٹر کی طرح ھے جو ھم سے (مریض ھونے کی صورت میں)یہ کھتا ھے کہ فلاں چیز نہ کھانا کیونکہ وہ تمھارے لئے نقصان دہ ھیں، اور فلاں دوائی استعمال کرو کیونکہ تم اس سے ٹھیک ھوجاؤ گے اس صورت میں نہ صرف یہ کہ انسان ڈاکٹر کے حکم اور پرھیز بتانے سے ناراحت نھیں ھوتا بلکہ اس کو خوشی بھی ھوتی ھے اور اس کے حکم کو اپنی صحت یابی کے لئے راھنمائی اور ھدایت سمجھتا ھے در حقیقت اس صورت میں بھی ھم اپنی آزادی اور اختیار سے استفادہ کرتے ھیں اور ھماری پیدائشی آزدای پر کوئی حرف نھیں آتا اور بعض اخلاقی نظریات کی بنا پر عقل صرف ھمیں ایک راستہ دکھاتی ھے اور ھماری اس راستہ کی طرف راھنمائی کرتی ھے، جس کے بھترین فوائد ظاھر ھوتے ھیں نہ کہ اس میں ڈکٹیٹری "Dictaory" نھیں دکھائی دیتی، (بلکہ دوستانہ اور دلسوزی کی بناپر ھوتی ھیں۔)
یھاں تک کہ اگر ھم اپنی عقل کے حکم کو ڈکٹیٹری کا نام بھی دیدیںجس کی بنا پر وہ حکم کرتی ھے، جیسا کہ کھا بھی جاتا ھے کہ اگر کسی شخص نے اپنی عقل و وجدان کی مخالفت کی تو اس عقل ھی اس کو مورد مذمت اور عذاب قرار دیتی ھے ، اور عقل و وجدان کا عذاب ھماری ادبی کتابوں میں مشھور معروف ھے، لیکن ان تمام باتوں کے پیش نظر عقل و وجدان کا حکم آزادی کے مخالف نھیں ھے اور اس کی آزادی ختم نھیں ھوتی، اور جو شخص اپنی عقل اور وجدان کے مطابق عمل کرتا ھے اس کے بارے میںیہ نھیں کھا جاتا ھے کہ یہ مقید ھو گیا ھے اس کی وجہ یہ ھے کہ عقل اور وجدان خود انسان سے متعلق ھے اور یہ اندارونی طاقت کے عنوان سے ھمارے کاموں میں نظارت اور قضاوت کرتی ھے جس کے نتیجہ میں بعض چیزوں کا حکم دیتی ھے اور بعض چیزوں کے انجام دینے سے روکتی ھے پس جس وقت ھماری اندورنی طاقت ھمیں حکم دے تو ھماری آزادی سلب نھیں ھوتی، اور اگر ھم اپنی اس عقل کے فرمان کے مطابق اپنی مرضی سے عمل کریں تو گویا ھم نے اپنی مرضی کے مطابق عمل کیا؛ ھماری آزادی اس وقت سلب ھوتی ھے جب کوئی بیرونی طاقت ھمیں کسی کام کی انجام دھی پر مجبور کرے یا کسی کام سے روکے۔
4۔ آزادی اور دینی وظائف کی نسبت
قارئین کرام ! یھاں پر یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ دین (اسلام) کے احکام اور شرعی اوامر ونواھی جو خداوندعالم کی طرف سے ھوتے ھیں کیا انسان کی آزادی کو سلب کرتے ھیں؟ مثلاً اگر کوئی شخص صبح اٹہ کر نماز صبح نہ پڑھنا چاھے، لیکن خداوندعالم کا حکم ھے کہ صبح اٹہ کر نماز صبح پڑھو؛ اسی طرح دوسرے احکام جن کے بجالانے کو شریعت مقدس نے انسان کے لئے لازم اور ضروری قرار دیاھے مثلاً روزہ کا حکم، زکوٰة و خمس اور دوسرے واجبات کا حکم، یا وہ چیزیں جو حرام ھیں ان کو ترک کرنے کا حکم جیسے (الکحل) والی مشروبات کے پینے سے روکنا (وغیرہ وغیرھ)۔
جواب: یہ احکام اور امر و نھی جب تک نفوذ ھونے کے بارے میں پشت پناھی نہ رکھتی ھوں تو گویا یہ بھی عقل اور وجدان کے حکم کی طرح ھیں اور ان کے ذریعہ سے انسان کی آزادی سلب نھیں ھوتی یعنی جس وقت خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے کہ : نماز پڑھو، اگر ھم نے نماز نہ پڑھی ، تو ھم سے کوئی مطلب نہ ھو اور ھمیں عذاب اور سزا میں مبتلا نہ کرے،اسی طرح معاشرہ بھی خداوندعالم کے احکام پر عمل نہ کرنے کی نتیجہ میں ھم سے خفا نہ ھو اور ھمیں ذلیل وحقیر نہ سمجھے تو اس صورت میں اگر شرعی امر ونھی صرف نصیحتی پھلو رکھتے ھوں تو ھماری آزادی سلب نھیں ھوتی کیونکہ ان نصیحت کوباھر سے جاری کرنے والا کوئی ضامن نھیں ھے، اور کوئی بیرونی طاقت ھم پر کوئی دباؤ نھیں ڈالتی جس کی بنا پر ھم بعض کاموں کو انجام دیں اور بعض سے پرھیز کریں؛ اس صورت میں شرعی امر ونھی عقل اور وجدان کے حکم کے ھم پلہ قرار پاتے ھیں جس کی وجہ سے آزادی سلب نھیں ھوتی مسامحہ آمیز (ذو معنی) تعبیر کے مطابق، جس طرح ھم ایک ایسی متصل عقل رکھتے ھیں جو ھمیں ”باید ھا اور نباید ھا“ (کرنا چاھئے اور نہ کرنا چاھئے) کے بارے میں نصیحت اور امر و نھی کرتی ھے لیکن عملی طور پر اس کے احکام پر عمل کرنا لازمی اور ضروری نھیں ھوتا ، اسی طرح ھمارے پاس عقل منفصل (جدا) بھی ھے جو ھمارے وجود سے باھر ھے اور امر و نھی کرتی ھے، یعنی خداوندعالم ”عقل کلّی“ کے عنوان سے ھمارے لئے امر و نھی کرتا ھے اور وہ صرف نصیحت کی حد تک ھوتی ھے اور ارشادی(ونصیحتی) پھلو رکھتے ھیں۔
