تیسواں جلسہ
اسلامی حکومت سے ولایت مطلقہ فقیہ کی نسبت
1۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر
قارئین کرام ! ھماری یہ بحث ”اسلامی سیاسی نظریھ“ کے تحت ھے اور ھم نے اس بحث کو دو عام حصوں میں تقسیم کیا، جس کا پھلا حصہ قانون اور قانون گذاری کے سلسلے میں تھا اور دوسرا حصہ قانون جاری کرنے کا طریقہ کار اور معاشرہ کا نظام یا بالفاظ دیگر حکومت اور قوہ مجریہ کی اھمیت ھے دوسرے حصہ میں فلسفہ سیاست کے بارے میں لکھی گئی کتابوں میں مختلف نظریات اور مختلف طریقہ کار بیان کئے گئے ھیں، لیکن ھم نے اپنے لحاظ سے اس طریقہ کو اپنایا ھے کہ پھلے حکومت کی ضرورت کے بارے میں بحث کریں، تاکہ اس ضرروت کے تحت اس کے وظائف کی بھی پھچان ھوجائے اس کے بعد حکومت کی ذمہ داریوں کے پیش نظر اس کے اختیارات کے بارے میں بھی معلومات ھوجائے۔
آخری چند جلسوں میں ھماری بحث یہ تھی کہ حکومت کی مخصوص ذمہ داریوں میں سے معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنا بھی ھے وہ ضرورتیں جن کو انفرادی یا گروھی صورت میں انجام نھیں دیا جاسکتا یا ان کو انجام دینے والا کوئی نھیں ھوتا، اور اگر حکومت اپنا قدم نہ بڑھائے تو پھر وہ ضرورتیں پوری نھیں ھوپاتیں انھیں ضرورتوں میں سے کچھ اس طرح ھیں: دفاعی طاقت کو بڑھانا، بیرونی دشمن کے مقابلہ میں دفاع کرنے کے لئے مکمل طور پر تیاریاں کرنا، اور جنگ کو صحیح اور بھتر طریقہ سے ادارہ کرنا،اندرونی ناخوشگوار حالت سے مقابلہ کرنا، اندورن ملک میںامن وامان قائم کرنا، اسلامی قوانین اور مقرارت (وہ قوانین جو اصل ھیں یا جن کو پارلیمنٹ طے کرتا ھے) کو نافذ کرنا، عمومی مال پر نظارت کرنا اور ان سے صحیح طریقہ سے فائدہ اٹھانامثلاً انفال (جیسے معادن (کان) دریا اور جنگل وغیرھ) اور ان چیزوں کو استعمال کرنا جن کا کوئی خاص مالک نھیں ھے،اسی طرح معاشرہ کے ان لوگوں کی سرپرستی کرنا کم سن ھونے یا معلول (اپاھج) یا کم عقلی کی بنا پر سرپرستی کے نیاز مند ھوتے ھیں جن کا کوئی سرپرست نھیں ھوتا؛ نیز اسلامی حکومت کے سب سے مھم وظیفہ یعنی اسلامی شعار قائم کرنا ، احکام اسلامی اور حدود اسلامی کو جاری کرنا نیز اسلامی قوانین کی خلاف ورزی سے روک تھام کرنا ھے، اس آخری وظیفہ کے علاوہ دیگر تمام ذمہ داریاں دنیا بھر کی حکومتوں کے بھی ھوتے ھیں،اور جو چیز اسلامی حکومت کو دوسری حکومتوں سے ممتاز بنادیتی ھے یھی اھم اور عظیم وظیفہ ھے ، در حقیقت اس کو اسلامی حکومت کے وظیفوں کی سر فھرست قرار دینا چاھئے۔
2۔ اسلامی حکومت کے وظائف اور اختیارات کا برابر کا توسعہ
اسلامی حکومت کے وجودی فلسفہ اور اس کی ذمہ داریوںکی وضاحت کے بعد ،حکومت کے وہ اختیارات جن کی بنا پر وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتی ھے، روشن ھوجاتی ھیں؛ کیونکہ اگر حکومت کے ذمہ کچھ وظائف معین کئے جائیں، لیکن ان وظائف پر عمل کرنے کے لئے ضروری اختیارات نہ دئے جائیں تو وہ وظائف فائدہ مند نھیں ھوسکتے؛ چنانچہ روز مرہ کے مسائل میں یہ بات بالکل واضح وروشن دکھائی دیتی ھے مثال کے طور پر اگر کوئی شخص گھر میں کوئی کام اپنے بیٹے کے سپرد کرے لیکن اس کو انجام دینے کے لئے ضروری وسائل اس کو نہ دے یا کسی مزدور کو کسی کام کے لئے معین کیا جائے لیکن کام میں آنے والے وسائل فراھم نہ کرے یا اس کو وسائل کو ھاتہ لگانے کی اجازت نہ دے؛ تو بیشک کے ایسا کام بے ھودہ اور لغو ھے اور ھر صاحب عقل ایسے شخص کی مذمت کرے گا۔
جس وقت کسی کو کوئی ذمہ داری دی جاتی ھے تو اس کام کے لئے ضروری اختیارات بھی دئے جاتے ھیںتاکہ ان کے استعمال سے اپنے وظائف کو پورا کرے، اسی بنا پرھم جس وقت دوسری حکومتوں کے مقابلہ میں اسلامی حکومت کی مھم ذمہ داریوں کو ملاحظہ کرتے ھیں تو پھر اس حکومت کے اختیارات او رامکانات بھی دوسری حکومتوں سے زیادہ ھونے چاھئیں تاکہ بھترین طریقہ سے ان وظائف پر عمل پیرا ھوسکے اسلامی حکومت معاشرہ کی جائز ضرورتوں کو پورا کرنے قانونی اور جائز وسائل اور امکانات کو اختیار کرے ؛ ورنہ وہ اپنے وظائف پر عمل ھی نھیں کرسکتی اس بات کو مزید روشن کرنے کے لئے ایک مثال عرض کرتے ھیں:
جب ھم دیکھتے ھیں کہ آج کل ٹکنالوجی کی ھر روز ترقی ھورھی ھے اور قدیم زمانے کے حالات بدل رھے ھیں اور انسانی معاشرہ کے لئے نئے نئے حالات پیدا ھورھے ھیں تو پھر انسانی زندگی کے معاملات بھی مختلف طریقوں کے ھوجائیں گے، یھاں تک کہ اب انسان نے آسمان اور ھوا پر قبضہ کرلیا ھے جب تک انسان نے گاڑی نھیں بنائی تھی تو اس وقت گلی گوچے اور سڑک وغیرہ باریک ھوتی تھی جھاں سے صرف گدھا اور خچر وغیرہ ھی گذر سکتے تھے ، پرانے شھروں کے بعض محلوں میں اب بھی اس طرح کی گلیاں موجود ھیں ، لیکن اب جب کہ گاڑیوں کا زمانہ آگیا ھے اور اکثر لوگ گاڑیوں اور کاروں سے شھر میں آتے جاتے ھیں، تو اس بات کی ضرورت ھے کہ ان گلی گوچوں کو چوڑا کیا جائے اور ان کی جگہ بڑی سڑک بنائی جائے تاکہ گاڑیاں آسانی سے رفت وآمد کرسکیں، نیز احتمالی خطروں کی بھی روک تھام کی جاسکے۔
جس وقت حکومت یا حکومت کے کاگزار گلی کوچوں اور سڑکوں کو چوڑا کرنا چاھیں تو ان کو عوام الناس کے مکانوں کو توڑنا پڑے گا، تو اگر حکومت کی ذمہ داری ھو تو سڑکوں کو وسیع بنائے تاکہ رفت وآمد میں کوئی مشکل نہ ھو، لیکن اس کو لوگوں کے مکانوں کو توڑنے کا حق نہ ھو، تو حکومت سے ایسے کام کی درخواست لغو وبے ھودہ اور نہ ھونے والا ھے پس معلوم یہ ھوا کہ حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے اس طرح کے اختیارات کا ھونا ضروری ھے اور اور اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے ضروری وسائل فراھم ھونا ضرروی ھے؛ البتہ حکومت کو چاھئے کہ لوگوں کے ھوئے نقصان کا جرمانہ ادا کرے اور ان کے لئے مزید سھولیات کا انتظام کرے تاکہ وہ لوگ دوبارہ اپنے مکان بنا کر زندگی بسر کریں۔
3۔ حکومتی اختیارات سے ولایت مطلقہ فقیہ کی نسبت
قارئین کرام ! حکومت اسلامی کے وظائف پر عمل کرنے کے لئے ضروری اور کافی اختیارات منجملہ عوام الناس کی ملکیت میں ضرورت کے موقع پر تصرف کرنے کا حق ھونے کو مطلق ولایت فقیہ کھا جاتا ھے۔
قرآن کریم، احادیث معصومین علیھم السلام اور فقھا ء کرام کے بیانات میں لفظ ”حکومت“ کی جگہ لفظ ”ولایت“ کا استعمال ھوا ھے، اور ان چیزوں میںاس کلمہ کے استعمال کی دلیل سے صرف نظر کرتے ھوئے لفظ ”ولایت“ لفظ ”حکومت“سے زیادہ مناسب ھے (جیسا کہ مقام معظم رھبری حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای دامت برکاتہ نے فرمایا ھے کہ لفظ ”ولایت“ کا بار لفظ ”حکومت“سے زیادہ ھے کہ لفظ ”حکومت“میں ایک طرح کی زور گوئی اور تحکم پایا جاتا ھے) کیونکہ لفظ ”ولایت“ میں محبت اور عاطفہ شامل ھے؛ شاید اسی وجہ سے لفظ ”ولایت“، لفظ ”حکومت“ کی جگہ استعمال ھوا ھے بھر حال لفظ ”ولایت“ بالکل لفظ ”حکومت“ کی جگہ استعمال ھوا ھے اور جو شخص معاشرہ پر حکومت کو ضروری سمجھتا ھے شرعی لحاظ سے معاشرہ کے لئے ولایت کو ضروری سمجھتا ھے۔
چنانچہ اس مقدمہ کی بنا پر عرض کرتے ھیں کہ اگر یہ ولایت ان تمام اختیارات رکھتی ھو جن کے ذریعہ اپنے وظائف پر عمل کرسکے اور معاشرہ کی مختلف ضرورتوں کو جائز اور شرعی نقطہ نظر سے پوری کرے ، تو اس ولایت کو ”ولایت مطلقھ“ کھا جاتا ھے لیکن اگر ”ولی امر“ کے لئے ضرورت کے وقت ولایت ھو یعنی صرف لوگوں کی جان و مال کے خطرہ کے وقت اس کو تصرف کرنے کا حق ھو اور اس کو گلی اور سڑکوں کی وسعت یا مختلف مقامات پر پارک بنانے یا شھر کو خوبصورت بنانے کی اجازت نہ ھو تو اس ولایت کو محدود اور غیر مطلق کھا جاتا ھے۔
4۔ مخالفین کی طرف سے ولایت مطلقہ کے بارے میں شک وشبھات
قارئین کرام ! جو کچھ ھم نے بیان کیا وہ چیزیں مخالفین بد نیتی رکھنے والے عوام الناس (اوربالخصوص) جوانوں کے ذھنوں کو مخدوش کرنے کے لئے بیان کرتے ھیں اور ”ولایت فقیھ“ کی تھیوری کو برعکس پیش کرکے درج ذیل مغالطہ انجام دیا:
پھلے تو انھوں نے لفظ ”ولایت“ کے بارے میں شبہ ایجاد کیا کہ لفظ ”ولایت“ بچوں اور دیوانوں کے لئے استعمال ھوتا ھے”ولی“ یعنی ”سرپرست“ اور جو بچے یا پاگل لوگ اپنی زندگی کو چلانے کے لئے کافی عقل وتدبیر نھیں رکھتے تو ان کو سرپرست کی ضرورت ھوتی ھے قارئین کرام! یہ مغالطہ بالکل واضح اور ورشن ھے، اور جیسا کہ اھل بیت علیم السلام کی ولایت بھی سرپرستی کے معنی میں نھیں ھے، لھٰذا یھاں پر بھی لفظ ”ولایت“ بالکل حکومت کے معنی میں ھے اور اس کے معنی اجتماعی امور کی تدبیر اور معاشرہ کے عظیم مدیریت کے ھیں ”ولایت فقیہ “ کے معنی یہ ھیں کہ جو حضرات خداوندعالم کی طرف سے معاشرہ کے عظیم امور کو چلانے کی اجازت رکھتے ھیں،نہ یہ کہ ”ولایت فقیہ “ کی حاکمیت اور حکومت کے تحت صرف بچے، دیوانے او رکم عقل لوگ ھیں۔
اس کے بعد لفظ ”مطلق“ میں شبہ ایجاد کیا اور اپنے بعض مقالوں میں یھاں تک کھہ دیا کہ ”ولایت مطلق“ کا اعتقاد رکھنا موجب شرک ھے، لھٰذا جو لوگ ”ولایت مطلق“ کے قائل ھیں در واقع وہ مشرک ھیںاور انھوں نے خداوندعالم کی ذات کے ساتھ شریک قرار دیا؛ کیونکہ خدا وند عالم کے علاوہ کوئی مطلق نھیں ھے،اور انھوں نے ”ولی امر“ کو بھی مطلق قرار دیا ھے!!
قارئین کرام! واقعاً انسان اس طرح کی بچکانہ باتوں کاکیا جواب دے لیکن مختصر طور پر عرض کرتے ھیں کہ اولاً قرآن وروایات اور دوسری اسلامی تحریر وں میں خد ا کو ”مطلق“ نھیں کھا گیا ھے، اور عربی قواعد کے تحت بھی خداوندعالم کے لئے لفظ مطلق کھنا صحیح نھیں ھے لیکن اگر مسامحہ اور مطلق کے معنی میں دخل وتصرف کرتے ھوئے خدا کے لئے لفظ مطلق کو استعمال بھی کریں تو اس کے معنی یہ ھونگے کہ خدوندعالم نامحدود ھے اور کسی طرح کا کوئی نقص وعیب نھیں رکھتا؛ لیکن کوئی بھی شخص کسی کے بارے میں اس طرح کا عقیدہ نھیں رکھتا ھمارا عقیدہ ھے کہ صرف خدائے واحد کمالِ مطلق رکھتا ھے اور ذرہ برابر بھی نقص وعیب نھیں رکھتا، اور اس کی ذات میں تمام صفات وجودی غیر متناھی طورپر پائے جاتے ھیں اور یہ بات مسلم ھے کہ اس طرح کے عقیدہ کا ملازمہ یہ نھیں ھے کہ اسلامی حکومت اپنے وظائف پر عمل کرنے کے لئے ضروری اختیارات بھی نہ رکھے، اور بنیادی طور پر ان دونوں (باتوں) میں کوئی ربط نھیں ھے۔ ”ولایت مطلق“ یعنی امت اسلامی کا حاکم اور رھبر،اسلامی معاشرہ کے مصالح کو جاری کرنے کے لئے ضروری اختیارات کا مالک ھوتا ھے، ولی فقیہ اسلامی معاشرہ کی بھلائی اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ضروری دخل وتصرف کرسکتا ھے اس مطلب کو مزید واضح کرنے کے لئے ایک مقدار ”اسلامی حکومت کی تھیوری“ پر روشنی ڈالیں گویا اس سے پھلے بھی اس مطلب پر اشارہ کیا جا چکا ھے۔
5۔ اسلامی حکومت کا ڈھانچہ
جس وقت اسلامی حکومت کے ڈھانچہ کی بات ھوتی ھے تو بعض لوگ فلسفہ سیاست کے بارے میں لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ھیں اور اس میں لکھی گئی قدیم زمانے سے آج تک کی حکومتوں کی قسمیں ملاحظہ کرتے ھیں مثلاً حکومت الیگارکی "Oligachy"(1)، اریسٹو کریسی، "Aristocracy" (2)شاھی، ڈیموکریسی وغیرہ، اور آج کل ڈیموکریسی بھی جمھوری اور مشروطہ سلطنت پر تقسیم ھوتی ھے اور جمھوری بھی یا پارلیمنٹی ھوتی ھے یا ریاستی،اس وقت یہ سوال کرتے ھیں کہ اسلامی حکومت مذکورہ اقسام میں سے کونسی قسم ھے؟یا ان کے مقابلہ میں اس حکومت کی کوئی خاص شکل ھے؟ اگر اسلامی حکومت وھی جمھوری حکومت ھے تو یہ تو وھی ڈیموکریسی اور عوام الناس پر عوام الناس کی حکومت ھے اور اس بنا پر اسلام کی نظر میں حکومت کی کوئی خصوصیت اور امتیاز نھیں ھے اور اگر اسلامی حکومت کو بادشاھی حکومت کھا جائے تو پھر ایران کی اسلامی حکومت کو ”جمھوری اسلامی“ کیوں کھا جاتا ھے؟ بھر حال حکومت کی شکل کے سلسلہ میں کوئی نظریہ نھیں ھے اور اس سلسلہ میں عوام الناس کو اختیار دیا ھے تاکہ وہ جس طرح بھی چاھیں حکومت تشکیل دیں؛ یاحکومت کے سلسلہ میں اسلام نے کوئی نیا طریقہ ایجاد کیا ھے؟
اسلامی لحاظ سے حکومت کی شکل کے سلسلہ میں مختلف طریقوں سے بھت زیادہ بحثیں ھوئی ھیں اوراسلامی حکومت کی شکل کے لحاظ سے بھت سے سوالات کے جواب میں کھنے والوں نے کھا کہ اسلام نے حکومت کے سلسلہ میں کوئی خاص شکل بیان نھیں کی ھے اگرچہ یہ جواب کافی حدّ تک صحیح ھے لیکن اشکالات اور ابھام سے خالی نھیں ھے جس کی وضاحت کے لئے دو نکات کا بیان کرنا ضروری ھے:
الف۔ اسلامی قوانین کی وسعت اوران کا نسخ نہ ھونا
پھلا نکتہ اسلام اور اسلامی قوانین کسی خاص زمانے اور کسی خاص جگہ سے مخصوص نھیں ھیں بلکہ تمام زمانوں اور تمام معاشروں کے لئے نازل ھوئے ھیں اسلام کے ثابت اور غیر قابل تبدیل احکام اس طرح وضع کئے گئے ھیں جو تمام ھی معاشروں میں قابل اجراء ھیں دوسری طرف، ممکن ھے حکومت کسی چھوٹے معاشرہ کی ھو یا کروڑوں یا اربوں والی آبادی کی ھو جیسے چین اور ھندوستان کی حکومتیں جن کی آبادی ایک ارب سے بھی زیادہ ھے، بھر حال حکومت کی مختلف قسمیں ھوسکتی ھیں: مثلاً ایک سو گھر والے معاشرہ میں بھی حکومت ھوسکتی ھے اور ایک ارب والے معاشرہ میں بھی حکومت ھوسکتی ھے یھاں تک کہ پوری دنیا پر بھی ایک عالمی حکومت ھوسکتی ھے، اور انھیں حکومتوں کی اقسام کی بنا پر ان کے لئے ایک ایسا نمونہ پیش کیا جائے تو تمام قسموں کو شامل؟ یا حکومت کی کوئی خاص شکل معین نھیں کرنا چاھئے، یا اگر کوئی خاص شکل معین کی گئی تو پھر مسلم طور پر آج کل کی بعض حکومتوں سے ھم آھنگ ھوگی، اور دوسرے معاشروں کے لحاظ سے نھیں ھوگی؟ مثال کے طور پر اگر کھیں کہ ظھور اسلام کے وقت اسلامی پیغام صرف بعض مقامات تک محدود تھا اور اس کے احکام صرف مدینہ منورہ کے چھوٹے معاشرہ کے لئے تھے، اور وہ حکومت جو رسول اسلام (ص) کے ذریعہ تشکیل پائی وہ اس زمانہ کے لئے مناسب تھی جس کی آبادی شاید ایک لاکہ سے زیادہ نہ ھو آیا اسلام کی پیش کردہ ”اسلامی حکومت“ کی شکل وصورت اسی طریقہ کی ھے جو صدر اسلام میں رسول اکرم (ص) کے زمانہ میں تھی، انھیں خصوصیات اور امتیازات کے ساتھ جو اس محدود آبادی میں مخصوص اخلاق اور ثقافت کے ساتھ ھے؟ یا نہ صرف یہ کہ اسلام نے حکومت کی کوئی خاص شکل بیان نھیں کی ھے بلکہ حکومت کے سلسلہ میں کسی طرح کی کوئی قید وشرط پیش نھیں کی ھے؟
قارئین کرام ! حقیقت تو یہ ھے کہ اسلام نہ پھلے گزینہ کو پسند کرتا ھے اور نہ دوسرے کو، بلکہ اسلام نے حکومت کی خاص شکل وصورت بیان کرنے سے بھی بالاتر غیر قابل تبدیل احکام کی بنا پر حکومت کی عام اور وسیع پیمانہ پر معرفی کی ھے، جن کے تحت تغیر اور تبدیلی کی بنا پر مختلف بھت سی شکلیں بن سکتی ھیں اسلام نے نہ عوام الناس کو بالکل ھی آزاد چھوڑا ھے کہ جو چاھیں کریں اور نا ھی حکومت کی کوئی خاص اور محدود شکل بیان کی ھے جس کو صرف کسی خاص زمان ومکان میں ھی نافذ کیا جاسکتا ھے اسلام کے پیش کردہ قوانین اس طرح کے ھیں جن کے تحت حکومت کی صحیح اور عقلائی شکلیں آسکتیں ھیں البتہ حکومت کی وہ شکلیں اسلام کے عام اصول سے خارج نہ ھونے پا ئیں ھم اسلام کے معین کردہ قوانین اور حدود کو اسلامی حکومت کھتے ھیں ھوسکتا ھے ان قوانین کے تحت ایک وقت حکومت کی کوئی خاص شکل ھو اور کسی دوسرے زمانہ میں اس کی شکل وصورت دوسری ھو، لیکن یہ دونوں شکلیں حکومت اسلامی ھونے کے لحاظ سے ایک دوسرے کے مخالف نھیں ھوتیں۔
دوسرے الفاظ میں یوں عرض کیا جائے کہ اسلام نے حکومت کی کوئی خاص شکل وصورت بیان نھیں کی ھے لیکن اس حکومت کو اسلامی قوانین اور حدود سے باھر نہ ھونا چاھئے بلکہ اسلامی اصول کے ھم آھنگ اور مطابق ھو کیونکہ یہ مسئلہ علمی اور عقلی لحاظ سے دقیق اور ظریف ھے کہ اسلام کے ثابت اور غیر قابل تبدیل احکام روز قیامت تک کے لئے بنائے گئے ھیں جن میں کلّی اور عظیم ڈھانچہ موجود ھے، اور ان کے مقابلہ میں جزئی اور قابل تبدیل احکام زمان ومکان کے لحاظ سے وضع ھوئے ھیں، انھیں قابل تبدیل احکام میں سے حکومتی احکام ھیں جو ھر زمانہ میں ولی فقیہ کے ذریعہ یا اس کے دستخط کے ذریعہ وضع ھوتے ھیں جن کی اطاعت او رپیروی کرنا واجب ھے۔
ب۔اسلام کی طرف سے حکومت کے درجہ وار نمونے
دوسرا نکتہ : جیسا کہ ھم نے پھلے جلسے میں بھی عرض کیا تھا کہ کبھی کوئی شخص کسی مقصد کو سامنے رکھتا ھے، اور اس مقصد تک پھنچنے کے لئے کچھ نمونے شرائط مدّ نظر رکھے جاتے ھیںلیکن وہ شرائط فراھم نھیں ھوتے تو پھر اس کے بدلے میں دوسرے (اور کمتر) شرائط رکھے جاتے ھیں، یعنی اگر وہ اول درجہ کے نمونہ شرائط حاصل نہ ھوں تو پھر اس کی جگہ دوسرے درجہ کے شرائط کو ھی انتخاب کیا جاتا ھے، اور اگر دوسرے درجے کے شرائط بھی نہ ھوں تو پھر بات تیسرے درجہ پر پھنچتی ھے اور اس کی وجہ یہ ھے کہ ھمارے اقدار اور ارزشی نظام تمامیت (مکمل) خواہ نھیں ھے اور ارزش کو فقط اعلیٰ درجہ میں منحصر نھیں کرتا، کہ اگر اس اعلیٰ درجہ کے شرائط میں ذرا بھی نقص وارد ھوگیا تو پھر اس کی کوئی ارزش اور اھمیت نھیں رھے گی بلکہ اسلام کے ارزشی نظام میں ارزشوں اور اقدار کے مختلف درجات ھیں، جس میں تمام شرائط پائے جائیں گے وہ بالاتر اور نمونہ اقدار کا مالک ھے اس کے بعد کم درجے والے شرائط کی بھی ایک اھمیت ھوتی ھے ایسا نھیں ھے کہ اگر اعلیٰ درجہ کا مقصد حاصل نہ ھو تو بالکل ھی اس کو چھوڑ دیا جائے اور اس کے لئے کم درجہ والی حالت کو قائم مقام نہ بنایا جائے۔
مقصد یہ ھے کہ اسلام نے حکومت کی ایک نمونہ اور آئیڈیل شکل پیش کی ھے اور وہ نمونہ شکل اس صورت میں رونما ھوگی جب امام معصوم حاضر ھو اور حکومت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں سنبھالیں، جیسا کہ قرآن مجید میں اسی نمونہ کا انتخاب کرکے بیان کیا گیا ھے ، ارشاد ربّ العزت ھوتا ھے:
( یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُمْ ) (3)
”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمھیں میں سے ھیں۔“
اور دوسری آیت میں ارشاد ھوتا ھے:
( وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوہ وَمَا نَھاکُمْ عَنْہ فَانْتَھوا )(4)
” اور جو کچھ بھی رسول تمھیں دیدے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کرے اس سے رک جاؤ “
اگرچہ اسلام کایہ نظریہ ھے کہ اول درجہ میں حکومت کی ریاست امام معصوم (ع)فرمائیں چونکہ معصوم صاحب عصمت ھوتا ھے لھٰذا وہ بھترین طریقہ پر حکومت کو چلا سکتا ھے لیکن نہ تو ھمیشہ معصوم (ع) حاضرھیں تاکہ براہ راست حکومت کو اپنے ھاتھوں میں لیں اور نہ ھمیشہ امام معصوم (ع) مبسوط الید (آزاد) ھیں تاکہ حکومت تشکیل دیںاور اپنی قدرت کا مظاھرہ کریں ؛ جیسا کہ ھمارے ائمہ علیھم السلام میں صرف حضرت علی علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام نے حکومت تشکیل دی وہ بھی کم مدت کے لئے، اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے بعد سے اس طرح کے حالات نہ تھے کہ ائمہ معصومین علیھم السلام حکومت تشکیل دیں، یا عوام الناس یا عوام الناس کی اکثریت نے ائمہ علیھم السلام سے نھیں چاھا کہ حکومت تشکیل دیں یا معاشرہ کے اھم افراد ائمہ (ع) کی تشکیل حکومت میں مانع تھے، جن کی وجہ سے ائمہ علیھم السلام کو ھمیشہ حکومت سے کنارہ کشی کرنا پڑی۔
6۔ اسلامی نقطہ نظر سے ”حکومت میں حکومت“ کے نقشہ کی تاریخ
اگر حکومت کی باگ ڈور امام معصوم علیہ السلام یا عادل مومنین کے ھاتھوں میں نہ ھو بلکہ ظالم اور طاغوت کی حکومت ھوجائے، تو کیا اس صورت میں کوئی بھی حکومتی کام صحیح طریقہ پر انجام نہ دیا جائے اور تمام امور غاصب اور ظالم حاکم کے ھاتھوں میںچلے جائیں اور عوام الناس حکومت کے تمام امور کو چھوڑ دے؟ کیا نیک ، صالح اور شائستہ افراد کسی بھی طرح کے حکومتی امور میں رسیدگی نہ کریں اور حتی الامکان معاشرہ کی رھبری نہ کریں؟ بےشک اسلام کا جواب نفی میں ھوگا، اور اس طرح کے حالات میں اضطراری اور مجبوری کا بدل رکھا ھے اور فرمایا ھے کھ: اگر امام معصوم علیہ السلام حاضر ھوں لیکن حکومت تشکیل دینے میں آزاد نہ ھوں یا امام معصوم (ع) حاضر نہ ھوں اور حکومت ان کے نیک اور صالح جانشینوں کے ھاتھوں میں نہ ھو، تو کیا اس صورت میں عوام الناس محدود موارد میں حکومتی امور کے سلسلہ میں کسی ایسے شخص کی طرف رجوع کریں جو معصوم سے زیادہ شباھت رکھتا ھو۔
بےشک معاشرہ میں ھمیشہ ذاتی ، گھریلو اور اجتماعی مسائل میں اختلاف اور جھگڑا رھا ھے اور مال وثروت، معاملات اور خرید وفروخت نیز شرکتوں میں جھگڑے ھوتے رھے ھیں مثلاً دو شریک اپنے حصے کے بارے میں اختلاف کرتے ھیں یا ورثا میراث کے سلسلہ میں اختلاف کرتے ھیں یا میاں بیوی کے درمیان اختلاف ھوتے ھیں، لامحالہ ان تمام اختلافات اور جھگڑوں کو حل کرنے کے لئے ایک حکومت کا ھونا ضروری ھے تاکہ ان مواقع پر اس کی طرف رجوع کریں اور اپنے اختلافات کو حل کریں اور وہ ان کے اختلافات اور جھگڑوں کو حال کرے ظالم اور طاغوت کی حکومت کے ھوتے ھوئے عوام الناس کو یہ بھانہ نھیں کرنا چاھئے کہ چونکہ حق وانصاف کی حکومت نھیں ھے اور امام معصوم (ع) یا حاکم عادل کی ریاست نھیں ھے لھٰذا ظالم اور طاغوت کی حکومت پر راضی ھوجائیں اور حکومت کی مرضی پر راضی ھوجائیں اور اس سلسلہ میں کوئی تدبیر نہ کریں؛ بلکہ اگر خاص موارد میں کسی ایسے شخص کی طرف رجوع کرنا ممکن ھے جو اسلامی احکام کو صحیح طریقہ سے بیان کرے اور ان کو جاری کرے،تو اگر ایسا کوئی شخص ھے تو اس کی طرف رجوع کرنا ضروری ھے، اسی وجہ سے ھمارے ائمہ معصومین علیھم السلام نے اس طرح کے حالات کے لئے ایک نقشہ پیش کیا ھے جس کو آج کل کی اصطلاح میں” حکومت میں حکومت کی تشکیل“ کھا جاتا ھے۔
جس وقت حکومت ظالموں اور نااھلوں کے ھاتھوں میں ھو اور وہ معاشرہ پر حکومت کررھے ھوں اور عوام الناس اس حکومت کے خلاف قیام کرنے اور اس حکومت کا تختہ پلٹنے کے کافی امکانات نہ رکھتے ھوں تو جن حکومتی مسائل میں سرکاری اور قانونی دفاتر کی طرف رجوع کرنا ھوتا ھے؛ تو اس موقع پر ضروری ھے کہ فقھاء ، علماء اور ایسے لوگوں کی طرف رجوع کریں جو معصوم تو نہ ھوں لیکن اھل بیت علیھم السلام کے مکتب کے تربیت شدہ ھوں اور علم و تقویٰ کے بلند ترین درجہ پر فائز ھوں اور ان کا علمی اور اخلاقی مقام دوسروں کی نسبت معصوم سے زیادہ نزدیک ھو حتی الامکان اپنے حکومتی مسائل میں ایسے فقیہ کی طرف رجوع کریں جو علمی لحاظ سے اتنی صلاحیت رکھتا ھو تاکہ اسلام کے احکام کا صحیح طریقہ سے استنباط کرے، اور قضاوت و فیصلوں کے لئے کافی مھارت رکھتا ھو؛ نیز تقویٰ کے بلند ترین درجات رکھتا ھو اور مورد اعتماد اور اطمینان ھو۔
”حکومت میں حکومت“ کے نظریہ کا مطلب یہ ھے کہ ظالم و جابر حکومتوں میں چھوٹی چھوٹی اور محدود حکومتیں تشکیل دی جائیں تاکہ عوام الناس اپنے حکومتی مسائل میں مشکلات کے وقت ان کی طرف رجوع کرسکیں، جس کو ھماری اسلامی ثقافت میں ”ولایت مقیدھ“ (محدود ولایت) کھا جاتا ھے جو معصومین علیھم السلام کے زمانہ میں بھی فقھاء کرام رکھتے تھے اور امام معصوم علیہ السلام کی اجازت سے خاص موارد میں قضاوت اور امر ونھی کیا کرتے تھے، اور غیبت کے زمانہ میں بھی اگرچہ فقھا مکمل طور پر آزاد نھیں ھوتے تھے اور حکومت نھیں بنا سکتے تھے لیکن محدود مسائل میں اختلافات اور جھگڑوں نیز معاشرہ کے ضروری ترک شدہ امور جن کو ھماری فقہ میں ”امور حسبیھ“ کھا جاتا ھے؛ میں حکومت کیا کرتے تھے، اگرچہ ”ولایت مقیدھ“ ظاھری اور معنوی لحاظ سے ”ولایت مطلقہ فقیھ“ سے فرق رکھتی ھے۔
شیعہ تاریخ میں ھمیشہ فقھاء کی طرف سے ” ولایت مقیدھ“ جاری ھوتی رھی ھے، اور شیعہ افراد اطمینان اور مکمل رضایت کے ساتھ اجتماعی امور، اختلافات اور جھگڑوں میں فقھاء کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان سے ان کا حل طلب کرتے تھے اور شاید اس سلسلہ میں تاریخی پھلو اور ھمیشہ تاریخ میں اس کے موجود رھنے اور اس کی ضرورت کی وجہ سے کسی نے اس سلسلہ میں زیادہ اعتراضات اور شبھات وارد نھیں کئے ھیں، لیکن ”ولایت مطلقہ فقیہ “ کے سلسلہ میں چونکہ تاریخ کاحوالہ نھیں ملتا اور اس کی وجہ سے دشمنان اسلام کی زندگی خطرہ میں پڑگئی نیز اس نے ناجائز منافع میں رکاوٹ پیدا ھوگئی جس کی بنا پر انھوں نے اس سلسلہ میں بھت سے اعتراضات اور شبھات پیدا کردیتے ۔
7۔ حضرت امام خمینی (رہ)کی طرف سے ”ولایت مطلقہ فقیہ“ کا نقشہ
حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی غیبت کے وقت سے انقلاب اسلامی ایران سے پھلے تک یہ احتمال دینا کہ ایک زمانہ میں جامع الشرائط فقیہ کے ذریعہ حق وحقیقت کی حکومت کاقائم ھونا صرف ایک خواب تھا، یھاں تک کہ اگر انقلاب سے تیس چالیس سال پھلے خود اسی ملک کی عوام الناس سے کھا جاتا کہ ایک روز وہ آنے والا ھے جب ایک روحانی فقیہ کے ذریعہ اس شھنشاھی حکومت کا تختہ پلٹ جائے اور وہ خود حکومت کی باگ ڈور سنبھالے گا تو کسی کو یقین نہ آتا، اور اس طرح کا تصور بھی نھیں کیا جاسکتا تھاجو فقط خواب کی طرح تھا یہ بالکل اس بات کی طرح تھا کہ اگر ھم کھیں کہ ایک زمانہ وہ آنے والا ھے جب انسان کسی چیز کا سھارا لئے بغیر آسمان میں پرواز کرنے لگے گا، کیونکہ اس طرح کا تصور فقط خواب میں کیا جاسکتا ھے اور ایسا کبھی بھی نھیں ھوسکتا۔
اُس زمانہ میں یہ بات واقعاً ایک مذاق تھی کہ اگر کوئی کھے کہ ایک عالم دین اس طاغوت بادشاہ کی جگہ خود حکومت بنائے گا کیونکہ اس وقت لوگ یھی کھتے کہ کیا ایسا ھوسکتا ھے؟!! کیا ایسا شخص جو اپنی زندگی کو مشکل سے چلاتا ھو اور اپنے گھر میں بھی امنیت نہ رکھتا ھو اور کسی بھی وقت (مخفی) پولیس ان کے گھر میں آکر گرفتار کرسکتی تھی، یا ان کو جلاوطن کردے یا جیل میں ڈال دے اور ان کو شکنجہ کرے تو کیا ایسا شخص حکومت تشکیل دینے کی قدرت حاصل کرسکتا ھے!!
اگرچہ گذشتہ زمانہ میں ”ولایت فقیھ“ کاظاھری وجود نھیں تھا یھاں تک کہ عقلی طور پر اس کا احتمال بھی نھیں دیا جاتا تھا؛ لیکن اس کو علمی طور پر تصور کیا جاسکتا تھا جس میں کوئی اشکال بھی نھیں تھا، بھت سے فقھاء ومجتھدین نے ”ولایت فقیھ“ کی تھیوری کو بیان کیا ھے، اور اس سلسلہ میں تحقیق وبررسی کی ھے کہ اگر ایک زمانہ فقیہ کی حکومت کے لئے آجائے اور وہ فقیہ مسند حکومت پر تشریف فرما ھو، تو اس کی ولایت مطلق ھوگی یا مقید (اور محدود)؟۔
ائمہ معصومین علیھم السلام کے زمانہ کے برخلاف کہ جب ائمہ (ع) تقیہ میں ھوتے تھے اور مکمل طور پر آزادی نھیں ھوتی تھی، اور نہ ھی حکومتی مسائل میں کوئی دخالت کرسکتے تھے ،مومنین صرف مخفی طور پر امام علیہ السلام سے ملاقات کرتے تھے اور اپنی بعض مشکلات منجملہ اختلافات وغیرہ کو بیان کرتے تھے تاکہ گواہ اور ثبوت کے بعد ائمہ (علیھم السلام) دونوں فریقوں کے درمیان فیصلہ فرماتے تھے، اسی طرح اس زمانہ کے برخلاف جس میں فقھاء حکومت سے دور رکھے جاتے تھے ،اور حکومتی مسائل میں دخالت کا حق نھیں رکھتے تھے، تواگر کسی زمانہ میں فقیہ ومجتھد کی حکومت بنانے کی راہ ھموار ھوجائے اور وہ حکومت تشکیل دینے کی قدرت رکھتا ھو، تو کیا اس کی ولایت صرف ضروری کاموں تک محدود رھے گی؟ جس کو اصطلاحاً ”امور حسبیھ“ کھا جاتا ھے،یا ظالم وستمگر کی حکومت کی تمام تر قید وبند اور محدودیت ختم ھوجائے گی؟ جبکہ اسلامی سیاست کے لحاظ سے ولی فقیہ کی قدرت کے بارے میں کوئی محدویت نھیں ھے، وہ امام معصوم (ع) کی طرح مبسوط الید ھے جو حکومت تشکیل دے اور معاشرہ کے نظام کو چلانے میں امام معصوم (ع) کی طرح ھے لھٰذا دوسری قسم ”ولایت مطلقہ فقیہ کی تھیوری“ کے عنوان سے پیش ھوئی ھے۔
ھمارے بزرگوں میں ”ولایت مطلقہ فقیہ کی تھیوری“ کی وضاحت کے علاوہ اس کو عملی طور پر بھی محقق کرکے دکھانے والوں میںحضرت امام خمینی (رہ) تھے، جنھوں نے تقریباً چالیس سال پھلے اپنے درس میں اس سلسلہ میں بیان کیا کہ ایک فقیہ کسی خاص علاقہ میں حکومت تشکیل دے سکتا ھے اور وہ اس صورت میں تمام حاکم شرعی کے اختیارات رکھتا ھوگا، اور صرف ضروری اور امور حسبیہ میں منحصر نھیں ھوگا، وہ اسلامی معاشرہ کے تقاضوں کے تحت اسلامی قوانین کے تحت ولایت کو جاری کرسکتا ھے۔
جس وقت امام خمینی (رہ)نے اس نظریہ کو بیان کیا تو آپ کے شاگردوں نے حسن نیت اور آپ سے لگاؤ کی وجہ سے اس نظریہ کو قبول تو کرلیا لیکن ان کو دل سے یقین نھیں تھا کہ ایسا بھی زمانہ آئے گا یھاں تک کہ اس تحریک کا آغاز ھوا اور آھستہ آھستہ انقلاب آگیا، اور اسلامی حکومت کی تشکیل سے مذکورہ نظریہ عملی طور پر ظاھر ھوگیا۔
پس ”ولایت مطلقہ فقیھ“ یعنی وہ شخص جو اسلامی نظریہ کے مطابق حکومت کرنے کے شرائط رکھتا ھو، اور علم، تقویٰ اور معاشرہ کی رھبری کے سلسلہ میں امام معصوم (ع) سے زیادہ شباھت رکھتا ھو اور حکومت تشکیل دے، اور وہ معاشرہ کو ادارہ کرنے میں معصوم (ع) کے اختیارات رکھتا ھوگا اور جس وقت ولی فقیہ کے اس قدر وسیع اختیارات ھوں تو اس وقت ولی فقیہ کے تحت اسلامی حکومت کے تمام قوانین اور دستور العمل ولی فقیہ کی اجازت اور اس کے اذن سے مشروعیت (جواز) پیدا کرتے ھیں، اور ایک ایک کو براہ راست یا مستقل طور پر قانون گذاری کا حق نھیں ھوگا، اور نا ھی حکومتی قوانین کو جاری کرنے کا حق ھوگا، تمام حکومتی امور اسی کی اجازت سے قانونی ھونگے، اس کی حکومت میں قوانین کو جاری کرنے کا کوئی بھی عھدہ اسی کی طرف دیا جائے گا، یا اگر کسی خاص قانون کے ذریعہ اس کا انتخاب کیا جائے تو اس کو اسی وقت قانونیت ملے گی جب ولی فقیہ اس کی موافقت کردے، لھٰذا چاھے قانون گذاری کا مسئلہ ھو یا قانون کو جاری کرنے کا مسئلہ جب تک ولی فقیہ کی اجازت نہ ھو تو کوئی بھی کام جائز نھیں ھے۔
جیسا کہ امام خمینی (رہ) مکرر ارشاد فرماتے تھے: ”اگر کوئی حکومت ولی فقیہ کی اجازت سے نہ ھو تو وہ طاغوت ھے۔“
اس جملہ کا مطلب یہ ھے کہ حکومت کی صرف دو قسمیں ھیں ایک حق کی حکومت اور دوسری طاغوت کی حکومت حق کی حکومت وہ حکومت ھے جس کی باگ ڈور ولی فقیہ کے ھاتھوں میں ھے اور حکومت کے تمام مسائل اسی کے ماتحت ھوں اور اسی کی اجازت سے مشروعیت پیدا کرتے ھیں، لیکن اگر ایسا نہ ھو تو وہ حکومت باطل اور حکومت طاغوت ھے ، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:
( فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلاّٰ الضَّلاٰلُ۔) (5)
”اور حق کے بعد ضلالت کے سوا کچھ نھیں ھے “
8۔ مقبولہ(روایت) عمر بن حنظلہ سے ولایت فقیہ
قارئین کرام ! مذکورہ بیان کے مطابق، ولی فقیہ کے وسیع اختیارات قوانین شرع مقدس میں منحصر ھیں اور ان سے متجاوز نھیں ھونگے؛ کے پیش نظر یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ ”ولایت مطلقہ فقیھ“ موجب شرک اور غیر خدا کو مطلق قرار دینا نھیں ھے؛ بلکہ اس کے برعکس ائمہ معصومین علیھم السلام سے نقل شدہ روایات کے مضمون کے لحاظ سے اگر کوئی شخص ولی فقیہ کے حکم اور فرمان کی نافرمانی کرے تو وہ مشرک ھے جیسا کہ عمر بن حنظلہ کی روایت میں موجود ھے:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دو شیعہ افراد( جن میں دینی مسائل یا دنیوی مسائل اور میراث کے سلسلہ میں اختلاف تھا)کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اپنے اختلافات کو دورکرنے اور اپنے فیصلہ کے لئے کس کی طرف رجو ع کریں؟ تو امام علیہ السلام نے ان کو ظالم اور طاغوت حاکم کی طرف رجوع کرنے سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ راویان حدیث اور دینی مسائل کے ماھر اور اھل فن کی طرف رجوع کریں، چنانچہ آپ ایک حدیث کے ضمن میں فرماتے ھیں:
” فَاِنِّی قَدْ جَعَلْتُہ حَاکِماً، فَاِذَا حَکَمَ بِحُکْمِنَا فَلَمْ یَقْبَلْہ مِنْہ فَاِنَّمَا اسْتَخَفَّ بِحُکْمِ اللهِ وَعَلَیْنَا رَدَّ، وَالرَّادُ عَلَیْنَا الرَّادُ علی اللهِ وَھوْ عَلٰی حَدِّ الشِّرْکِ بِاللهِ “ (6)
(میں اس (فقیہ اور دین میں ماھر شخص )کو تم پر حاکم قرار دیتا ھوں پس جس وقت وہ ھمارے حکم کے مطابق فیصلہ کرے اور کوئی اس کو قبول نہ کرے تو بے شک اس نے حکم خدا کو ھلکا قرار دیا ھے اور ھمارے حکم کو ردّ کیا ھے ، ھمارے حکم کو ردّ کرنا خدا کے حکم کو ردّ کرنا ھے اور یہ خدا وندعالم پر شرک کی حد ھے۔)
چنانچہ مذکورہ روایت کے پیش نظر اگر کسی جامع الشرائط فقیہ نے حکومت تشکیل دی تو اگر کوئی شخص اس کی مخالفت کرے یا اس کے حکم کو ردّ کرے تو گویا اس نے ائمہ معصومین علیھم السلام کی مخالفت کی اور ان کی مخالفت خدا کے شرک کی حد تک ھے البتہ یہ شرک ربوبیت تکوینی میں شرک کی طرح نھیں ھے بلکہ ربوبیت تشریعی میں شرک ھے کیونکہ توحید کے اقسام ومراتب ھیں:
1۔ توحید در خالقیت؛ یعنی خداوندعالم کی وحدانیت اور اس کی یکتائی کا اقرار کرنا۔
2۔ توحید در الوھیت وعبودیت؛ یعنی خدا وندعالم کے علاوہ ربّ اور مطلق قانون گذار نہ ھونے اور کسی کے لائق عبادت ھونے پر عقیدہ رکھنا۔
خود توحید ربوبی کی دو قسمیں ھوتی ھیں :
1۔ توحید ربوبیت تکوینی۔
2۔ توحید ربوبیت تشریعی۔
”توحید در ربوبیت“ یعنی دونوں جھان کی تدبیر کو خدا وندعالم سے مخصوص مانے اور اس بات پر عقیدہ رکھیں کہ گردش آفتاب ومھتاب ، دن رات کا موجود ھونا، انسان وحیوانات کی موت وزندگی اور دیگر جاندار اشیاء کی حفاظت نیز دیگر حادثات خدا کی طرف سے ھوتے ھیں، وھی زمین وآسمان کی حفاظت کرتا ھے نیز اس وسیع وعرض دنیا میں جو چیز بھی پیدا ھوتی ھے ، رشد کرتی ھے، اپنے بچے پیدا کرتی ھے اور پھر مرجاتی ھے یا کسی بھی طرح کے جو آثار رونما ھوتے ھیں وہ تمام کے تمام خدا وندعالم کی تدبیر اور اس کے ارادہ کے تحت ھوتے ھیں، اور کوئی بھی واقعہ خداوندعالم کے دائرہ ربوبیت سے باھر نھیں ھے۔
”ربوبیت تشریعی“ صرف انسانوں کی اختیاری تدبیر سے متعلق ھوتی ھے برخلاف دوسری مخلوقات کے ، کیونکہ انسان کی تمام حرکات وسکنات اور اس کی ترقی ؛ اس کے اختیاری افعال کی بنا پر ھوتی ھے ، کیونکہ خداوندعالم نے انسان کو راہ مستقیم کی ھدایت فرمائی ھے، اور اس کو خوب وبد کی پھچان کرادی ھے، اور وھی انسان کی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں قانون صادر فرماتا ھے۔
لھٰذا توحید اور اس کے اقسام کے بارے میں بیان شدہ مطالب کے پیش نظر اگر کوئی شخص توحید در خالقیت اور عبودیت نیز توحید ربوبیت تکوینی کو قبول کرلے لیکن اگر توحید ربوبیت تشریعی کو قبول نہ کرے تو وہ مشرک ھے، جس طرح سے حضرت شیطان بھی اسی شرک میں مبتلا ھوئے ھیں، کیونکہ شیطان خدا وندعالم کی توحید در خالقیت کو قبول رکھتا تھا اسی طرح خداوندعالم کی توحید ربوبیت تکوینی کو بھی قبول رکھتا تھا، اسی وجہ سے اس نے کھا:
( قَالَ رَبِّ بِمَا اٴَغْوَیْتَنِی لَاٴُزَیِّنَنَّ لَھمْ فِی الْاٴَرْضِ وَلَاٴُغْوِیَنَّھمْ اٴَجْمَعِینَ )(7)
”اس نے کھا پرودگارا ! جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ھے میں ان بندوں کے لئے زمین میں ساز و سامان آراستہ کروں گا اور ان سب کو اکھٹا کروں گا۔“
قارئین کرام ! جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ شیطان خداوندعالم کی تکوینی ربوبیت کا معتقد تھا، اور خداوندعالم کو اپنا پروردگار سمجھتا تھا، لیکن اس نے ربوبیت تشریعی کا انکار کیا اسی وجہ سے وہ مشرک ھوگیا جب خداوندعالم امام معصوم علیہ السلام کی اطاعت کو واجب قرار دیتا ھے تو اگر کوئی شخص اس کو نہ مانے اور اس (امام) کی اطاعت نہ کرے، تو اس نے خداوندعالم کی تشریعی ربوبیت کا انکار کیاھے اور وہ تشریعی ربوبیت میں مشرک ھوگیا ھے اسی طرح اگر امام معصوم علیہ السلام کسی شخص کو اپنے طرف سے معین اور منصوب فرمائیں اور اس کی اطاعت دوسروں پر واجب قرار دیں تو اگر کوئی اس کو نہ مانے اور امام معصوم علیہ السلام کو تسلیم نہ کرے تو وہ بھی تشریعی ربوبیت میں شرک کا مرتکب ھوا ھے لھٰذا اگر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرمائیں: ولی فقیہ کی مخالفت ”علی حدّ الشرک بالله“ (خدا پر حدّ شرک ھے) ؛ تو امام نے کوئی مبالغہ نھیں کیا ھے اور حقیقت کو بیان فرمایا ھے، لیکن خالقیت یا تکوینی ربوبیت میں شرک نھیں؛ بلکہ اس کا شرک شیطان کی طرح تشریعی ربوبیت میں ھے۔
مذکورہ باتوں کے پیش نظر اسلامی نظریہ کے مطابق اسلامی حکومت کے مختلف مراتب ھیں اس حکومت کابلندترین نمونہ اس وقت وجود میں آسکتا ھے جب اس حکومت کی باگ ڈور پیغمبر یا امام معصوم علیہ السلام کے ھاتہ میں ھو اس سے کم مرتبہ کی حکومت وہ حکومت ھے جو جامع الشرائط فقیہ کے ذریعہ تشکیل پاتی ھے، جو علم وعمل اور معاشرہ کی مدیریت کے لحاظ سے امام معصوم (ع) سے زیادہ شباھت رکھتا ھے اس سے کم مرتبہ والی حکومت کا بھی تصور پایا جاتا ھے (جیسا کہ فقھاء نے اپنی اپنی کتابوں میں اس بارے میںبھی بیان کیا ھے)اور وہ یہ ھے کہ اگر جامع الشرائط فقیہ موجود نہ ھو یا اگر موجود ھے لیکن معاشرہ کی رھبری کی صلاحیت نہ رکھتا ھو تو اس وقت ولایت وحکومت عادل مومنین کے حوالے کی جائے گی؛ کیونکہ معاشرہ کو اس کے حال پر نھیں چھوڑا جاسکتا، اور اس کے لئے حکومت تشکیل نہ دی جائے لھٰذا طے یہ ھوا کہ اگر امام معصوم علیہ السلام حاضر ھوں تو ان کی حکومت وولایت بھترین اور مطلوب حکومت ھے، لیکن اگر امام معصوم (ع)حاضر نہ ھوں توپھر وہ جامع الشرائط فقیہ جو امام معصوم (ع) سے زیادہ شباھت رکھتا ھے اس کی حکومت ھونا چاھئے، لیکن اگر جامع الشرائط فقیہ بھی موجود نہ ھو تو تو پھرایسے عادل مومن کی حکومت ھو جس کا تقویٰ اور عدالت اس حدّ تک ھو جس پر عوام الناس اعتماد کریں، اور اس کے احکام جاری کرنے پر راضی ھوں اگرچہ اس کا علم فقیہ کی حد تک نہ ھو۔
اگرچہ ھمارا نظریہ یہ ھے کہ ھمیشہ معاشرہ میں ایسے علماء ، فقھاء اور بزگان رھے ھیں جو معاشرہ کی رھبری اور مدیریت کی صلاحیت رکھتے ھیں ، تاکہ معاشرہ کی رھبری کی عظیم ذمہ داری کا بار اپنے شانوں پر اٹھائیں، جیسا کہ خداوندعالم نے ھم پر احسان کیا کہ اس نے حضرت امام خمینی (رہ) جیسی عظیم نعمت سے سرفراز کیا، تاکہ معاشرہ کی بھترین طریقہ سے رھبری کریں، اور ان کے بعد ایسے شخص کا ذخیرہ کیا جو امام خمینی (رہ) کا خاص شاگرد اور ان کا خلف صالح ھے، جس میں زھد وتقویٰ، سیاسی فکر، مصالح مومنین کی رعایت، اسلامی معاشرہ کی رھبری اور مدیریت نیز دیگرمھم صفات میں امام خمینی (رہ) سے زیادہ مشابہ اور نزدیک ھے۔
9۔ اسلام کی نظر میں تفکیک قوا ( قدرت کا جدا جدا ھونا) کا جائزہ
دوسری وہ چیز جس پر ھم نے زیادہ اشارہ کیا ھے اور کہ اس پر مزید روشنی ڈالنا مناسب ھے وہ تفکیک قوا ( قدرت کا جدا جدا ھونا) اور حکومتی ذمہ داریوں کی تقسیم ھے جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ اسلامی نقطہ نظر سے حکومت کی ایسی کوئی خاص شکل وصورت نھیں ھے جو مخصوص شرائط یا کسی خاص معاشرہ سے مخصوص ھو اسلام کے لحاظ سے حکومت ایسی بھی ھوسکتی ھے جس میں فقط چند خاندان شامل ھوں ، یا بھت زیادہ آبادی والے ملک میں بھی حکومت ھوسکتی ھے ، بلکہ عالمی معاشرہ کے لئے بھی حکومت ھوسکتی ھے ظاھر سی بات ھے کہ حکومت کی مخصوص ذمہ داریاں اور وظائف جن سے حکومت کا وجودی فلسفہ ظاھر ھوتا ھے (خصوصاً زیادہ آبادی والے ملک میں) تو یہ ذمہ داریاں ایک یا دوافراد کے بس کی بات نھیں ھیں۔
اندرونی امنیت ، بیرونی دشمن سے مقابلہ، اقتصادی کارکردگی پر نظارت، بین الاقوامی امور پر نظارت، بین الاقوامی تعلقات کو طے کرنا نیز معاشرہ کی دوسری ضرورتیں اور ان سب میں مھم اسلامی شعار کو اقامہ کرنا، احکام اسلامی کے جاری ھونے پر نظارت اور ان کی حفاظت وغیرہ وغیرہ جیسی مھم ذمہ داریاں حکومت کے ذمہ ھوتی ھیں جن کے تحت ان کے لئے کام تقسیم ھونا چاھئے یہ تقسیم کار دو محور میں انجام پاتی ھے، ایک عمودی (طولی ) اور دوسرا افقی (عرضی) ؛ یعنی حکومتی کار کردگی کے یہ دونوں حصے ساق مثلث کے دو خطوں کو تشکیل دیتے ھیں، جو وسط سے ایک دوسرے کے راستہ کو نھیں کاٹتے، اور آخر میں” راس ھرم“ (مرکزی نقطھ) پر پھنچ جاتے ھیں، سادہ الفاظ میں حکومت کو ھرم کے مانند سمجھیں، جیسا کہ سیاست دانوں نے اس شباھت کی بنا پر حکومت کو ”ھرم قدرت“ سے تعبیر کیا ھے، جس میں ایک مرکزی نقطہ ھوتا ھے اور اسی کے تحت ھرم ھوتی ھے، اسی طرح حکومت کی مرکزی قدرت ایک شخص کے پاس ھوتی ھے جس کے تحت تمام ادارے کام کرتے ھیں
جس وقت ھم حکومت کے عام معنی تصور کریں تو قدرت کا ھر ایک رخ حکومت کے وظائف کو تشکیل دیتا ھے ”مانٹسکیو“ کے زمانہ سے فلسفہ حقوق اور سیاست میں حکومتی قدرت کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ھے:قوہ مقننہ (پارلیمنٹ) قوہ قضائیہ (قضاوت وعدالت) اور قوہ مجریہ (قوانین کو جاری کرنے والی طاقت جو حکومت کی شکل میں دکھائی دیتی ھے)، حکومت کا ایک رخ قانون گذاری ھوتی ھے دوسرا رخ قضاوت (عدالت) اور تیسرا رخ قوانین کو جاری کرنا ھوتا ھے حکومت کی کار کردگی کا ایک حصہ کلی اور جزئی قوانین ومقررات بنانا ھوتا ھے اور دوسرا حصہ عوام الناس کے اختلافات اور جھگڑوں کے فیصلے کرتا ھے، اور تیسرا حصہ معاشرہ میں قوانین کو جاری کرتا ھے۔
10۔ طاقت کے ایک ساتھ ھونے کا سبب
اگرچہ حکومتی کارکردگی اور اس کی قدرت کی مذکورہ تقسیم مناسب اور بجا ھے، لیکن اس بات پر بھی توجہ رکھنا ضروری ھے کہ ان تینوں حصوں کے درمیان خط کھینچنا آسان کام نھیں ھے یعنی یہ بات عملی طور پر ممکن ھی نھیں ھے کہ ھم عام طور پر قوانین ومقررات اور آئین ناموں اور ان کے جاری کرنے کو جدا جدا کریں اور قوہ مجریہ کو بالکل کسی بھی طرح کے قوانین نہ بنانے کی اجازت نہ دیں، آج کل ان تمام ھی ممالک میں جن میں ڈیموکریسی سسٹم ھوتا ھے قدرت کی تقسیم کو قبول کیا گیا ھے، اور ان میں خواہ نا خواہ بعض چیزوں میں قانون گذاری اور ان کو جاری کرنے کے سلسلہ میں اختلاط (مخلوط ھونا) پایا جاتا ھے، جس کی سب سے واضح مثال کا پارلیمنٹ نظام میں مشاھدہ کیا جاتا ھے، کیونکہ ڈیمو کراٹک نظام پارلیمنٹ اور ریاستی نظام کی طرف تقسیم ھوتا ھے۔
1۔پارلیمنٹی نظام
جو قدرت کے یکجا ھونے کی بنیاد پر ھوتا ھے، یعنی تمام تر قدرت پارلیمنٹ کے تحت ھوتی ھے جب عوام الناس کے ووٹوں سے مختلف پارٹیوں سے ممبران منتخب ھوتے ھیں تو ان کے ذریعہ پارلیمنٹ بنتا ھے، اور اسی میں سے مختلف وزیراور وزیر اعظم بنائے جاتے ھیں، اور تمام بڑے بڑے عھدے اسی پارلیمنٹ کے ممبران میں سے ھوتے ھیں اس نظام میں پارلیمنٹ کی طرف سے مختلف وزراء کو مختلف اداروں کی ذمہ داری دی جاتی ھے ، اور یھی پارلیمنٹ وزراء کو معزول بھی کرسکتا ھے۔
2۔ ریاستی نظام
جس میں قدرت جدا جدا تقسیم ھوتی ھے اس نظام میں صدر مملکت پارلیمنٹ کی طرف سے انتخاب نھیں ھوتا اور وزراء صدر مملکت کی طرف سے منصوب ھوتے ھیں،اور پارلیمنٹ ان کو معزول نھیں کرسکتا، در مقابل پارلیمنٹ بھی قوہ مجریہ سے مستقل اور جدا ھوتا ھے اس سسٹم میں ممبر آف پارلیمنٹ اور وزراء کابینٹ "Cabinet" میں ذاتی اور مانعة الجمع اختلاف ھوتا ھے یعنی صدر مملکت ممبر آف پارلیمنٹ میں سے وزیر نھیں بنا سکتامگر اس وزیر کو جس نے پارلیمنٹ کی ممبری شپ سے استعفاء دیدیا ھو۔
ریاستی حکومت میں صدر مملکت براہ راست عوام الناس کے ذریعہ انتخاب ھوتا ھے اور اس میں ایک طرح طاقت کے دخل کا مشاھدہ ھوتا ھے، اور بعض قوانین ومقررات کو طے کرنا وزراء کابینٹ کی ذمہ داری ھوتی ھے آج کل ھمارے ملک میں بھت سی اجتماعی اور اقتصادی کار کردگی کے لئے حکومت کے قوانین کافی ھوتے ھیں؛ یعنی حکومتی کابینٹ کا جلسہ ھوتا ھے اور صلاح مشورہ کے بعد قوانین تصویب کئے جاتے ھیں، اور خود ان کو جاری بھی کرتی ھے لھٰذا بعض قوانین بنانے میں حکومت کو اجازت ھوتی ھے۔
دوسری طرف اگرچہ پارلیمنٹ کا کام قوانین بنانا ھوتا ھے لیکن بعض اجرائی کاموں کو بھی انجام دیتی ھے: مثال کے طور پر بیرونی کمپنیوں سے معاھدہ (اگریمنٹ) کرنا ایک اجرائی کام ھے اور قاعدہ کے مطابق حکومت کو کرنا چاھئے لیکن چونکہ یہ مسئلہ بھت مھم اور بنیادی ھے لھٰذا اس سلسلہ میں تمام پھلوٴوں پر نظر رکھتے ھوئے احتیاط کے ساتھ ضروری تحقیق وجائزہ کے بعد یہ قدم اٹھایا جاتا ھے تاکہ اس سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جاسکے،اور حکومت میں اس طرح کے معاھدہ کو بیان کرنے کے بعد ضروری تحقیق وبررسی کرکے پارلیمنٹ کے حوالے کیا جاتا ھے، اور جب پارلیمنٹ اس کی تائید کردیتا ھے تو اس پر عمل درآمد ھوتا ھے۔
المختصر
تفکیک قوا ( قدرت کا جدا جدا ھونا) کا نظریہ اس بات کا تقاضا کرتا ھے کہ تینوں طاقتیں ایک دوسرے سے مستقل اور جدا ھوں، لیکن عملی میدان میں دنیا کے مختلف نظام میں بعض امور کے سلسلہ میں ان قوتوں میں اختلاط پایا جاتا ھے، البتہ یہ قدرتیں جس قدر بھی ایک دوسرے سے جدا جدا رھیں اور ھر قدرت ایک دوسرے سے مستقل ھوں تو پھر ایک دوسرے میں دخالت اور ناجائز فائدہ اٹھانے کا امکان کم پایا جاتا ھے۔
حوالے:
(1) الیگارکی اس نظام حکومت کو کھتے ھیں جس میں مقتدر لوگوں کی حاکمیت ھوتی ھے
(2) عمراء اور بادشاھوں کی حکومت جو نسلاً بعد نسل چلتی رھتی ھے
)3)سورہ نساء آیت 59
(4) سورہ حشرا آیت 7
(5)سورہ یونس آیت 32
)6( وسائل الشیعہ ج 1 ص 43
)7) سورہ حجر آیت 39
اکتیسواں جلسہ
تفکیک قوا (قدرتوں کی جدائی) کے نظریہ کی تحقیق اور اس پر نقد وتنقید
1۔ گذشہ مطالب پر ایک نظر
جیسا کہ ھم نے گذشتہ جلسات میں عرض کیا کہ اسلامی حکومت کے بھت سے وظائف اور ذمہ داریاں ھوتی ھیں جن کی بنا پر اسلامی حکومت کا فلسفہ وجودی سمجھ میں آتا ھے وہ وظائف اور ذمہ داریاں جن کی اسلامی حکومت عھدہ دار ھوتی ھے ان کے لئے کچھ خاص اختیارات بھی ھونا ضروری ھیں جن کے تحت وہ اپنے وظائف اور ذمہ داریوں کو پورا کرسکتی ھے بھر حال تمام ھی حکومتوں بالخصوص اسلامی حکومت کی خاص ذمہ داریوں کی وجہ سے کاموں کی تقسیم بندی ھوتی ھے جو مھارت، لیاقت اور ذمہ داری کی قسم کی بنا پر عھدہ داران کو دی جاتی ھے بے شک یہ کاموں اور قدرتوں کی تقسیم ایک ضروری چیز ھے، کیونکہ اگر ایک محدود مقام جیسے کسی گاؤں وغیرہ کی حکومت کا مسئلہ ھوتا تو اس وقت کاموں کی تقسیم اتنی زیادہ ضروری نہ ھوتی لیکن چونکہ اسلامی حکومت ایک خاص علاقے سے مخصوص نھیں ھے لھٰذا اکثر موارد میں قدرتوں کی تقسیم نھایت ضروری ھے۔
اور چونکہ اسلامی حکومتی نظریہ پوری دنیا اور تمام زمانوںکے لئے ھے، لھٰذا اس کے لئے ایک ایسا نقشہ مرتب کیاگیاھے جو عالمی اوردائمی ھے، او رکسی خاص علاقے اور خاص زمانہ سے مخصوص نھیں ھے،اسی وجہ سے اس کے لئے ایسے قوانین کا انتخاب کیا گیا ھے جو مختلف زمانہ اور مختلف مقامات کے لئے جاری ھونے کی صلاحیت رکھتے ھوں؛ بے شک کاموں اور قدرت کی تقسیم انھیں قوانین کے تحت ھوتی ھے۔
2۔ تفکیک قوا (قدرتوں کی جدائی) کے نظریہ کی تاریخی حیثیت
قارئین کرام ! جیسا کہ ھم نے گذشتہ جلسہ میں عرض کیا کہ حکومتی نظام کا ایک ھرم(وسیلہ اور طاقت) کی طرح تصور کیا جاسکتا ھے،جو مختلف شکلوں اور صورتوں سے تشکیل پاتا ھے،لیکن ان شکلوں کی تعداد تقریباً معاھدہ کے طور پرھوتی ھیں چنانچہ حکومت کی یہ شکل قدیم زمانہ سے چلتی آرھی ھے،یونانی فلاسفہ منجملہ ”ارسطو“ کے زمانے سے حکومت کی یھی تین چھرے والی تصویر پیش کی گئی ھے ان میں سے ایک چھرہ ان لوگوں سے مخصوص ھوتا ھے جو معاشرہ کے صاحب عقل وخرد ھوتے ھیں، اورحکومت کے اس حصے کو (جسے آج کل ”قانون گذاری پاور“ (ممبر آف پارلیمنٹ ) کا نام دیا جاتا ھے)؛وہ لوگ تشکیل دیتے ھیں جو اپنی عقل وفکر کو بروئے کار لاتے ھوئے معاشرہ کے نظام کے لئے ضروری قوانین مرتب کرتے ھیں اسی طرح ارسطو کے کلام میں دوسرے دو چھروں کا بھی تذکر ہ ھے جو قوہ مجریہ (حکومت) اور قوہ قضائیہ (عدل) پر منطبق ھوتی ھیں،اور وہ درج ذیل ھیں:
1۔ معاشرہ کے حکام اور اس کو چلانے والے۔
2۔عوام الناس کے فیصلے کرنے والے افراد۔
اسی طرح ان آخری صدیوں میں مغربی سیاست داں افراد نے بھی حکومت کے تین چھروں والا نظریہ پیش کیا ھے چنانچہ ان کے آخر میں ”مونٹسکیو“ نے بھی تفکیک قوا کے نظریہ کے تحت حکومت کو درج ذیل تین حصوں میں تقسیم کیا ھے: قانون گذاری، عدلیہ، اور قوہ مجریہ، اور اسی وجہ سے اس نے ”روح القوانین“ نامی کتاب لکھی، جس میں ھر ایک قدرت کے بارے میں تفصیل سے بحث کی ھے ”مونٹسکیو“ کی علمی اور نئے نظریات کے سلسلہ میں کی گئی کوشش کی وجہ سے تفکیک قوا کا مسئلہ اسی وقت سے مشھور ھوگیا یھاں تک کہ آج بعض لوگ اسی کو اس تھیوری کا مخترکھتے ھیں۔
آج کل اکثر ممالک منجملہ ھمارے ملک میں بھی بنیادی قوانین اسی نظریہ کے تحت بنائے جاتے ھیں، اور تینوں طاقتوں کو استقلال اور ڈیموکریسی کے اصول میں شمار کرتے ھیں بین الملل (عالمی سطح) پر اسی ملک کو ڈیموکریٹک کھا جاتا ھے جس میں یہ تینوں طاقتیں ایک دوسرے سے الگ الگ اور مستقل ھوں اور ایک دوسرے پر مسلط نہ ھوں۔
3۔ تفکیک قوا نظریہ کے دلائل پر ایک نظر
1۔ چونکہ حکومت کی مختلف اور پیچیدہ ذمہ داریاں ھوتی ھیں جن کے سبب ان کے بارے میں کافی معلومات اور خاص مھارت کی ضرورت ھوتی ھے لھٰذا یہ سب کام ایک شخص سے نھیں ھوسکتا لھٰذا انھیں پیچیدگیوں کے پیش نظر کام اور قدرت کی تقسیم ضروری ھے اور چونکہ حکومت کی مختلف ذمہ داریاں ھوتی ھیں لھٰذا ان میں اختلاف اور ایک دوسرے کامخالف ھونا بھی ممکن ھے تو اس صورت میں حکومت کے اسی خاص چھرے کے لحاظ سے عھدہ داروں کا بھی انتخاب ھوتا ھے اسی بنا پر حکومت کی تینوں طاقتیں تقسیم ھوتی ھیں اور انھیں کے تحت تمام حکومتی امور انجام پاتے ھیں،البتہ اس کی زیادہ تر فعالیت قوہ مجریہ کے تحت ھوتی ھیں: مثلاً جنگ اور دفاع سے متعلق مسائل، معاشرہ کے مستضعف او رکمزور لوگوں کی امداد کرنا، تعلیم وتربیت کا نظام اور علاج ومعالجہ سسٹم وغیرہ یہ تمام محکمات قوہ مجریہ کے تحت ھوتے ھیں جبکہ عدلیہ کا کام صرف عوام الناس کے اختلافات اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنا ھوتا ھے، اور قانون گذار پاور (پارلیمنٹ ) کا کام فقط قوانین بنانا ھوتا ھے، اس کے علاوہ دوسرے مخصوص کام نیز معاشرہ اور ملک کی دوسری ضرورتوں کا پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ھوتی ھے۔
قوہ مجریہ کی عظیم اور وسیع ذمہ داریوں کے پیش نظر ھوسکتا ھے اس کو عدلیہ اور پارلیمنٹ کے برابر رکہ دیا جائے اوراس کو ایک قدرت کا نام دیدیا جائے لیکن خود حکومت کا ایک پھلو نھیں ھوتا بلکہ مختلف ذمہ داریوں اور وظائف کی بنا پر اس کے ایک سے زیادہ پھلو ھوتے ھیں اور اس قدرت کی تقسیم کی بنا پر ھر ایک محکمہ پر ایک قدرت کا اطلاق ھوسکتا ھے، اس صورت میں اس کے بھت سے پھلو دکھائی دے سکتے ھیں،اور اس کے، تحت ھر وزارتخانہ اس کے ایک پھلو کو تشکیل دیتا ھے۔
بھر حال حکومتی نظام کی مختلف ذمہ داریوں کی بنا پر قدرت کی جوتین قسمیںکی گئی ھے،اور اس تقسیم کو آج کی دنیا ئے سیاست نے بھی قبول کیا ھے اور وہ ایک معاھدہ کے عنوان سے مشھور ھے، لھٰذا اس تقسیم میں کوئی اشکال نھیں ھے۔
قارئین کرام ! یھاں پر ایک سوال یہ باقی رھتا ھے کہ کیا حکومت کی مختلف ذمہ داریوں کا ھونا اس تقسیم اور استقلال کے لئے کافی ھے؟ تو جواب یہ ھے کہ مختلف ذمہ داریوں کا ھونا صرف تفکیک قوا پر ایک توجیہ تو ھوسکتی ھے لیکن اس کو اس سلسلہ میں علت تامہ (مکمل طور پر علت) قرار نھیں دیا جاسکتا کیونکہ جب ھم قوہ مجریہ کو دیکھتے ھیں تو اس میں بھی مختلف ذمہ داریاں ھوتی ھیں جن میں آپس میں زیادہ تعلق بھی نھیں ھوتا؛ مثلا جنگ اور دفاع کا مسئلہ، میڈیکل وغیرہ لیکن اس کے بعد بھی یہ تمام چیزیں قوہ مجریہ کے تحت ھوتی ھیں اور اگر ذمہ داریوں کے مختلف ھونے ھی کو قدرت کے زیادہ ھونے کا سبب قرار دیں تو پھر دسیوں مستقل قدرتیں ھونا چاھئیں تھیں۔
2۔ تفکیک قوا اور تکونی تقسیم کی مھم ترین دلیل اور توجیہ وھی ھو جس کی بنا پر مونٹسکیو نے تفکیک قوا کا یہ نظریہ پیش کیا ھے: چونکہ انسانی فطرت میں ایک دوسرے پر سلطنت اور ظلم کی طرف جھکاؤ پایا جاتا ھے ، اور اگر تینوں طاقتیں ایک شخص یا ایک گروہ کے تحت ھوتیں تو پھر اس (حکومت) سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے زیادہ امکانات پائے جاتے،کیونکہ اس صورت میں وھی گروہ قانون گذار بھی ھے اور فیصلے کرنے کی ذمہ داری بھی اسی کی ھے اور قوانین کو جاری کرنے کا عھدہ بھی اسی کے پاس ھے، اور یہ ظاھر ھے کہ ھر انسان اپنے مفاد میں قانون بناتا ھے اور پھر اپنےھی حق میں فیصلے کرتا ھے، اس طرف سے قوانین کو جاری کرنے کی ذمہ داری بھی اسی کی ھے لھٰذا ناجائز فائدہ اٹھانے کے بھت سے راستے ھموار ھوجاتے اسی بنا پر مونٹسکیو کا ماننا تھا کہ راہ اعتدال کو برقرار رکھنے اور ظلم وجور سے روک تھام اور ناجائز فائدہ اٹھانے سے روکنے کے لئے تینوں قدرتوں کا الگ الگ ھونا ضروری ھے۔
قارئین کرام ! گذشتہ مطالب کے پیش نظر یہ بات معلوم ھوگئی کہ قدرتوں کا مستقل ھونا اس لئے ضروری ھے،کہ ناجائز فائدہ اٹھانے کا سد باب ھوجائے خصوصاً قوہ مجریہ کے لئے جو جب عدلیہ بالکل مستقل ھو تو پھر سب کے فیصلے قوانین کے تحت ھوں گے،اور کوئی بھی سزا سے نھیں بچ سکتا،اور تمام ھی افراد عدلیہ کے مقابلہ میں جواب دہ ھوں گے، کیونکہ اس صورت میں عدلیہ بڑے سے بڑے حکومتی عھدہ دار کو عدالت کے کٹھیرے میں کھڑا کرسکتی ھے،اور اگر انھوں نے قوانین کی خلاف ورزی کی ھے تو اس کو سزا دے سکتی ھے اسی طرح اگر قانون گذار طاقت (پارلیمنٹ ) نے اسلامی قوانین کی مخالفت کی ھے تو اس صورت میں عدلیہ ان کے خلاف کاروائی کرسکتی ھے اسی طرح اگر قانون گذار طاقت مستقل ھوگی تو وہ (بھی) قانون گذاری کے سلسلہ میں کسی (عدلیہ اور حکومت) سے متاثر ھوکر قانون نھیں بنائے گی اور ممبر آف پارلیمنٹ قوانین بناتے وقت مکمل طور پر مستقل اور آزادی کے ساتھ قوانین بنائیں گے اور کسی بھی طاقت کے تحت تاثیر قرار نھیں پائیں گے، اور دوسرے سے وابستہ ھونے کا احساس بھی نھیںکریں گے۔
4۔ تفکیک قوا کو بالکل محدود کرنا نا ممکن
سیاست داں حضرات نے ڈیموکریسی کے لئے تینوں طاقتوں کو مستقل ھونا شرط قرار دیا ھے،البتہ یہ استقلال عملی طور پرحاصل ھونا چاھئے اور نظریہ کے لحاظ سے بھی، کیونکہ ھوسکتا ھے کوئی نظام تفکیک قوا کے نظریہ کے تحت ھو اور یہ تصور کیا جائے کہ تینوں طاقتیں ایک دوسرے سے بالکل جدا ھیں،اور کسی ایک طاقت سے بھی متاثر نھیں ھے لیکن عملی میدان میں ایک طاقت دوسری طاقت پر تجاوز کرجائے اور اپنے حکمرانی چلانے کی کوشش کرے۔
اگر ھم دنیا بھر کی ڈیموکرسی حکومتوں پر غور کریں تو ھمیں معلوم ھوجائے گا کہ بھت ھی کم ایسی حکومتیں ھیں جن میں تینوں طاقتیں ایک دوسرے سے مکمل طور پر الگ الگ ھوں،مثلاً عدلیہ اور پارلیمنٹ ؛ حکومت سے متاثر نہ ھوں اور یہ تو ظاھر سی بات ھے کہ جب عدلیہ کے تمام اخراجات حکومت کے ھاتہ میں ھوں اور انتخابات حکومت کے ذریعہ انجام پاتے ھوں تو پھر بھت ممکن ھے کہ حکومت چند پارٹیوں کے مقابلہ میں اسی طرح اپنی حکومت کو برقرار رکھے؛ اور جب حکومت اس کے ھاتہ میں ھوگی تو دوسری طاقتیں بھی اسی کے اختیار میں ھوں گی۔
اسی وجہ سے ھم دیکھتے ھیں کہ دنیا بھر کی مختلف حکومتوں میں حکومت کے عھدہ دار افراد کبھی علی الاعلان اور کبھی مخفی طور پر دوسری حکومتوں میں دخالت کرتے ھیں اور ان پر زور دیتے ھیں، خصوصاً وہ ممالک جن میں پارلیمنٹی نظام ھوتا ھے اور پارلیمنٹ کے ذریعہ ھی حکومتیں عھدہ داروں کا انتخاب کرتی ھیں،یعنی ممبر آف پارلیمنٹ براہ راست عوام الناس کے ذریعہ چنے جاتے ھیں اور پھر یھی ممبر اپنی اکثریت سے حکومت کے لئے عھدہ داروں کا انتخاب کرتے ھیں۔
اسی طرح ریاستی نظام جن میں صدر مملکت کا انتخاب خود عوام الناس کرتی ھے اور اجرائی قدرت صدر مملکت کے اختیار میں ھوتی ھے؛ ان میں حکومت پارلیمنٹ اور عدلیہ میں دخالت کرتی ھے، خصوصاً بھت سے وہ ممالک جن میں صدر مملکت کو وٹو "Veto" کا حق ھوتا ھے، اور وہ پارلیمنٹ کے قوانین کو بے اثر کرسکتا ھے اس کا مطلب یہ ھے کہ پارلیمنٹ باید وشاید طور پر اپنے نظریہ کو حکومت پر لاگو نھیں کرسکتا، ممبر آف پارلیمنٹ قوانین بناتے ھیں ، اپنی بحث وگفتگو کے بعد اکثریت سے کسی قانون کو پاس کرتے ھیں، لیکن چونکہ خود بنیادی قوانین نے صدر مملکت کو وٹو کا حق دیا ھے لھٰذا ان کے بنائے ھوئے قوانین بے اثر ھوجاتے ھیں۔
ھماری نظر میں کوئی ایسا ملک نھیں ھے جس میں تینوں طاقتیں ایک دوسرے سے مستقل ھوں، اور کسی ایک طاقت کے تحت تاثیر نہ ھوں اور ایک دوسرے میں کسی طرح کی کوئی دخالت نہ کرتی ھوں،خصوصاً قوہ مجریہ جو دوسری طاقتوں پر زیادہ نفوذ رکھتی ھے، فقط بنیادی قوانین میں استقلال کے نام سے موجود ھے جبکہ حقیقت میں تینوں طاقتیں مستقل اور ایک دوسرے سے جدا نھیں ھے، بلکہ حکومت ان پر مسلط ھوتی ھے۔
اور چونکہ تینوں طاقتیں ایک دوسرے میں دخالت کرتی ھیں لھٰذا ان تینوں طاقتوں کے کام کے درمیان ایک ثابت حد بندی معین کرنا واقعاً مشکل ھے جیسے قانون گذاری والے مسائل ھوں یا قوانین جاری کرنے والے مسائل یا اس کے برعکس،یعنی اجرائی مسائل کو قانون گذاری کے حوالے سے جدا کرنا مشکل ھے ھم خود اپنے ملک میں اور دوسرے ممالک میں یہ دیکھتے ھیں کہ وہ مسائل جو قانون گذاری کا پھلو رکھتے ھیں لیکن وہ (بھی) حکومت کے ذمہ ھیں مثال کے طور پر بنیادی قوانین کے تحت بعض قوانین حکومتی کابینٹ کے سپرد کئے جاتے ھیں جن کو طے کرکے جاری کیا جاتا ھے اگرچہ ان قوانین پر اسپیکر کے دستخط ھونا (بھی) ضروری ھوتے ھیں، لیکن کبھی کبھی صرف ان قوانین کا پارلیمنٹ میں بھیج دینا ھی کافی ھوتا ھے بعض حکومتوں میں اسپیکر کے دستخط کرنا یا پارلیمنٹ میں بھیجنا ضروری بھی نھیں ھوتا، بلکہ خود حکومتی کابینٹ میں پاس ھونے سے وہ قانونی شکل اختیار کرلیتے ھیں،اور ان کو نافذ کردیا جاتا ھے لیکن وہ موارد میں جن میں اسپیکر کے دستخط اور اس کا تائید کرنا ضروری ھوتا ھے،ان میں( بھی) دستخط اور تائید کی کوئی خاص اھمیت نھیں ھوتی اور صرف دکھاوٹی پھلو ھوتا ھے کیونکہ حکومتی کابینٹ کوئی بھی قانون بنادے تو پھر اسپیکر کو اس پر دستخط کرنا ھی ھوتا ھے اور اگر یہ فرض کرلیں کہ اسپیکر کے دستخط دکھاوے کے طور پر نھیں ھیں توکیا اسپیکر کے دستخط کرنے کا مطلب یہ ھے کہ اس قانون کو ممبر آف پارلیمنٹ نے بنایا ھے؟!
