اسلام اور سیاست جلد(2)
تینتیسواں جلسہ
اسلام اور حکومت کے مختلف نقشے

1۔ اسلام کی طرف سے حکومتی سلسلہ میں کوئی طریقہ بیان نھیں کیا گیا (ایک اعتراض(
گذشتہ جلسوں میں حکومت کی شکل وصورت کے بارے میں یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ کیا اسلام نے حکومت کے لئے کوئی خاص نقشہ پیش کیا ھے، یا اس کا معین کرنا خود عوام الناس کے اوپر ھے؟ اور اگر اسلام نے حکومت کے لئے کوئی خاص نقشہ پیش کیا ھے تو کیا وہ کسی خاص زمانہ سے مخصوص ھے یا نہ ، بلکہ اس کا ایک خاص نقشہ ھے جو ھر زمانہ میں جاری نھیں ھوسکتا؛ اور انسانی معاشرہ کے حالات کی بنا پر اس کی شکل ونقشہ بدل رھتا ھے چنانچہ بعض لوگ کھتے ھیں کہ اگرچہ حضرت رسول اکرم (ص) کے زمانہ میں اسلامی حکومت ایک خاص طرز پر ھوتی تھی، لیکن وہ طریقہ صرف اسی زمانہ سے مخصوص تھا ، اور خداوندعالم نے اسی طریقہ کار کو صرف پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ کے لئے معین فرمایا تھا اور اس کے بعد نئے نئے نقشے اس حکومت کے قائم مقام ھوسکتے ھیں یھاں تک کہ ممکن ھے کہ بعض اجتماعی حالات کی بنا پر اسلامی حکومت ڈیموکریسی لیبرل شکل اختیار کرلے، اور آپس میں کوئی تضاد یا ٹکراوٴ نہ ھو جس طرح ھم نے مغربی ممالک کے بعض طریقوں کو انتخاب کیا ھے؛ مثلاً ”پارلمانی نظام“ کو قبول کرلیا ھے،اور اس کو اسلام کے مخالف نھیں پایا، اسی طرح ”مشروطیت“ (1)کو قبول کرلیا اور اس وقت ”جمھوریت“ کو قبول کرلیا ھے اور ھمارا ماننا ھے کہ یہ اسلام کے مخالف نھیں ھیں، ھوسکتا ھے ایک دن وہ بھی آئے جب ھم ”ڈیموکریسی لیبرل“ کو بھی قبول کرلیں اور اس کو بھی اسلام کے مخالف نہ پائیں!
آج کل ھمارے معاشرہ میں اس طرح کے سوالات اور جوابات پیش کئے جاتے ھیں اور اس سلسلہ میں بحث وغیرہ ھوتی رھتی ھیں، جبکہ ان بحثوں میں بعض اشکالات وابھامات لوگوں کے ذھن میں ڈالے جاتے ھیں جن کی بنا پر بعض لوگ دانستہ اور بعض لوگ نادانستہ طور پر اسلامی صحیح تفکر سے منحرف ھوجاتے ھیں۔
قارئین کرام ! مذکورہ اعتراض کا جواب دینے سے پھلے بعض ان نکات کا بیان کرنا ضروری ھے جن کی وجہ سے مذکورہ اعتراض تشکیل پاتا ھے تاکہ ان کے روشن ھونے سے جواب کا راستہ صاف ھوجائے:
جیسا کہ ھم سبھی لوگ اس بات کو جانتے ھیں کہ ھمارے ملک میں انقلاب اسلامی کے عظیم الشان رھبر حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ کے ذریعہ اسلامی جمھوری نظام قائم ھوا، اور شروع انقلاب ھی میں اس کے اساسی اور بنیادی قوانین مرتب ھوئے جن کی خود امام خمینی (رہ) نے تائید کی ھے اسی طرح آپ ھی کی تائید کے مطابق حکومت کا نقشہ معین ھوا ، اور زمانہ کے ساتھ ساتھ بعض چیزوں میں تبدیلی کرنا پڑی جن کو حضرت امام خمینی (رہ) نے قبول فرمایا جبکہ یہ بات واضح ھے کہ اسلامی حکومت کا یہ نقشہ نہ حضرت رسول اکرم (ص) کے زمانہ میں تھا اور نہ ھی حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے زمانہ میں اس طرح کی حکومت تھی، اور ھماری یہ حکومت اسلامی حکومت کے عنوان سے قائم کی گئی ھے۔
قدرتوں میں جدائی نہ حضرت رسول اکرم (ص) کے زمانہ میں تھی اور نہ ھی حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے زمانہ میں، لیکن ھمارے بنیادی قانون میں قدرتوں کے الگ ھونے کو قبول کیا گیاھے،اور حکومتی نظام تین قدرتوں قوہ مقننہ (پارلیمنٹ) ، قوہ قضائیہ (عدلیھ) اور قوہ مجریہ (حکومت) سے تشکیل پایا اس نظام میں سب سے بلند مقام جس کے ذریعہ ملکی عظیم سیاست معین کی جاتی ھے مقام معظم رھبری ھے، اس کے بعد صدر مملکت ملک کے دوسرے بڑے عھدہ پر فائز ھوتا ھے، اسی طرح رئیس قوہ قضائیہ اور رئیس مجلس شوریٰ اسلامی (اسپیکر) ملک کے عالی ترین عھدہ میں شمار ھوتا ھے یھاں تک کہ انقلاب اسلامی کے بیس سال کے بعد بھی بنیادی قوانین میں بعض تبدیلیاں ھوتی رھتی ھیں مثال کے طور پر پھلے وزیر اعظم اجراء قوانین کا سب سے بڑا عھدہ ھوتا تھا ، اور اسی کے ذریعہ کابینٹ کا انتخاب ھوتا تھا، اس کے بعد صدر مملکت اور مجلس شوریٰ اسلامی تائید کرتی تھی،لیکن غور وفکر کے بعد وزیر اعظم کا عھدہ حذف کردیا گیا اور صدر مملکت ھی اجراء قوانین کا عھدہ دار ھوتا ھے۔
بے شک حکومت کا اس طرح کا نقشہ اسلام میں اس سے پھلے کبھی نھیں تھا نہ ھی اسلام نے اس سلسلہ میں کوئی حکم صادر فرمایا ھے، لھٰذا کوئی بھی شخص یہ دعویٰ نھیں کرسکتاکہ اسلام نے صاف طور پر وضاحت کردی ھے کہ عوام الناس ووٹ دے کر صدر مملکت کا انتخاب کریں اسی طرح دوسرے انتخاب میں حصہ لے کر اپنا کردار ادا کریں۔
قارئین کرام ! ھمارے گذشتہ مطالب کے پیش نظر بعض لوگ اس کو دلیل مانتے ھیں کہ اسلام نے حکومت کے سلسلہ میں کوئی نقشہ پیش نھیں کیا ھے، لھٰذا اس بات کو ماننا پڑے گا کہ اسلام نے اس سلسلہ میں عوام الناس کو اختیار دیا ھے کہ وہ خود اپنی مرضی سے حکومت کا نقشہ بنائیں اور خود ھی قوانین کا انتخاب کریں؛ اسی طرح دوسرے حکومتی امور بھی خود عوام الناس سے متعلق ھیں۔
