اسلام اور سیاست جلد(2)
بتّیسواں جلسہ
اسلامی نظام کے اعتقادی عظمت بیان ھونے کی ضرورت

1۔ اسلامی حکومت کی تھیسز"The'sis" کی پھچان کے مختلف طریقے
ھم نے گذشتہ جلسوں میں اسلامی حکومتی نظام کے مختلف ڈھانچوں کی طرف اشارہ کیا اور کھا کہ حکومتی نظام ایک چند پھلو طاقت کی طرح ھے جس کی صدارت اس شخص کے پاس ھو جو بالواسطہ یا بغیر واسطہ خداوندعالم کی طرف منصوب ھو اور یہ نقشہ سیاسی فلسفہ میں ایک تھیوری"Theory"کے نام سے بیان ھوتا ھے ، لیکن اس کو ثابت کرنا کہ واقعاً یہ نقشہ اسلامی بھترین نظریہ ھے جس کو حکومت اور اسلامی معاشرہ کی عظیم مدیریت کے لئے پیش کیا جانا واقعاً مزید علمی اور دقیق مطالعہ کی ضرورت ھے؛ اسی وجہ سے اس سلسلہ میں بھت سے ایسے سوالات ھیں جن کے جوابات کے لئے ماھرین اور فقھاء کرام کو بھترین علمی اور دقیق تحقیقات کے بعد جوابات پیش کرتے ھیں، البتہ ان سوالات کے جوابات کو تین مرحلوں میں جواب دیئے جاسکتے ھیں:

الف۔ مختصر شناخت:
کبھی کبھی انسان اپنے وظیفہ اور ذمہ داری کی پھچان کے لئے ماھرین کی طرف رجوع کرتا ھے، تاکہ وہ اپنے علمی قواعد کے تحت اس کا وظیفہ معین کریں، مثلاً عوام الناس کا مراجع تقلید کی طرف رجوع کرنا،اور ان سے استفتاء کرنا اورشرعی امور میں اپنے وظیفہ کو معین کرنے کی درخواست کرنا ، اسی طرح ھر صنف کے ماھرین کی طرف رجوع کرنا؛ جیسے کسی مریض کا ماھر ڈاکٹر کے پاس جانا اور اس سے علاج کرنے کی درخواست کرنا، اسی طرح کسی بلڈنگ یا مکان کا نقشہ بنوانے کے لئے کسی بلڈر کی طرف رجوع کرنا اور ظاھر ھے کہ اس صورت میں اس کو مختصر سا جواب دیا جاتا ھے اور اس میں علمی اصول کی تفصیل بیان نھیں کی جاتی، بلکہ در حقیقت اس علم کا ما حصل اور خلاصہ بیان کیا جاتا ھے۔
یہ بات ظاھر ھے کہ اسلامی حکومت کے سلسلہ میں مختصر اور اجمالی شناخت ھمارے معاشرہ کے لئے واضح ھے اور جس وقت سے ھمارے ملک میں اسلامی حکومت قائم ھوئی ھے تو کوئی بھی ایسا شخص نھیں ھوگا جس کو اسلامی حکومت کی حقیقت کے بارے میں معلومات نہ ھوگی شاید اسلامی انقلاب سے پھلے بھت کم ھی ایسے افراد ھوں گے جو اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ کے بارے میں آگاہ نہ ھوں ،اور ان کے لئے مختصر طور پر اس تھیوری کی معلومات فراھم کی جائے لیکن (الحمد للھ) آج کل کسی شخص کو اسلامی حکومت کے بارے میں مختصر اور اجمالی شناخت کے بارے میں بتانے کی ضرورت نھیں ھے (بلکہ اس سلسلہ میں عام شناخت اور معلومات رکھتے ھیں) البتہ ایسا بھی نھیں ھے کہ اسلامی حکومت کے بارے میں تفصیل اورمکمل وضاحت کی ضرورت نہ ھو، بلکہ مسئلہ یہ ھے کہ ولایت فقیہ اور اسلامی حکومت کی اصل تھیوری عوام الناس کے لئے حل شدہ اور روشن ھے،یھاں تک کہ ھمارے مخالفین اور دشمن بھی اس سلسلہ میں معلومات رکھتے ھیں،جبکہ وہ اپنی تمام تر طاقت انقلاب اور اسلام کی مخالفت میں خرچ کرتے رھتے ھیں لیکن ادھر چونکہ ھماری عوام نے اپنے نظام کی حقانیت کو درک کرلیا ھے تو یہ بھی اپنے تمام وجود سے اس اسلامی انقلاب اور ولایت فقیہ کا دفاع کرتے ھیں اور اس انقلاب اور اسلامی نظام کی حفاظت کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار رھتے ھیں چنانچہ ھمارے افراد انقلاب اور نظام اسلامی کے دشمنوں کے مقابلہ میں ”مرگ بر ضد ولایت فقیھ“ ( ولایت فقیہ کے دشمن مرجائیں) کے نعرہ کو ولایت فقیہ دشمنوں سے مخالفت کا ایک اعلان سمجھتے ھیں، اور ھمیشہ اس نعرہ کی حفاظت کرتے ھیں اور اسی پر قائم ر ھیں یھاں تک کہ سیاسی اور مذھبی محفلوں اور مساجد میں بھی اس کو دعا کے عنوان سے ھمیشہ پڑھتے رھتے ھیں۔
قارئین کرام ! اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ کے سلسلہ میں مختصر جواب کے علاوہ دوسرے دو جواب بھی موجود ھیں : ایک صاحب نظر اور ماھرین افراد کے لئے اجتھادی اور اکیڈمیک جواب، اور دوسرا اسٹوڈینٹس وغیرہ کے لئے متوسط قسم کا جواب ھے۔

ب۔ مخصوص اور علمی شناخت:
تفصیلی ، علمی اور مخصوص نیز اکیڈمیک جواب ان افراد کے لئے ھوتا ھے جوبلند ترین علمی درجات پر فائزھوتے ھیں اور اپنی تمام تر استعداد اور امکانات کو اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ کے موضوع سے مخصوص کرتے ھیں جیسے وہ طالب علم جو ”اسلامی حکومت“ یا اس کے کسی ایک حصے میں ڈاکٹری کرنا چاھتا ھے اور اپنا پایان نامھ( علمی رسالھ) لکھنا چاھتا ھے جس کے بعد اس کو "P.H.D"کی سند ملتی ھے تو وہ اس موضوع پر تحقیقی نظر ڈالتا ھے اور اس کے تمام پھلوؤں پر نظر ڈالتا ھے اور چند سال تک اس کی تحقیق وبررسی کرتا ھے، اور علمی و دقیق منابع ومآخذ کا مطالعہ کرتا ھے نیز اس فن کے ماھر اور زبدہ اساتیذ سے صلاح ومشورہ کرنے کے لئے اپنے استدلال و برھان بیان کرتا ھے تاکہ اس کی پی ایچ ڈی قبول ھوجائے۔
اسی طرح علمی اور دقیق کاوشیں حوزات علمیہ میں بھی انجام پاتی ھیں اور جو لوگ درس خارج میں مشغول اور قریب الاجتھاد ھوتے ھیں اور اپنے مورد نظر مسائل میں استنباط کرنا چاھتے ھیں تو کبھی کبھی ایک ظاھراً معمولی اور چھوٹے سے مسئلہ کی سالوں تحقیق اور مطالعہ کرتے ھیں، اور دسیوں کتاب کا مطالعہ کرتے ھیں، اور فقھاء ومجتھدین سے بحث وگفتگو کرتے ھیں تاکہ آخر میں اپنا مخصوص نظریہ پیش کرسکیں اس سلسلہ میں کوئی شک نھیں ھے کہ تمام نظری مسائل منجملہ عقائد، اخلاق، احکام فرعی، اجتماعی، سیاسی، حقوقی، اور بین الملل مسائل میں اس طرح کی دقیق اور علمی بحث کی ضرورت ھے تاکہ اس سلسلہ میں ماھرین علماء کے ذریعہ اسلامی فرھنگ وثقافت کا وقار اپنی جگہ باقی ھے؛ لیکن یہ بات مخفی نہ رھے کہ اس طرح کے جوابات نہ تو عوام الناس کے لئے ضروری ھیں اور نہ ھی مفید ھیں۔

ج۔ متوسط شناخت:
آخر میں ”اسلامی حکومت اور ولایت فقیھ“ جیسے مسائل کے جواب کے لئے متوسط اور درمیانی قسم کی تحقیق وبررسی ھمارے سامنے ھے،جن کو عام جلسوں میںبیان کیا جاسکتا ھے ، جبکہ ھمارا مقصد بھی ان جلسات میں اسی قسم کے جوابات پیش کرنامقصود ھیں، ھم نہ تو اسلامی حکومت کے سلسلے میں مختصر جواب پیش کرنا چاھتے ھیں جیسا کہ ایک مجتھد اور مفتی استفتاء کے جواب میں اپنے رسالہ عملیہ میں لکھتا ھے اور نہ ھی اس کو مفصل اور تحقیقی طور پر بیان کرنا چاھتے ھیںجن کا چند سال طولانی سلسلہ ھوسکتا ھے بلکہ ھمارا مقصد تو معاشرہ کے مختلف لوگوں کے لئے درمیانی(متوسط) قسم کی معلومات فراھم کرنا ھے تاکہ اسلامی نظام کے مخالف اور دشمنوں کے شبھات اور اعتراضات کا مقابلہ کرسکیں اور ان کی مختلف سازشوں کو ناکارہ بناسکیں معاشرہ کی اس وقت کی ثقافتی حالت ایک ایسے معاشرہ کی طرح ھے جس کا کسی خطرناک بیماری سے مقابلہ ھو اور سبھی کو اس سے خطرہ در پیش ھو اور اس بیماری سے مقابلہ کرنے کے لئے صرف ایک دفعہ ٹوک دینا کافی نھیں ھے یا صرف اس سلسلہ میں کار شناسی نظریہ اخبار یا دوسرے ذرائع ابلاغ میں اعلان کردینا کافی نھیں ھے، بلکہ اس بارے میں مسلسل تذکر اور ضروری ھدایات دینا ضروری ھے تاکہ عوام الناس کی معلومات میں اضافہ ھو اور اس اجتماعی بیماری سے مقابلہ کرسکیں ایک مختصر تذکر اور یاد دھانی کے علاوہ سمینار، کانفرنس اور تقریریں ھوں تاکہ اس سلسلہ میں عوام الناس کے لئے مسائل واضح اور روشن ھوجائیں اور اس سلسلہ میں موجودات خطروں کا پتہ لگالیں۔
اس وقت ھم ”اسلامی حکومت“ اور ”ولایت فقیھ“ کے سلسلہ میں متوسط قسم کی شناخت پیش کرنا چاھتے ھیں کیونکہ ھم یہ احساس کرتے ھیں کہ ھمارے آج کل کے نوجوان اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ اسلامی نظام کے رکن ؛ سے زیادہ معلومات نھیں رکھتے، اور بعض شیطان صفت لوگوں نے ان کو گمراہ کرنے کی ٹھان رکھی ھے لھٰذا چونکہ یھی ھمارے جوان جو ھماری امیدیں اور اس انقلاب کے وارث بھی ھیں ان کو اس سلسلہ میں معلومات حاصل کرنا چاھئے تاکہ ثقافتی آفتوں اور شیطانی مشکلات کا شکار نہ ھوں، لھٰذا ھم اپنی بحث کومتوسط قسم کے لحاظ سے بیان کرتے ھیں،تاکہ نظریہ ولایت فقیہ کے سلسلہ میں اجتماعی اور ثقافتی بصیرت ویقین میں اضافہ ھو، اور بعض التقاطی (چنیدھ) نظریات اور انحرافات وغیرہ سے مقابلہ کرسکیں اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ عوام الناس کو ولایت فقیہ کے نظریہ سے آگاہ کرنے اور اس کو ثابت کرنے کے لئے علمی اور دقیق راستہ نھیں اپنانا چاھئے ، جیسا کہ فقھاء ومجتھدین کسی ایک مسئلہ کو حل کرنے کے لئے آیات و روایات سے استدال کے وقت سند ودلالت کے بارے میں بھت زیادہ تفصیل سے بحث کرتے ھیں کیونکہ یہ طریقہ کار تو حوزہ علمیہ میں مجتھدین یا سیاسی علوم میں ڈاکٹری وغیرہ سے متعلق ھوتا ھے۔