بھر حال بعض ایسے مسائل جو قانون گذاری کے پھلو رکھتے ھیں اور ان پر بحث وگفتگو کے ذریعہ ان کو پاس کرنا پارلیمنٹ کے ذمہ ھوتا ھے ، لیکن ان کی فوری طور پر ضرورت ھے اور اگر وہ فوراً تصویب نہ ھوئے تو معاشرہ میں خلل پیش آجائے گا تو اس صورت میں خود حکومتی کابینٹ کو اس طرح کے قوانین بنانے کا حق دیا جاتا ھے دوسری طرف بعض وہ مسائل جو اجرائی پھلو رکھتے ھیں لیکن ان کی اھمیت کے پیش نظر بنیادی قوانین ان کو جاری کرنے کے لئے پارلیمنٹ کو مصوب کرنے اور اس کی تائید کرنے کی شرط کرتا ھے مثلاً جنگ، اقتصاد اور تیل وغیرہ کے سلسلہ میں بیرونی کمپنیوں سے معاھدہ کرنا یہ سب کام اجرائی پھلو رکھتے ھیں لیکن بنیادی قوانین کے مطابق پارلیمنٹ کا پاس کرنا ضروری ھے قارئین کرام ! ھمارا مقصد یہ ھے کہ تھیوری اور نظری لحاظ سے پارلیمنٹ اور قوہ مجریہ کے وظائف میں مکمل طور سے جدائی کرنا صحیح اور منطقی نھیں ھے۔
حکومتی نظام میں پارلیمنٹ اور قانون گذار مجلس کے علاوہ دوسری شوریٰ اور مجالس بھی ھوتی ھیں جن کا کام بھی ایک طرح سے قانون گذاری ھوتا ھے مثال کے طور پر ھمارے ملک میں ”شوریٰ انقلاب فرھنگی“ بھی بعض چیزوں کو تصویب کرتی ھے جن کو قانون کی جگہ سمجھا جاتا ھے،اور ان قوانین کی شکل ایسی ھوتی ھے جس کی بنا پروہ شوریٰ اسلامی مجلس او رممبر آف پارلیمنٹ کے ذریعہ تصویب ھوجاتے ھیں، لیکن ھمارے ملکی نظام کے ثقافتی اھمیت کی خاطر اور ثقافتی سلسلہ میں سیاست اور طریقہ کار کو طے کرنے کی ذمہ داری ان افراد پر ھوتی ھے جو اس سلسلہ میں کافی تجربہ اور مھارت رکھتے ھوں اسی طرح بعض دوسرے مخصوص ادارے ھوتے ھیں جن کا شمار قوہ مجریہ میں ھوتا ھے،اور قانون کو جاری کرنے والوں کی طرح تصیمم گیری کرتے ھیںاور قانون گذاری پھلو نھیں رکھتے، مثلاً ”شوریٰ عالی امنیت“ اور ”شوریٰ عالی اقتصاد“ جو اس سلسلہ کے ماھر ین افراد پر مشتمل ھوتی ھیں، جن کی مھارت اور دقت عقلی دوسری کی نسبت زیادہ ھوتی ھے جوملک کے اھم اور اسٹریٹیجک"Strate'gique" مسائل میںاپنی دقت اور ظرافت کے ساتھ عمل کرتی ھے۔
قارئین کرام ! ھماری گذشتہ باتوں سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ تینوں طاقتوں کا مکمل طریقہ سے مستقل اور الگ الگ ھوناچاھے تھیوری"Theory" کے لحاظ ھو یا عملی (پریکٹیکل) "Practical" اعتبارسے ایک مشکل کام ھے،خصوصاً حکومت کے مخصوص کاموں کا پارلیمنٹ کی ذمہ داریوں سے الگ کرنا لیکن جیسا کہ دیکھنے میں آتا ھے کہ یہ طاقتیں ایک دوسرے میں دخالت کرتی ھیں،خصوصاً بھت سے ملکوں میں حکومت؛ پارلیمنٹ اور عدلیہ میں دخالت کرتی ھے اسی وجہ سے اس طرح کی مداخلت سے روک تھام کے لئے ایک طریقہ سے معاھدہ کرنا ضروری ھے۔
5۔ تینوں طاقتوں پر ایک ناظر اور ھم آھنگ کرنے والی طاقت کی ضرورت
قارئین کرام ! دوسرا مسئلہ یہ ھے کہ اگر در حقیقت تینوں طاقتوں میں مطلق اور مکمل طور جدائی ھوجائے اور ھم پارلیمنٹ کو مستقل طور پردیکھنا چاھیں جودوسری دونوں طاقتوں سے کوئی بھی عھدا دار کا رابطہ نہ رکھتا ھو، اسی طرح قوہ مجریہ یا عدلیہ کو مستقل طور پر دیکھنا چاھیں اور اس تقسم میں تھیوری اور پریکٹیکل طور پر کسی طرح کی کوئی مشکل پیش نہ آئے تو ملک کی ترقی کے سلسلہ میں پیش آنے والے اھم امور میں بھت بڑی مشکل میں پھنس جائیں گے، اور وہ مشکل یہ ھوگی کہ حکومت میں ایک قسم کاشدید اختلاف پیدا ھوجائے گا؛ گویا ایک ھی ملک میں تین حکومتیں ھوں گی، جن میں سے ھر ایک اپنے لحاظ سے کارکردگی میں مشغول ھے جس کاایک دوسرے سے بالکل کوئی واسطہ نھیں ھے۔
المختصرایک طرف حکومت کی کار کردگی کا مختلف ھونا اور ان کا پیچیدہ اور وسیع ھونا اس بات کا تقاضا کرتا ھے کہ طاقتیں تقسیم ھونا چاھئیں، اور حکومت کے لئے مختلف پھلو مد نظر رکھے جائیں، اور ان تینوں طاقتوں کی ذمہ داری کی وجہ سے ایک حکومت کے لئے بھت سے چھرے تصور کئے جائیں جس کے نتیجہ میں ایک حکومت مثلث القاعدہ یا مخمس القاعدہ ھوجائے جس کی وجہ سے اس حکومت کے مختلف چھرہ دکھائی دیں دوسری طرف سے عوام الناس اور معاشرہ کے نظام کی وحدت اس بات کا تقاضا کرتی ھے کہ حکومت میں ایک وحدت اوران کا منسجم ھونا ضروری ھے تاکہ اسی کے زیر سایہ تمام نظام کی وحدت اور اتحاد نیز طاقتوں کے درمیان ایک ھم آھنگی برقرار رھے اسی طرح ان تینوں طاقتوں کی کارکردگی پر بھی نظارت ھوسکے۔
لھٰذا ھم اسلامی حکومت کے لئے دو قسم کی مصلحت اندیشی کے روبرو ھیں: ایک طرف سے ھمیں طاقتوں اور ذمہ داریوں کی تقسیم کو قبول کرنا ھے کیونکہ حکومت کی مختلف کار کردگی کی الگ الگ قسمیں ھیں اور ایسے ماھر افرادجواپنی مھارت او رتجربہ کے ذریعہ مختلف ذمہ داریوں کو نبھاسکیں، بھت ھی کم ھیں، اور شاید ایسے افراد کا وجود ھی نہ ھو ، لھٰذاان طاقتوں کا تقسیم کرنا ضروری ھے، اور ھر حصہ کی مخصوص ذمہ داریاں اسی فن میں ماھر افراد کے سپرد کی جائے دوسری طرف ،چونکہ معاشرہ کو ایک اتحاد اور وحدت کی ضرورت ھے؛ کیونکہ اگر ان طاقتوں میں اختلاف اور ٹکراؤ ھونے کا امکان ھے، لھٰذا ان تینوں طاقتوں کو ھم آھنگ کرنے سے ایک اھم طاقت کا ھونا ضروری ھے تاکہ اگر ان طاقتوں میں اختلاف ھوجائے تو وہ طاقت ان کے درمیان اس اختلاف کو دور کرسکے،اور ادھر معاشرہ میں اتحاد کے پیش نظر اپنا بنیادی کردار ادا کرے کیونکہ وہ معاشرہ جس پر تین طاقتیں مستقل طور پر اپنا اپنا حکم چلاتی ھیں ؛ اس کو ایک متحد اور ھم آھنگ نھیں کھا جاسکتا اور خواہ نخواہ ایک طرح کا اختلاف اور ٹکراؤ پیدا ھوجائے گا۔
اس مشکل کو حل کرنے اور ان طاقتوں میں اتحاد کو برقرار رکھنے کے لئے، نیز اختلاف کو حل کرنے کے لئے سیاست دانوں نے بھت سی راہ حل بیان کی ھیں جن کا بیان کرنا اس وقت ممکن نھیں ھے ، اور ھم صرف اسلامی راہ حل پیش کرتے ھیں۔
6۔ ولایت فقیہ معاشرہ کے اتحاد کا مرکز
قارئین کرام ! گذشتہ جلسات میں بیان شدہ مطالب کے پیش نظر جن میں اسلامی حکومت کی مختلف صورتیں اور اس کے اقداری درجات کے بارے میں عرض کیا کہ اسلامی حکومتوں کی بعض صورتیں نمونہ ھیں ، اور ان میں سے بعض اس سے کم تر درجہ کی ھیں، کہ اگر بلند ترین اور نمونہ حکومت تشکیل نہ ھوسکے تو اس سے کم تر درجہ والی حکومت تشکیل پائے گی؛ یھاں پر ھم یہ عرض کرتے ھیں کہ اسلامی نظام میں اس مشکل کے بارے میں بھترین چارہ جوئی بیان کی گئی ھے کیونکہ نمونہ حکومت میں ایک معصوم ذات کو بر سر اقتدار ھونا چاھئے، اور اسی کے ھاتھوں میں طاقت وقدرت ھونی چاھئے،اور یہ ظاھر سی بات ھے کہ جب (معصوم علیہ السلام) کے ھاتھوں میں قدرت ھوگی تو تو معاشرہ میں وحدت واتحاد اور قدرتوں میں ھم آھنگی پیدا ھوجائے گی، اور اپنی قدرت سے اختلافات اور قدرتوں کے درمیان ٹکراؤ کا خاتمہ فرمادیں گے اس کے علاوہ ھر قسم کی خودخواھی ،ذاتی مفاد اور پارٹی بازی سے جدا رھیںگے؛ کیونکہ معصوم وہ ھے جس میں کسی طرح کا کوئی غیر الٰھی تصور نھیں پایا جاتا (البتہ ھم پھلے عرض کر چکے ھیںکہ اسلامی حکومت کی نمونہ صورت(آئیڈیل شکل) صرف امام علیہ السلام کے حاضر ھونے کی صورت ھی میں ممکن ھے۔
اسی طرح اسلامی حکومت کی دوسرے درجہ میں وہ حکومت ھے جس میں صاحب اقتدار وہ شخص ھو جو امام معصوم علیہ السلام سے زیادہ مشابہ اور نزدیک ھو ، اور ضروری شرائط کے علاوہ امام معصوم کے بعد تقویٰ اور عدالت کے اعلیٰ درجہ پر فائز ھو ایسی شخصیت کو ولی فقیہ کھا جاتا ھے؛ معاشرہ کی وحدت ، قدرتوں کو ھم آھنگ کرنے والی اور عھدہ داران کی کارکردگی پر ناظر اورنگراں ھوتی ھے، نیز حکومت کے لئے اھم راھنمائیاں ، رھبری اور اھم سیاست گذاری اسی ذات کے ذریعہ ھوتی ھے۔
قدرت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے لئے ”مونٹسکیو“ نے قدرتوں کی جدائی کا نظریہ پیش کیا جس کو تقریباً سبھی لوگوں نے قبول کیااور وہ ایک حد تک مفید بھی ھے ؛ لیکن اس نظریہ سے اصل مشکل کا حل نھیں ھوتا کیونکہ اگر حکومت کے عھدہ داران (تینوں طاقتوں میں) اخلاقی صلاحیت اور تقویٰ الٰھی سے مزین نہ ھوں اور قدرت تقسیم ھوجائے اور تین حصوں میں بٹ جائے، تو اس صورت میں معاشرہ کی برائیاں اور خود حکومت بھی تین حصوں میں تقسیم ھوجاتی ھے اس صورت میں اگر ھم قوہ مجریہ کی برائیاں کم ھوتی دکھائی دیتی ھیں تو اس کی وجہ اس دائرہ کا محدود ھوجانا ھے اور صرف قدرت کا ایک حصہ اس کے پاس ھے لھٰذا ھمیں اس چیز پر خوش نھیں ھونا چاھئے کہ قوہ مجریھ( حکومت)کے جرائم اور فساد کم ھوگئے ھیں کیونکہ بعض مفاسد عدلیہ کی طرف منتقل ھوگئے ھیںاور بعض پارلیمنٹ کی طرف جو غالباً قوہ مجریہ کے تحت تاثیر ھوتی ھے،اور ان سے خلاف ورزیاں اور مفاسد سرزد ھوتے ھیں۔
لھٰذا ان طاقتوں کے مفاسد اور ایک دوسرے میں دخالت کرنے سے روک تھام کا بھترین طریقہ عھدہ داروں کے لئے تقویٰ الٰھی اور اخلاقی صلاحیت کی سفارش کرنا ھے اور ھر عھدہ دار اپنے عھدہ کے لحاظ سے تقویٰ اور اخلاقی صلاحیت کا مالک ھو ، اگر عھدہ عظیم اور بڑا ھے تواس کا تقویٰ اور اخلاقی صلاحیت بھی دوسروں کی بہ نسبت زیادہ ھو، اور اسی قانون کے تحت جو شخص اس اسلامی قدرت کی صدارت کررھا ھو وہ سب عھدہ داروں میںسب سے زیادہ متقی اور پرھیزگار ھو،نیز مدیریت اور قوانین کی معلومات بھی بھترین ھوں اسی وجہ سے اسلامی نظام میں قدرتوں کے درمیان اختلافات کو روکنے، مفاسد کو دور کرنے اورٹکراؤ وغیرہ سے روک تھام ، نیز معاشرہ کے اتحاد ووحدت کو برقرار رکھنے والے رھبر کے لئے دوسرے حکومتی عھدہ داروںسے زیادہ تقویٰ اور عدالت کی شرط رکھی گئی ھے تاکہ عوام الناس اس کی عدالت اور تقویٰ پر اطمینان رکھتے ھوئے اس کی اطاعت کریں اور اس کو اپنی مشکلات حل کرنے والا سمجھیں اس صورت میں اگر تینوں قدرتوں میں کچھ خامیاں اور مشکلات پیدا ھوجائیں تو اس عظیم الشان رھبری کے زیر سایہ برطرف ھوجائیں،اور معاشرہ کی مشکلات بھی رفتہ رفتہ دور ھوجائیں جیسا کہ اس بیس سال کے زمانہ میں ھم مقام رھبری کا مشکل کشاء اور ، سعادت بخش کردار دیکھتے آئے ھیں۔
بتّیسواں جلسہ
اسلامی نظام کے اعتقادی عظمت بیان ھونے کی ضرورت
1۔ اسلامی حکومت کی تھیسز"The'sis" کی پھچان کے مختلف طریقے
ھم نے گذشتہ جلسوں میں اسلامی حکومتی نظام کے مختلف ڈھانچوں کی طرف اشارہ کیا اور کھا کہ حکومتی نظام ایک چند پھلو طاقت کی طرح ھے جس کی صدارت اس شخص کے پاس ھو جو بالواسطہ یا بغیر واسطہ خداوندعالم کی طرف منصوب ھو اور یہ نقشہ سیاسی فلسفہ میں ایک تھیوری"Theory"کے نام سے بیان ھوتا ھے ، لیکن اس کو ثابت کرنا کہ واقعاً یہ نقشہ اسلامی بھترین نظریہ ھے جس کو حکومت اور اسلامی معاشرہ کی عظیم مدیریت کے لئے پیش کیا جانا واقعاً مزید علمی اور دقیق مطالعہ کی ضرورت ھے؛ اسی وجہ سے اس سلسلہ میں بھت سے ایسے سوالات ھیں جن کے جوابات کے لئے ماھرین اور فقھاء کرام کو بھترین علمی اور دقیق تحقیقات کے بعد جوابات پیش کرتے ھیں، البتہ ان سوالات کے جوابات کو تین مرحلوں میں جواب دیئے جاسکتے ھیں:
الف۔ مختصر شناخت:
کبھی کبھی انسان اپنے وظیفہ اور ذمہ داری کی پھچان کے لئے ماھرین کی طرف رجوع کرتا ھے، تاکہ وہ اپنے علمی قواعد کے تحت اس کا وظیفہ معین کریں، مثلاً عوام الناس کا مراجع تقلید کی طرف رجوع کرنا،اور ان سے استفتاء کرنا اورشرعی امور میں اپنے وظیفہ کو معین کرنے کی درخواست کرنا ، اسی طرح ھر صنف کے ماھرین کی طرف رجوع کرنا؛ جیسے کسی مریض کا ماھر ڈاکٹر کے پاس جانا اور اس سے علاج کرنے کی درخواست کرنا، اسی طرح کسی بلڈنگ یا مکان کا نقشہ بنوانے کے لئے کسی بلڈر کی طرف رجوع کرنا اور ظاھر ھے کہ اس صورت میں اس کو مختصر سا جواب دیا جاتا ھے اور اس میں علمی اصول کی تفصیل بیان نھیں کی جاتی، بلکہ در حقیقت اس علم کا ما حصل اور خلاصہ بیان کیا جاتا ھے۔
یہ بات ظاھر ھے کہ اسلامی حکومت کے سلسلہ میں مختصر اور اجمالی شناخت ھمارے معاشرہ کے لئے واضح ھے اور جس وقت سے ھمارے ملک میں اسلامی حکومت قائم ھوئی ھے تو کوئی بھی ایسا شخص نھیں ھوگا جس کو اسلامی حکومت کی حقیقت کے بارے میں معلومات نہ ھوگی شاید اسلامی انقلاب سے پھلے بھت کم ھی ایسے افراد ھوں گے جو اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ کے بارے میں آگاہ نہ ھوں ،اور ان کے لئے مختصر طور پر اس تھیوری کی معلومات فراھم کی جائے لیکن (الحمد للھ) آج کل کسی شخص کو اسلامی حکومت کے بارے میں مختصر اور اجمالی شناخت کے بارے میں بتانے کی ضرورت نھیں ھے (بلکہ اس سلسلہ میں عام شناخت اور معلومات رکھتے ھیں) البتہ ایسا بھی نھیں ھے کہ اسلامی حکومت کے بارے میں تفصیل اورمکمل وضاحت کی ضرورت نہ ھو، بلکہ مسئلہ یہ ھے کہ ولایت فقیہ اور اسلامی حکومت کی اصل تھیوری عوام الناس کے لئے حل شدہ اور روشن ھے،یھاں تک کہ ھمارے مخالفین اور دشمن بھی اس سلسلہ میں معلومات رکھتے ھیں،جبکہ وہ اپنی تمام تر طاقت انقلاب اور اسلام کی مخالفت میں خرچ کرتے رھتے ھیں لیکن ادھر چونکہ ھماری عوام نے اپنے نظام کی حقانیت کو درک کرلیا ھے تو یہ بھی اپنے تمام وجود سے اس اسلامی انقلاب اور ولایت فقیہ کا دفاع کرتے ھیں اور اس انقلاب اور اسلامی نظام کی حفاظت کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار رھتے ھیں چنانچہ ھمارے افراد انقلاب اور نظام اسلامی کے دشمنوں کے مقابلہ میں ”مرگ بر ضد ولایت فقیھ“ ( ولایت فقیہ کے دشمن مرجائیں) کے نعرہ کو ولایت فقیہ دشمنوں سے مخالفت کا ایک اعلان سمجھتے ھیں، اور ھمیشہ اس نعرہ کی حفاظت کرتے ھیں اور اسی پر قائم ر ھیں یھاں تک کہ سیاسی اور مذھبی محفلوں اور مساجد میں بھی اس کو دعا کے عنوان سے ھمیشہ پڑھتے رھتے ھیں۔
قارئین کرام ! اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ کے سلسلہ میں مختصر جواب کے علاوہ دوسرے دو جواب بھی موجود ھیں : ایک صاحب نظر اور ماھرین افراد کے لئے اجتھادی اور اکیڈمیک جواب، اور دوسرا اسٹوڈینٹس وغیرہ کے لئے متوسط قسم کا جواب ھے۔
ب۔ مخصوص اور علمی شناخت:
تفصیلی ، علمی اور مخصوص نیز اکیڈمیک جواب ان افراد کے لئے ھوتا ھے جوبلند ترین علمی درجات پر فائزھوتے ھیں اور اپنی تمام تر استعداد اور امکانات کو اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ کے موضوع سے مخصوص کرتے ھیں جیسے وہ طالب علم جو ”اسلامی حکومت“ یا اس کے کسی ایک حصے میں ڈاکٹری کرنا چاھتا ھے اور اپنا پایان نامھ( علمی رسالھ) لکھنا چاھتا ھے جس کے بعد اس کو "P.H.D"کی سند ملتی ھے تو وہ اس موضوع پر تحقیقی نظر ڈالتا ھے اور اس کے تمام پھلوؤں پر نظر ڈالتا ھے اور چند سال تک اس کی تحقیق وبررسی کرتا ھے، اور علمی و دقیق منابع ومآخذ کا مطالعہ کرتا ھے نیز اس فن کے ماھر اور زبدہ اساتیذ سے صلاح ومشورہ کرنے کے لئے اپنے استدلال و برھان بیان کرتا ھے تاکہ اس کی پی ایچ ڈی قبول ھوجائے۔
اسی طرح علمی اور دقیق کاوشیں حوزات علمیہ میں بھی انجام پاتی ھیں اور جو لوگ درس خارج میں مشغول اور قریب الاجتھاد ھوتے ھیں اور اپنے مورد نظر مسائل میں استنباط کرنا چاھتے ھیں تو کبھی کبھی ایک ظاھراً معمولی اور چھوٹے سے مسئلہ کی سالوں تحقیق اور مطالعہ کرتے ھیں، اور دسیوں کتاب کا مطالعہ کرتے ھیں، اور فقھاء ومجتھدین سے بحث وگفتگو کرتے ھیں تاکہ آخر میں اپنا مخصوص نظریہ پیش کرسکیں اس سلسلہ میں کوئی شک نھیں ھے کہ تمام نظری مسائل منجملہ عقائد، اخلاق، احکام فرعی، اجتماعی، سیاسی، حقوقی، اور بین الملل مسائل میں اس طرح کی دقیق اور علمی بحث کی ضرورت ھے تاکہ اس سلسلہ میں ماھرین علماء کے ذریعہ اسلامی فرھنگ وثقافت کا وقار اپنی جگہ باقی ھے؛ لیکن یہ بات مخفی نہ رھے کہ اس طرح کے جوابات نہ تو عوام الناس کے لئے ضروری ھیں اور نہ ھی مفید ھیں۔
ج۔ متوسط شناخت:
آخر میں ”اسلامی حکومت اور ولایت فقیھ“ جیسے مسائل کے جواب کے لئے متوسط اور درمیانی قسم کی تحقیق وبررسی ھمارے سامنے ھے،جن کو عام جلسوں میںبیان کیا جاسکتا ھے ، جبکہ ھمارا مقصد بھی ان جلسات میں اسی قسم کے جوابات پیش کرنامقصود ھیں، ھم نہ تو اسلامی حکومت کے سلسلے میں مختصر جواب پیش کرنا چاھتے ھیں جیسا کہ ایک مجتھد اور مفتی استفتاء کے جواب میں اپنے رسالہ عملیہ میں لکھتا ھے اور نہ ھی اس کو مفصل اور تحقیقی طور پر بیان کرنا چاھتے ھیںجن کا چند سال طولانی سلسلہ ھوسکتا ھے بلکہ ھمارا مقصد تو معاشرہ کے مختلف لوگوں کے لئے درمیانی(متوسط) قسم کی معلومات فراھم کرنا ھے تاکہ اسلامی نظام کے مخالف اور دشمنوں کے شبھات اور اعتراضات کا مقابلہ کرسکیں اور ان کی مختلف سازشوں کو ناکارہ بناسکیں معاشرہ کی اس وقت کی ثقافتی حالت ایک ایسے معاشرہ کی طرح ھے جس کا کسی خطرناک بیماری سے مقابلہ ھو اور سبھی کو اس سے خطرہ در پیش ھو اور اس بیماری سے مقابلہ کرنے کے لئے صرف ایک دفعہ ٹوک دینا کافی نھیں ھے یا صرف اس سلسلہ میں کار شناسی نظریہ اخبار یا دوسرے ذرائع ابلاغ میں اعلان کردینا کافی نھیں ھے، بلکہ اس بارے میں مسلسل تذکر اور ضروری ھدایات دینا ضروری ھے تاکہ عوام الناس کی معلومات میں اضافہ ھو اور اس اجتماعی بیماری سے مقابلہ کرسکیں ایک مختصر تذکر اور یاد دھانی کے علاوہ سمینار، کانفرنس اور تقریریں ھوں تاکہ اس سلسلہ میں عوام الناس کے لئے مسائل واضح اور روشن ھوجائیں اور اس سلسلہ میں موجودات خطروں کا پتہ لگالیں۔
اس وقت ھم ”اسلامی حکومت“ اور ”ولایت فقیھ“ کے سلسلہ میں متوسط قسم کی شناخت پیش کرنا چاھتے ھیں کیونکہ ھم یہ احساس کرتے ھیں کہ ھمارے آج کل کے نوجوان اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ اسلامی نظام کے رکن ؛ سے زیادہ معلومات نھیں رکھتے، اور بعض شیطان صفت لوگوں نے ان کو گمراہ کرنے کی ٹھان رکھی ھے لھٰذا چونکہ یھی ھمارے جوان جو ھماری امیدیں اور اس انقلاب کے وارث بھی ھیں ان کو اس سلسلہ میں معلومات حاصل کرنا چاھئے تاکہ ثقافتی آفتوں اور شیطانی مشکلات کا شکار نہ ھوں، لھٰذا ھم اپنی بحث کومتوسط قسم کے لحاظ سے بیان کرتے ھیں،تاکہ نظریہ ولایت فقیہ کے سلسلہ میں اجتماعی اور ثقافتی بصیرت ویقین میں اضافہ ھو، اور بعض التقاطی (چنیدھ) نظریات اور انحرافات وغیرہ سے مقابلہ کرسکیں اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ عوام الناس کو ولایت فقیہ کے نظریہ سے آگاہ کرنے اور اس کو ثابت کرنے کے لئے علمی اور دقیق راستہ نھیں اپنانا چاھئے ، جیسا کہ فقھاء ومجتھدین کسی ایک مسئلہ کو حل کرنے کے لئے آیات و روایات سے استدال کے وقت سند ودلالت کے بارے میں بھت زیادہ تفصیل سے بحث کرتے ھیں کیونکہ یہ طریقہ کار تو حوزہ علمیہ میں مجتھدین یا سیاسی علوم میں ڈاکٹری وغیرہ سے متعلق ھوتا ھے۔
قارئین کرام ! مذکورہ مطالب کے پیش نظر اس وقت ھم نظریہ ”ولایت فقیہ “کو آسان الفاظ میں اپنے جوانوں کے ذھنوں تک پھنچانا چاھتے ھیں تاکہ اگر کوئی شخص ان سے اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ کے بارے میں سوال کرے تو وہ جواب دے سکیںاور اپنے اعتقاد کا دفاع کرسکیں لیکن اگر ان کے سامنے دقیق تر سوالات بیان کئے جائیں جن میں تخصصی اور کار شناسی ( معاملہ فھم)بررسی وتحقیق کی ضرورت ھو تو ان کو ماھرین کی طرف رجوع کرنا چاھئے لھٰذا ھم نے اسی مذکورہ ھدف کی خاطر اپنی بحث کے دو حصے کئے: 1۔ قانون گذاری۔ 2۔ اجرائے قانون (قوانین کا نافذ کرنا)۔
2۔ قانون کی ضرورت اور اس کے خصوصیات پر ایک نظر
گذشتہ پھلے حصے کا خلاصہ :
1۔ انسان اپنی اجتماعی زندگی کے لئے قانون کا محتاج ھے، کیونکہ بغیر قانون کے زندگی میں افرا تفری ، حیوانیت اور انسانی اقدار نیست ونابود ھوجاتا ھے، چنانچہ یہ بات کسی بھی صاحب عقل پر پوشید نھیں ھے۔
2۔ اسلامی نقطہ نظر سے انسانی اجتماعی زندگی کے لئے ایسا قانون ضروری ھے جس سے مادی اور دنیاوی مصالح بھی پورے ھوتے ھوں اورمعنوی اور اُخروی مصالح بھی پورے ھوتے ھوں۔
یھاں پر اس بات کی یاد دھانی کرا دینا ضروری ھے کہ اگرچہ کبھی کبھی بعض اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے نئے نئے شبھات اوراعتراضات ھوتے ھیں جن کے جوابات دینا ضروری ھیں اگرچہ مختصر ھی کیوں نہ ھوں ، آج کل بعض مقالوں، تقریروں یھاں تک کے بعض ٹیلی ویزن پروگراموں میں یہ مسئلہ بیان ھوتا ھے کہ دنیاوی مسائل؛ اخروی مسائل سے جدا ھیں، یھاں تک کہ بعض لوگوں نے تو یھاں تک کھہ دیا کہ کوئی بھی قانون ایسا نھیں ھے جس سے دنیاوی اور اُخروی دونوں مصالح پورے ھوتے ھوں کسی بھی حکومت کو یا تو صرف دنیا پرست ھونا چاھئے اور دنیاوی اور مادی مسائل کو حل کرے یا آخرت پرست؛ جس میں دنیا سے کوئی مطلب نہ ھو۔
قارئین کرام ! مذکورہ بالا اعتراض ”اسلامی سیاسی نظام“ کے سلسلہ میں ھونے والے اعتراضات میں سب سے گھٹیا(پست) قسم کا اعتراض ھے، اور واقعاً افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ھے کہ بعض عھدہ دار افراد بھی اس سلسلہ میں بڑی آب وتاب اور شان وشوکت سے اس طرح کا اعتراض کرتے ھیں جن کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی گمراہ ھوجاتے ھیں۔
بے شک اسلامی نظریہ کی بنیاد اس بات پر قائم ھے کہ یہ دنیاوی زندگی آخرت کی زندگی کا مقدمہ اور پیش خیمہ ھے، اور جو کچھ بھی ھم اس دنیا میں اعمال انجام دیتے ھیں انھیں کی وجہ سے ھم آخرت میں سعادت مند یا شقاوت مند ھوںگے در حقیقت دین کا ھدف اور مقصد یہ ھے کہ انسانی زندگی اس طرح گذاری جائے تاکہ اس دنیاوی سھولتوں کے ساتھ ساتھ آخرت کی سعادت بھی حاصل ھوجائے ، یعنی خداوندعالم کی طرف سے بھیجے ھوئے انبیاء کرام علیھم السلام نے بشریت کے لئے ایسا نظام پیش کیا ھے جس سے انسان کی دنیاوی زندگی کے ساتھ آخرت کی زندگی بھی کامیاب اور سعادتمند قرار پائے اور چونکہ یہ مسئلہ بالکل واضح اور روشن ھے واقعاً تعجب کا مقام ھے کہ بعض وہ لوگ جو قرآن کریم اور سنت نبوی سے کم وبیش آگاھی رکھتے ھیں اور ان کو جاھل نھیں کھا جاسکتا وہ لوگ خود غرضی کی وجہ سے اپنی آنکھوں سے حقیقت کا نظارہ نھیںکرتے اور اپنی باتوں میں دنیاوی مسائل کو آخرت سے بالکل الگ کرتے ھوئے نظر آتے ھیں،چنانچہ کھتے ھیں: آخرت سے مربوط مسائل عبادت گاھوں، گرجا گھروں اور مساجد میں ھونا چاھئے، اس کے مقابل دنیاوی اور اجتماعی مسائل انسانی تجربہ اور غور وخوض سے حل ھوسکتے ھیں ، اور دین اس سلسلہ میں کوئی کردار نھیں کرسکتا !!
یہ ایک ایسا شیطانی اعتراض ھے جو ھر صاحب عقل مسلمان پر واضح ھے کہ یہ تمام ادیان بالخصوص اسلامی نظریہ کے مخالف ھیں۔
3۔تیسرا مقدمہ یہ ھے کہ اگر یہ مان بھی لیں کہ انسان نے ھمیشہ اپنے تجربات، علم اور غور وفکر سے کام لیتے ھوئے اپنے مادی اور دنیاوی ضرورتوں کو حاصل کرلے، ( البتہ دنیاوی مصالح بھی اُخری مصالح پورے ھونے کی صورت میں پورے ھوسکتے ھیں کیونکہ انسان احکام الٰھی سے فائدہ حاصل کئے بغیر دنیاوی مصالح کو بھی پورا نھیں کرسکتا) (تو پھر وھ) معنوی اور اُخروی مصالح کو پورا نھیں کرسکتا کیونکہ انسان خود بخود اُخروی مصالح کے بارے میں نھیں جانتا کیونکہ اسے نھیں معلوم کہ کونسا عمل اس کی اُخروی زندگی کی سعادت کے لئے مفید ھے؛ کیونکہ اس نے اُخروی زندگی کو دیکھا (بھی) نھیں ھے بالفرض اگر انسان دوسروں کی دنیاوی زندگی سے تجربہ حاصل کرلے اور اسی تجربہ کی بنا پر اپنے لئے زندگی کا راستہ معین کرلے، لیکن اُخروی زندگی کے سلسلہ میں نہ خود کو کوئی تجربہ ھے اور نہ ھی دوسروں کے تجربات اس کے سامنے ھیں، لھٰذا اپنے لئے آخرت کی سعادت اور کامیابی کا راستہ معین نھیں کرسکتا۔!!
قارئین کرام ! ھماری مذکورہ باتوں سے یہ بات طے ھوجاتی ھے کہ دنیاوی اور اُخروی مصالح صرف انھیں افراد کے ذریعہ حاصل ھوسکتے ھیں جن کو خداوندعالم نے اپنی علوم سے نوازا ھے؛ اور معاشرہ پر ایسے قوانین حاکم ھوں جو خداوندعالم کی طرف سے آئے ھوں تاکہ اس کے زیر سایہ دنیاوی مصالح بھی اور اُخروی مصالح بھی پورے ھوسکیں۔
3۔ قوانین جاری کرنے والے کے صفات پر دوبارہ ایک نظر
ھم نے قوانین کو جاری کرنے والے کے لئے تین مھم شرائط کا ذکر کیا، اور جو شخص قوانین کو جاری کرنے والا ھو نیز دنیاوی اور اُخروی مصالح کو پورا کرنے والا ھو اور خدا کی طرف اس کی نسبت ھو، اس کے لئے مذکورہ شرائط کا مالک ھونا ضروری ھے۔
مذکورہ شرائط:
پھلی شرط یہ تھی کہ قانون جاری کرنے والے اوراسلامی حاکم کو قانون شناس ھونا چاھئے البتہ علم ومعرفت کے مختلف درجات ھوتے ھیں اسی وجہ سے تمام افراد ایک درجہ میں نھیں ھوتے معرفت اور شناخت کے ان درجات میں نمونہ درجہ وہ ھے جس میں الٰھی قوانین سے بالکل خطا نہ ھو، اور ایسی شان صرف معصوم علیہ السلام کی ھوتی ھے جو معرفت اور ادراک میں کبھی کوئی خطا وغلطی نھیں کرتا،اور جو قانون خداوندعالم نے نازل کیا ھے اس کو کما حقہ پھچانتا ھے ظاھر سی بات ھے کہ اگر ایسی شخصیت یعنی معصوم علیہ السلام موجود ھو تو پھر معاشرہ کے لئے اس کی حکومت ضروری اور ترجیح رکھتی ھے لیکن اگر معصوم علیہ السلام غائب ھوں تو اس صورت میں یہ منصب ایسے شخص کا ھے جو دوسروں لوگوں سے زیادہ قوانین کی معرفت اور شناخت رکھتا ھو۔
دوسری شرط یہ تھی کہ قانون کا جاری کرنے والا شخص عملی میدان میں اپنے ذاتی مفاد یا کسی گروہ کے حق میں کام نہ کرے؛ یعنی اخلاقی صلاحیت رکھتا ھو اور یہ اخلاقی صلاحیت بھی علم کی طرح مختلف درجات رکھتی ھے جس کا نمونہ درجہ معصوم علیہ السلام کی شخصیت میں تصور کیا جاسکتا ھے کیونکہ معصوم علیہ السلام کی ذات کسی بھی وقت غیر الٰھی انگیزوںکے تحت تاثیر قرار نھیں پاتی اور نا ھی کسی کا خوف اور ناھی کوئی لالچ ھوتا ھے، نیز اجتماعی منافع ومصالح کو اپنی ذاتی یا گھریلو یا گروھی مصالح پر قربان نھیں کرتا لیکن اگر معصوم علیہ السلام کی ذات موجود نہ ھو تو پھر ایسا شخص جو اس سلسلہ میں معصوم (ع) سے بھت زیادہ شباھت رکھتا ھو ، وھی قوانین الٰھی کو جاری کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے۔
تیسری شرط یہ تھی کہ قوانین کو جاری کرنے والا مدیریت اور کلی قوانین کو جزئی قوانین پر منطبق کرنے میں کافی مھارت رکھتا ھو، یعنی خداوندعالم کے عام قوانین سے آگاھی کے ساتھ ان کے مصادیق کو بھی جانتا ھو اور یہ بھی جانتا ھو کہ کس طرح ان قوانین کو جاری کیا جانا چاھئے تاکہ قوانین کا اصل ھدف محفوظ رھے البتہ قوانین کو جاری کرنے میں اس قدر مھارت اور مدیریت کے لئے خاص تجربات کا ھونا ضروری ھے جن کو انسان اپنی زندگی میں حاصل کرتا ھے ، جس کا بھترین اور عالی ترین مرتبہ امام معصوم (ع) میں تصور کیا جاسکتا ھے،کیونکہ معصوم علیہ السلام کی ذات جس طرح خداوندعالم کے قوانین کی شناخت میں غلطی نھیں کرسکتا اور مقام عمل میں بھی ھوای نفس کے تحت تاثیر واقع نھیں ھوسکتا اور خداوندعالم کی خاص تائید اس کے شامل حال ھوتی ھے،اور معاشرہ کے مصالح کو معین کرنے ، عام موارد کو خاص موارد میں منطبق کرنے میں (بھی) انحراف اور غلطی کا شکار نھیں ھوتا۔
4۔اعتقادی اصول سے اسلامی حکومت کی تھیوری کا تعلق
بےشک اگر کوئی شخص مذکورہ مقدمات کو قبول کرے کہ واقعاً انسانی معاشرہ کے لئے ایسے قوانین کی ضرورت ھے جن سے مادی اور دنیاوی مصالح پورے ھوتے ھوں اور معنوی اور اُخروی مصالح بھی، اور اسلامی حاکم اور اسلامی معاشرہ کے ذمہ دار افراد کے شرائط کو بھی قبول کرتا ھو تو پھر اس صورت میں اسلامی نظام کی حقانیت کو قبول کرنا آسان ھے البتہ خود مذکورہ مقدمات کو قبول کرنا بھی دوسری چیزوں پر موقوف ھے: کیونکہ پھلے درجہ میں انسان کو یہ ماننا پڑے گا کہ خدا ھے، اس کے بعد یہ قبول کرے کہ اس نے ایسے پیغمبر کو بھیجا جس نے اس کے احکام بندوں تک پھونچائے اسی طرح یہ بھی قبول کرے کہ اس دنیاوی زندگی کے بعد ایک اُخروی زندگی بھی ھے اور اس دنیاوی زندگی اور اُخروی زندگی میں علت ومعلول والا تعلق ھے یہ تمام مقدمات ھماری بحث کے مبنیٰ ھیں، جن کو اعتقادی، کلامی اور فلسفی مباحث میں تفصیلی طور پر ثابت کیا گیا ھے، اور عام اجتماعی، حقوقی اور سیاسی جلسات میں ھر ایک پر الگ الگ بحث نھیں کی جاسکتی ورنہ تو نتیجہ تک پھنچے کے لئے سالوں درکار ھوں گے۔
ھمارے مخاطب مسلمان اور وہ حضرات ھیں جو خدا، دین، وحی، نبوت، پیغمبر، عصمت اور قیامت کو قبول رکھتے ھیں اور یہ معلوم کرنا چاھتے ھیں کہ کیا اسلام حکومتی نظام پیش کرتا ھے یا نھیں؟ نہ وہ لوگ جو منکر خدا ھیں ، اور نہ ھی وہ لوگ جو خود خدا کے خلاف جلوس نکالنے اور اس کے خلاف نعرے لگانے کے لئے تیار ھوں!! اور نہ ھی وہ لوگ جو دین اور احکام اسلام کو بالکل ھی نھیں مانتے،اور نہ وہ لوگ جو پیغمبر کے لئے کھتے ھیں کہ وہ بھی دوسروں کی طرح وحی کو سمجھنے میں غلطی کرسکتا ھے اسی طرح جو افراد اصول میں ھمارے مخالف ھیں وہ اس وقت کی بحث میں ھمارے مخاطب نھیں ھیں اگر وہ لوگ بحث وگفتگو کرنا چاھتے ھیں تو ان سے کسی دوسرے موقع پر بحث کی جاسکتی ھے اور ان کے سامنے اعتقادی اصول کو عقلی اور فلسفی برھان کے ذریعہ ثابت کیا جاسکتا ھے اور ان کی ھدایت کی جاسکتی ھے اور ان کو یہ سمجھایا جاسکتا ھے کہ ھاں خدا بھی ھے اور قیامت بھی آئے گی، نیز خداوندعالم نے ھدایت بشر کے لئے انبیاء کرام کو بھیجاتاکہ وہ ان کو اس کے بندوں تک پھنچائے اسی طرح پیغمبر معصوم ھوتا ھے اور وحی کے سمجھنے میں کسی طرح کی کوئی غلطی واشتباہ نھیں کرتا اور اگر ایسا نہ ھو تو پھر وہ پیغمبر نھیں ھوسکتا۔
قارئین کرام ! مذکورہ مقدمات کو قبول کرتے ھوئے کیا کوئی صاحب عقل اس بات کو قبول کرسکتا ھے کہ معصوم علیہ السلام کے ھوتے ھوئے؛ جو علم ورفتار میں معصوم ھو اور دوسروں کی نسبت معاشرہ کے مصالح کو بھتر درک کرتا ھو ؛ کوئی دوسرا مسند قدرت پر بیٹہ جائے؟ ! کیونکہ یہ بات تو سب کو معلوم ھے کہ اختیاری صورت میں مرجوح کو راجح پر اور بھترکو غیر بھتر پر ترجیح دینا قبیح اورناپسند ھے اور کوئی بھی صاحب عقل وشعور اس کو قبول نھیں کرتا ھماری گفتگو ان لوگوں سے ھے جو خود کو مسلمان کھلاتے ھیں،لیکن معصوم کے وجود کا اقرار نھیں کرتے، اور معتقد ھیں کہ نہ تو پیغمبر معصوم تھے اور نہ ھی ائمہ (علیھم السلام) معصوم تھے؛ ان لوگوں سے بھی ھمارا کوئی سروکار نھیں ھے ھمارامفروضہ یہ ھے کہ تمام موضوعہ اصول کو قبول رکھتے ھوں اور پیغمبر اکرم (ص) کو معصوم مانتے ھوں ، اور شیعہ اعتقاد کے مطابق ائمہ علیھم السلام کو بھی معصوم مانتے ھوں۔
فرضیہ یا مفروضہ یہ ھے کہ اگر معاشرہ میں معصوم علیہ السلام موجود ھوں تو کیا اس صورت میں حکومت کسی غیر معصوم کے سپرد کی جاسکتی ھے؟ کیونکہ غیر معصوم کو حکومت سپرد کرنے کا مطلب یہ ھے کہ قانون کے سمجھنے میں غلطی اور اشتباہ کو جائز مانتے ھیں،اور اس چیز کو بھی جائز مانتے ھیں کہ کوئی شخص اپنے ذاتی مفاد کو معاشرہ کے مفاد و مصالح کو جائز مانیں اور معاشرہ کے منافع ومصالح کو اپنی خواھشات پر قربان کردے، نیز اس بات کو بھی جائز ماننا ھے کہ کوئی معاشرہ پر حکومت کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے ھوئے بھی معاشرہ کی حکومت اپنے ھاتھوں میں لے لے!! جبکہ یہ تمام چیزیں عقلی لحاظ سے مردود اور قابل قبول نھیں ھیں اس بنا پر کوئی بھی صاحب عقل اس چیز میں شک نھیں کرتا کہ اگر امام معصوم (ع) معاشرہ میں حاضر ھو تو اسی کو حکومت سپرد کرنا اولیٰ اور بھتر ھے،اور اگر اس کے بجائے کسی دوسرے کو حکومت کے لئے انتخاب کیا جائے تو یہ کام غیر عقلی اور بے ھودہ ھے اس صورت میں کسی کو شک نھیں ھے اور اسی بات پر تمام لوگوں کی عقل حکم کرتی ھے، نیز اس کو ثابت کرنے کے لئے ھمیں احادیث سے استدلال کرنے اور ان آیات کو بیان کرنے کی ضرورت نھیں ھے جن میں پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ علیھم السلام کی اطاعت کو واجب قرار دیا گیا ھے ، مثال کے طور پر :
( یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُمْ ) (1)
”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمھیں میں سے ھیں۔“
( مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ اٴَطَاعَ اللهَ ) (2(
” جو رسول کی اطاعت کرے گا اس نے اللہ کی اطاعت کی “
5۔ حکومت کے طولی(تحت) مراتب کی منطقی اور عقلی دلیل
قارئین کرام ! اگر امام معصوم معاشرہ میں حاضر ھوں تو اسی کی حکومت اولویت رکھتی ھے اس سلسلہ میں ذکر شدہ مطالب ایک استدلال اور عقلی متوسط بیان ھے جو سبھی کے لئے قابل قبول اور قابل دفاع ھے،یھاں تک کہ اگر کوئی حکومت (وولایت) کے سلسلہ میں قرآنی آیات سے بھی آگاہ نہ ھو، چنانچہ ھمارے ذکر شدہ مطالب کے پیش نظر اپنے اعتقاد کا دفاع کرسکتا ھے لیکن ھماری اصل بحث امام معصوم علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں اسلام کا نظریہ پھنچاننے کے بارے میں ھے کہ جب عوام الناس امام معصوم کے وجود سے محروم ھو، اور اس تک رسائی ممکن نہ ھو، تاکہ اس کی حکومت سے بھرہ مند ھوسکیں اسی طرح امام معصوم علیہ السلام کے حضور کا وہ زمانہ، جس میں ظالم حکومت معصوم کی حکومت سے مسلمانوں کو محروم کردے، یا اجتماعی حالات ایسے نہ ھوں جس میں معصوم علیہ السلام قدرت کو اپنے ھاتھوں میں لے سکے۔
ان دونوں صورتوں میں ھم کسی علمی ، فنّی اور اکیڈمیک دلائل سے استدلال نھیں کرتے جس کا سمجھنا عام لوگوں کے لئے مشکل ھو، بلکہ ھم تو ایک عام عقلی قاعدہ سے استدلال کرتے ھیں جس طرح ھر عام انسان اپنی روز مرہ زندگی میں اسی عقلی قاعدہ سے استدلال کرتا ھے، اور وہ یہ ھے کہ اگر کسی سلسلہ میں سو فی صد والا درجہ میسر نہ ھو تو پھر 99 فی صد والے درجہ کو انتخاب کرتا ھے اگر کسی چیز کاکامل درجہ حاصل کرنا ممکن نہ ھو تو پھر کامل سے نزدیک والے درجہ کا انتخاب کرتا ھے چنانچہ اس قاعدہ سے مختلف مقامات پر استفادہ کیا جاسکتا ھے، مثلاً:کسی بھی عھدہ کے لئے کچھ خاص شرائط اور صفات رکھے جاتے ھیں، اور اگر کسی میں وہ تمام شرائط پائے جاتے ھیں تو اسی شخص کا انتخاب کیا جاتا ھے، لیکن اگر ان تمام صفات کا حامل شخص نہ مل پائے تو پھر ایسے شخص کا انتخاب کیا جاتا ھے جو اس سے کم شرائط رکھتا ھو، لیکن دوسروں پر برتری اور فضیلت رکھتا ھو۔
دوسری مثال: اگر آپ کسی ایسے ڈاکٹر سے علاج کراسکتے ھیں جو تیس سال کا تجربہ رکھتا ھو اوروہ اپنی ڈاکٹری میں خاص مھارت اور روشن فکری رکھتا ھے ، لیکن آپ اس کو چھوڑ کر کسی ایسے ڈاکٹر سے علاج کرائیں جس نے ابھی ڈاکٹری کی سند لی ھے اور ابھی کلینک کھولی ھے اگر آپ اس سے علاج کرائیں اوروہ غلط علاج کرے تو آپ کی بیماری کا نہ صرف علاج ھوگا بلکہ اس میں شدت آجائے گی، تو کیا آپ عقل اور عقلاء کی نظر میں محکوم نھیں ھیں؟ اور کیا عقلاء آپ کی ملامت نھیں کریں گے کہ ایک ماھر (اسپیشلسٹ)ڈاکٹر کے ھوتے ھوئے وہ بھی آپ کے مکان کے قریب ، پھر آپ نے غیر ماھر ڈاکٹر کی طرف کیوں رجوع کیا؟!