لیکن حقیقت یہ ھے کہ شرعی امر و نھی عملی طور پر لازمی اور ضروری ھوتے ھیں اور ان میں صرف نصیحتی پھلو نھیں ھوتا بلکہ جس وقت خداوندعالم ھمیں حکم دیتا ھے کہ نماز پڑھو تو اگر ھم نماز نہ پڑھیں تو ھمیں جھنم میں ڈال کر عذاب میں مبتلا کرے گا یھاں تک کہ بعض برے کاموں پر اسی دنیا میں سزا اور تازیانے کی حدّ معین فرمائی ھے ، اور اس سے بھی بالاتر گذشتہ امتوں کے لئے آسمانی عذاب نازل کیا ھے اور جب بھی کوئی پیغمبر مبعوث برسالت ھوتا تھا تو عوام الناس کو خدا کے عذاب سے ڈراتا تھا، اور یہ کھتا تھا کہ اگر تم نے خداوندعالم کے احکام کی اطاعت نہ کی توتم پر اسی دنیا میں بھی عذاب نازل ھوسکتا ھے قرآن مجید میں مکرر مسلمانوں کو اس بات سے ڈریا گیا ھے اور ان کو یاد دھانی کرائی گئی ھے کہ گذشتہ امتوں کے حالات پر نظر کرو کہ خدا کے احکام کی نافرمانی اور گناہ کے نتیجہ میں خداوندعالم نے ان پر عذاب نازل کیا لھٰذا تمھیں بھی دنیاوی یا اُخروی عذاب سے ڈرنا چاھئے انبیاء کرام (ع) عذاب الٰھی سے اس قدر ڈراتے تھے جس کی بنا پر تمام انبیا (ع) کا نام نذیر اور منذر (ڈرانے والا) معروف ھوگیا؛ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:
(إِنَّا اٴَرْسَلْنَاکَ بِالْحَقِّ بَشِیرًا وَنَذِیراً وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلاَ فِیْھاَ نَذِیْرٌ) (3)
”ھم ھی نے تم کو یقینا قرآن کے ساتھ خشخبری دینے والا و ڈرانے والا (پیغمبر)بنا کر بھیجا اور کوئی امت (دنیا میں)ایسی نھیں گزری کہ اس کے پاس (ھمارا ) ڈرانے والا (پیغمبر )نہ آیا ھو “
لھٰذا وہ شرعی امر و نھی جن پر ھمیشہ دنیاوی یا اُخروی عذاب سے ڈرایا گیا ھے؛اخلاقی اور عقلی امر ونھی جن پر ھماری عقل اور وجدان کے حکم سے فرق پایا جاتا ھے اور اس سے انسانی آزادی محدود ھوجاتی اور انسان پر دباؤ ڈالتی ھے۔
اور اگر ھم نے اس بات کومان لیا کہ تمام انسان مکمل طور پر آزاد ھیں ، اور ”حقوق بشر کے اعلانیھ“ کے مطابق (جو بعض روشن فکر کے نزدیک وحی اور کتاب مقدس کا حکم رکھتا ھے) کسی کو بھی یہ حق نھیں ھے کہ کسی انسان کی آزادی کو محدود کرے، تو کیا خداوندعالم کو بھی انسانوں کی آزادی کو محدود کرنے کا حق نھیں ھے ؟! اور ان کو عذاب اور سزا سے ڈرا کر تحت تاثیر قرار دے، اورزیادہ سے زیادہ خدا بھی عقل اور وجدان کی طرح انسان کو اپنے وظائف اور واجبات کو انجام دینے کے سلسلہ میں ارشاد اور نصیحت نھیں کرسکتا، مثال کے طور پر ھمیں نماز پڑھنے کا حکم دے تو اگر ھم نماز نہ پڑھیں تو ھم نے گویا اپنی آزادی سے استفادہ کیا ھے! اور اگر ایسا ھے تو پھر خداوندعالم نے ھمیں کس لئے ڈرایا ھے اور کھتا ھے : اگر گناہ کرو گے تو تم کو آخرت میں جھنم میں ڈال دو ں گا ، اور مسلسل ھمیں اپنے عذاب سے ڈراتا رھتا ھے، چنانچہ اس نے اپنے انبیاء (ع) کے وظائف میں سے ایک وظیفہ عوام الناس کو عذاب الٰھی سے ڈرانا قرار دیا ھے؟
بےشک مسلمانوں کو اس بات میں کوئی شک نھیں ھے کہ خداوندعالم فرمان اور احکام صادر کرسکتا ھے اور ان کے جاری کرنے کا ضامن بھی ھے اسی طرح انبیاء علیھم السلام کا وظیفہ امر ونھی کا پھنچانا اور عذاب الٰھی سے ڈرانا ھے، (کبھی کوئی مسلمان ان چیزوںمیں شک نھیں کرتا) بلکہ وہ ان تمام چیزوں کو دل وجان سے قبول کرتا ھے تمام مسلمان خدا اور رسول کے احکام کے سامنے سر جھکاتے ھوئے نظر آتے ھیں، اگرچہ یہ بھی جانتے ھیں کہ یہ احکام ان کو محدود کرتے ھیں اور ان کی بعض آزادی کوسلب کرتے ھیںاور ایک طریقہ سے ان کو تحت تاثیر قرار دیتے ھیں کیونکہ جب خداوندعالم ھمیں کسی کام کو انجام دینے کا حکم دیتا ھے تو اگر ھم نے اس کام کو انجام نہ دیا تو پھر ھمارے لئے عذاب کا وعدہ کیا گیا (اور خدا کا وعدہ سچا ھے) تو ھم اس سے متاثر ھوتے ھیں پس معلوم یہ ھوا کہ خدا وندعالم ھم کو بعض کاموں کے انجام دینے اور بعض کاموں سے پرھیز کرنے کا پابند کرسکتا ھے اس میں کوئی شک (بھی) نھیں ھے؛ لیکن خداوندعالم کی طرف سے امر و نھی آنے کی حکمت اور فلسفہ کیا ھے اور کیوں خداوندعالم ھم کو شرعی واجبات ومحرمات کا پابند کیوں بناتا ھے تو اس سلسلہ میں علم کلام میں بحث ھوگی، لیکن خلاصہ کے طور پر عرض کرتے ھیں کہ:
خداوندعالم اپنے تمام تر لطف ومھربانی اور فضل وکرم کی بنا پر انسان کوسعادت مند بنانا چاھتا ھے اسی وجہ سے سعادت مندی کے راستہ کی پھچان بتادی ھے جس کی بنا پر ھمارے لئے احکام اور فرمان معین فرمادئے ھیں تاکہ ھم اپنے ان وظائف پر عمل کرتے ھوئے سعادت مندی کے راستہ پر گامزن رھیںاور جس کے زیر سایہ واقعی سعادت کے راستہ کو پھچان لیں ظاھر سی بات ھے کہ خداوندعالم کے ڈرانے اور دھمکانے سے ھم ھوشیار ھوجاتے ھیں جس سے سعادت کے راستہ سے منحرف نھیں ھوتے، اور اگر یہ احکام ھمارے لئے ضروری اور لازمی نہ ھوتے تو پھر ھم اپنے وظائف کو اچھے طریقے سے انجام نہ دیتے اور اپنے غلط کردار اور گناھوں کی وجہ سے راہ سعادت سے بھٹک جاتے لھٰذا خداوندعالم نے اپنے لطف وکرم کی بنا پر شرعی وظائف پر عمل کرنے کی وجہ سے ھم کو برائیوں اور برے کاموں سے روکا ھے جس کے نتیجہ میں خدا کی رحمت واسعہ ھمارے شامل حال ھوجائے۔
اس بنا پر حقیقت یہ ھے کہ دین انسان کو محدود کرتا ھے اور اس کی بعض آزادی سلب ھوجاتی ھیں انبیاء علیھم السلام عوام الناس کو ڈرانے کا وظیفہ رکھتے تھے اور دینی احکام کی مخالفت اور عذاب الٰھی سے ڈراتے تھے بے شک اس سلسلہ میں ظاھری اور روحانی دونوں طرح کا دباوٴ ھوتا ھے ظاھری دباؤ اس شخص پر ھوتا ھے جس پر بعض گناھوں کے ارتکاب کی وجہ سے حدّ جاری ھوتی ھے اور روحانی دباؤ ان لوگوں پر ھوتا ھے جو کسی پر حدّ جاری ھوتے ھوئے دیکھتے ھیںجس کے نتیجہ میں وہ اس سزا سے ڈرتے ھیں، اور ان لوگوں پر بھی جو ھمیشہ آخرت کے عذاب سے ڈرتے رھتے ھیں۔
ھم اس وقت جو مطلق آزادی کے طرفدار ھیں لوگوں سے یہ سوال کرنا چاھتے ھیں کہ کیا تم اس ظاھری اور روحانی دباؤ کو محکوم کرتے ھو؟ یعنی کیا تم یہ کھتے ھو کہ خداوندعالم کو اس طرح کی محدودیت اور مشکل میں قرار نھیں دینا چاھئے؟ اور اس کو دنیاوی اوراخروی عذاب سے ڈرانے کے لئے پیغمبر نھیں بھیجنا چاھئے؟ تو کیا ان چیزوں کا محکوم کرنا اسلام اور تمام آسمانی ادیان کے انکار کے برابر نھیں ھے؟ (لیکن کیا کسی کو دین کے انکار کرنے کا حق ھے یا نھیں یہ ایک الگ بحث ھے اس وقت ھم انبیاء علیھم السلام کی اتباع کی حقانیت کو ثابت نھیں کررھے ھیں(
جو شخص کھتا ھے کہ انسان مکمل طور پر آزاد ھے اور اس پر کسی طرح کی محدودیت اور دباؤ نھیں ھونا چاھئے، تو کیا وہ محدودیت بھی جو خداوندعالم کی طرف سے اپنے بندوں پر ایجاد ھوتی ھے مثلاً گناہ کرنے پر جھنم میں جانا ھوگا یا بعض گناھوں کی اسی دنیا میں سزا ملے گی تو کیا ایسا شخص اس بات کو محکوم کرتا ھے؟(اور اگر ایسا ھے ) تو گویا اس نے دین اور بعثت انبیاء (ع) اور الٰھی شریعتوں کا انکار کیا ھے اور اس وقت ھماری بحث ان سے نھیں ھے ھماری بحث تو ان لوگوں سے ھے جو دین کو قبول رکھتے ھیں اور دین اسلام کو حق جانتے ھیں اور یہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ خداوندعالم نے اپنی حکمت اور لطف وکرم کی بنا پر ھدایت کے لئے انبیاء علیھم السلام کو بھیجا ھے اور اسی وجہ سے اس کا شکر ادا کرتے ھیں۔
5۔ حدود اور سزاؤں میں آزادی کی نسبت