قارئین کرام ! مذکورہ مطالب کے پیش نظر اس وقت ھم نظریہ ”ولایت فقیہ “کو آسان الفاظ میں اپنے جوانوں کے ذھنوں تک پھنچانا چاھتے ھیں تاکہ اگر کوئی شخص ان سے اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ کے بارے میں سوال کرے تو وہ جواب دے سکیںاور اپنے اعتقاد کا دفاع کرسکیں لیکن اگر ان کے سامنے دقیق تر سوالات بیان کئے جائیں جن میں تخصصی اور کار شناسی ( معاملہ فھم)بررسی وتحقیق کی ضرورت ھو تو ان کو ماھرین کی طرف رجوع کرنا چاھئے لھٰذا ھم نے اسی مذکورہ ھدف کی خاطر اپنی بحث کے دو حصے کئے: 1۔ قانون گذاری۔ 2۔ اجرائے قانون (قوانین کا نافذ کرنا)۔

2۔ قانون کی ضرورت اور اس کے خصوصیات پر ایک نظر
گذشتہ پھلے حصے کا خلاصہ :
1۔ انسان اپنی اجتماعی زندگی کے لئے قانون کا محتاج ھے، کیونکہ بغیر قانون کے زندگی میں افرا تفری ، حیوانیت اور انسانی اقدار نیست ونابود ھوجاتا ھے، چنانچہ یہ بات کسی بھی صاحب عقل پر پوشید نھیں ھے۔
2۔ اسلامی نقطہ نظر سے انسانی اجتماعی زندگی کے لئے ایسا قانون ضروری ھے جس سے مادی اور دنیاوی مصالح بھی پورے ھوتے ھوں اورمعنوی اور اُخروی مصالح بھی پورے ھوتے ھوں۔
یھاں پر اس بات کی یاد دھانی کرا دینا ضروری ھے کہ اگرچہ کبھی کبھی بعض اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے نئے نئے شبھات اوراعتراضات ھوتے ھیں جن کے جوابات دینا ضروری ھیں اگرچہ مختصر ھی کیوں نہ ھوں ، آج کل بعض مقالوں، تقریروں یھاں تک کے بعض ٹیلی ویزن پروگراموں میں یہ مسئلہ بیان ھوتا ھے کہ دنیاوی مسائل؛ اخروی مسائل سے جدا ھیں، یھاں تک کہ بعض لوگوں نے تو یھاں تک کھہ دیا کہ کوئی بھی قانون ایسا نھیں ھے جس سے دنیاوی اور اُخروی دونوں مصالح پورے ھوتے ھوں کسی بھی حکومت کو یا تو صرف دنیا پرست ھونا چاھئے اور دنیاوی اور مادی مسائل کو حل کرے یا آخرت پرست؛ جس میں دنیا سے کوئی مطلب نہ ھو۔
قارئین کرام ! مذکورہ بالا اعتراض ”اسلامی سیاسی نظام“ کے سلسلہ میں ھونے والے اعتراضات میں سب سے گھٹیا(پست) قسم کا اعتراض ھے، اور واقعاً افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ھے کہ بعض عھدہ دار افراد بھی اس سلسلہ میں بڑی آب وتاب اور شان وشوکت سے اس طرح کا اعتراض کرتے ھیں جن کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی گمراہ ھوجاتے ھیں۔
بے شک اسلامی نظریہ کی بنیاد اس بات پر قائم ھے کہ یہ دنیاوی زندگی آخرت کی زندگی کا مقدمہ اور پیش خیمہ ھے، اور جو کچھ بھی ھم اس دنیا میں اعمال انجام دیتے ھیں انھیں کی وجہ سے ھم آخرت میں سعادت مند یا شقاوت مند ھوںگے در حقیقت دین کا ھدف اور مقصد یہ ھے کہ انسانی زندگی اس طرح گذاری جائے تاکہ اس دنیاوی سھولتوں کے ساتھ ساتھ آخرت کی سعادت بھی حاصل ھوجائے ، یعنی خداوندعالم کی طرف سے بھیجے ھوئے انبیاء کرام علیھم السلام نے بشریت کے لئے ایسا نظام پیش کیا ھے جس سے انسان کی دنیاوی زندگی کے ساتھ آخرت کی زندگی بھی کامیاب اور سعادتمند قرار پائے اور چونکہ یہ مسئلہ بالکل واضح اور روشن ھے واقعاً تعجب کا مقام ھے کہ بعض وہ لوگ جو قرآن کریم اور سنت نبوی سے کم وبیش آگاھی رکھتے ھیں اور ان کو جاھل نھیں کھا جاسکتا وہ لوگ خود غرضی کی وجہ سے اپنی آنکھوں سے حقیقت کا نظارہ نھیںکرتے اور اپنی باتوں میں دنیاوی مسائل کو آخرت سے بالکل الگ کرتے ھوئے نظر آتے ھیں،چنانچہ کھتے ھیں: آخرت سے مربوط مسائل عبادت گاھوں، گرجا گھروں اور مساجد میں ھونا چاھئے، اس کے مقابل دنیاوی اور اجتماعی مسائل انسانی تجربہ اور غور وخوض سے حل ھوسکتے ھیں ، اور دین اس سلسلہ میں کوئی کردار نھیں کرسکتا !!