اور آپ کا عذر صرف اسی صورت میں قابل قبول ھوسکتا ھے جب اس ماھر ڈاکٹر کی فیس بھت زیادہ ھو یا ماھر ڈاکٹر سے علاج کرانے کے لئے کسی دوسرے ملک میں جانے پڑتاھو جس کا خرچ برداشت کرنا آپ کے بس کی بات نہ ھو، اسی وجہ سے آپ نے کسی غیر ماھر ڈاکٹر کا علاج کرایا ھے۔
لیکن ھمارا فرض اس صورت میں ھے جب آپ کسی ماھر ڈاکٹر سے علاج کرانے پر قادر ھوں اور اس کی فیس دوسرے غیر ماھر ڈاکٹر سے کم یا اس کے برابر ھے، تو اگر اس صورت میں اگر آپ نے کسی نئے ڈاکٹر کی طرف رجوع کیا اور آپ کی بیماری میں شدت پیدا ھوگئی تو آپ عقل اور صاحبان عقل کی نظر میں معذور نھیں ھیں، اور سبھی اس سلسلہ میں آپ کی ملامت اور سرزنش کریں گے۔
اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ مذکورہ عقلی قاعدہ تمام اجتماعی امور میں جاری ھے ، اور اس قاعدہ کو تمام ھی صاحبان عقل قبول کرتے ھیں چاھے مسلمان ھوں یا غیر مسلم، اور اس کی نسبت حکم ِ عقل کی طرف ھے، جس میں شرعی دلیل کی کوئی ضرورت نھیں ھے۔
چنانچہ اسی مذکورہ قاعدہ کے تحت اگر اسلامی حکومت کی نمونہ شکل ممکن نہ ھو (جیسا کہ عقل بھی اسی کو بھترین حکومت مانتی ھے) اور معاشرہ میں علم وتقویٰ اور مدیریت کے لحاظ سے اعلی ترین درجہ والا شخص نہ ملے جو صاحب عصمت بھی ھے تو اس صورت میں عقل کا حکم اور اس کا فیصلہ کیا ھوگا؟ کیا اس صورت میںھماری عقل اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ ھم جو چاھیں کریں اور جس کو چاھے حاکم بنادیں؟ یا ھماری عقل اس چیز کا حکم کرتی ھے کہ اگر معاشرہ معصوم علیہ السلام کے وجود سے محروم ھو اور آئیڈیل شخص حکومت کے لئے ممکن نہ ھو تو ایسے شخص کا انتخاب کریں جو تقویٰ اور صلاحیت کے لحاظ سے معصوم علیہ السلام سے شبیہ اور زیادہ نزدیک ھو؟ اگر سو فی صد والا درجہ حاصل نہ ھوں تو پھر 99 والے درجہ کا انتخاب کریں اور اگر 99 والا درجہ نہ ھو تو پھر 98 والے درجہ کا انتخاب کریں،اسی طرح اگر اعلیٰ درجہ کا انتخاب ممکن نہ ھو تو پھر اس سے کم والے درجہ کا انتخاب کریں،اور پھر باری باری نیچے والے درجہ کا انتخاب کریں، ایسا نھیں ھے کہ اگر عالی ترین درجہ کا انتخاب ممکن نہ ھو تو پھر دوسرے تمام درجے مساوی اور برابر ھیں، اور 99 والا درجہ اور ایک والا درجہ سب برابر ھوجائیں، اسی بنا پر اگر ھمارے فرض کے مطابق نمونہ اور آئیڈیل مقصود حاصل نہ ھوتو پھر کوئی فرق نھیں چاھے کسی کا بھی انتخاب کریں!! بے شک اس کو عقل تسلیم نھیں کرتی۔
لھٰذا عقل کے اس یقینی حکم کی بنا پر جو ھر انسان کی سمجھ میں آتا ھے اگر اسلامی حکومت کی نمونہ شکل ممکن نہ ھو اور معصوم علیہ السلام کی ذات تک رسائی نہ ھو تاکہ براہ راست عوام الناس پر حکومت کریں تو اس صورت میں اسلامی حکومت کے لئے ایسا فرد جو صلاحیت رکھتا ھے جس میں تینوں بنیادی شرط ( یعنی علم، تقویٰ اور مدیریت )دوسروں کی نسبت زیادہ اور معصوم علیہ السلام سے مشابہ ھو ، یعنی وہ شخض جو دوسروں سے زیادہ قوانین کی معرفت اور شناخت رکھتا ھو اسی طرح اس کی عدالت اور تقویٰ دوسروں کی نسبت زیادہ ھو اور دوسروں سے زیادہ اپنی خواھشات پر کنٹرول رکھتا ھو نیز اس کی مدیریتی طاقت اور بصیرت دوسروں سے زیادہ ھو۔
قارئین کرام ! یہ عقلی بیان ھر صاحب عقل کے لئے سمجھنا آسان ھے اور فقہ وکلام کے پیچیدہ دلائل کی کوئی ضرورت نھیں ھے۔
6۔ اسلامی حکومت کے سلسلہ میں چند سوالات
البتہ مسلمانوں پر حکومت کی صلاحیت رکھنے والے کے بارے میں سوالات کے علاوہ اسلامی حکومت کے سلسلہ میں دوسرے سوالات بھی بیان ھوتے ھیں جن کے جوابات (بھی) عرض کرنا ضروری ھیں مثلاً یہ سوال کہ کیا اسلام نے اسلامی حکومت کے عھدہ پر فائز ھونے والے کے لئے شرائط اور خصوصیات بھی بیان کئے ھیں اور حکومت کے لئے خاص شکل معین کی ھے یا نھیں؟ یعنی کیا صرف اسلام نے اسلامی حکومت کے صدر کے لئے بیان کیا ھے کہ کون صدر ھوسکتا ھے لیکن دوسرے حکومتی امور اور اس کا خاکہ عوام الناس کی مرضی پر چھوڑ دیا ، یا اجتماعی حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اس کی شکل بھی بدل جائے گی؟۔ دوسرا سوال جو اس سے زیادہ علمی اور دقیق ھے اور جو لوگ فقھی اور حققوقی مسائل سے آشنائی رکھتے ھیں ان کے لئے قابل فھم ھے ، اور وہ یہ ھے کہ آیا حکومت ایک ”تاسیسی“ مقولہ سے ھے یا ”امضائی“ مقولہ سے ھے؟
وضاحت: کیونکہ بعض اسلامی اور فقھی مسائل تاسیسی ھیں ، جن کو شارع مقدس نے عوام الناس میں رائج ھونے سے پھلے بیان کیا ھے اور ان کی کیفیت اور طریقہ بھی بیان کیا ھے مثلاً نماز ایک تاسیسی عبا دت ھے جس کا وجوب بھی خود شریعت نے بیان کیا ھے اور اس کا طریقہ بھی خداوندعالم کی طرف سے پیغمبر اکرم (ص) کے ذریعہ مسلمانوں کے لئے بیان ھوا ھے،اور اس واجب اور اس کی کیفیت کو بیان کرنے سے پھلے عوام الناس اس سے آگاہ نہ تھی ( نماز ھی نھیں بلکہ ) عام طور پر تمام عبادتیں تاسیسی ھیں جن کو عوام الناس نے پیغمبر اکرم (ص) سے سیکھا ھے جیسے دوسرے واجبات : روزہ، حج اور دوسرے یاعبادتی احکام تاسیسی ھیں۔
ان تاسیسی احکام کے مقابلہ میں اسلام کے بعض دوسرے احکام امضائی ھیں یعنی عوام الناس اپنی اجتماعی امور میں کچھ معاملات، عقود اور معاھدات کومعین کئے ھوئے ھیں، یھاں تک کہ اگران میں سے بعض تحریری شکل میں بھی نہ ھوں لیکن ان پر عمل ھوتا ھے ، مثلاً عام طور پر خرید وفروخت، چنانچہ اس سلسلہ میں شریعت نے عوام الناس کو حکم نھیں دیا ھے کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ھو تو اس کو جاکر خرید لے اس مسئلہ کی ضرورت خود صاحبان عقل سمجھتے ھیں اور معاملات وغیرہ کے لئے طریقہ کار معین کرتے ھیں اس کے بعد شریعت مقدسہ ان معاملات کی تائید کردیتی ھے اور اس کو شرعی حیثیت مل جاتی ھے ، مثلاً: (احل الله البیع ) (3)(خدانے خرید و فروخت کو حلال قرار دیا ھے )جو عوام الناس کے درمیان رائج ھے، اور خرید وفروخت کی یہ حلیت شرعی تائید کی وجہ سے ھے، اور گویا اس عقلاء کے طریقہ کار کو قبول کرنے کی طرح ھے جو آپس میں ایک دوسرے سے خرید وفروخت انجام دیتے ھیں۔
اس مقام پر حکومت کے سلسلہ میں یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ قبل اس کے کہ خدا نے انبیاء کرام علیھم السلام کے ذریعہ الٰھی حکومت کی پیروی کرنے کا حکم دیا کیا عوام الناس کے درمیان خود کوئی حکومت کا طریقہ کار موجود تھا جس کی شریعت مقدسہ نے تائید کی اور اس پر دستخط فرمائے ؟ یانہ بلکہ حکومت کی شکل اور ڈھانچے کو بھی عوام الناس نے خداوندعالم کے حکم کے مطابق بنایا ھے؟ اور اگر انبیاء علیھم السلام خدا کی اجازت سے عوام الناس پر حکومت نہ کرتے تو وہ ان کی اطاعت کرنے کا وظیفہ نہ رکھتے ،( یعنی)عوام الناس حکومت کی شکل وصورت سے آگاہ نہ تھے۔
المختصر جب ھم کھتے ھیں کہ اسلامی حکومتی نظام کو اسلام نے بیان کیا ھے اور اس کی دینی اور فقھی حیثیت ھے اور خود خداوندعالم نے اس کی اطاعت پر لوگوں کو موظف بنایا ھے، توکیا یہ حکومت خداوند عالم کی طرف سے تشریع کی گئی ھے اور خدا اس حکومتی نظام کا موٴسس ھے؟ یا اس حکومت کی شکل وصورت خود عوام الناس کے ذریعہ بنائی گئی ھے اور اس کو اجتماعی معاھدات کی بنا پر بنایا گیا اور خداوندعالم نے اس کی تائید وامضا کردیا ھے، اسی وجہ سے یہ حکومت اسلامی حکومت بن گئی ھے کہ جس کی خداوندعالم نے تائید کی ھے اور یہ حکومت امضائی حکم رکھتی ھے؟
حوالے
(1) سورہ نساء آیت 59
(2) سورہ نساء آیت 8۰
)3(سورہ بقرہ آیت 2۷5
تینتیسواں جلسہ
اسلام اور حکومت کے مختلف نقشے
1۔ اسلام کی طرف سے حکومتی سلسلہ میں کوئی طریقہ بیان نھیں کیا گیا
(ایک اعتراض(
گذشتہ جلسوں میں حکومت کی شکل وصورت کے بارے میں یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ کیا اسلام نے حکومت کے لئے کوئی خاص نقشہ پیش کیا ھے، یا اس کا معین کرنا خود عوام الناس کے اوپر ھے؟ اور اگر اسلام نے حکومت کے لئے کوئی خاص نقشہ پیش کیا ھے تو کیا وہ کسی خاص زمانہ سے مخصوص ھے یا نہ ، بلکہ اس کا ایک خاص نقشہ ھے جو ھر زمانہ میں جاری نھیں ھوسکتا؛ اور انسانی معاشرہ کے حالات کی بنا پر اس کی شکل ونقشہ بدل رھتا ھے چنانچہ بعض لوگ کھتے ھیں کہ اگرچہ حضرت رسول اکرم (ص) کے زمانہ میں اسلامی حکومت ایک خاص طرز پر ھوتی تھی، لیکن وہ طریقہ صرف اسی زمانہ سے مخصوص تھا ، اور خداوندعالم نے اسی طریقہ کار کو صرف پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ کے لئے معین فرمایا تھا اور اس کے بعد نئے نئے نقشے اس حکومت کے قائم مقام ھوسکتے ھیں یھاں تک کہ ممکن ھے کہ بعض اجتماعی حالات کی بنا پر اسلامی حکومت ڈیموکریسی لیبرل شکل اختیار کرلے، اور آپس میں کوئی تضاد یا ٹکراوٴ نہ ھو جس طرح ھم نے مغربی ممالک کے بعض طریقوں کو انتخاب کیا ھے؛ مثلاً ”پارلمانی نظام“ کو قبول کرلیا ھے،اور اس کو اسلام کے مخالف نھیں پایا، اسی طرح ”مشروطیت“ (1)کو قبول کرلیا اور اس وقت ”جمھوریت“ کو قبول کرلیا ھے اور ھمارا ماننا ھے کہ یہ اسلام کے مخالف نھیں ھیں، ھوسکتا ھے ایک دن وہ بھی آئے جب ھم ”ڈیموکریسی لیبرل“ کو بھی قبول کرلیں اور اس کو بھی اسلام کے مخالف نہ پائیں!
آج کل ھمارے معاشرہ میں اس طرح کے سوالات اور جوابات پیش کئے جاتے ھیں اور اس سلسلہ میں بحث وغیرہ ھوتی رھتی ھیں، جبکہ ان بحثوں میں بعض اشکالات وابھامات لوگوں کے ذھن میں ڈالے جاتے ھیں جن کی بنا پر بعض لوگ دانستہ اور بعض لوگ نادانستہ طور پر اسلامی صحیح تفکر سے منحرف ھوجاتے ھیں۔
قارئین کرام ! مذکورہ اعتراض کا جواب دینے سے پھلے بعض ان نکات کا بیان کرنا ضروری ھے جن کی وجہ سے مذکورہ اعتراض تشکیل پاتا ھے تاکہ ان کے روشن ھونے سے جواب کا راستہ صاف ھوجائے:
جیسا کہ ھم سبھی لوگ اس بات کو جانتے ھیں کہ ھمارے ملک میں انقلاب اسلامی کے عظیم الشان رھبر حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ کے ذریعہ اسلامی جمھوری نظام قائم ھوا، اور شروع انقلاب ھی میں اس کے اساسی اور بنیادی قوانین مرتب ھوئے جن کی خود امام خمینی (رہ) نے تائید کی ھے اسی طرح آپ ھی کی تائید کے مطابق حکومت کا نقشہ معین ھوا ، اور زمانہ کے ساتھ ساتھ بعض چیزوں میں تبدیلی کرنا پڑی جن کو حضرت امام خمینی (رہ) نے قبول فرمایا جبکہ یہ بات واضح ھے کہ اسلامی حکومت کا یہ نقشہ نہ حضرت رسول اکرم (ص) کے زمانہ میں تھا اور نہ ھی حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے زمانہ میں اس طرح کی حکومت تھی، اور ھماری یہ حکومت اسلامی حکومت کے عنوان سے قائم کی گئی ھے۔
قدرتوں میں جدائی نہ حضرت رسول اکرم (ص) کے زمانہ میں تھی اور نہ ھی حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے زمانہ میں، لیکن ھمارے بنیادی قانون میں قدرتوں کے الگ ھونے کو قبول کیا گیاھے،اور حکومتی نظام تین قدرتوں قوہ مقننہ (پارلیمنٹ) ، قوہ قضائیہ (عدلیھ) اور قوہ مجریہ (حکومت) سے تشکیل پایا اس نظام میں سب سے بلند مقام جس کے ذریعہ ملکی عظیم سیاست معین کی جاتی ھے مقام معظم رھبری ھے، اس کے بعد صدر مملکت ملک کے دوسرے بڑے عھدہ پر فائز ھوتا ھے، اسی طرح رئیس قوہ قضائیہ اور رئیس مجلس شوریٰ اسلامی (اسپیکر) ملک کے عالی ترین عھدہ میں شمار ھوتا ھے یھاں تک کہ انقلاب اسلامی کے بیس سال کے بعد بھی بنیادی قوانین میں بعض تبدیلیاں ھوتی رھتی ھیں مثال کے طور پر پھلے وزیر اعظم اجراء قوانین کا سب سے بڑا عھدہ ھوتا تھا ، اور اسی کے ذریعہ کابینٹ کا انتخاب ھوتا تھا، اس کے بعد صدر مملکت اور مجلس شوریٰ اسلامی تائید کرتی تھی،لیکن غور وفکر کے بعد وزیر اعظم کا عھدہ حذف کردیا گیا اور صدر مملکت ھی اجراء قوانین کا عھدہ دار ھوتا ھے۔
بے شک حکومت کا اس طرح کا نقشہ اسلام میں اس سے پھلے کبھی نھیں تھا نہ ھی اسلام نے اس سلسلہ میں کوئی حکم صادر فرمایا ھے، لھٰذا کوئی بھی شخص یہ دعویٰ نھیں کرسکتاکہ اسلام نے صاف طور پر وضاحت کردی ھے کہ عوام الناس ووٹ دے کر صدر مملکت کا انتخاب کریں اسی طرح دوسرے انتخاب میں حصہ لے کر اپنا کردار ادا کریں۔
قارئین کرام ! ھمارے گذشتہ مطالب کے پیش نظر بعض لوگ اس کو دلیل مانتے ھیں کہ اسلام نے حکومت کے سلسلہ میں کوئی نقشہ پیش نھیں کیا ھے، لھٰذا اس بات کو ماننا پڑے گا کہ اسلام نے اس سلسلہ میں عوام الناس کو اختیار دیا ھے کہ وہ خود اپنی مرضی سے حکومت کا نقشہ بنائیں اور خود ھی قوانین کا انتخاب کریں؛ اسی طرح دوسرے حکومتی امور بھی خود عوام الناس سے متعلق ھیں۔
اسی بنا پر اس بات میں کہ حکومت کو خدا کی طرف سے معین ھونا چاھئے اور حکومت خود عوام الناس کے ذریعہ معین ھو؛ تضاد اور ٹکراؤ پایا جاتا ھے، اور یہ جو کھا جاتا ھے کہ حکومت خداوندعالم کی طرف سے معین کی جاتی ھے جبکہ جو چیز عملی طور پر دیکھی جاتی ھے ان دونوں میں تضاد اور ٹکراؤ پایا جاتا ھے یھاں تک کہ خود ”جمھوری اسلامی“ کھنا بھی ایک قسم کا تضاد ھے، کیونکہ ”جمھوریت“ کے معنی حکومت کاعوام الناس کے ھاتھوں میں ھونااور اس کا نقشہ وشکل عوام الناس کے ذریعہ معین ھونا ھیں، جبکہ اس جمھوری کے ساتھ ”اسلامی“ کا اضافہ کرنا اور کھنا کہ حکومت کی باگ ڈور ولی فقیہ کے ھاتھوں میں ھونا چاھئے خصوصاً جبکہ ھم اس بات کو مانیں کہ ولایت فقیہ خداوندعالم اور امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے ذریعہ مشروعیت (جواز) پیدا کرتی ھے؛ اور اس حکومت کو حکومت الٰھی سمجھتے ھیں نہ عوامی اور مردمی، یعنی اس حکومت کی مشروعیت اوپر سے شروع ھوتی ھے، پھلے درجہ میں خدا مشروعیت عطا کرتا ھے اس کے بعد پیغمبر اور اس کے بعد امام معصوم (ع)، اور ولی فقیہ امام معصوم علیہ السلام کی طرف سے انتخاب ھوتا ھے جس کی بنا پر اس کی مشروعیت ھوتی ھے اورجو ولی فقیہ کے تحت نظام ھوتا ھے وہ ولی فقیہ کی وجہ سے ھی مشروعیت پیدا کرتا ھے تو اگر حکومت جمھوری ھے تو پھر اس طرح کی باتیں نھیں ھونا چاھئے اور جس کو عوام الناس انتخاب کرلیں وھی حقیقت میں اسی کو صاحب اقتدار ھونا چاھئے۔
2۔ مذکورہ اعتراض کا جواب، اور حکومت کی شکل کے سلسلہ میں اسلامی نظریہ
افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ھے کہ یہ اعتراض کبھی وضاحت کے ساتھ اور کبھی اشاروں میں اخبار، میگزین اور کانفرنس میں بیان میں ھوتا ھے ، اور بیرونی ریڈیو اور دوسرے ذرائع ابلاغ اس پر بھت شور مچاتے ھیں، اور جو کچھ بھی ھمارے اخباروں اور مقالات میں بیان ھوتا ھے اس میں اسلامی حکومت کو تناقض آمیز(ضدّ و نقیض) اور دینی استبداد کے عنوان سے پھچنوایا جاتا ھے اسی وجہ سے ان مسائل کو صاف اور شفاف طریقہ سے بیان کرنے کی ضرورت ھے، تاکہ اس سلسلہ میں اسلامی نقطہ نظر واضح ھوجائے۔
کیا جب ھم یہ کھتے ھیں کہ ھمارا حکومتی نظام ”جمھوری اسلامی“ ھے تو اس نظام کا اسلامی ھونا اس بات کا تقاضا کرتا ھے کہ اس حکومت کا نقشہ اور اس کی شکل خداوندعالم کی طرف سے معین ھو ، اور قرآن وروایات اور کم سے کم پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ علیھم السلام کی سیرت میں بیان ھوا ھو؟ اور اگر اسلامی نظام ھونا اس بات میں مخصوص نھیں ھے کہ اس کی شکل وصورت خداوندعالم کی طرف سے معین ھو، (جیسا کہ دوسرے شواھد بھی اس بات پر دلالت کرتے ھیں کہ اس نظام کی شکل وصورت خداوندعالم نے معین نھیں کی ھے) تو پھر نظام کے اسلامی ھونے کا معیار کیا ھے؟
چنانچہ اس سلسلہ میں بھت زیادہ بحث وگفتگو ھوسکتی ھے اور جو کچھ ھم نے عرض کیا اس کی وجہ یہ ھے کہ بعض لوگوں نے اس بحث کو اھمیت دی اور بعض لوگوں کی طرف سے اس سلسلہ میں غلط بیانی سے کام لیتے ھوئے عوام الناس کو منحرف کرنا چاھا، لھٰذا ھم اس سلسلہ میں وضاحت کرنا مناسب سمجھتے ھیں ، اور ھماری اس بحث میں دقت کرنے سے مطالب واضح اور روشن ھوجائیں گے ، اور پھر دوسرے لوگوں کی باتیں اور شیطانی وسوسے اثر انداز نھیں ھوپائیں گے۔
کوئی شخص بھی اس بات کا دعویٰ نھیں کرتا کہ اسلام نے حکومت کے لئے خاص نقشہ معین کیا ھے، نہ قرآن میں، نہ روایات میں اور نہ معصومین علیھم السلام کی عملی سیرت میں،اور نہ ھی حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ اور مقام معظم رھبری ( حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مد ظلھ) اور نہ ھی دوسرے علماء ورھبروں کے بیانات میں یہ دعویٰ کیا گیا ھے کہ اسلامی حکومت وہ حکومت ھے جس کا نقشہ اور شکل خداوندعالم اور دینی رھبروںکے ذریعہ معین کیا گیا ھے، مثلاً یہ کہ اسلام نے حکم دیا ھو کہ ولی فقیہ صاحب اقتدار اور مرکز قدرت ھو اور اس کے بعد دوسرا درجہ صدر مملکت کا ھے ، اور یہ تینوں قدرتیں ایک دوسرے سے مستقل اور جدا ھونی چاھئیں تو جب اسلامی حکومت ھونے کا معیار یہ نھیں ھے کہ اس کا نقشہ اور حکومتی امور نیز قدرتوں کا استقلال خدا کی طرف سے معین ھو تو پھر اسلامی حکومت ھونے کے معیار کو دوسری جگھوں پر تلاش کرنا چاھئے۔
3۔ حکومتی ثابت اور مسلم ڈھانچہ پیش کیا جانا ممکن نھیں
قارئین کرام ! یھاں پر یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ کیا اسلام کی طرف سے حکومت کے لئے کوئی معین نقشہ اور خاص صورت بیان نہ ھونا اسلام کے ناقص ھونے کی دلیل نھیں ھے؟ کیا اسلام ایک کامل دین نھیں ھے اور کیا اسلام نے انسانی معاشرہ کی انفرادی اور اجتماعی ضرورتوں کو بیان نھیں کردیا ھے؟ تو پھر کیوں حکومت کے سلسلہ میں کوئی خاص شکل بیان نھیں کی ھے؟
ھم جواب میں عرض کرتے ھیں: وہ اسلام جس نے پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ کے چھوٹے اور محدود معاشرہ کے نظام کو چلایا ھے اور اسلام؛ انسانی مختلف وسیع اور پیچیدہ معاشروںمیں ایک عالمی حکومت کرنا چاھتا ھو، توکیا اس کے لئے ایک ثابت اور مسلم نقشہ پیش کرنا ممکن نھیں ابتدائے اسلام میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے ذریعہ ایسی حکومت تشکیل پائی جس کی مردم شماری شاید ایک لاکہ لوگوں تک بھی نہ ھو اور وہ سادہ قسم کی زندگی اور سادہ ثقافت والے لوگوں کی تعداد جن میں اکثریت بادیہ نشین اور مدینہ کے گرد ونواح کے دیھاتیوں کی تھی؛ یہ بات ظاھر ھے کہ اس زمانہ کے لحاظ سے اور اس تعداد کے لحاظ سے حکومت بھی سادہ تھی اس کے بعد آھستہ آھستہ اسلامی علاقوں میں اضافہ ھوتا چلا گیا اور خلفاء کے زمانہ میں منجملہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے زمانہ میں کہ ابھی ظھور اسلام کو آدھی صدی ھی گذری تھی اسلامی حکومت ایران، مصر، عراق، سوریہ، حجاز اور یمن تک پھنچ گئی تھی اور اسلام کے تحت نفوذ اس ترقی ووسعت کے پیش نظر ایسا ممکن نہ تھا کہ جب پیغمبر اکرم (ص) مدینہ منورہ میں ایک چھوٹی سی حکومت بنائیں تو اس کو اس طرح تشکیل دیں جس سے ھجرت کے وقت سے پچاس سال (بعد) کی حکومت کو بھی شامل ھوجائے ، اور اگر اس زمانہ میں رسول اکرم (ص) ایک عظیم اسلامی علاقہ کے لئے حکومت کو بیان کرتے تو اس زمانہ کے لوگوں کے لئے ایک خواب کی طرح ھوتا، اور دوسری طرف چونکہ اس طرح کی حکومت کا راستہ ھموار نھیں تھا لھٰذا اس طرح کا نقشہ پیش کرنا ایک بے ھودہ کام تھا۔
اور چونکہ اس پچاس سال کے عرصے میں مسلمانوں کے حالات بھت بدل گئے تھے لھٰذا اس کے لئے مختلف طریقوں کی حکومت ھونا چاھئے تھی، اسی طرح اس کے بعد کا زمانہ جس میں مسلمانوں اور جھان اسلام کے حالات میں بھی کافی تبدیلی آنا تھی تو اگر رسول اکرم (ص) ان تمام حالات کے پیش نظر ھر زمانہ کے لئے ایک خاص قسم کی حکومت کو بیان فرماتے تو پھر فرضی حکومتوں کے سلسلہ میں ایک عظیم ”دائرة المعارف“ (انسائیکلو پیڈیا) بن جاتاجس میں ھر زمانہ کی حکومت کے لئے تفصیل بیان کی جاتیں لیکن چونکہ اس زمانہ میں لکھنے پڑھنے والی کی تعداد ھی بھت کم تھی، اور اس سلسلہ میں عالم افراد اور دانشوران کا ھونا تو دور کی بات ھے تاکہ وہ اس سلسلہ میں تفصیل دیں اور ایک دوسرے سے جدا کریں، نہ اس وقت اس موضوع کو بیان کرنے کے امکانات تھے ، اور اگر بیان بھی ھوجاتے تو ان کو محفوظ رکھنا اور ان کو رائج کرنا بھی ممکن نھیں تھا۔
المختصر یہ کہ حکومت کا نقشہ اور اس کی شکل زمان ومکان کے لحاظ سے ھمیشہ متغیر ھے ، اور انسانی معاشرہ میں ھمیشہ کے لئے ایک خاص حکومت کا نقشہ معین کرنا ممکن نھیں ھے جس کو ھر دور میں اور ھر جگہ قائم کیا جاسکے حکومت کا نقشہ اسلام کے متغیر اور ثانوی احکام میں سے ھے جو زمان ومکان کے لحاظ سے بدلتے رھتے ھیںجن کو معین کرنا ولی امر مسلمین کے عھدہ پر ھوتا ھے،اور جب امام معصوم علیہ السلام حاضر ھوں تو وھی ولی ا مر مسلمین ھیں، اور وہ حاضر نہ ھوں تو پھر ان کی جگہ ان کا نائب (خاص) ولی امر مسلمین شمار ھوتا ھے (اسلام کے ان متغیر احکام کے مقابل میں اسلام کے ثابت اور مسلم احکام بھی ھیں جو ھمیشہ کے لئے ثابت ھیں جن کو کسی بھی زمانہ میں اور کسی جگہ پر جاری کیا جاسکتا ھے۔(
لھٰذا یہ تصور کرنا کہ اسلام کو ھر علاقے اور ھر زمانہ کے لحاظ سے حکومت کا ایک نقشہ پیش کرنا چاھئے تھا؛ یہ تصور صحیح نھیں ھے، چونکہ اس طرح کا کام عملی طور پر ممکن بھی نہ تھا لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ اسلام کی طرف سے حکومت کے لئے خاص نقشہ پیش نہ کرنا اسلام کا کوئی نقص نھیں ھے بلکہ اگر اسلام کی طرف سے حکومت کے سلسلہ میں کلّی اور عام قواعد پیش نہ کئے جاتے تو اس وقت یہ کھا جاسکتا تھا کہ اسلام میں نقص ھے؛ کیونکہ اس صورت میں نہ تو اسلام نے زمان ومکان کے لحاظ سے حکومت کی کوئی شکل پیش کی ھے اور نہ ھی حکومت کے بارے میں کوئی راستہ بیان کیا ھے لیکن الحمد للہ اسلام نے حکومت کے نقشہ کے بارے میں راستہ تو بتادیا ھے اور اس کے لئے متغیر احکام قرار دئے ھیں اور جیسا کہ ھم نے قانون گذاری کے سلسلہ میں عرض کیا ھے کہ زمان ومکان کے لحاظ سے متغیر احکام کا معین کرنا ولی امر مسلمین کی ذمہ داری ھوتی ھے،جو اسلامی اصول کی بنا پر اور اس زمانہ کے متغیر مصالح کے پیش نظر اور اس سلسلہ میں ماھرین سے صلاح ومشورہ کے بعد ان کو بیان کرتا ھے ، اور انھیں مسائل میں سے حکومت بھی ھے، (اور جب ولی امر مسلمین ان احکام کو بیان کردے تو پھر) عوام الناس کے لئے ان پر عمل کرنا ضروری ھے اسلام نے اس راہ حل کو پیش کرکے عوام الناس کو سرگردانی اور حیرت سے نجات عطا کردی ھے، جس کی بنا پر اختلافات اور جھگڑوں کا خاتمہ ھوگیا ھے۔
4۔ حکومت کا عرفی اور دنیاوی ھونا اور قوانین اسلام کا ھم عصری ھونا (ایک اعتراض(
قارئین کرام ! اس سلسلہ میں ایک دوسرا اعتراض یہ ھوتاھے کہ اسلام کی طرف سے حکومت کے لئے کوئی خاص نقشہ بیان نہ کرنا اس بات کی علامت ھے کہ حکومتی مسائل عرفی اور دنیاوی ھیں جو خود عوام الناس سے متعلق ھیں اور اسلام نے اس سلسلہ میں کوئی اظھار نظر نھیں کیا ھے آج کل کے وہ لوگ جو مغربی کلچر خصوصاً ”لیبرلیزم“سے متاثر ھیں اس اعتراض کو ھوا دیتے ھیں اور اپنے مقالات، تقریروں اور اپنی گفتگو میں اس اعتراض کی حمایت کرتے ھیں کہ حکومتی مسائل دنیاوی اور عرفی ھیں جن کا اسلام سے کوئی رابطہ نھیں ھے اور اپنی بات پر شاھد اس چیز کو پیش کرتے ھیں کہ اسلام نے نہ تو جمھوری حکومت کے بارے میں کچھ کھا ھے اور نہ بادشاھی حکومت کے سلسلہ میں کچھ کھا ھے، اور نہ ھی دوسری حکومتوں کے بارے میں کچھ بیان دیا ھے اس سے معلوم ھوتا ھے کہ حکومتی مسائل ایسے نھیں ھیں جن کے بارے میں ھمیں یہ امید نھیں رکھنی چاھئے کہ اس سلسلہ میں خدا اور پیغمبر کچھ بیان کریں، بلکہ یہ مسائل تو دنیا اور عوام الناس سے متعلق ھیں اور خود انھیں کو اس سلسلہ میں طے کرنا چاھئے۔
اور آھستہ آھستہ اس سے بھی آگے قدم بڑھاتے ھوئے کھتے ھیں: نہ صرف یہ کہ حکومت کے نقشہ کو خود عوام الناس معین کرے بلکہ حکومت کے قوانین بھی خود عوام الناس کو بنانا چاھئے؛ چاھے وہ قوانین اسلامی اصول کے خلاف ھی کیوں نہ ھوں!!
لیکن اس وقت ان کے سامنے یہ سوال آتا ھے کہ اگر حکومتی مسائل دنیاوی اور عرفی ھیں اور عوام الناس سے متعلق ھیں یھاں تک کہ قوانین بھی انھیں کے ذریعہ بنائے جائیں، تو پھر قرآن اور متواتر روایات میں حکومت سے متعلق بھت سے احکام کیوں بیان ھوئے ھیں؟ مثلاً احکام قضا، احکام مالیات (ٹیکس) اور احکام جزائی وغیرہ،یہ وہ بند گلی ھے جس سے نکلنے کا راستہ نھیں ھے ، اگرچہ انھوں نے اس بند گلی سے نکلنے کے لئے بھت سے راستے اختیار کئے ھیں لیکن ان سب کو اس وقت بیان نھیں کیا جاسکتا۔
ان میں سے بعض لوگوں کا یہ کھنا ھے کہ وہ حکومتی احکام وقوانین جو قرآن وروایات میں وارد ھوئے ھیں، وہ حضرت رسول اکرم (ص) کے زمانہ سے مخصوص ھیں اور اسی زمانہ کی ضرورت کے مطابق تھے ، اور اسلام نے صرف رسول اکرم (ص) کے زمانہ میں حکومتی مسائل میں دخالت کی ھے اور کچھ قوانین پیش کئے ھیں ، کیونکہ اس وقت کے لوگ اپنی ضرورت کے مطابق قوانین بنانے کی صلاحیت نھیں رکھتے تھے، لھٰذا اسلام کو ان کی ضرورت کے مطابق کچھ قوانین پیش کرنا پڑے، اسی وجہ سے قرآن وروایات میں حکومت، سیاست اورقضاوت سے متعلق احکامات بیان ھوئے ھیں جو صرف اسی زمانہ میں کار آمد تھے، لیکن اس زمانہ میں جب انسان نے علم ودانش میں کافی ترقی کرلی ھے اور خود اپنی ضرورت کے مطابق قوانین بنانے کی صلاحیت رکھتا ھے اور آج کل ماڈرن زمانہ ھے، لھٰذا وہ قوانین کار آمد نھیں ھیں اور ان کو ترک کردینا چاھئے!!
قارئین کرام ! اس طرح کی باتیں بھت سے اسلام کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کی طرف سے بیان ھوتی ھیں اور کبھی کبھی تو صاف کھتے ھیں کہ احکام اسلام (منجملہ اسلام کے اجتماعی احکام) رسول اسلام (ص) کے زمانہ سے مخصوص تھے، اور آج ھمارے زمانہ میں کار آمد نھیں ھیں، بلکہ اصلاً اس زمانہ کے لئے نازل (بھی) نھیں ھوئے ھیں، اور کبھی کبھی اپنے مذکورہ نظریہ کو پشت پردہ بیان کرتے ھیں چونکہ اتنی ھمت نھیں کرتے کہ واضح طور پر اسلام کے تمام اجتماعی احکام پر اعتراضات نھیں کرسکتے ، اور اسلام کے بعض سزائی احکام منجملہ ”چور کے ھاتہ کاٹنے والے حکم“ پر اعتراض کرتے ھیں۔
چنانچہ کھتے ھیں کہ ”چور کے ھاتہ کاٹنے کا حکم“ چوری کرنے اور لوگوں کے مال میں خیانت کرنے سے روک تھام اور معاشرہ میں مالی امن وامان کو برقرارکرنے کے لئے تھا لیکن اب اگر ھمارے پاس اس طرح کے جرائم سے روک تھام کے لئے اس سے بھتر طریقے موجود ھوں تو پھر انھیں کو کام میں لایا جائے، نہ یہ کہ ھر زمانہ میں چور کے ھاتہ کاٹ دئے جائیں اسلامی قوانین کا مقصود معاشرہ میں امن برقرار رکھنا ھے اور اس زمانہ میں اس سے بھتر اور کوئی طریقہ کار نھیں تھا کہ چور کے ھاتہ کاٹ دئے جائیں لیکن آج کل اس سے بھتر طریقے موجود ھیں تاکہ اس طرح کے جرائم سے روک تھام ھوسکے، جن میں تشدد اور شدت پسندی بھی نھیں ھے اور ان کی انسانی شرافت بھی داغدار نھیں ھوتی کیونکہ چور کے ھاتہ کاٹ دینا تشدد اور وحشیانہ عمل ھونے کے علاوہ انسانی شرافت سے بھی ھم آھنگ نھیں ھے جس کو ترک کردینا چاھئے آج کل ھم اس زمانہ میں زندگی بسر کرتے ھیں جس کو ماڈرن زمانہ کھا جاتا ھے، آج اجتماعی مسائل بالکل بدل گئے ھیں، اور چونکہ آج کل کے جدید حالات پیغمبر اکرم ( (ص)) اور ائمہ معصومین (علیھم السلام) کے زمانہ سے بالکل الگ ھیں لھٰذا اسلامی قوانین کو جاری نھیں کیا جاسکتا۔
قارئین کرام ! آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ پھلے توان لوگوں نے یہ کھا کہ اسلام نے حکومت کے لئے کوئی نقشہ پیش نھیں کیا، اور اس سلسلہ میں خود عوام الناس کو اختیار ھے اور جب حکومتی مسائل عوام الناس پر چھوڑ دئے تو اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ جن موارد میں اسلام کے مشخص اور معین قوانین نھیں ھیں تو ان قوانین کو معین کرنا خود عوام الناس کے عھدہ پر ھے اس کے بعد اس سے آگے قدم بڑھایا اور کھا : یھاں تک کہ جن موارد میں اسلامی قوانین موجود بھی ھیں تو ان اسلامی قوانین کو نسخ بھی کیا جاسکتا ھے اور ان کو بدلا جاسکتا ھے! بے شک اس صورت میں تواسلام کا جلد ھی فاتحہ دیاجائے گا۔
5۔ مذکورہ اعتراض کا جواب، اور اسلام کے متغیر اور ثابت احکام کی نسبت
ھم نے مختصر طور پر یہ عرض کیا کہ اسلام کے ثابت اور غیر قابل تبدیل احکام کے علاوہ متغیر احکام بھی ھیں کیونکہ اسلام کے احکام واقعی مصالح ومفاسد کے تحت ھیں ، اور انسان کی زندگی بعض امور میں متغیر حالات کے تابع ھے ، البتہ وہ متغیر حالات بھی واقعی مصالح ومفاسد کے لحاظ سے متغیر ھیں اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ حکومت بھی ثانوی اور متغیر احکام رکھتی ھے اور ھر زمانہ میں اس کی شکل وصورت کا معین کرنا نیز اس کے لئے مناسب قوانین بنانا ولی فقیہ کا کام ھے جو اسلامی اصول کے تحت اور اسلامی ارشادات کے مطابق اپنے وظیفہ پر عمل کرتا ھے۔
قارئین کرام ! توجہ رھے کہ اسلام کے متغیر اور ثابت احکام میں امتیاز پیدا کرنا اوران میں تمیز کرنا فقھاء اور مجتھدین کا کام ھے کیونکہ وہ اسلامی منابع ومآخذ کی روح یعنی قرآن،سنت، اورپیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی سیرت کا علم رکھتے ھیں لھٰذا اسلام کے متغیر اور ثابت احکام میں تمیز کرسکتے ھیں، اور ان میں سے ھر ایک کے صفات کو معین کرسکتے ھیں۔
صرف یہ کھہ دینا کہ اسلام میں متغیر احکام پائے جاتے ھیں اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ کوئی اسلام کے تمام احکام کو متغیر کھہ دے کیونکہ اگر اسلام کے تمام قوانین متغیر ھوں تو پھر اسلام میں کیا باقی بچے گا؟ اور اس صورت میں ھم کس اسلام کا دفاع کرنا چاھتے ھیں؟ اگر تمام اسلامی قوانین اور احکام متغیر ھوں اور اسلام کا کوئی بھی قانون یا حکم ثابت اور مسلم نہ ھو تو پھر ھم نے کیوں انقلاب برپا کیا، اور اسلام کے احکام جاری ھونے کے خواھشمند ھیں، اس کی وجہ سے لاکھوں افراد شھید ھوئے خود شاہ (محمد رضا) کے زماہ میں ایک ریفارم "Rwforme" (اصلاح) اور تبدیلی کے ذریعہ عوام الناس کی مانگ کو پورا کیا جاسکتا تھا،تاکہ خود عوام الناس کے لئے قوانین بنانے کا راستہ ھموار ھوجاتا ، اگر یہ وھی اسلام ھے جس کے قوانین عوام الناس کی رائے سے بدل جاتے ھیں تو پھر ھم نے بے فائدہ انقلاب برپا کیا، بھتر تھا کہ ھم ”ملی گرا“ کے تابع ھوجاتے، جس کی بنا پر معاشرہ کے منافع کو حاصل کرتے، اور پھر ھمارے یہ نقصانات نہ ھوتے!! جیسا کہ ملی گرا مشورہ دیتے اسی کو جاری کرتے اور لیبرل ڈیموکریسی کے تحت آرام کے ساتھ ووٹنگ کرتے اور پھر اپنے منتخب شدہ ممبران کو شاہ کے پارلیمنٹ میں بھیجتے، اور وہ عوام الناس کی خواھش کے مطابق غیر عوامی قوانین تبدیل کرتے!!
قارئین کرام ! یہ ان لوگو ں کی باتوں کا کا خلاصہ ھے جو بیرونی ”تئوریسین“ سے متاثر ھیں جو بعض ان اخباروں میں بیان ھوتے ھیں جو مسلمانوں کے بیت المال سے چلتے ھیں!!
اسی طرح کے بعض لوگ ناجائز فائدہ اٹھاتے ھیں اور ان جوانوں کو جنھوں نے ابھی تک اسلام کے اجتماعی مسائل کا مطالعہ نھیں کیا ھے اور کافی مقدار میں علم نھیں رکھتے ان کو تحت تاثیر قرار دیتے ھیں، مثال کے طور پر کھتے ھیں : اسلامی حکومت صرف ایک ادعای ھے جس کی کوئی حقیقت نھیں ھے، کیونکہ اسلام نے نہ جمھوریت کے بارے میں کچھ کھا ھے اور نہ ھی قدرتوں میں جدائی کے بارے میں کچھ بیان دیا ھے۔
اور جب اسلام نے اس سلسلہ میں کچھ (بھی) بیان نھیں کیا ھے تو معلوم ھوتا ھے کہ اسلام نے حکومت کے سلسلہ میں کوئی نقشہ پیش نھیں کیا بلکہ حکومتی امور خود عوام الناس کے سپرد کردئے گئے ھیں۔
یھاں پر ھمارے مخاطب وہ لوگ ھیں جو خدا، اسلام اور قرآن پر اعتقاد رکھتے ھیں، احکام اسلامی کو کھیل سمجھنے والے افرادنھیں، کیونکہ ان کے سلسلہ میں گفتگو کرنا بے کار ھے ھم ان لوگوں سے مخاطب ھیں جو خدا کے وجود کا اقرار کرتے ھیں اور عقیدہ رکھتے ھیں کہ خدا نے پیغمبر کو ھماری ھدایت کے لئے بھیجا ھے، نیز قرآن مجید اس کی طرف سے نازل ھوا ھے؛ (ھم ان سے یہ عرض کرتے ھیں کھ) قرآن مجید صاف طور پر ایسے احکام اور قوانین کا ذکر کرتا ھے جو ھمیشہ ثابت اور غیر قابل تبدیلی ھیں اور قابل استثناء بھی نھیں ھیں، اس کے علاوہ قرآن مجید نے بار بار اس بات پر زور دیاھے کہ ان احکام میں کسی طرح کا کوئی خدشہ وارد نھیں کرنا چاھئے ان ھی میں سے اسلام کے قضائی احکام ھیں اگرچہ بعض مسائل ضروری اور واجب ھیں لیکن ان کو عام معمولی طریقہ سے قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ھے، لیکن بعض مسائل منجملہ احکام قضاوت (اسلامی قوانین کے احکام وقوانین کے مطابق) ھیں جن کے بارے میں اس قدر تاکید کی گئی ھے اور ان کو اس شدید انداز میں بیان کیا گیا کہ اگر انسان ان کی خلاف ورزی کرنا چاھے تو اس کا بدن لرز جاتا ھے جیسا کہ خداوندعالم اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ھے کہ خدا کے حکم کے مطابق حکم فرمائیں:
( إِنَّا اٴَنزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا اٴَرَاکَ اللهُ )(2)
” ھم نے آپ کی طرف یہ بر حق کتاب نازل کی ھے کہ لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں “
دوسری جگہ رسول خدا (ص) کے فیصلوں کے سامنے تسلیم ھونے اور اس کی اطاعت کے بارے میں فرماتا ھے:
( فَلاَوَرَبِّکَ لاَیُؤْمِنُونَ حَتّٰی یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَھمْ ثُمَّ لاَیَجِدُوا فِی اٴَنفُسِھمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیمًا )(3(
” پس آپ کے پروردگار کی قسم کہ یہ ھرگز صاحب ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپ کو اپنے اختلافات میں حَکم نہ بنائیں گے اور پھر جب آپ فیصلہ کردیں تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں اور آپ کے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ھوجائیں۔“
قارئین کرام ! جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ کیا کہ خداوندعالم نے ( فَلاَوَرَبِّک ) سے قسم کھاکر (جو بھت بڑی قسم ھے) صرف ان لوگوں کو مومن شمار کیا ھے جو اپنے اختلافات اور جھگڑوں میں(جو معمولاً مالی امور میں اور کبھی جان وناموس کے سلسلے میں ھوتے ھیں) صرف پیغمبر اکرم (ص) کی طرف رجوع کریں لیکن اگر اپنے اختلافات کو دور کرنے کے لئے پیغمبرا کرم (ص) کی خدمت میں نہ گئے اور آنحضرت (ص) سے فیصلہ کی درخواست نہ کی، یا اگر پیغمبر اکرم (ص) نے ان کے درمیان فیصلہ فرمادیا چاھے کسی کے نقصان میں ھو یا فائدہ میں، او ر وہ دل وجان سے پیغمبر کے فیصلہ پر راضی نہ ھوئے اور ان کے دل رنجیدہ رھے ، تو اس صورت میں وہ مومن نہ رھیں گے لھٰذامومنین کو بھی آنحضرت (ص) کو قضاوت اور فیصلوں کے لئے منتخب کرنا چاھئے اور جس وقت وہ فیصلہ فرمادیں تو چاھے ان کے فائدہ میں ھو یا نقصان میں، تو ان کو اپنے دل میں ناراضگی اور رنجیدگی کا احساس تک نہ ھونے پائے، اور مکمل طریقہ سے رسول خدا (ص) کے فیصلہ پر راضی رھیں جو لوگ آنحضرت (ص) کو خدا کا رسول مانتے ھیں لیکن ان کے فیصلوں کو نھیں مانتے وہ لوگ جھوٹے اور منافق ھیں؛ یہ کیسے ممکن ھوسکتا ھے کہ رسول کی رسالت کا اقرار کرتے ھوں لیکن اس کے فیصلوں کو نہ مانیں؟!
قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر چند مسلسل آیتوں میں خدا کے حکم کے علاوہ قضاوت کرنے والے لوگوں کو فاسق، کافر اور ظالم کھا گیا ھے:
ارشاد رب العزت ھوتا ھے:
( وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴُوْلَئِکَ ھمْ الْکَافِرُون ) (4)
”اور جو شخص بھی ھمارے نازل کئے ھوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے گا اس کا شمار کافروں میں ھوگا۔“
( وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴُوْلَئِکَ ھمْ الظَّالِمُونَ ) (5)
”اور جو شخص بھی ھمارے نازل کئے ھوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے گا اس کا شمار ظالموں میں ھوگا۔“
( وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴُوْلَئِکَ ھمْ الْفَاسِقُونَ )(6(
”اور جو شخص بھی ھمارے نازل کئے ھوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے گا اس کا شمار فاسقوں میں ھوگا۔“
کیا کوئی شخص قرآن مجید کی ان آیات کو اس انداز اور اس لحن میں ملاحظہ کرنے کے بعد (بھی) یہ احتمال دے سکتا ھے کہ اسلامی قضاوت کے احکام صرف رسول اکرم (ص) کے زمانہ تک اور زیادہ سے زیادہ آپ کے بیس سال بعد تک کے لئے ھیں، اور جب اسلامی علاقوں میں ایران، مصراور دوسرے علاقے شامل ھوگئے تو اسلام کے یہ قضائی احکام کار آمد نھیں رھے اور قضاوت کے احکام لوگوں پر چھوڑ دئے گئے ھیں؟ کیا ھر وہ شخص جو ان آیات اور اسی طرح کی دوسری آیات کو ملاحظہ کرنے کے بعد یھی نتیجہ اور فیصلہ کرے گا؟! یا نہ اس کا فیصلہ یہ ھوگا کہ کسی بھی وقت اور کسی بھی حالت میں خدا وندعالم کے احکام کو پاؤں سے روندھا نھیں جاسکتا؟
بے شک ھر وہ صاحب عقل اور انصاف پسند انسان جو خدا پر ایمان رکھتا ھو اور ان آیات کو خدا کا کلام سمجھے تو ان آیات کے لب ولھجے کو دیکہ کر یہ یقین نھیں کرسکتا کہ یہ مذکورہ آیات صرف رسول اکرم (ص) کے زمانہ اور زیادہ سے زیادہ آنحضرت کے بیس سال بعد تک کے لئے ھیں؛ بلکھ(ان آیات کے لب ولھجے کو دیکہ کر) اس کو یقین ھوجائے گا کہ تاقیامت ان آیات کے مضمون پر عمل ھونا چاھئے، اور ھمیشہ احکام خدا کو اپنے اعمال کے لئے نمونہ عمل قرار دینا چاھئے، اور ان کی خلاف ورزی نھیں کرنا چاھئے:
( وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُودَ اللهِ فَاٴُوْلَئِکَ ھمْ الظَّالِمُونَ ) (7)
” اور جو حدود الٰھی سے تجاوز کرے گا اس کا شمار ظالمین میں سے ھوگا۔“
اس کے علاوہ اگر بعض آیات کا مضمون کسی قدر واضح اور روشن نہ ھوتا تو اس میں کچھ شبہ ھوسکتا تھا، علماء او رمجتھدین کا وظیفہ ھے کہ یہ معین کریں کہ یہ آیات کسی خاص زمانہ سے مخصوص ھیں یا زمانہ کے لحاظ سے مطلق ھیں اور کیا کسی خاص قوم( جزیرة العرب کی عوام) سے مخصوص ھیں یا ان آیات میں دوسرے تمام لوگ بھی شامل ھیں؟
بھر حال دشمن؛ احکام اسلامی اور قوانین اسلامی کو برداشت کرنے سے شانے خالی کرتے ھیں اور اپنی خواھش نفسانی نیز شیطانی ھواو ھوس کے تحت نیز جوان نسل کو گمراہ اور منحرف کرنے کے لئے یہ دعویٰ کرتے ھیں کہ اسلام کے اجتماعی اور سیاسی احکام رسول اکرم (ص) کے زمانہ سے مخصوص ھیں اور اس کے بعد کار آمد نھیں ھیں، اگرچہ ھم نے اپنی حکومت کو ”جمھوری اسلامی“ کا عنوان دیا ھے لیکن اسلام کا نام صرف ایک دکھاوٹی پھلو ھے ، اور عوام الناس جو قانون بھی بنانا چاھیں بناسکتے ھیں،اور اس پر عمل کرسکتے ھیں؛ چاھے وہ قوانین سو فی صد خداوند عالم کے حکم کے مخالف ھوں!! افسوس کہ بعض لوگ اپنے مقالات اور تقریروں میں اسی طرح کا نظریہ پیش کرتے ھیں، جبکہ ان سے اس کے علاوہ کی امید بھی نھیں ھے۔
6۔ انسانی، تمام مسائل میں احکام الٰھی کی وسعت
قارئین کرام ! یہ بات واضح ھوچکی ھے کہ اسلام کی طرف حکومت کے لئے کوئی خاص نقشہ پیش نہ کرنے کے یہ معنی نھیں ھیں کہ حکومت اور حکومتی قوانین : عدلیہ ، قانون گذاری اور اجرائے احکام سے متعلق قوانین (8) خود عوام الناس کے سپرد کردئے جائیں اور خداوندعالم ان کے بارے میں کوئی نظریہ نہ رکھتا ھو؛ بلکہ خداوندعالم نے انسان کے ذاتی اور اجتماعی مسائل میں اسی طرح حکومت و سیاست کے بارے میں دستور العمل بیان کیا ھے، اور ھمیں کوئی ایک ایسا مورد نھیں ملے گا جس میں خدا وندعالم کا حکم شامل نہ ھوتا ھو۔
وضاحت ھم جو کچھ بھی کام انجام دیتے ھیں اور جو احکام ھم پر لاگو ھوتے ھیں ان میں سے بعض احکام وجوبی اور الزامی ھوتے ھیں جن پر عمل کرنا ضروری ھوتا ھے ان کے مقابلہ میں بعض احکام حرام ھوتے ھیں جن کا ترک کرنا واجب ھوتا ھے، ان اوامر ونواھی والے الزامی احکام کے علاوہ دوسرے احکام جائز ھوتے ھیں او ران پر غیر الزامی احکام جاری ھوتے ھیں، غیر الزامی احکام یہ ھیں: مستحب، مکروہ اور مباح پس ھمارے تمام کام انھیں پانچوں قسم میں سے ھوتے ھیں چاھے وہ واجب ھوں یا حرام، مستحب ھوں یا مکروہ اور مباح، اور یہ تمام خداوندعالم کے احکام ھیں۔
اس بنا پر اگر کسی مقام پر کوئی کام حرام یا واجب یا مستحب یا مکروہ نہ ھو تو وہ کام انسان کے لئے آزاد ھے جس کو روایات میں مطلق اور فقھاء ومجتھدین کی اصطلاح میں ”مباح“ کھا جاتا ھے؛ مباح بھی خداوندعالم کے احکام میں سے ایک حکم ھے لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ انسان کے انفرادی اور اجتماعی مسائل میں کوئی چیز ایسی نھیں ھے جس پر حکم خدا شامل نہ ھو،کیونکہ ھر مسئلہ یا ھر موضوع پر احکام خمسہ (واجب ، حرام، مستحب، مکروہ اور مباح) میں سے کوئی نہ کوئی حکم ضرور شامل ھوگا البتہ حقوق اور سیاست کے لحاظ سے مستحب اور مکروہ صرف اخلاقی پھلو رکھتا ھے اور ان کا ذکر حقوقی مسائل میں بیان نھیں ھوتا اور مسائل حقوقی یا واجب ھیں جن کی رعایت ھونا چاھئے یا حرام جن کو ترک کیا جائے یا مباح ھیں (چاھے عمل کرے یا نہ کرے۔(
آخر میں یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ اگر ھم نے مان لیا کہ اسلام نے حکومت کے سلسلہ میں نظریہ پیش کیا ھے،اور وہ شخص جو اقتدار میں مرکزیت رکھتا ھے اس کے لئے خاص شرائط وصفات معین کئے ھیں ، جس کے نتیجہ میں جو شخص ان صفات کا حامل ھوگا وھی شریعت اسلام کی طرف سے معاشرہ کی رھبری کے لئے حکومت کے لئے منصوب ھوگا؛ تو کیا جن مسائل میں اسلام نے بیان نھیں دیا ھے وہ عوام الناس کے حوالے ھیں اور ان میں شریعت اسلام نے کوئی تصمیم گیری نھیں کی ھے اور اس سلسلہ میں ان کو طے کرنے کے لئے عوام الناس کی سمجھ بو جہ اور ان کے درمیان موجود عرف کے مطابق عمل کیا جائے؟ یھاں پر ، حتیٰ وہ افراد جو اسلامی اور فقھی بحثوں سے کسی حد تک آشنائی رکھتے ھیں کبھی کبھی ایسے گول مٹول الفاظ استعمال کرتے ھیں جن سے دوسرے ناجائز فائدہ اٹھاتے ھیں،مثال کے طور پر کھتے ھیں: ھم اپنی زندگی کے بعض مسائل کو دین اسلام سے اخذ کریں اور ان کے سلسلہ میں قرآن مجید، روایات اور زیادہ سے زیاہ پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ اطھار علیھم السلام کی عملی سیرت کی طرف رجوع کریں؛ لیکن ان کے علاوہ اپنی عقل کے مطابق عمل کریں در حقیقت ھم اپنی صحیح زندگی کی راہ کو معین کرنے کے لئے دو منابع رکھتے ھیں: ایک قرآن مجید ، دوسرے عقل اس طرح کے مسامحہ آمیز (ذو معنی ) الفاظ وہ حضرات استعمال کرتے ھیں جو صاحب نظر اور واقعاً متدین ھیں، اور چونکہ اس طرح کی باتیں باعث لغزش و گمراھی ھوتی ھیں لھٰذا ان کو ردّ کرنا ضروری سمجھتے ھیں۔
اس نکتہ پر توجہ کرنا ضروری ھے کہ حکم شرعی اور حکم الٰھی کے لئے کم سے کم دو اصطلاح موجود ھیں:
1۔ حکم شرعی کی پھلی اصطلاح : (یا حکم تعبدی اور الٰھی) وہ حکم ھے جو قرآن مجید اور سنت نبوی سے حاصل کیا جاتا ھے، وہ قرآن اور معتبر احادیث میں ذکر ھوئے ھیں اس اصطلاح کے مطابق وہ حکم جو دوسرے طریقہ سے حاصل ھو جیسے عقل کے ذریعہ تو اس کو شرعی حکم نھیں کھا جاتا، بلکہ اس کو ”حکم عقل“ کھا جاتا ھے لھٰذا اگر کسی حکم کو عقل مستقل طور پر حاصل کرلے ، اور اس سلسلہ میں شریعت مقدس کی طرف سے بھی حکم وارد ھوا ھو، تو اس (شرعی حکم) کو ارشادی کھا جاتا ھے جس میں حکم شرعی اور تعبدی نھیں ھوتا۔
وضاحت ھماری عقل دوسری چیزوں سے قطع نظر بعض چیزوں کو سمجھتی ھے مثلاً ھر صاحب عقل انسان اس بات کو آسانی سے سمجھ لیتا ھے کہ عدالت اچھی چیز ھے اور ظلم بری چیز ھے؛ اور کوئی بھی صاحب عقل، عقل کے اس حکم میں شک نھیں کرتا اس وقت جب قرآن مجید کی آیت میں عدل کے بارے میں حکم ھوتا ھے تو فقھاء کی اصطلاح میں اس حکم کو ”ارشادی“ کھا جاتا ھے ؛ یعنی یہ آیت صرف عقل کے اس حکم پر ھدایت کرتی ھے جو ھماری عقل نے الگ سے سمجھ لیا ھے۔
حکم شرعی میں اس اصطلاح کا فقھاء کے یھاں استعمال ھونا بعض لوگوں کے منحرف ھونے کاسبب بنا ھے اور خیال کیا جانے لگا کہ ھم اپنی زندگی کے تمام مسائل میں شرعی حکم کے محتاج نھیں ھیں بلکہ بعض مسائل میں ھمارے لئے حکم عقل کافی ھے اور پھر ان میں خدا وند عالم کی کوئی حکومت نھیں ھوگی،کیونکہ خداوندعالم کی حاکمیت ان احکام میں ھوتی ھے جو قرآن مجید اور سنت پیغمبر میں نازل ھوئے ھیں، اور اگر کسی سلسلہ میں خدا کا کوئی حکم نہ ھو تو وھاں پھر خدا نے اپنی حاکمیت کو نھیں رکھا ھے بلکہ اس کو عقل کے سپرد کردیا ھے پس ھماری زندگی کے امور دو حصوں میں تقسیم ھوتے ھیں: بعض میں خدائی سلطنت ھے اور دوسرے حصہ میں ھماری عقل حاکم ھے اس کے معنیٰ یہ ھیں کہ خدا وندعالم تمام مقامات پر حکومت نھیں رکھتا، ھمیں ھر جگہ خدا کے حکم کو تلاش نھیں کرنا چاھئے بلکہ جس جگہ خدا کا حکم نہ ھو اس کو ھمارے حوالے کردیا ھے تاکہ ھم اپنی عقل کے ذریعہ اس کا حکم حاصل کرلیں۔
قارئین کرام ! جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ فقھاء کے یھاں پھلی اصطلاح میں حکم شرعی میں مسامحہ آمیز تعبیر استعمال کی گئی ھے، (جس کی بنا پر حکم شرعی اس حکم تعبدی کو کھا جاتا ھے جو قرآن وسنت میں ذکر ھوا ھو، اس کے مقابلہ میں عقل کے قطعی اور یقینی حکم کو قرار دیتے ھیںجس کے سلسلہ میں شارع مقدس نے کوئی تعبد نھیں رکھا ھے، اور ھماری عقل اس حکم کو حاصل کرنے میں شریعت کی پابند نھیں ھے، اور شریعت نے صرف اس سلسلہ میں ارشادی حکم کو پیش کیا ھے) جس سے بعض لوگوں نے غلط نتیجہ نکالا ھے اور یہ اعتقاد کرلیا کہ ھماری زندگی کا ایک حصہ خداوندعالم کی حاکمیت اور سلطنت سے باھر ھے اور اس سلسلہ میں قوانین کو مرتب کرنا عقل کی ذمہ داری ھے۔
2۔ حکم شرعی کی دوسری اصطلاح: یہ ھے کہ وہ احکام جو خداوند عالم کے ارادہ تشریعی سے متعلق ھو ں؛ یعنی ھر وہ کام جو خداوندعالم ھم سے چاھتا ھے چاھے الزامی صورت میں ھو یا مباح کی صورت میں ھو پس جو کچھ خداوندعالم ھم سے چاھے کہ ھم اسے انجام دیں تو وہ حکم خدا ھے؛ چاھے وہ قرآن وسنت اور تعبدی دلائل کے ذریعہ ثابت ھوں اور چاھے عقل کے ذریعہ ثابت ھوں اس بنا پر خود عقل بھی حکم خدا کی پھچان کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ھے لھٰذا ھم اس کی اطاعت کرتے ھیں اور اس کی پیروی کرتے ھیں کیونکہ عقل خداوندعالم کے تشریعی ارادہ کی عکاسی کرتی ھے، لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ یہ حکم وھی چیز ھے جس کو خداوندعالم نے ھم سے چاھا ھے اگر فقھی کتابوں میں بیان ھوا ھے کہ قرآن مجید، سنت نبوی کے علاوہ بھی احکام شرعی کو ثابت کرنے کے لئے ایک دوسری چیز بھی ھے جس کو عقل کھا جاتا ھے تو اس کے معنی یہ ھیں کہ عقل بھی خدا کے احکام کو پھچاننے والے طریقوں میں سے ایک طریقہ ھے، اور عقل بھی قرآن وسنت کی طرح حکم خدا کو کشف کرسکتی ھے اور حکم خدا صرف قرآن وسنت میں منحصر نھیں ھے بلکہ احکام خدا وہ ھیں جس پر خدا کا ارادہ تشریعی متعلق ھو جو قرآن سنت اور عقل کے ذریعہ کشف ھوتا ھے۔ قارئین کرام ! اس اصطلاح اور معنی کے پیش نظر انسان کے تمام کام چاھے وہ انفرادی ھوں یا اجتماعی، چاھے حقوقی ھوں یا جزائی یا اندرونی ھو یا بیرونی اور بین الاقوامی تمام پر حکم شرعی اور حکم خدا شامل ھے؛ چاھے حکم خدا قرآن وسنت کے ذریعہ اثبات ھو یا عقلی طریقہ پر ثابت ھو البتہ توجہ رھے کہ عقلی حکم اس قدر واضح ، روشن اور یقینی ھو کہ جس پر ھمیں اطمینان ھوجائے کہ جو کچھ عقلی دلیل کے ذریعہ ثابت ھوا ھے وہ خداوندعالم کے تشریعی ارادہ سے متعلق ھے۔
حوالے:
)1( مشروطیت اس شاھی حکومت کو کھتے ھیں جس میں قوانین کے تحت کام کیا جائے (مترجم(
(2)سورہ نساء آیت 1۰5
(3) سورہ نساء آیت 65
)4) سورہ مائدہ آیت 44
)5) سورہ مائدہ آیت 45
(6) سورہ مائدہ آیت 47
(7) سورہ بقرہ آیت 22۹
(8) جن کو ھم فلسفہ سیاست کی تھیوریوں میں بیان کریں گے
چونتیسواں جلسہ
اسلامی احکام کی عظمت اوراس کی دوسرے نظام پر برتری
1۔حکومت اورمتغیر احکام سے اسلامی ثابت احکام کی نسبت
جیسا کہ ھم گذشتہ جلسہ میں عرض کرچکے ھیں بعض دوسری فکر رکھنے والے لوگ اخباروں اور اپنی تقریروں میں یہ بیان کرتے ھیں کہ وہ احکام اور قوانین جن کو معاشرہ کی ضرورت ھوتی ھے ان کو پارلیمنٹ میں طے ھونا چاھئے، اور اگر ھم صرف قرآن و سنت میں بیان شدہ قوانین پر اکتفاء کرنا چاھیں تو کسی بھی صورت میں معاشرہ کی ضرورت پوری نھیں ھوگی حالانکہ ھمارے جمھوری اسلامی نظام میں (جیسا کہ دوسرے ڈیموکریٹک ممالک میں ھوتا ھے) ممبر آف پارلیمنٹ کے ذریعہ قوانین بنائے جاتے ھیں،تو پھر ھمیں اپنی اس حکومت کو ”اسلامی حکومت“ کا نام دینے ، اور پارلیمنٹ میں مصوب قوانین کو ”اسلامی قوانین“ کھنے کی کیا پڑی ھے ؟ اس بات میں کوئی شک نھیں ھے کہ ھر ملک میں عوام الناس کے ذریعہ منتخب ممبر آف پارلیمنٹ اسی ملک کی ثقافت کے لحاظ سے قوانین بناتے ھیں اور قوانین کو طے کرنے میں ھی اس معاشرہ کے اقدار کا احترام کرتے ھیں لیکن چونکہ ھمارے ملک کے عوام الناس مسلمان ھیں اور اس میں خاص ثقافت کا رواج ھے ، ممبر آف پارلیمنٹ اسلامی اور دینی ثقافت کا کم وبیش لحاظ کرتے ھیں لیکن بھر حال ھمارے ملک میں قانون گذاری کا وھی طریقہ ھے جو ڈیموکریٹک ممالک میں موجود ھے لھٰذا ھم کو اپنی حکومت کو اسلامی حکومت کھنے اور اسلامی قوانین نافذ کرنے کی کیا ضرورت ھے؟
قارئین کرام ! جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ اس اعتراض کا جواب یہ ھے کہ اسلامی احکام کی دو قسمیں ھیں:
1۔ ثابت احکام۔ 2۔متغیر احکام، جو حالات کے متغیر ھونے سے بدل جاتے ھیں۔
لیکن انسانی معاشرہ کے حالات بدلنے سے اسلامی ثابت احکام میں کوئی تبدیلی نھیں ھوتی اور ان کی شکل صورت میں کسی بھی وقت کوئی تبدیلی نھیں ھوتی بلکہ ثابت رھتے ھیں، اور ھر زمانہ اور ھر حال میں ان پر عمل کرنا ضروری ھے اب اگر ملکی قوانین کو مصوب کرتے وقت اسلام ثابت احکام کی رعایت نہ کی جائے اور قوانین اسلام کے خلاف قوانین بنائے جائیں تو وہ قوانین غیر اسلامی ھوں گے؛ چاھے تمام ھی ممبر آف پارلیمنٹ متفق طور پر ان قوانین کو طے کریں، اور اسلام کے مخالف قوانین کی کوئی شرعی حیثیت نھیں ھے ، بلکہ اس کو قانون ھی نھیں کھا جاسکتا جیسا کہ ھمارے ملکی بنیادی قانون میں موجود ھے کہ اسلامی ملک کے تمام قوانین؛ اسلامی اصول کے عین مطابق ھونا ضروری ھے یھاں تک کہ اگر کوئی قانون؛ شرعی ادلہ کے عموم اور اطلاق کے خلاف ھوگا تو اس کی کوئی قانونی حیثیت نہ ھوگی
اس بنا پر، وہ اسلامی ثابت احکام جو قرآن کریم اور روایات متواتر اورمعتبر روایات میں ثابت احکام کے عنوان سے بیان کئے گئے ھیں ان کی رعایت کرنا ضروری ھے اور ان میں کسی بھی طرح کا کوئی نسخ اور تبدیلی نہ ھو اس کے مقابل میں بعض وہ متغیر احکام ھیں جو حالات اور علاقہ کے لحاظ سے قابل تبدیل ھیں البتہ ان کو معین کرنا علماء اور مجتھدین کا کام ھے۔
اگرچہ متغیر احکام کو آج کل کے زمانہ میں ”قوانین موضوعہ“ کے عنوان سے جانا جاتا ھے جو قانون گذاری اداروں میں تصویب ھوتے ھیں،لیکن اسلامی ثقافت میں اور فقھی اصطلاحات میں متغیر احکام وھی سلطنتی احکام ھیں جن کو معین کرنا ولی فقیہ کے دائرہ اختیار میں ھے اور ولی فقیہ ھی معاشرہ کے مختلف حالات کے لحاظ سے ان کو معین کرے اور ان کو نافذ کرے ، اور کم سے کم مصوب شدہ قوانین کو جاری کرنے کے لئے ولی فقیہ کی تائید ضروری ھے البتہ کبھی ولی فقیہ بطور مستقیم قوانین اور مقررات کو معین اور مصوب کرتا ھے، اور کبھی اپنے ان مشاورین کے ذریعہ جو مد نظر مسائل میں کافی مھارت اور تجربہ رکھتے ھیں ان کے ذریعہ قوانین مصوب کرتا ھے، اور ضروری بحث وگفتگو کے بعد قوانین طے پاتے ھیں بھر حال موضوعہ قوانین ومقررات کا اعتبار ولی امر مسلمین کی اجازت اور اس کی موافقت پر ھوتا ھے ، ورنہ تو اس کا کوئی اعتبار نھیں ھوتا۔
قارئین کرام ! اس بات پر توجہ رھے کہ ولی امر مسلمین اور دوسرے قانون گذار اداروں کو اس بات کا ذرہ بھی حق نھیں ھے کہ وہ اسلامی اصول قواعد اور اسلامی اقدار کو مد نظر رکھے بغیر اپنی مرضی سے کوئی متغیر قانون بنائیں دوسرے الفاظ میں یوں سمجھئے کہ قوانین موضوعہ اور متغیر قوانین کو بھی اسلامی اصول اور اسلامی ثابت اور کلی احکام کے تحت ولی فقیہ اور فقھی مسائل کے ماھرین(جو اس سلسلہ میں کافی مھارت رکھتے ھوں اور ان قوانین کے مصداق کو بخوبی مشخص اور معین کرسکتے ھوں)؛ کے ذریعہ طے ھونا چاھئیں ؛ نیز ان کو مصوب کرنے میں اسلامی اقدار کی رعایت کرنا بھی ضروری ھے اسی وجہ سے قوانین کلی کے حدود کو معین کرنا اور ان کے مصادیق اور موضوعہ قوانین پر منطبق کرنا اسی طرح اسلامی اقدار کا موضوعہ قوانین پر تطبیق کرنا ایک مشکل کام ھے جس میں بھت زیادہ دقت اور فقھی مھارت کی ضرورت ھوتی ھے، جمھوی اسلامی ایران کے بنیادی قوانین میں موجود ھے کہ اسلامی پارلیمنٹ کے ذریعہ بنائے ھوئے قوانین کو ”شوریٰ نگھبان“ (جو برجستہ مجتھدین اور حقوق داں حضرات سے مل کر بنتی ھے)؛ کے ذریعہ تائید ھوں تاکہ یہ دیکہ لیا جائے کہ خدا نخواستہ یہ قوانین اسلامی اصول کے مخالف تو نھیں ھیں؟
2۔ احکام اولیہ اور احکام ثانویہ۔
احکام ثانویہ اسلام سے ٹکراتے ھیں (ایک اعتراض(
بعض لوگ تصور کرتے ھیں کہ وہ احکام سلطنتی ، وقتی اور وہ قوانین جو زمانہ اور حالات کے لحاظ سے وضع کئے جاتے ھیں بعض موارد میں اسلامی احکام کے مخالف ھوتے ھیں؛ اس کی وجہ یہ ھے کہ عوام الناس صرف اسلام کے احکام اولیہ کو اسلامی احکام جانتے ھیں اور وہ اس چیز سے غافل ھیں کہ اسلام نے مجبوری اور ضرورت کے وقت احکام ثانویہ بھی وضع کئے ھیں اور وہ بھی احکام شرعی شمار ھوتے ھیں۔
وضاحت: اسلام کے اولیہ احکام جو عام حالات کے لئے وضع کئے گئے ھیں ان کے علاوہ دوسرے احکام بھی اسلام نے وضع کئے ھیں جو مجبوری اور ضرورت کے وقت کے لئے ھوتے ھیں جن کواحکام ثانوی کھا جاتا ھے اور یہ احکام ثانوی کچھ تو قرآن مجید اور سنت نبوی میں ذکر ھوئے ھیں لیکن ان میں سے بعض دینی کتابوں میں ذکر نھیں ھوئے ھیں، ان کو وضع کرنا ولی امر مسلمین کے اختیار میں ھوتا ھے۔
مثال کے طور پر نماز پڑھنے کے لئے وضو کرنا واجب ھے یا اگر ھم پر غسل واجب ھے تو نماز کے لئے غسل کرنا واجب ھے وضو اور غسل کا وجوب احکام اولیہ اور عام حالات سے متعلق ھیں کہ جب مثلاً ھمارا بدن سالم ھو اور پانی ھمارے لئے نقصان دہ نہ ھو اور پانی موجود بھی ھو لیکن اگر کوئی مجبور ی پیش آجاتی ھے یا کسی بیماری کی وجہ سے وضو یا غسل کرنا ممکن نہ ھو، مثلاً پانی موجود نہ ھو یا اگر پانی موجود ھے تو وہ نقصان دہ ھے،تو اس صورت میں وضو یا غسل واجب ھونے کی جگہ وجوب تیمم جو حکم ثانوی ھے؛ اس کی جگہ آجاتا ھے اسی وجہ سے کھا جاتا ھے کہ اگر آپ کے پاس پانی نہ ھو یا پانی بدن کے لئے نقصان دہ ھو تو وضو یا غسل کے بدلے تیمم کرنا ضروی ھے ۔
جب احکام اولی اور احکام ثانوی جن کو احکام اضطراری بھی کھا جاتا ھے؛ قرآن مجید اور روایات میں ذکر ھوئے ھیں تو ھم ان کے درمیان کوئی فرق نھیں پاتے چونکہ حکم اولیہ (جیسے وضو یا غسل) کا موضوع اس وقت ھے جس وقت پانی ھمارے پاس موجود ھو اور وہ نقصان دہ بھی نہ ھو، اور احکام ثانوی یعنی تیمم اس شخص کے لئے ھے جب کسی شخص کے پاس پانی نہ ھو یا پانی اس کے بدن کے لئے نقصان دہ ھو؛ اسی وجہ سے بعض لوگوں کووضو کر نے کا حکم ھے اور بعض لوگوں کوتیمم کرنے کا حکم ھے لیکن بعض مقامات پر احکام اولی کے مقابلہ میں جو مجبوری اور اضطراری وقت کے لئے ھوں خاص احکام شریعت میں ذکر نھیں ھوئے ھیں تو یھیں پر اسلام کے احکام اولی جاری کر نے کو کھا جاتا ھے، مگر یہ کہ باعث عسر و حرج ھوں؛ کیونکہ اسلام یہ نھیں چاھتا کہ بندگانِ خدااپنے وظیفہ پر عمل کرنے میں غیر قابل تحمل مشقت اور حرج میں گرفتار ھوں، جیسا کہ ارشاد رب العزت ھوتا ھے:
( وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ ) (1)
” اور دین میں کوئی زحمت نھیں قرار دی ھے۔“
( یُرِیدُ اللهُ بِکُمْ الْیُسْرَ وَلاٰیُرِیدُ بِکُمْ الْعُسْرَ ) (2(
” خدا تمھارے بارے میں آسانی چاھتا ھے، زحمت نھیں۔“
قارئین کرام ! ھمارے گذشتہ مطالب کے پیش نظر فقھاء کھتے ھیں کہ اگر انسان اپنے وظیفہ اور حکم شرعی پر عمل کرنے سے عسر وحرج میں مبتلا ھو تو خدا وندعالم اس وظیفہ کو اٹھا لیتا ھے قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ بعض مقامات پر احکام اولی کا بدل احکام ثانوی شریعت میں بیان ھوا ھے لیکن بعض موارد میں احکام ثانوی اور اضطراری شریعت میں بیان نھیں ھوئے ھیں، لیکن ولی فقیہ کو یہ اختیار دیا گیا ھے کہ اگر احکام اولیہ پر عمل کرنا ممکن نہ ھو اور عوام الناس کے لئے باعث عسر و حرج ھو تو اس صورت میں عوام الناس کا وظیفہ معین کرے لھٰذا جو کچھ بھی ولی فقیہ اسلامی اصول وقوانین کے تحت حکم بیان کرے تو وہ احکام ثانوی اور اسلامی حکم ھوگا؛ کیونکہ اس نے اس (ولی فقیه) کو جب عسر و حرج کی صورت میں تکلیف اولی اٹھالی جائے تو عوام الناس کے وظیفہ اور عمل کو معین کرنے کا حکم دیا ھے۔
لھٰذا چونکہ بعض لوگ صرف اسلام کے احکام اولی سے آشنائی رکھتے ھیں اسی وجہ سے یہ تصور کرتے ھیں کہ اسلامی احکام صرف یھی ھیں ، اور اگر ولی امر مسلمین یااسلامی حکومت کے دوسرے قانون گذار اداروں سے اسلام کے احکام اولی کے خلاف قانون بنتا دیکھتے ھیں تو کھتے ھیں کہ یہ قانون اسلام کے مخالف ھے جبکہ وہ قانو احکام شرع اور اسلام کے مخالف نھیں ھے بلکہ اسلام کے اولیہ احکام کے مخالف احکام کو احکام ثانوی میں شمار کیا جاتا ھے اور بے شک احکام ثانوی (بھی) اسلامی احکام مانے جاتے ھیں جس طرح اسلام نے حکم دیا ھے کہ مسافر کو روزہ نھیں رکھنا چاھئے اور جو مسافر نھیں ھے (اگر دوسرے شرائط موجود ھیں) تو اس کو روزہ رکھنا چاھئے اور کوئی مسافر کے روزہ نہ رکھنے کو اسلامی احکام کا مخالف شمار نھیں کرتا، کیونکہ خود اسلام نے صاف طور پر ارشاد فرمادیا ھے کہ جو شخص مسافر یا مریض ھے اس پر روزہ واجب نھیں ھے(فَمَنْ شَھدَ مِنْکُمْ الشَّھرَ فَلْیَصُمْہ وَمَنْ کَانَ مَرِیضًا اٴَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ اٴَیَّامٍ اٴُخَرَ یُرِیدُ اللهُ بِکُمْ الْیُسْرَوَلاٰیُرِیدُ بِکُمْ الْعُسْر ) (3) اسی طرح احکام اجتماعی، مدنی، جزائی، تجاری اور دوسرے معاملات میں اگر احکام اولی کے مطابق عمل کرنا ممکن نہ ھو اور موجب عسر و حرج ھو تو وہ حکم ثابت نھیں رھے گا اور خاص قواعد اور مقررات کے تحت ولی امرمسلمین زمان ومکان کی حالات کی بنا پر نئے قوانین کو وضع کرتا ھے اور یہ بات مسلم ھے کہ وہ قوانین اسلامی احکام کے مخالف نھیں ھوں گے، بلکہ (اگر ھوں گے بھی تو) اسلامی اولی احکام کے مخالف ھوں گے اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ اسلام کے احکام ”احکام اولی“ اور” احکام ثانوی“ دونوں کو شامل ھوتے ھیں۔
اسلامی معاشرہ میں در پیش جدید تقاضوں کے تحت جو ھمیشہ اجتماعی حالات کے بنا پر رونما ھوتے ھیں(مثلاً ٹریفک کی سھولت کے لئے اور گاڑیوں کی بھیڑ سے بچنے کے لئے سڑکوں کو چوڑاکرنایا مِیونسپلٹی "Municpality"کو صفائی یا شھر کو خوبصورت بنانے کے لئے پیش آنے والی ضرورتیں، یا محکمہ آب اور بجلی کی دیگر ضرورتیں جو قدیم زمانہ میں نھیں تھیں) یا آج کل کی ترقی کے پیش نظر معاشرہ کی وہ ضرورتیں جن کو خود عوام الناس پورا نھیں کرسکتے اور گذشتہ زمانہ کی ضرورتوں کی طرح نھیں ھیں کہ جن کو خود عوام الناس انجام دیا کرتے تھے،تو ان تمام صورتوں میں متعلقہ محکمہ جات کاضروری قوانین بنانا ضروری ھے ھماری گفتگو یہ ھے کہ یہ قوانین بغیر کسی اصل کے نھیں ھیں اور بے حساب و کتاب لوگوں کی اپنی مرضی سے نھیں بن جاتے؛ بلکہ یہ قوانین اور احکام ثانوی اسلامی عام قوانین کے تحت ھونے چاھئیں اس میں کوئی فرق نھیں ھے کہ یہ احکام ثانوی اھم کو مھم پر ترجیح دینے کی طرح ھوں، یا ان قوانین کو زمان و مکان کے حالات کے پیش نظر بنایا جائے جیسا کہ ھمارے ملک میں یہ احکام ثانوی ”مجلس شوریٰ اسلامی“ میں اور ولی فقیہ کی اجازت سے بنائے جاتے ھیں اس صورت میں یہ احکام؛ اسلامی احکام سے باھر نھیں ھوتے (یعنی ان کو اسلامی احکام میں شمار کیا جاتا ھے) کیونکہ یہ تمام قوانین ولی امر مسلمین کے حکم سے بنائے جاتے ھیں، یا دوسرے خاص قوانین جیسے قاعدھٴ” عسر وحرج“ یا قاعدہ ”لاضرر“ یا ان دوسرے قواعد کے تحت جو فقھی کتابوں میں وارد ھوئے ھیں؛ کے تحت یہ احکام ثانوی بنائے جاتے ھیں۔
قارئین کرام ! یہ بات واضح ھوچکی ھے کہ اسلامی حکومت میں قوانین کو یا اسلامی منابع؛ جیسے قرآن کریم اور سنت نبوی سے لئے جاتے ھیں (اورجیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ عقل بھی اسلامی منابع میں شمار ھوتی ھے اور ”مستقلات عقلیھ“ اور احکام قطعی عقل معتبر ھوتے ھیں اور فقھی اصطلاح میں حکم قطعی عقل کے ذریعہ خداوندعالم کے ارادہ تشریعی کو کشف کیا جاسکتا ھے کہ یہ حکم عقل بھی خداوندعالم کے ارادہ اور اس کی مرضی سے متعلق ھے اسی وجہ سے یہ حکم ”اسلامی حکم“ ھوگا) یا کسی بھی طریقہ سے قرآن وسنت میں بیان شدہ عام احکام کے تحت واقع ھونے چاھئیں اسی وجہ سے یہ بھانہ کرتے ھوئے کہ اسلامی حکومت کے بعض قوانین اور مقررات ناپائیدار اور تغیر پذیر؛ قرآن مجید اور سنت نبوی میں ذکر نھیں ھوئے ھیں،لھٰذا قرآن مجید اور سنت نبوی (ص) کو بالائے طاق رکہ دیا جائے،اور عوام الناس کی مرضی کے مطابق قوانین بنائے جائیں اسلام کے ثابت احکام پر ھمیشہ عمل ھونا چاھئے اور احکام متغیر ھمیشہ اسلامی اصول، احکام ثابت اور عام قوانین کے تحت ولی فقیہ یا اس کی طرف اذن یافتہ لوگوں کے ذریعہ بنائے جائیں۔
3۔ ڈیموکریٹک حکومتوں کے نقائص
جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ حکومت کی مشکل ایک ”مثلث القاعده“ زاویہ کی طرح ھے جس کے تین پھلو ھوتے ھیں: 1۔ قوہ مقننہ (پارلیمنٹ)، 2۔ قوہ قضائیہ (عدلی) اور قوہ مجریہ (حکومت) اور حکومت کی یہ شکل ”منٹسکیو“سے شروع ھوئی اور رائج ھوتی چلی گئی۔
بھر حال اگرچہ اس (ھماری) حکومت بھی تین قدرتوں سے تشکیل پائی ھے لیکن اس بات کی کوئی گارانٹی نھیں ھے کہ آئندہ بھی اسی طریقہ سے باقی رھے کیونکہ آئندہ زمانہ کی ترقی کے پیش نظر یا اجتماعی حالات کی تبدیلی کی وجہ سے حکومت کی شکل بدل سکتی ھے مثال کے طور پر حکومت کی قدرتوں میں اضافہ ھوجیسا کہ ”مربع القاعدھ“ ھوجائے یا ”مخمس القاعدھ“ ھو جائے لیکن توجہ رھے کہ اصل اور بنیادی قاعدہ یہ کہ حکومت کو تشکیل دینے والی تمام قدرتیں مرکز کی طرف منتھی ھوتی ھوں یعنی جب حکومتی صورت کو جو مختلف قدرتوں سے تشکیل پاتی ھے تو مثلث القاعدہ ھرم سے تشبیہ کرتے ھیں تو اگر اس ھرم کے اوپر سے نیچے کی طرف آئیں تو اس کا دائرہ زیادہ ھوجائے گا یھاں تک کہ اس قاعدہ ھرم اور اس کے نیچے حکومتی بھت سے ادارے دکھائی دیتے ھیں لیکن ھرم کے نیچے سے آھستہ آھستہ اوپر کی طرف جائیں تو پھر حکومتی قدرت اور حکومتی ادارے متمرکز اور جمع ھوتے ھوئی دکھائی دیں گی، یھاں تک کہ تمام قدرتیں اس ھرم کے سرے تک پھنچ جائیں گی،اور سب ایک نقطہ میں سماجائیں گی، اور وہ وسیع اور متفرق قدرت بسیط اور وحدت کی شکل میں دکھائی دے گی۔
ھرم قدرت میں اس کے علاوہ کے مثلث القاعدہ قدرتیں اس نقطہ کی طرف منتھی ھوتی ھیں جو اس کے مرکز میں ھوتا ھے اور وھی نقطہ تمام قدرتوں کا مرکز ھوتا ھے اور حکومتی تمام تر قدرت اور اختیارات بسیط ھوکر وھاں جمع ھوجاتے ھیں، اور چونکہ حکومتی قدرت اور اختیارات وھاں سے تقسیم ھوکر مختلف شکلوں : قانون گذاری، عدلیہ اور اجرائی شعبوں میں پھیل جاتی ھے اور ان میں سے ھر قدرت اپنے خاص مراتب سے سروکار رکھتی ھے۔
اس وقت دنیا بھر کے ممالک میں حکومت کی اسی شکل وصورت کو قبول کیا گیا ھے جس میں تین قدرتیں ھوتی ھیں: قانون گذاری، عدلیہ اور اجرائی پاور، لیکن ان تینوں قدرتوں کا ایک نقطہ میں جمع ھونا واضح طور پر نھیںدکھائی دیتا؛ یعنی ان حکومتوں میں اصل یہ ھے کہ حکومت مستقل تین حصوں میں بٹ جاتی ھے اور ایک قدرت کا ایک حصہ قوہ مجریہ (حکومت) میں چلا جاتا ھے اور ایک حصہ قانون گذاری میں اور تیسرا حصہ عدلیہ کا ھوتا ھے؛ اور ان میں نہ قوہ مجریہ دوسری قدرتوں میں دخالت کرتی ھے اور نہ دوسری قدرتیں قوہ مجریہ میں دخالت کرتی ھیں اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا ان قدرتوں میں عملی طور پر استقلال دکھائی نھیں دیتا، اور بھت سے وہ موارد جو اجرائی اور نفاذ کا حکم رکھتے ھیں جن کی وجہ سے ان کو قوہ مجریہ کے تحت ھونا چاھئے لیکن ان کی اھمیت کے پیش نظر قانون گذار پاور کی دخالت کو معتبر سمجھا جاتا ھے مثال کے طور پر بین الاقوامی سطح نیز دو ملکوں کے درمیان ھونے والے مھم معاھدات، حالانکہ یہ چیزیں اجرائی پھلو رکھتی ھیں لیکن ان کے بارے میں پھلے پارلیمنٹ پاس کرے تب وہ معاھدات انجام پاتے ھیں،اور یھیں پر قوہ مجریہ میں پارلیمنٹ کی دخالت دکھائی دیتی ھے۔
دوسری طرف حکومتی کابینٹ "Cabinet" بعض قوانین اور مقررات کو تصویب کرتی ھے، اور ان کو نافذ کرتی ھے اگرچہ ان پر قانون کے عنوان کا اطلاق نھیں ھوتا لیکن قانونی ماھیت رکھتے ھیں اور ان کا طے کرنا پارلیمنٹ کے مخصوص کام میں سے ھے لیکن بنیادی قوانین میں موجود بعض وجوھات کی بنا پر اس کو طے کرنا حکومت کے عھدہ پر ھوتا ھے اسی وجہ سے قانون گذاری کا ایک حصہ حکومت کے سپرد کیا جاتاھے لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ حکومت پارلیمنٹ میں دخالت کرتی ھے بھر حال مختلف ممالک میں کم و بیش قدرتیں ایک دوسرے میں دخالت کرتی ھیں، اور یہ محدود دخالت اس وجہ سے بھی ھے کہ چونکہ حکومتیں ایک دوسرے سے مل کر ایک حکومت کو تشکیل دیتے ھیں، اور اگر یہ بالکل ایک دوسرے سے الگ الگ ھوجائیں توگویا اس کا اتحاد ختم ھوجائے گا۔
4۔ قدرتوں میں ھم آھنگ کرنے کے اسباب کا ھونا ضروری ھے
اگر چہ حکومت تین قدرتوں (قوہ مجریہ، قوہ عدلیہ اور قوہ مقننھ) سے تشکیل پاتی ھے لیکن ان تینوں قدرتوں میں ایک دوسرے سے رابطہ ضروری ھے، اور چونکہ انھیں ان تینوں قدرتوں سے مل کر ھی حکومت بنتی ھے تو ان قدرتوں کے لئے کچھ ایسے اسباب ھونا ضروری ھیںجن کے درمیان اتحاد اور وحدت قائم رھے لیکن دنیا بھر کے ممالک میں ان قدرتوں میں ھم آھنگ کرنے والی قدرت نہ ھونے کی بنا پر ان کے درمیان میں نا ھماھنگی دکھائی دیتی ھے جس کی بنا پر ملک میں بحرانی حالات پیدا ھوجاتے ھیں اس طرح کے بحران سے بچنے کے لئے بعض حکومتوں میں بھت سی راہ حل پیش کی گئی ھیں جن میں سے صدر مملکت کے لئے ”حق وٹو“ "Veto" رکھا جاتا ھے: مثال کے طور پر اگرچہ پارلیمنٹ کو قوانین بنانے اور ان کو طے کرنے کا حق ھوتا ھے ، اور پارلیمنٹ اسی ذمہ داری کے تحت ممبر آف پارلیمنٹ (کسی بھی قانون بنانے کے لئے) بھت بحث وگفتگو کے بعد قوانین بناتے ھیں، اس کے بعد وہ قوانین ”مجلس سنا“ "S'enat" کے ذریعہ تائید ھوتے ھیں لیکن چونکہ صدر مملکت کے لئے حق وٹو ھوتا ھے(تو اگر وہ قوانین ناقص ھوتے ھیں تو) صدر مملکت ان کوروک دیتا ھے چاھے کچھ ھی مدت کے لئے ھی کیوں نہ ھو اور ان کو نافذ نھیں ھونے دیتا اگر قوانین بنانا پارلیمنٹ کا حق ھے اور قوہ مجریہ (صدر مملکت) کو پارلیمنٹ میں دخالت کرنے کا حق نھیں ھے، تو پھر پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین کو قوہ مجریہ کسی طرح روک دیتا ھے اور ان کو نافذ نھیں ھونے دیتا؟ پس معلوم یہ ھوا کہ قدرتوں کا استقلال مکمل طور پر عملی نھیں ھوتا اور عملی طور پر پارلیمنٹ اور حکومت کے وظائف میں ھم آھنگی پائی جاتی ھے۔
اسی طرح ان قدرتوں میں ھم آھنگ کرنے والے اسباب کے نہ ھونے کی وجہ سے بھت سے ممالک میں سیاسی، پارٹی اور گروھی اختلاف پیدا ھوجاتا ھے جس کی بنا پر قدرتوں میں اختلاف پیدا ھوجاتا ھے اور ممکن ھے کہ بعض مواقع پر حالات اس قدر بگڑ جائیں کہ ملک میں کوئی حکومت ھی نہ ھو اور عملی طور پر حکومت ختم ھوجائے مثال کے طور پراگر کوئی حکومت بنے اور قدرت اپنے ھاتہ میں لے لے، لیکن ایک مدت کے بعد پارلیمنٹ میں اس کے لئے اعتماد ختم ھوجاتا ھے اور حکومت ٹوٹ جاتی ھے اور اس کے بعد (جلد) کوئی حکومت نہ بن سکے، کیونکہ جو شخص بھی وزیر اعظم بننا چاھتا ھے اور اس کے لئے وزراء کابینٹ "Cabinet" بنانا چاھے تو اگر ممبر آف پارلیمنٹ کا اعتماد کا ووٹ حاصل نہ کرسکے؛ کیونکہ پارلیمنٹی حکومتوں میں صرف وھی پارٹی حکومت بناسکتی ھے جس کے پارلیمنٹ میں ممبروں کی اکثریت ھو یا دوسری پارٹی کے ممبروں کو شامل کرکے اپنی اکثریت ثابت کردے۔
اور جیسا کہ آپ حضرات جانتے ھیں کہ انھیں آخری چند سالوں میں ھمارے پڑوسی ملک میں کافی مدت تک حکومت نہ تھی؛ کیونکہ جو شخص بھی وزیر اعظم بننا چاھتا تھا اس کو اعتماد کا ووٹ ھی نھیں ملتا تھا البتہ کسی نہ کسی طریقہ بھت سے حکومتی امور انجام پاتے ھیں لیکن چونکہ جب وزیر یا معاون وقتی (عبوری) ھوں تو ان کو کاموں میں زیادہ دل چسپی نھیں ھوتی ؛ اور مثال کے طور پر اگر کسی ملک میں چہ ماہ تک بغیر دل چسپی کے کام کیا جائے تو آپ اندازہ لگاسکتے ھیں کہ اس ملک کا کتنا نقصان ھوگا۔
بعض ملکوں میں صدر مملکت کو یہ حق ھوتا ھے کہ چاھے وقتی طور پر ھی صحیح پارلیمنٹ کو منحل کردے، اور یھیں حکومت کا پارلیمنٹ میں دخالت کرنا ظاھر ھوتا ھے یھاں تک بعض مواقع پر تو پارلیمنٹ کو منحل کردیا جاتا ھے ظاھر سی بات ھے کہ اس طرح کی دخالتیں اختلاف ، جھگڑوں اور بعض حالات میں شدید بحرانی حالات پیدا ھونے کا باعث ھوجاتا ھے، اس کی علت یہ ھے کہ یا تو ان حکومتوں میں ان بحرانی حالات سے نپٹنے کے لئے کوئی راہ حل پیش نھیں ھوتا یا اگر وہ راہ حل پیش بھی کیا گیا ھے تو وہ اتنا زیادہ کار آمد نھیں ھوتا: مثلاً بعض حکومت میں صدر مملکت کے ھاتھوں میں حکومتی نظام نھیں ھوتا بلکہ صرف ایک تشریفاتی عھدہ ھوتا ھے (جیسا کہ خود ھندوستان میں ھوتا ھے) لیکن اگر ملک میں بحرانی حالات پیدا ھوجائیں تو پھر صدر ھی حکومتی امور کو اپنے ھاتھوں میں لے لیتا ھے اور اس بحرانی کیفیت کو ختم کرتا ھے در حقیقت اپنا کردار بحرانی حالات میں نمایا کرتا ھے۔
5۔ ولایت فقیہ حکومت کو ھم آھنگ کرنے والی طاقت
قارئین کرام ! یہ بات معلوم ھوچکی ھے کہ اس وقت جبکہ بھت سے ممالک میں بحرانی حالات سے نپٹنے کے لئے بعض راہ حل پیش کئے گئے ھیں لیکن کوئی بھی ضروری طور پر کار آمد نھیں ھے ، اور ان قدرتوں کے درمیان ایک دوسرے میں دخالت کرنے والی جیسی برائی باقی ھے لیکن نظام ولایت فقیہ میں (کہ افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ھے کہ بعض خود غرض موٴلفین اور بے انصاف زر خرید اھل قلم (اس ولایت فقیہ کو بھی) ارتجاعی(قدیم زمانہ کی طرف لوٹانا) کے نام سے پھچنواتے ھیں) اس طرح کے اسباب فراھم ھیں تاکہ ملک میں بحرانی حالات سے نجات دے، اور نظام کو ھر ممکن پریشانی سے نجات مل جائے اور ملک کو کوئی نقصان نہ پھنچے ھمارے ملک میں بھی دوسرے ملکوں کی طرح قوہ مجریہ ھے جس میں صدر مملکت کو مرکزی حیثیت حاصل ھے اسی طرح پارلیمنٹ اورعدلیہ بھی ھے جو ایک دوسرے سے الگ اور مستقل ھے،لیکن یہ تمام (قدرتیں) اس ایک نظام کی قدرتیں ھیں، اور ایک دوسرے سے ربط رکھتے ھیں جو ایک مرکزی نقطہ کی طرف متوجہ ھوتے ھیں اور جو شخص اس نظام میں نقطہ مرکزی اور اصلی ھوتا ھے وہ قدرت کے بلند ترین مقام پر ھوتا ھے وہ ولی فقیہ ھوتا ھے جو تمام قدرتوں میں اتحاد اور وحدت ایجاد کرتا ھے۔
برخلاف دوسری حکومتوں میں کوئی ایسا محور نھیں پایا جاتا جو ان قدرتوں میں ھم آھنگی اور وحدت ایجاد کرے اور اگر ان حکومتوں میں کوئی ایسا راہ حل بھی پیش کیا گیا ھے تو وہ بھت ضعیف اور کمزور ھے، نظام ولایت فقیہ میں مذکورہ تینوں قدرتیں ایک مرکزی نقطہ (ولی فقیھ) کے زیر سرپرستی ھوتی ھیں در حالیکہ وہ بنیادی قانون کا بھی حافظ ھوتا ھے اور اسلامی احکام، اقدار اور انقلابی اھداف کا بھی محافظ اور نگھبان ھوتا ھے؛ اسی طرح مذکورہ تینوں قدرتوں کو متحد اور ھم آھنگ رکھتا ھے اور سبھی کو وحدت، دوستی اور ھمدلی کی دعوت دیتا ھے اور اختلافات سے محافظت کرتا ھے اگر اتفاقی طور پر ملک میں کوئی بحرانی صورت حال پیدا ھوگئی ھے تو یھی اختلافات کو دور کرکے ملک کو بحرانی صورت حال سے نجات عطا کرتا ھے۔
انقلاب اسلامی کے بعد سے بیس سال کے عرصہ میں چاھے حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ کا زمانہ ھو یا مقام معظم رھبری حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کا زمانہ ھو؛ خواستہ یا نخواستہ معاشرہ میں اختلافات کی وجہ سے ملک میں متعدد بار بحرانی صورت حال پیدا ھونے والی تھی لیکن اگر (ولی فقیہ کی) حکیمانہ تدبیریں نہ ھوتیں تو واقعاً ملک کبھی کا بحران کی نذر ھوجاتا جیسا کہ آج کل ترکی، پاکستان، بنگلادیش اور افغانستان میں بحرانی صورت حال ھے الحمد لله اس عظیم اور خدا داد نعمت کی برکت سے اور اس لطف ومھربانی اور اس محبت کی وجہ سے جو ان کے اور عوام الناس کے درمیان موجود ھے اس طرح کے بحرانی صورت حال سے نجات ملتی رھتی ھے۔
6۔ دوسری حکومتوں پر ولایت فقیہ نظام کے امتیازات
قارئین کرام ! یھاں پر ھمارا اپنی اس اسلامی حکومت کا دوسری ان ڈیموکریٹک حکومتوں سے مقائسہ (مقابلھ) کرنا مناسب ھے جو آج کل کی پیشرفتہ حکومتیں جانی جاتی ھیں؛ اس اسلامی حکومت کے دوسری حکومت کے مقابلہ میں امتیازات اور خصوصیات بیان کریں:
الف۔ اندورنی انسجام و یگا نگت
ھماری حکومت کا سب سے پھلا امتیاز اور خصوصیت اندورنی انسجام ووحدت ھے جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ تمام ڈیموکریٹک حکومتوں میں ڈیموکریسی کی سب سے بڑی پھچان قدرتوں میں استقلال اور ایک دوسرے میں دخالت نہ کرنا مانا جاتا ھے ھم نے ان حکومتوں کے کچھ اندرونی تعارض اور ٹکراؤ کو بیان کیا اور کھا کہ یہ اس وجہ سے ھے کہ مذکورہ قدرتوں کو ایک دوسرے میں دخالت نھیں کرنا چاھئے لیکن عملی میدان میں کوئی ایک بھی ایسا ملک نھیں ھے جس میں مذکورہ قدرتیں ایک دوسرے سے مکمل طور پر مستقل ھوں اور ایک دوسرے میںدخالت نہ کرتی ھوں، اور قانونی طور پر قدرتوں کے لئے ایک دوسرے میں دخالت کا ذرا بھی اختیار نہ ھو ، غیر قانونی دخالت ، خلاف ورزیوں اور تحت فشار قرار دینے کے علاوھ؛ ھم عملی طور پر دیکھتے ھیں کہ (جب) قدرت ایک طاقت کے ھاتہ میں ھوتی ھے اور اپنی تمام تر طاقت کے بل بوتہ پر دوسری طاقت کو تحت فشار قرار دیتی ھے جب پولیس اور فوجی طاقت؛ اسی مالی ،اقتصادی امکانات ،پورے ملک کا خرچ حکومت کے ھاتہ میں ھوتا ھے تو پھر دوسری قدرتیں اس سے متاثر ھوں گی اور صدر یا وزیر اعظم اگر اپنی قدرت سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاھتا ھے تو اس کے لئے آسان ھوجاتا ھے۔
پس معلوم ھوا کہ دنیا بھر کی تمام ڈیموکریسی حکومتوں میں ایک قسم کی تفرقہ اور نا ھماھنگی پائی جاتی ھے، لیکن ھماری حکومت میں در حالانکہ تینوں قدرتوں میں اتحاد اور ھم آھنگی پائی جاتی ھے اور اپنے اپنے اختیارات میں مستقل ھیں اور ان کے درمیان ناھماھنگی اور تفرقہ بھی نھیں پایا جاتا؛ کیونکہ ھماری حکومت میں ایک ایسا وحدت بخش سبب (ولایت فقیھ) پایا جاتا ھے جو تینوں قدرتوں کی سرپرستی کرتا ھے، ان میں انسجام اور وحدت برقرار رکھتا ھے، اور اس نظام اور حکومت کا اصلی محور ھونے کی وجہ سے بحرانی صورت حال پیدا ھونے سے روکے رکھتا ھے یھاں تک کہ ھم نے متعدد بار دیکھا کہ کس طرح مقام معظم رھبری حضرت آیت العظمیٰ خامنہ ای مدظلہ العالی نے کس طریقہ سے مختلف عھدہ داروں کے درمیان ھونے والے اختلافات کا خاتمہ کیا ھے اور اگر کبھی بحرانی صورت حال پیدا ھونے کی راہ ھموار ھوبھی گئی ھے تو قانونی طور پر صدر جمھوری نے مقام معظم رھبری سے درخواست کی کہ اپنی قدرت کے ذریعہ اس بحران سے روک تھام فرمائیں، اور موصوف نے بھترین طریقہ سے بحرانی صورت حال پرکنٹرول فرمایا ھے ولی فقیہ اگرچہ براہ راست کسی بھی ایک قدرت کا عھدہ دار نھیں ھے لیکن تینوں قدرتوں کے عھدہ دار یا براہ راست اس کے ذریعہ نصب ھوتے ھیں یا بنیادی قانون کے مطابق یھی عوام الناس کی رائے کو نافذ کرتا ھے اور اسی کے نصب اورنافذ کرنے سے تینوں قدرتوں کے عھدہ داران مشروعیت پیدا کرتے ھیں۔
ب۔ روحی اور اندرونی نفاذ کی ضمانت
دوسری حکومتوں پرھماری حکومت کا ایک امتیاز یہ ھے کہ عوام الناس کے درمیان روحی اور اندرونی نفاذ کی ضمانت ھے اور یہ چیز اسلامی حکومت کے قوانین اور مقررات کی اطاعت کرنے کی ذمہ داری کے احساس سے حاصل ھوتی ھے اس طرح کی ضمانت اور کنٹرول دوسری حکومتوں میں موجود نھیں ھے اور تقریباً تمام ھی حکومتوں میں طاقت کے زور پر قوانین کو نافذ کیا جاتا ھے اور جھاں پر عوام الناس میں آزادی کا احساس ھوجائے یا وہ کنٹرول وغیرہ کم ھوجائے تو پھر اس پر عمل کرنے سے گریز کرتے ھیں۔
آپ حضرات نے مکرر سنا ھوگا کہ یورپی ممالک میں قوانین کی رعایت بھت زیادہ کی جاتی ھے، مغربی اور یورپی ممالک میں عوام الناس آٹومیٹک طریقہ سے قوانین اور مقررات کی رعایت کرتے ھیں اور ٹیکس وغیرہ ادا کرتے ھیں اور اس طرح کا یہ ظاھری نظم وانضباط اس ترقی یافتہ حکومت کے کنٹرول کی وجہ سے ھوتا ھے کہ جس کی بنا پر عوام الناس قوانین کی رعایت کرتے ھیں اور مالیات اور ٹیکس وغیرہ ادا کرتے ھیں اور بھت ھی کم لوگ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ھوئے نظر آتے ھیں وھاں پر ٹیکس وغیرہ حاصل کرنے کا سسٹم چند صدیوں سے چلا آرھا ھے خصوصاً اس نصف صدی میں خاصا تجربہ ھوا ھے اور کمپیوٹر وغیرہ کے ذریعہ بھترین سسٹم بنایا گیا ھے اور اسی بنا پر مختلف طریقوں سے ٹیکس وغیرہ حاصل کیا جاتا ھے اورعام طور پر عوام الناس آسانی سے ٹیکس ادا کرتے ھیں لیکن بڑی بڑی کمپنیاں جو حکومتی ملازمین سے ساز باز کئے رھتے ھیںوہ ٹیکس نہ ادا کرنے کی کوشش کیا کرتے ھیں۔
قارئین کرام ! ھم یھاں پر، جو لوگ مغربی کلچر کے عاشق ھیں اور وھاں کے نظم ومدنیت کا شور مچاتے ھیں ، ان کی خدمت میںیہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ھیں : مغربی ممالک کی بھت سی مدح اور تعریفیں صرف ایک نعرہ سے ھوتی ھیں جن میں حقیقت اور واقعیت نھیں ھوا کرتی مثال کے طور پر یہ کھا جاتا ھے کہ مغربی ممالک میں ڈرائیور قوانین کی بھر پور رعایت کرتے ھیں اور بھترین طور پر نظم وانضباط کا مظاھرہ کرتے ھیں؛ جبکہ یہ صرف ایک دعویٰ ھے ، ھم یھاں پر مذکورہ دعویٰ کو باطل کرنے کے لئے ایک نمونہ پیش کرتے ھیں: ھم امریکہ کی ”فیلڈفیا یونیورسٹی“ کی طرف سے ایک تقریر کے لئے مدعو ھوئے اور جب ھم ”نیویورک“ سے ”فیلڈفیا “ کی طرف چلے تو راستہ میں مختلف شھروں کا دیدار کیا اسی راستے میں ھم نے دیکھا کہ گاڑی کا ڈرائیور اپنی گاڑی کے آگے کوئی چھوٹی سی مشین رکھتا ھے اور کچھ دیر بعد اس کو گاڑی کے داش بورڈ "Dash board" میں رکہ دیتا ھے اور کچھ دیر بعد پھر اسی طرح کرتاھے، ھمارے ذھن میں سوال پیدا ھوا کہ اس سے معلوم کریں کہ یہ کس لئے ھے؟
تو اس نے بتایا کہ امریکہ میں 90 میل فی ساعت کی رفتار سے زیادہ گاڑی چلانا ممنوع ھے اور پولیس نے خلاف ورزی سے روک تھام کے لئے سڑک پر ”راڈار“ لگا دئے ھیںجن کے ذریعہ سے جو لوگ غیر مجازرفتار سے زیادہ گاڑی چلاتے ھیں ان کو پکڑکر جرمانہ لگائے اس کے علاوہ خود بھی سڑک کے کنارے کمین لگائے بیٹھے رھتے ھیں تاکہ خلاف ورزی کرنے والوں پر جریمہ لگاسکے اورچونکہ گاڑیوں کی رفتار پولیس کے ذریعہ نصب شدہ راڈار کے ذریعہ کنٹرول ھوتی ھیں اسی وجہ سے بعض ماھرین نے ایسی مشین بنائی ھے جو اس راڈار کو اندھا کردیتی ھیں اور اس وقت یہ مشین بازار میں آسانی کے ساتھ خرید و فروخت ھوتی ھے اسی وجہ سے راستہ میں پولیس لگی ھوئی ھوتی ھے تاکہ جو اس مشین کے ذریعہ ان کے راڈار کو اندھا کرکے بھت زیادہ رفتار سے گاڑی چلاتے ھیں ان کو روک کر جرمانہ لگاسکے ، لھٰذا اس مشین کے لگانے کے بعد کسی بھی رفتار سے گاڑی چلاسکتے ھیں اورجب پولیس کے چک پوسٹ سے نزدیک ھوتے ھیں اس کو اتار کر چھپا دیتے ھیں اور پھر دوبارہ اس کو لگادیتے ھیں!
قارئین کرام ! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ وہ لوگ قوانین پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اور قوانین کے محافظ پولیس کے کنٹرول کو بے اثر کرنے کے لئے ایک مشین ایجاد کرتے ھیں تاکہ پولیس کے راڈار کو اندھا کردیں اور اس مشین کو امریکی بازاوں میں کافی مقدار میں خرید و فروخت کرتے ھیں اس وقت ھم یہ خیال کرتے ھیں کہ امریکہ میں ایسا ترقی یافتہ کلچر ھے جس کی بنا پر عوام الناس اپنی مرضی اور رغبت سے قوانین پر عمل کرتے ھیں اور وھاں بھترین نظم و انضباط برقرار ھے وارداتیں وھاں پر جو مختلف ھوتی رھتی ھیں اس کی خبر ھم تک پھنچتی رھتی ھیں جو خود ایک بڑا تفصیلی پھلو رکھتی ھے ھمارے ایک دوست جو چند سال امریکہ میں رہ کر ایران واپس آئے ، انھوں نے ھم سے بیان کیا کہ امریکہ کا کوئی بھی کالج ایسا نھیں ھے جس میں پولیس نہ ھو اس کے بعد بھی ھر روز وھاں پر قتل وغارت ھوتا رھتا ھے، مثلاً ایک اسٹوڈینٹ اسلحہ کے ذریعہ اپنے استاد یا ھم کلاسیوں کی طرف گولی چلاتا ھے اور ان کو قتل کردیتا ھے!! یہ ھے وھاں کا نظم اور انضباط!!