اب جبکہ ھم نے یہ قبول کرلیا ھے کہ نہ صرف خداوندعالم کو یہ حق ھے بلکہ اس کے لطف و کرم اور فضل کی بنا پر ھمیں جھنم سے ڈرائے تاکہ ھم صحیح راستہ پر چلیں اور برے راستے سے پرھیز کریں، یھاں پر یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ خداوندعالم نے بعض گناھوں پر حدّ کس لئے اور کیوں قرار دی ھے اور حدود وتعزیرات کو اصلاً کس لئے رکھا ھے؟ خداوندعالم ھمیں عذاب آخرت سے ڈرناصحیح ھے کیونکہ عذاب سے ڈرانا ھمارے فائدہ میں ھے جوھمارے لئے جھنم کے عذاب سے ڈرتے ھوئے سعادت اور نیک بختی کے راستے کو اپنانے کا سبب بنتا ھے بلکہ ایک معنی کے لحاظ سے یہ ڈرانا ایک قسم کا ارشاد اور ھدایت ھے اور خداوندعالم ھمیں یہ بتانا چاھتا ھے کہ دیکھو تمھارے برے کاموں کا نتیجہ آخرت میں جھنم ھے، اور عذاب بھی وہ جو حقیقی ھے اور باھمی مفاھمت (ریزولیشن "Resolution") نھیں ھے بلکہ تمھارے دنیاوی برے اعمال کا مجسمہ ھے لیکن خدا نے کیوں فرمایا کہ اگر کوئی عظیم گناہ جیسے زنا کا مرتکب ھوا تو اس کو لوگوں کے سامنے کوڑے لگائیں جائیں تاکہ اس کی عزت وآبرو ختم ھوجائے؟
ارشاد ھوتا ھے:
(الزَّانِیَةُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْھمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلاَتَاٴْخُذْکُمْ بِھمَا رَاٴْفَةٌ فِی دِینِ اللهِ إِنْ کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلْیَشْھدْ عَذَابَھمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ( (4)
” زنا کار عورت او رزنا کار مرد دونوں کو سو سو کوڑے لگائیں اور خبردار ! دین خدا کے معاملہ میں کسی مروت کا شکار نہ ھوجانا اگر تمھارا ایمان اللہ اور روز آخرت پر ھے اور اس سزا کے وقت مومنین کی ایک جماعت کو حاضر رھنا چاھئے۔“
یہ سوال صرف دین سے متعلق نھیں ھے بلکہ سزائی قوانین اور ھر ملک کے قوانین سے متعلق ھے دنیا بھر کی تمام حکومتوں میں حقوقی اور سزائی قوانین ھوتے ھیں حقوقی قوانین ان لوگوں کے بارے میں ھوتے ھیں جو دوسرے کے مال اور حقوق پر تجاوز اور دست درازی کرتا ھے مثلاً کسی کامال کھاجاتاھے یا کسی کے بدن کو زخمی کردیتا ھے یا کسی کو قتل کردیتا ھے تو اس صورت میں اگر کوئی مخصوص شکایت کرنے والا موجود ھے تو وہ مجرم کی شکایت کرتا ھے جس کے نتیجہ میں مجرم کو سزا ھوتی ھے یا جرمانہ دینا ھوتا ھے اور اگر کسی کے حق کو غصب کیا تھا تو اس کو واپس کرے اور اگر کسی ظلم اور جنایت کا مرتکب ھوا تو اس سے قصاص (بدلہ) لیا جاتا ھے یا اسی طرح کی دوسری سزائیں معین کی جاتی ھیں لیکن تمام سزائی قوانین میں مجرم کو سزا دینے کے لئے کسی خاص شکایت کرنے والے کی ضرورت نھیں ھوتی بلکہ خود د عدالت اور مدعی العموم قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے اور ملکی مصالح کو پامال کرنے والے کے خلاف مقدمہ دائر کرسکتا ھے اور اگر ملزم کا جرم اثبات ھوجائے تو اس کو سزا ملتی ھے۔
جھاں تک ھم جانتے ھیں دنیا بھر میں کوئی بھی ملک ایسا نھیں ھے جس میں حقوقی اور سزائی قوانین موجود نہ ھوں اور مجرموں کو سزا اور جریمہ نہ ھوتا ھو خلاصہ یہ ھے کہ یا مجرم کو جریمہ دینا پڑتا ھے یا اس ک جیل بھیج دیا جاتا ھے یا اس کے لئے دوسری سزائیں معین کی جاتی ھیں؛ چنانچہ اسلام بھی اس قاعدہ سے مستثنی نھیں ھے اور اسلام کے بھی حقوقی اور سزائی قوانین ھیں یھاں تک کہ بعض موارد میں تو سخت سے سخت سزائیں ھیں لھٰذا یہ سوال یہ ھے کہ تمام ھی حکومتوں کو مجرموں سزا دلانے کا حق ھے تو کیا یہ چیز انسان کی آزادی کے مخالف نھیں ھے تویہ بات مسلم ھے کہ تمام ھی لوگ حکومت کو حقوقی اور سزائی قوانین بنا نے کا حق دیتے ھیں اورمجرمین کے لئے خاص سزائی قوانین مترتب کرکے نافذ کرانا چاھتے ھیں اس بات کی دلیل یہ ھے کہ ھمیں کسی ایسے ملک کے بارے میں اطلاع نھیں ھے جس میں مجرموں کے لئے حقوقی سزائی قوانین نہ ھوں یا ان کے لئے جرمانہ یا قید یا دوسری سزائیں نہ ھوں اور کسی کو بھی کوئی اعتراض نھیں ھے البتہ بحث وگفتگو میں یہ بحث کی جاسکتی ھے اور یہ اشکال ھوسکتا ھے کہ کیا کسی کو یہ حق حاصل ھے کہ اس دنیا میں کسی شخص کو سزا دی جاسکتی ھے اور اس کی آزادی کو محدود کرنا یا اس کی آزادی کو سلب کرنے کا اختیار کسی کو ھے یا نھیں؟