اسی بنا پر اس بات میں کہ حکومت کو خدا کی طرف سے معین ھونا چاھئے اور حکومت خود عوام الناس کے ذریعہ معین ھو؛ تضاد اور ٹکراؤ پایا جاتا ھے، اور یہ جو کھا جاتا ھے کہ حکومت خداوندعالم کی طرف سے معین کی جاتی ھے جبکہ جو چیز عملی طور پر دیکھی جاتی ھے ان دونوں میں تضاد اور ٹکراؤ پایا جاتا ھے یھاں تک کہ خود ”جمھوری اسلامی“ کھنا بھی ایک قسم کا تضاد ھے، کیونکہ ”جمھوریت“ کے معنی حکومت کاعوام الناس کے ھاتھوں میں ھونااور اس کا نقشہ وشکل عوام الناس کے ذریعہ معین ھونا ھیں، جبکہ اس جمھوری کے ساتھ ”اسلامی“ کا اضافہ کرنا اور کھنا کہ حکومت کی باگ ڈور ولی فقیہ کے ھاتھوں میں ھونا چاھئے خصوصاً جبکہ ھم اس بات کو مانیں کہ ولایت فقیہ خداوندعالم اور امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے ذریعہ مشروعیت (جواز) پیدا کرتی ھے؛ اور اس حکومت کو حکومت الٰھی سمجھتے ھیں نہ عوامی اور مردمی، یعنی اس حکومت کی مشروعیت اوپر سے شروع ھوتی ھے، پھلے درجہ میں خدا مشروعیت عطا کرتا ھے اس کے بعد پیغمبر اور اس کے بعد امام معصوم (ع)، اور ولی فقیہ امام معصوم علیہ السلام کی طرف سے انتخاب ھوتا ھے جس کی بنا پر اس کی مشروعیت ھوتی ھے اورجو ولی فقیہ کے تحت نظام ھوتا ھے وہ ولی فقیہ کی وجہ سے ھی مشروعیت پیدا کرتا ھے تو اگر حکومت جمھوری ھے تو پھر اس طرح کی باتیں نھیں ھونا چاھئے اور جس کو عوام الناس انتخاب کرلیں وھی حقیقت میں اسی کو صاحب اقتدار ھونا چاھئے۔

2۔ مذکورہ اعتراض کا جواب، اور حکومت کی شکل کے سلسلہ میں اسلامی نظریہ
افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ھے کہ یہ اعتراض کبھی وضاحت کے ساتھ اور کبھی اشاروں میں اخبار، میگزین اور کانفرنس میں بیان میں ھوتا ھے ، اور بیرونی ریڈیو اور دوسرے ذرائع ابلاغ اس پر بھت شور مچاتے ھیں، اور جو کچھ بھی ھمارے اخباروں اور مقالات میں بیان ھوتا ھے اس میں اسلامی حکومت کو تناقض آمیز(ضدّ و نقیض) اور دینی استبداد کے عنوان سے پھچنوایا جاتا ھے اسی وجہ سے ان مسائل کو صاف اور شفاف طریقہ سے بیان کرنے کی ضرورت ھے، تاکہ اس سلسلہ میں اسلامی نقطہ نظر واضح ھوجائے۔
کیا جب ھم یہ کھتے ھیں کہ ھمارا حکومتی نظام ”جمھوری اسلامی“ ھے تو اس نظام کا اسلامی ھونا اس بات کا تقاضا کرتا ھے کہ اس حکومت کا نقشہ اور اس کی شکل خداوندعالم کی طرف سے معین ھو ، اور قرآن وروایات اور کم سے کم پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ علیھم السلام کی سیرت میں بیان ھوا ھو؟ اور اگر اسلامی نظام ھونا اس بات میں مخصوص نھیں ھے کہ اس کی شکل وصورت خداوندعالم کی طرف سے معین ھو، (جیسا کہ دوسرے شواھد بھی اس بات پر دلالت کرتے ھیں کہ اس نظام کی شکل وصورت خداوندعالم نے معین نھیں کی ھے) تو پھر نظام کے اسلامی ھونے کا معیار کیا ھے؟
چنانچہ اس سلسلہ میں بھت زیادہ بحث وگفتگو ھوسکتی ھے اور جو کچھ ھم نے عرض کیا اس کی وجہ یہ ھے کہ بعض لوگوں نے اس بحث کو اھمیت دی اور بعض لوگوں کی طرف سے اس سلسلہ میں غلط بیانی سے کام لیتے ھوئے عوام الناس کو منحرف کرنا چاھا، لھٰذا ھم اس سلسلہ میں وضاحت کرنا مناسب سمجھتے ھیں ، اور ھماری اس بحث میں دقت کرنے سے مطالب واضح اور روشن ھوجائیں گے ، اور پھر دوسرے لوگوں کی باتیں اور شیطانی وسوسے اثر انداز نھیں ھوپائیں گے۔
کوئی شخص بھی اس بات کا دعویٰ نھیں کرتا کہ اسلام نے حکومت کے لئے خاص نقشہ معین کیا ھے، نہ قرآن میں، نہ روایات میں اور نہ معصومین علیھم السلام کی عملی سیرت میں،اور نہ ھی حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ اور مقام معظم رھبری ( حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مد ظلھ) اور نہ ھی دوسرے علماء ورھبروں کے بیانات میں یہ دعویٰ کیا گیا ھے کہ اسلامی حکومت وہ حکومت ھے جس کا نقشہ اور شکل خداوندعالم اور دینی رھبروںکے ذریعہ معین کیا گیا ھے، مثلاً یہ کہ اسلام نے حکم دیا ھو کہ ولی فقیہ صاحب اقتدار اور مرکز قدرت ھو اور اس کے بعد دوسرا درجہ صدر مملکت کا ھے ، اور یہ تینوں قدرتیں ایک دوسرے سے مستقل اور جدا ھونی چاھئیں تو جب اسلامی حکومت ھونے کا معیار یہ نھیں ھے کہ اس کا نقشہ اور حکومتی امور نیز قدرتوں کا استقلال خدا کی طرف سے معین ھو تو پھر اسلامی حکومت ھونے کے معیار کو دوسری جگھوں پر تلاش کرنا چاھئے۔

3۔ حکومتی ثابت اور مسلم ڈھانچہ پیش کیا جانا ممکن نھیں
قارئین کرام ! یھاں پر یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ کیا اسلام کی طرف سے حکومت کے لئے کوئی معین نقشہ اور خاص صورت بیان نہ ھونا اسلام کے ناقص ھونے کی دلیل نھیں ھے؟ کیا اسلام ایک کامل دین نھیں ھے اور کیا اسلام نے انسانی معاشرہ کی انفرادی اور اجتماعی ضرورتوں کو بیان نھیں کردیا ھے؟ تو پھر کیوں حکومت کے سلسلہ میں کوئی خاص شکل بیان نھیں کی ھے؟
ھم جواب میں عرض کرتے ھیں: وہ اسلام جس نے پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ کے چھوٹے اور محدود معاشرہ کے نظام کو چلایا ھے اور اسلام؛ انسانی مختلف وسیع اور پیچیدہ معاشروںمیں ایک عالمی حکومت کرنا چاھتا ھو، توکیا اس کے لئے ایک ثابت اور مسلم نقشہ پیش کرنا ممکن نھیں ابتدائے اسلام میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے ذریعہ ایسی حکومت تشکیل پائی جس کی مردم شماری شاید ایک لاکہ لوگوں تک بھی نہ ھو اور وہ سادہ قسم کی زندگی اور سادہ ثقافت والے لوگوں کی تعداد جن میں اکثریت بادیہ نشین اور مدینہ کے گرد ونواح کے دیھاتیوں کی تھی؛ یہ بات ظاھر ھے کہ اس زمانہ کے لحاظ سے اور اس تعداد کے لحاظ سے حکومت بھی سادہ تھی اس کے بعد آھستہ آھستہ اسلامی علاقوں میں اضافہ ھوتا چلا گیا اور خلفاء کے زمانہ میں منجملہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے زمانہ میں کہ ابھی ظھور اسلام کو آدھی صدی ھی گذری تھی اسلامی حکومت ایران، مصر، عراق، سوریہ، حجاز اور یمن تک پھنچ گئی تھی اور اسلام کے تحت نفوذ اس ترقی ووسعت کے پیش نظر ایسا ممکن نہ تھا کہ جب پیغمبر اکرم (ص) مدینہ منورہ میں ایک چھوٹی سی حکومت بنائیں تو اس کو اس طرح تشکیل دیں جس سے ھجرت کے وقت سے پچاس سال (بعد) کی حکومت کو بھی شامل ھوجائے ، اور اگر اس زمانہ میں رسول اکرم (ص) ایک عظیم اسلامی علاقہ کے لئے حکومت کو بیان کرتے تو اس زمانہ کے لوگوں کے لئے ایک خواب کی طرح ھوتا، اور دوسری طرف چونکہ اس طرح کی حکومت کا راستہ ھموار نھیں تھا لھٰذا اس طرح کا نقشہ پیش کرنا ایک بے ھودہ کام تھا۔