جی ھاں! مغربی ممالک میںقوانین پر اگرعمل ھوتا ھے تو وہ جرمانہ اور قید کے خوف کی وجہ سے ھوتا ھے اور اگر ان کو اس چیز کا خوف نہ ھو اور اس سے کسی بھی طریقہ سے محافظین کے کنٹرول کو بے اثر کرسکتے ھوں تو پھر قوانین کی خلاف ورزی کرنے میں ذرا بھی جھجھک نھیں ھوتی۔
لیکن ھماری اس اسلامی حکومت میں بیرونی کنٹرول کرنے والے اسباب جیسے جرمانہ اور جیل؛ کے علاوہ اندرونی مھم سبب بھی موجود ھے کہ اگر اس کو اور مزید تقویت پھنچائی جائے تو پھر معاشرہ کی بھت سی اجتماعی مشکلات حل ھوجائیں گی اور وہ سبب خود ان کے اندر قوانین پر عمل کرنے کا رجحان موجود ھے، اور اس کی وجہ ان کا اسلامی حکومت کے قوانین پرعمل کرنے کے ایمان کی وجہ سے ھے، درحققت عوام الناس حکومتی قوانین پر عمل کرنا اپنا شرعی وظیفہ سمجھتے ھیں اور یہ ظاھر سی بات ھے کہ اگر ھمارے ملک میں اسلامی حکومت نہ ھوتی اور حضرت امام خمینی (رہ) جیسے رھبر اور مرجع تقلید نے نہ فرمایا ھوتا کہ اسلامی حکومت کے قوانین پر عمل کرنا شرعاً واجب ھے، تو پھر عوام الناس جرمانہ اور دوسری سزاؤں سے بچنے کے لئے قوانین پر عمل کیا کرتے۔
آج اسلامی انقلاب کے طرفدار اور متدین افراد ولی امر مسلمین کی اطاعت کی وجہ سے اسلامی حکومت کے قوانین پر عمل کرتے ھیں؛ اگرچہ بعض موارد میں وہ جانتے ھیں کہ یہ قوانین ھمارے نقصان میں ھیں لھٰذا یہ اندرونی اور معنوی سبب جو ان کے ایمان کی وجہ سے ھے؛ ایک بڑا سبب ھے تاکہ خود عوام الناس قوانین کے پابند رھیں، لھٰذا ایسا بھترین اور مھم سبب ھمارے معاشرہ میں موجود ھے لیکن ھم اس کی قدر نھیں کرتے اسی طرح عوام الناس کو حکومتی قوانین کا پابند بنانے میں دوسرا سبب یہ ھے کہ عوام الناس اسلامی حکومت کے قوانین کو خدا کی خوشنودی کا سبب جانے جس کی بنا پر وہ شرعی وظیفہ سمجھتے ھوئے ان پر عمل کریں اور ان سے خلاف ورزی کو خدائی عذاب سبب شمار کریں اگرچہ ھم اس چیز کا انکار نھیں کرتے کہ ھمارے معاشرہ میں قوانین کی خلاف ورزی ھوتی، لیکن یہ خلاف ورزی؛ قوانین پر عمل کرنے کے مقابلہ میں بھت کم ھیں؛ اور اگر قانون پر عمل ھونے کی نسبت؛ خلاف وزیوں کی تعداد زیادہ ھوتی تو ھمارا یہ نظام کبھی کا ختم ھوگیا ھوتا۔
ج۔ مقام رھبری میں شائستگی اور تقویٰ کے عالی ترین درجات کا ھونا
دوسری حکومتوں پر ھماری حکومت کا تیسرا امتیاز یہ ھے کہ مقام معظم رھبری کو تقویٰ ، اخلاقی شائستگی اور عظمت کے بلند ترین درجات پر فائز ھونا ضروری ھے؛ کیونکہ یہ ذات پیغمبر اور امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کا جانشین ھوتا ھے اور عوام الناس اس کو امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی تجلی اور ان کا ایک پرتو سمجھتے ھیں، اسی وجہ سے وہ محبت اور لگاؤ جو پیغمبر اکرم (ص) اور امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) سے رکھتے ھیں اسی کے مشابہ (مقام معظم رھبری) سے بھی محبت اور لگاؤ رکھتے ھیں اگرچہ مقام معظم رھبری سب سے عظیم عھدہ پر فائز ھیں اور سب سے زیادہ قدرت بھی رکھتے ھیں، لیکن اگر (خدا نخواستھ) ان سے کوئی خلاف وزی یا ایسا گناہ جو باعث فسق اور عدالت کے خاتمہ کا باعث ھوجائے تو خود بخود ولایت مسلمین کے عھدہ سے معزول ھوجائیں گے اور کسی عدالت میں جانے یا جرم کو ثابت کرنے اور اس کو معزول کرنے کی ضرورت بھی نھیں ھوگی، العیاذ باللہ جرم کے مرتکب ھوتے ھی عدالت ساقط ھوجائے گی اور خود بخود اس عھدہ سے معزول ھوجائیں گے، اور ”مجلس خبرگان“ان کی رھبری کی صلاحیت نہ ھونے کا اعلان کرے گی، ان کو معزول نھیں کرے گی؛ کیونکہ عدالت ختم ھوتے ھی عزل حاصل ھوجائے گا!۔
دنیا بھر کے کسی بھی ملک میں بڑے عھدوں پر فائز افراد اتنی اخلاقی صلاحیت اور شائستگی نھیں رکھتے جس قدر ھمارے مالک میں مقام معظم رھبری ھے، یھاں تک کہ بعض ممالک کے رھبروں کا حال یہ ھے کہ وہ سر سے پیر تک اخلاقی فساد میں آلودہ ھوتے ھیں: وہ امریکہ جس کو تمدن کا ترقی یافتہ نمونہ کھا جاتا ھے اس کے صدر پر اخلاقی اور جنسی تعلقات میں ملوث ھونے کا الزام لگایا جاتا ھے اور اس کے خلاف بھت سے گواہ بھی مل جاتے ھیں اور وہ خود بھی اس چیز کا اعتراف کرتا ھے لیکن جب اس کے خلاف پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کا مسئلہ پیش آتا ھے تو اکثر ممبر آف پارلیمنٹ نے اس عدم اعتماد پر ووٹ نھیں دئے اور وہ کمافی السابق صدرات کے عھدہ پر باقی رہ جاتا ھے اور اس کے لئے کوئی بھی مشکل پیش نھیں آتی تمام لوگ سمجھ جاتے ھیں کہ وہ فاسد ھے لیکن سیاسی ھتہ کنڈوںکی وجہ سے عدم اعتماد کے ایک یا دو ووٹ کم رہ گئے اور وہ فاسد صدر اپنے عھدہ پر باقی رھا!! چنانچہ اسی طرح کی بھت سی دوسری مثالیں موجود ھیں اور خلاف ورزی کرنے والے افراد یھاں تک کہ ان کو عدلیہ نے محکوم بھی کیا ھے لیکن سیاسی حربوں کی بنا پر وہ اپنے عھدہ پر باقی رھتے ھیں اوران کا دوسرے انتخابات میں کامیاب ھوجانے کا امکان ھوتا ھے۔
لھٰذا اسلامی نظریہ کے مطابق اگر مقام معظم رھبری میں بھی کوئی ایک ضروری شرط موجود نہ رھے یا کوئی جرم سرزد ھوجائے تو اپنے عھدہ سے خود بخود معزول ھوجائیں گے، کیونکہ صرف ایک گناہ کے مرتکب ھونے سے عدالت ختم ھوجاتی ھے اور وہ فاسق ھوجاتا ھے، جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی رھبری کرنے کی صلاحیت بھی ختم ھوجاتی ھے؛ اس کے بعد اس کے جرم کو ثابت کرنے یا عدالت میں جانے یا خبرگان کی رائے کی ضرورت نھیں ھوتی پس معلوم یہ ھوا کہ دنیا بھر کے کسی بھی ملک میں ملکی عھدہ داروں خصوصاً بڑے عھدہ دار یعنی رھبری کے لئے اتنی سختی نھیں ھے۔
د۔ انسانی معنوی اور واقعی مصالح کی رعایت
آخر میں دوسری حکومتوں پر ھماری حکومت کا مھم امتیاز انسانیت کے معنوی مصالح کی رعایت کرنا ھے: ھم ایک مسلمان ھونے کے لحاظ سے یہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ خداوندعالم دوسروں سے زیادہ انسان کے مصالح اور منافع کو جانتا ھے اور ھم انھیں مصالح کو انسانی معاشرہ میں رائج کرنا چاھتے ھیں جن کو خداوندعالم نے بیان کیا ھے، اور یہ مقصد خداندعالم کے بنائے دینی قوانین پر عمل کرنے کے علاوہ پورا نھیں ھوسکتا روئے زمین پر صرف ایک جمھوری اسلامی ایران ایک ایسا ملک ھے جس کے بنیادی قانون کے چوتھے بند میں یہ بیان ھے کہ ملک کے تمام قوانین اور مقررات کو اسلامی اصول وقواعد کے تحت طے کرکے نافذ کیا جانا چاھئے یھاں تک کہ اگر کوئی قانون دلیل شرعی کے عموم واطلاق کے برخلاف ھوگا تو اس کو معتبر نھیں سمجھا جائے گا اس بنا پر وہ ملک جس میں انسان کے واقعی مصالح ومنافع پورے ھوتے ھیں وہ ھمارا ھی ملک ھے۔
سب لوگوں کو یہ بات معلوم ھے کہ یہ ھمارا نظام اور اس کے تمام نتائج؛ صرف عوام الناس کی قربانیوں اور شھداء کے خون کی برکتوں (منجملھ” شھداء ھفت تیر“ ) سے وجود میں آئے ھیںاور انھوں نے اس انقلاب کی خاطر اپنی جان اور خون کی قربانی پیش کرکے ھمارے لئے عزت، سربلندی اور بلند ترین اقدار کا سامان فراھم کیا ھے لھٰذا ھمیں (ھر وقت) بیدار رھنا چاھئے کھیں ایسا نہ ھو کہ ھم ان عظیم اقدار کو مفت میں بیچ ڈالیں آج کل بھت سی سازشیں چل رھی ھیں جن کی بنا پر اصل اسلام، ولایت فقیہ اور اسلامی حکومت کے قوانین پر اعتراضات کئے جاتے ھیں چونکہ یہ ارزشیں اور اقدار ان کی آنکھوں کاکانٹا بنا ھوا ھے جس کو صاف کرنے کے لئے ھر ممکن کوشش کرتے ھیں اور اپنی تمام خراب کاری کوششوں کو انھیں چند اصلی نقطوں پر صرف کردیتے ھیںتاکہ مختلف طریقوں اور مکاریوں سے ان پر حملہ کریں اور نقصان پھنچائیں۔
کبھی کبھی تقریروں، مقالوں اوربعض کثیر الاانتشار اخباروں میں اصل اسلام اور اسلامی احکام پر اعتراض کیا جاتا ھے، اور کھا جاتا ھے کہ آج وہ زمانہ گذر چکا ھے جب لوگوں کو حلال اور حرام کی باتیں بتائی جائیں لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ خود تصمیم گیری کریں اور اپنی مرضی سے انتخاب کریں!! یا متعدد بار دیکھنے میں آیا ھے کہ ولایت فقیہ کی شان میں گستاخی، جسارت اور توھین کرتے ھیں کہ اگر ھمارے عھدہ داروں کے سینہ میں ثقافتی کشادہ دلی نہ ھو تو قانونی طور پر ان کو سزا ملنا چاھئے لیکن یہ حضرات اپنی بزرگی کا احساس نھیں کرتے اور ان کے خلاف کوئی قدم نھیں اٹھاتا لیکن ھماری ایک انقلابی اور امام خمینی (رہ)اور مقام معظم رھبری (حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای مدظلہ العالیٰ) کے پیرو کار ھونے کے لحاظ سے یہ ذمہ داری بنتی ھے کہ ھم اس طرح کی جسارت کرنے والوں کو اس طرح کی گستاخیوں کا مزہ چکھادیں اور شریعت مقدس اسلام اور تشیع، اور اسلامی اقدار جن کی وجہ سے دنیا وآخرت کی کامیابی ھے جو آسانی سے حاصل نھیں ھوتیں ان کو سیاسی مکاروں کے چور باز ار میں کم سے کم قیمت میں بیچ ڈالیں جن کی بنا پر ذلت، خدا ورسول اور فرشتوں ، مومنین اور آئندہ آنے والی نسلوں کی لعنت کے مستحق قرار پائیں ، خدا کرے کہ وہ وقت نہ آئے۔
حوالے:
(1) سورہ حج آیت 78
(2) سورہ بقرہ آیت 185
(3) (سورہ بقرہ آیت 185) ترجمہ: (”لھٰذا جو شخص اس ماہ میں حاضر رھے اس کا فرض ھے کہ روزہ رکھے (لیکن) جو مریض یا مسافر ھو وہ اتنے ھی دن دوسرے زمانہ میں روزہ رکھے خدا تمھارے لئے آسانی چاھتا ھے زحمت نھیں چاھتا “ (اضافہ، مترجم)
پینتیسواں جلسہ
قوانین اور حکومت سے آزادی کی نسبت
1۔ حاکم کا نصب کرنا آزادی اور ڈیموکریسی سے مطابقت نھیں رکھتا۔
(ایک اعتراض)
ھم نے گذشتہ جلسوں میں عرض کیا کہ قوانین کو براہ راست خداوندعالم بنائے یا اس کی اجازت اور اذن سے بنائے جائیں، اسی طرح قوانین کو جاری کرنے والا شخص بھی یا براہ راست خداوندعالم کی طرف سے معین ھو یا خداوندعالم کی طرف سے اذن یافتہ ھو؛ بھرحال نظام حکومتی (چاھے قوہ مجریہ ھو، یا قوہ قضائیہ ھو یا پارلیمنٹ) خداکے اذن کی طرف مستند ھوں اس کے علاوہ دینی اور شرعی لحاظ سے اس کی مشروعیت نھیں ھوگی ھم نے گذشتہ بحثوں میں قانون گذاری اور قانون کو جاری کرنے کے سلسلہ میں بھت سے اعتراضات کو بیان کرکے ان کے جوابات پیش کئے قانون گذاری کے سلسلہ میں ایک اعتراض یہ تھا کہ عوام الناس کا خداوندعالم کے قوانین کا پابند ھونے کا مطلب انسانی آزادی اور انسان کے اپنے اختیار کے مخالف ھے؛ اور ھم اس کا جواب قانون گذاری کی بحث میںدے چکے ھیں اسی کے مثل بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت لھجہ سے قوانین کو جاری کرنے کے سلسلہ میں بھی ھوتا ھے؛ اور وہ یہ ھے کہ اگر ھم یہ مان لیں کہ قانون کا جاری کرنے والا خدا وندعالم کی طرف سے معین ھونا چاھئے یا اس کی طرف سے اذن یافتہ ھو، تو اس صورت میں عوام الناس سے حق انتخاب کو چھین لیا ھے اور عوام الناس کو اس چیز کی اجازت نھیں ھے کہ خدا کے فرمان اور اس کے معین کردہ کے خلاف اپنی مرضی سے کسی کا انتخاب کریں؛ اور یہ بات در حقیقت ڈیموکریٹک کے خلاف ھے۔
قارئین کرام ! اگرچہ گذشتہ بحثوں میں ھم اس اعتراض کا جواب عرض کر چکے ھیں لیکن چونکہ اسلامی نظام کے مخالف بلکہ در حقیقت اسلام کے مخالفین اس طرح کے اعتراض مسلسل کئے جارھے ھیں اور مختلف صورتوں میں اس طرح کے شبھات اور اعتراضات بیان کررھے ھیں، اس وجہ سے ھم اس سلسلہ میں مزید وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ھیں پھلے آزدای کے سلسلہ میں کچھ چیزیں بیان کریں گے اس کے بعد اسلامی حکومت کی تشکیل کا طریقہ کار اور قوانین اسلامی کو جاری کرنے کا طریقہ بیان کریں گے۔
2۔ تکوینی آزادی اور نظریہ جبر کی تحقیق اور ردّ
ھمارے سامنے آزادی کا مسئلہ ھے جس کو اصطلاح میں تکوینی آزادی کھا جاتا ھے جس کے مقابلہ میں نظریہ جبر ھے جس کو بعض دانشمندوں نے بیان کیا ھے قدیم زمانہ سے انسان کے سلسلہ میں یہ اختلاف چلا آرھا ھے کہ وہ مختار ھے یا مجبور بعض لوگوں کا کھنا ھے کہ انسان مجبور ھے اور اپنی زندگی میں ذرا بھی اختیار نھیں رکھتا اور اگر کوئی انسان یہ تصور کرے کہ وہ اپنے ارادہ سے اپنے امور انجام دیتا ھے تو یہ اس کا خیال خام کے علاوہ کچھ نھیں ھے انسان در حقیقت مجبور ھے وہ جو بھی کام کرتا ھے مجبوراً اور فشار کے تحت انجام دیتا ھے؛ اگرچہ وہ خود اس چیز کا احساس نہ کرتا ھو۔
ھمیشہ اس نظریہ جبر کے طرفدار لوگ پائے گئے ھیں اور بعض اسلامی علماء نے بھی اس نظریہ کی طرفدار ی کی ھے اسلامی فرقوں میں ”فرقہ اشاعرھ“ (جو اھل سنت کا ایک کلامی فرقہ ھے) جبر کا اعتقاد رکھتا ھے؛ البتہ اتنی شدت اور غلظت سے نھیں جتنے دوسرے مانتے ھیں لیکن ھمارے اور اکثر مسلمانوں کے لحاظ سے یہ نظریہ باطل اور مردود ھے، چاھے انسان اپنے اعمال وافعال میں اپنے کو صاحب اختیار اور آزاد تصور کرے اور اگر صرف جبر انسان کے اوپر حاکم ھوتا تو پھر اخلاقی، تربیتی اور حکومتی نظام کی کوئی ضرورت باقی نہ بچتی۔
اخلاقی اور تربیتی سلسلہ میں اگر انسان نیک یا برے کام پر مجبور ھوتا اور اس کا کوئی اختیار ان چیزوں پر نہ ھوتا تو پھر اس کے نیک کاموں پر اس کی تعریف اور تمجید کوئی معنی نھیں رکھتی اور نہ ھی اس کے لئے کوئی جزا یا انعام کی ضرورت ھے، اسی طرح اگر انسان مجبور ھوتا تو برے کاموں پر اس کی مذمت اور سرزنش بھی نھیں ھونا چاھئے،اگر کوئی بچہ اپنے کسی فعل میں مجبور ھو تو پھر اس کی تربیت لا حاصل ھے اور اس کے اخلاقی کردار کو سنوارنے کے لئے برنامہ ریزی کی کوئی ضرورت نھیں ھے جس وقت معلم اور مربیّ ؛ بچے اور شاگرد سب ھی اپنے کردار میں مجبور ھوں تو پھر استاد بچے سے یہ نھیں کھہ سکتا کہ فلاں کام انجام دو یا فلاں کام نہ کرو اسی طرح حقوقی، سیاسی اور اقتصادی مسائل میں جو نصیحتیں کی ھیں ان کا مطلب یہ ھے کہ انسان اپنے اعمال اور افعال میں مختار اور آزاد ھے۔
جب انسان اپنے افعال اور اعمال کے کرنے یا نہ کرنے میں آزاد ھو تو اسی وقت اس کو یہ کھنا درست ھے کہ اس کام کو انجام دے اور اس کام سے پرھیز کرے، لیکن اگر انسان مجبور ھو اور اپنے کاموں کو انتخاب کرنے کا اختیار نہ ھو تو اس کے یہ کھنے کا کوئی مطلب نھیں ھے کہ اس کام کو کرے یا اس کام کو انجام نہ دے۔
یہ آزادی اور اختیار جس کو سبھی سمجھتے ھیں یہ ایک ”تکوینی امر“ ھے اور ”نظریہ جبر“ کے مقابلہ میں ھے،اور یہ اختیار اور آزادی خدا داد نعمت ھے جو انسان کی خصوصیات میں سے ھے اور اسی کی بنا پرانسان دوسری موجودات پر فضیلت اور برتری رکھتا ھے وہ تمام موجودات جن کا ھم علم رکھتے ھیں ان میں صرف انسان ھی ایک ایسی مخلوق ھے جو مختلف نظریات بلکہ بعض اوقات متضاد (ایک دوسرے سے ٹکرانے والی) نظریات میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے، اور وہ اپنے خواھشات کا جواب دینے میں مکمل طریقہ سے صاحب اختیار اور آزاد ھے چاھے وہ خواھشات ”حیوانی خواھشات“ ھوں یا وہ خواھشات ”الٰھی اور معنوی“ خواھشات ھوں بے شک خداوندعالم نے اس انسان کو اپنی اس نعمت سے نوازا ھے تاکہ وہ اپنے اختیار اور انتخاب سے راہ حق یا راہ باطل کا انتخاب کرے، اور انسان کا یھی وہ امتیاز ھے جو دوسری تمام مخلوقات یھاں تک کہ فرشتوں پر رکھتا ھے یھی قدرت انتخاب ھے اگر اس نے اس قدرت کا صحیح استعمال کیا اور الٰھی احکام کا انتخاب کیا اور حیوانی خواھشات کو ترک کیا تووہ کمال کے اس درجہ پر پھنچ جائے گا کہ اس کے سامنے فرشتے خضوع وخشوع کرتے ھوئے نظر آئیں۔
البتہ انسان کے پاس یہ آزادی کا ھونا ایک تکوینی مسئلہ ھے اور آج تقریباً کوئی ایسا نھیں ھے جو اس پر اعتقاد نہ رکھے اور اپنے کو سو فی صد مجبور سمجھے، اور اپنے لئے ذرا بھی آزادی نہ سمجھے ، قرآن مجید نے اس مسئلہ کے واضح ھونے پر زور دیا ھے:
( وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُر )(1)
”(اے رسول )تم کھہ دو کہ سچی آیات (کلمہ توحید )تمھارے پروردگار کی طرف سے (نازل ھو چکی)ھے بس جو چاھے مانے اور جو چاھے نہ مانے “
( إِنَّا ھدَیْنَاہ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُورًا )(2(
”اور اس کو راستہ بھی دکھادیا(اب وه)خواہ شکر گزار ھو یا نا شکرا “
سیکڑوں آیات بلکہ پورا قرآن انسان کے مختار ھونے پر تاکید کرتا ھے، کیونکہ قرآن مجید انسان کی ھدایت کے لئے ھے اور اگر انسان مجبور ھوتا اور اس کی ھدایت جبر کے تحت ھوتی اسی طرح اس کی گمراھی بھی جبر کے تحت ھوتی توپھر انسان کے لئے ھدایت کو اختیار کرنے کا کوئی مقصد نھیں تھا اور اس صورت میں قرآن کریم بے فائدہ اور بے اثر ھوجاتا۔
اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ ھماری گفتگو تکوینی آزادی کے بارے میں نھیں ھے کیونکہ اس میں کسی کو بھی کوئی شک وشبھہ نھیں ھے ا ور اس کی بحث کامقام فلسفہ اور علم کلام ھے ، حقوق اور سیاست میں یہ بحث نھیں کی جاتی۔
3۔ معنوی اور اندورنی اقدار کا آزادی سے کوئی ٹکراؤ نھیں
قارئین کرام ! یھاں پر ایک ضروری گفتگو یہ ھے کہ ھر انسان کے پاس ایک اندرونی طاقت ھوتی ھے جو انسان کے اعمال اور کردار کے لئے دائرہ معین کرتی ھے، اور ایک اصطلاح کے مطابق انسان ایک ارزشی اور اقداری مشین رکھتا ھے جس کی بنا پر ھر انسان یہ طے کرسکتا ھے کہ اس کواخلاقی طور پر کون سے کام انجام دینا چاھئے اور کن چیزوں کو ترک کرنا چاھئے،جن کے طے کرنے کے بعد مخصوص کاموں کو انجام دیتا ھے اور کچھ چیزوں کو ترک کرتا ھے ھمیں کسی ایسے معاشرہ کا علم نھیں ھے جس میں”باید ھا اور نباید ھا“ (کرنا چاھئے اور نہ کرنا چاھئے) نہ ھوں ، اور اچھے کاموں کو بُرا اور برے کاموں کو اچھا سمجھتا ھو۔
چنانچہ انسانی اسی اچھے اور برے کاموں کو سمجھنے والی اندرونی طاقت کو ”عقل عملی“ یا”وجدان“ کھا جاتا ھے جو انسان کو عقلی اور اخلاقی رفتار وگفتار کی ھدایت کرتی ھے، اور یھی وہ طاقت ھے جو ھمیشہ سے تمام انسانوں کے پاس رھی ھے، جس کی بنا پر انسانیت کے لئے ایک راھنما کا کام کرتی ھے ھر انسان کی ”عقل عملی“ یا”وجدان“ اس بات کو سمجھتی ھے کہ عدل، امانت داری اور سچائی نیک کام ھیں، لھٰذا ان پر عمل کرنا چاھئے اسی طرح ھر انسان کی ”عقل عملی“ یا”وجدان“ ظلم اور ستم کو بُرا سمجھتی ھے اور ظلم نہ کرنے کا حکم دیتی ھے، خصوصاً جبکہ اگر کسی ایسے شخص پر ظلم و ستم کرے جو اپنے دفاع پر بھی قادرنہ ھو اسی طرح انسانی عقل جھوٹ اور خیانت کو بُرے کاموں میں سے شمار کرتی ھے اور اس سے دوری کرنے کا حکم دیتی ھے۔
لھٰذا معلوم ھوا کہ انسان کے پاس ایک اندرونی اور باطنی ایسی طاقت ھے جو انسان کے لئے ھر حال میں اقداری مشین کا کام کرتی ھے جس کی بنا پر اچھے اور برے کاموں کی شناخت ھوجاتی ھے، اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ تمام ھی انسان عدالت اور صداقت کو نیک کام شمار کرتے ھیں اور کوئی بھی انسان صداقت کو بُرا نھیں سمجھتا اسی طرح تمام ھی انسان اس بات پر عقیدہ رکھتے ھیں کہ ظلم اور جھوٹ برے کام ھیں اور آپ کو کوئی بھی ایسا شخص نھیں مل سکتا جو ان کو اچھا سمجھتا ھو بےشک انسانی اقدار کو معین کرنے والی یہ طاقت اپنے فیصلہ میں مستقل اور آزاد ھوتی ھے اور کسی باھری طاقت کی کوئی ضرورت نھیں ھوتی، اور صرف اپنے نظریہ کے مطابق حکم کرتی ھے۔
انسانی عقل و وجدان کے ذریعہ بیان شدہ باید ھا و نباید ھا (کرنا چاھئے اور نہ کرنا چاھئے) یا امر و نھی کی ماھیت اور حقیقت کی تحقیق وجائزہ (کہ امر ونھی صرف اس کی تشخیص اور درک کی وجہ سے ھوتا ھے یا انسان کے اندر کوئی طاقت ایسی ھوتی ھے جو اس کو امر ونھی کرتی ھے) اخلاقی فلسفہ سے متعلق ھے جو ھمارا موضوع گفتگو نھیں ھے لیکن ھماری عقل کا یہ طے کرنا کہ کون سے کام نیک ھیں اور کون سے کام بُرے؟ یہ ایک طرح سے ھمارے لئے لازمی احکام صادر کرتی ھے جس کی بنا پر ھماری قدرتی آزدای محدود ھوجاتی ھے، یعنی خود ھماری عقل اور وجدان ھمیں حکم دیتی ھے کہ اپنی کچھ آزادی سے فائدہ نہ اٹھاؤ: (مثلاً) ھم دوسروں پر ظلم کرسکتے ھیں لیکن ھماری عقل کھتی ھے کہ کسی پر بھی ظلم نہ کرو، بلکہ عدالت کو برقرار رکھو، اسی طرح ھم جھوٹ بول سکتے ھیں لیکن ھماری عقل یہ حکم کرتی ھے کہ جھوٹ نہ بولو بلکہ صداقت سے کام لو ھماری عقل اس بات کاحکم کرتی ھے کہ اگرچہ تم امانت میں خیانت کرسکتے ھو لیکن (کسی بھی چیز میں) خیانت نہ کرو ، لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ انسانی عقل عملی اور اس کا وجدان انسان کی خصوصیت میں اور ان اسباب میں سے ھے جو ھماری آزادی کو محدود کرتی ھے،اور اگر کسی شخص میں ایسی طاقت وقدرت موجود نہ ھو اور اپنے لئے اچھے اور برے کی پھچان نہ کرسکتا ھو تو گویا وہ عقل سے بے بھرہ ھے اور اس کو دیوانہ کھا جائے گا۔
اب جبکہ انسانی عقل اس اپنی رفتار و گفتار کو محدود بنادیتی ھے اور انسان اس کام کو اپنے عقل اور وجدان کی طرف نسبت دیتا ھے لیکن کوئی بھی اس کو آزادی کا مخالف قرار نھیں دیتا یہ کوئی کھتا ھوا نظر نھیں آتا کہ ھماری عقل نے امر ونھی کے ذریعہ سے ھماری آزدای کو محدود کردیا ھے جب حقیقت یہ ھے کہ انسان اپنی اس اندورنی طاقت کی پیروی کرتے ھوئے اپنی آزادی کو محدود کرلیتا ھے جو خود اسی کی عقل کے تحت ھوتی ھیں اور باھر سے کوئی چیز سبب بھی نھیں ھوتی کیونکہ انسانی عقل کے ذریعہ انسان کی رفتار و گفتار کا محدود ھونا بالکل اس ڈاکٹر کی طرح ھے جو ھم سے (مریض ھونے کی صورت میں)یہ کھتا ھے کہ فلاں چیز نہ کھانا کیونکہ وہ تمھارے لئے نقصان دہ ھیں، اور فلاں دوائی استعمال کرو کیونکہ تم اس سے ٹھیک ھوجاؤ گے اس صورت میں نہ صرف یہ کہ انسان ڈاکٹر کے حکم اور پرھیز بتانے سے ناراحت نھیں ھوتا بلکہ اس کو خوشی بھی ھوتی ھے اور اس کے حکم کو اپنی صحت یابی کے لئے راھنمائی اور ھدایت سمجھتا ھے در حقیقت اس صورت میں بھی ھم اپنی آزادی اور اختیار سے استفادہ کرتے ھیں اور ھماری پیدائشی آزدای پر کوئی حرف نھیں آتا اور بعض اخلاقی نظریات کی بنا پر عقل صرف ھمیں ایک راستہ دکھاتی ھے اور ھماری اس راستہ کی طرف راھنمائی کرتی ھے، جس کے بھترین فوائد ظاھر ھوتے ھیں نہ کہ اس میں ڈکٹیٹری "Dictaory" نھیں دکھائی دیتی، (بلکہ دوستانہ اور دلسوزی کی بناپر ھوتی ھیں۔)
یھاں تک کہ اگر ھم اپنی عقل کے حکم کو ڈکٹیٹری کا نام بھی دیدیںجس کی بنا پر وہ حکم کرتی ھے، جیسا کہ کھا بھی جاتا ھے کہ اگر کسی شخص نے اپنی عقل و وجدان کی مخالفت کی تو اس عقل ھی اس کو مورد مذمت اور عذاب قرار دیتی ھے ، اور عقل و وجدان کا عذاب ھماری ادبی کتابوں میں مشھور معروف ھے، لیکن ان تمام باتوں کے پیش نظر عقل و وجدان کا حکم آزادی کے مخالف نھیں ھے اور اس کی آزادی ختم نھیں ھوتی، اور جو شخص اپنی عقل اور وجدان کے مطابق عمل کرتا ھے اس کے بارے میںیہ نھیں کھا جاتا ھے کہ یہ مقید ھو گیا ھے اس کی وجہ یہ ھے کہ عقل اور وجدان خود انسان سے متعلق ھے اور یہ اندارونی طاقت کے عنوان سے ھمارے کاموں میں نظارت اور قضاوت کرتی ھے جس کے نتیجہ میں بعض چیزوں کا حکم دیتی ھے اور بعض چیزوں کے انجام دینے سے روکتی ھے پس جس وقت ھماری اندورنی طاقت ھمیں حکم دے تو ھماری آزادی سلب نھیں ھوتی، اور اگر ھم اپنی اس عقل کے فرمان کے مطابق اپنی مرضی سے عمل کریں تو گویا ھم نے اپنی مرضی کے مطابق عمل کیا؛ ھماری آزادی اس وقت سلب ھوتی ھے جب کوئی بیرونی طاقت ھمیں کسی کام کی انجام دھی پر مجبور کرے یا کسی کام سے روکے۔
4۔ آزادی اور دینی وظائف کی نسبت
قارئین کرام ! یھاں پر یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ دین (اسلام) کے احکام اور شرعی اوامر ونواھی جو خداوندعالم کی طرف سے ھوتے ھیں کیا انسان کی آزادی کو سلب کرتے ھیں؟ مثلاً اگر کوئی شخص صبح اٹہ کر نماز صبح نہ پڑھنا چاھے، لیکن خداوندعالم کا حکم ھے کہ صبح اٹہ کر نماز صبح پڑھو؛ اسی طرح دوسرے احکام جن کے بجالانے کو شریعت مقدس نے انسان کے لئے لازم اور ضروری قرار دیاھے مثلاً روزہ کا حکم، زکوٰة و خمس اور دوسرے واجبات کا حکم، یا وہ چیزیں جو حرام ھیں ان کو ترک کرنے کا حکم جیسے (الکحل) والی مشروبات کے پینے سے روکنا (وغیرہ وغیرھ)۔
جواب: یہ احکام اور امر و نھی جب تک نفوذ ھونے کے بارے میں پشت پناھی نہ رکھتی ھوں تو گویا یہ بھی عقل اور وجدان کے حکم کی طرح ھیں اور ان کے ذریعہ سے انسان کی آزادی سلب نھیں ھوتی یعنی جس وقت خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے کہ : نماز پڑھو، اگر ھم نے نماز نہ پڑھی ، تو ھم سے کوئی مطلب نہ ھو اور ھمیں عذاب اور سزا میں مبتلا نہ کرے،اسی طرح معاشرہ بھی خداوندعالم کے احکام پر عمل نہ کرنے کی نتیجہ میں ھم سے خفا نہ ھو اور ھمیں ذلیل وحقیر نہ سمجھے تو اس صورت میں اگر شرعی امر ونھی صرف نصیحتی پھلو رکھتے ھوں تو ھماری آزادی سلب نھیں ھوتی کیونکہ ان نصیحت کوباھر سے جاری کرنے والا کوئی ضامن نھیں ھے، اور کوئی بیرونی طاقت ھم پر کوئی دباؤ نھیں ڈالتی جس کی بنا پر ھم بعض کاموں کو انجام دیں اور بعض سے پرھیز کریں؛ اس صورت میں شرعی امر ونھی عقل اور وجدان کے حکم کے ھم پلہ قرار پاتے ھیں جس کی وجہ سے آزادی سلب نھیں ھوتی مسامحہ آمیز (ذو معنی) تعبیر کے مطابق، جس طرح ھم ایک ایسی متصل عقل رکھتے ھیں جو ھمیں ”باید ھا اور نباید ھا“ (کرنا چاھئے اور نہ کرنا چاھئے) کے بارے میں نصیحت اور امر و نھی کرتی ھے لیکن عملی طور پر اس کے احکام پر عمل کرنا لازمی اور ضروری نھیں ھوتا ، اسی طرح ھمارے پاس عقل منفصل (جدا) بھی ھے جو ھمارے وجود سے باھر ھے اور امر و نھی کرتی ھے، یعنی خداوندعالم ”عقل کلّی“ کے عنوان سے ھمارے لئے امر و نھی کرتا ھے اور وہ صرف نصیحت کی حد تک ھوتی ھے اور ارشادی(ونصیحتی) پھلو رکھتے ھیں۔
لیکن حقیقت یہ ھے کہ شرعی امر و نھی عملی طور پر لازمی اور ضروری ھوتے ھیں اور ان میں صرف نصیحتی پھلو نھیں ھوتا بلکہ جس وقت خداوندعالم ھمیں حکم دیتا ھے کہ نماز پڑھو تو اگر ھم نماز نہ پڑھیں تو ھمیں جھنم میں ڈال کر عذاب میں مبتلا کرے گا یھاں تک کہ بعض برے کاموں پر اسی دنیا میں سزا اور تازیانے کی حدّ معین فرمائی ھے ، اور اس سے بھی بالاتر گذشتہ امتوں کے لئے آسمانی عذاب نازل کیا ھے اور جب بھی کوئی پیغمبر مبعوث برسالت ھوتا تھا تو عوام الناس کو خدا کے عذاب سے ڈراتا تھا، اور یہ کھتا تھا کہ اگر تم نے خداوندعالم کے احکام کی اطاعت نہ کی توتم پر اسی دنیا میں بھی عذاب نازل ھوسکتا ھے قرآن مجید میں مکرر مسلمانوں کو اس بات سے ڈریا گیا ھے اور ان کو یاد دھانی کرائی گئی ھے کہ گذشتہ امتوں کے حالات پر نظر کرو کہ خدا کے احکام کی نافرمانی اور گناہ کے نتیجہ میں خداوندعالم نے ان پر عذاب نازل کیا لھٰذا تمھیں بھی دنیاوی یا اُخروی عذاب سے ڈرنا چاھئے انبیاء کرام (ع) عذاب الٰھی سے اس قدر ڈراتے تھے جس کی بنا پر تمام انبیا (ع) کا نام نذیر اور منذر (ڈرانے والا) معروف ھوگیا؛ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:
(إِنَّا اٴَرْسَلْنَاکَ بِالْحَقِّ بَشِیرًا وَنَذِیراً وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلاَ فِیْھاَ نَذِیْرٌ) (3)
”ھم ھی نے تم کو یقینا قرآن کے ساتھ خشخبری دینے والا و ڈرانے والا (پیغمبر)بنا کر بھیجا اور کوئی امت (دنیا میں)ایسی نھیں گزری کہ اس کے پاس (ھمارا ) ڈرانے والا (پیغمبر )نہ آیا ھو “
لھٰذا وہ شرعی امر و نھی جن پر ھمیشہ دنیاوی یا اُخروی عذاب سے ڈرایا گیا ھے؛اخلاقی اور عقلی امر ونھی جن پر ھماری عقل اور وجدان کے حکم سے فرق پایا جاتا ھے اور اس سے انسانی آزادی محدود ھوجاتی اور انسان پر دباؤ ڈالتی ھے۔
اور اگر ھم نے اس بات کومان لیا کہ تمام انسان مکمل طور پر آزاد ھیں ، اور ”حقوق بشر کے اعلانیھ“ کے مطابق (جو بعض روشن فکر کے نزدیک وحی اور کتاب مقدس کا حکم رکھتا ھے) کسی کو بھی یہ حق نھیں ھے کہ کسی انسان کی آزادی کو محدود کرے، تو کیا خداوندعالم کو بھی انسانوں کی آزادی کو محدود کرنے کا حق نھیں ھے ؟! اور ان کو عذاب اور سزا سے ڈرا کر تحت تاثیر قرار دے، اورزیادہ سے زیادہ خدا بھی عقل اور وجدان کی طرح انسان کو اپنے وظائف اور واجبات کو انجام دینے کے سلسلہ میں ارشاد اور نصیحت نھیں کرسکتا، مثال کے طور پر ھمیں نماز پڑھنے کا حکم دے تو اگر ھم نماز نہ پڑھیں تو ھم نے گویا اپنی آزادی سے استفادہ کیا ھے! اور اگر ایسا ھے تو پھر خداوندعالم نے ھمیں کس لئے ڈرایا ھے اور کھتا ھے : اگر گناہ کرو گے تو تم کو آخرت میں جھنم میں ڈال دو ں گا ، اور مسلسل ھمیں اپنے عذاب سے ڈراتا رھتا ھے، چنانچہ اس نے اپنے انبیاء (ع) کے وظائف میں سے ایک وظیفہ عوام الناس کو عذاب الٰھی سے ڈرانا قرار دیا ھے؟
بےشک مسلمانوں کو اس بات میں کوئی شک نھیں ھے کہ خداوندعالم فرمان اور احکام صادر کرسکتا ھے اور ان کے جاری کرنے کا ضامن بھی ھے اسی طرح انبیاء علیھم السلام کا وظیفہ امر ونھی کا پھنچانا اور عذاب الٰھی سے ڈرانا ھے، (کبھی کوئی مسلمان ان چیزوںمیں شک نھیں کرتا) بلکہ وہ ان تمام چیزوں کو دل وجان سے قبول کرتا ھے تمام مسلمان خدا اور رسول کے احکام کے سامنے سر جھکاتے ھوئے نظر آتے ھیں، اگرچہ یہ بھی جانتے ھیں کہ یہ احکام ان کو محدود کرتے ھیں اور ان کی بعض آزادی کوسلب کرتے ھیںاور ایک طریقہ سے ان کو تحت تاثیر قرار دیتے ھیں کیونکہ جب خداوندعالم ھمیں کسی کام کو انجام دینے کا حکم دیتا ھے تو اگر ھم نے اس کام کو انجام نہ دیا تو پھر ھمارے لئے عذاب کا وعدہ کیا گیا (اور خدا کا وعدہ سچا ھے) تو ھم اس سے متاثر ھوتے ھیں پس معلوم یہ ھوا کہ خدا وندعالم ھم کو بعض کاموں کے انجام دینے اور بعض کاموں سے پرھیز کرنے کا پابند کرسکتا ھے اس میں کوئی شک (بھی) نھیں ھے؛ لیکن خداوندعالم کی طرف سے امر و نھی آنے کی حکمت اور فلسفہ کیا ھے اور کیوں خداوندعالم ھم کو شرعی واجبات ومحرمات کا پابند کیوں بناتا ھے تو اس سلسلہ میں علم کلام میں بحث ھوگی، لیکن خلاصہ کے طور پر عرض کرتے ھیں کہ:
خداوندعالم اپنے تمام تر لطف ومھربانی اور فضل وکرم کی بنا پر انسان کوسعادت مند بنانا چاھتا ھے اسی وجہ سے سعادت مندی کے راستہ کی پھچان بتادی ھے جس کی بنا پر ھمارے لئے احکام اور فرمان معین فرمادئے ھیں تاکہ ھم اپنے ان وظائف پر عمل کرتے ھوئے سعادت مندی کے راستہ پر گامزن رھیںاور جس کے زیر سایہ واقعی سعادت کے راستہ کو پھچان لیں ظاھر سی بات ھے کہ خداوندعالم کے ڈرانے اور دھمکانے سے ھم ھوشیار ھوجاتے ھیں جس سے سعادت کے راستہ سے منحرف نھیں ھوتے، اور اگر یہ احکام ھمارے لئے ضروری اور لازمی نہ ھوتے تو پھر ھم اپنے وظائف کو اچھے طریقے سے انجام نہ دیتے اور اپنے غلط کردار اور گناھوں کی وجہ سے راہ سعادت سے بھٹک جاتے لھٰذا خداوندعالم نے اپنے لطف وکرم کی بنا پر شرعی وظائف پر عمل کرنے کی وجہ سے ھم کو برائیوں اور برے کاموں سے روکا ھے جس کے نتیجہ میں خدا کی رحمت واسعہ ھمارے شامل حال ھوجائے۔
اس بنا پر حقیقت یہ ھے کہ دین انسان کو محدود کرتا ھے اور اس کی بعض آزادی سلب ھوجاتی ھیں انبیاء علیھم السلام عوام الناس کو ڈرانے کا وظیفہ رکھتے تھے اور دینی احکام کی مخالفت اور عذاب الٰھی سے ڈراتے تھے بے شک اس سلسلہ میں ظاھری اور روحانی دونوں طرح کا دباوٴ ھوتا ھے ظاھری دباؤ اس شخص پر ھوتا ھے جس پر بعض گناھوں کے ارتکاب کی وجہ سے حدّ جاری ھوتی ھے اور روحانی دباؤ ان لوگوں پر ھوتا ھے جو کسی پر حدّ جاری ھوتے ھوئے دیکھتے ھیںجس کے نتیجہ میں وہ اس سزا سے ڈرتے ھیں، اور ان لوگوں پر بھی جو ھمیشہ آخرت کے عذاب سے ڈرتے رھتے ھیں۔
ھم اس وقت جو مطلق آزادی کے طرفدار ھیں لوگوں سے یہ سوال کرنا چاھتے ھیں کہ کیا تم اس ظاھری اور روحانی دباؤ کو محکوم کرتے ھو؟ یعنی کیا تم یہ کھتے ھو کہ خداوندعالم کو اس طرح کی محدودیت اور مشکل میں قرار نھیں دینا چاھئے؟ اور اس کو دنیاوی اوراخروی عذاب سے ڈرانے کے لئے پیغمبر نھیں بھیجنا چاھئے؟ تو کیا ان چیزوں کا محکوم کرنا اسلام اور تمام آسمانی ادیان کے انکار کے برابر نھیں ھے؟ (لیکن کیا کسی کو دین کے انکار کرنے کا حق ھے یا نھیں یہ ایک الگ بحث ھے اس وقت ھم انبیاء علیھم السلام کی اتباع کی حقانیت کو ثابت نھیں کررھے ھیں(
جو شخص کھتا ھے کہ انسان مکمل طور پر آزاد ھے اور اس پر کسی طرح کی محدودیت اور دباؤ نھیں ھونا چاھئے، تو کیا وہ محدودیت بھی جو خداوندعالم کی طرف سے اپنے بندوں پر ایجاد ھوتی ھے مثلاً گناہ کرنے پر جھنم میں جانا ھوگا یا بعض گناھوں کی اسی دنیا میں سزا ملے گی تو کیا ایسا شخص اس بات کو محکوم کرتا ھے؟(اور اگر ایسا ھے ) تو گویا اس نے دین اور بعثت انبیاء (ع) اور الٰھی شریعتوں کا انکار کیا ھے اور اس وقت ھماری بحث ان سے نھیں ھے ھماری بحث تو ان لوگوں سے ھے جو دین کو قبول رکھتے ھیں اور دین اسلام کو حق جانتے ھیں اور یہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ خداوندعالم نے اپنی حکمت اور لطف وکرم کی بنا پر ھدایت کے لئے انبیاء علیھم السلام کو بھیجا ھے اور اسی وجہ سے اس کا شکر ادا کرتے ھیں۔
5۔ حدود اور سزاؤں میں آزادی کی نسبت
اب جبکہ ھم نے یہ قبول کرلیا ھے کہ نہ صرف خداوندعالم کو یہ حق ھے بلکہ اس کے لطف و کرم اور فضل کی بنا پر ھمیں جھنم سے ڈرائے تاکہ ھم صحیح راستہ پر چلیں اور برے راستے سے پرھیز کریں، یھاں پر یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ خداوندعالم نے بعض گناھوں پر حدّ کس لئے اور کیوں قرار دی ھے اور حدود وتعزیرات کو اصلاً کس لئے رکھا ھے؟ خداوندعالم ھمیں عذاب آخرت سے ڈرناصحیح ھے کیونکہ عذاب سے ڈرانا ھمارے فائدہ میں ھے جوھمارے لئے جھنم کے عذاب سے ڈرتے ھوئے سعادت اور نیک بختی کے راستے کو اپنانے کا سبب بنتا ھے بلکہ ایک معنی کے لحاظ سے یہ ڈرانا ایک قسم کا ارشاد اور ھدایت ھے اور خداوندعالم ھمیں یہ بتانا چاھتا ھے کہ دیکھو تمھارے برے کاموں کا نتیجہ آخرت میں جھنم ھے، اور عذاب بھی وہ جو حقیقی ھے اور باھمی مفاھمت (ریزولیشن "Resolution") نھیں ھے بلکہ تمھارے دنیاوی برے اعمال کا مجسمہ ھے لیکن خدا نے کیوں فرمایا کہ اگر کوئی عظیم گناہ جیسے زنا کا مرتکب ھوا تو اس کو لوگوں کے سامنے کوڑے لگائیں جائیں تاکہ اس کی عزت وآبرو ختم ھوجائے؟
ارشاد ھوتا ھے:
(الزَّانِیَةُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْھمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلاَتَاٴْخُذْکُمْ بِھمَا رَاٴْفَةٌ فِی دِینِ اللهِ إِنْ کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلْیَشْھدْ عَذَابَھمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ( (4)
” زنا کار عورت او رزنا کار مرد دونوں کو سو سو کوڑے لگائیں اور خبردار ! دین خدا کے معاملہ میں کسی مروت کا شکار نہ ھوجانا اگر تمھارا ایمان اللہ اور روز آخرت پر ھے اور اس سزا کے وقت مومنین کی ایک جماعت کو حاضر رھنا چاھئے۔“
یہ سوال صرف دین سے متعلق نھیں ھے بلکہ سزائی قوانین اور ھر ملک کے قوانین سے متعلق ھے دنیا بھر کی تمام حکومتوں میں حقوقی اور سزائی قوانین ھوتے ھیں حقوقی قوانین ان لوگوں کے بارے میں ھوتے ھیں جو دوسرے کے مال اور حقوق پر تجاوز اور دست درازی کرتا ھے مثلاً کسی کامال کھاجاتاھے یا کسی کے بدن کو زخمی کردیتا ھے یا کسی کو قتل کردیتا ھے تو اس صورت میں اگر کوئی مخصوص شکایت کرنے والا موجود ھے تو وہ مجرم کی شکایت کرتا ھے جس کے نتیجہ میں مجرم کو سزا ھوتی ھے یا جرمانہ دینا ھوتا ھے اور اگر کسی کے حق کو غصب کیا تھا تو اس کو واپس کرے اور اگر کسی ظلم اور جنایت کا مرتکب ھوا تو اس سے قصاص (بدلہ) لیا جاتا ھے یا اسی طرح کی دوسری سزائیں معین کی جاتی ھیں لیکن تمام سزائی قوانین میں مجرم کو سزا دینے کے لئے کسی خاص شکایت کرنے والے کی ضرورت نھیں ھوتی بلکہ خود د عدالت اور مدعی العموم قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے اور ملکی مصالح کو پامال کرنے والے کے خلاف مقدمہ دائر کرسکتا ھے اور اگر ملزم کا جرم اثبات ھوجائے تو اس کو سزا ملتی ھے۔
جھاں تک ھم جانتے ھیں دنیا بھر میں کوئی بھی ملک ایسا نھیں ھے جس میں حقوقی اور سزائی قوانین موجود نہ ھوں اور مجرموں کو سزا اور جریمہ نہ ھوتا ھو خلاصہ یہ ھے کہ یا مجرم کو جریمہ دینا پڑتا ھے یا اس ک جیل بھیج دیا جاتا ھے یا اس کے لئے دوسری سزائیں معین کی جاتی ھیں؛ چنانچہ اسلام بھی اس قاعدہ سے مستثنی نھیں ھے اور اسلام کے بھی حقوقی اور سزائی قوانین ھیں یھاں تک کہ بعض موارد میں تو سخت سے سخت سزائیں ھیں لھٰذا یہ سوال یہ ھے کہ تمام ھی حکومتوں کو مجرموں سزا دلانے کا حق ھے تو کیا یہ چیز انسان کی آزادی کے مخالف نھیں ھے تویہ بات مسلم ھے کہ تمام ھی لوگ حکومت کو حقوقی اور سزائی قوانین بنا نے کا حق دیتے ھیں اورمجرمین کے لئے خاص سزائی قوانین مترتب کرکے نافذ کرانا چاھتے ھیں اس بات کی دلیل یہ ھے کہ ھمیں کسی ایسے ملک کے بارے میں اطلاع نھیں ھے جس میں مجرموں کے لئے حقوقی سزائی قوانین نہ ھوں یا ان کے لئے جرمانہ یا قید یا دوسری سزائیں نہ ھوں اور کسی کو بھی کوئی اعتراض نھیں ھے البتہ بحث وگفتگو میں یہ بحث کی جاسکتی ھے اور یہ اشکال ھوسکتا ھے کہ کیا کسی کو یہ حق حاصل ھے کہ اس دنیا میں کسی شخص کو سزا دی جاسکتی ھے اور اس کی آزادی کو محدود کرنا یا اس کی آزادی کو سلب کرنے کا اختیار کسی کو ھے یا نھیں؟
6۔ حکومت اور قوانین کے زیر سایہ مطلق طور پر آزادی نھیں ھوسکتی
جو لوگ کھتے ھیں کہ کسی بھی حکومت کو عوام الناس کی آزادی کو محدود کرنے اور ان کے لئے سزا معین کرنے کا کوئی حق نھیں ھے، (کیونکہ اس صورت میں عوام الناس سزا وغیرہ کے ڈر سے کسی خلاف ورزی کو انجام نھیں دیتے ؛ لیکن اگر سزا وغیرہ نہ ھوتی تو پھر انسان اپنی مرضی سے جو بھی چاھتا انجام دیتا چاھے وہ کام اچھا ھوتا یا بُرا،) تو اگر ایسا شخص دنیا بھر کی حکومتوں پر اعتراض کررھا ھے تو اس کا ایک دوسرے طریقہ سے جواب دیا جائے اور اگرصرف اسلام پر اعتراض کرتا ھے تو پھر اس کا جواب ایک دوسرا ھوگا لیکن چونکہ اس کا اعتراض دنیا بھر کی عام حکومتوں پر ھے اور تمام حکومتی نظام منجملہ اسلامی حکومت پر بھی اعتراض کرتا ھے کہ کیوں مجرموں کے لئے سزائیں اور محدودیت قرار دی ھیں ان پر دباؤ ڈالا گیا ھے؟تو اس صورت میں ھمارا جواب بھی ایسا ھوگا جو سب کو شامل ھوجس میں تمام حکومتوں اور اسلامی حکومت کے حقوقی اور سزائی قوانین کے بارے میں جواب دیا جائے۔
جواب:
مذکورہ اعتراض ”مطلق آزادی“ کی بنیاد پر ھے اور ان کا یہ خود ساختہ نظریہ ھے جس کی بنا پر ان کا تصور یہ ھے کہ انسان اس دنیا میں مکمل طور پر آزاد ھونا چاھئے اور کسی بھی طرح اس پر کوئی دباؤ نھیں ھونا چاھئے، اور کوئی بھی شخص اس کو کسی کام کے کرنے پر مجبور نھیں کرسکتا اور نہ ھی کسی کام سے روک سکتا ھے۔
بے شک یہ اصل اور بنیاد غیر منطقی اور ھر صاحب عقل وشعور کے نزدیک باطل اور غلط ھے کوئی بھی انسان مطلق اور بغیر کسی حد وقید کی آزادی نھیں رکھتا کہ جو کچھ بھی کرنا چاھے کوئی بھی قانون اس کو نہ روکے (یھاں پر قوانین سے مراد اخلاقی قوانین اور مستقلات عقلیہ نھیں ھیں جن کی اجرائی ضمانت نھیں ھے بلکہ ھماری مراد عام معنی میں قوانین حقوقی مراد ھیں جن کو نافذ کرنے کی حکومت ذمہ دار ھوتی ھے ) لھٰذا قوانین اور مقررات ھونا چاھئے اور عوام الناس کو ان پر عمل کرنے کے لئے آمادہ کیا جائے تاکہ عوام الناس کے حقوق کو ادا کریں ٹریفک قوانین ھونا چاھئے اور جو لوگ کبھی کبھی بھت سے لوگوں کی جان جانے کے باعث بنتے ھیں ان کے لئے سزائیں اور جرمانہ ھونا چاھئے۔
اس کے علاوہ کہ ھمیشہ سے پوری تاریخ میں اور ھر جگہ پر عوام الناس موجودہ قوانین کو قبول کرتے آئے ھیںجس کی بنا پر کسی کو بھی مطلق آزادی کا حق نھیں ھے اور نا ھی کسی دوسرے پر کسی طرح کا کوئی دباؤ ڈالنے اور اس کی آزادی کا ایک حصہ ختم کرنے کا حق ھے؛ اور عملی طور پر کوئی شخص بھی ایسا عقیدہ نھیں رکھتا ، کیونکہ مطلق آزادی کا مطلب مدنیت کا انکار کرنا اور وحشیانہ جنگل راج کو قبول کرناھے اگر انسان ایک اجتماع پسند موجود ھے تو اس کے لئے اجتماعی نظام کی ضرورت ھے اور عوام الناس کو ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کرنا چاھئے اور اس سلسلہ میں قوانین ھونا ضروری ھیں نیز مجرموں کے لئے سزائی قوانین مد نظر رکھے جائیں، اور حکومت بھی ان کو نافذ کرنے کی ضامن ھو واقعاً مطلق آزادی ( اور یہ کہ کسی شخص کوکسی دوسرے کو کسی کام پر مجبور کرنے یا کسی کام سے روکنے کا کوئی حق نھیں ھے) کا نعرہ لگانے کا مطلب یہ ھے کہ پھر حکومت کی کوئی ضرورت نھیں ھے بلکہ انسان جو کچھ بھی کرنا چاھے کرسکے؛ کیونکہ حکومت بھی عوام الناس کی رائے سے بنتی ھے اور قوانین کا نافذ کرنا اس کی ذمہ داری ھوتی ھے لھٰذا اس طرح کا نظریہ قانون مداری، جامعہ مدنی، تمدن اور قوانین کی اتباع کی ضرورت سے ھم آھنگ نھیں ھے کیونکہ انسانی معاشرہ اور تمدن بشریت کی بنیاد یہ ھے کہ اس میں قوانین اور ان کو نافذ کرنے والی قدرت کا ھونا ضروری ھے، اور ظاھر سی بات ھے کہ حکومت قوانین کو نافذ کرنے کے لئے ان پر دباؤ ڈالے گی۔
حکومت کی ذمہ داری یہ ھے کہ ضرورت کے وقت مجرموں کو قوانین پر عمل کرنے پر مجبور کرنے کے لئے اپنی طاقت کا استعمال کرے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دے، اور اگر صرف کھنے اور نصیحت کرنے پر کفایت کرے تو پھر وہ معلم اور مربیّ ھوگی حکومت نھیں ھوگی علماء اور واعظین کا وظیفہ عوام الناس کو اجتماعی اخلاق اور انسانی آداب کی رعایت کرنے کے لئے وعظ و نصیحت کرنا ھے، لیکن وہ ان وعظ ونصیحت کو نافذ کرنے کے لئے قدرت کا استعمال نھیں کرسکتے، اور قدرت کے زور پر لوگوں کو انسانی اخلاق کی رعایت پر مجبور کرنا بھی ان کی ذمہ داری نھیں ھے لیکن حکومت کی ذمہ داری ھے کہ وہ اگر ضرورت پڑے تو اپنے قدرت کے زور پر قوانین پر عمل کرائے اور اگر کوئی خلاف ورزی کرے تو اس کو سزائے اعمال تک پھونچائے اور یا اس پر جرمانہ کرے یا اگر کوئی خلاف ورزی کر کے بھاگ نکلناچاھے تو اس کا تعقب کرے اور اس کو پکڑکر اس پرحدود اور سزا جاری کرے اس بنا پر حکومت اور قوہ مجریہ کا وجود خود اس بات پر دلیل ھے کہ انسان مکمل اور مطلق طور پر آزاد نھیں ھے اور مطلق آزادی کا نظریہ باطل اور مردود ھے نیز انسانی تمدن اور اجتماعی زندگی کے ساتھ ھم آھنگ نھیں ھے اس میں کوئی فرق نھیں ھے کہ چاھے حکومت شھری قوانین جو خود شھریوںکی خواھش کے مطابق مرتب ھوتے ھیں یا اسلامی حکومت الٰھی قوانین جاری کرے۔
7۔ حاکمیت کا خدا سے متصل ھونا
قارئین کرام ! گذشتوں بحثوں میں ھم نے اس بات کو ثابت کیا کہ قوانین کو نافذ اور جاری کرنے والا یا خود خداوندعالم کی طرف سے منصوب ھو یا خدا کی طرف سے اذن یافتہ ھو، کیونکہ قوانین کو جاری کرنے سے عوام الناس پر دباؤ ڈالا جاتا ھے اور ان کی آزادی کو محدود کیا جاتا ھے اور عوام الناس خداوندعالم کے مملوک اور بندے ھیں لھٰذا صرف خدا ھی ان میں تصرف کرسکتا ھے، اور ”ربوبیت تشریعی“ اور حاکمیت الٰھی کی بنا پر کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ وہ خدا کی اجازت او رمرضی کے بغیر اس کے بندوںپر فشار ڈالے اور ان میں تصرف کرے لھٰذا حکومت کو خدا کے بندوں میں تصرف کرنے یا ان پر دباؤ ڈالنے کے لئے ان مالک (خداوندعالم) سے اجازت لےنا چاھئے لیکن جو لوگ عوامی ڈیموکریٹک کے قائل ھیں اور معاشرہ کو ادارہ کرنے کے لئے قوانین مدنی کو کافی جانتے ھیں اور حکومت کو انھیں قوانین کو جاری اور نافذ کرنے کی ضامن مانتے ھیں، چنانچہ کھتے ھیں کہ قوانین کو نافذ کرنے والے کا خدا کی طرف سے اذن یافتہ ھونا ضروری نھیں ھے؛ بلکہ عوام الناس سے ووٹ دیتے ھی وہ قوانین کو جاری کرسکتا ھے اور ضرورت کے وقت حکومت اپنی طاقت کو بروئے کار لاسکتی ھے، اور لوگوں پر دباؤ بھی ڈال سکتی ھے۔
یہ لوگ حکومت کے عوام الناس پر دباؤ ڈالنے کے سلسلہ میں کیا دلیل پیش کرتے ھیں؟ ڈیموکریٹک اصول کے تحت اس طرح جواب دیا جاتا ھے کہ عوام الناس چونکہ حکومت کو ووٹ دیتی ھے چاھے وہ ممبر آف پارلیمنٹ کے انتخاب ھوں یا خود حکومت کے صدراتی انتخاب ھوں، اور یہ ووٹ دینا ھی گویا حکومت کے قوانین اور حکومت کی طرف سے ان کو نافذ کرنے کو قبول کرنا ھے؛ چاھے حکومت ان کو جاری اور نافذ کرنے کے سلسلہ میں اپنی طاقت کا استعمال ھی کیوں نہ کرے لھٰذا حکومت کی طرف قوانین کو نافذ کرنے کے سلسلہ میں جو دباؤ دیا جاتا ھے وہ آزادی سے منافات نھیں رکھتا؛ کیونکہ اس حکومت اور نظام کو خود انھوں نے قبول کیا ھے، اور اس کے سامنے اپنا سر تسلیم کیا ھے اور یہ بالکل عقل اور وجدان کے اس حکم کی طرح ھے جو انسان کو بعض چیزوں کو انجام دینے اور بعض چیزوں سے پرھیزکرنے کا حکم دیتی ھے اور وہ آزادی سے مخالفت نھیں رکھتا، اور اس سے آزادی سلب نھیں ھوتی، کیونکہ یہ احکام خود ان کی اندرونی طاقت کی بنا پر ھوتے ھیں اور خود انھیں سے متعلق ھے اور ان پر تھونپا نھیں گیا ھے۔
البتہ ڈیموکریسی حکومتی نقشے، ان کی کار کردگی اور اختیارات نیز اپنی حقانیت اور مشروعیت کے لئے جو دلیل پیش کرتے ھیں؛ ان تمام چیزوں پر بھت سے اشکالات ھوتے ھیںجو فلسفہ سیاست اور فلسفہ حقوق سے متعلق کتابوں میں بیان کئے گئے ھیں ھم یھاں پر کچھ اعتراضات بیان کرتے ھیں جو اس وقت مناسب ھیں ان میں سے ایک یہ ھے کھ: دنیا میں کوئی بھی جگہ ایسی نھیں ھے جھاں پر قوانین کو اتفاقی طور پر قبول کیا جاتا ھے، یا متفق طور پر کسی کو وزیر اعظم یا صدر مملکت منتخب کیا جاتا ھو یھاں تک کہ خود جمھوری اسلامی (ایران) جو دنیا میں عوامی ملکوں میں بے نظیر ھے ، جس میں 2/89 فی صد لوگوں نے اس اسلامی نظام کو ووٹ دئے اور ۸/1 فی صد لوگوں نے اس نظام کو ووٹ نھیں دئے جو اس وقت کی مردم شماری کے لحاظ سے وہ تعداد تقریباً دس لاکہ سے بھی زیادہ ھے جس وقت دنیا بھر میں رائج ڈیموکریسی اور عوامی نظام میں دس لاکہ سے زیادہ افراد اس نظام کے حق میں ووٹ نہ دیں تو حکومت کو عوام الناس کو اپنے قوانین اور احکام پر عمل کرنے پر مجبور کرنے کا کیا حق ھے؟ جبکہ کچھ لوگ کھتے ھیں کہ ھم اس نظام حکومتی کو نھیں مانتے تو پھر صرف عوام الناس کے اکثریت کا ووٹ حاصل کرنے سے حقانیت اور مشروعیت حاصل کرکے کس طرح اپنے قوانین کو اپنے مخالفوں پر نافذ اور جاری کرسکتی ھے؟
ڈیموکریسی اور عوامی نظام کے طرفدار افراد اس طرح کے سوالات کا جواب دیتے ھیں اور ایسا نھیں ھے کہ اس سلسلہ میں گفتگو اور بحث نہ ھوئی ھو لیکن ان کے جوابات اطمینان بخش نھیں ھیں، اور بھت سے حل نہ ھونے والے اعتراض باقی رھتے ھیں، مثال کے طور پر کھتے ھیں کہ وہ نظام حکومتی جو اکثریت کے ووٹوں سے وجود میں آیا ھے اور اس نظام کو اقلیت نے ووٹ نھیں دیا ھے ان کے بھی کچھ حقوق ھیں اور ان کے حقوق کا لحاظ رکھا جائے اور وہ لوگ اپنے شخصی اور ذاتی احوال میں اپنی مرضی کے مطابق عمل کرسکتے ھیں۔
ھم کھتے ھیں کہ یہ کافی نھیں ھے کس دلیل کی بنا پر عام قوانین اور حکومت کے اجتماعی قوانین کو ان لوگوں پر تھونپاجاسکتا ھے؟ نیز اسے مختلف ٹیکس اور دوسرے اخراجات کس دلیل کی بنا پر لئے جاتے ھیں؟
ان میں سے بعض لوگ یہ کھتے ھوئے نظر آتے ھیں کہ آخر کار ھمیں معاشرہ کو آگے بڑھانے کے لئے کچھ تو کرنا ھی ھوگا اور ھمارے پاس معاشرہ کو چلانے کے لئے ڈیموکریسی حکومتی نظام سے بھتر کوئی نظام نھیں ھے۔
لیکن مذکورہ اعتراض کا جواب اسلامی نقطہ نظر سے یہ ھے کہ قانون گذاری کا حق خداوندعالم سے متعلق ھے یا جو افراد خداوندعالم کی طرف سے اذن یافتہ ھوں وہ خداوندعالم کے مقرر کردہ قوانین کے تحت قوانین بناسکتے ھیں اسی طرح عوام الناس پر حکومت کرنے اور ان کے لئے قوانین جاری کرنے کا حق اس شخص کو ھے جو خداوندعالم کی طرف سے منصوب ھو یا اس کی طرف سے اذن یافتہ ھو اس صورت میں وہ شخص خدا کے نمائندہ ھونے کے عنوان سے اور وہ شخص جو خداوندعالم کی طرف عوام الناس پر حکومت کرنے کے لئے مقرر کیا گیا ھے اس بات کا حق رکھتا ھے کہ قوانین کومعاشرہ میں نافذ کرے اگرچہ اس کو اپنی طاقت کا بھی استعمال کرنا پڑے اس کو حکومت کے مخالف لوگوںاور قانون توڑنے والوں کو بھی قوانین پر عمل کرنے پر مجبور کرنے کا حق ھے بےشک جو شخص خدا اور دین کا اعتقاد رکھتا ھے یہ تھیوری قابل قبول، منطقی اور عقلی اشکالات سے خالی ھے جو ڈیموکریسی حکومت پر وارد ھوتے ھیں لیکن جو شخص دین اور خدا کو نھیں مانتا اور الٰھی حکومت سے روگرانی کرتا ھے وہ کبھی بھی اس جواب کو بھی قبول نھیں کرے گا لیکن وہ عوام الناس جو مسلمان ھیں اور خداپر ایمان رکھتے ھیں،الٰھی حاکمیت ایک عظیم تمنا ھے جو ان کی منطق عقل، خواھش وجدان اور انسانی اصول سے ھم آھنگ ھے اسی وجہ سے وہ تناقص اور ٹکراؤ جو ڈیموکریسی اور عوامی نظام میں پایا جاتا ھے جس کی وجہ سے یہ (ڈیموکریسی) نظریہ باطل ھوجاتا ھے،لیکن (وہ تناقض اور ٹکراؤ) اسلامی حکومت میں نھیں پایا جاتا؛ اور اس تھیوری اور نظریہ میں مکمل طور پر معاشرہ کی وحدت اور نظم و ضبط کا خیال رکھا جاتا ھے۔