6۔ حکومت اور قوانین کے زیر سایہ مطلق طور پر آزادی نھیں ھوسکتی
جو لوگ کھتے ھیں کہ کسی بھی حکومت کو عوام الناس کی آزادی کو محدود کرنے اور ان کے لئے سزا معین کرنے کا کوئی حق نھیں ھے، (کیونکہ اس صورت میں عوام الناس سزا وغیرہ کے ڈر سے کسی خلاف ورزی کو انجام نھیں دیتے ؛ لیکن اگر سزا وغیرہ نہ ھوتی تو پھر انسان اپنی مرضی سے جو بھی چاھتا انجام دیتا چاھے وہ کام اچھا ھوتا یا بُرا،) تو اگر ایسا شخص دنیا بھر کی حکومتوں پر اعتراض کررھا ھے تو اس کا ایک دوسرے طریقہ سے جواب دیا جائے اور اگرصرف اسلام پر اعتراض کرتا ھے تو پھر اس کا جواب ایک دوسرا ھوگا لیکن چونکہ اس کا اعتراض دنیا بھر کی عام حکومتوں پر ھے اور تمام حکومتی نظام منجملہ اسلامی حکومت پر بھی اعتراض کرتا ھے کہ کیوں مجرموں کے لئے سزائیں اور محدودیت قرار دی ھیں ان پر دباؤ ڈالا گیا ھے؟تو اس صورت میں ھمارا جواب بھی ایسا ھوگا جو سب کو شامل ھوجس میں تمام حکومتوں اور اسلامی حکومت کے حقوقی اور سزائی قوانین کے بارے میں جواب دیا جائے۔
جواب:
مذکورہ اعتراض ”مطلق آزادی“ کی بنیاد پر ھے اور ان کا یہ خود ساختہ نظریہ ھے جس کی بنا پر ان کا تصور یہ ھے کہ انسان اس دنیا میں مکمل طور پر آزاد ھونا چاھئے اور کسی بھی طرح اس پر کوئی دباؤ نھیں ھونا چاھئے، اور کوئی بھی شخص اس کو کسی کام کے کرنے پر مجبور نھیں کرسکتا اور نہ ھی کسی کام سے روک سکتا ھے۔
بے شک یہ اصل اور بنیاد غیر منطقی اور ھر صاحب عقل وشعور کے نزدیک باطل اور غلط ھے کوئی بھی انسان مطلق اور بغیر کسی حد وقید کی آزادی نھیں رکھتا کہ جو کچھ بھی کرنا چاھے کوئی بھی قانون اس کو نہ روکے (یھاں پر قوانین سے مراد اخلاقی قوانین اور مستقلات عقلیہ نھیں ھیں جن کی اجرائی ضمانت نھیں ھے بلکہ ھماری مراد عام معنی میں قوانین حقوقی مراد ھیں جن کو نافذ کرنے کی حکومت ذمہ دار ھوتی ھے ) لھٰذا قوانین اور مقررات ھونا چاھئے اور عوام الناس کو ان پر عمل کرنے کے لئے آمادہ کیا جائے تاکہ عوام الناس کے حقوق کو ادا کریں ٹریفک قوانین ھونا چاھئے اور جو لوگ کبھی کبھی بھت سے لوگوں کی جان جانے کے باعث بنتے ھیں ان کے لئے سزائیں اور جرمانہ ھونا چاھئے۔
اس کے علاوہ کہ ھمیشہ سے پوری تاریخ میں اور ھر جگہ پر عوام الناس موجودہ قوانین کو قبول کرتے آئے ھیںجس کی بنا پر کسی کو بھی مطلق آزادی کا حق نھیں ھے اور نا ھی کسی دوسرے پر کسی طرح کا کوئی دباؤ ڈالنے اور اس کی آزادی کا ایک حصہ ختم کرنے کا حق ھے؛ اور عملی طور پر کوئی شخص بھی ایسا عقیدہ نھیں رکھتا ، کیونکہ مطلق آزادی کا مطلب مدنیت کا انکار کرنا اور وحشیانہ جنگل راج کو قبول کرناھے اگر انسان ایک اجتماع پسند موجود ھے تو اس کے لئے اجتماعی نظام کی ضرورت ھے اور عوام الناس کو ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کرنا چاھئے اور اس سلسلہ میں قوانین ھونا ضروری ھیں نیز مجرموں کے لئے سزائی قوانین مد نظر رکھے جائیں، اور حکومت بھی ان کو نافذ کرنے کی ضامن ھو واقعاً مطلق آزادی ( اور یہ کہ کسی شخص کوکسی دوسرے کو کسی کام پر مجبور کرنے یا کسی کام سے روکنے کا کوئی حق نھیں ھے) کا نعرہ لگانے کا مطلب یہ ھے کہ پھر حکومت کی کوئی ضرورت نھیں ھے بلکہ انسان جو کچھ بھی کرنا چاھے کرسکے؛ کیونکہ حکومت بھی عوام الناس کی رائے سے بنتی ھے اور قوانین کا نافذ کرنا اس کی ذمہ داری ھوتی ھے لھٰذا اس طرح کا نظریہ قانون مداری، جامعہ مدنی، تمدن اور قوانین کی اتباع کی ضرورت سے ھم آھنگ نھیں ھے کیونکہ انسانی معاشرہ اور تمدن بشریت کی بنیاد یہ ھے کہ اس میں قوانین اور ان کو نافذ کرنے والی قدرت کا ھونا ضروری ھے، اور ظاھر سی بات ھے کہ حکومت قوانین کو نافذ کرنے کے لئے ان پر دباؤ ڈالے گی۔