یہ ایک ایسا شیطانی اعتراض ھے جو ھر صاحب عقل مسلمان پر واضح ھے کہ یہ تمام ادیان بالخصوص اسلامی نظریہ کے مخالف ھیں۔
3۔تیسرا مقدمہ یہ ھے کہ اگر یہ مان بھی لیں کہ انسان نے ھمیشہ اپنے تجربات، علم اور غور وفکر سے کام لیتے ھوئے اپنے مادی اور دنیاوی ضرورتوں کو حاصل کرلے، ( البتہ دنیاوی مصالح بھی اُخری مصالح پورے ھونے کی صورت میں پورے ھوسکتے ھیں کیونکہ انسان احکام الٰھی سے فائدہ حاصل کئے بغیر دنیاوی مصالح کو بھی پورا نھیں کرسکتا) (تو پھر وھ) معنوی اور اُخروی مصالح کو پورا نھیں کرسکتا کیونکہ انسان خود بخود اُخروی مصالح کے بارے میں نھیں جانتا کیونکہ اسے نھیں معلوم کہ کونسا عمل اس کی اُخروی زندگی کی سعادت کے لئے مفید ھے؛ کیونکہ اس نے اُخروی زندگی کو دیکھا (بھی) نھیں ھے بالفرض اگر انسان دوسروں کی دنیاوی زندگی سے تجربہ حاصل کرلے اور اسی تجربہ کی بنا پر اپنے لئے زندگی کا راستہ معین کرلے، لیکن اُخروی زندگی کے سلسلہ میں نہ خود کو کوئی تجربہ ھے اور نہ ھی دوسروں کے تجربات اس کے سامنے ھیں، لھٰذا اپنے لئے آخرت کی سعادت اور کامیابی کا راستہ معین نھیں کرسکتا۔!!
قارئین کرام ! ھماری مذکورہ باتوں سے یہ بات طے ھوجاتی ھے کہ دنیاوی اور اُخروی مصالح صرف انھیں افراد کے ذریعہ حاصل ھوسکتے ھیں جن کو خداوندعالم نے اپنی علوم سے نوازا ھے؛ اور معاشرہ پر ایسے قوانین حاکم ھوں جو خداوندعالم کی طرف سے آئے ھوں تاکہ اس کے زیر سایہ دنیاوی مصالح بھی اور اُخروی مصالح بھی پورے ھوسکیں۔

3۔ قوانین جاری کرنے والے کے صفات پر دوبارہ ایک نظر
ھم نے قوانین کو جاری کرنے والے کے لئے تین مھم شرائط کا ذکر کیا، اور جو شخص قوانین کو جاری کرنے والا ھو نیز دنیاوی اور اُخروی مصالح کو پورا کرنے والا ھو اور خدا کی طرف اس کی نسبت ھو، اس کے لئے مذکورہ شرائط کا مالک ھونا ضروری ھے۔

مذکورہ شرائط:
پھلی شرط یہ تھی کہ قانون جاری کرنے والے اوراسلامی حاکم کو قانون شناس ھونا چاھئے البتہ علم ومعرفت کے مختلف درجات ھوتے ھیں اسی وجہ سے تمام افراد ایک درجہ میں نھیں ھوتے معرفت اور شناخت کے ان درجات میں نمونہ درجہ وہ ھے جس میں الٰھی قوانین سے بالکل خطا نہ ھو، اور ایسی شان صرف معصوم علیہ السلام کی ھوتی ھے جو معرفت اور ادراک میں کبھی کوئی خطا وغلطی نھیں کرتا،اور جو قانون خداوندعالم نے نازل کیا ھے اس کو کما حقہ پھچانتا ھے ظاھر سی بات ھے کہ اگر ایسی شخصیت یعنی معصوم علیہ السلام موجود ھو تو پھر معاشرہ کے لئے اس کی حکومت ضروری اور ترجیح رکھتی ھے لیکن اگر معصوم علیہ السلام غائب ھوں تو اس صورت میں یہ منصب ایسے شخص کا ھے جو دوسروں لوگوں سے زیادہ قوانین کی معرفت اور شناخت رکھتا ھو۔
دوسری شرط یہ تھی کہ قانون کا جاری کرنے والا شخص عملی میدان میں اپنے ذاتی مفاد یا کسی گروہ کے حق میں کام نہ کرے؛ یعنی اخلاقی صلاحیت رکھتا ھو اور یہ اخلاقی صلاحیت بھی علم کی طرح مختلف درجات رکھتی ھے جس کا نمونہ درجہ معصوم علیہ السلام کی شخصیت میں تصور کیا جاسکتا ھے کیونکہ معصوم علیہ السلام کی ذات کسی بھی وقت غیر الٰھی انگیزوںکے تحت تاثیر قرار نھیں پاتی اور نا ھی کسی کا خوف اور ناھی کوئی لالچ ھوتا ھے، نیز اجتماعی منافع ومصالح کو اپنی ذاتی یا گھریلو یا گروھی مصالح پر قربان نھیں کرتا لیکن اگر معصوم علیہ السلام کی ذات موجود نہ ھو تو پھر ایسا شخص جو اس سلسلہ میں معصوم (ع) سے بھت زیادہ شباھت رکھتا ھو ، وھی قوانین الٰھی کو جاری کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے۔
تیسری شرط یہ تھی کہ قوانین کو جاری کرنے والا مدیریت اور کلی قوانین کو جزئی قوانین پر منطبق کرنے میں کافی مھارت رکھتا ھو، یعنی خداوندعالم کے عام قوانین سے آگاھی کے ساتھ ان کے مصادیق کو بھی جانتا ھو اور یہ بھی جانتا ھو کہ کس طرح ان قوانین کو جاری کیا جانا چاھئے تاکہ قوانین کا اصل ھدف محفوظ رھے البتہ قوانین کو جاری کرنے میں اس قدر مھارت اور مدیریت کے لئے خاص تجربات کا ھونا ضروری ھے جن کو انسان اپنی زندگی میں حاصل کرتا ھے ، جس کا بھترین اور عالی ترین مرتبہ امام معصوم (ع) میں تصور کیا جاسکتا ھے،کیونکہ معصوم علیہ السلام کی ذات جس طرح خداوندعالم کے قوانین کی شناخت میں غلطی نھیں کرسکتا اور مقام عمل میں بھی ھوای نفس کے تحت تاثیر واقع نھیں ھوسکتا اور خداوندعالم کی خاص تائید اس کے شامل حال ھوتی ھے،اور معاشرہ کے مصالح کو معین کرنے ، عام موارد کو خاص موارد میں منطبق کرنے میں (بھی) انحراف اور غلطی کا شکار نھیں ھوتا۔