اگر ھم اسلامی نظام حکومتی کا آج کل کی دنیا میں رائج ڈیموکریسی جو صرف عوام الناس کے ووٹوں کی بنیاد پر ھوتی ھے؛مقابلہ کریں تو ھمیں معلوم ھوجائے گا کہ اسلامی نظام حکومت جو ھمارے عقیدہ کی بنا پر خداوندعالم سے نسبت رکھتا ھے اور عوام الناس کی حمایت اور ان کے رائے کا بھی لحاظ رکھا جاتا ھے؛ اس میں مزید اعتبار پایا جاتا ھے؛ کیونکہ ھم عوام الناس کے ووٹوں سے انکار نھیں کرتے اور ان کا احترام کرتے ھیںاور جمھوری اسلامی ایران کے بھت سے ادارے، سازمان وغیرہ عوام الناس کے ووٹوں سے تشکیل پاتے ھیں؛ مثال کے طور پر صدر مملکت کا انتخاب، ممبر آف پارلیمنٹ کا انتخاب، خبرگان رھبری اور شوریٰ اسلامی شھر وروستا جو تمام عوام الناس کے ووٹوں سے بنائے جاتے ھیں اسی وجہ سے ھم عرض کرتے ھیں کہ ھمارا حکومتی نظام خداکی اجازت کی وجہ سے ھوتا ھے اور عوام الناس کی حمایت بھی اس میں شامل ھوتی ھے ، لیکن عوامی اور ڈیموکریسی نظام جو صرف عوام الناس کے ووٹوں پر استحکام پیدا کرتا ھے اگر ھمارے سامنے ڈیموکریسی تھیوری کو لایا جائے تو ان سے یہ کھیں گے کہ جو کچھ تمھاری حکومتوںمیں ھے ھمارے یھاں بھی ھے اور ھم بھی عوام الناس کے ووٹوں کے معتقد ھیں اور ان کااحترام کرتے ھیں اس کے علاوہ منطقی اور عقلی لحاظ سے اسلامی حکومت کی تھیوری ڈیموکریسی تھیوری پر برتری اور فضیلت رکھتی ھے، اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ ڈیموکریسی نظام اندرونی اتحاد اور صحیح منطقی اور عقلی دلیل نھیں رکھتی،اور اس میں تناقض اور ٹکراؤ پایا جاتا ھے، لیکن ولایت فقیہ کی تھیوری عقلی اور منطقی لحاظ سے بھی مستحکم اور مضبوط ھے جس میں کسی بھی طرح کا کوئی تناقض نھیں پایا جاتا۔
خلاصہ گفتگو یہ ھے کہ بعض روشن فکر اور غلط فکر رکھنے والے کی طرف سے یہ اعتراض ھوتا ھے کہ کیوں خداوندعالم نے انبیاء علیھم السلام کو مبعوث کرکے، آسمانی کتابوں ، اور آسمانی شریعتوں کو نازل کرکے نیز فوجداری قوانین جیسے ھاتہ کاٹنا، جرمانہ کرنااور دوسری حدود وتعزیرات وغیرہ کو پیش کرکے عوام الناس کی آزادی کو سلب کرلیا ھے اور ان کوآزاد نھیں چھوڑا تاکہ جو کرنا چاھیں کرسکیں اور ان کو تحت فشار قرار دیا ھے؛ جبکہ اصل انسانیت اس بات کا تقاضا کرتی ھے کہ وہ مکمل طریقہ سے آزاد ھو ، کیونکہ آزادی انسانی کی اھم خصوصیات میں سے ھے؟
قارئین کرام ! جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ مطلق آزادی ؛ انسانی حقیقت اور اس کے اجتماعی ھونے سے ھم آھنگ نھیں ھے اگر ھم نے یہ مان لیا کہ انسان کی زندگی اجتماعی ھے تو پھر اس کی اجتماعی زندگی اس بات کی تقاضا کرتی ھے کہ عوام الناس کے نظم و ضبط کے لئے لازم الاجراء قوانین اور مقررات کا ھونا ضروری ھے اور ان کو نافذ کرنے کے لئے ایک حکومت کا ھونا ضروری ھے۔
مذکورہ دلیل دنیا بھر کی تمام حکومتوں میں مقبول ھے اور اسلام بھی اس کو قبول کرتا ھے، اور ھمیشہ سے عوام الناس اس کا اعتقاد رکھتے تھے نیز اس پر کسی طرح کا کوئی اعتراض بھی نھیں ھوتا تھا لیکن جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ حکومت کی ضرورت، قوانین اور مقررات کا جاری کرنا، اور بعض حالات میں اپنی طاقت کو بروئے کار لانے کے سلسلہ میں ڈیموکریسی اور عوامی حکومت میں بحد کافی منطقی دلیل موجود نھیں ھے اور ان کی حکومتی تھیوری اندرونی اتحاد و انسجام نھیں رکھتی اور اس میں تناقض اور ٹکراؤ پایا جاتا ھے۔
لیکن اسلامی حکومتی نظام میں دلیل جَدلی بھی موجود ھے کیونکہ ھم بھی ڈیموکریسی اصول پر عمل کرتے ھیں اور عوام الناس کے ووٹوں کواھمیت دیتے ھیں اور بھت سے حکومتی ادارے عوام الناس کے ووٹوں ھی سے چلتے ھیں، اسی طرح منطقی اور عقلی برھانی اصول پر مبنی ھوتی ھے؛ منجملہ یہ کہ اصل حاکمیت خدا کا حق ھے کیونکہ عوام الناس خدا کے بندے ھیں ، دوسروں کی حکومت اس وقت صحیح اور حق ھوسکتی ھے جب خدا کی مرضی اور اس کی اجازت سے ھو یعنی صرف خدا کی اجازت سے خدا کے بندوں پر حکومت کی جاسکتی ھے ، وہ حکومت جس میں الٰھی منشاء نہ ھو اور خداوندعالم کی طرف نسبت نہ ھو؛ تو ایسی حکومت باطل اور حق اور عقلی اصول کے برخلاف ھے۔
حوالے
(1)سورہ کھف آیت 29
(2) سورہ انسان (دھر) آیت 3
(3)سورہ فاطر آیت 4 2
(4)سورہ نور آیت 2
چھتّیسواں جلسہ
اسلامی قوانین قطعی طور پر جاری ھونے چاھئیں
1۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر
قارئین کرام! اس سے پھلے جلسہ میں ھم نے عرض کیا کہ انسانی عقل و وجدان ”باید ھا اور نباید ھا“ (کرنا چاھئے اور نہ کرنا چاھئے) انسان کے لئے معین کرتی ھے اور بھت کاموں کے بارے میں یہ فیصلہ کرتے ھیں کہ کیا کام نھیں کرنا چاھئے اور کیا کام نہ کرنا چاھئے جس کے نتیجہ میں انسان کی آزادی محدود ھوکر رہ جاتی ھے؛ لیکن چونکہ آزادی کی محدویت انسان کی اندرونی طاقت کے ذریعہ ھوتی ھے لھٰذا اس کی آزادی سلب ھونے کا سبب نھیں بنتا اور کسی نے یہ دعویٰ نھیں کیا ھے کہ انسانی عقل کی نصیحتوں سے اس کی آزادی سلب ھوجاتی ھے انسانی عقل اور وجدان کی اندرونی نصیحتوںکی طرح مسلمانوں کے لئے خداوندعالم کے اوامر اور احکام ھوتے ھیں جو خدا اور رسول کے ذریعہ صادر ھوتے ھیں جس طرح ھماری عقل کسی کام کو انجام دینے کا حکم کرتی ھے اسی طرح خداوندعالم نے بھی ھمارے لئے کچھ وظائف قرار دئے ھیں وہ وظائف جو واقعی مصالح (و فوائد)کی بنا پر صادر ھوتے ھیں چونکہ خداوندعالم ان کے بارے میں لامحدود علم رکھتا ھے اور ان کا سمجھنا ھماری عقل سے بالاتر ھے۔
گویا یھاں پر اندرونی عقل متصل کے علاوہ خداوندعالم عقل منفصل اور بے نھایت ؛ انسان کے کامل مصالح اور اس کے خطرات سے مکمل طور سے معین کرتا ھے اسی وجہ سے ھم سے یہ چاھتا ھے کہ فلاں کام کو انجام دیں کیونکہ یہ کام ھمارے حق میں ھے اور فلاں کام کو انجام نہ دیں چونکہ ھمارے لئے باعث ضرر ھے۔
انسانی آزادی کی یہ محدودیت جو خدا اور بندے کے درمیان موجود رابطہ کی بنا پر پیدا ھوتا ھے سیاسی یا حقوقی فلسفہ سے متعلق نھیں ھے اور سیاسی لحاظ سے بھی مشکل ساز نھیں ھے کیونکہ خدا پر ایمان رکھنے والے افراد اپنے عقیدہ کی بنا پر اس بات کو قبول کرتے ھیں کہ کچھ کاموں کو انجام دیا جائے اور کچھ کاموں سے پرھیز کیا جائے، اور یہ لازمی عقیدہ اور کار کردگی معاشرہ سے متعلق نھیں ھے بلکہ انسان کے خدا سے رابطہ کی بنا پر ھے جیسا کہ انسان اپنی عقل سے رابطہ رکھتا ھے۔
2۔ حکومت کی ضرورت اور انسان کی اجتماعی زندگی کا عکس العمل
قارئین کرام ! یھاں پر بحث یہ ھے کہ بھت سے کام خود انسان کے ذات اور اس کی دنیا و آخرت سے متعلق نھیں ھوتے بلکہ دوسروں کے لئے بھی موٴثر ھوتے ھیں اور ان کا فائدہ یا نقصان عوام الناس اور معاشرہ تک بھی پھونچتا ھے چنانچہ اس موقع پر دنیا بھر کے دانشور حضرات معتقد ھوجاتے ھیں کہ ایک ایسے نظام کا ھونا ضروری ھے جو معاشرہ کے لئے نقصان دہ چیزوں کی روک تھام کرسکے اور جو لوگ خلاف ورزی کریں ان کو سزائے اعمال تک پھونچائے۔
لھٰذا حکومت کی ضرورت اور یہ کہ ھمیں ایک طاقت کی ضرورت ھے جو معاشرہ کے نقصان کو روک سکے ، سماج کا نقصان نہ ھو اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا مل سکے، اسی وجہ سے حکومت کی ضرورت ھوتی ھے اسی بنا پر ”انارشیسٹ“ "Anarchiste" (فساد طلب) کے علاوہ دنیا بھر کے تمام صاحب علم سیاست اور حقوق کے رکھوالے حکومت کو ضروری سمجھتے ھیں؛ لیکن اخلاقی اقدار اور وہ اچھائیاں اور برائیاں جن کو خود انسانی عقل اپنی ذاتی زندگی میں معین کرتی ھے ان کا سیاست اور حکومت سے کوئی تعلق نھیں ھے۔
یھاں پر ایک دوسری بحث یہ ھوتی ھے کہ عقل انسانی انفرادی ، ذاتی اور معنوی مسائل کے علاوہ آزادی کے ایک حصے کو محدود کرتی ھے توکیا حکومت بھی انسان کی آزادی کو محدود کرسکتی ھے؟
تو اس کا جواب یہ ھے کہ اجتماعی زندگی کے لحاظ سے حکومت کی خصوصیت اور اس کا تقاضا ھی آزادی کو محدود کرنا ھے، کیونکہ اگر کوئی حکومت کی ضرورت کو مانتا ھو لیکن آزادی کو محدود کرنے کو قبول نہ کرتا ھو تو اس کی بات تناقض گوئی پر مشتمل ھے حکومت قوانین اور مقررات مرتب کرتی ھے اور بعض کاموں کو جائز اور بعض کاموں کو ممنوع قرار دیتی ھے اور اگر کوئی ان کی خلاف ورزی کرے تو بعض کو مالی جرمانہ بعض کو زندان اور بعض کو دوسرے طریقوں سے سزائیں دیتی ھے۔
یھاں تک کہ بعض حکومتوں میں مثلاً اسلامی حکومت میں جسمانی سزائیں جیسے سزائے موت بھی قرار دی گئی ھے لھٰذا اس مقدمہ کو قبول کرنا ضروری ھے کہ بنیادی طور پر حکومت کا وجود اجتماعی آزادی کو محدود کرنے کے لئے ھی ھوتا ھے اور آزادی کے محدود نہ ھونے کا مطلب حکومت کا نہ ھونا ھے ھمیں یہ قبول کرنا چاھئے کہ اجتماعی زندگی کے لئے حکومت کی ضرورت ھے یعنی یہ قبول کریں کہ انسان کی سیاسی اور اجتماعی آزادی محدود ھو، یا یہ قبول کریں کہ انسانی اجتماعی زندگی کے لئے حکومت کی ضرورت نھیں ھے اور کسی کو دوسروں پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالنے کا بھی حق نھیں ھے؛ جس کے نتیجہ میں عوام الناس سیاسی اور اجتماعی مسائل میں مطلق آزادی سے بھرہ مند ھوسکیں۔
قارئین کرام ! ھماری گذشتہ گفتگو کے پیش نظر یہ بات روشن ھوجاتی ھے کہ جو لوگ یہ نعرہ لگاتے ھیں کہ ”آزادی حکومت اور قانون سے بالاتر ھے“ صرف ایک مغالطہ ھے حکومت کو چاھئے کہ آزادی کو محدود کرے اور اگر کوئی اس بات کاقائل ھوجائے کہ کوئی بھی حکومت انسانوں کی سیاسی اور اجتماعی آزادی کو محدود نھیں کرسکتی۔؛ تو اس کا مطلب یہ ھے کہ حکومت کی کوئی ضرورت نھیں ھے ، اور حکومت بے کار، نامشروع اور غیر قانونی اور طاقت کے بل بوتے پر ھے۔
3۔ حکومت کی مشروعیت کے منشاء کی طرف ایک اشارہاور ڈیموکریسی پر اشکالات
قارئین کرام ! اب جبکہ ھم نے یہ قبول کرلیا ھے کہ معاشرہ میں ایک قانونی اور مشروع حکومت کا وجود ضروری ھے جس سے سیاسی اور اجتماعی آزادی محدود ھوجائے، اس کے بعد ایک اساسی اور بنیادی مسئلہ ھمارے سامنے ھے: اول یہ کہ حکومت کس وجہ سے قانونی اور مشروعیت پیدا کرتی ھے اور حکومت کس حق کی بنا پر آزادی کو محدود کرتی ھے؟ دوسرے یہ کہ حکومت کس حد تک آزادی کو محدود کرسکتی ھے؟
گذشتہ بحث میں یہ بات واضح اور روشن ھوچکی ھے کہ ھمارے عقیدہ کی بنا پر اسلامی سیاسی نظریہ کے علاوہ حکومت کے لئے کوئی قابل قبول اور عقل پسند دلیل نھیں ھے کیونکہ اگر ھم یہ کھیں کہ حکومت کے زیر سایہ عوام الناس خود اپنی آزادی کو محدود کرتے ھیں البتہ اس چیز سے قطع نظر کہ اگر کوئی چاھے تو اپنی آزادی پر کنٹرول کرسکتا ھے اور پھر اس صورت میں حکومت کی کوئی ضرورت نھیں ھے تاکہ اس کی آزادی کنٹرول کی جاسکے،یہ نظریہ تناقض گوئی پر مشتمل ھے؛ کیونکہ جو شخص آزاد رھنا چاھتا ھے وہ کبھی بھی اپنی آزادی کو محدود کرنا نھیں چاھتا۔
سب سے آخری اور بھترین نظریہ جو دنیا بھر میںحکومت کی مشروعیت اور قانونی ھونے کے بارے میں بیان کیا جاتاھے اور دنیا بھر کے لوگ اس نظریہ کو قبول (بھی) کرتے ھیں یہ ھے کہ عوام الناس اپنے بعض حقوق حکومت کے حوالے کردیتے ھیں یعنی یہ انسان جو اپنی زندگی کا حاکم ھے اور اپنی زندگی کے لئے (مخصوص) قوانین بنا سکتا ھے اور اپنی آزادی کو محدود کرسکتا ھے، لیکن اپنے اس حق کو حکومت کے حوالے کردیتا ھے تاکہ اس کی اجتماعی زندگی کے لئے (بھترین) قوانین بنائے اور ان کو نافذ کرے یہ حکومت کو حاکمیت کا حق حوالے کرنا آج کل کی دنیا میں ڈیموکریسی کے نام سے مشھور و معروف ھے۔
قارئین کرام ! آج کل کی ڈیموکریسی تھیوری پر بھت سے اشکالات وارد ھوتے ھیں ، ھم ان میں سے صرف تین اشکالات پر اکتفاء کرتے ھیں:
پھلا اشکال:
کیا انسان کو اپنے اندر ھر طرح کا تصرف کرنے، اپنی آزادی کو محدود کرنے اور اپنے پر دباؤ ڈالنے کا حق ھے؟ یعنی کیا انسان کو حق ھے کہ خود اپنے کو سزا دے؟ اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ دنیا بھر میں آج کل کی تمام حکومتیں خلاف ورزی کرنے والوں کی سزا معین کرتی ھیں اور بعض جرائم کے لئے قید با مشقت قرار دیتی ھے اور بعض جرائم کے لئے جسمانی سزا، شکنجہ اور سزائے موت قرار دیتی ھے تو کیا انسان کو خود کُشی کا حق ھے کہ جس کے نتیجہ میںاپنے لئے سولی کا حکم حکومت کے حوالے کردے؟ اگر انسان خود کُشی کا حق رکھتا ھو تو وہ دوسرے کو اس طرح کے قانون بنانے کا حق دے سکتا ھے کہ اگراس نے بعض ایسے جرائم کو انجام دیا جن کی سزا سولی ھو اور حکومت اس کے حق میں جاری کرسکے بے شک انسان خود کُشی کا حق نھیں رکھتا کیونکہ انسان کو اپنی جان کا اختیار نھیں ھے تاکہ جب بھی چاھے ختم کردے، انسان کی جان خداوندعالم کی طرف سے ھے، اور کسی کو اپنی جان کو نقصان پھونچانے کا حق حاصل نھیں ھے حد تو یہ ھے کہ اسلامی نظریہ کے مطابق انسان اپنے بدن کو نقصان بھی نھیں پھونچا سکتا کسی شخص کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ وہ اپنے بدن کو زخمی کرلے مثلاً اپنے ھاتہ یا انگلی کو کاٹ لے کیونکہ انسان کا بدن خداسے متعلق ھے اور انسان اس کا مالک اور صاحب اختیار نھیں ھے اس صورت میں کس طرح انسان حکومت کو سزائی اور فوجداری قوانین بنانے کا حق دے سکتا ھے اور حکومت کو مجرموں کو سزا دینے کی اجازت دے اور چور کے ھاتہ کاٹ دئے جائیں اور بعض مجرموں کو سزائے موت دیدی جائے؟
دوسرا اشکال:
فرض کرلیں کہ انسان اپنی جان اور بدن میں ھر طرح کا تصرف کرسکتا ھے اور اپنے بدن کو نقصان اور ضرر پھونچاسکتا ھے اور اپنی زندگی کو ختم کرسکتا ھے اور اس صورت میں اپنا یہ حق حکومت کے حوالے کردیتا ھے در حقیقت جو شخص پارلیمنٹ کو ووٹ دیتا ھے گویا قانون گذاری کے سلسلہ میں پارلیمنٹ کو اپنا وکیل بنادیتا ھے کہ اس کی اجتماعی زندگی کے لئے قوانین اور مقررات بنائے جن میں سے حقوقی اور سزائے قوانین (بھی) ھیں؛ اسی طرح حکومت کو بھی اپنا وکیل بناتا ھے کہ اس پر قوانین نافذ کرے لیکن اس صورت میں صرف حکومت کو اپنے اوپر تصرف کا حق دیتا ھے، لیکن یہ حق نھیں دیتا کہ حکومت دوسروں پر بھی تصرف کرے اور ان کے حقوق اور ان کی آزادی کو سلب کرے بالفرض اگر انسان اپنے کو سزا دینے کاحق رکھتا ھو اور یہ حق حکومت کو دیدے کہ اگر اس نے خلاف ورزی کی تو اس کو سزا دے، تو اس صورت میں (بھی) صرف اپنا وکیل بنا سکتا ھے کہ اس کی طرف سے تصمیم گیری کرے اور اس پر عمل کرے لیکن دوسرووں کو سزا دینے کا حق (اسے نھیں ھے تاکہ یہ حق) حکومت کے حوالے کردے۔
ڈیموکریسی نظریہ کی رائج اصطلاح کا مطلب یہ ھے کہ عوام الناس حکومت کو وکالت دیتے ھیں اور اس کو اپنا وکیل اور نمائندہ قرار دیتی ھیں تاکہ وہ مختلف قوانین بنائے اور ان کو جاری کرے آج دنیا بھر میں رائج ڈیموکریسی حکومت اگر اکثریت سے جیت جائے یعنی 51% یا اس سے زیادہ ووٹ حاصل کرلے تو پھر اسے حق حاصل ھوتا ھے کہ وہ پورے معاشرہ کے لئے منجملہ ان لوگوں کے لئے (بھی) جنھوں نے حکومت کو ووٹ نھیں دیا ھے؛ قوانین بنائے اور ان کو لاگو کرے در حقیقت جب آدھے لوگوں نے نہ کہ سب نے حکومت کو ووٹ دئے ھیں صرف وھی لوگ حکومتی قوانین کو قانونی مانیں گے اور معاشرہ کے وھی لوگ ان قوانین کے سامنے اپنا سر تسلیم کریں گے لیکن یھاں پر ایک اھم سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ تقریباً آدھے لوگوں نے حکومت کو ووٹ ھی نھیں دیا اور حکومت کو اپنا وکیل ھی قرار نھیں دیا کہ ان کی طرف سے قوانین بنائے اور ان کو جاری کرے، تو پھر اس صورت میں حکومت کو کیا حق حاصل ھے کہ وہ ان کی اجتماعی زندگی کے لئے قوانین بنائے ، اور کس وجہ سے وہ ان پر حکم چلائے؟ اور اگر انھوں نے خلاف ورزی کی ھو تو ان کو سزائے اعمالتک پھونچائے؟ لھٰذا طے یہ ھوا کہ حکومت کے لئے اپنے مخالفین اور جن لوگوں نے اس کو ووٹ نھیں دیا ھے ؛ ان پر حکومت کرنے، اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنی اطاعت پر مجبور کرنے کے لئے کوئی (بھی) عقل پسند راستہ موجود نھیں ھے۔
تیسرا اشکال:
قارئین کرام ! موکل کو اپنے وکیل کو معزول کرنے کا حق ھوتا ھے، یا اس کے بنائے ھوئے منصوبوں کو لغو اور بے اثر کرنے کا حق ھوتا ھے لھٰذا اگر کوئی شخص ممبر آف پارلیمنٹ کو ووٹ دے کر انتخاب کرلے لیکن اس کے بعد اپنی رائے سے پلٹ جائے تو وہ اپنے نمائندہ کو اس مقام سے معزول کرسکتا ھے اس کے علاوہ وکیل کو صرف موکل کی مرضی کے مطابق ووٹ دینے کا حق ھوتا ھے اور یہ حق نھیں ھوتا کہ اپنے موکلوں کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھائے اب اگر تمام عوام الناس یا ان میں آدھے افراد کسی قانون کے مخالف ھوں ، تو حکومت اس قانون کو کس حق کے تحت جاری کر سکتی ھے؟
خلاصہ یہ ھے کہ ڈیموکریسی حکومت کی مشروعیت اور قانونی ھونے کے لئے کوئی عقل پسند راستہ موجود نھیں ھے! اور اس سلسلہ میں ڈیموکریسی نظریہ کے طرفدار لوگ یہ کھتے ھیں کہ ملک اور معاشرہ کوچلانے کے لئے ڈیموکریسی نظریہ سب سے بھترین نظریہ ھے کیونکہ اگر اقلیت کی مرضی کے مطابق حکومت بنے اور ان کی مرضی کے مطابق عمل کرے تو پھر اکثر عوام الناس کا حق ضایع ھوجائے گا جس کا نتیجہ یہ ھوگا کہ عوام الناس کی اکثریت مظاھرہ کرنے لگیں گے اور اس صورت میں ان کی شورش اور انقلاب کو روکنا مشکل ھوجائے گا یھی وجہ ھے کہ حکومت عوام الناس کی اکثریت سے انتخاب ھو اور ان کی مرضی کے مطابق عمل کرے؛ نہ یہ کہ حکومت عقل پسند مشروعیت رکھتی ھے۔
4۔ اسلام میں حکومت کی مشروعیت اور اس کا قانونی ھونا
اسلامی نظریہ کے مطابق، وہ عقل جو انسان سے کھتی ھے کہ فلاں کام اچھا ھے اور فلاں کام بُرا ھے، وھی عقل جو انسان سے کھتی ھے کہ ماں باپ، استاد اور عوام الناس تم پر حق رکھتے ھیں لھٰذا ان کے حقوق کو ادا کرنا چاھئے، وھی عقل انسان سے کھتی ھے کہ وہ خدا جس نے تمام دنیا، تجھے او ر تمام مخلوقات کو پیدا کیا ھے اس کے حقوق دوسروں سے بھت زیادہ اور عظیم ھیں اور انسان کو چاھئے کہ ان کو ادا کرنا چاھتے اب چونکہ خداوندعالم نے ھمیں پیدا کیا ھے اور ھمارے وجود بلکہ تمام کائنات کا مالک ھے اور تمام چیزیں اس کے ارادہ سے وجود میں آتی ھیں، اور اگر وہ ارادہ کرلے تو تمام چیزیں نابود ھوجائیں گی، اس نے اگر کسی کو قوانین نافذ کرنے کے لئے معین کیا ھے تو اس کا حکومت کرنا قانونی اور مشروعیت رکھتا ھے اور پھر عوام الناس کے قبول کرنے یا نہ کرنے کی ضرورت نھیں ھے جس وقت وہ خدا جو ھم پر سب سے زیادہ حقوق رکھتا ھے(بلکہ تمام ھی حقوق اسی کی طرف سے ھیں) اس نے حکومت اور ولایت کا حق پیغمبر، ائمہ معصومین علیھم السلام یا امام معصوم (ع) کے جانشین کو دیا ھے ، اس کو حق ھے کہ معاشرہ میں خدائی احکام نافذ کرے، کیونکہ یہ شخص اس ذات کی طرف سے منصوب ھوا ھے کہ کل ھستی، تمام اچھائیاں اور تمام حقوق وخوبصورتی اسی کی طرف سے ھے۔
اس بنا پر اسلامی حکومتی نظریہ میں جس میں حاکم اسلامی خداوندعالم کی طرف سے قوانین اور احکام الٰھی جاری کرنے کاحق حاصل ھوتا ھے،لھٰذا وھی مجرموں اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزائے اعمال تک پھونچا سکتا ھے، اور اس میں کسی بھی طرح کا کوئی تعارض نھیں ھے اور یہ نظریہ عقلی اصول پر (بھی) منطبق ھے البتہ یہ نظریہ ان لوگوں کے نزدیک قابل قبول ھے جو خداوندعالم پر ایمان رکھتے ھیں ورنہ اگر کوئی شخص خدا کو قبول نہ رکھتا ھو تو پھر وہ شخص اس نظریہ کو بھی قبول نھیں کرے گا، اور ھم پھلے اس کے لئے خداوندعالم کے وجودکا اثبات کریں اور اگر وہ خدا پر ایمان لے آتا ھے تو پھر اس موقع پر اس سے بیٹہ کر حکومت کے سلسلے میں اسلامی سیاسی نظریہ کے بارے میں بحث کریں لھٰذا جو افراد جو خدا ، رسول اور دین کو مانتے ھیں ان کے لئے بھترین راہ حکومت کی مشروعیت اور قانونی ھونے کے لئے یھی ھے کہ کل کائنات کا مالک خدا؛ معاشرہ کے مصالح کی رعایت کے لئے حق حکومت اپنے کسی (خاص) بندے کو عنایت کرتا ھے (تاکہ ا نسان معاشرہ کی خیر وبھلائی کے ساتھ آخرت کی سعادت بھی حاصل ھوجائے (
اسلامی معرفت کے پیش نظر اسی طرح اسلامی سیاسی نظریہ کی شناخت کی بنا پر معلوم یہ ھوتا ھے کہ انسانوں کے ایک دوسرے پر حقوق سے بالاتر خدا وند عالم حق ھے خداوندعالم کا، اس بنا پر اگر خداوندعالم اپنے کسی بندے کو کوئی کام کرنے کا حکم دے چاھے اس کے نقصان میں ھی کیوں نہ ھو تو اس کو انجام دینا چاھئے؛ البتہ خداوندعالم اپنے بے انتھا لطف وکرم اور مھربانی کی وجہ سے اپنی مخلوقات کے ضرر اور نقصان میں امر ونھی صادر نھیں کرتا، وہ کسی کا نقصان نھیں چاھتااور اس کے اوامر ونواھی انسان کی دنیا وآخرت کی مصلحت اور اس کی بھلائی میں ھوتے ھیں اور اگر خداوندعالم کے احکام کی تعمیل کی بنا پر انسان کو اس دینا میں کچھ نقصان بھی ھوتا ھے مثال کے طور پر اگر چند روزہ دنیا میں بعض لذتوں اور نعمتوں سے محروم رھتا ھے تو خداوندعالم اس کو آخرت میں جبران کردے گا اوردنیا میں ھوئے اس کے نقصان کے ھزاروں برابر اس کو ثواب اور اجر عنایت فرمائے گا۔
5۔ انبیاء علیھم السلام اور عوام الناس کی ھدایت کا طریقه
خدا وندعالم نے اپنی طرف سے انبیاء علیھم السلام کو بھیجا تاکہ عوام الناس کو دین اور دنیا کے خیر وبھلائی کی ھدایت کریں خدا کی طرف سے بھیجا ھوا نبی پھلے تو حق (خدا) کی طرف دعوت دیتا ھے اور خدا کی آیات کو لوگوں کے سامنے تلاوت کرتا ھے اور جب ان کو خدا کی شناخت اور معرفت ھوجاتی ھے اور وظائف اور تکالیف قبول کرنے کا زمینہ فراھم کرتا ھے در حقیقت اس مرحلہ میں نبی یا پیغمبر عقل منفصل کا کردار ادا کرتا ھے ، اور اس سلسلہ میں کسی بھی طرح کا کوئی زور اور دباؤ نھیں دیا جاتا اور ان کی آزادی سلب کئے بغیر ان کی عقل وفھم کو بلند کرتا ھے تاکہ ان میں آزادانہ طور پر انتخاب کا زمینہ فراھم ھوجائے اور آزادانہ طور پر اسلام اور اس کے عظیم احکام کو قبول کرنے کا مادہ پیدا ھوجائے۔
پیغمبر اس لئے مبعوث ھوتا ھے تاکہ لوگوں کو حق و باطل کی شناخت کرائے اور ان کو حق و باطل کے راستہ پر لاکر کھڑا کردے تاکہ اپنی مرضی اور آزادی سے یا راہ حق وحقیقت کا انتخاب کرلے یا باطل کا راستہ اپنالے اس کے لئے وہ اپنی طاقت کے ذریعہ رسالت کو قبول نھیں کراتا یا دباؤ ڈال کر اپنے نظریات لوگوں سے قبول نھیںکراتا،(کیونکھ) یہ ارادہ الٰھی کے برخلاف ھے، خداوندعالم کا ارادہ یہ ھے کہ عوام الناس حق وباطل کے راستہ کو پھچان کر آزادانہ طور پر کسی ایک کا انتخاب کریں لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ خدا کا بھیجا نبی پھلے مرحلہ میں عوام الناس سے رابطہ برقرار کرتا ھے اور ان کو اپنے سے مانوس کرتا ھے ان سے گفتگو کرتا ھے نیز عقل دلائل ، معجزات اور آیات الٰھی کے ذریعہ اپنا پیغام ان تک پھونچاتا ھے، اور حق (وحقیقت) کی پھچان کراتا ھے۔
انبیاء علیھم السلام خداوندعالم ، اس کی آیات اور الٰھی نظام کو مستقر ھونے کے سلسلہ میں عوام الناس پر کسی طرح کا کوئی سختی اور دباؤ نھیں ڈالتے تھے، ان کے اھداف میں لوگوں کی آزادی اور آگاھانہ انتخاب پر خاص توجہ رکھی جاتی تھی ، در حقیقت عوام الناس کی آزادی کا خیال دوسرے نظاموں سے زیادہ رکھا جاتا تھا، ان کی کوشش یہ ھوتی تھی کہ عوام الناس دعوت خدا اور نظام کو قبول کرنے میں مکمل طور پر آزاد ھوں اس کی وجہ بھی یہ ھے کہ انسان کو خلق کرنے سے خداوندعالم کا ھدف اور مقصد یہ ھے کہ انسان آزاد اور خود انتخاب کرنے والا ھو اور اپنے مکمل اختیار اور آزادانہ طریقہ سے راہ حق کا انتخاب کرے اور اسی کی ھدایت حاصل کرے، انبیاء علیھم السلام کا دعوت خدا اور نظام الٰھی کا قیام کے لئے اپنی طاقت اور زور کا استعمال کرنا؛ خداوندعالم کے ھدف اور مقصد سے ھم آھنگ نھیں ھے اگر طے یہ ھو کہ انسان کسی راستہ کو مجبوری کی حالت میں یا طاقت کے زور پر قبول کرے تو ھوسکتا ھے کہ وہ اس راستہ کی حقانیت کو نہ پھچانے، یھاں تک کہ شاید اس راستہ کے صحیح (بھی) نہ مانتا ھو؛ کسی بھی راستہ کی حقانیت اور اس کے صحیح ھونے کومعین کرنے کے لئے پھلے اس کے بارے میں شناخت اور معرفت ضروری ھے اور آزاد طور پر اس راستہ کو انتخاب کرنے کا زمینہ ھموار کیا جائے اور پھر خداوند عالم کے اس ھدف کے تحت کہ انسان علم و آگاھی کے ساتھ آزادانہ طور پر حق و حقیقت کا راستہ انتخاب کرے، خداوندعالم نے معجزہ کے ذریعہ راہ حق کو عوام الناس پر نھیں تھونپا ھے اور اس کی مرضی بھی یہ نھیں ھے کہ معجزہ کے ذریعہ لوگوں کو آزادنہ انتخاب سے روک دے اور ان کی مرضی میں تصرف کرے تاکہ غیر اختیاری طور پر راہ حق کوقبول کرلیں، اوراس کے مقابلہ میں سست پڑجائے، اسی وجہ سے خداوندعالم نے ارشاد فرمایا ھے:
( لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ اٴَلاَّ یَکُونُوا مُؤْمِنِینَ إِنْ نَشَاٴْ نُنَزِّلْ عَلَیْھمْ مِنَ السَّمَاءِ آیَةً فَظَلَّتْ اٴَعْنَاقُھمْ لَھا خَاضِعِینَ ) (1)
”(اے رسول)شاید تم (اس فکرمیں) اپنی جان ھلاک کر ڈالوگے کہ یہ (کفار)مو من کیوں نھیں ھو جاتے اگر ھم چاھیں تو ان لوگوں پر آسمان سے کوئی ایسا معجزہ نازل کر یں کہ ان لوگوں کی گر دنیں اس کے سامنے جھک جائیں “
6۔ عوام الناس کی ھدایت میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت
قارئین کرام ! اس بات پر توجہ رھے کہ خداوندعالم نے عوام الناس کی ھدایت کے لئے اپنی طرف سے انبیاء بھیجے تاکہ راہ حق و باطل میں شناخت کرائیں ، تاکہ وہ صحیح راہ کی شناخت اور معرفت کے بعد آزادانہ طور پر اس صحیح راستہ کا انتخاب کریں؛ بعض مستکبر اور منفعت طلب لوگ جو لوگوں کی جھل و نادانی سے ناجائز فائدہ اٹھاکر بھت زیادہ مال و دولت اکھٹا کرلیتے ھیں وہ لوگ انبیاء علیھم السلام کی دعوت حق اورلوگوں کی ھدایت میں اپنے شیطانی اھداف کی بنا پر مانع ھوتے ھیں، اور انبیاء علیھم السلام سے مقابلہ کے لئے کھڑے ھوجاتے ھیں، اور انبیاء علیھم السلام کو عوام الناس سے گفتگو بھی نھیں کرنے دیتے یا ان کو آیات الٰھی بھی نھیں سنانے دیتے تاکہ کھیں ایسا نہ ھوں کہ یہ لوگ ھدایت پاجائیں یہ لوگ اپنی طاقت کے بل بوتے پر عوام الناس کو بھت زیادہ آزار واذیت پھونچاتے ھیں اور ان کے لئے بھت سی مشکلیں پیدا کردیتے ھیں تاکہ عوام الناس ھدایت سے فیضیاب نہ ھوسکیں یہ لوگ جو عوام الناس کی ھدایت میں مانع ھوتے ھیں خداوندعالم نے ان کوقرآن مجید میں ”ائمہ کفر“ اور فتنہ وفساد کی جڑ کھا ھے ، اور حکم دیا کہ پیغمبر اور ان کے ساتھی ان سے مقابلہ کریں اور ان کو اپنے راستہ سے ھٹا دیں؛ کیونکہ ان کا وجود اور ان کی شیطانی اور باطل حرکتیں خدائی اھداف میں مانع ھوتی ھیں کیونکہ خداوندعالم تو یہ چاھتا ھے کہ تمام انسان ھدایت سے سرفراز ھوجائیں اور راہ حق و باطل کو پھچان لیں، لیکن یہ لوگ مانع ھوتے ھیں:
ارشاد رب العزت ھوتا ھے :
( فَقَاتِلُوا اٴَئِمَّةَ الْکُفْرِ إِنَّھمْ لاٰ اٴَیْمَانَ لَھمْ لَعَلَّھمْ یَنتَھونَ ) (2)
”تو تم کفر کے سربر آ وردہ لوگوں سے خوب لڑائی کرو ان کی چار قسموں کا ھرگز کوئی اعتبار نھیں ھے تاکہ یہ لوگ اپنی شرارت سے باز آجائیں“
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص سڑک پر گاڑی چلارھا ھے اور اس کے راستہ میں ایک بڑا سا پتھر موجود ھو تو اس کو اپنا راستہ طے کرنے کے لئے اس پتھر کو سڑک سے اٹھاکر دور پھیکنا پڑے گا، اور اس سلسلہ میں اپنی تمام تر کوششوں کو اس میں لگادے گا تاکہ اس پتھر کو اپنے راستہ سے ھٹا دے اصولی طور پر ھر صاحب عقل انسان اپنے راستہ میں آنے والی رکاوٹ کو دور کرتا ھے خداوندعالم بھی اپنے اس ھدف کے تحت کہ انسان ھدایت یافتہ ھوجائے؛ حکم دیا ھے کہ پیغمبر اور ان کے اصحاب ، بلکہ دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کو یہ حکم دیتا ھے کہ ھدایت کے سلسلہ میں موجود دنیا بھر کے استکبار ، بادشاہ، ستمگر، دولت پرست اور تمام شیطانی قدرتوں کے ساتھ جنگ کریں اور ان کو نابود کردیں۔
خلاصہ یہ کہ : خداوندعالم کا فرمان یہ ھے کہ انسانوں کی ھدایت میں جو لوگ مانع ھوں (اھل کفر وباطل)ان کے ساتھ طاقت کے ذریعہ مقابلہ کیا جائے اور شدت پسندی کو ان کے حق جائز قرار دیا گیا ھے خداوندعالم نھیں فرماتا کہ ان کے ساتھ بیٹہ کر مسکرائیں اور خوش لھجہ، تبسم ، التماس اور التجا کریں کہ آپ حضرات اجازت دیں تاکہ ھم عوام الناس کی ھدایت کریں! اگر وہ اس درخواست کو قبول کرنے والے ھوتے اور اپنی خوش لھجہ زبان سے اپنی برے چال چلن سے رکنے والے ھوتے تو پھر وہ مستکبر ھی کیوں ھوتے ان میں بنیادی طور پر استکبار ، حیوانیت اور سرکشی ان کے اندر شامل ھے، وہ تو یہ چاھتے ھیں کہ دوسرے انسانوں کو اپناغلام بنا نا چاھتے ھیں اور ان کاخون پی لینا چاھتے ھیں ، وہ اس چیز کی اجازت نھیں دیتے کہ ان کے منافع خطرہ میں پڑجائیں،اسی وجہ سے یہ لوگ نھیں چاھتے کہ عوام الناس ھدایت یافتہ ھوجائیں اور انبیاء (علیھم السلام) کے فرمانبردار بن جائیں مومنین اور ھدایت کے طلبگاروں کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ باقی نھیں ھے کہ ان لوگوں سے شدت اور تشدد کے ساتھ برتاؤ کیا جائے، اسی وجہ سے خداوندعالم اپنے پیغمبر اکرم (ص) کو قرآن مجید میں حکم دیتا ھے کہ ان لوگوں سے جنگ کریں اور تشدد اور غصہ کے ساتھ ان کا مقابلہ کریں وھی پیغمبرجس کی صفت خداوندعالم یوں بیان فرماتا ھے:
( فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنْ اللهِ لِنْتَ لَھمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ ) (3)
”(تو اے رسولیہ بھی)خدا کی ٍٍ ٍٍٍٍٍٍٍٍٍایک مھربانی ھے کہ تم (سا) نرم دل )سردار) ان کو ملا اور تم اگر بد مزاج اور سخت دل ھوتے تب تو یہ لوگ(خدا جانے کب کے )تمھارے گروہ سے تتر بتر ھو گئے ھوتے “
دوسری جگہ پیغمبر اکرم (ص) کو حکم ھوتا ھے کہ کفار (مشرکین اور منافقین) سے شدت کے ساتھ مقابلہ کریں اور ان سے جنگ کریں، اور شدت پسندی کو ان کے حق میں جائز جانتا ھے، ارشاد ھوتا ھے:
( یَااٴَیُّھا النَّبِیُّ جَاھدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ وَاغْلُظْ عَلَیْھمْ وَمَاٴْوَاھمْ جَھنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ )(4)
”اے رسول کفار کے ساتھ (تلوار سے)اور منافقوں کے ساتھ (زبان سے) جھاد کرواور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکا نا تو جھنم ھی ھے اور وھ( کیا)جگہ ھے “
ایک دوسری جگہ خداوندعالم اپنے پیغمبر (ص) کوحکم دیتا ھے کہ جو لوگ مسلمانوں کی جان اور مال کے لئے خطرہ بنے ھوئے ھیں ان کے سات شدت پسندی سے برتاؤ کریں، اور جیسے وہ کریں ان کو ویسا ھی جواب دیں، اور بھت زیادہ شدت کے ساتھ جنگ کریں، ارشاد ھوتا ھے:
( وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَاقْتُلُوھمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوھمْ وَاٴَخْرِجُوھمْ مِنْ حَیْثُ اٴَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَةُ اٴَشَدُّ مِنْ الْقَتْلِ وَلاَتُقَاتِلُوھمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیہ فَإِنْ قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوھمْ کَذَلِکَ جَزَاءُ الْکَافِرِینَ ) (5)
”اور جو لوگ تم سے لڑیں تم (بھی) خدا کی راہ میں ان سے لڑو اور زیادتی نہ کرو (کیونکہ ) خدا زیادتی کرنے والوں کو ھرگز دوست نھیں رکھتا ۔اور تم ان مشرکوں ) کو جھاں پاوٴ مار ھی ڈالو اور ان لوگوں نے جھاں (مکہ سے)سے تمھیں شھر بدر کیا ھے تم بھی انھیں باھر نکال دو۔اور فتنہ پر دازی (شرک) خونریزی سے بھی بڑہ کے ھے اور جب تک وہ لوگ (کفار) مسجد حرام (کعبھ) کے پاس تم سے نہ لڑیں تم بھی ان سے اس جگہ نہ لڑو پس اگر وہ تم سے لڑیں تو (بے کھٹک) تم بھی ان کو قتل کرو۔کافروں کی یھی سزا ھے۔“
7۔ الٰھی اقدار کی حفاظت اور مغربی کلچر سے روک تھام ضروری ھے
دشمنوں سے مقابلہ اور جھاد، شجاعت، غیرت، حمیت، دینی تعصب، دین سے رغبت، فداکاری اور ایثار وغیرہ بھترین اور عظیم ترین اسلامی اقدار ھیں جن کی وجہ سے مسلمانوں میں دینی پھچان، حیات، استقلال اور آزادی وجود میں آتے ھیں لیکن اس کے مقابلہ میں مغربی کلچر (والے) یہ چاھتے ھیں کہ کچھ جھوٹے اور خود ساختہ اقدار جیسے مطلق طور پر شدت پسندی کو منع کرنا (وغیرھ) کے ذریعہ ھماری سلامی اقدار کو ھم سے چھینا چاھتے ھیں؛ اسی وجہ یہ کھتے ھیں کہ شدت پسندی مطلق طورپر مذموم اور محکوم ھے!!
جی ھاں ھم بھی مانتے ھیں کہ ابتداء میں کسی کے ساتھ شدت پسندی مذموم اور محکوم ھے ، لیکن کیا شدت پسندی کے مقابلہ میں شدت پسندی یا ظلم وستم، قتل وغارت، جان و مال اورناموس پر تجاوز ، اور ان سب سے مھم اسلام (جس کے لئے مسلمانوں کی جان بھی قربان ھے) ؛ سے خیانت کرنے والوں کے مقابلہ میں بھی شدت پسندی بری اور محکوم ھے؟ مسلّم طور پر اس طرح کی شدت پسندی نہ صرف یہ کہ مذموم اور محکوم نھیں ھے بلکہ ضروری اور ھر مسلمان کی خواھش ھے۔
تو پھر کیوں ھم سے یہ چاھتے ھیں کہ ھم اپنے دینی اقدار کو پامال ھوتے ھوئے دیکھیں جو کہ ھمیں جان سے بھی زیادہ عزیز ھے ان کو تمھارے ھاتھوں برباد ھوتا ھوا دیکھیں اور اپنے منہ پر ھاتہ رکہ لیں اور کچھ نہ کریںاور ان کے ساتھ بیٹہ کر مسکرائیں؛ پس خداوندعالم نے انسان میں غضب کو کس لئے پیدا کیا ھے؟ کس لئے ھمارے اندر قھر وغضب کے احساس کو پیدا کیا؟ آیا کچھ شدت پسند، خائن اور زر خرید غلاموں کے مقابلہ میں کچھ بھی اقدام نہ کریں یھاں تک کہ اگر ھمارا دین بھی خطرہ میں پڑ جائے کچھ بھی نہ بولیں اور شدت پسندی کو نہ اپنائیں؛ بلکہ آرام سے بیٹھے ھوئے مسکراتے رھیں، پس یہ آیت کریمہ کس کے لئے ھے:
( وَاقْتُلُوھمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوھمْ )
کس لئے خداوندعالم نے یہ ارشاد فرمایا ھے:
(مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِینَ مَعَہ اٴَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَھمْ )(6)
”محمد (ص) اللہ کے رسول ھیں اور جو لوگ انکے ساتھ ھیںوہ کفار کے لئےسخت ترین اور آپس میں انتھائی رحم دِل ھیں “
کھتے ھیں کہ اسلام تشدد اور شدت پسندی کا مخالف ھے، توآپ حضرات کھیں کہ اسلام کس شدت پسندی کا مخالف ھے؟ بعض مبھم چیزوں کو مطلق اقدار کے عنوان سے پیش کرتے ھیںتاکہ حقیقت کو چھپاسکیں، تاکہ شھادت طلبی، ایثار اور شجاعت وغیرہ کو لوگوں سے چھین لیں، اور ان کی جگہ بے توجھی، دین سے لاابالی اور دینی اور ملّی غیرت وغیرہ جیسے چیزوں کو عوام الناس میں رائج کریں۔
ھمیشہ تساھل(سستی) اور تسامح (ذو معنیٰ باتیں کرنا)کی باتیں کرتے ھیں ، کیا جو شخص ھماری جان کے لئے خطرہ ھو اس کے مقابلہ میں تساھل اور تسامح سے کام لیا جاسکتا ھے؟! کیا وہ شخص جو انسانی ناموس میں خیانت کرے اس کے ساتھ تساھل اور تسامح سے کام لیا جاسکتا ھے؟ کیا وہ شخص جو ھمارے دین کو جو ھماری جان سے بھی زیادہ عزیز ھے ؛ ھم سے چھین لینا چاھتا ھو اس کے مقابلہ میں تساھل اور تسامح سے کام لیا جاسکتا ھے؟!
اس بنا پر ، اسلامی حکومت کی تشکیل سے پھلے عوام الناس کی ھدایت کرنا ضروری ھے ، اور اس مرحلہ میں عوام الناس سے سخت لھجہ میں گفتگو نھیں ھونا چاھئے، اور سختی اور طاقت کے بل بوتے پر اسلامی حکومت کے تحقق کے لئے قدم نہ اٹھایا جائے اسی طرح اس مرحلہ میں لوگوں سے جھوٹے وعدے، فریب کاری اور گمراہ کنندہ وسائل کے ذریعہ عوام الناس کی صحیح ھدایت میں مانع ھونا صحیح نھیں ھے اس مرحلہ میں بھر پور سنجیدگی، بردباری، حوصلہ، صبر اور بھرپور وضاحت ، صداقت اور منطق اور عقل کی بنیاد پر عوام الناس سے گفتگو کی جائے تاکہ وہ حقیقت تک پھونچ جائیں اور غفلت وجھالت سے نجات پیدا کرلیں البتہ اس سلسلہ میں پیش آنے والی تمام تر رکاوٹوں کو راستہ سے ھٹایا جائے، اور جو لوگ عوام الناس کی ھدایت میں مانع ھوتے ھوں ان سے مقابلہ کیا جائے تاکہ عوام الناس کے لئے حق وحقیقت کے راستے کو انتخاب کرنے کا راستہ فراھم ھوجائے۔
جس وقت عوام الناس کا ایک گروہ حق کی طرف ھدایت پاجائے تو پھر اس حق کے پیروکاروں میں اضافہ کرنے کے لئے اور ااسلامی اور الٰھی معاشرہ کی وسعت کے لئے عوام الناس میںثقافتی کارکردگی اور راھنمائی صبر وتحمل کے ساتھ ھوتی رھیں؛ جیسا کہ خداوندعالم بھی اپنے پیغمبر کو قرآن کریم میں اپنی رسالت کے پھونچانے میں صبر وتحمل کی طرف دعوت دیتا ھے اور آپ سے یہ چاھتا ھے کہ سختیوں، بری بھلی باتوں، گالیوں، سخت برتاؤ اور اذیتوں کے مقابلہ میں صبر وتحمل سے کام لیں تاکہ عوام الناس ھدایت یافتہ ھوجائیں:
( فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اٴُوْلُوا الْعَزْمِ مِنْ الرُّسُلِ ) (7)
” اے رسول )پیغمبروں میں سے جس طرح اولوالعزم (عالی ھمت)صبر کرتے رھے تم بھی صبر کر۔
8۔ قوانین کو جاری کرنے اور دشمن نظام سے بھر پور مقابله
قارئین کرام ! جس وقت خداوندعالم کی مرضی کے مطابق اسلامی حکومت تشکیل پائے، تو معاشرہ میں اسلامی احکام اور قوانین جاری ھوں اور دوسری حکومتوں کی طرح اس میں قوہ قھریہ (پولیس یا فوج) سے استفادہ کیا جائے، نیز حکومت کے پاس خلاف ورزی کرنے والوں سے مقابلہ کے لئے کافی اسباب و وسائل موجود ھوں، اور مجرموں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے زندان، جرمانہ اور دوسری سزائیں معین کی جائیں، اور بیرونی دشمنوں نیز اندرونی فتنہ وفساد سے روک تھا م کے لئے پولیس اور فوج کا انتظام کیا جائے؛ کیونکہ حکومت صرف اخلاقی طور پر وعظ ونصیحت سے اپنا کام نھیں چلا سکتی وہ حاکم جس کے پاس طاقت اور قدرت نہ ھو اور فقط وعظ ونصیحت اور تذکر پر اکتفاء کرے وہ اخلاقی معلم تو ھوسکتا ھے حاکم نھیں ھو سکتا!!
پس جس قوت اسلامی حکومت اور قانونی حکومت تشکیل ھوجائے اور عوام الناس اس حکومت کو قبول کرلیں اور اس کی بیعت کرلیں، نیزحکومت بھی اسلامی قوانین اور احکام کو جاری کرنے اورملکی مسائل میں رسیدگی کرنے میںمشغول ھوجائے، تو اگر کوئی گروہ فتنہ وفساد اور آشوب برپا کرے تو اس سے مقابلہ ضروری ھے جیسا کہ ھماری اسلامی فقھی کتابوں میں وارد ھواھے کہ فتنہ وفساد اور آشوب برپا کرنے والوں (جن کو اصطلاحاً ”اھل بغی“ (بغاوت کرنے والے) کھا جاتا ھے) سے جھاد واجب ھے جس طرح حضرت علی علیہ السلام نے فتنہ وفساد پھیلانے والوں سے مقابلہ کیا ھے اور ان کو اپنی جگہ بٹھا دیا ھے۔
حضرت رسول اکرم (ص) کی وفات غم ناک کے بعد عوام الناس حضرت علی علیہ السلام کی بیعت پر آمادہ نھیں ھوئی جس کے نتیجہ میں حکومت دوسروں کے ھاتھوں میں چلی گئی، (اس وقت بھی) حضرت علی علیہ السلام نے لوگوں کی ھدایت فرمائی اور ان کی راھنمائی کی ھے ، اور حضرت نے 25/ سال سے اپنے اس وظیفہ کو انجام دیا اور حکومت (وقت) سے کنارہ کشی اختیار کرلی لیکن جس وقت اسلامی ممالک مثل مصر، عراق اور مدینہ منورہ کے ایک بڑے مجمع نے آپ کی خدمت میں حاضری دی اور آپ کی بیعت کی ، اور آپ کو اپنا امام اور مقتدا تسلیم کرلیا، اس وقت حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اوپر حجت تمام دیکھی اور عوام الناس پر حکومت کرنے کا اپنا فریضہ سمجھا کیونکہ اس عظیم مجمع کی بیعت کے پیش نظر جس کا وجود تاریخ میں بے نظیر ھے ؛ حکومت سے دور رھنے کی کوئی دلیل باقی نھیں رھی ، لھٰذا آپ حکومت قبول کرنے پر مجبور ھوگئے؛ حالانکہ آپ کو حکومت سے ذرا بھی دلچسپی نہ تھی ، اور صرف عوا م الناس کی بیعت کے ذریعہ الٰھی وظیفہ کا احساس کرتے ھوئے حکومت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں سنبھالی، جیسا کہ آپ نھج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ھیں:
”اَمَا وَ الَّذِی فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَاٴ الْنَسَمَةِ لَولٰا حُضُورُ الْحَاضِرِ وَ قَیَامُ الْحُجَّةِ بِوُجُوْدِ النَّاصِرِ، وَمَا اَخَذَ اللّٰہ عَلَی الْعُلَمَاءُ اَنْ لٰا یُقَارُّوْا عَلٰی کَظَّةِ ظَالِمٍ وَلاٰ سَغَبِ مَظْلُوْمٍ لَاَلْقَیْتُ حَبْلَھا عَلَی غَارِبِھا وَلَسَقِیْتُ آخِرَھا بِکَاْسِ اَوَّلِھا وَلَاَلْفَیْتُمْ
دُنْیَاکُمْ ھٰذِہ اَزْھدَ عِنْدِیْ مِنْ عَفَطَةِ عَنْز “ (8)
دیکھو! اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں ،اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ھو گئی ھوتی ، اور خدا وندعالم نے علماء سے یہ عھد و پیمان نہ لیتا کہ وہ ظالم کی شکم پری اورمظلوم کی گرسنگی پر سکون وقرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو پھلے والے کے کاسہ سے سیراب کرتا اور میری نظر میںتمھاری دنیا کی قیمت بکری کی ناک سے بھتے پانی کی طرح ھے۔
لیکن ابھی حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کو صرف چند ھی دن گذرے تھے کہ دنیا پرست اور تبعیض اور بے عدالتی چاھنے والوں نیز اپنے کو دوسروں سے بھتر جاننے والے حضرت علی علیہ السلام کی عدالت کو برداشت نہ کرسکے اسی طرح وہ لوگ جو حضرت علی علیہ السلام کی حکومت میں اپنی شیطانی تمناؤں اور غاصب اور غیر قانونی حکومت کو خطرہ میں دیکہ رھے تھے ، اسی طرح وہ سادہ لوح مسلمان جو صحیح اسلامی نظریہ کو سمجھنے سے قاصر تھے نیز ان کی فکر پست اور ھٹ دھرمی کی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام کی عظیم حکمت عملی کو نھیں سمجھ رھے تھے، یہ تمام لوگ ایک کے بعد ایک فتنہ وفساد اور آشوب برپا کرنے لگے ، چنانچہ جنگ جمل، جنگ صفین اور آخر کار جنگ نھروان رونما ھوئیں اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام ایک اسلامی حاکم کے عنوان سے ؛ جب آپ نے الٰھی اور اسلامی قوانین و احکام کو خطرہ میں دیکھا تو آپ کا کیا وظیفہ تھا؟ کیا آپ ھاتہ پر ھاتہ رکھے تماشا دیکھتے رھتے!! اور فتنہ وفساد اور آشوب کی روک تھام نہ کرتے؟! کیونکہ تشدد اور شدت پسندی محکوم اور مذموم ھے؟!!
لیکن حضرت علی علیہ السلام نے اس وقت اسلامی حکومت اور اس کے ارکان کی حفاظت کے خاطر تلوار اٹھالی اور باغی اور سرکش لوگوں کے ساتھ جنگ کی ، جنگ جمل میں بھت سے صحابی رسول یھاں تک کہ طلحہ و زبیر جو مدتوں تک رسول اکرم (ص) کے ساتھ مل جھاد کرتے تھے؛ کو قتل کیا حالانکہ زبیر آپ کا پھوپھی زاد بھائی تھا اور اس کی جانفشانی اور آنحضرت (ص) کے بزم میں اپنے صلاحیت کی وجہ سے آنحضرت (ص) نے اس کے لئے دعا فرمائی ھے، لیکن حضرت علی علیہ السلام نے نھیں فرمایا: کہ اے زبیر ! تو میرا پھوپھی زاد بھائی ھے اور دونوں دوستی کرلیں، اور میں تجھ سے نرم رویہ اختیار کروں گا اور تیری چاھتوں کو پورا کردو ں گا بلکہ آپ نے اس عقیدہ کے ساتھ کہ چونکہ میری حکومت حق ھے لھٰذا جو لوگ اس کے مقابلہ میں سرکشی کریں گے ان کو پسپا کردیا جائے لھٰذا آپ نے پھلے ان کو وعظ اور نصیحت فرمائی لیکن جب انھوں نے نہ مانا تو پھر تلوار کا سھارا لیا اور ان کو پسپا کردیا اور بھت سے لوگوں کو قتل کر ڈالا کیونکہ آپ کی نظر میں خدا اور مسلمانوں کا حق ذاتی مفاد سے کھیں بالاتر تھا اور اسلامی نظام کو باقی رکھنے کے لئے تشدد اور شدت پسندی کو ضروری سمجھا؛ کیونکہ اسلامی نظام کی حفاظت کے لئے تشدد اور شدت عمل کو واجب سمجھتے تھے۔
9۔ سازش کرنے والوںاور زر خرید غلاموں کے مقابلہ میں عوام الناس کی ھوشیاری
قارئین کرام ! اسلامی انقلاب سے پھلے جب اسلامی حکومت تشکیل نھیں ھوئی تھی حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ اپنی تقاریر اور مکاتبات کے ذریعہ عوام الناس کی ھدایت اورراھنمائی کرتے تھے اور حکومت کو نصیحت فرمایا کرتے تھے؛ لیکن جس وقت لوگوں نے امام خمینی (رہ) کی بیعت کی اور اسلام پر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ھوگئے اور اسلام دشمن طاقتوں کو ملک سے باھر نکالنا چاھتے تھے اور اس ملک میں اسلامی و الٰھی حکومت کے خوھاں تھے، اس وقت حضرت امام خمینی (رہ) نے حکومت کی ذمہ داری قبول کی اور فرمایا:
”میں اس ولایت کی مشروعیت کی بنا پر جس کو خداوندعالم نے مجھے عطا فرمائی ھے نیز آپ حضرات کی مدد اور کمک کے ذریعہ اس حکومت کا جنازہ نکال دونگا اور خود حکومت بناؤں گا۔“
یعنی امام خمینی (رہ)ولی فقیہ کے عنوان سے عوام الناس پر حکومت کا حق رکھتے تھے اور آپ کی ولایت الٰھی مشروعیت اور قانونیت رکھتی تھی، لیکن جب تک عوام الناس میدان میں نہ آئی اور آپ کی بیعت نہ کی ، اس وقت تک اس ولایت نے عینی تحقق پیدا نہ کیا؛ لیکن عوام الناس کے میدان میں آنے اور انقلابی صحنوں کم نظیر حاضر ھونے اور راہ اسلام و رھبری کی اتباع کرنے میں وفاداری اور جانفشانی کے اعلان کے بعد ، وہ الٰھی ولایت عینی تحقق موجود ھوگئی اور اسلامی حکومت تشکیل ھوگئی۔
بے شک کہ اس اسلامی حکومت کو لاکھوں شھیدوں کا خون دینا پڑا ھے جس کی وجہ سے آج بھی باقی ھے اور بھت عظیم فدارکار اور انقلاب کے فداکاروں کے ذریعہ اس ملک کی سر حد اور انقلابی اقدار کی حفاظت میں مشغول ھیں لھٰذا چند زر خرید غلاموں کے ذریعہ اس کو کوئی نقصان نھیں پھونچنا چاھئے ھمارے عوام الناس اس چیز کی کبھی اجازت نھیں دیں گے کہ چند خود فروش مزدوروں کے ذریعہ ؛ اسلامی مصالح، لوگوں کی جان ومال اور ناموس خطرہ میں پڑ جائیں جو لوگ اس مرحلہ میں (18 تیر ماہ 1378ھجری شمسی کے بعد سے(9) کچھ آشوب بپا کرنے والے مزدوروں اور دوسروں کی روٹیوں پر پلنے والے سڑکوں پر نکل کر آشوب بپا کرنے لگے اور لوگوں کے گھروں، دکانوں وغیرہ کو آگ لگائیں اور بھت زیادہ لوٹ مار کریں، لوگوں کی ناموس اور عزت کو پامال کریں ، تو کیا ان تمام لوگوں کا سختی کے ساتھ مقابلہ نہ کیا جائے؟!! اور کیا اسلام تشدد کی اجازت نھیں دیتا؟! یا یہ کہ ان لوگوں نے اسلام کو نھیں پھچانا ، یا پھر وہ مسلمانوں کے ساتھ خیانت کرنا چاھتے ھیں!!
ھنسی اور لوریاں دے کر تو آشوب گری سے روک تھام نھیں کی جاسکتی، ان کے مقابلہ میں پولیس، تشدد اور شدت عمل کے ذریعہ برتاؤ کیا جائے اور طاقت کے بل بوتے پر ان کی روک تھام ھوسکتی ھے، جس کے بعد پھر کبھی ملک میں اس طرح کے درد ناک حوادث رونما نہ ھونے پائیں کیونکہ ھمارے برادران ان لوگوں کے فریب میں نھیں آئیں گے جو کھتے ھیں کہ تشدد اور شدت پسندی ھمیشہ اور مطلقاً ممنوع ھے، ان کی باتوں کو نھیں مانیں گے اور اگر آج تک صبر کیا اور خون جگر پیا ھے تو وہ مقام معظم رھبری حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای مد ظلہ کی طاعت اور فرمانبر داری کی وجہ سے ھے، ورنہ تو جب ھمارے فداکار لوگوں کو یہ احساس ھوجائے کہ مقام معظم رھبری فلاں کام پر دل سے راضی نھیں ھیں تو پھر ان کی مرضی کے لئے اپنی جان کی بازی بھی لگاسکتے ھیں چنانچہ پوری دنیا نے دیکھا کہ جب مقام معظم رھبری نے ساکت رھنے اور آرام سے رھنے کے لئے کھا تو سبھی لوگ آپ کی اطاعت اور عمومی مصالح کی بنا پر سب بیٹھے دیکھتے رھے اور خون جگر پیتے رھے اور جب تک آپ کا اشارہ نہ ھوا سڑکوں پر نہ آئے اور مظاھرے نہ کئے، لیکن جیسے ھی انقلاب سے وفاداری کے اعلان کا وقت آپھنچا تو دشمنوںکو دکھادیا کہ ھم ھمیشہ اسلام اور انقلاب سے دفاع کرنے کے لئے حاضر ھیں، پورے ملک میں وہ عظیم مظاھرے ھوئے جن پردنیا بھر کے لوگوں اور خود دشمنوں نے تعجب کیا۔
حوالے
(1)سورہ شعراء آیت 3 تا 4
(2) سورہ توبہ آیت 12
(3)سورہ آل عمران آیت 159
(۴) سورہ توبہ آیت 73
(5) سورہ بقرہ آیت 1950 تا 191
(6) سورہ فتح آیت 29
(7)سورہ احقاف آیت 35
(8( نھج البلاغہ خطبہ نمبر 3
(9)یہ تھران یونیورسٹی میں ھونے والے حادثہ کی طرف اشارہ ھے جس کی آگ وھاں سے شروع ھوکر شھر کے مختلف مقامات تک پھنچی اور جس میں امریکہ غلاموں نے قتل وغارت اور بربریت کا وہ کھیل کھیلا جس سے انسانیت لرز اٹھی یھاں تک کہ عبادت گاھوں اور مساجد میں آگ لگادی گئی (مترجم(
سیتیسواں جلسہ
تشدد کے سلسلہ میں ایک تحقیق
1۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر
ھم نے عرض کیا کہ اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ھوتی ھے کہ معاشرہ میں اسلامی قوانین نافذ کرے اور امن وامان برقرار رکھے نیز ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھے ظاھر سی بات ھے کہ اس سلسلہ میں پولیس ، طاقت اور تشدد سے کام لیا جائے گا اور جو لوگ اسلامی ملک سے دشمنی اور عناد کی بنا پر جنگ وجدال کرتے ھیں؛ ان سے پیار ومحبت اور نرمی کے ساتھ مقابلہ نھیں کیا جاسکتا، یا وہ لوگ جو اندرون ملک شیطانی حرکتوں کے تحت فساد کرتے ھیں ؛ ان سے پیار ومحبت کے ذریعہ ان سے مقابلہ نھیں کیا جاسکتا۔
ھم نے یہ بھی عرض کیا کہ جس طرح سے اسلامی قوانین رحمت ومحبت اور مھربانی پر مبنی ھوتے ھیں اور اسلام پیام دوستی ومحبت دیتا ھے؛ اسی طرح خاص مواقع پر طاقت، سخت رویّےاور خشونت (شدت پسندی)سے بھی کام لیا جاتا ھے، اور اسلام مجرموں اورفساد کرنے والوں کے ساتھ مقابلہ کرنے اور سزا دینے کا بھی حکم دیتا ھے لیکن چونکہ یہ بحث ایک فرعی تھی اور اس بحث کا شمار ھماری اصلی بحث میں نھیں ھوتا، لھٰذا مختصر طور پر اس سلسلہ میں گفتگو ھوئی لیکن حق مطلب ادا نھیں ھوسکا لیکن اس سلسلہ میں اخباروں اور جرائد میں ھونے والے عکس العمل (ری ایکشن) سے اندازہ ھوتا ھے کہ محبت اور تشدد کے سلسلہ میں مزید تفصیلی بحث کی ضرورت ھے، لھٰذا اس جلسہ کے لحاظ سے اس موضوع پربعض چیزیں بیان کرتے ھیں۔
2۔ دشمنوں کی طرف اسلام کے خلاف پروپیگنڈا اور کارکردگی
ایک زمانہ سے اسلام کے دشمنوں نے دین اسلام کو تشدد اور شدت پسندی کا دین قرار دے رکھا ھے اور کھتے ھیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ھے، کیونکہ اسلام نے دشمنوں سے جھاد اور مقابلہ کو قابل ستائش قرار دیا ھے، چنانچہ قرآنی بھت سی آیات جھاد کے بارے میں موجود ھیں، اور جھاد کو فروع دین قرار دیا گیا ھے۔
چنانچہ بعض لوگ اس مسئلہ سے نا جائز فائدہ اٹھاتے ھوئے کھتے ھیں کہ اسلام، تشدد اور شدت پسندی کا دین ھے ، اور اسلام پھیلانے کے لئے طاقت اور تلوار کا استعمال کیا گیا ھے، یعنی لوگوں نے ڈر کر اسلام کوقبول کیا ھے ان کے مقابلہ میں بعض لوگوں نے اس نظریہ سے متاثر ھوتے ھوئے دفاعی لھجہ اختیار رکرتے ھوئے کھا کہ اسلام میں تشدد نھیں ھے، اسلام ھمیشہ پیار ومحبت کی دعوت دیتا ھے، اور جھاد یا شدت پسندی کے مسائل ایک خاص زمانہ اور خاص مقام سے مخصوص تھے ، عصر حاضر میں ان مسائل سے کوئی سروکار نھیں ھے، اور ان کو (آج کل) بیان بھی نھیں کرنا چاھئے، آج کل صرف پیار محبت اور جھک کر باتیں کرنا چاھئے!