حکومت کی ذمہ داری یہ ھے کہ ضرورت کے وقت مجرموں کو قوانین پر عمل کرنے پر مجبور کرنے کے لئے اپنی طاقت کا استعمال کرے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دے، اور اگر صرف کھنے اور نصیحت کرنے پر کفایت کرے تو پھر وہ معلم اور مربیّ ھوگی حکومت نھیں ھوگی علماء اور واعظین کا وظیفہ عوام الناس کو اجتماعی اخلاق اور انسانی آداب کی رعایت کرنے کے لئے وعظ و نصیحت کرنا ھے، لیکن وہ ان وعظ ونصیحت کو نافذ کرنے کے لئے قدرت کا استعمال نھیں کرسکتے، اور قدرت کے زور پر لوگوں کو انسانی اخلاق کی رعایت پر مجبور کرنا بھی ان کی ذمہ داری نھیں ھے لیکن حکومت کی ذمہ داری ھے کہ وہ اگر ضرورت پڑے تو اپنے قدرت کے زور پر قوانین پر عمل کرائے اور اگر کوئی خلاف ورزی کرے تو اس کو سزائے اعمال تک پھونچائے اور یا اس پر جرمانہ کرے یا اگر کوئی خلاف ورزی کر کے بھاگ نکلناچاھے تو اس کا تعقب کرے اور اس کو پکڑکر اس پرحدود اور سزا جاری کرے اس بنا پر حکومت اور قوہ مجریہ کا وجود خود اس بات پر دلیل ھے کہ انسان مکمل اور مطلق طور پر آزاد نھیں ھے اور مطلق آزادی کا نظریہ باطل اور مردود ھے نیز انسانی تمدن اور اجتماعی زندگی کے ساتھ ھم آھنگ نھیں ھے اس میں کوئی فرق نھیں ھے کہ چاھے حکومت شھری قوانین جو خود شھریوںکی خواھش کے مطابق مرتب ھوتے ھیں یا اسلامی حکومت الٰھی قوانین جاری کرے۔
7۔ حاکمیت کا خدا سے متصل ھونا
قارئین کرام ! گذشتوں بحثوں میں ھم نے اس بات کو ثابت کیا کہ قوانین کو نافذ اور جاری کرنے والا یا خود خداوندعالم کی طرف سے منصوب ھو یا خدا کی طرف سے اذن یافتہ ھو، کیونکہ قوانین کو جاری کرنے سے عوام الناس پر دباؤ ڈالا جاتا ھے اور ان کی آزادی کو محدود کیا جاتا ھے اور عوام الناس خداوندعالم کے مملوک اور بندے ھیں لھٰذا صرف خدا ھی ان میں تصرف کرسکتا ھے، اور ”ربوبیت تشریعی“ اور حاکمیت الٰھی کی بنا پر کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ وہ خدا کی اجازت او رمرضی کے بغیر اس کے بندوںپر فشار ڈالے اور ان میں تصرف کرے لھٰذا حکومت کو خدا کے بندوں میں تصرف کرنے یا ان پر دباؤ ڈالنے کے لئے ان مالک (خداوندعالم) سے اجازت لےنا چاھئے لیکن جو لوگ عوامی ڈیموکریٹک کے قائل ھیں اور معاشرہ کو ادارہ کرنے کے لئے قوانین مدنی کو کافی جانتے ھیں اور حکومت کو انھیں قوانین کو جاری اور نافذ کرنے کی ضامن مانتے ھیں، چنانچہ کھتے ھیں کہ قوانین کو نافذ کرنے والے کا خدا کی طرف سے اذن یافتہ ھونا ضروری نھیں ھے؛ بلکہ عوام الناس سے ووٹ دیتے ھی وہ قوانین کو جاری کرسکتا ھے اور ضرورت کے وقت حکومت اپنی طاقت کو بروئے کار لاسکتی ھے، اور لوگوں پر دباؤ بھی ڈال سکتی ھے۔
یہ لوگ حکومت کے عوام الناس پر دباؤ ڈالنے کے سلسلہ میں کیا دلیل پیش کرتے ھیں؟ ڈیموکریٹک اصول کے تحت اس طرح جواب دیا جاتا ھے کہ عوام الناس چونکہ حکومت کو ووٹ دیتی ھے چاھے وہ ممبر آف پارلیمنٹ کے انتخاب ھوں یا خود حکومت کے صدراتی انتخاب ھوں، اور یہ ووٹ دینا ھی گویا حکومت کے قوانین اور حکومت کی طرف سے ان کو نافذ کرنے کو قبول کرنا ھے؛ چاھے حکومت ان کو جاری اور نافذ کرنے کے سلسلہ میں اپنی طاقت کا استعمال ھی کیوں نہ کرے لھٰذا حکومت کی طرف قوانین کو نافذ کرنے کے سلسلہ میں جو دباؤ دیا جاتا ھے وہ آزادی سے منافات نھیں رکھتا؛ کیونکہ اس حکومت اور نظام کو خود انھوں نے قبول کیا ھے، اور اس کے سامنے اپنا سر تسلیم کیا ھے اور یہ بالکل عقل اور وجدان کے اس حکم کی طرح ھے جو انسان کو بعض چیزوں کو انجام دینے اور بعض چیزوں سے پرھیزکرنے کا حکم دیتی ھے اور وہ آزادی سے مخالفت نھیں رکھتا، اور اس سے آزادی سلب نھیں ھوتی، کیونکہ یہ احکام خود ان کی اندرونی طاقت کی بنا پر ھوتے ھیں اور خود انھیں سے متعلق ھے اور ان پر تھونپا نھیں گیا ھے۔