اور چونکہ اس پچاس سال کے عرصے میں مسلمانوں کے حالات بھت بدل گئے تھے لھٰذا اس کے لئے مختلف طریقوں کی حکومت ھونا چاھئے تھی، اسی طرح اس کے بعد کا زمانہ جس میں مسلمانوں اور جھان اسلام کے حالات میں بھی کافی تبدیلی آنا تھی تو اگر رسول اکرم (ص) ان تمام حالات کے پیش نظر ھر زمانہ کے لئے ایک خاص قسم کی حکومت کو بیان فرماتے تو پھر فرضی حکومتوں کے سلسلہ میں ایک عظیم ”دائرة المعارف“ (انسائیکلو پیڈیا) بن جاتاجس میں ھر زمانہ کی حکومت کے لئے تفصیل بیان کی جاتیں لیکن چونکہ اس زمانہ میں لکھنے پڑھنے والی کی تعداد ھی بھت کم تھی، اور اس سلسلہ میں عالم افراد اور دانشوران کا ھونا تو دور کی بات ھے تاکہ وہ اس سلسلہ میں تفصیل دیں اور ایک دوسرے سے جدا کریں، نہ اس وقت اس موضوع کو بیان کرنے کے امکانات تھے ، اور اگر بیان بھی ھوجاتے تو ان کو محفوظ رکھنا اور ان کو رائج کرنا بھی ممکن نھیں تھا۔
المختصر یہ کہ حکومت کا نقشہ اور اس کی شکل زمان ومکان کے لحاظ سے ھمیشہ متغیر ھے ، اور انسانی معاشرہ میں ھمیشہ کے لئے ایک خاص حکومت کا نقشہ معین کرنا ممکن نھیں ھے جس کو ھر دور میں اور ھر جگہ قائم کیا جاسکے حکومت کا نقشہ اسلام کے متغیر اور ثانوی احکام میں سے ھے جو زمان ومکان کے لحاظ سے بدلتے رھتے ھیںجن کو معین کرنا ولی امر مسلمین کے عھدہ پر ھوتا ھے،اور جب امام معصوم علیہ السلام حاضر ھوں تو وھی ولی ا مر مسلمین ھیں، اور وہ حاضر نہ ھوں تو پھر ان کی جگہ ان کا نائب (خاص) ولی امر مسلمین شمار ھوتا ھے (اسلام کے ان متغیر احکام کے مقابل میں اسلام کے ثابت اور مسلم احکام بھی ھیں جو ھمیشہ کے لئے ثابت ھیں جن کو کسی بھی زمانہ میں اور کسی جگہ پر جاری کیا جاسکتا ھے۔(
لھٰذا یہ تصور کرنا کہ اسلام کو ھر علاقے اور ھر زمانہ کے لحاظ سے حکومت کا ایک نقشہ پیش کرنا چاھئے تھا؛ یہ تصور صحیح نھیں ھے، چونکہ اس طرح کا کام عملی طور پر ممکن بھی نہ تھا لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ اسلام کی طرف سے حکومت کے لئے خاص نقشہ پیش نہ کرنا اسلام کا کوئی نقص نھیں ھے بلکہ اگر اسلام کی طرف سے حکومت کے سلسلہ میں کلّی اور عام قواعد پیش نہ کئے جاتے تو اس وقت یہ کھا جاسکتا تھا کہ اسلام میں نقص ھے؛ کیونکہ اس صورت میں نہ تو اسلام نے زمان ومکان کے لحاظ سے حکومت کی کوئی شکل پیش کی ھے اور نہ ھی حکومت کے بارے میں کوئی راستہ بیان کیا ھے لیکن الحمد للہ اسلام نے حکومت کے نقشہ کے بارے میں راستہ تو بتادیا ھے اور اس کے لئے متغیر احکام قرار دئے ھیں اور جیسا کہ ھم نے قانون گذاری کے سلسلہ میں عرض کیا ھے کہ زمان ومکان کے لحاظ سے متغیر احکام کا معین کرنا ولی امر مسلمین کی ذمہ داری ھوتی ھے،جو اسلامی اصول کی بنا پر اور اس زمانہ کے متغیر مصالح کے پیش نظر اور اس سلسلہ میں ماھرین سے صلاح ومشورہ کے بعد ان کو بیان کرتا ھے ، اور انھیں مسائل میں سے حکومت بھی ھے، (اور جب ولی امر مسلمین ان احکام کو بیان کردے تو پھر) عوام الناس کے لئے ان پر عمل کرنا ضروری ھے اسلام نے اس راہ حل کو پیش کرکے عوام الناس کو سرگردانی اور حیرت سے نجات عطا کردی ھے، جس کی بنا پر اختلافات اور جھگڑوں کا خاتمہ ھوگیا ھے۔

4۔ حکومت کا عرفی اور دنیاوی ھونا اور قوانین اسلام کا ھم عصری ھونا (ایک اعتراض(
قارئین کرام ! اس سلسلہ میں ایک دوسرا اعتراض یہ ھوتاھے کہ اسلام کی طرف سے حکومت کے لئے کوئی خاص نقشہ بیان نہ کرنا اس بات کی علامت ھے کہ حکومتی مسائل عرفی اور دنیاوی ھیں جو خود عوام الناس سے متعلق ھیں اور اسلام نے اس سلسلہ میں کوئی اظھار نظر نھیں کیا ھے آج کل کے وہ لوگ جو مغربی کلچر خصوصاً ”لیبرلیزم“سے متاثر ھیں اس اعتراض کو ھوا دیتے ھیں اور اپنے مقالات، تقریروں اور اپنی گفتگو میں اس اعتراض کی حمایت کرتے ھیں کہ حکومتی مسائل دنیاوی اور عرفی ھیں جن کا اسلام سے کوئی رابطہ نھیں ھے اور اپنی بات پر شاھد اس چیز کو پیش کرتے ھیں کہ اسلام نے نہ تو جمھوری حکومت کے بارے میں کچھ کھا ھے اور نہ بادشاھی حکومت کے سلسلہ میں کچھ کھا ھے، اور نہ ھی دوسری حکومتوں کے بارے میں کچھ بیان دیا ھے اس سے معلوم ھوتا ھے کہ حکومتی مسائل ایسے نھیں ھیں جن کے بارے میں ھمیں یہ امید نھیں رکھنی چاھئے کہ اس سلسلہ میں خدا اور پیغمبر کچھ بیان کریں، بلکہ یہ مسائل تو دنیا اور عوام الناس سے متعلق ھیں اور خود انھیں کو اس سلسلہ میں طے کرنا چاھئے۔
اور آھستہ آھستہ اس سے بھی آگے قدم بڑھاتے ھوئے کھتے ھیں: نہ صرف یہ کہ حکومت کے نقشہ کو خود عوام الناس معین کرے بلکہ حکومت کے قوانین بھی خود عوام الناس کو بنانا چاھئے؛ چاھے وہ قوانین اسلامی اصول کے خلاف ھی کیوں نہ ھوں!!