4۔اعتقادی اصول سے اسلامی حکومت کی تھیوری کا تعلق
بےشک اگر کوئی شخص مذکورہ مقدمات کو قبول کرے کہ واقعاً انسانی معاشرہ کے لئے ایسے قوانین کی ضرورت ھے جن سے مادی اور دنیاوی مصالح پورے ھوتے ھوں اور معنوی اور اُخروی مصالح بھی، اور اسلامی حاکم اور اسلامی معاشرہ کے ذمہ دار افراد کے شرائط کو بھی قبول کرتا ھو تو پھر اس صورت میں اسلامی نظام کی حقانیت کو قبول کرنا آسان ھے البتہ خود مذکورہ مقدمات کو قبول کرنا بھی دوسری چیزوں پر موقوف ھے: کیونکہ پھلے درجہ میں انسان کو یہ ماننا پڑے گا کہ خدا ھے، اس کے بعد یہ قبول کرے کہ اس نے ایسے پیغمبر کو بھیجا جس نے اس کے احکام بندوں تک پھونچائے اسی طرح یہ بھی قبول کرے کہ اس دنیاوی زندگی کے بعد ایک اُخروی زندگی بھی ھے اور اس دنیاوی زندگی اور اُخروی زندگی میں علت ومعلول والا تعلق ھے یہ تمام مقدمات ھماری بحث کے مبنیٰ ھیں، جن کو اعتقادی، کلامی اور فلسفی مباحث میں تفصیلی طور پر ثابت کیا گیا ھے، اور عام اجتماعی، حقوقی اور سیاسی جلسات میں ھر ایک پر الگ الگ بحث نھیں کی جاسکتی ورنہ تو نتیجہ تک پھنچے کے لئے سالوں درکار ھوں گے۔
ھمارے مخاطب مسلمان اور وہ حضرات ھیں جو خدا، دین، وحی، نبوت، پیغمبر، عصمت اور قیامت کو قبول رکھتے ھیں اور یہ معلوم کرنا چاھتے ھیں کہ کیا اسلام حکومتی نظام پیش کرتا ھے یا نھیں؟ نہ وہ لوگ جو منکر خدا ھیں ، اور نہ ھی وہ لوگ جو خود خدا کے خلاف جلوس نکالنے اور اس کے خلاف نعرے لگانے کے لئے تیار ھوں!! اور نہ ھی وہ لوگ جو دین اور احکام اسلام کو بالکل ھی نھیں مانتے،اور نہ وہ لوگ جو پیغمبر کے لئے کھتے ھیں کہ وہ بھی دوسروں کی طرح وحی کو سمجھنے میں غلطی کرسکتا ھے اسی طرح جو افراد اصول میں ھمارے مخالف ھیں وہ اس وقت کی بحث میں ھمارے مخاطب نھیں ھیں اگر وہ لوگ بحث وگفتگو کرنا چاھتے ھیں تو ان سے کسی دوسرے موقع پر بحث کی جاسکتی ھے اور ان کے سامنے اعتقادی اصول کو عقلی اور فلسفی برھان کے ذریعہ ثابت کیا جاسکتا ھے اور ان کی ھدایت کی جاسکتی ھے اور ان کو یہ سمجھایا جاسکتا ھے کہ ھاں خدا بھی ھے اور قیامت بھی آئے گی، نیز خداوندعالم نے ھدایت بشر کے لئے انبیاء کرام کو بھیجاتاکہ وہ ان کو اس کے بندوں تک پھنچائے اسی طرح پیغمبر معصوم ھوتا ھے اور وحی کے سمجھنے میں کسی طرح کی کوئی غلطی واشتباہ نھیں کرتا اور اگر ایسا نہ ھو تو پھر وہ پیغمبر نھیں ھوسکتا۔
قارئین کرام ! مذکورہ مقدمات کو قبول کرتے ھوئے کیا کوئی صاحب عقل اس بات کو قبول کرسکتا ھے کہ معصوم علیہ السلام کے ھوتے ھوئے؛ جو علم ورفتار میں معصوم ھو اور دوسروں کی نسبت معاشرہ کے مصالح کو بھتر درک کرتا ھو ؛ کوئی دوسرا مسند قدرت پر بیٹہ جائے؟ ! کیونکہ یہ بات تو سب کو معلوم ھے کہ اختیاری صورت میں مرجوح کو راجح پر اور بھترکو غیر بھتر پر ترجیح دینا قبیح اورناپسند ھے اور کوئی بھی صاحب عقل وشعور اس کو قبول نھیں کرتا ھماری گفتگو ان لوگوں سے ھے جو خود کو مسلمان کھلاتے ھیں،لیکن معصوم کے وجود کا اقرار نھیں کرتے، اور معتقد ھیں کہ نہ تو پیغمبر معصوم تھے اور نہ ھی ائمہ (علیھم السلام) معصوم تھے؛ ان لوگوں سے بھی ھمارا کوئی سروکار نھیں ھے ھمارامفروضہ یہ ھے کہ تمام موضوعہ اصول کو قبول رکھتے ھوں اور پیغمبر اکرم (ص) کو معصوم مانتے ھوں ، اور شیعہ اعتقاد کے مطابق ائمہ علیھم السلام کو بھی معصوم مانتے ھوں۔