ھماری ملت جانتی ھے کہ دشمن کن اغراض ومقاصد کے تحت اسلام کے خلاف پروپیگنڈاکررھا ھے لھٰذا ھماری ملت دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر نھیں ھوتی لیکن توجہ رھے کہ مسئلہ یھی پر ختم نھیں ھوتا بلکہ اس سے آگے قدم رکھا جاتا ھے ، اور جیسا کہ آپ حضرات جانتے ھیں کہ آج اسلامی دشمن طاقتیں نئے نئے طریقوں سے اسلام کے خلاف پروپیگنڈاکررھی ھیں اور ھر روز مختلف طریقوں؛ جیسے ادبی، ھنری اور دیگر طریقوں سے اسلامی معارف میں شبھات و اعتراضات وارد کررھی ھیں، تاکہ ھماری ثقافت میں خطرناک برے آثار پھیلادیں تاکہ عوام الناس دینی سلسلہ میں کمزور ھوجائیں یہ وہ چیز ھے جس کے بارے میں نفسیاتی اور ذاتی تجربات شھادت دیتے ھیں۔
ھم نے اپنی آنکھوں سے اپنے اسلامی معاشرہ اور دوسرے اسلامی ملکوں کو دیکھا ھے کہ جس وقت اسلام دشمن طاقتیں اپنے مختلف طریقوں سے مسلسل پروپیگنڈاکرتی ھیں اور کسی ایک معاشرہ کو تحت تاثیر قرار دیتی ھیں ، یھاں تک کہ آنے والی نسل (جودشمن کے مد نظر ھوتی ھے) دشمن کی تبلیغ سے متاثر ھوجاتی ھے، اور جوان طبقہ دشمن کے پروپیگنڈے کی زد میں آکر اپنی دینی اور قومی حیثیت بھول جاتا ھے اور جیسا کہ دشمن چاھتا ھے اپنی اصلی حیثیت کو بھول کر دشمن کی پیش کردہ صورت اپنالیتا ھے۔
اگر ھم عصرِ حاضر کی ثقافت خصوصاً روشن خیال رکھنے والوں کے یھاں رائج ثقافت کو دیکھیں تو دشمن کے پروپیگنڈے کے آثار واضح طور پر دکھائی دیں گے، اور ان چیزوں کا بھی مشاھدہ کرلیں گے جو دشمن نے ھماری یھاں رائج کی ھیں ھماری ثقافت میں دشمن کی رائج کردہ چیزوں میں سے آزادی اور ڈیموکریسی ھیںجس کو مطلق اقدار کی صورت میں ھمارے معاشرہ میں رائج کردیا گیا ھے، اور ان چیزوں کے بارے میں اس قدر پروپیگنڈا کیا جاتا ھے کہ گویا ایک بت ھے کہ کوئی اس ڈیموکریسی کے خلاف بولنے کی جرائت نھیں کرتا اور نہ ھی اس کے نقائص کو بیان کرسکتا ھے حالانکہ خود مغربی دانشور وں نے ڈیموکریسی کے سلسلہ بھت زیادہ اور سخت تنقید کی ھے، اور آج بھی بھت سے سیاسی فلاسفہ اور سماج ماھرین مختلف مواقع پر ڈیموکریسی کے برخلاف گفتگو کیا کرتے ھیں نیز اس سلسلہ میں کتابیں بھی لکھی جاتی رھی ھیں، اور یھی نھیں بلکہ ان میں سے بعض (بھترین) کتابوں کا دنیا کی مختلف مشھور زبانوں میں ترجمہ ھوتا ھے منجملہ فارسی (و اردو) ، ان کو عوام الناس پڑھتے ھیں؛ لیکن اس زمانہ میں دشمنوں کی طرف سے ڈیموکریسی کے اس طرح مقدس جلوہ دکھائے جاتے ھیں کہ جھان سوم میں کوئی اس کے خلاف بولنے کی جرائت نھیں کرتا اور اس سلسلہ میں تنقید نھیں کرسکتا، اگر کوئی مغربی ممالک میں رائج ڈیموکریسی اور آزادی کے بارے میں زبان کھولے تو اس کو بیک ورڈ اور ظلم واستبداد جیسی تھمتوں سے نوازا جاتا ھے۔
3۔ مغربی ممالک میں حقوق بشر کا جھوٹا دعویٰ
بے شک مغربی باشندے اپنے پروپیگنڈوں کے پیچھے ایک خاص مقصد چھپائے ھوئے ھیں، اور اپنے منافع کے خاطر نیز انقلابی ممالک کو اپنے تحت لانے کے لئے ھمیشہ ڈیموکریسی، آزادی اور حقوق بشر کا دم بھرتے ھیں، اور اگر کوئی ان کی مخالفت کرتا ھے تو اس پر ڈیموکریسی کی مخالفت اور حقوق بشر کی پامالی کی تھمت لگاتے ھیں حالانکہ ھم دیکھتے ھیں کہ ظالم ترین اور ڈکٹیٹر"Dictaor" حکومتوںکے ظلم وستم کے مقابلہ میں کوئی عکس العمل ( ری ایکشن) نھیں دکھایا جاتا، کیونکہ اس حکومت کے ذریعہ ان کے مقاصد پورے ھوتے ھیں بلکہ خود وہ حکومتیں انھیں کی پٹھو ھوتی ھیں۔
قارئین کرام ! ان کے جھوٹے دعوں کا پول تو اس وقت کھلتا ھے جب کسی ملک میں ڈیموکریسی اصول وضوابط کے تحت انتخابات ھوتے ھیںلیکن اسلام پسند پارٹی اکثریت میں آجاتی ھے اور وہ پارٹی کامیاب ھوجاتی ھے تو اس وقت ان انتخابات کو باطل قرار دیدیا جاتا ھے؛ اور فوجی بغاوت کے ذریعہ فوجی حکومت قائم کردی جاتی ھے اور ھر روز ھزاروں بے گناہ لوگوں کا خون بھایا جاتا ھے، اور آزادی خواہ مسلمانوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ھے اور حقوق بشر کے یہ جھوٹے نعرے لگانے والے نہ صرف یہ کہ اس حکومت کو حقوق بشر پامال کرنے اور آزادی کی رعایت نہ کرنے کا الزام نھیں لگاتے بلکہ جلد ھی اس حکومت کو تسلیم بھی کرلیتے ھیں اور ان کے کارناموں کی تائید کرتے ھیں اور بھت ھی وسیع پیمانے پر ان کی حمایت کرتے ھیں۔
یا جس وقت صھیونیزم ”سر زمین فلسطین“ پر قبضہ کرتے ھیں اور لوگوں کو اپنے گھروں سے باھر نکال دیتے ھیں اور ھزاروں بے گناہ لوگوں کا خون بھاتے ھیں اور لاکھوں لوگوں کو اپنے ملک سے باھر نکال دیتے ھیں،اس وقت کوئی نھیں کھتا کہ ان کا یہ کام حقوق بشر کے خلاف ھے بلکہ طاقتور ممالک اور سوپر پاور ممالک اس غاصب اور قابض حکومت کو تسلیم کرلیتے ھیں، جبکہ یہ ظالم اور غاصب حکومت اس سر زمین کے اصلی مالکوں کا قتل عام کرتی ھے اور ان کے گھروں کو مسمار کر رھی ھے، لیکن ان سب کو دیکہ حقوق بشر کا نعرہ لگانے والے کوئی اعتراض نھیں کرتے صرف کبھی کبھار اقوام متحدہ اپنی سیاست کے تحت کوئی بے معنی اور غیر موثر حکم صادر کرتی ھے اور عملی طور پر اس غاصب وظالم حکومت کو گرین لائٹ دکھاتی ھے کہ اگر اس حکم نامہ پر عمل نہ بھی کیا تو کوئی بات نھیں کوئی مشکل پیش آنے والی نھیں ھے اور کسی طرح کا کوئی ایکشن نھیں لیا جائے گا۔
جب کہ ھم دیکھتے ھیں کہ دسیوں حکم نامہ اسرائیل غاصب کے خلاف دئے جاچکے ھیں لیکن اس نے کسی پر بھی عمل نھیں کیا ھے اورھمیشہ ان کی مخالفت کرتا رھا ھے ، لیکن نہ یہ کہ کبھی اس کو سزا دی گئی بلکہ انعام کے طور پر اس کو کروڑوں ڈالر کی (بلا عوض) امداد کی جاتی ھے اور بڑے بڑے اسلحے، مھلک ھتھیار (آئیٹم بم) بنانے کی ٹکنالوجی دی جاتی ھے توکیا کوئی حکومت اور حقوق بشر کا دفاع کرنے والوں نے اس غاصب اسرائیل کے بارے میں جو انسانوں کے روز مرہ کے حقوق بھی پامال کر رھا ھے اور اقوام متحدہ کے حکم ناموں کو بھی نھیں مانتا او رھمیشہ ان کی مخالفت کرتا ھے، کیا اس کو کبھی کسی نے ڈیموکریسی اور حقوق بشر کا مخالف قرار دیا؟!!
4۔ اسلامی نظام پر تشدد طلب ھونے کا الزام اور اس کے خلاف سازشیں
ھمارے ملک میںاسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد (اسلام دشمن طاقتوں نے) تشدد کے سلسلہ میں بھت زیادہ پروپیگنڈا کیا ھے، سب سے پھلے یہ کھا کہ شاہ پھلوی کی قانونی حکومت کے سامنے قیام کرنا تشدد ھے اور انقلاب کی کامیابی کے بعد، جب منافقین گروھوں نے عوام الناس کو اپنے غیر اسلامی اھداف سے ھم آھنگ نہ پایا تو انھوں نے انقلاب اور عوام الناس سے مقابلہ شروع کردیا اور دینی اور سیاسی مھم شخصیتوں کو قتل کرنے لگے یھاں تک کہ بے گناہ لوگوں پر بھی رحم نہ کیا، جس کے بعد عوام الناس نے بھی ان سے مقابلہ شروع کردیا اور ان کو ملک سے بھگادیا؛ اس روز سے آج سے مغربی ممالک ھمارے خلاف پروپیگنڈا کرتے ھیں اور کھتے ھیں کہ منافقین سے ایسا برتاؤ کرنا تشدد ھے! کوئی یہ نھیں دیکھتا کہ ان منافقین کے گروھوں نے کس قدر ھمارے ملک کو نقصانات پھونچائے ھیں کوئی مھم شخصیتوں کے قتل کی مذمت نھیںکرتا ھے، لیکن جس وقت ایک ملت اپنے دین اور ملک سے دفاع کرنے کے لئے قیام کرتی ھے اور ٹرورسٹوں "Terroristes"کو پسپاکرتی ھے اور ان میں سے بعض لوگوں کو سزائے اعمال تک پھنچاتی ھے اور بعض کو ملک بدر کرتی ھے تو اس وقت شور و غل مچاتے ھیں کہ یہ سب کچھ حقوق بشر کے خلاف ھے!!
اسی طرح جب 18 تیر ماہ 1378ئہ شمسی کے بعد بعض فتہ وفساد برپا کرنے والے بیت المال، عوامی مال دولت، بینک، ذاتی اور سرکاری گاڑیوں یھاں تک کہ مسجدوں میں بھی آگ لگادیتے ھیں اور عورتوں کو بے آبرو کرتے ھیں عورتوں کے سروں سے چادر چھین لیتے ھیں؛ اس وقت کوئی نھیں کھتا کہ یہ کام حقوق بشر کے خلاف ھے ، بلکہ ان لوگوں کو اصلاح طلب اورڈیموکریسی و آزادی کا طرف دار کھا جاتا ھے! لیکن اگر اسلامی جمھوری ایران اور فدا کار بسیجی ( عوامی رضاکار فوج) بے خوف وخطر ان سے مقابلہ کرتی ھے اور دین و شرف اور اپنے محبوب نظام سے دفاع کے لئے اٹہ کھڑی ھوتی ھے اور فتنہ وفساد پھیلانے والوں کا قلع وقمع کرتی ھے تو اس موقع پر یہ لوگ فلک شگاف نعرے لگاتے ھیں کہ ایران میں آزادی نھیں ھے، اور ایرانی نظام حکومت ڈکٹیٹر شب"Dictaorship" ھے!!
مغربی ممالک اپنے دعوی کے باطل ھونے کو جانتے ھیں لھٰذا انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے اسلامی نظام کو درھم و برھم کرنے کے لئے اس طرح کے پروپیگنڈے کیا کرتے ھیں اگرچہ ھم ان کے نحس مقاصد اور ارادوں سے بے خبر نھیں ھیں، لیکن وہ اپنے تجربات کی بنا پر اچھی طرح جانتے ھیں کہ کس طرح ایک نظام کو سرنگوں کیا جاتا ھے چاھے پچاس سال کے بعد ھی کیوں نہ ھو، (اگرچہ ان کا یہ خیال باطل اور بے ھودہ ھے) لھٰذا وہ ابھی سے اس سلسلہ میں مختلف طریقوں سے بھت زیادہ کارکردگی کر رھے ھیں ان کا مقصد یہ ھے کہ انقلاب کی ایک دو نسل گذرنے کے بعد جنھوں نے انقلاب کو نھیں سمجھا ھے اور انقلاب سے پھلے مفاسد اور شاہ پھلوی کے ظلم و جور کو نھیں دیکھا ھے اور اسلامی نتائج سے آگاھی نھیں رکھتے نیز حضرت امام خمینی (رہ) اور ان کے ساتھیوں کے تربیت یافتہ نھیں ھے، یہ سبب ان کے پروپیگنڈوںسے متاثر ھوجائیں گے؛ تاکہ اسلامی حکومت کو سرنگون کرکے اپنی مرضی کی حکومت تشکیل دیں جس کو آج کی اصطلاح میں ڈیموکراٹک "Democratic"کھا جاتا ھے۔
5۔ لوگوں میں انتخابات سے بائیکاٹ کا راستہ ھموار کرنا
یہ لوگ اپنے نحس مقاصد تک پھنچنے کے لئے حساب شدہ منصوبہ بندی کرتے ھیں اور ثقافتی بنیادی فعالیت انجام دیتے ھیں اور موثر و کارگر وسائل کو بروئے کار لاتے ھیں انقلاب کی کامیابی کے بعد سے (خصوصاً آخری چند سالوں سے) جن الفاظ سے استفادہ کرتے ھیں ، ان میں سے تساھل (سستی) تسامح (لاپرواھی) اور مدارا(تال میل) ھیں جن کو مطلق اقدار کے عنوان سے پیش کرتے ھیں، اور اس کے مقابلہ میںقاطعیت اور تشدد کی مطلق طور پر مذمت کرتے ھیں۔
اس نظریہ کی دلیل یہ ھے کہ انھوں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا ھے کہ جو چیز نظام اسلامی کے بقاء کی ضامن ھے وہ ھے عوام الناس خصوصاً جوانوں اور بسیجیوں کا اسلام اور رھبری سے لگاؤ اور محبت ھے ؛ یھاں تک کہ ان اقدار کی حفاظت (جو کہ لاکھوں شھیدوں کے خون کی برکت سے حاصل ھوا ھے) ؛ کے لئے اپنی جان سے کھیلنے کے لئے حاضر ھیں یہ لوگ علم و ادب اور ثقافتی پروپیگنڈوں سے عوام الناس کی شجاعت، ایثار، بھادری، معنوی طاقت اور دینی غیرت کو چھین لینا چاھتے ھیں اسی وجہ سے منفی ، غیر انسانی اور ظالمانہ تشدد جو دنیا بھر میں ھوتی رھتی ھے، اور جس کے تباہ کن نتائج ھر روز دیکھنے میں آتے رھتے ھیں؛ اس کو ھمارے سامنے بیان کرتے ھیں تاکہ یہ سمجھائیں کہ تشدد کے یہ برے نتائج ھوتے ھیں؛ لھٰذا کسی بھی طرح کی کوئی تشدد صحیح نھیں ھے بلکہ مذموم ھے یھاں تک کہ اگر کوئی غیظ وغضب میںکچھ کھے، یا” امریکہ مردہ باد“ کے نعرہ لگائے یا فساد پھیلانے والوں سے مقابلہ کرے اوران کو کچل دے ، تو ان کا یہ کام تشدد ، شدت پسندی اور محکوم و مذموم ھے۔
ان لوگوں مقصد یہ ھے کہ اس طرح انقلابی اقدار کا دفاع کرنے والوں کو شدت پسندی کانام دے کر عوام الناس کو سست کردیں تاکہ کوئی ان کی خطرناک سازشوں سے مقابلہ کے لئے کھڑا نہ ھو ، اور اپنے خیال ناقص میں 28 مرداد 1332ھجری شمسی کی بغاوت کی طرح ایک دوسری بغاوت کرادیں اور جیسا کہ ان لوگوں کا کام ھے 28 مرداد میں مٹھی بھربد معاش، لچّے لفنگے لوگوں کے ذریعہ بغاوت کرادی اور انھوں نے لوگوں کی جان ومال اور ناموس پر حملہ کیا اور دشمن کے نقشہ کو عملی جامہ پھنادیا؛ اسی طرح 18 تیر ماہ 1378ئہ شمسی کو بھی اپنے ناپاک منصوبہ کے لئے مناسب پایا اور ملک میں بغاوت پھیلادی چنانچہ ان لوگوں نے اس سلسلہ میں بھت زیادہ مطالعہ اور تحقیق ، بھت زیادہ خرچ کرکے سادہ لوح افراد کو فریب دینے کے لئے اس کام کے مقدمات پھلے سے تیار کررکھے تھے جیسا کہ اس حادثہ میں ملوث افراد نے خود اپنے انٹر یو میں اس بات کا اقرار کیا کہ انھوں نے امریکہ سے پیسہ اور فکری امداد حاصل کی تھی ، یہ سب اسی حقیقت کی عکاسی ھے تاکہ جب موقع پائیں تو بد معاش اور لچّے لفنگے لوگوں کو میدان میں اتار دیں تاکہ یہ لوگ اندرونی اور بیرونی میڈیا کی امداد اور مختلف طریقوں سے کمک کے ذریعہ بدامنی پھیلائیں اور دکانوں ، گھروں اور دفتروں کو آگ لگائیں خلاصہ بغاوت کے نقشہ کو عملی جامہ پھنادیں۔
جی ھاں، یہ لوگ شدت پسندی کو برا اور مذموم کھہ کھہ کر عوام الناس میں مقابلہ کے حوصلوں کمزور کرنا چاھتے تھے نیز انقلاب سے دفاع کے سلسلہ میں ان کے حوصلے پست کرنا مقصود ھے،تاکہ جب ضد انسانی اور ضد انقلابی کارناموں کا نظارہ کریں اور عوام الناس کے مال و دولت کو غارت ھوتے دیکھیں نیز سرکاری ملکیت کو نابود ھوتا ملاحظہ کریں اور خود فروش لوگوں کے ذریعہ بلوا ھوتے دیکھیں تو سب کے سب خاموش بیٹھے تماشا دیکھتے رھیں اور فتنہ و فساد پھیلانے والوں کو کچلنے کی فکر نہ کریں بلکہ صرف تباھی پھیلانے والوں سے آرام کے ساتھ گفتگو کرنے کی دعوت دیں اور ان کے مطالبات کو سنیں اور ان سے کھیں کہ ھاں تمھیں اعتراض کرنے کا حق ھے، تم واقعاً پریشان ھو، لھٰذا تم اپنی طرف سے کسی کو نمائندہ بنا کر بھیجو تاکہ آپس میں بیٹہ کر آرام کے ساتھ گفتگو کریں، تمھارے مطالبات کو پورا کیا جائے گا، آؤ اور آپس میں سمجھوتہ کرلیں کچھ تم لوگ اپنے مطالبات کم کرو اور کچھ ھم اپنی سیاست سے پیچھے ھٹیں۔
جب کہ یہ بات ظاھر ھے کہ ان کے مطالبات قوانین اسلامی کو ختم کرنے، اسلامی شعارکو حذف کرنے ، اور اسلام کا دفاع نہ کرنے کے علاوہ کچھ نھیں ھوں گے، اور ان سب مطالبات کو مان لینے کے بعدملکی پیمانہ پر ایک بھت بڑی بغاوت رونما ھوجائے گا جس کے نتیجہ میں اسلامی اقدار کا خاتمہ ھوجائے گا، اور اگر دوسرے ممالک کی امداد کی ضرورت ھوگی (جیسا کہ پھلے سے طے ھوچکا تھا) مشرقی اور مغربی سرحدپار سے ملک پر حملہ کرکے اس نظام کا خاتمہ کر دیا جائے گا اور پھر اپنی مرضی کے مطابق کسی کو حاکم بنادیا جائے گا۔
6۔ اسلامی مقدسات کی توھین کرنے والوں اور ثقافتی سازشوں سے مقابلہ کی ضرورت
المختصر : ان آخری چند سال سے تشدد اور شدت پسندی کے مسئلہ کو مطلق طور پر اقدار کے مخالف قرار دیتے ھیں اور اس کے مقابلہ میں سستی، لاپرواھی اور تال میل کو مطلق اقدر کے عنوان سے بیان کرتے ھیں،اور مختلف میڈیا کے ذریعہ یہ پروپیگنڈے اس قدر وسیع پیمانے پر حساب شدہ ھوتے ھیںکہ بعض اوقات تو بعض خواص (خاص الخاص افراد) بھی دھوکہ کھاجاتے ھیں، اور دشمن کے جال میں پھنس جاتے ھیں جب کہ ان لوگوں کا ھدف مسلمانوں سے دینی غیرت کو چھین لینے کے علاوہ اور کچھ نھیں ھے، تاکہ ضرورت کے وقت اسلام کے دفاع کے لئے کھڑے نہ ھونے پائیں اس بات پر گواہ ابھی کے تازہ ھونے والے واقعات ھیں اور بھت سی سازشیں تو ابھی تک فاش نھیں ھوئی ھیں اور(انشاء اللہ) آھستہ آھستہ معلوم ھوجائیں گی۔
اسی وجہ سے حقیر نے اپنی تشخیص کے مطابق یہ احساس کیا کہ نظام اسلامی کو درھم وبرھم کرنے کے لئے ایک بھت بڑی سازش ثقافتی خطرہ در پیش ھے،لھٰذا یہ طے کیا کہ دشمنوں کی طرف سے ھوئے اعتراضات اور شبھات کا جواب دے اور ان کی ثقافتی سازشوں کو فاش کیا جائے، اور اپنے برادران کو ھوشیار کروں نیز جو لوگ دشمن کے پروپیگنڈوں کی زد میں آکر خواب غفلت میں سوئے ھوئے ھیں ان کو بیدار کروں، اور کم سے کم دشمن کی طرف سے ھوئے پروپیگنڈوں کی وجہ سے پیدا ھونے والے جھوٹے عقائد اور نظریات میں شک وتردید پیدا کریں، اوردینی اور ثقافتی عھدہ داروں کو در پیش عظیم خطرات سے آگاہ کروںاور اپنے سوالات کو پیش کرکے معاشرہ کو متوجہ کروں تاکہ دشمن کے غلط پروپیگنڈوں کا اثر کم سے کم ھو۔
حقیر نے اپنا وظیفہ سمجھتے ھوئے یہ طے کیا کہ ”مطلق تشدد کے نفی“ کے بت کو توڑ ڈالوں، اور ھر تشدد کو برا نیز ھر نرمی اور پیار محبت کو اچھا کھنے والے تصور کی نفی کروں اسی وجہ سے ھم نے اس سے پھلے بھی جلسہ میں عرض کیا تھا کہ ھر مطلق تشدد او رشدت پسندی محکوم او رمذموم نھیں ھے اور ھر نرمی اور پیار و محبت اچھا نھیں ھے، بلکہ ھر ایک کے لئے مخصوص موقع و محل ھوتا ھے جیسا کہ یھی گفتگو آزادی کے سلسلہ میں بھی کی اور عرض کیا کہ مطلق آزادی اچھی نھیں ھے بلکہ مطلق آزادی باطل اور مردود ھے ، ھم اس آزادی کی قدر کرتے ھیں جو قوانین اسلامی اور دینی اقدار کے تحت ھو حالانکہ ھماری یہ باتیں سن کر بعض لوگ غضب ناک ھوگئے کہ فلاں صاحب آزادی کے خلاف گفتگو کررھے ھیں لیکن جب ان کو آزادی کے نعرے لگانے والوں کی سازشوں کا پتہ چل گیا تو ان پر یہ بات واضح ھوگئی کہ بعض لوگ اس آزادی کا پرچم بلند کرکے دین اور اسلامی اقدار اور مقدسات کی نابودی چاھتے ھیں؛ یھاں تک ھماری حکومت کے ایک بڑے عھدہ دار جو کہ ایک سیاسی شخصیت مانی جاتی ھے اپنی ایک تقریر میں کھتے ھیں:
”ھماری عوام الناس آزاد ھے یھاں تک خدا کے خلاف بھی مظاھرہ کرسکتے ھیں“ !!
چنانچہ (بعض) دوستوں نے واضح طور پر کھا کہ وہ آزادی مطلوب اور مقصود ھے جو اسلامی قوانین اور دینی اقدار کے تحت ھو اور اگر اس طرح کی باتیں بیان نہ کی جاتی تو معاشرہ کو وہ جھٹکا نہ لگتااور شایدحکومتی عھداران بھی یہ احساس نہ کرتے کہ ھم ”اسلامی قوانین اور دینی اقدار کے تحت آزادی“ کی طرف داری کریں نہ کہ مطلق آزادی کی۔
اور آج اگر ھم یہ کھتے ھیں کہ تشدد مطلقاً مذموم نھیں ھے اس کی وجہ یہ ھے کہ بعض لوگ مطلق تشدد کے نفی کے پرچم کے نیچے اسلام اور اسلامی اقدار کے دفاع میں ھر اٹھنے والے قدم کو تشدد کا نام دےتے ھوئے اس کی مذمت کرتے ھیں اور یہ ایک حقیقت ھے نہ صرف یہ کہ ھمارے ذھن کی ایک پیداوار ، تاکہ بعض لوگ یہ کھیں کہ فلاں کی باتیں تو خیال خام اور ھوائی گولیاں ھوتی ھیں اتفاق سے ھمارے پاس اس بات پر بھت سے شواھد بھی ھیں ، اگرچہ سب کو بیان کرنے کی فرصت نھیں ھے، صرف ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ھیں: ایک موقع پر بعض لوگوں نے جھاد کے سلسلہ میں اعتراض کیا اور اس کو تشدد اور شدت پسندی کا نام دیدیا ، جن میں سے ایک صاحب نے تھران یونیورسٹی میں محرم کے پھلے عشرہ میں اپنے تقریر کے دوران کھا: حضرت امام حسین علیہ السلام کا میدان کربلا میں قتل ھونا ؛جنگ بدر میں رسول اکرم (ص) کی تشدد کا ایک عکس العمل تھا!
یعنی یہ شخص حضرت رسول اکرم (ص) کی اسلامی جنگوں اور غزوات کو بھی محکوم کرتا ھے اور کھتا ھے کہ جب پیغمبراکرم (ص) نے مشرکین کو قتل کیا تو ان کی آل و اولاد پیغمبر کی آل و اولاد کو قتل کرتی، اور اگر پیغمبر ان کو قتل نہ کرتے تو ان کی اولاد بھی قتل نہ کی جاتی!! درحقیقت وہ یزیدوں کو بری الذمہ اور اسلام وپیامبر اسلام (ص) کو محکوم کرتا ھے اور افسوس کا مقام یہ ھے کہ ان باتوں کو سن کرجو کہ پیغمبر اکرم (ص) کی توھین ھے اور امام حسین علیہ السلام کی شخصیت نیز واقعہ کربلا میں تحریف ھے اور ضروریات دین کا انکار ھے، نہ صرف یہ کہ کوئی کچھ نھیں کھتا بلکہ بعض اخباروں اور جرائد میں اس شخص کی پوری تقریر چھپتی ھے اور وہ بھی صفحہ اول پر!! افسوس کہ ھمارے حکومتی عھدہ داران اس سلسلہ میں کوئی حساسیت نھیں دکھاتے حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام پر انقلاب برپا ھونے والے اور امام حسین (ع) کے نام سے باقی رھنے والے اسی ملک میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام کو تحریف کرکے پیش کیا جاتا ھے اور یہ نتیجہ لیا جاتا ھے کہ اگر ھم چاھتے ھیں کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ پیش نہ آئیں اور ھمارے زمانہ کے حسین قتل نہ ھوں تو ھمیں بھی تشدد آمیز برتاؤ اور شدت پسندی کو ترک کرنا ھوگا!!
اور اب ھم اس مقالہ نگار سے مخاطب ھے جس کا مقالہ ایک کثیر الانتشار اخبار میں چھپ چکا ھے ، چنانچہ وہ لکھتا ھے کہ فلاں صاحب موضوع سے الگ اورھوا میں باتیں کرتے ھیں اور ھم سے خطاب کیا ھے کہ اپنی گفتگو پر تجدید نظر کریں کیا ھم ھوا میں باتیں کرتے ھیں یا عصرِ حاضر کے اپنے معاشرہ وسماج کی؟ کیا ھماری باتیں اسی موضوع سے متعلق نھیں ھیں جو ھمارے ملک میں رائج ھے، اور کیا ھماری باتیں اسی حقیقت سے متعلق نھیں ھے جو ھر روز ھمارے ملک میں رونما ھوتی جارھی ھے؟ آیا ھم اپنی باتوں میں تجدید نظر کریں یا آپ کہ ایک وقت آپ ”بین الاقوامی اسلامی“ پارٹی کے عضو تھے اور فدائیان اسلام کی حمایت کو ایک افتخار سمجھتے تھے؟
قارئین کرام! یھاں پر ھم ضروری سمجھتے ھیں کہ حضرت امام خمینی علیہ الرحمةکا نورانی اور مشکل کشا کلام کی طرف اشارہ کریں جس میں موصوف نے آزادی کے پرچم کے نیچے پوشید ہ کن کن ثقافتی خطرات کو بیان کیا ھے:
” اب میری وصیت ھے حال حاضر اور آئندہ کی مجلس شورای اسلامی (پارلیمنٹ) اور اس وقت کے رئیس جمھور(صدر مملکت) اور ان کے بعد والے صدر، شورای نگھبان، شورای قضائی اور ھر زمانہ کی حکومت؛ سب کو چاھئے کہ میڈیا، جرائد اور مجلات کو اسلام اور ملکی مصالح سے منحرف نہ ھونے دیں، اور سب کو یہ معلوم ھونا چاھئے کہ مغربی ممالک کی طرح کی آزادی جوانوں، لڑکوں اور لڑکیوں کو تباہ و برباد کردے گی اسلام ، ملکی مصالح اور عمومی عفت کے بر خلاف تبلیغات، مقالات، تقاریر، کتابیں اور جرائد کا وجودحرام ھے ھم سب پر اور تمام مسلمانوں پر ان کی روک تھام کرنا واجب ھے اور فساد برپا کرنے والی آزادی کی روک تھام کرنا ضروری ھے، اور جو چیزیں شرعی طور پر حرام ھیں یا وہ چیزیں جو ملت و اسلامی ملک کے برخلاف ھیں، یا جمھوری اسلامی کی حیثیت کے مخالف ھے، لھٰذا اگر ان کے خلاف سخت کاروائی نہ کی جائے تو تمام کے تمام لوگ ذمہ دار ھیں اور ھمارے عوام الناس اور حزب اللٰھی جوان اگر ان چیزوں کو دیکھیں تو متعلق اداروں کو مطلع کردیں، اور اگر وہ اس سلسلہ میں کوتاھی کریں تو وہ خود روک تھام کی ذمہ داری پر عمل کریں۔“(1)
7۔ خداوندعالم کی رحمت اور غضب کے بارے میں اسلامی تصویر کشی
اسلام اور قرآن کے سلسلہ میں مغربی افراد کے شبھات اور اعتراض میں سے ایک یہ بھی ھے کہ مسلمانوں کا خدا جیسا کہ قرآن میں بیان ھوا ھے ،بد خُلق، غصہ والا، اھل غضب اور انتقام لینے والا ھے، جبکہ خدائے انجیل بخشنے والا، مھربان، سعہ صدر(کشادہ دل) والا، تحمل کرنے والا اور بھت زیادہ مھربان اورلوگوں سے اس قدر دلسوزی کرنے والا ھے کہ نغوذ باللہ اس نے اپنے بیٹے (عیسیٰ) کو قربانی کے لئے بھیج دیا تاکہ تمام لوگوں کی بخشش ھوسکے اور اس کا خون تمام لوگوں کے گناھوں کا کفارہ بن جائے!! تو کیا قرآن مجید میں بیان شدہ خدا غصہ ور اور بد خلق ھے یا رحیم اور رؤف ھے؟
قارئین کرام! گذشتہ اعتراض کا جواب یہ ھے کہ ھمارا خدا صفت رحمت بھی رکھتا ھے اور صفت غضب بھی، وہ ”ارحم الراحمین“ (بھت زیادہ رحم کرنے والا) بھی ھے اور ”اشد المعاقبین (سخت عذاب دینے والا)بھی، قرآن مجید کے 114 سوروں میں سے 113 سورے (بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) سے شروع ھوتے ھیں جس میں خداوندعالم کی دو صفات یعنی ”رحمن“ اور ”رحیم“ کا ذکر ھوتا ھے اور صرف ایک سورہ کی شروعات ”بسم اللھ“ سے نھیں ھوئی ھے، جبکہ سورہ نمل میںشروع کے علاوہ خود سورہ کے اندر بھی (بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) تکرار ھوئی ھے؛ جب ملکہ سبا (بلقیس) حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط کو اپنی قوم کے سامنے پڑھتی ھے تو اس کا آغاز (بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ)سے ھوتا ھے، بھر حال پورے قرآن مجید میں 114 بار (بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) کی تکرار ھوئی ھے جس میں خداوندعالم کی دو رحمتی صفات کا ذکر ھے لیکن قرآن مجید میں خداوندعالم کی اسی رحمت واسعہ کے ذکر کے ساتھ ساتھ خدا کے خشم (غصھ) اور غضب بھی ذکر ھوا ھے؛ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:
) وَاللهُ عَزِیزٌ ذُو انْتِقَامٍ )(2)
” اور خدا سخت انتقام لینے والا ھے “
( إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِینَ مُنتَقِمُونَ )(3)
”ھم یقینا مجرمین سے انتقام لینے والے ھیں “
( فَبَاءُ وْا بِغَضَبٍ عَلَی غَضَبٍ وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ مُھینٌ ) (4)
” ا ب یہ غضب بالائے غضب کے حقدار ھیں اور ان کے لئے رسوا کن عذاب بھی ھے “
اگر یورپی لوگ (اپنے الفاظ میں) اپنے خدا کو صرف مھربان اور رحیم بتاتے ھیں اور کھتے ھیں کہ ھمارا خدا غصہ وغضب والانھیں ھے، لیکن حقیقت یہ ھے کہ جس طرح قرآن نے خدا کی توصیف کی ھے ، ان لوگوں نے اس کو صحیح طریقہ سے بیان نھیں کیا ھے؛ کیونکہ جس خدا پر ھم اعتقاد رکھتے ھیں وہ صرف اھل غضب ھی نھیں ھے بلکہ صاحب رحمت اور مھربان بھی ھے اور صاحب قھر و غضب بھی، لیکن اس کی رحمت اس کے غضب پر چھائی ھوئی ھے، اسی وجہ سے ارشاد ھوتا ھے:
"کَتَبَ عَلَی نَفْسِہ الرَّحْمَةَ " (5)
” اس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم قرار دے لیا ھے “
اور یہ معنی سنی شیعہ متواتر روایات میں بیان ھوئے ھیں، جیسا کہ ھماری دعاؤں میں وارد ھوا ھےیا مَنْ سَبَقَتْ رَحْمَتُہ غَضَبَہ اے وہ جس کی رحمت اس کے غضب پر مقدم ھے۔
یعنی خدا کی رحمت اس کے غضب کی نفی نھیں کرتی بلکہ اس کی رحمت اس کے غضب پر مقدم ھے اور جھاں تک اس کا لطف وکرم اور اس کی حکمت تقاضا کرے وھاں تک بندوں پر اپنے لطف وکرم اور رحمت کی بارش کرتا ھے اور اپنے غضب کا مظاھرہ نھیں کرتا؛ مگر یہ کہ اس کی ضرورت ھو اور خداوندعالم کچھ لوگوں کو قھر وغضب میں گرفتار کرے اسی وجہ سے ھم دیکھتے ھیں خداوندعالم نے بعض گذشتہ اقوام جیسے قوم نوح، قوم عاد اور قوم ثمود پر اپنا غضب نازل کیا ھے اور اپنا عذاب بھیج کر ان کو نیست و نابود کردیا ھے (جیسا کہ ان اقوام کے مفصل واقعات قرآن مجید میں بیان ھوئے ھیں) لیکن اس کی وجہ یہ ھے کہ ان کی قوم میں بھیجے گئے انبیاء (ع) ھمیشہ ان کو راہ ھدایت کی دعوت دیتے تھے اور راہ ھدایت کو واضح اور روشن کرنے کے لئے معجزات اور الٰھی نشانیاںدکھاتے رھتے تھے ؛ لیکن ان لوگوں نے ان تمام چیزوں کے باوجود بھی کفر وضلالت کا راستہ اختیار کیا اور ان کی رفتار و گفتار میں ذرا بھی تبدیلی واقع نہ ھوئی، اور یھی نھیں بلکہ پھلے سے زیادہ فتنہ و فساد، گناہ عصیان اور احکام الٰھی کی مخالفت میں جری ھوتے چلے گئے تو اس موقع پر خداوندعالم کی حکمت او راس کی مشیت کا تقاضا تھا کہ ان کو اپنے غیظ و غضب اور عذاب میں گرفتار کرے تاکہ فتنہ و فساد پھیلانے والوں، لجاجت کرنے والوں، خدا سے دشمنی کرنے والوں، اور متکبرین کے لئے بھترین عبرت حاصل ھوجائے۔
لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ قرآن کریم میں ذکر شدہ خدا غیظ وغضب والا نھیں ھے بلکہ خدائے رحمت و لطف وکرم ھے، اور صرف بعض مقامات پر جب اس کی حکمت اور مشیت کا تقاضا ھوتا ھے،اپنے غیظ وغضب کا اظھار کرتا ھے۔
لھٰذااس سوال( کہ کیا اسلام میں رحمت ومھربانی پائی جاتی ھے یا غیظ وغضب اور شدت پسندی؟)؛ کے جواب میں ھم عرض کرتے ھیں: اسلام میں رحمت اصل چیز ھے اوراس کی بنا یھی ھے کہ معاشرہ میں رحمت ومحبت کا رواج ھو، لیکن خاص موارد میں (جیسا کہ قرآن مجید نے بھی اشارہ کیا ھے) پیار محبت اور مھربانی سے کام نھیں لینا چاھئے بلکہ وھاں پر غیظ وغضب ، تشدد اور شدت پسندی کا مظاھرہ ھونا چاھئے خداوندعالم صفت رحمت بھی رکھتا ھے، اور صفت غیظ وغضب اور انتقام بھی۔
8۔ ھدایت کے موانع کو بر طرف کرنے ،دشمنوں اور منافقین سے مقابلہ کی ضرورت
اسلام ، اس کی نشر واشاعت اور اس کے دفاع سے متعلق عرض کرتے ھیں کہ اسلام پھلے مرحلہ میں انسانوں کو ھدایت کی دعوت دیتا ھے، لیکن اگر کوئی دعوت انبیاء (ع) کی نشر واشاعت میں رخنہ ڈالنا چاھے تو پھر قرآن حکم دیتا ھے کہ ان سے جنگ کی جائے، اور ھدایت کے راستے میں بچھے کانٹوں کو ھٹا پھینک دیا جائے اسی وجہ سے خود پیغمبر اکرم (ص) اور معصومین علیھم السلام کے زمانہ میں ”جھاد ابتدائی“ (یعنی اپنی طرف سے جھاد کی شروعات کرنا)واجب تھا، تاکہ لوگوں کی ھدایت کے موانع بر طرف کئے جاسکیں اسی بنیاد پر جب پیغمبر اکرم (ص) مبعوث برسالت ھوئے ، بات یہ نھیں کہ آنحضرت (ص) روم اور ایران جیسے ملکوں کے داخلی امور میں دخالت کر نے کا حق رکھتے ھیں یا نھیں؛ بلکہ حقیقت یہ ھے کہ پیغمبر اکرم (ص) روئے زمین کے تمام انسانوں کی ھدایت کے لئے مبعوث ھوئے ھیں، لھٰذا اگر کوئی یھاں تک کہ بادشاہ ایران اور قیصر روم بھی پیغمبر اکرم (ص) کی دعوت اسلام کی مخالفت کریں تو اس صورت میں پیغمبر اکرم (ص) کا وظیفہ بنتا ھے کہ وہ ان سے جنگ کریں اسی وجہ سے آنحضرت (ع) نے (مختلف) ملکوں کے بادشاھوں کو خطوط لکھے اور ان کو اسلام کی دعوت دی اور ان سے یہ چاھا کہ اپنے اپنے ملکوں کی عوام الناس کے لئے رسول خدا اور ان کے نمائندوں کے ذریعہ ھدایت کا راستہ ھموار کریں؛ ورنہ جنگ کے لئے تیار ھوجائیں۔
اور چونکہ جھاد ؛ اسلام کے مسلم اصول میں سے ھے اور تمام شیعہ سنی فرقے اس سلسلہ میںمتفق ھیں اور کسی نے کوئی مخالفت نھیں کی ھے، (اور کفر وشرک کے سرداروں سے جھاد اس وجہ سے واجب تھا کہ وہ اپنے تحت لوگوں کی ھدایت وارشاد اور پیغمبروں کی دعوت کی تبلیغ میںمانع ھوتے تھے، اسی وجہ سے رسول خدا (ص) کا یہ وظیفہ تھا کہ ان لوگوں کو ھدایت کے راستہ سے ھٹانے اور عوام الناس کی ھدایت کے راستہ صاف کرنے کے لئے ان سے جنگ کریں) ان تمام چیزوں کے پیش نظر یہ بات کیسے کھی جاسکتی ھے کہ اسلام مطلقاً جھاد اور جنگ کو لازم اور جائز نھیں جانتا ھے؟ کیا ھم ان آیات قرآن جو کفار ومشرکین اور منافقین نیز دشمنان اسلام سے جھاد کے بارے میںنازل ھوئی ھیں ان کو نظر انداز کردیں اور ان کو چھپادیں؟
قارئین کرام ! ھم (یہ بات علی الاعلان) کھتے ھیںکہ دشمنان خدا سے مقابلہ کرنا اسلامی اصول کے تحت ھے او ر اسلام نے احکام جھاد کے سلسلہ میں انسانی بھترین اصول کو مد نظر رکھا ھے، اور ان کی رعایت کرنے پر زور دیا ھے، لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی زور دیا ھے کہ جب دشمنان (اسلام) اور وہ لوگ جو دانستہ طور پر حق و حقیقت کے خلاف کھڑے ھوجائے اور دین خدا سے مقابلہ کرنے لگے اور اپنے عھد و پیمان کو توڑ ڈالیں؛ تو ان سے جنگ کرو:
( وَإِنْ نَکَثُوا اٴَیْمَانَھمْ مِنْ بَعْدِ عَھدِھمْ وَطَعَنُوا فِی دِینِکُمْ فَقَاتِلُوا اٴَئِمَّةَ الْکُفْرِ إِنَّھمْ لاَاٴَیْمَانَ لَھمْ لَعَلَّھمْ یَنتَھونَ ) (6)
” اگر یہ عھد کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑدیں اور دین میں طعنہ زنی کریں، تو کفر کے سربراھوں سے کُھل کو جھاد کرو کہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نھیں ھے شاید اسی طرح اپنی حرکتوں سے باز آجائیں۔“
اسی طرح خداوند عالم سورہ تحریم اور سورہ توبہ میں فرمان دیتا ھے کہ پیغمبر اور مسلمان؛ کفار ومنافقین سے جنگ کریں اور ان کے ساتھ غیظ و غضب اور شدت پسندی کا برتاؤ کرو:
( یَااٴَیُّھا النَّبِیُّ جَاھدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ وَاغْلُظْ عَلَیْھمْ وَمَاٴْوَاھمْ جَھنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ ) (7(
” اے پیغمبر ! کفار اور منافقین سے جھاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے کہ ان کا انجام جھنم ھے جو بد ترین ٹھکانہ ھے۔“
( وہ مذکورہ مقالہ نگار جس نے لکھا تھا کہ جھاد سے متعلق قرآنی آیات کفار سے مخصوص ھیں ، اس نے اس آیت پر غور فکر نھیں کیا کہ اس آیہٴ مبارکہ میں خداوندعالم نے کفار سے جھاد کے علاوہ داخلی منافقوں سے بھی جھاد او رمقابلہ کا حکم دیا ھے۔)
اسی طرح سورہ توبہ میں ایک دوسری جگہ ارشاد رب العزت ھوتا ھے:
( یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِینَ یَلُونَکُمْ مِنْ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوا فِیکُمْ غِلْظَةً وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِینَ ) (8)
” اے ایمان لانے والو ! اپنے آس پاس کفار سے جھاد کرو تاکہ وہ تم میں سختی اور طاقت کا احساس کریں اور یاد رکھو کہ اللہ صرف پرھیز گار افراد کے ساتھ ھے۔
مذکورہ آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ھے کہ وہ کفار جو تمھارے نزدیک زندگی گذار تے ھیں ؛ ان سے جنگ کرو اور ان سے غافل نہ ھو جانا اور اپنے غیظ وغضب کا مزہ اپنے پڑوسی کفار کو چکھا دو تاکہ وہ (مسلمانوں سے) ڈریں اور ان کے خلاف کوئی خیانت اور سازش نہ کریں۔
اسی طرح خداوندعالم فرماتا ھے:
( وَاٴَعِدُّوا لَھمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھبُونَ بِہ عَدُوَّ اللهِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِینَ مِنْ دُونِھمْ لاَتَعْلَمُونَھمْ اللهُ یَعْلَمُھمْ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ شَیْءٍ فِی سَبِیلِ اللهِ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ
وَاٴَنْتُمْ لاَتُظْلَمُونَ ) (9)
” اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو جس سے اللہ کے دشمن، اپنے دشمن اور ان کے علاوہ جن کو تم نھیں جانتے ھو اور اللہ جانتا ھے سب کو خوفزدہ کردو ، اور جو کچھ بھی راہ خدا میں خرچ کرو گے سب پورا پورا ملے گا اور تم پر کسی طرح کا ظلم نھیں کیا جائے گا۔“
(وہ حضرات جو عربی ادبیات (زبان) جانتے ھیں ؛ ھم ان کو اس بات کی تاکید کرتے ھیں کہ وہ لفظ ”ارھاب“ کے ھم معنی لفظ دوسری زبانوں میں تلاش کریں؛ اور اگر ھم عرض کردیں تو کل ھی اخباروں کی سرخی بن جائے گی کہ فلاں صاحب تو ٹروریزم "Terrorisme"کے طرفدار ھیں۔)
بھر حال قرآن مجید نے حکم دیا ھے کہ جن لوگوں سے منطق اور اصول کے ساتھ گفتگو نھیں کی جاسکتی اور انھوں نے جراٴت او ردلیری کے ساتھ راہ ھدایت کو بند کردیا ھے اور بغض و عناد اور دشمنی کی بنا پر اسلام اورمسلمانوں کے ساتھ جنگ کرتے ھیں، ان کے ساتھ تو تشدد اور غیظ وغضب سے مقابلہ کرنا چاھئے اور مسلمانوں کو چاھئے کہ ان کے درمیان رعب و دھشت ایجاد کردیں تاکہ ان کے اندر مسلمانوں کے ساتھ خیانت کرنے اور اسلام کو نقصان پھونچانے کا تصور بھی پیدا نہ ھو ان سے یہ نھیں کھا جاسکتا کہ : ”تم اپنے دین پر ھم اپنے دین پر، آؤ مل جل کر ایک ساتھ اطمینان کی زندگی بسر کریں۔“
9۔ اسلامی سزا کے احکام کی مخالفت
بعض مقالہ نگاروں نے اپنے مقالات میں ھم پر یہ اعتراض کیا کہ اسلام نے کفار و مشرکین کے سلسلہ میں تشدد اور شدت پسندی کے برتاؤ کا حکم دیا ھے ، اور ان کواپنا ھمشھری ماننے سے انکار کیا ھے، حالانکہ یہ لوگ اس بات سے غافل ھیں کہ اسلام نے بعض جرائم پر خود مسلمانوںکے لئے سخت سے سخت سزا معین کی ھے، اور اپنے قوانین میں ایسے لوگوں کے لئے کڑی سزا مقرر کی ھے مثال کے طور پر چوری کے مسئلہ میں اسلام کا حکم ھے کہ چور کے ھاتہ کاٹ دئے جائیں یا زنا، عفت اور عزت کے دوسرے مسائل میں مجرموں کے لئے حد اور سزا معین کی ھے مثلاً زنا کرنے والے کو سو تازیانے لگانے کی سزا معین کی گئی ھے، اور بعض عفت کے منافی جرائم کے سلسلہ میں سزائے موت بھی رکھی گئی ھے در حقیقت اس طرح کے مجرموں کے لئے اسلامی سزا بھت سخت اور ناقابل برداشت ھیں لیکن اس چیز پر توجہ رکھی جائے کہ اسلام نے بعض عفت کے منافی جرائم جیسے زنا؛کوثابت کرنے کے لئے سخت شرائط معین کئے ھیں جس کی بنا پر بھت ھی کم یہ جرم ثابت ھوپاتے ھیں تاکہ ان پر حد جاری ھوسکے۔
بعض شرعی اور اسلامی حدود اور سزا کی بنا پر اسلام دشمن افراد کو اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا ایک بھانہ مل گیا ھے جس کی بنا پر یہ لوگ کھہ دیتے ھیں کہ اسلام میں حقوق بشر کی رعایت نھیں کی جاتی، اور اسلام کی سزا میں تشدد پائی جاتی ھے نیز انسانی شرافت کو نظر انداز کیا جاتا ھے جی ھاں! دشمن اور حقوق بشر کے جھوٹے مدعی کھتے ھیں: ”ایک مسلمان چور کے ھاتھوں کو کاٹنا غیر انسانی عمل اور تشدد آمیز ھے اور انسانی شرافت کے مخالف ھے؛ کیونکہ جس شخص کے ھاتہ کاٹے جاتے ھیں تو وہ انسان پوری زندگی کے لئے اس مفید عضو سے محروم ھوجاتا ھے اور ھمیشہ معاشرہ میں ایک چور کے عنوان سے پھچانا جاتا ھے“ ۔
جبکہ اس کے مقابلہ میں بعض اسلام کا دعویٰ کرنے والوں نے اسلام کا دفاع کرتے ھوئے اس طرح کا نظریہ پیش کرتے ھیں: اسلام کے یہ سزا کے احکام گذشتہ زمانہ سے متعلق تھے اور ایک خاص زمانہ سے مخصوص تھے ، آج کل تو امنیت کے تحفظ اور چوری سے روک تھام کے لئے نئے نئے طریقے موجود ھیں لھٰذا کسی چور کے ھاتہ کاٹنے کی ضرورت نھیں ھے اگر امنیت کے تحفظ اور دوسرے جرائم سے روک تھام کے لئے بھتر طریقے موجود ھوں تو پھر امریکہ ؛ جس میں جرائم سے روک تھام کے لئے نئے نئے طریقے نافذ کئے جاتے ھیں، لیکن پھر بھی روزانہ ھزاروں جرائم ھوتے ھیں، اور وھاں کے کالجوں میں مسلح پولیس کا رھنا ضروری ھے۔
جولوگ جو نھایت بے شرمی کے ساتھ کھتے ھیں کہ یہ اسلامی سزائیں نا قابل قبول ھیں اور ان کو تشدد اور شدت پسندی کا عنوان دیتے ھوئے یہ کھتے ھیں کہ یہ سزائیںچودہ سو سال پھلے سے متعلق تھیں عصر حاضر میں کوئی ان کو قبول نھیں کرسکتا، کیا وہ لوگ یہ بھول گئے کہ جن لوگوں نے قصاص (بدلا) کے قوانین کو غیر انسانی کھہ کر اس کے خلاف مظاھرے شروع کردئے تھے، اس موقع پر حضرت امام خمینی (رہ) نے ان کو مرتد قرار دیتے ھوئے فرمایا تھا کہ ان کا خون مباح اور ان کی بیویاں ان لوگوں پر حرام ھیں اور ان کا مال ان کے مسلمان ورثہ میں تقسیم کر دیا جائے۔
جی ھاں امریکن حقوق بشر کے طرفداروں نے اسلامی سزاؤں کو غیر انسانی اور تشدد آمیز کا عنوان دے کر ان کو محکوم و مذموم قرار دیا ھے لیکن ھم ان سے یہ کھتے ھیں کہ اگر اسلامی سزائیں تشدد آمیز ھیں، مان لیتے ھیں کہ بعض مواقع پر اسلامی حدود اور سزائیں تشدد آمیز ھیں، لیکن ھم اسلامی قوانین کا دفاع کرنے والے ھیں اور اس کے خلاف ھر طرح کی سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے دل و جان سے آمادہ ھیں، ھم یہ نھیں مانتے کہ احکام منسوخ ھوگئے ھیں، بلکہ ھمارا تو عقیدہ یہ ھے کہ:
”حَلاٰلُ مُحَمَّدٍ حَلاٰلٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ وَحَرَامُ مُحَمَّدٍ حَرَامٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ “
) آنحضرت (ص) کی حلال کردہ چیزیں قیامت تک حلال اور آپ کی حرام کردہ چیزیں قیامت تک حرام ھیں۔)
ھم نے انقلاب اسی وجہ سے برپا کیا ھے کہ ھمارے معاشرہ میں اسلامی احکام نافذ ھوں، ورنہ تو شاہ پھلوی بھی کھتا تھا: ”جو کچھ میں کھتا ھوں وہ اسلام کے مطابق ھے،اور علماء غلطی پر ھیں، اور یہ لوگ بیک ورڈ ھیں“!
ھمارے معاشرہ میں قرآن مجید کے اندر بیان شدہ اسلامی مسائل اور احکام کو نافذ ھونا چاھئیں یہ وھی اسلام ھے جس کی سرفرازی اور بلندی نیزاسلامی حکومت کے لئے ھم نے اپنے رشتہ داروں کی قربانی پیش کی ھے اور اب بھی جانفشانی کرنے کے لئے تیار ھیں ، اسی اسلام کی پھچان مقام معظم رھبری (حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مد ظلہ العالی)نے فرماتے ھوئے کھا ھے : ” اسلام ناب وھی اسلام ھے جو قرآن اور سنت میں بیان ھوا ھے ، جس کے احکام اور قوانین مناسب اور اجتھادی طریقہ سے انھیں دو عظیم الٰھی منبع و مرکز (قرآن و سنت) سے استنباط (حاصل) کئے جاتے ھیں اور جو لوگ اس اسلام کو نھیں مانتے، انھوں نے گویابنیادی طور پر اسلام کو قبول ھی نھیں کیا ھے، کیونکہ اسلام (صرف ایک ھی ھے) دو نھیں ھیں۔“
10۔ تشدد ، اسلامی سزائی قوانین میں محدود نھیں ھے
ایک مقالہ نگار نے اپنے مقالہ میںیہ بیان کیا کہ ” اسلام نے جن قوانین میں تشدد کو جائز قرار دیاھے وہ جزائی اور سزائی قوانین ھیں اور ھم بھی اس بات کو مانتے ھیں کہ اسلام نے فتنہ گروں اور تباہ کارو ں کے لئے جو سزائیں معین کی ھیں ان میں کم و بیش تشدد پائی جاتی ھے لیکن جس تشدد کے بارے میں ھماری بحث ھے اور ھم جس کو محکوم کرتے ھیں، وہ اسلام کے سزائی قوانین سے متعلق نھیں ھے اور اصولی طور پر سزائی قوانین ھماری تشدد کی بحث سے متعلق نھیں ھیں۔“
اور یہ لکھا کہ میں موضوع سے ھٹ کر گفتگو کرتا ھوں اور اسی بات کو کئی اخباروں نے سرخی بنایا کہ کیوں فلاں صاحب موضوع سے ھٹ کر گفتگو کرتے ھیں! لھٰذا ھم عرض کرتے ھیں کہ ھمارا موضوع معاشرہ میں ھونے والے ثقافتی کج روی ھے ، جیسا کہ اخباروں نے لکھا تھا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا قتل ھونا ؛ آپ کے جد (رسول اللہ (ص)) کی جنگ بدر میں تشدد کا عکس العمل تھا!!
ھم اس مقالہ نگار کی خدمت میں عرض کرتے ھیں کہ اے قاضی اور حقوقدان آپ ھمارے بارے میں لکھتے ھیں کہ فلاں صاحب موضوع سے ھٹ کر گفتگو کرتے ھیں ، لیکن کیا آپ کو معلوم ھے کہ جو بات حضرت امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے بارے میں کھی گئی ھے اس میں کس تشدد کی بات ھے اور کس طرح کی تشدد کی نفی کی گئی ھے؟ ھم تو معاشرہ میں پیدا ھونے والی انھیں چیزوں کے بارے میں گفتگو کرتے ھیں ھم تشدد، آزادی اور میل جول جیسے الفاظ سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے بارے میں گفتگو کرتے ھیں، یھاں تک یہ بھی کھہ دیا گیا کہ ”جنگ بدر ایک تشدد تھی“ لھٰذا اسلام تشدد کادین ھے! لھٰذا ھم اپنے موضوع سے خارج نھیں ھوئے ھیں۔
ھوسکتا ھے کوئی شخص یہ کھے: ”ھم اس طرح کے ناجائز فائدہ اٹھانے والی فکر کو ردّ کرتے ھیں اور اسلام کو تشدد کا دین نھیں مانتے۔“ ھمارا اس سے کھنا یہ ھے کہ حکومتی قوانین ، سزائی قوانین اور وہ عدالت جس میں سزائی احکام بنائے جاتے ھیں ان تمام چیزوں سے صرف نظر کرتے ھوئے ؛کیا عوام الناس بھی تشدد کا برتاؤ کرسکتے ھیں، اور وارد میدان ھوسکتے ھیں اور کیا حکومتی اداروں سے ھٹ کر خود عوام الناس تشدد سے کام لے سکتی ھے؟ ھم یہ سوال کرتے ھیں کہ تم لوگ اسلامی انقلاب کو تشدد سمجھتے ھو یا نھیں؟ جن لوگوں کو 17/ شھریور 1357ئہ شمسی اور اس کے بعد کے حادثات یاد ھیں وہ جانتے ھیں کہ ھمارے غیرت مند جوانوں اور بھارد قوم نے شاہ پھلوی کے خلاف کیا کیا اقدامات کئے تو کیا شاہ پھلوی کے خلاف مظاھرے اور اقدامات تشدد تھا، یا نھیں؟ کیا یہ کام صحیح تھے یا نھیں؟ اور کیا اسلام اس طرح کے اقدامات پر راضی ھے یا نھیں؟ اگر اسلام نے اس طرح کے اقدامات کو جائز قرار نھیں دیا ھے تو آپ کا یہ انقلاب غیر قانونی ھے، کیونکہ (آپ کے نظریہ کے مطابق تو) اسلام میں تشدد نھیںپائی جاتی اور اسلام تشدد آمیز اقدامات کو جائز ھی نھیں مانتا! اسی طرح وہ مقدس کارنامے جو مرحوم نواب صفوی اور فدائیان اسلام نے شاہ کی حکومت کے خلاف کئے ،( جن کے مھم کارناموں کی بنا پر ان کا نام ھمیشہ ھمارے ملک میں زندہ رھے گا، اور ھم ان کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ھیں، اور آج کل تھران اور دوسرے شھروں کی بھت سی سڑکوں کا نام انھیں حضرات کے ناموں پر ھے)تو کیا ان کے یہ اقدامات صحیح تھے یا نھیں؟ اسی طرح ”ھیئت موٴتلفہ اسلامی“ کے اعضاء ؛ یعنی شھید محمد بخارایی اور ان کے ساتھی جنھوں نے شاہ پھلوی کے جلاّد وزیر اعظم کو واصل جھنم کیا۔
ھوسکتا ھے کہ کوئی شخص یہ کھے کہ واقعاً اس طرح کے تشدد والے اقدامات نھیں کرنا چاھئے تھے ، بلکہ قانونی طور پر صلح و صفائی کی ایک پارٹی بنانا چاھئے تھی جس کے ذریعہ شاہ پھلوی کے سامنے اپنے مطالبات کو رکھا جاتا اور اس سے گفتگو کی جاتی“ لیکن کیا ان کی باتوں کو سنا جاتا اور وہ حساب شدہ باتوں کو سنتے تویہ لوگ اس طرح کے غیظ وغضب کے ساتھ قدم نہ اٹھاتے، جب انھوں نے دیکہ لیا کہ ان کی جائز باتیں اس طرح گفتگو کے ذریعہ نھیں سنی جاتی تب جاکے انھوں نے اس طرح کے اقدامات شروع کئے۔
ممکن ھے وہ قاضی صاحب فرمائیں: ھماری نظر میں وہ اقدامات محکوم او رمذموم ھیں ، ان کو چاھئے تھا کہ آرام و سکون اور مکمل حوصلہ کے ساتھ برتاؤ کرتے، اور اپنی مشکلات کو حل کرنے نیز اپنے مطالبات کوپورا کرانے کے سلسلہ میں کوشش کرتے!