لیکن اس وقت ان کے سامنے یہ سوال آتا ھے کہ اگر حکومتی مسائل دنیاوی اور عرفی ھیں اور عوام الناس سے متعلق ھیں یھاں تک کہ قوانین بھی انھیں کے ذریعہ بنائے جائیں، تو پھر قرآن اور متواتر روایات میں حکومت سے متعلق بھت سے احکام کیوں بیان ھوئے ھیں؟ مثلاً احکام قضا، احکام مالیات (ٹیکس) اور احکام جزائی وغیرہ،یہ وہ بند گلی ھے جس سے نکلنے کا راستہ نھیں ھے ، اگرچہ انھوں نے اس بند گلی سے نکلنے کے لئے بھت سے راستے اختیار کئے ھیں لیکن ان سب کو اس وقت بیان نھیں کیا جاسکتا۔
ان میں سے بعض لوگوں کا یہ کھنا ھے کہ وہ حکومتی احکام وقوانین جو قرآن وروایات میں وارد ھوئے ھیں، وہ حضرت رسول اکرم (ص) کے زمانہ سے مخصوص ھیں اور اسی زمانہ کی ضرورت کے مطابق تھے ، اور اسلام نے صرف رسول اکرم (ص) کے زمانہ میں حکومتی مسائل میں دخالت کی ھے اور کچھ قوانین پیش کئے ھیں ، کیونکہ اس وقت کے لوگ اپنی ضرورت کے مطابق قوانین بنانے کی صلاحیت نھیں رکھتے تھے، لھٰذا اسلام کو ان کی ضرورت کے مطابق کچھ قوانین پیش کرنا پڑے، اسی وجہ سے قرآن وروایات میں حکومت، سیاست اورقضاوت سے متعلق احکامات بیان ھوئے ھیں جو صرف اسی زمانہ میں کار آمد تھے، لیکن اس زمانہ میں جب انسان نے علم ودانش میں کافی ترقی کرلی ھے اور خود اپنی ضرورت کے مطابق قوانین بنانے کی صلاحیت رکھتا ھے اور آج کل ماڈرن زمانہ ھے، لھٰذا وہ قوانین کار آمد نھیں ھیں اور ان کو ترک کردینا چاھئے!!
قارئین کرام ! اس طرح کی باتیں بھت سے اسلام کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کی طرف سے بیان ھوتی ھیں اور کبھی کبھی تو صاف کھتے ھیں کہ احکام اسلام (منجملہ اسلام کے اجتماعی احکام) رسول اسلام (ص) کے زمانہ سے مخصوص تھے، اور آج ھمارے زمانہ میں کار آمد نھیں ھیں، بلکہ اصلاً اس زمانہ کے لئے نازل (بھی) نھیں ھوئے ھیں، اور کبھی کبھی اپنے مذکورہ نظریہ کو پشت پردہ بیان کرتے ھیں چونکہ اتنی ھمت نھیں کرتے کہ واضح طور پر اسلام کے تمام اجتماعی احکام پر اعتراضات نھیں کرسکتے ، اور اسلام کے بعض سزائی احکام منجملہ ”چور کے ھاتہ کاٹنے والے حکم“ پر اعتراض کرتے ھیں۔
چنانچہ کھتے ھیں کہ ”چور کے ھاتہ کاٹنے کا حکم“ چوری کرنے اور لوگوں کے مال میں خیانت کرنے سے روک تھام اور معاشرہ میں مالی امن وامان کو برقرارکرنے کے لئے تھا لیکن اب اگر ھمارے پاس اس طرح کے جرائم سے روک تھام کے لئے اس سے بھتر طریقے موجود ھوں تو پھر انھیں کو کام میں لایا جائے، نہ یہ کہ ھر زمانہ میں چور کے ھاتہ کاٹ دئے جائیں اسلامی قوانین کا مقصود معاشرہ میں امن برقرار رکھنا ھے اور اس زمانہ میں اس سے بھتر اور کوئی طریقہ کار نھیں تھا کہ چور کے ھاتہ کاٹ دئے جائیں لیکن آج کل اس سے بھتر طریقے موجود ھیں تاکہ اس طرح کے جرائم سے روک تھام ھوسکے، جن میں تشدد اور شدت پسندی بھی نھیں ھے اور ان کی انسانی شرافت بھی داغدار نھیں ھوتی کیونکہ چور کے ھاتہ کاٹ دینا تشدد اور وحشیانہ عمل ھونے کے علاوہ انسانی شرافت سے بھی ھم آھنگ نھیں ھے جس کو ترک کردینا چاھئے آج کل ھم اس زمانہ میں زندگی بسر کرتے ھیں جس کو ماڈرن زمانہ کھا جاتا ھے، آج اجتماعی مسائل بالکل بدل گئے ھیں، اور چونکہ آج کل کے جدید حالات پیغمبر اکرم ( (ص)) اور ائمہ معصومین (علیھم السلام) کے زمانہ سے بالکل الگ ھیں لھٰذا اسلامی قوانین کو جاری نھیں کیا جاسکتا۔
قارئین کرام ! آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ پھلے توان لوگوں نے یہ کھا کہ اسلام نے حکومت کے لئے کوئی نقشہ پیش نھیں کیا، اور اس سلسلہ میں خود عوام الناس کو اختیار ھے اور جب حکومتی مسائل عوام الناس پر چھوڑ دئے تو اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ جن موارد میں اسلام کے مشخص اور معین قوانین نھیں ھیں تو ان قوانین کو معین کرنا خود عوام الناس کے عھدہ پر ھے اس کے بعد اس سے آگے قدم بڑھایا اور کھا : یھاں تک کہ جن موارد میں اسلامی قوانین موجود بھی ھیں تو ان اسلامی قوانین کو نسخ بھی کیا جاسکتا ھے اور ان کو بدلا جاسکتا ھے! بے شک اس صورت میں تواسلام کا جلد ھی فاتحہ دیاجائے گا۔

5۔ مذکورہ اعتراض کا جواب، اور اسلام کے متغیر اور ثابت احکام کی نسبت
ھم نے مختصر طور پر یہ عرض کیا کہ اسلام کے ثابت اور غیر قابل تبدیل احکام کے علاوہ متغیر احکام بھی ھیں کیونکہ اسلام کے احکام واقعی مصالح ومفاسد کے تحت ھیں ، اور انسان کی زندگی بعض امور میں متغیر حالات کے تابع ھے ، البتہ وہ متغیر حالات بھی واقعی مصالح ومفاسد کے لحاظ سے متغیر ھیں اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ حکومت بھی ثانوی اور متغیر احکام رکھتی ھے اور ھر زمانہ میں اس کی شکل وصورت کا معین کرنا نیز اس کے لئے مناسب قوانین بنانا ولی فقیہ کا کام ھے جو اسلامی اصول کے تحت اور اسلامی ارشادات کے مطابق اپنے وظیفہ پر عمل کرتا ھے۔