فرضیہ یا مفروضہ یہ ھے کہ اگر معاشرہ میں معصوم علیہ السلام موجود ھوں تو کیا اس صورت میں حکومت کسی غیر معصوم کے سپرد کی جاسکتی ھے؟ کیونکہ غیر معصوم کو حکومت سپرد کرنے کا مطلب یہ ھے کہ قانون کے سمجھنے میں غلطی اور اشتباہ کو جائز مانتے ھیں،اور اس چیز کو بھی جائز مانتے ھیں کہ کوئی شخص اپنے ذاتی مفاد کو معاشرہ کے مفاد و مصالح کو جائز مانیں اور معاشرہ کے منافع ومصالح کو اپنی خواھشات پر قربان کردے، نیز اس بات کو بھی جائز ماننا ھے کہ کوئی معاشرہ پر حکومت کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے ھوئے بھی معاشرہ کی حکومت اپنے ھاتھوں میں لے لے!! جبکہ یہ تمام چیزیں عقلی لحاظ سے مردود اور قابل قبول نھیں ھیں اس بنا پر کوئی بھی صاحب عقل اس چیز میں شک نھیں کرتا کہ اگر امام معصوم (ع) معاشرہ میں حاضر ھو تو اسی کو حکومت سپرد کرنا اولیٰ اور بھتر ھے،اور اگر اس کے بجائے کسی دوسرے کو حکومت کے لئے انتخاب کیا جائے تو یہ کام غیر عقلی اور بے ھودہ ھے اس صورت میں کسی کو شک نھیں ھے اور اسی بات پر تمام لوگوں کی عقل حکم کرتی ھے، نیز اس کو ثابت کرنے کے لئے ھمیں احادیث سے استدلال کرنے اور ان آیات کو بیان کرنے کی ضرورت نھیں ھے جن میں پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ علیھم السلام کی اطاعت کو واجب قرار دیا گیا ھے ، مثال کے طور پر :
( یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُمْ ) (1)
”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمھیں میں سے ھیں۔“
( مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ اٴَطَاعَ اللهَ ) (2(
” جو رسول کی اطاعت کرے گا اس نے اللہ کی اطاعت کی “

5۔ حکومت کے طولی(تحت) مراتب کی منطقی اور عقلی دلیل
قارئین کرام ! اگر امام معصوم معاشرہ میں حاضر ھوں تو اسی کی حکومت اولویت رکھتی ھے اس سلسلہ میں ذکر شدہ مطالب ایک استدلال اور عقلی متوسط بیان ھے جو سبھی کے لئے قابل قبول اور قابل دفاع ھے،یھاں تک کہ اگر کوئی حکومت (وولایت) کے سلسلہ میں قرآنی آیات سے بھی آگاہ نہ ھو، چنانچہ ھمارے ذکر شدہ مطالب کے پیش نظر اپنے اعتقاد کا دفاع کرسکتا ھے لیکن ھماری اصل بحث امام معصوم علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں اسلام کا نظریہ پھنچاننے کے بارے میں ھے کہ جب عوام الناس امام معصوم کے وجود سے محروم ھو، اور اس تک رسائی ممکن نہ ھو، تاکہ اس کی حکومت سے بھرہ مند ھوسکیں اسی طرح امام معصوم علیہ السلام کے حضور کا وہ زمانہ، جس میں ظالم حکومت معصوم کی حکومت سے مسلمانوں کو محروم کردے، یا اجتماعی حالات ایسے نہ ھوں جس میں معصوم علیہ السلام قدرت کو اپنے ھاتھوں میں لے سکے۔
ان دونوں صورتوں میں ھم کسی علمی ، فنّی اور اکیڈمیک دلائل سے استدلال نھیں کرتے جس کا سمجھنا عام لوگوں کے لئے مشکل ھو، بلکہ ھم تو ایک عام عقلی قاعدہ سے استدلال کرتے ھیں جس طرح ھر عام انسان اپنی روز مرہ زندگی میں اسی عقلی قاعدہ سے استدلال کرتا ھے، اور وہ یہ ھے کہ اگر کسی سلسلہ میں سو فی صد والا درجہ میسر نہ ھو تو پھر 99 فی صد والے درجہ کو انتخاب کرتا ھے اگر کسی چیز کاکامل درجہ حاصل کرنا ممکن نہ ھو تو پھر کامل سے نزدیک والے درجہ کا انتخاب کرتا ھے چنانچہ اس قاعدہ سے مختلف مقامات پر استفادہ کیا جاسکتا ھے، مثلاً:کسی بھی عھدہ کے لئے کچھ خاص شرائط اور صفات رکھے جاتے ھیں، اور اگر کسی میں وہ تمام شرائط پائے جاتے ھیں تو اسی شخص کا انتخاب کیا جاتا ھے، لیکن اگر ان تمام صفات کا حامل شخص نہ مل پائے تو پھر ایسے شخص کا انتخاب کیا جاتا ھے جو اس سے کم شرائط رکھتا ھو، لیکن دوسروں پر برتری اور فضیلت رکھتا ھو۔
دوسری مثال: اگر آپ کسی ایسے ڈاکٹر سے علاج کراسکتے ھیں جو تیس سال کا تجربہ رکھتا ھو اوروہ اپنی ڈاکٹری میں خاص مھارت اور روشن فکری رکھتا ھے ، لیکن آپ اس کو چھوڑ کر کسی ایسے ڈاکٹر سے علاج کرائیں جس نے ابھی ڈاکٹری کی سند لی ھے اور ابھی کلینک کھولی ھے اگر آپ اس سے علاج کرائیں اوروہ غلط علاج کرے تو آپ کی بیماری کا نہ صرف علاج ھوگا بلکہ اس میں شدت آجائے گی، تو کیا آپ عقل اور عقلاء کی نظر میں محکوم نھیں ھیں؟ اور کیا عقلاء آپ کی ملامت نھیں کریں گے کہ ایک ماھر (اسپیشلسٹ)ڈاکٹر کے ھوتے ھوئے وہ بھی آپ کے مکان کے قریب ، پھر آپ نے غیر ماھر ڈاکٹر کی طرف کیوں رجوع کیا؟!