البتہ ڈیموکریسی حکومتی نقشے، ان کی کار کردگی اور اختیارات نیز اپنی حقانیت اور مشروعیت کے لئے جو دلیل پیش کرتے ھیں؛ ان تمام چیزوں پر بھت سے اشکالات ھوتے ھیںجو فلسفہ سیاست اور فلسفہ حقوق سے متعلق کتابوں میں بیان کئے گئے ھیں ھم یھاں پر کچھ اعتراضات بیان کرتے ھیں جو اس وقت مناسب ھیں ان میں سے ایک یہ ھے کھ: دنیا میں کوئی بھی جگہ ایسی نھیں ھے جھاں پر قوانین کو اتفاقی طور پر قبول کیا جاتا ھے، یا متفق طور پر کسی کو وزیر اعظم یا صدر مملکت منتخب کیا جاتا ھو یھاں تک کہ خود جمھوری اسلامی (ایران) جو دنیا میں عوامی ملکوں میں بے نظیر ھے ، جس میں 2/89 فی صد لوگوں نے اس اسلامی نظام کو ووٹ دئے اور ۸/1 فی صد لوگوں نے اس نظام کو ووٹ نھیں دئے جو اس وقت کی مردم شماری کے لحاظ سے وہ تعداد تقریباً دس لاکہ سے بھی زیادہ ھے جس وقت دنیا بھر میں رائج ڈیموکریسی اور عوامی نظام میں دس لاکہ سے زیادہ افراد اس نظام کے حق میں ووٹ نہ دیں تو حکومت کو عوام الناس کو اپنے قوانین اور احکام پر عمل کرنے پر مجبور کرنے کا کیا حق ھے؟ جبکہ کچھ لوگ کھتے ھیں کہ ھم اس نظام حکومتی کو نھیں مانتے تو پھر صرف عوام الناس کے اکثریت کا ووٹ حاصل کرنے سے حقانیت اور مشروعیت حاصل کرکے کس طرح اپنے قوانین کو اپنے مخالفوں پر نافذ اور جاری کرسکتی ھے؟
ڈیموکریسی اور عوامی نظام کے طرفدار افراد اس طرح کے سوالات کا جواب دیتے ھیں اور ایسا نھیں ھے کہ اس سلسلہ میں گفتگو اور بحث نہ ھوئی ھو لیکن ان کے جوابات اطمینان بخش نھیں ھیں، اور بھت سے حل نہ ھونے والے اعتراض باقی رھتے ھیں، مثال کے طور پر کھتے ھیں کہ وہ نظام حکومتی جو اکثریت کے ووٹوں سے وجود میں آیا ھے اور اس نظام کو اقلیت نے ووٹ نھیں دیا ھے ان کے بھی کچھ حقوق ھیں اور ان کے حقوق کا لحاظ رکھا جائے اور وہ لوگ اپنے شخصی اور ذاتی احوال میں اپنی مرضی کے مطابق عمل کرسکتے ھیں۔
ھم کھتے ھیں کہ یہ کافی نھیں ھے کس دلیل کی بنا پر عام قوانین اور حکومت کے اجتماعی قوانین کو ان لوگوں پر تھونپاجاسکتا ھے؟ نیز اسے مختلف ٹیکس اور دوسرے اخراجات کس دلیل کی بنا پر لئے جاتے ھیں؟
ان میں سے بعض لوگ یہ کھتے ھوئے نظر آتے ھیں کہ آخر کار ھمیں معاشرہ کو آگے بڑھانے کے لئے کچھ تو کرنا ھی ھوگا اور ھمارے پاس معاشرہ کو چلانے کے لئے ڈیموکریسی حکومتی نظام سے بھتر کوئی نظام نھیں ھے۔
لیکن مذکورہ اعتراض کا جواب اسلامی نقطہ نظر سے یہ ھے کہ قانون گذاری کا حق خداوندعالم سے متعلق ھے یا جو افراد خداوندعالم کی طرف سے اذن یافتہ ھوں وہ خداوندعالم کے مقرر کردہ قوانین کے تحت قوانین بناسکتے ھیں اسی طرح عوام الناس پر حکومت کرنے اور ان کے لئے قوانین جاری کرنے کا حق اس شخص کو ھے جو خداوندعالم کی طرف سے منصوب ھو یا اس کی طرف سے اذن یافتہ ھو اس صورت میں وہ شخص خدا کے نمائندہ ھونے کے عنوان سے اور وہ شخص جو خداوندعالم کی طرف عوام الناس پر حکومت کرنے کے لئے مقرر کیا گیا ھے اس بات کا حق رکھتا ھے کہ قوانین کومعاشرہ میں نافذ کرے اگرچہ اس کو اپنی طاقت کا بھی استعمال کرنا پڑے اس کو حکومت کے مخالف لوگوںاور قانون توڑنے والوں کو بھی قوانین پر عمل کرنے پر مجبور کرنے کا حق ھے بےشک جو شخص خدا اور دین کا اعتقاد رکھتا ھے یہ تھیوری قابل قبول، منطقی اور عقلی اشکالات سے خالی ھے جو ڈیموکریسی حکومت پر وارد ھوتے ھیں لیکن جو شخص دین اور خدا کو نھیں مانتا اور الٰھی حکومت سے روگرانی کرتا ھے وہ کبھی بھی اس جواب کو بھی قبول نھیں کرے گا لیکن وہ عوام الناس جو مسلمان ھیں اور خداپر ایمان رکھتے ھیں،الٰھی حاکمیت ایک عظیم تمنا ھے جو ان کی منطق عقل، خواھش وجدان اور انسانی اصول سے ھم آھنگ ھے اسی وجہ سے وہ تناقص اور ٹکراؤ جو ڈیموکریسی اور عوامی نظام میں پایا جاتا ھے جس کی وجہ سے یہ (ڈیموکریسی) نظریہ باطل ھوجاتا ھے،لیکن (وہ تناقض اور ٹکراؤ) اسلامی حکومت میں نھیں پایا جاتا؛ اور اس تھیوری اور نظریہ میں مکمل طور پر معاشرہ کی وحدت اور نظم و ضبط کا خیال رکھا جاتا ھے۔