قارئین کرام ! توجہ رھے کہ اسلام کے متغیر اور ثابت احکام میں امتیاز پیدا کرنا اوران میں تمیز کرنا فقھاء اور مجتھدین کا کام ھے کیونکہ وہ اسلامی منابع ومآخذ کی روح یعنی قرآن،سنت، اورپیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی سیرت کا علم رکھتے ھیں لھٰذا اسلام کے متغیر اور ثابت احکام میں تمیز کرسکتے ھیں، اور ان میں سے ھر ایک کے صفات کو معین کرسکتے ھیں۔
صرف یہ کھہ دینا کہ اسلام میں متغیر احکام پائے جاتے ھیں اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ کوئی اسلام کے تمام احکام کو متغیر کھہ دے کیونکہ اگر اسلام کے تمام قوانین متغیر ھوں تو پھر اسلام میں کیا باقی بچے گا؟ اور اس صورت میں ھم کس اسلام کا دفاع کرنا چاھتے ھیں؟ اگر تمام اسلامی قوانین اور احکام متغیر ھوں اور اسلام کا کوئی بھی قانون یا حکم ثابت اور مسلم نہ ھو تو پھر ھم نے کیوں انقلاب برپا کیا، اور اسلام کے احکام جاری ھونے کے خواھشمند ھیں، اس کی وجہ سے لاکھوں افراد شھید ھوئے خود شاہ (محمد رضا) کے زماہ میں ایک ریفارم "Rwforme" (اصلاح) اور تبدیلی کے ذریعہ عوام الناس کی مانگ کو پورا کیا جاسکتا تھا،تاکہ خود عوام الناس کے لئے قوانین بنانے کا راستہ ھموار ھوجاتا ، اگر یہ وھی اسلام ھے جس کے قوانین عوام الناس کی رائے سے بدل جاتے ھیں تو پھر ھم نے بے فائدہ انقلاب برپا کیا، بھتر تھا کہ ھم ”ملی گرا“ کے تابع ھوجاتے، جس کی بنا پر معاشرہ کے منافع کو حاصل کرتے، اور پھر ھمارے یہ نقصانات نہ ھوتے!! جیسا کہ ملی گرا مشورہ دیتے اسی کو جاری کرتے اور لیبرل ڈیموکریسی کے تحت آرام کے ساتھ ووٹنگ کرتے اور پھر اپنے منتخب شدہ ممبران کو شاہ کے پارلیمنٹ میں بھیجتے، اور وہ عوام الناس کی خواھش کے مطابق غیر عوامی قوانین تبدیل کرتے!!
قارئین کرام ! یہ ان لوگو ں کی باتوں کا کا خلاصہ ھے جو بیرونی ”تئوریسین“ سے متاثر ھیں جو بعض ان اخباروں میں بیان ھوتے ھیں جو مسلمانوں کے بیت المال سے چلتے ھیں!!
اسی طرح کے بعض لوگ ناجائز فائدہ اٹھاتے ھیں اور ان جوانوں کو جنھوں نے ابھی تک اسلام کے اجتماعی مسائل کا مطالعہ نھیں کیا ھے اور کافی مقدار میں علم نھیں رکھتے ان کو تحت تاثیر قرار دیتے ھیں، مثال کے طور پر کھتے ھیں : اسلامی حکومت صرف ایک ادعای ھے جس کی کوئی حقیقت نھیں ھے، کیونکہ اسلام نے نہ جمھوریت کے بارے میں کچھ کھا ھے اور نہ ھی قدرتوں میں جدائی کے بارے میں کچھ بیان دیا ھے۔
اور جب اسلام نے اس سلسلہ میں کچھ (بھی) بیان نھیں کیا ھے تو معلوم ھوتا ھے کہ اسلام نے حکومت کے سلسلہ میں کوئی نقشہ پیش نھیں کیا بلکہ حکومتی امور خود عوام الناس کے سپرد کردئے گئے ھیں۔
یھاں پر ھمارے مخاطب وہ لوگ ھیں جو خدا، اسلام اور قرآن پر اعتقاد رکھتے ھیں، احکام اسلامی کو کھیل سمجھنے والے افرادنھیں، کیونکہ ان کے سلسلہ میں گفتگو کرنا بے کار ھے ھم ان لوگوں سے مخاطب ھیں جو خدا کے وجود کا اقرار کرتے ھیں اور عقیدہ رکھتے ھیں کہ خدا نے پیغمبر کو ھماری ھدایت کے لئے بھیجا ھے، نیز قرآن مجید اس کی طرف سے نازل ھوا ھے؛ (ھم ان سے یہ عرض کرتے ھیں کھ) قرآن مجید صاف طور پر ایسے احکام اور قوانین کا ذکر کرتا ھے جو ھمیشہ ثابت اور غیر قابل تبدیلی ھیں اور قابل استثناء بھی نھیں ھیں، اس کے علاوہ قرآن مجید نے بار بار اس بات پر زور دیاھے کہ ان احکام میں کسی طرح کا کوئی خدشہ وارد نھیں کرنا چاھئے ان ھی میں سے اسلام کے قضائی احکام ھیں اگرچہ بعض مسائل ضروری اور واجب ھیں لیکن ان کو عام معمولی طریقہ سے قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ھے، لیکن بعض مسائل منجملہ احکام قضاوت (اسلامی قوانین کے احکام وقوانین کے مطابق) ھیں جن کے بارے میں اس قدر تاکید کی گئی ھے اور ان کو اس شدید انداز میں بیان کیا گیا کہ اگر انسان ان کی خلاف ورزی کرنا چاھے تو اس کا بدن لرز جاتا ھے جیسا کہ خداوندعالم اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ھے کہ خدا کے حکم کے مطابق حکم فرمائیں:
( إِنَّا اٴَنزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا اٴَرَاکَ اللهُ )(2)
” ھم نے آپ کی طرف یہ بر حق کتاب نازل کی ھے کہ لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں “
دوسری جگہ رسول خدا (ص) کے فیصلوں کے سامنے تسلیم ھونے اور اس کی اطاعت کے بارے میں فرماتا ھے:
( فَلاَوَرَبِّکَ لاَیُؤْمِنُونَ حَتّٰی یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَھمْ ثُمَّ لاَیَجِدُوا فِی اٴَنفُسِھمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیمًا )(3(