اور آپ کا عذر صرف اسی صورت میں قابل قبول ھوسکتا ھے جب اس ماھر ڈاکٹر کی فیس بھت زیادہ ھو یا ماھر ڈاکٹر سے علاج کرانے کے لئے کسی دوسرے ملک میں جانے پڑتاھو جس کا خرچ برداشت کرنا آپ کے بس کی بات نہ ھو، اسی وجہ سے آپ نے کسی غیر ماھر ڈاکٹر کا علاج کرایا ھے۔
لیکن ھمارا فرض اس صورت میں ھے جب آپ کسی ماھر ڈاکٹر سے علاج کرانے پر قادر ھوں اور اس کی فیس دوسرے غیر ماھر ڈاکٹر سے کم یا اس کے برابر ھے، تو اگر اس صورت میں اگر آپ نے کسی نئے ڈاکٹر کی طرف رجوع کیا اور آپ کی بیماری میں شدت پیدا ھوگئی تو آپ عقل اور صاحبان عقل کی نظر میں معذور نھیں ھیں، اور سبھی اس سلسلہ میں آپ کی ملامت اور سرزنش کریں گے۔
اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ مذکورہ عقلی قاعدہ تمام اجتماعی امور میں جاری ھے ، اور اس قاعدہ کو تمام ھی صاحبان عقل قبول کرتے ھیں چاھے مسلمان ھوں یا غیر مسلم، اور اس کی نسبت حکم ِ عقل کی طرف ھے، جس میں شرعی دلیل کی کوئی ضرورت نھیں ھے۔
چنانچہ اسی مذکورہ قاعدہ کے تحت اگر اسلامی حکومت کی نمونہ شکل ممکن نہ ھو (جیسا کہ عقل بھی اسی کو بھترین حکومت مانتی ھے) اور معاشرہ میں علم وتقویٰ اور مدیریت کے لحاظ سے اعلی ترین درجہ والا شخص نہ ملے جو صاحب عصمت بھی ھے تو اس صورت میں عقل کا حکم اور اس کا فیصلہ کیا ھوگا؟ کیا اس صورت میںھماری عقل اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ ھم جو چاھیں کریں اور جس کو چاھے حاکم بنادیں؟ یا ھماری عقل اس چیز کا حکم کرتی ھے کہ اگر معاشرہ معصوم علیہ السلام کے وجود سے محروم ھو اور آئیڈیل شخص حکومت کے لئے ممکن نہ ھو تو ایسے شخص کا انتخاب کریں جو تقویٰ اور صلاحیت کے لحاظ سے معصوم علیہ السلام سے شبیہ اور زیادہ نزدیک ھو؟ اگر سو فی صد والا درجہ حاصل نہ ھوں تو پھر 99 والے درجہ کا انتخاب کریں اور اگر 99 والا درجہ نہ ھو تو پھر 98 والے درجہ کا انتخاب کریں،اسی طرح اگر اعلیٰ درجہ کا انتخاب ممکن نہ ھو تو پھر اس سے کم والے درجہ کا انتخاب کریں،اور پھر باری باری نیچے والے درجہ کا انتخاب کریں، ایسا نھیں ھے کہ اگر عالی ترین درجہ کا انتخاب ممکن نہ ھو تو پھر دوسرے تمام درجے مساوی اور برابر ھیں، اور 99 والا درجہ اور ایک والا درجہ سب برابر ھوجائیں، اسی بنا پر اگر ھمارے فرض کے مطابق نمونہ اور آئیڈیل مقصود حاصل نہ ھوتو پھر کوئی فرق نھیں چاھے کسی کا بھی انتخاب کریں!! بے شک اس کو عقل تسلیم نھیں کرتی۔
لھٰذا عقل کے اس یقینی حکم کی بنا پر جو ھر انسان کی سمجھ میں آتا ھے اگر اسلامی حکومت کی نمونہ شکل ممکن نہ ھو اور معصوم علیہ السلام کی ذات تک رسائی نہ ھو تاکہ براہ راست عوام الناس پر حکومت کریں تو اس صورت میں اسلامی حکومت کے لئے ایسا فرد جو صلاحیت رکھتا ھے جس میں تینوں بنیادی شرط ( یعنی علم، تقویٰ اور مدیریت )دوسروں کی نسبت زیادہ اور معصوم علیہ السلام سے مشابہ ھو ، یعنی وہ شخض جو دوسروں سے زیادہ قوانین کی معرفت اور شناخت رکھتا ھو اسی طرح اس کی عدالت اور تقویٰ دوسروں کی نسبت زیادہ ھو اور دوسروں سے زیادہ اپنی خواھشات پر کنٹرول رکھتا ھو نیز اس کی مدیریتی طاقت اور بصیرت دوسروں سے زیادہ ھو۔
قارئین کرام ! یہ عقلی بیان ھر صاحب عقل کے لئے سمجھنا آسان ھے اور فقہ وکلام کے پیچیدہ دلائل کی کوئی ضرورت نھیں ھے۔

6۔ اسلامی حکومت کے سلسلہ میں چند سوالات