اگر ھم اسلامی نظام حکومتی کا آج کل کی دنیا میں رائج ڈیموکریسی جو صرف عوام الناس کے ووٹوں کی بنیاد پر ھوتی ھے؛مقابلہ کریں تو ھمیں معلوم ھوجائے گا کہ اسلامی نظام حکومت جو ھمارے عقیدہ کی بنا پر خداوندعالم سے نسبت رکھتا ھے اور عوام الناس کی حمایت اور ان کے رائے کا بھی لحاظ رکھا جاتا ھے؛ اس میں مزید اعتبار پایا جاتا ھے؛ کیونکہ ھم عوام الناس کے ووٹوں سے انکار نھیں کرتے اور ان کا احترام کرتے ھیںاور جمھوری اسلامی ایران کے بھت سے ادارے، سازمان وغیرہ عوام الناس کے ووٹوں سے تشکیل پاتے ھیں؛ مثال کے طور پر صدر مملکت کا انتخاب، ممبر آف پارلیمنٹ کا انتخاب، خبرگان رھبری اور شوریٰ اسلامی شھر وروستا جو تمام عوام الناس کے ووٹوں سے بنائے جاتے ھیں اسی وجہ سے ھم عرض کرتے ھیں کہ ھمارا حکومتی نظام خداکی اجازت کی وجہ سے ھوتا ھے اور عوام الناس کی حمایت بھی اس میں شامل ھوتی ھے ، لیکن عوامی اور ڈیموکریسی نظام جو صرف عوام الناس کے ووٹوں پر استحکام پیدا کرتا ھے اگر ھمارے سامنے ڈیموکریسی تھیوری کو لایا جائے تو ان سے یہ کھیں گے کہ جو کچھ تمھاری حکومتوںمیں ھے ھمارے یھاں بھی ھے اور ھم بھی عوام الناس کے ووٹوں کے معتقد ھیں اور ان کااحترام کرتے ھیں اس کے علاوہ منطقی اور عقلی لحاظ سے اسلامی حکومت کی تھیوری ڈیموکریسی تھیوری پر برتری اور فضیلت رکھتی ھے، اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ ڈیموکریسی نظام اندرونی اتحاد اور صحیح منطقی اور عقلی دلیل نھیں رکھتی،اور اس میں تناقض اور ٹکراؤ پایا جاتا ھے، لیکن ولایت فقیہ کی تھیوری عقلی اور منطقی لحاظ سے بھی مستحکم اور مضبوط ھے جس میں کسی بھی طرح کا کوئی تناقض نھیں پایا جاتا۔
خلاصہ گفتگو یہ ھے کہ بعض روشن فکر اور غلط فکر رکھنے والے کی طرف سے یہ اعتراض ھوتا ھے کہ کیوں خداوندعالم نے انبیاء علیھم السلام کو مبعوث کرکے، آسمانی کتابوں ، اور آسمانی شریعتوں کو نازل کرکے نیز فوجداری قوانین جیسے ھاتہ کاٹنا، جرمانہ کرنااور دوسری حدود وتعزیرات وغیرہ کو پیش کرکے عوام الناس کی آزادی کو سلب کرلیا ھے اور ان کوآزاد نھیں چھوڑا تاکہ جو کرنا چاھیں کرسکیں اور ان کو تحت فشار قرار دیا ھے؛ جبکہ اصل انسانیت اس بات کا تقاضا کرتی ھے کہ وہ مکمل طریقہ سے آزاد ھو ، کیونکہ آزادی انسانی کی اھم خصوصیات میں سے ھے؟
قارئین کرام ! جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ مطلق آزادی ؛ انسانی حقیقت اور اس کے اجتماعی ھونے سے ھم آھنگ نھیں ھے اگر ھم نے یہ مان لیا کہ انسان کی زندگی اجتماعی ھے تو پھر اس کی اجتماعی زندگی اس بات کی تقاضا کرتی ھے کہ عوام الناس کے نظم و ضبط کے لئے لازم الاجراء قوانین اور مقررات کا ھونا ضروری ھے اور ان کو نافذ کرنے کے لئے ایک حکومت کا ھونا ضروری ھے۔
مذکورہ دلیل دنیا بھر کی تمام حکومتوں میں مقبول ھے اور اسلام بھی اس کو قبول کرتا ھے، اور ھمیشہ سے عوام الناس اس کا اعتقاد رکھتے تھے نیز اس پر کسی طرح کا کوئی اعتراض بھی نھیں ھوتا تھا لیکن جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ حکومت کی ضرورت، قوانین اور مقررات کا جاری کرنا، اور بعض حالات میں اپنی طاقت کو بروئے کار لانے کے سلسلہ میں ڈیموکریسی اور عوامی حکومت میں بحد کافی منطقی دلیل موجود نھیں ھے اور ان کی حکومتی تھیوری اندرونی اتحاد و انسجام نھیں رکھتی اور اس میں تناقض اور ٹکراؤ پایا جاتا ھے۔
لیکن اسلامی حکومتی نظام میں دلیل جَدلی بھی موجود ھے کیونکہ ھم بھی ڈیموکریسی اصول پر عمل کرتے ھیں اور عوام الناس کے ووٹوں کواھمیت دیتے ھیں اور بھت سے حکومتی ادارے عوام الناس کے ووٹوں ھی سے چلتے ھیں، اسی طرح منطقی اور عقلی برھانی اصول پر مبنی ھوتی ھے؛ منجملہ یہ کہ اصل حاکمیت خدا کا حق ھے کیونکہ عوام الناس خدا کے بندے ھیں ، دوسروں کی حکومت اس وقت صحیح اور حق ھوسکتی ھے جب خدا کی مرضی اور اس کی اجازت سے ھو یعنی صرف خدا کی اجازت سے خدا کے بندوں پر حکومت کی جاسکتی ھے ، وہ حکومت جس میں الٰھی منشاء نہ ھو اور خداوندعالم کی طرف نسبت نہ ھو؛ تو ایسی حکومت باطل اور حق اور عقلی اصول کے برخلاف ھے۔
حوالے
(1)سورہ کھف آیت 29
(2) سورہ انسان (دھر) آیت 3
(3)سورہ فاطر آیت 4 2
(4)سورہ نور آیت 2
|