” پس آپ کے پروردگار کی قسم کہ یہ ھرگز صاحب ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپ کو اپنے اختلافات میں حَکم نہ بنائیں گے اور پھر جب آپ فیصلہ کردیں تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں اور آپ کے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ھوجائیں۔“
قارئین کرام ! جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ کیا کہ خداوندعالم نے ( فَلاَوَرَبِّک ) سے قسم کھاکر (جو بھت بڑی قسم ھے) صرف ان لوگوں کو مومن شمار کیا ھے جو اپنے اختلافات اور جھگڑوں میں(جو معمولاً مالی امور میں اور کبھی جان وناموس کے سلسلے میں ھوتے ھیں) صرف پیغمبر اکرم (ص) کی طرف رجوع کریں لیکن اگر اپنے اختلافات کو دور کرنے کے لئے پیغمبرا کرم (ص) کی خدمت میں نہ گئے اور آنحضرت (ص) سے فیصلہ کی درخواست نہ کی، یا اگر پیغمبر اکرم (ص) نے ان کے درمیان فیصلہ فرمادیا چاھے کسی کے نقصان میں ھو یا فائدہ میں، او ر وہ دل وجان سے پیغمبر کے فیصلہ پر راضی نہ ھوئے اور ان کے دل رنجیدہ رھے ، تو اس صورت میں وہ مومن نہ رھیں گے لھٰذامومنین کو بھی آنحضرت (ص) کو قضاوت اور فیصلوں کے لئے منتخب کرنا چاھئے اور جس وقت وہ فیصلہ فرمادیں تو چاھے ان کے فائدہ میں ھو یا نقصان میں، تو ان کو اپنے دل میں ناراضگی اور رنجیدگی کا احساس تک نہ ھونے پائے، اور مکمل طریقہ سے رسول خدا (ص) کے فیصلہ پر راضی رھیں جو لوگ آنحضرت (ص) کو خدا کا رسول مانتے ھیں لیکن ان کے فیصلوں کو نھیں مانتے وہ لوگ جھوٹے اور منافق ھیں؛ یہ کیسے ممکن ھوسکتا ھے کہ رسول کی رسالت کا اقرار کرتے ھوں لیکن اس کے فیصلوں کو نہ مانیں؟!
قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر چند مسلسل آیتوں میں خدا کے حکم کے علاوہ قضاوت کرنے والے لوگوں کو فاسق، کافر اور ظالم کھا گیا ھے:
ارشاد رب العزت ھوتا ھے:
( وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴُوْلَئِکَ ھمْ الْکَافِرُون ) (4)
”اور جو شخص بھی ھمارے نازل کئے ھوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے گا اس کا شمار کافروں میں ھوگا۔“
( وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴُوْلَئِکَ ھمْ الظَّالِمُونَ ) (5)
”اور جو شخص بھی ھمارے نازل کئے ھوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے گا اس کا شمار ظالموں میں ھوگا۔“
( وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴُوْلَئِکَ ھمْ الْفَاسِقُونَ )(6(
”اور جو شخص بھی ھمارے نازل کئے ھوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے گا اس کا شمار فاسقوں میں ھوگا۔“
کیا کوئی شخص قرآن مجید کی ان آیات کو اس انداز اور اس لحن میں ملاحظہ کرنے کے بعد (بھی) یہ احتمال دے سکتا ھے کہ اسلامی قضاوت کے احکام صرف رسول اکرم (ص) کے زمانہ تک اور زیادہ سے زیادہ آپ کے بیس سال بعد تک کے لئے ھیں، اور جب اسلامی علاقوں میں ایران، مصراور دوسرے علاقے شامل ھوگئے تو اسلام کے یہ قضائی احکام کار آمد نھیں رھے اور قضاوت کے احکام لوگوں پر چھوڑ دئے گئے ھیں؟ کیا ھر وہ شخص جو ان آیات اور اسی طرح کی دوسری آیات کو ملاحظہ کرنے کے بعد یھی نتیجہ اور فیصلہ کرے گا؟! یا نہ اس کا فیصلہ یہ ھوگا کہ کسی بھی وقت اور کسی بھی حالت میں خدا وندعالم کے احکام کو پاؤں سے روندھا نھیں جاسکتا؟
بے شک ھر وہ صاحب عقل اور انصاف پسند انسان جو خدا پر ایمان رکھتا ھو اور ان آیات کو خدا کا کلام سمجھے تو ان آیات کے لب ولھجے کو دیکہ کر یہ یقین نھیں کرسکتا کہ یہ مذکورہ آیات صرف رسول اکرم (ص) کے زمانہ اور زیادہ سے زیادہ آنحضرت کے بیس سال بعد تک کے لئے ھیں؛ بلکھ(ان آیات کے لب ولھجے کو دیکہ کر) اس کو یقین ھوجائے گا کہ تاقیامت ان آیات کے مضمون پر عمل ھونا چاھئے، اور ھمیشہ احکام خدا کو اپنے اعمال کے لئے نمونہ عمل قرار دینا چاھئے، اور ان کی خلاف ورزی نھیں کرنا چاھئے:
( وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُودَ اللهِ فَاٴُوْلَئِکَ ھمْ الظَّالِمُونَ ) (7)
” اور جو حدود الٰھی سے تجاوز کرے گا اس کا شمار ظالمین میں سے ھوگا۔“
اس کے علاوہ اگر بعض آیات کا مضمون کسی قدر واضح اور روشن نہ ھوتا تو اس میں کچھ شبہ ھوسکتا تھا، علماء او رمجتھدین کا وظیفہ ھے کہ یہ معین کریں کہ یہ آیات کسی خاص زمانہ سے مخصوص ھیں یا زمانہ کے لحاظ سے مطلق ھیں اور کیا کسی خاص قوم( جزیرة العرب کی عوام) سے مخصوص ھیں یا ان آیات میں دوسرے تمام لوگ بھی شامل ھیں؟