البتہ مسلمانوں پر حکومت کی صلاحیت رکھنے والے کے بارے میں سوالات کے علاوہ اسلامی حکومت کے سلسلہ میں دوسرے سوالات بھی بیان ھوتے ھیں جن کے جوابات (بھی) عرض کرنا ضروری ھیں مثلاً یہ سوال کہ کیا اسلام نے اسلامی حکومت کے عھدہ پر فائز ھونے والے کے لئے شرائط اور خصوصیات بھی بیان کئے ھیں اور حکومت کے لئے خاص شکل معین کی ھے یا نھیں؟ یعنی کیا صرف اسلام نے اسلامی حکومت کے صدر کے لئے بیان کیا ھے کہ کون صدر ھوسکتا ھے لیکن دوسرے حکومتی امور اور اس کا خاکہ عوام الناس کی مرضی پر چھوڑ دیا ، یا اجتماعی حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اس کی شکل بھی بدل جائے گی؟۔ دوسرا سوال جو اس سے زیادہ علمی اور دقیق ھے اور جو لوگ فقھی اور حققوقی مسائل سے آشنائی رکھتے ھیں ان کے لئے قابل فھم ھے ، اور وہ یہ ھے کہ آیا حکومت ایک ”تاسیسی“ مقولہ سے ھے یا ”امضائی“ مقولہ سے ھے؟
وضاحت: کیونکہ بعض اسلامی اور فقھی مسائل تاسیسی ھیں ، جن کو شارع مقدس نے عوام الناس میں رائج ھونے سے پھلے بیان کیا ھے اور ان کی کیفیت اور طریقہ بھی بیان کیا ھے مثلاً نماز ایک تاسیسی عبا دت ھے جس کا وجوب بھی خود شریعت نے بیان کیا ھے اور اس کا طریقہ بھی خداوندعالم کی طرف سے پیغمبر اکرم (ص) کے ذریعہ مسلمانوں کے لئے بیان ھوا ھے،اور اس واجب اور اس کی کیفیت کو بیان کرنے سے پھلے عوام الناس اس سے آگاہ نہ تھی ( نماز ھی نھیں بلکہ ) عام طور پر تمام عبادتیں تاسیسی ھیں جن کو عوام الناس نے پیغمبر اکرم (ص) سے سیکھا ھے جیسے دوسرے واجبات : روزہ، حج اور دوسرے یاعبادتی احکام تاسیسی ھیں۔
ان تاسیسی احکام کے مقابلہ میں اسلام کے بعض دوسرے احکام امضائی ھیں یعنی عوام الناس اپنی اجتماعی امور میں کچھ معاملات، عقود اور معاھدات کومعین کئے ھوئے ھیں، یھاں تک کہ اگران میں سے بعض تحریری شکل میں بھی نہ ھوں لیکن ان پر عمل ھوتا ھے ، مثلاً عام طور پر خرید وفروخت، چنانچہ اس سلسلہ میں شریعت نے عوام الناس کو حکم نھیں دیا ھے کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ھو تو اس کو جاکر خرید لے اس مسئلہ کی ضرورت خود صاحبان عقل سمجھتے ھیں اور معاملات وغیرہ کے لئے طریقہ کار معین کرتے ھیں اس کے بعد شریعت مقدسہ ان معاملات کی تائید کردیتی ھے اور اس کو شرعی حیثیت مل جاتی ھے ، مثلاً: (احل الله البیع ) (3)(خدانے خرید و فروخت کو حلال قرار دیا ھے )جو عوام الناس کے درمیان رائج ھے، اور خرید وفروخت کی یہ حلیت شرعی تائید کی وجہ سے ھے، اور گویا اس عقلاء کے طریقہ کار کو قبول کرنے کی طرح ھے جو آپس میں ایک دوسرے سے خرید وفروخت انجام دیتے ھیں۔
اس مقام پر حکومت کے سلسلہ میں یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ قبل اس کے کہ خدا نے انبیاء کرام علیھم السلام کے ذریعہ الٰھی حکومت کی پیروی کرنے کا حکم دیا کیا عوام الناس کے درمیان خود کوئی حکومت کا طریقہ کار موجود تھا جس کی شریعت مقدسہ نے تائید کی اور اس پر دستخط فرمائے ؟ یانہ بلکہ حکومت کی شکل اور ڈھانچے کو بھی عوام الناس نے خداوندعالم کے حکم کے مطابق بنایا ھے؟ اور اگر انبیاء علیھم السلام خدا کی اجازت سے عوام الناس پر حکومت نہ کرتے تو وہ ان کی اطاعت کرنے کا وظیفہ نہ رکھتے ،( یعنی)عوام الناس حکومت کی شکل وصورت سے آگاہ نہ تھے۔
المختصر جب ھم کھتے ھیں کہ اسلامی حکومتی نظام کو اسلام نے بیان کیا ھے اور اس کی دینی اور فقھی حیثیت ھے اور خود خداوندعالم نے اس کی اطاعت پر لوگوں کو موظف بنایا ھے، توکیا یہ حکومت خداوند عالم کی طرف سے تشریع کی گئی ھے اور خدا اس حکومتی نظام کا موٴسس ھے؟ یا اس حکومت کی شکل وصورت خود عوام الناس کے ذریعہ بنائی گئی ھے اور اس کو اجتماعی معاھدات کی بنا پر بنایا گیا اور خداوندعالم نے اس کی تائید وامضا کردیا ھے، اسی وجہ سے یہ حکومت اسلامی حکومت بن گئی ھے کہ جس کی خداوندعالم نے تائید کی ھے اور یہ حکومت امضائی حکم رکھتی ھے؟

حوالے
(1) سورہ نساء آیت 59
(2) سورہ نساء آیت 8۰
)3(سورہ بقرہ آیت 2۷5