بھر حال دشمن؛ احکام اسلامی اور قوانین اسلامی کو برداشت کرنے سے شانے خالی کرتے ھیں اور اپنی خواھش نفسانی نیز شیطانی ھواو ھوس کے تحت نیز جوان نسل کو گمراہ اور منحرف کرنے کے لئے یہ دعویٰ کرتے ھیں کہ اسلام کے اجتماعی اور سیاسی احکام رسول اکرم (ص) کے زمانہ سے مخصوص ھیں اور اس کے بعد کار آمد نھیں ھیں، اگرچہ ھم نے اپنی حکومت کو ”جمھوری اسلامی“ کا عنوان دیا ھے لیکن اسلام کا نام صرف ایک دکھاوٹی پھلو ھے ، اور عوام الناس جو قانون بھی بنانا چاھیں بناسکتے ھیں،اور اس پر عمل کرسکتے ھیں؛ چاھے وہ قوانین سو فی صد خداوند عالم کے حکم کے مخالف ھوں!! افسوس کہ بعض لوگ اپنے مقالات اور تقریروں میں اسی طرح کا نظریہ پیش کرتے ھیں، جبکہ ان سے اس کے علاوہ کی امید بھی نھیں ھے۔

6۔ انسانی، تمام مسائل میں احکام الٰھی کی وسعت
قارئین کرام ! یہ بات واضح ھوچکی ھے کہ اسلام کی طرف حکومت کے لئے کوئی خاص نقشہ پیش نہ کرنے کے یہ معنی نھیں ھیں کہ حکومت اور حکومتی قوانین : عدلیہ ، قانون گذاری اور اجرائے احکام سے متعلق قوانین (8) خود عوام الناس کے سپرد کردئے جائیں اور خداوندعالم ان کے بارے میں کوئی نظریہ نہ رکھتا ھو؛ بلکہ خداوندعالم نے انسان کے ذاتی اور اجتماعی مسائل میں اسی طرح حکومت و سیاست کے بارے میں دستور العمل بیان کیا ھے، اور ھمیں کوئی ایک ایسا مورد نھیں ملے گا جس میں خدا وندعالم کا حکم شامل نہ ھوتا ھو۔
وضاحت ھم جو کچھ بھی کام انجام دیتے ھیں اور جو احکام ھم پر لاگو ھوتے ھیں ان میں سے بعض احکام وجوبی اور الزامی ھوتے ھیں جن پر عمل کرنا ضروری ھوتا ھے ان کے مقابلہ میں بعض احکام حرام ھوتے ھیں جن کا ترک کرنا واجب ھوتا ھے، ان اوامر ونواھی والے الزامی احکام کے علاوہ دوسرے احکام جائز ھوتے ھیں او ران پر غیر الزامی احکام جاری ھوتے ھیں، غیر الزامی احکام یہ ھیں: مستحب، مکروہ اور مباح پس ھمارے تمام کام انھیں پانچوں قسم میں سے ھوتے ھیں چاھے وہ واجب ھوں یا حرام، مستحب ھوں یا مکروہ اور مباح، اور یہ تمام خداوندعالم کے احکام ھیں۔
اس بنا پر اگر کسی مقام پر کوئی کام حرام یا واجب یا مستحب یا مکروہ نہ ھو تو وہ کام انسان کے لئے آزاد ھے جس کو روایات میں مطلق اور فقھاء ومجتھدین کی اصطلاح میں ”مباح“ کھا جاتا ھے؛ مباح بھی خداوندعالم کے احکام میں سے ایک حکم ھے لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ انسان کے انفرادی اور اجتماعی مسائل میں کوئی چیز ایسی نھیں ھے جس پر حکم خدا شامل نہ ھو،کیونکہ ھر مسئلہ یا ھر موضوع پر احکام خمسہ (واجب ، حرام، مستحب، مکروہ اور مباح) میں سے کوئی نہ کوئی حکم ضرور شامل ھوگا البتہ حقوق اور سیاست کے لحاظ سے مستحب اور مکروہ صرف اخلاقی پھلو رکھتا ھے اور ان کا ذکر حقوقی مسائل میں بیان نھیں ھوتا اور مسائل حقوقی یا واجب ھیں جن کی رعایت ھونا چاھئے یا حرام جن کو ترک کیا جائے یا مباح ھیں (چاھے عمل کرے یا نہ کرے۔(
آخر میں یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ اگر ھم نے مان لیا کہ اسلام نے حکومت کے سلسلہ میں نظریہ پیش کیا ھے،اور وہ شخص جو اقتدار میں مرکزیت رکھتا ھے اس کے لئے خاص شرائط وصفات معین کئے ھیں ، جس کے نتیجہ میں جو شخص ان صفات کا حامل ھوگا وھی شریعت اسلام کی طرف سے معاشرہ کی رھبری کے لئے حکومت کے لئے منصوب ھوگا؛ تو کیا جن مسائل میں اسلام نے بیان نھیں دیا ھے وہ عوام الناس کے حوالے ھیں اور ان میں شریعت اسلام نے کوئی تصمیم گیری نھیں کی ھے اور اس سلسلہ میں ان کو طے کرنے کے لئے عوام الناس کی سمجھ بو جہ اور ان کے درمیان موجود عرف کے مطابق عمل کیا جائے؟ یھاں پر ، حتیٰ وہ افراد جو اسلامی اور فقھی بحثوں سے کسی حد تک آشنائی رکھتے ھیں کبھی کبھی ایسے گول مٹول الفاظ استعمال کرتے ھیں جن سے دوسرے ناجائز فائدہ اٹھاتے ھیں،مثال کے طور پر کھتے ھیں: ھم اپنی زندگی کے بعض مسائل کو دین اسلام سے اخذ کریں اور ان کے سلسلہ میں قرآن مجید، روایات اور زیادہ سے زیاہ پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ اطھار علیھم السلام کی عملی سیرت کی طرف رجوع کریں؛ لیکن ان کے علاوہ اپنی عقل کے مطابق عمل کریں در حقیقت ھم اپنی صحیح زندگی کی راہ کو معین کرنے کے لئے دو منابع رکھتے ھیں: ایک قرآن مجید ، دوسرے عقل اس طرح کے مسامحہ آمیز (ذو معنی ) الفاظ وہ حضرات استعمال کرتے ھیں جو صاحب نظر اور واقعاً متدین ھیں، اور چونکہ اس طرح کی باتیں باعث لغزش و گمراھی ھوتی ھیں لھٰذا ان کو ردّ کرنا ضروری سمجھتے ھیں۔
اس نکتہ پر توجہ کرنا ضروری ھے کہ حکم شرعی اور حکم الٰھی کے لئے کم سے کم دو اصطلاح موجود ھیں:
1۔ حکم شرعی کی پھلی اصطلاح : (یا حکم تعبدی اور الٰھی) وہ حکم ھے جو قرآن مجید اور سنت نبوی سے حاصل کیا جاتا ھے، وہ قرآن اور معتبر احادیث میں ذکر ھوئے ھیں اس اصطلاح کے مطابق وہ حکم جو دوسرے طریقہ سے حاصل ھو جیسے عقل کے ذریعہ تو اس کو شرعی حکم نھیں کھا جاتا، بلکہ اس کو ”حکم عقل“ کھا جاتا ھے لھٰذا اگر کسی حکم کو عقل مستقل طور پر حاصل کرلے ، اور اس سلسلہ میں شریعت مقدس کی طرف سے بھی حکم وارد ھوا ھو، تو اس (شرعی حکم) کو ارشادی کھا جاتا ھے جس میں حکم شرعی اور تعبدی نھیں ھوتا۔
وضاحت ھماری عقل دوسری چیزوں سے قطع نظر بعض چیزوں کو سمجھتی ھے مثلاً ھر صاحب عقل انسان اس بات کو آسانی سے سمجھ لیتا ھے کہ عدالت اچھی چیز ھے اور ظلم بری چیز ھے؛ اور کوئی بھی صاحب عقل، عقل کے اس حکم میں شک نھیں کرتا اس وقت جب قرآن مجید کی آیت میں عدل کے بارے میں حکم ھوتا ھے تو فقھاء کی اصطلاح میں اس حکم کو ”ارشادی“ کھا جاتا ھے ؛ یعنی یہ آیت صرف عقل کے اس حکم پر ھدایت کرتی ھے جو ھماری عقل نے الگ سے سمجھ لیا ھے۔
حکم شرعی میں اس اصطلاح کا فقھاء کے یھاں استعمال ھونا بعض لوگوں کے منحرف ھونے کاسبب بنا ھے اور خیال کیا جانے لگا کہ ھم اپنی زندگی کے تمام مسائل میں شرعی حکم کے محتاج نھیں ھیں بلکہ بعض مسائل میں ھمارے لئے حکم عقل کافی ھے اور پھر ان میں خدا وند عالم کی کوئی حکومت نھیں ھوگی،کیونکہ خداوندعالم کی حاکمیت ان احکام میں ھوتی ھے جو قرآن مجید اور سنت پیغمبر میں نازل ھوئے ھیں، اور اگر کسی سلسلہ میں خدا کا کوئی حکم نہ ھو تو وھاں پھر خدا نے اپنی حاکمیت کو نھیں رکھا ھے بلکہ اس کو عقل کے سپرد کردیا ھے پس ھماری زندگی کے امور دو حصوں میں تقسیم ھوتے ھیں: بعض میں خدائی سلطنت ھے اور دوسرے حصہ میں ھماری عقل حاکم ھے اس کے معنیٰ یہ ھیں کہ خدا وندعالم تمام مقامات پر حکومت نھیں رکھتا، ھمیں ھر جگہ خدا کے حکم کو تلاش نھیں کرنا چاھئے بلکہ جس جگہ خدا کا حکم نہ ھو اس کو ھمارے حوالے کردیا ھے تاکہ ھم اپنی عقل کے ذریعہ اس کا حکم حاصل کرلیں۔
قارئین کرام ! جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ فقھاء کے یھاں پھلی اصطلاح میں حکم شرعی میں مسامحہ آمیز تعبیر استعمال کی گئی ھے، (جس کی بنا پر حکم شرعی اس حکم تعبدی کو کھا جاتا ھے جو قرآن وسنت میں ذکر ھوا ھو، اس کے مقابلہ میں عقل کے قطعی اور یقینی حکم کو قرار دیتے ھیںجس کے سلسلہ میں شارع مقدس نے کوئی تعبد نھیں رکھا ھے، اور ھماری عقل اس حکم کو حاصل کرنے میں شریعت کی پابند نھیں ھے، اور شریعت نے صرف اس سلسلہ میں ارشادی حکم کو پیش کیا ھے) جس سے بعض لوگوں نے غلط نتیجہ نکالا ھے اور یہ اعتقاد کرلیا کہ ھماری زندگی کا ایک حصہ خداوندعالم کی حاکمیت اور سلطنت سے باھر ھے اور اس سلسلہ میں قوانین کو مرتب کرنا عقل کی ذمہ داری ھے۔
2۔ حکم شرعی کی دوسری اصطلاح: یہ ھے کہ وہ احکام جو خداوند عالم کے ارادہ تشریعی سے متعلق ھو ں؛ یعنی ھر وہ کام جو خداوندعالم ھم سے چاھتا ھے چاھے الزامی صورت میں ھو یا مباح کی صورت میں ھو پس جو کچھ خداوندعالم ھم سے چاھے کہ ھم اسے انجام دیں تو وہ حکم خدا ھے؛ چاھے وہ قرآن وسنت اور تعبدی دلائل کے ذریعہ ثابت ھوں اور چاھے عقل کے ذریعہ ثابت ھوں اس بنا پر خود عقل بھی حکم خدا کی پھچان کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ھے لھٰذا ھم اس کی اطاعت کرتے ھیں اور اس کی پیروی کرتے ھیں کیونکہ عقل خداوندعالم کے تشریعی ارادہ کی عکاسی کرتی ھے، لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ یہ حکم وھی چیز ھے جس کو خداوندعالم نے ھم سے چاھا ھے اگر فقھی کتابوں میں بیان ھوا ھے کہ قرآن مجید، سنت نبوی کے علاوہ بھی احکام شرعی کو ثابت کرنے کے لئے ایک دوسری چیز بھی ھے جس کو عقل کھا جاتا ھے تو اس کے معنی یہ ھیں کہ عقل بھی خدا کے احکام کو پھچاننے والے طریقوں میں سے ایک طریقہ ھے، اور عقل بھی قرآن وسنت کی طرح حکم خدا کو کشف کرسکتی ھے اور حکم خدا صرف قرآن وسنت میں منحصر نھیں ھے بلکہ احکام خدا وہ ھیں جس پر خدا کا ارادہ تشریعی متعلق ھو جو قرآن سنت اور عقل کے ذریعہ کشف ھوتا ھے۔ قارئین کرام ! اس اصطلاح اور معنی کے پیش نظر انسان کے تمام کام چاھے وہ انفرادی ھوں یا اجتماعی، چاھے حقوقی ھوں یا جزائی یا اندرونی ھو یا بیرونی اور بین الاقوامی تمام پر حکم شرعی اور حکم خدا شامل ھے؛ چاھے حکم خدا قرآن وسنت کے ذریعہ اثبات ھو یا عقلی طریقہ پر ثابت ھو البتہ توجہ رھے کہ عقلی حکم اس قدر واضح ، روشن اور یقینی ھو کہ جس پر ھمیں اطمینان ھوجائے کہ جو کچھ عقلی دلیل کے ذریعہ ثابت ھوا ھے وہ خداوندعالم کے تشریعی ارادہ سے متعلق ھے۔

حوالے:
)1( مشروطیت اس شاھی حکومت کو کھتے ھیں جس میں قوانین کے تحت کام کیا جائے (مترجم(
(2)سورہ نساء آیت 1۰5
(3) سورہ نساء آیت 65
)4) سورہ مائدہ آیت 44
)5) سورہ مائدہ آیت 45
(6) سورہ مائدہ آیت 47
(7) سورہ بقرہ آیت 22۹
(8) جن کو ھم فلسفہ سیاست کی تھیوریوں میں بیان کریں گے