ھم ان کی خدمت میں عرض کرتے ھیں کہ :
جب 18 تیر ماہ 1378ئہ شمسی اور اس کے بعد بعض فسادی اور بد معاش لوگوں نے بیت المال، عمومی اموال ، بینک، ذاتی اور سرکاری گاڑیوں یھاں تک کہ مسجدوں میں بھی آگ لگادی اور عورتوں کو بے آبرو کےا عورتوں کے سروں سے چادر چھین لیں اور اسلام کے خلاف نعرہ لگائے، تو کیا آپ نے ان لوگوں کے ساتھ پیار ومحبت اور ھنسی خوشی سے اپنی آغوش میں بٹھاکر ان کو خاموش کردیا ، یا یہ کام ھمارے ان بسیجیوں نے انجام دیا جو اپنے جان کو ھتھیلی پر رکہ کر آگے بڑھے اور تمام تر خطرات سے نپٹنے کے لئے میدان عمل میں وارد ھوئے اور ان کو کچل دیا،( بھت افسوس کے ساتھ یہ عرض کرتے ھیں کہ ان مظلوم بسیجیوں کے حق کو آج تک نھیں پھنچانا گیا اور اس کا شکریہ ادا نھیں کیا جاتا؛ جبکہ یہ جوان انقلاب اور اسلام کے دفاع کے لئے قربة الی اللہ حاضر ھوئے تھے اور خدا ھی ان کو بھترین اجر و ثواب عنایت کرے گا۔)
ممکن ھے وہ جناب کھیں: کہ ھم فتنہ وفساد پھیلانے والوں کے سلسلہ میں بسیجیوں کے اقدامات کو محکوم کرتے ھیں ، اور ان کو اس طرح کا اقدام نھیں کرنا چاھئے تھا، کیونکہ ان کو لوگوں کو بھی یہ حق تھا کہ وہ اپنی بات کھیں اور اعتراض کریں وہ بھی آزاد ھیں جیسا کہ امریکائیوں کا کھنا ھے: جن لوگوں نے قیام کیا اور مظاھرے کئے اور مساجد میں آگ لگائی یہ آزادی خواہ تھے لھٰذا ان لوگوں کو یہ کھنے کاحق تھا کہ ھم آزادی چاھتے ھیں، اور دین نھیں چاھتے! (جیسا کہ ایک صاحب اپنی تقریر میںکھتے ھیں کہ لوگوں کو خدا کے خلاف مظاھرے کرنے کا بھی حق ھے۔ (
لیکن اگر وہ یہ کھیں : جب ان لوگوں نے دیکہ لیا کہ اگر خوش رفتاری سے اپنی بات کو علی الاعلان کھتے ھیں کہ ھمیں دین و اسلام نھیں چاھئے تو حکومت ان کی بات کو نہ مانتی؛ اسی وجہ سے یہ لوگ مجبور ھوگئے کہ ذاتی اور سرکاری عمارتوں اور مساجد میں آگ لگادیں اور اسلام کے خلاف نعرے لگائیں، تاکہ وہ کسی نتیجہ پر پھنچ پائیں؛ اوریہ لوگ ایسا کرنے میں حق بجانب تھے، نہ کہ ان لوگوں کو کچلنے والے ۔
ھم اس کے جواب میں صرف اتنا عرض کرتے ھیں: آخر کار تم لوگ بھی تشدد اور شدت پسند ی کو مانتے ھو کیونکہ اس حادثہ کے سلسلہ میں دو باتوں میں سے کسی ایک کو تو ضرور قبول کروگے، یا فتنہ فساد برپا کرنے والوں اور مساجد میں آگ لگانے والوں کا اقدام صحیح تھا ؛ اس صورت میں تم خود تشدد کی تائید کر رھے ھو، چونکہ ان کا اقدام تشدد پر مبنی تھا، یا تم یہ کھوکہ بسیجی، عوام الناس اور پولیس کا رویہ صحیح تھا؛ تو اس صورت میں بھی تم نے تشدد کی تائید کی ، لھٰذا آپ بتائیں کہ کس تشدد کو جائز قرار دیتے ھو؟
ھم اس طرح کے لوگوں کی باتوں کو نھیںمانتے بلکہ ھمارے لئے معیار بانی انقلاب حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ کا کلام ھے ھم انھیں کے تابع ھیں ھم نے حکومتی اور ولایتی احکام انھیں سے سیکھے ھیں چنانچہ موصوف نے فرمایا:
” اگر ھمارے جوان اور حزب اللٰھی عوام الناس نے اس چیز کا مشاھدہ کیا کہ بعض تبلیغات، مقالات ، تقاریر، کتابوں اور جرائد میں اسلام اور حکومتی مصالح کے خلاف قدم اٹھایا جارھا ھے، تو ان کا وظیفہ ھے کہ وہ اس سلسلہ میں متعلقہ اداروں کو رپورٹ دیں اور ان اداروں کی ذمہ داری ھے کہ اس سلسلہ میں قدم اٹھائیں لیکن اگر متعلقہ اداروں نے کوتاھی کی اور قانونی طریقہ سے اس طرح کے انحرافات اور فاسد تبلیغات کا سد باب نہ کیا تو اس کے علاوہ کوئی راستہ نھیں ھے کہ ھمارے دیندار جوان میدان عمل میں گود پڑیں اور ھر مسلمان پر واجب ھے کہ اس سلسلہ میں اپنا قدم آگے بڑھائے۔“(10)
تمام لوگ اس بات کے گواہ ھیں کہ جس مرتد سلمان رشدی نے ”شیطانی آیات“ نامی کتاب لکھی جس میں قرآن کریم اور پیغمبر اکرم (ص) کی توھین کی گئی، توحضرت امام خمینی (رہ) نے اس کے قتل کا فتویٰ صادر کردیا،” اور ھر مسلمان پر واجب قرار دیدیا کہ اگر کوئی سلمان رشدی کو قتل کرسکتا ھے تو اس پر قتل کرنا واجب ھے“ اور یہ فتویٰ صرف امام خمینی (رہ) ھی کا نھیں تھا بلکہ تمام اسلامی فقھاء نے اسی طرح کا فتویٰ دیا اور تمام اسلامی ملکوں نے اس فتویٰ کی تائید کی اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کیا امام خمینی (رہ) کا یہ فتویٰ تشدد پر مبنی نھیں تھا؟ (کیوں نھیں) لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ حضرت امام خمینی (رہ) نے بھی اس شخص کے بارے میں تشدد کا رویہ اختیار کیا جس نے ضروریات دین اور اسلامی مسلم اصول کی توھین کی اور اسلامی مقدسات کو حرمت کو پامال کرنا چاھا ، امام خمینی (رہ) نے اس طرح کی تشدد کو جائز قرار دیا بلکہ ضروری سمجھا اور ایسے شخص کو مرتد اور واجب القتل قرار دیا۔
11۔ ھر موقع پر علمی شبھات اور اعتراضات کا جواب دیا جائے (اسلامی نظر یہ)
لیکن اگر کوئی شخص سازش یا کسی نقصان پھنچانے کا قصد نہ رکھتا ھو اور دین، ضروریات دین اوراحکام اسلام کے بارے میں کوئی شبہ یا اعتراض اس کے ذھن میں ھو تو وہ اس کو بیان کرسکتا ھے، بھر پور ادب و احترام کے ساتھ اس کی باتوں کو سنا جائے گا اور منطق و استدلال کے ساتھ اس کو جواب دیا جائے گا، کیونکہ دین اسلام دین منطق ھے ، اس کی بنیاد استدلال اور برھان پر قائم ھے، اور جب مسلمانوں اور علماء اسلام سے جب بھی کسی نے کسی اعتراض کا جواب طلب کیا ھے تو انھوں صبر و بردباری اورکشادہ دلی کے ساتھ بھترین دلائل پر مبنی عقلی اور شرعی جوابات پیش کئے ھیں اور اسلام کی حقانیت کو ثابت کیا ھے اسی وجہ سے قرآن مجید کا حکم ھے کہ اگر کوئی شخص اگرچہ میدان جنگ میں دشمن کا سپاھی کیوں نہ ھو؛ سفید پرچم کو اٹھائے ھوئے اسلام کی حقانیت کے بارے میں تحقیق وجستحو کرنے کے لئےمسلمانوں کے پاس آئے اور اپنے سوالات کا جواب تلاش کرے، تواس وقت مسلمانوں کو چاھئے کی اس کو تحفظ دیں حفاظت کریں اور اس کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہ پھنچائیں، آرام وسکون اور پیار محبت سے اس کی باتوں کو سنیں،اور اسلام کی حقانیت اور بر حق ھونے کو دلیل اور برھان کے ذریعہ ثابت کریں؛ اس کے بعد اس کو تمام تر حفاظت کے ساتھ دشمن کے لشکر میں واپس کردیں۔
خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے:
( وَإِنْ اٴَحَدٌ مِنْ الْمُشْرِکِینَ اسْتَجَارَکَ فَاٴَجِرْہ حَتَّی یَسْمَعَ کَلَامَ اللهِ ثُمَّ اٴَبْلِغْہ مَاٴْمَنَہ ذَلِکَ بِاٴَنَّھمْ قَوْمٌ لاَیَعْلَمُونَ ) (11)
” اور اگر مشرکین میں کوئی تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو تاکہ وہ کتاب خدا سنے اس کے بعد اسے آزاد کرکے جھاں اس کی پناہ گاہ ھو وھاں تک پھونچا دو اور یہ مراعات اس لئے ھے کہ یہ جاھل قوم حقائق سے آشنا نھیں ھے۔ “
قرآن کا حکم ھے کہ اگر کوئی شخص اسلام کی حقانیت کے بارے میں سوال اور تحقیق کے لئے آتا ھے، لیکن تحقیق کے بعد بھی مسلمان نہ ھو تو اس کو مکمل حفاظت کے ساتھ اس امن کی جگہ پھونچادو اور کسی کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ اس کو کسی طرح کا کوئی گزند پھونچائے؛ کیونکہ وہ اپنے سوالات کا جواب لینے کے لئے آیا تھا لھٰذا اس کی حفاظت ضروری ھے، اس کے سوالات کا جواب دیدیا گیا ھے۔
قارئین کرام! اب ھم سوال کرتے ھیں کہ دنیا کے کس گوشہ اور کس مذھب میں اسلام کی طرح اس بلندترین برتاؤ پر زور دیا گیا ھے؟
لیکن اگر کوئی شخص عناد و دشمنی اور سازش کے تحت ، نظام اسلام کو نقصان پھنچانے کے لئے کوئی شبہ یا اعتراض کرتا ھے اور مسلمانوں کے عقائد، اصول اور اسلامی اقدار میں شک و تردید ایجاد کرنا چاھتا ھے تو پھر اس کا مقابلہ کرنا ضروری ھے ، اور اس شخص کا مسئلہ اس مسئلہ سے الگ ھے جو اپنے سوالات کا جواب چاھتاھو اور اس کے دل میں اسلام کو نقصان پھنچانے کا کوئی ارادہ نھیں ھو۔
12۔ دشمن کی سازشوں سے مقابلہ کی ضرورت
ھمیں ثقافتی امور میں وسیع پیمانے پراسلامی اصول اور عقائد کے خلاف سازشیں کرنے والوں کے مقابلہ میں خاموش نھیں رھنا چاھئے ، اوراسیی طرح ان لوگوں کے سامنے جو اندرون ملک زر خرید قلم کے ذریعہ اسلام کو نقصان پھنچانے کے درپے ھیں؛ خاموش بیٹھے تماشا نھیں دیکھنا چاھئے واقعاً ان لوگوں نے سازش کا پروگرام بنا رکھا ھے جبکہ بعض لوگ اس کو ثقافتی ردّ وبدل کا عنوان دیتے ھیں،اور اخباروں میں لکھتے ھیں کہ کسی طرح کی کوئی سازش نھیں ھے ، اور سازشوں کے دعویٰ کو خیال خام قرار دیتے ھیں ، لیکن کچھ مدت پھلے ھوئے حادثہ نے ان سازشوں سے پردہ اٹھادیا ۔
وہ سب اسلامی نظام کے خلاف مظاھرے اور عمومی اور سرکاری اموال پر حملہ اور فتنہ وفساد؛ یہ سب اسی بات کی عکاسی کرتے ھیں کہ واقعاً اسلامی نظام کے خلاف ایک بھت بڑی سازش تھی، جیسا کہ مقام معظم رھبری (حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مد ظلہ العالی)نے بھی بیان فرمایا کہ اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے اسلامی نظام کے خلاف سازش تھی اور اسی حقیقت کے پیش نظر جب فتنہ گروں کو اپنے جگہ بٹھادیا گیا اور فتنہ کی لگائی ھوئی اس آگ کو فدا کار بسیجیوںنے بجھادیا تو اس وقت ان کی حمایت اور اسلامی نظام کی محکومیت میں دنیا میں شور ھونے لگا یھاں تک کہ خود امریکہ کے ممبر آف پارلیمنٹ نے یہ نعرہ لگایا کہ اسلامی جمھوری ایران کو محکوم ھونا چاھئے اور اس کے خلاف قوانین بنائیں جائیں؛ کیونکہ اسلامی حکومت نے بیرونی زر خرید نوکروں کو فتنہ وفساد پھیلانے کی اجازت نھیں دی!!
دنیا بھر میں ھر روز ھڑتال ، مظاھرے اور توڑ پھوڑ ھوتی رھتی ھے اور بھت سے لوگ قتل اور زخمی ھوتے رھتے ھیں ھم ھر روز یہ دیکھتے ھیں کہ صھیونیزم بے گناہ فلسطینی مسلمانوں کا خون بھاتے ھیں جو صرف اپنے پامال شدہ حقوق کا مطالبہ کر رھے ھیں، یھاں تک کہ امریکہ سے وابستہ حکومتوں کے ذریعہ سینکڑوں لوگوں کا قتل ھوتا ھے لیکن کوئی کچھ نھیں کھتا ، کھیں سے یہ آواز نھیں اٹھتی کہ یہ حقوق بشر کی پامالی ھے، یا ان لوگوں کا کچلنا آزادی کے خلاف ھے بلکہ اس حکومت کی حمایت کی جاتی ھے اور کھتے ھیں کہ یہ قانونی حکومت کے خلاف قیام تھا اور حکومت کو بھی اپنے دفاع کا حق ھے لیکن جب ایران کی کسی یونیورسٹی میں مشکوک طریقہ سے کسی کا قتل ھوجاتا ھے جس کا قاتل بھی ابھی تک پتہ نہ چل سکا (اگر چہ یہ بھی دشمن کے زر خرید نوکروں اور فساد پھیلانے والوں کا کام ھے) یا کسی شخص کی کسی حادثہ میں موت ھوجاتی ھے ، اسی طرح جب فتنہ وفساد پھیلانے والوں کے ذریعہ مساجد میں آگ لگائی جاتی ھے، ناموس پر حملہ کیا جاتا ھے ، اور بسیجی ان کا مقابلہ کرتے ھیں ؛ تو اس وقت مغربی ممالک خصوصاً امریکہ میں ھمارے ملک کے خلاف ھنگامہ ھوتا ھے، اور ھماری حکومت کو محکوم کیا جاتا ھے، اور ھمارے ملک کو آزادی اور ڈیموکریسی کا مخالف قرار دیا جاتا ھے دعویٰ یہ کیا جاتا ھے کہ مظاھرہ کرنے والے اپنے حقوق اور آزادی کے خواھاں تھے، لیکن ایرانی حکومت نے ان کو کچل دیا ، جس کے نتیجے میں ایرانی حکومت کو محکوم کرنے کے علاوہ کوشش یہ ھوتی ھے کہ اسلامی جمھوری ایران سے مقابلہ کے لئے قوانین بنائے جائیں!
13۔ دشمنان اسلام سے مقابلہ اور اعلان برائت ضروری ھے (قرآن کریم)
قارئین کرام ! نتیجہ یہ ھوا کہ جس خدا کی پھچان قرآن کریم نے فرمائی ھے وہ خدا صاحب رحمت بھی ھے اور صاحب غضب بھی، اگرچہ اس کی رحمت اس کے غضب سے کھیں زیادہ ھے، اور اس کے غضب سے آگے آگے رھتی ھے ، اور یہ کہ خدا کی رحمت اس کے غضب کی نفی نھیں کرتی، جیسا کہ خداوندعالم نے گناھوں پر اصرار کرنے والی بعض گذشتہ اقوام پر اپنا غیظ وغضب کا مظاھر ہ کیا، اور ان پر اپنا عذاب نازل کیا ھے۔
دوسرے یہ کہ اسلام نے ؛ اپنے سے دشمنی اور عداوت رکھنے والوں کے لئے سخت سے سخت قوانین مرتب کئے ھیں اور مسلمانوں کو حکم دیا ھے کہ اسلام دشمن افراد سے واضح طور پر برائت اور نفرت کا اعلان کریں۔
اس سلسلہ میں آپ حضرات سورہ ممتحنہ کی تلاوت کریں جس میں کفار اور مشرکین سے مسلمانوں کے طور طریقہ کو بیان کیا گیا ھے اور جو لوگ دشمنان خدا سے دوستی کا نقشہ پیش کرتے ھیں ان کی سخت مذمت کی گئی ھے ، نیز خداوندعالم دشمنان اسلام سے مخفی طور پر دوستی کرنے سے ڈراتا ھے۔ اس سورہ مبارکہ میں خداوندعالم مسلمانوں کو حکم دیتاھے کہ ابراھیم علیہ السلام اور ان کے اصحاب سے پند حاصل کریں اور دشمنان خدا کے مقابلہ میں ان کے رویہ کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں، نہ یہ کہ جو لوگ اسلام اور مسلمین کی نابودی کے لئے ظاھری اور مخفی طریقہ سے فعالیت کرتے ھیں؛ ان کے سامنے بیٹھے مسکراتے رھیں!
چنانچہ ارشاد رب العزت ھوتا ھے:
( یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَتَّخِذُوا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ اٴَوْلِیَاءَ تُلْقُونَ إِلَیْھمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَائَکُمْ مِنَ الْحَقِّ یُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِیَّاکُمْ اٴَنْ تُؤْمِنُوا بِاللهِ رَبِّکُمْ إِنْ کُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِھادًا فِی سَبِیلِی وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِی تُسِرُّونَ إِلَیْھمْ بِالْمَوَدَّةِ وَاٴَنَا اٴَعْلَمُ بِمَا اٴَخْفَیْتُمْ وَمَا اٴَعْلَنْتُمْ وَمَنْ یَفْعَلْہ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیل ) (12)
” ایمان والوں خبر دار ! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنانا کہ تم ان کی طرف دوستی کی پیش کش کرو جب کہ انھوں نے اس حق کا انکار کردیا ھے جو تمھارے پاس آچکا ھے اور وہ رسول کو او رتم کو صرف اس بات پر نکال رھے ھیں کہ تم اپنے پروردگار (اللھ) پر ایمان رکھتے ھو، اگر واقعاً ھماری راہ میں جھاد اور ھماری مرضی کی تلاش میں گھر سے نکلے ھو تو ان سے خفیہ دوستی کس طرح کر رھے ھو؟ جب کہ میں تمھارے ظاھر و باطن سب کو جانتا ھوں، اور جو بھی تم میں سے ایسا اقدام کرے گا وہ یقینا سیدھے راستہ سے بھک گیا ھے۔“
( قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اٴُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِی إِبْرَاھیمَ وَالَّذِینَ مَعَہ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِھمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِکَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ اٴَبَدًا حَتَّی تُؤْمِنُوا بِاللهِ وَحْدَہ)(13)
” تمھارے لئے بھترین نمونھٴ عمل ابراھیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی ھے جب انھوں نے اپنے قوم سے کھہ دیا کہ ھم تم سے اور تمھارے معبودوں سے بےزار ھیں ھم نے تمھارا انکار کردیا ھے اور ھمارے تمھارے درمیان بغض اور عداوت بالکل واضح ھے یھاں تک کہ تم خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لے آؤ “
ھم سے کھا جاتا ھے کہ زندگی کی باتیں کیجئے اور ”امریکہ مردہ باد“ کے نعروں کو چھوڑئیے، جی نھیں، ”امریکہ مردہ باد“ کے نعرے پورے زور وشور سے لگائے جائیں گے ، اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کی طرح ان سے یہ بات واضح طور پر کھہ دی جائے کہ جب تک حق کے سامنے سر تسلیم نہ کروگے، خدا کے سامنے اپنا سر نہ جھکائیں اور دوسروں پر اپنی حکومت جتانا نھیں چھوڑتے اور استکبارکی حالت سے اپنے کو نھیں نکالتے اور اپنے اپنائے ھوئے راستہ کو نھیں بدلتے،دنیا بھر کے لوگوں کے منافع کو پامال کرنا نھیںچھوڑتے اور آزاد ملتوںپر ستم کرنا ترک نھیں کرتے، ھم تمھارے دشمن ھیں۔
حالانکہ ان لوگوں نے ھمارے اور دوسرے اسلامی ملکوں کے منافع کو غارت کیا اور بھت زیادہ نقصانات پھنچائے، ھماری عزت و آبرو کو پامال کیااور ھمارے بھت سے رشتہ داروں کا خون بھایا، ھم بھلا کس طرح ان سے دوستی اور محبت کا مظاھرہ کریں؟ کیا دنیا بھر میں سیکڑوں بار کا تجربہ ھمارے لئے کافی نھیں ھے کہ ھم یہ سمجھ لیں کہ ان کے اندر مفاد پرستی اور استکبار کے علاوہ کچھ نھیں ھے، ھم پھر ان کے مکر وفریب کے جال میں پھنس جائیں؟!
قارئین کرام! قرآن مجید نے ھمیں یہ حکم دیا ھے کہ خدا ورسول اور اسلام کے دشمنوںکے سامنے واضح طور پر برائت اور دشمنی کا اظھار کریں اور اگر ھم اسی اسلام اور قرآن کے ماننے والے ھیں جو کروڑوں کی تعداد میں ھر مسلمان کے پاس موجود ھے اور دشمنان خدا سے برائت پر زور دیتا ھے، اور یہ برائت اور دشمنی کا اعلان صرف جزائی (سزائی) قوانین کے تحت نھیں ھے بلکہ اس سے بھی آگے ھے؛ تو پھر یہ کس طرح کھا جاسکتا ھے کہ سب کے سامنے بیٹھے مسکراتے رھیں اور سب کے ساتھ مھربان رھیں؟
حوالے
(1)وصیت نامہ سیاسی الٰھی امام خمینی (رہ) ، بند دوم
(2)سورہ آل عمران آیت4
(3)سورہ سجدہ آیت22
(4) سورہ بقرہ آیت90
(5) سورہ انعام آیت 12
(6( سورہ توبہ آیت12
(7( سورہ توبہ آیت73،سورہ تحریم آیت نمبر 9
(8)سورہ توبہ آیت123
(9 ) سورہ انفال آیت60
(10( وصیت نامہ حضرت امام خمینی (رہ)، بند دوم
(11)سورہ توبہ آیت6
(12) سورہ ممتحنہ آیت نمبر 1
(13) سورہ ممتحنہ آیت نمبر 4
اڑتیسواں جلسہ
اسلامی قوانین کے ساتھ مغربی نظریات کا ٹکراؤ
۱۔ تحریک مشروطیت اور مغربی کلچر کا رواج
قارئین کرام! ھم نے ”اسلامی سیاسی نظریات“ کی بحث کے دوران بعض ان مشکلات کی طرف اشارہ کیا جو مغربی ثقافت کے نفوذ کی وجہ سے ھمارے ملک میں پیدا ھوگئی ھیں، اور ھم نے ان اسباب کی طرف بھی اشارہ کیا جن کی وجہ سے یہ مشکلات پیدا ھوئی ھیں تاکہ ھمارے برادران خصوصاً جوانانِ عزیز اور آئندہ انقلاب کے وارث ان مشکلات میں گرفتار نہ ھوں منجملہ ان مشکلات کے جس کو گذشتہ بحث میں بیان کیا آزادی اور ڈیموکریسی کی بحث تھی۔
”تحریک مشروطیت“(۱) کے آغاز سے اس وقت تک ھمارے رابطہ مغربی کلچر سے زیادہ ھوتا گیا ھے، فرامانسون "Francmaconne" (۲) اور مغرب پرست (مغربی کلچر سے متاثر افراد) نے مغربی ممالک میں رائج مختلف کلچر کو اپناتے ھوئے ان کو اسلامی معاشرہ میں رائج کرنا شروع کردیا اگرچہ مختلف وجوھات کی بنا پر بعض چیزوں (جیسے آزادی اور ڈیموکریسی) کے رائج ھونے کا راستہ فراھم تھا، کیونکہ شاہ کے ظلم وستم سے ھمارا معاشرہ پریشان ھوچکا تھا، لھٰذا آزادی کی آواز پر فوراً لبیک کھا اور جب بھی کسی نے آزادی کا نعرہ لگایا اس کا بھت زیادہ استقبال ھوا، جس کا نتیجہ یہ ھوا کہ اس طرح کے نعرے سب کی زبان پر آنے لگے، اور آزادی اور آزادی خواھی کے بھت زیادہ طرفدار بن گئے البتہ اسلامی اقدار کے مخالف ان قید و بند اور ظلم و ستم سے عوام الناس آزادی چاھتے تھے لیکن مغربی تمدن سے متاثر حضرات نے آزدای کا دوسرا رخ پیش کیا یعنی اسلام سے آزادی در حقیقت وہ اس نعرے کے ذریعہ عوام الناس کو اسلام سے دور کرنا چاھتے تھے تاکہ وہ اسلامی قوانین اور اسلامی اقدار کی پابندی نہ کرپائیں۔
اسی طرح وہ عوام الناس جو خان، راجہ اور فئوڈل( اشرافی حکومت، یا جاگیر داری )کی ظالم حکومت سے پریشان تھے، لھٰذا ان کو ڈیموکریسی کا نعرہ اچھا لگا اور ڈیموکریسی حکومت بنانے کی کوشش کرنے لگے، نہ یہ کہ اس طرح کے ظالم و جابر افراد ان کی سر نوشت اور زندگی کے بارے میں منصوبہ بندی بنائیں اسی وجہ سے یہ نظریہ عوام الناس میں قابل قبول تھا لیکن جن لوگوں نے اس معنی کو عام طور پر رواج دیا اور اس مغربی تحفہ کی عبادت وپرستش کرتے ھوئے دوسروں کو بھی اس کی پرستش کی دعوت دی، تو ان کا مقصد ڈیموکریسی کے اس نعرہ سے اسلامی اقدار کو بالائے طاق رکہ دینا تھااور دین کو معاشرہ کی سیاسی زندگی سے ھٹانا تھا، نیز عوام الناس کے نظریات اور ان کی مرضی کو اسلامی اور مذھبی اقدار کی جگہ قرار دینا ان کا مقصد تھا لیکن جو لوگ مغرب پرستوں کے ان ناجائز اھداف سے واقف نہ تھے وہ اس طرح کے مطلق شعار کو قبول کرلیتے تھے؛ لیکن جو لوگ دور اندیش اور ھوشیار تھے انھوں نے اس کے خلاف عکس العمل دکھایا، اور عوام الناس پر اس حقیقت کو واضح کرنے اور دشمن کی سازش کو برملا کرنے کے لئے انھوں نے اپنی جان تک کی بازی لگادی، اور اپنے تمام تر وجود کے ساتھ یہ اعلان کردیا کیا کہ وہ مطلق آزادی اور ڈیموکریسی جو اسلام اور اسلامی قوانین کے مخالف ھو؛ وہ اسلامی لحاظ سے قابل قبول نھیں ھے۔
شھید بزرگوار شیخ فضل اللہ نوری رحمة اللہ علیہ کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے ڈیموکریسی اور مشروطھٴ غربی کی مخالفت کی جو کہ اسلامی اور الٰھی اقدار کے مخالف تھی، اور موصوف نے ”مشروطھٴ مطلقھ“ کے مقابلہ میں ”مشروطہ مشروعہ“ (۱) پیش کی چنانچہ موصوف فرماتے تھے: ھم مشروطھٴ کو مطلق طور پر قبول نھیں کرتے، بلکہ ھم اس مشروطہ کو قبول کریں گے جو اسلام اور قوانین اسلامی کے موافق ھو ، لیکن دوسرے لوگ مشروطہ مطلقہ کا نعرہ لگاتے تھے، کیونکہ ان کی نظر میں اس کا موافق شریعت ھونا یا نہ ھونا کوئی اھمیت نھیں رکھتا تھا؛ لھٰذا اپنے ناپاک اھداف کے تحت اس عالی قدر عالم روحانی کو ظلم و استبداد کی طرف داری اور مشروطہ مطلقہ کی مخالفت کے جرم میں پھانسی پر لٹکا دیا اور ان کو شھید کردیا اگرچہ ایک طرف سے ”اصول گرایان“ اور ”اسلام خواھان“کے درمیان اور دوسری طرف دگر اندیشان اور مغرب پرستوں میں یہ جنگ و جدال اور کشمش ابھی تک جاری و ساری ھے۔
۲۔ اسلام میں مطلوب اور مقصود آزادی کے نقشہ پر بعض موٴلفین کی نا رضا مندی
قارئین کرام ! ھم نے گذشتہ سال آزادی اور ڈیموکریسی کے سلسلہ میں بحث وگفتگو کی جس میں ھم نے بیان کیا کہ ھمارے معاشرہ میں مطلق آزادی قابل قبول نھیں ھے، اور جیسا کہ اسلامی تمدن اور بنیادی قوانین میں مشروط آزادی مقبول ھے بنیادی قوانین کی اصل نمبر ۴ کی بنا پر : بنیادی قوانین کے اصول، قوانین موضوعہ، پارلیمنٹ کے بنائے ھوئے قوانین،یا دوسرے اداروں کے ذریعہ بنائے جانے والے قوانین اس وقت معتبر ھیں جب وہ دلیل شرعی کے عموم اور اطلاق سے کسی طرح کی کوئی مخالفت اور مغایرت نہ رکھتے ھوں لھٰذا اگر بنیادی قوانین کی ایک اصل بھی آیات و روایات کے عموم اور اطلاق سے مخالفت رکھتے ھوں تو وہ غیر معتبر ھے! ھماری ملت نے اسی بنیادی قوانین کو ووٹ دیا ھے جو اس قدر اسلامی مضبوط پشت پناھی رکھتا ھے لھٰذا اسلام کے احیاء اور زندگی کے لئے انقلاب برپا کرنے والے ھماری ملتبنیادی قوانین میں اسلامی احکام اور اسلامی منزلت کے تحفظ کے طلب گار ھیں، تو پھر وہ غیر اسلامی تمدن کو کیسے قبول کرسکتی ھے؛ لھٰذا ھماری ملت کے نزدیک (جو اسلامی
………………………
()یعنی وہ مشروطیت جس میں شرعی قوانین کے تحت کام کیا جائے (مترجم)
نظریہ ھے)؛وہ آزادی قابل قبول ھے جو اسلامی احکام اور اقدار کے تحت ھو۔
لیکن ھماری اس بحث کے بعد بھت سے اخبار وں کے مالکان نے ھماری مخالفت شروع کردی، اور بھت سے مقالات ھماری مخالفت میں چھپنے لگے، اور ھم کو آزادی اور ڈیموکریسی کا مخالف اور ظلم وستم کا طرف دار بتایا جانے لگا، یھاں تک کہ بعض لوگوں نے تو یہ بھی کھہ ڈالا کہ فلاں صاحب تو ایران کو پیچھے کی طرف لے جارھے ھیں! اور آخر کار ایک مسلمان اور انصاف پسند مقالہ نگار نے ھماری باتوں کا اعتراف کیا اور کھا: ھمارا معاشرہ اس آزادی کا دفاع کرسکتا ھے جو اسلامی احکام اور قوانین شریعت کے دائرہ میں ھو؛ جبکہ ھمارے حکومتی عھدہ داران نے بھی بارھا اسی مطلب کی طرف اشارہ کیا ھے اور کرتے رھتے ھیں۔
۳۔ مفسد فی الارض کے بارے میں اسلامی حکم
ھم نے گذشتہ بحث میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ عدلیہ کو طاقتور ھونا ضروری ھے تاکہ خلاف ورزی کرنے والوں کو ان کی سزائے اعمال تک پھنچایا جاسکے، اور مجرموں کو سزا مل سکے، اور اس کام کے لئے پولیس اور قدرت کا استعمال کرنا ضروری ھے اور اگر اس طرح کی طاقت اسلامی حکومت میں نہ ھو تو پھر وہ معاشرہ میں اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کی ضامن نھیں ھوسکتی اس چیز کو دنیا بھر کی حکومتوں میں قبول کیا جاتا ھے سوائے ”آنارشیسٹوں“"Anarchistes" ( فساد طلب ) اور حکومت کا انکار کرنے والوں کے، اور سبھی افراد حکومتوں کے لئے طاقت اور پولیس کو لازمی اور ضروری جانتے ھیں لھٰذا اسلامی حکومت کے لئے امن وامان قائم کرنے، معاشرہ میں نظم وضبط برقرار رکھنے،الٰھی احکام اور حدود نیز اسلام کے سزائی قوانین کو نافذ کرنے کے لئے قدرت اور طاقت کا استعمال ضروری ھے اسی طرح اگر کچھ لوگ اسلامی نظام کے خلاف مظاھرہ کرنے لگیں اور معاشرہ میں بد امنی پھیلانے لگیں تو اس وقت اسلامی حکومت کی ذمہ داری ھے کہ وہ اپنی قدرت اور پولیس کے ذریعہ ان کو اپنی جگہ بٹھادے۔
قارئین کرام ! ھم نے عرض کیا کہ بغیر کسی حد اور قید کے مطلق آزادی کو ایک ناقابل انکار ارزش اور اقدار کے عنوان سے بیان کرنے والے اور اس کے مقابلہ میں تشدد اور شدت پسندی کو مطلق طور پر ضدِّ اقدار قلمبند کرنے والے افراد کھتے ھیں : ”یھاں تک کہ نظام اسلامی کے مقابلہ میں قیام کرنے والوںاور تشدد اور شدت پسندوں کے مقابلہ میں ؛ تشدد اور شدت پسندی کا مظاھرہ نھیں کرنا چاھئے، بلکہ پیار و محبت اور الٰھی و اسلامی رحمت کے ساتھ برتاؤ کیا جانا چاھئے۔“
بے شک ان لوگوں کا یہ نظریہ صحیح نھیں ھے، کیونکہ اگر مجرموں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے مقابلہ میں سخت رویہ نہ اپنایا جائے اور ضروری مواقع پر تشدد اور پولیس کا سھارا نہ لیا جائے تو اس طرح کے فتنہ وفساد دوبارہ بھی ھوسکتا ھے یھاں تک کہ ممکن ھے اس طرح کے برتاؤ سے دوسرے بھی ناجائز فائدہ اٹھائیں، کیونکہ اگر اس طرح کا فتنہ وفساد بپا کرنے والوں، مساجد میں آگ لگانے والوں، عورتوں کے سروں سے چادر چھینے والوں اور مختلف مقامات پر آگ لگانے والوں نیزدھشت گردی پھلانے والوں کے مقابلہ میں اگر بیٹھے مسکراتے رھیں اور نرمی کے ساتھ برتاؤ کرتے رھیں تو گویا یہ فتنہ وفساد پھلانے والوں کے لئے ایک سبز چراغ ھوگا اور وہ یہ سوچ سکتے ھیں کہ اس طرح کا کام دوبارہ بھی کیا جاسکتا ھے!! لھٰذا یہ نظریہ بالکل نا درست اور اسلام کے مخالف ھے کیونکہ اسلام کا حکم یہ ھے کہ محارب (لڑائی جھگڑا کرنے والا) اور مفسدفی الارض کے لئے سخت سے سخت سزائیں دی جائیں۔
عام طور پر حکومتی قوانین کی خلاف ورزی کرنا اور تشدد کا استعمال کرنا دو طریقہ پر ھوسکتا ھے: کبھی تو انفرادی طور پر ھوتا ھے اور کبھی اجتماعی طور پر اجتماعی طور پر اس طرح سے کہ ایک گروہ منصوبہ بندی کے ساتھ حکومت کے خلاف مسلحانہ حملہ کرتا ھے اسلامی فقہ میں اس گروہ کو ”بُغاة“ اور ”اھل بَغی“ (بغاوت کرنے والا) کھا جاتا ھے اسلامی جھاد کی ایک قسم اسی طرح کے لوگوں سے جھاد کرنا ھے اگر کچھ لوگ کسی گروہ کے تحت اسلامی حکومت کے خلاف مسلحانہ قیام کریں توان سے جنگ کرنا ضروری ھے، یھاں تک کہ اسلامی حکومت کے سامنے تسلیم ھوجائیں اور ان سے کسی طرح کی کوئی سازش نھیںکرنا چاھئے لیکن کبھی حکومت کے خلاف اس طرح کا قیام کسی خاص گروہ کے تحت نھیں ھوتا بلکہ ایک یا دو آدمی مسلحانہ حملوں کے ذریعہ معاشرہ میں بد امنی پھیلاتے ھیں اور عوام الناس کی جان ومال او رناموس پر حملہ ور ھوتے ھیں اور دھشت گردی پھیلاتے ھیں شریعت اسلام میں ایسے افراد کو ”محارب“ کھا گیا ھے ایسے افراد کے مقابلہ میں لشکر کشی کی ضرورت نھیں ھوتی، بلکہ ان لوگوں کو اسلامی عدالت کے حوالہ کیا جاتا ھے تاکہ قاضی شرع ان کے بارے میں فیصلہ کرے۔
اور قاضی شرع بھی محارب اور مفسد فی الارض کے سلسلہ میں چار احکام میں سے کوئی ایک حکم لگا سکتا ھے، اور وہ چار حکم درج ذیل ھیں:
۱۔ پھانسی دینا۔
۲۔ تلوار یا بندوق کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتار دینا۔
۳۔ مختلف سمت سے ھاتہ پیر کاٹ دینا ،(یعنی داھنا ھاتہ اور بایاں پیر ،یا بایاں ھاتہ اور داھنا پیر)۔
۴۔ اسلامی ملک سے نکال دینا۔
چنانچہ اس سلسلہ میں قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:
( إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ اللهَ وَرَسُولَہ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاٴَرْضِ فَسَادًا اٴَنْ یُقَتَّلُوا اٴَوْ یُصَلَّبُوا اٴَوْ تُقَطَّعَ اٴَیْدِیھمْ وَاٴَرْجُلُھمْ مِنْ خِلاَفٍ اٴَوْ یُنفَوْا مِنْ الْاٴَرْضِ ذَلِکَ لَھمْ خِزْیٌ فِی الدُّنیَا وَلَھمْ فِی الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیمٌ (۳)
”بس خدا و رسول سے جنگ کرنے والے اور زمین میں فساد کرنے والوں کی سزا یھی ھے کہ انھیں قتل کردیا جائے یا سولی پر چڑھا دیا جائے یا ان کے ھاتہ پیر مختلف سمت سے قطع کردئے جائیں یا انھیں ارض وطن سے نکال باھر کیا جائے، یہ ان کے لئے دنیا میں رسوائی ھے اور ان کے لئے آخرت میں عذاب عظیم ھے۔ “
لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ جو لوگ اسلامی حکومت اور نظام اسلام کے خلاف فتنہ وفساد برپا کریں وہ محارب اور مفسد فی الارض ھیں اور ان کو اسلام کے مطابق سزا دی جائے، کسی بھی صورت میں اسلامی سزا اٹھائی نھیں گئی ھیں اسلامی تمدن کے مخالف افراد کھا کرتے ھیں کہ اسلامی سزائیں اور اسلام کے احکام تشدد آمیز ھیں اور عام طور پر کسی بھی طرح کی تشدد مذموم ھے اور جیسا کہ ھم نے تشدد کی بحث میں بیان کیا کہ جس طرح مطلق آزادی صحیح نھیں ھے اسی طرح مطلق تشدد بھی محکوم اور مذموم نھیں ھے بلکہ بعض موقع پر تشدد اور غیظ وغضب کا مظاھرہ کرنا جائز اور لازم ھے، اور جو لوگ تشدد اور غیظ وغضب کے ساتھ آگے بڑھتے ھیں ان کے ساتھ میں ویسے ھی تشدد اور قھر و غضب کے ساتھ جواب دیا جائے، ورنہ اگر ان کے ساتھ پیار و محبت کا برتاؤ کیا جائے تو واقعاً یہ ان کے لئے ایک سبز چراغ دکھانے کی طرح ھوگا اور وہ پھر دوبارہ بھی اس طرح کا آشوب برپا کرسکتے ھیں، اور اس طرح دوبارہ فساد پھیلانے کا راستہ ھموار ھوجائے گا۔
۴۔ سخت رویہ نہ اپنانے کا نتیجہ
گذشتہ سال ملک کے بعض مقامات پر مختصر طور پر بدامنی پھیلی ، اور بعض دلائل کی بنا پر حکومتی عھدہ داروں نے یہ مصلحت دیکھی کہ بد امنی پھیلانے والوں کے ساتھ تھوڑی نرمی کے ساتھ برتاؤ کیا جائے، اور سخت رویہ نہ اپنایا جائے؛ چنانچہ آپ حضرات نے دیکھا کہ اسی نرم رویہ اپنانے کا نتیجہ تھا کہ ایک بار پھر بد امنی پھیل گئی، جس کے درد ناک نتائج ناقابل برداشت تھے لھٰذا اگر بد امنی پھیلانے والوں اور مفسد فی الارض کے ساتھ سخت برتاؤ نہ کیا جائے اور اسلامی سزائیں ان کے حق میں جاری نہ کی جائیں تو پھر دوبارہ بدامنی نہ پھیلنے کی کوئی ضمانت نھیں ھے اور یہ بھی ضمانت نھیں ھے کہ ایک بار پھر یونیورسٹی کے ماحول سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے گا بے شک ھمارے یونیورسٹی کے طلباء مسلمان، ھوشیار اور موقع شناس ھیں اور بدامنی اور آشوب پھیلانے سے بری ھیں لیکن بعض افراد ایسے بھی موجود ھیں جو انھیں طلباء کے پاکیزہ احساسات سے ناجائز فائدہ اٹھاکر پھر دوبارہ بد امنی پھیلانا چاھتے ھیں۔
لھٰذا گر بد امنی پھیلانے والوں کے ساتھ سخت رویہ نہ اپنایا جائے اور بعض لوگوں کے مطابق؛ ان کے ساتھ تشدد اور شدت پسندی کا برتاؤ نہ کیا جائے تو پھر دوبارہ اس طرح کی بد امنی نہ پھیلانے کی کیا ضمانت ھے؟ لھٰذا توجہ رھے کہ اگر اسلامی سزائیں سخت ھیں جیسا کہ چور کے ھاتہ کاٹنے کا حکم ھے یا دوسرے جرائم؛ خصوصاً محارب اور مفسد فی الارض کے لئے سخت سے سخت سزائیں معین کی ھیں، تو وہ اس وجہ سے ھیں تاکہ پھر کوئی بد امنی پھیلانے کی جرائت نہ کرسکے ، اور اس طرح کے مجرم سخت سزا سے خوف زدہ رھیں کیونکہ دشمن اور مجرم کو ڈرانے کا مسئلہ اسلام کی ایک بھت بڑی حکمت ھے جس کی طرف قرآن مجید نے اشارہ کیا ھے، مسلمانوں اور سیاسی مسلمانوںکو اس آیت پر توجہ کرنا چاھئے، ارشاد رب العزت ھوتا ھے:
( وَاٴَعِدُّوا لَھمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھبُونَ بِہ عَدُوَّ اللهِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِینَ مِنْ دُونِھمْ لاَتَعْلَمُونَھمْ اللهُ یَعْلَمُھمْ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ شَیْءٍ فِی سَبِیلِ اللهِ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ وَاٴَنْتُمْ لاَتُظْلَمُونَ ) (۴)
” اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو جس سے اللہ کے دشمن، اپنے دشمن اور ان کے علاوہ جن کو تم نھیں جانتے ھو اور اللہ جانتا ھے سب کو خوفزدہ کردو، اور جو کچھ بھی راہ خدا میں خرچ کرو گے سب پورا پورا ملے گا اور تم پر کسی طرح کا ظلم نھیں کیا جائے گا۔“
جن مواقع پر عوام الناس کی طرف سے تشدد جائز ھے وہ اس وقت ھے جب عوام الناس کو یہ احساس ھوجائے کہ اسلامی عھدہ داران خطرہ میں ھیں ، اور اسلامی نظام کے خلاف سازش ھورھی ھے ، اور صرف اسلامی حکومت اسلامی نظام کا دفاع کرنے پر قادر نھیں ھے کیونکہ جب اسلامی حکومت کو نظام کے سلسلہ میں کسی سازش کا پتہ چل جاتا ھے تو وہ خود اپنی ذمہ داری پر عمل کرتی ھے، لیکن اگر اسلامی حکومت تنھا کافی نہ ھو تو عوام الناس کا وظیفہ بنتا ھے کہ اسلامی حکومت کی مدد کریں اور اسلامی حکومت کے عھدہ داروں کا دفاع کریں جیسا کہ آپ حضرات نے دیکھا کہ اس سال (تیر ماہ ۱۳۷۸ئہ شمسی ) کے درد ناک حادثہ میں کس طرح کا ماحول پیدا ھوگیا، اس وقت واقعاً اسلامی نظام خطرہ میں تھا، اس وقت حکومتی قدرت اس فساد کی آگ کو بجھانے کے لئے کافی نہ تھی، لھٰذا عوام الناس اور بسیجی ( عوامی رضاکار فوج) اس آگ کو بجھانے کے لئے آگے بڑھے اور اس کو خاموش کردیا؛ جیسا کہ بعض حکومتی بڑے عھدہ داروں نے بھی اس بات کی وضاحت کی کہ اس شعلہ ور آگ کو ھمارے بسیجیوں نے بجھایا ھے۔
لھٰذا اگر اسلامی نظام کے خلاف کوئی سازش ھو (جبکہ بعض لوگ اس سازش سے بے خبر رھتے ھیں) اور ھم واضح اور قطعی طور پر اس سازش کا احساس کرلیں اور اس سازش کو ختم کرنے کے لئے تشدد کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ ھو،تو اس صورت میں تشدد او رشدت پسندی کا اظھار کرنا واجب اور ضروری ھے جیسا کہ حضرت امام خمینی (رہ) نے فرمایا کہ ”اس موقع پر تقیہ کرنا حرام ھے، اور قیام کرنا چاھئے، ھرچہ بادا باد “(چاھے کچھ بھی ھو) جس وقت خود اسلام خطرہ میں ھو اس موقع پر کسی طرح کا کوئی تقیہ جائز نھیں ھے، اور اسلام کے دفاع کے لئے اٹہ کھڑا ھونا چاھئے، یھاں تک کہ اگر ھزاروں لوگ بھی قتل ھوجائیں، اگرچہ دوسرے افراد کسی وجہ سے اس خطرہ کی طرف متوجہ نہ ھوں یا وہ اس کام میں مصلحت نہ سمجھتے ھوں، لیکن جب یقینی دلائل کے ساتھ واضح ھوجائے کہ واقعاً اسلامی نظام اور اسلامی عھدہ داروں کے لئے خطرہ ھے تو پھر عوام الناس کو ان کا دفاع کرنا واجب ھے؛ لھٰذا یھاں پر تشدد اور غیظ وغضب کا ظاھر کرنا واجب ھے۔
ھماری باتوں کا مطلب یہ نھیں ھے کہ ھر موقع پر تشدد سے کام لیا جائے ، ھم تشدد کے طرفدار نھیں ھیں بلکہ ھمارا اعتقاد تو یہ ھے کہ پیار و محبت اور مھربانی اصل ھے ، اور صرف ضروری مواقع پر تشدد سے کام لیا جائے ھماری عرض تو اتنی ھے کہ جب اسلامی حکومت موجود ھو تو پھر حکومتی متعلق اداروں اور عدلیہ کے فیصلہ کے مطابق کام ھو؛ لیکن اگر کوئی مسئلہ حکومت کے ھاتھوں سے نکل جائے اور اسلام اور اسلامی نظام کی حفاظت کے لئے تشدد کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ بچے تو اس وقت تشدد کا مظاھرہ کرنا واجب ھے۔
۵۔ تشدد کی بحث کے مقابلہ میں غیر ذمہ دارانہ رویہ
گذشتہ جلسہ میں تشدد کے سلسلہ میں مطالب بیان کرنے کے بعد بعض مغرب پرست اخباروں نے ھمارے اوپر اعتراضات کئے اور بھت سے مقالات اخباروں میں چھپے حقیر اس سلسلہ میں ان تمام افراد کا شکر گذار ھے جنھوں نے ھماری موافقت یا مخالفت میں گفتگو کی یا مقالہ لکھا کیونکہ ھمارا تو یہ نظریہ ھے کہ اخباروں میں اس طرح کی باتوں پر نقد وتنقید کوئی نقصان دہ نھیں ھوتی؛ بلکہ اس طرح سے بات بالکل صاف ھوجاتی ھے تاکہ عوام الناس اپنے عقائد کو راسخ تر کرلیں، اور اپنے وظیفہ کو بھتر طور پر سمجھ لیں لیکن شرط یہ ھے کہ ایک طرف کی بات سن کر فیصلہ نہ کیا جائے اور دونوں طرف کی مکمل باتوں کو پیش کیا جائے لیکن افسوس کے ساتھ عرض کیا جاتا ھے کہ بعض لوگوں نے ھماری باتوںکو کاٹ چھانٹ کر بعض عھدہ داروں تک پھنچائی جن کی وجہ سے وہ پریشان ھوگئے اور جلد بازی میںھمارے خلاف فیصلہ کرنے لگے۔
ھمیں ددسروں سے یہ امید نھیں ھے کہ وہ ھماری باتوں کی تائید کریں اسی طرح ان سے کسی طرح کا کوئی خوف بھی نھیں ھے ھم اپنی شرعی اور الٰھی ذمہ داری پر عمل کرتے ھیں، اگر کسی کو اچھا لگے تو بھتر، ورنہ ھم نے اپنی ذمہ داری پر عمل کردیا ھے اور خدا پر بھروسہ کیا ھے، ھمیں کسی کی توھین یا دھمکی کا کوئی خوف نھیں ھے لیکن جو لوگ دعویٰ کرتے ھیں کہ سب کی باتوں کوکشادہ دلی کے ساتھ سننا چاھئے؛ ان سے یہ امید تھی کہ ھماری باتوں کو سنتے اور شاید ھماری پوری بات کو سننے کے بعد ان کو مان بھی لیتے اور اگر ھماری بات کو قبول بھی نہ کرتے تو اس کا جواب دلیل و منطق اور اصول کے تحت دیتے، نہ یہ کہ نامناسب الفاظ سے ھمیں نوازا جاتا۔
افسوس کہ ھمارے پاس اتنا وقت نھیں ھے کہ ھم ان تمام لوگوں کو تحریری جواب دیں جنھوں نے تقریروں، اخباروں اور مقالوں میں اظھار محبت کی اور ھمارے نفع یا ھمارے نقصان میں کچھ بیان کیا اوران دو ھفتوں میں سیکڑوں مقالے لکھے، اسی طرح ان سب کو الگ الگ زبانی جواب دینے کی بھی فرصت نھیں ھے لھٰذا ان کو جواب نھیں دیتے ، ھمیں امید ھے کہ ان سب کا یہ کام خوشنودی خدا کے لئے ھوگا۔
ھم اپنی ذمہ داری سمجھتے ھیں کہ اسلامی معاشرہ کے لئے ضروری چیزوں کو دلائل اور برھان کے ساتھ بیان کریں ، لیکن اگر کسی کو اچھا نہ لگے تووہ منطق اور دلیل کے ساتھ اس کا جواب دے۔
۶۔ قرآن مجید میں لفظ ” تشدد“ کے ھم معنی لفظ کی تحقیق
قارئین کرام ! ھم یھاں پر ضروری سمجھتے ھیں کہ تشدد کے سلسلہ بیان شدہ باتوں کا خلاصہ کریں: ”تشدد“ عربی لفظ ھے اور فارسی زبان میں بھی استعمال ھوتا ھے، جس کے معنی سختی سے پیش آنے کے ھیں، اس کے مقابلہ میں لفظ ”لیّن“ ھے جس کے معنی ”نرمی “ کے ھیں قرآن مجید میں لفظ ”لیّن“کے مقابلہ میں لفظ ”تشدد“ کا استعمال نھیں ھوا ھے، بلکہ لفظ ”غلظت“ استعمال ھوا ھے؛ جب کہ حقیقت یہ ھے کہ یہ دونوں (تشدد اور غلظت) مترادف (ھم معنی) الفاظ ھیں جیسا کہ فارسی (یا کسی دوسری زبان ) میں مترادف الفاظ ھوتے ھیں، اسی طرح عربی زبان میں بھی بھت سے مترادف الفاظ ھوتے ھیں، قرآن مجید میں کبھی ان دو مترادف الفاظ میں سے ایک لفظ استعمال ھوا ھے اور کبھی کبھی دونوں الفاظ استعمال ھوئے ھیں، اور کبھی دو الفاظ میں سے ایک خاص معنی میں استعمال ھوا ھے، مثال کے طور پر لفظ ”قلب“ سے ایک معنی مراد ھوتے ھیں اور لفظ ”فوٴاد“ سے دوسرے معنی، (جبکہ دونوں کے معنی ”دل“ کے ھیں) اور کبھی کبھی ایک لفظ کی جگہ دوسرا لفظ استعمال ھوا ھے قرآن مجید میں لفظ ”لیّن“ (نرمی) کے مقابلہ میں لفظ ”غلظت“ استعمال ھوا ھے، جیسا کہ خداوندعالم نے پیغمبر اکرم سے خطاب فرماتا ھے:
( فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللهِ لِنْتَ لَھمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ ) (۵)
” پیغمبر یہ اللہ کی مھربانی ھے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم رھو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ھوتے تو یہ لوگ تمھارے پاس سے بھاگ کھڑے ھوتے “
فارسی میں لفظ” غلظت “ سختی کے معنی میںاستعمال نھیں ھوتا، بلکہ ھماری زبان میں اس لفظ کو ”بھنے والی “ چیزوں میں استعمال کیا جاتا ھے، مثلاً کھا جاتا ھے کہ خرمے کا رس ”غلیظ“ ھے ، یعنی سخت ھے، اور لفظ ”غلظت“ جس کے مقابلہ میں لفظ ” لیّن“ ھے؛ اس کے ھم معنی لفظ ”تشدد“ ھے جس کے سلسلہ میں ھم نے بحث کی ھے،اور کھاکہ تشدد مطلق طور پر مذموم نھیں ھے، بلکہ بعض مواقع پر نہ صرف یہ کہ مذموم نھیں ھے بلکہ ضروری اور واجب بھی ھے۔
۷۔مغربی اور اسلامی نظر میں تحمل اور ٹولرانس کے معنی
قارئین کرام ! ھم نے آزادی کے سلسلہ میں عرض کیا کہ ھمارے سیاسی اور ادبی معاشرہ میںکئے جانے والے آزدای کے معنی لفظ لبرلیزم " Liberalism" کا ترجمہ ھے جس کا رواج مغربی ممالک میں بھت زیادہ ھے اسی طرح لفظ ”تحمل“ (کسی کی بات کو برداشت کرنا) جو لفظ ”تشدد“ کے مقابلہ میں استعمال کیا جاتا ھے یہ انگلش لفظ ٹولرانس "Toleranec" کے ھم معنی ھیں جس کے معنی تحمل اور برادشت کرنا ھیں بھر حال چونکہ یہ دونوں الفاظ مغربی ممالک میں بھت زیادہ رائج ھیں البتہ اس چیز میں کوئی ممانعت بھی نھیں ھے کہ اگر کسی دوسری زبان کا لفظ واضح اور شفاف معنی رکھتا ھو تو اس کو ”ھو بھو“ یا اس کے ھم معنی کوئی دوسرا لفظ اپنی ادبیات میں شامل کرلیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں البتہ اس نکتہ پر توجہ رھے کہ کبھی کبھی دوسری زبان کے یہ الفاظ بھت سی حد و قید رکھتے ھیں اور خاص الخاص معنی رکھتے ھیںنیز اسی زبان کے ماحول سے اس کے معنی کئے جاتے ھیں یعنی جب کسی زبان میں کوئی لفظ استعمال ھوتا ھے تو اس کے مثبت یا منفی معنی ھوتے ھیں لیکن اگر اسی کو کسی دوسری زبان میں لے جاکر معنی کئے جائیں تو اس کے معنی بدل جاتے ھیں یا اس کے معنی بالکل برعکس ھوجاتے ھیں، مثال کے طور پر:
یھی لفظ ” آزادی“جو مغربی تمدن سے ھماری زبان میں وارد ھوا ھے ؛ مغربی ممالک میں اس کے بھت زیادہ وسیع معنی ھیںاور جنسی مسئلہ میں کسی قسم کی روک ٹوک نہ ھونے کے معنی میں بھی استعمال ھوتا ھے جب کہ ھمارے معاشرہ میں ایسا نھیں ھے، ا ور یہ معنی ھمارے معاشرہ بلکہ دوسرے اسلامی معاشرہ میں بھی قابل قبول نھیں ھیں، لھٰذا ھم اسلامی اور قومی اقدار کی بنا پر مجبور تھے کہ اس آزادی میں کچھ قید وشرط کا اضافہ کریں اور جائز آزادی نیز اسلامی قوانین کے مطابق آزادی کو قبول کرلیں، لھٰذا واضح طور پر یہ اعلان کرتے ھیں کہ ھم ”مطلق آزادی“ کو نھیںمانتے اسی طرح ”تشدد“ کے وہ معنی جو ھماری زبان میں وارد ھوگئے ھیں اور مغربی ممالک میں اس کو مطلقاً قابل مذمت گردانتے ھیں؛ جب کہ ھم اس کو بطور مطلق ضدّ اقدار نھیں سمجھتے، جس طرح سے مطلق آزادی کو نھیں مانتے بلکہ ھم منطق اور اصول سے خالی تشدد جوانسانی اخلاق کے مخالف ھو؛اس کو مذموم مانتے ھیں ، اور ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ بعض مواقع پر تشدد ؛ عقل کا تقاضا اور معاشرہ کے منافع کو پورا کرنے والی ھے، لھٰذا اس وقت اس میں کوئی نقصان بھی نھیں ھے۔
لھٰذا جب لفظ ٹولرانس "Toleranec" انگلش سے نکل کر ھماری زبان میں داخل ھوا ، تواس کو مطلق طور پر قبول کرنے سے پھلے اس کے صحیح معنی پر توجہ کریں اور یہ دیکھیں کہ مغربی ممالک میں اس کے کیا کیا مثبت یا منفی پھلو ھیں، اور اس کے پشت پردہ کیا راز پوشیدہ ھے اور کس مقصد کے تحت ھماری سیاسی ادبیات میں داخل ھوا ھے؟ نیز یہ دیکھیں کہ اس کے منتقل ھونے کے بعد اس کے معنی میں کیا کچھ تبدیلی پیدا ھوئی ھے یا نھیں؟
لفظ ٹولرانس کا مفھوم مغربی ماڈرن تمدن کا ایک تحفہ ھے جو ” رنسانس“کے زمانہ بعد سے آھستہ آھستہ رائج ھوتا چلا گیا ھے اور آج کل مغربی ممالک میں بے دینی تمدن کی ایک واضح پھچان ھے (توجہ رھے کہ ھم نے اس سے پھلے بھی عرض کیا ھے کہ جب ھم مغربی تمدن کا نام لیتے ھیں تو اس سے مراد ان ممالک میں رھنے والے تمام لوگوں کا تمدن نھیں ھے؛ کیونکہ وھاں پر بھت سے دیندار مسلمان بھی موجود ھیں، بلکہ ھماری مراد مغربی ممالک میں حکمراں تمدن ھے جس کے مخالف بھی خودانھیں ممالک میں بھت زیادہ پائے جاتے ھیں۔)
اس لفظ ٹولرانس "Toleranec" کی تحقیق کے سلسلہ میں مزید عرض کرتے ھیں:
اولاً: مغربی ممالک میں حکمراں تمدن میں تمام اقدار (چاھے وہ اخلاقی اقدار ھوں یا اجتماعی اقدار یا حقوقی اور سیاسی) اعتباری امور ھیں اور ان کی کوئی عقلائی اور واقعی حققت نھیں ھے دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ اقدار کا تعلق عوام الناس کی مرضی اور ان کے سلیقہ پر ھوتا ھے کیونکہ کسی چیز پر اعتقاد رکھنا سب کے لئے اور سب جگہ پر اقدار نھیں کھلاتا بلکہ مغربی ممالک کی نظر میں اقدار اس وقت اقدار ھے جب معاشرہ اس کو قبول کرے، لیکن اگر ایک زمانہ میں عوام الناس کا سلیقہ بدل جائے تو یھی اقدار ضد اقدار میں بدل جائے گا۔
ثانیاً : یہ لوگ اسلامی اعتقاد کو اسی اعتباری اقدار کے ھم پلہ قرار دیتے ھیں، اورانسان کو یہ اختیار دیتے ھیں کہ چاھے وہ ان کو قبول کرے یا ترک کردے، گویا دینی عقائد کو بھی ایک سلیقہ کی طرح قرار دیتے ھیں:
جس طرح انسان اپنے سلیقہ کی بنا پر اپنے لباس کا رنگ اختیار کرتا ھے مثلاً کوئی نیلا رنگ پھننا چاھتا ھے اور کوئی کالا رنگ ، جبکہ کسی کو یہ نھیں کھا جاسکتا کہ تم اس رنگ کو کیوں انتخاب کرتے ھو؟! اور نہ ھی اس کے اس کام پر مذمت کی جاسکتی ھے کیونکہ ھر شخص اپنے سلیقہ میں مختار اور آزاد ھے، اسی طرح یہ لوگ دین کوبھی اپنے سلیقہ کی بنا پر اختیار کرتے ھیں، اس کے بارے میں یہ نھیں کھا جاسکتا کہ تو نے اس دین کو کیوں انتخاب کیا اور اس دین کو کیوں انتخاب نھیں کیا، اور کیوں فلاں دینی عقیدہ کی توھین کرتے ھواور اس کو نفی کرنے کی کوشش کرتے ھو اور اس سے بھی بالاتر اگر کسی نے اپنے دینی اعتقادات کوبالائے طاق رکہ دیا اور کسی دوسرے مذھب میں داخل ھوگیا تو اس کی بھی مذمت نھیں کی جاسکتی ، کیونکہ عقیدہ بدلنا بھی ایک سلیقہ کی طرح ھے جو کسی بھی وقت بدلا جاسکتا ھے!
لیکن اسلامی نقطہ نظر سے دینی مقدسات اور اسلامی اقدار ؛جان ومال اور ناموس سے بھی زیادہ مھم ھے وہ اسلام جو ھمیں اس بات کی اجازت دیتا ھے کہ مال کی حفاظت کے لئے جان کی حد تک دفاع کرسکتے ھیں ( یعنی جب تک جان جانے کا خطرہ نہ ھو اس وقت تک اس کی حفاظت ضروری ھے، لیکن اگر مال کی خاطر جان جانے کا خطرہ ھو تو اس وقت اس مال کو جان پر قربان کردیا جائے) کیا وہ اسلام دینی مقدسات کے دفاع کی اجازت نہ دے گا؟ (اگر چہ شورایٰ شھر تھران کے ایک نمائندہ نے اس بات کی بھی اجازت دیدی ھے کہ خدا کے خلاف بھی مظاھرہ کیا جاسکتا ھے) لیکن تمام مراجع تقلید کے فتوایٰ کی بنا پر اور شیعہ و سنی اجماع کی بنا پرتمام مسلمان اس بات پر متفق ھیں کہ اگر کوئی شخص ایک جنگل اور بیابان میں کہ جھاں پر کوئی موجود نہ ھو ؛خدا، رسول ، مقدسات اسلامی اور دین اسلام کی ضروریات کی توھین کرے ، اوراس کو پولیس یا عدلیہ کے حوالہ کرنے کا کوئی امکان نہ ھو تو ھر مسلمان پر واجب ھے کہ اس کو اسلامی مقدسات کی توھین کی بنا پر قتل کردے اور اسی اسلامی نظریہ کی بنا پر حضرت امام خمینی (رہ) نے مرتد سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ صادر فرمایاجس کی تمام شیعہ سنی علماء نے تائید کی مغربی تمدن سے ھمارا نقطہ اختلاف یھی ھے جس کو اسلام قبول کرتا ھے لیکن مغربی کلچر نھیں مانتا۔
ھمارا دینی وظیفہ اور دینی غیرت اس بات کی اجازت نھیں دیتی کہ ھم اسلامی مقدسات کی توھین ھوتے ھوئے خاموش بیٹھے دیکھتے رھیں، اسلام نے دینی مقدسات کی توھین کے مقابلہ کے لئے تشدد کو جائز قرار دیا ھے جب اسلام ھمارے نزدیک اپنی جان و مال اور اولاد سے بھی زیادہ عزیز ھے تو ھم اس کی حفاظت اور دفاع کے لئے اپنی جان کو بھی خطرہ میں ڈال سکتے ھیں لھٰذا اگر کوئی اسلامی مقدسات کی توھین کرے تو ھر انسان اس کو سزا دے سکتا ھے یھاں تک کہ اگر اس کو یہ بھی احتمال ھو کہ کل اسے (اسی قتل کی بنا پر) گرفتار بھی کیا جاسکتا ھے اور اس کے خلاف کاروائی کی جاسکتی ھے کہ تجھے اس قتل کا کوئی حق نھیں تھا ، اور وہ مقتول کے ”مھدور الدم“ ( یعنی قتل جائز )ھونے کو ثابت نہ کرسکتا ھو جس کے نتیجہ میں اس پر قصاص یا سزائے موت کا فیصلہ دیا جائے، تو اس صورت میں بھی وہ اپنے دینی وظیفہ پر عمل کرسکتا ھے اور اسلام کی توھین کرنے والے کو سزائے اعمال تک پھنچا سکتا ھے ، مگر یہ کہ اس کے قتل کرنے سے مزید فساد پھیلنے کا خطرہ ھو۔
حوالے:
(۱) مشروطیت اس شاھی حکومت کو کھتے ھیں جس میں قوانین کے تحت کام کیا جائے (مترجم)
(۲) طرفداران انسانیت، تھذیب ، اخلاق اور انسانی فکری رشداور مذھبی اختلافات کو دور کرنے والوں کو فرامانسون کھا جاتا ھے (مترجم)
(۳( سورہ مائدہ آیت۳۳
(۴ ) سورہ انفال آیت۶۰
(۵)سورہ آل عمران آیت ۱۵۹
انتالیسواں جلسہ
دینی عقائد و اقدار کے نسبی ھونے کے نظریہ کی تحقیق و بررسی
۱۔ دینی مسائل کو مطلق یا نسبی قرار دینا
قارئین کرام! ھم نے گذشتہ دو سال میں ”اسلامی سیاسی نظریات“ کے بارے میں گفتگو کی گذشتہ سال اسلامی نقطہ نظر سے ”قانون اور قانون گذاری“ کے سلسلہ میں بحث کی اور اس سال میں ”کشور داری“ (حکومت او راس کی ذمہ داریوں) کے بارے میں بحث کررھے ھیں اور ھم نے اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ھوئے کھا کہ بعض چیزوں کے لئے عقلی دلائل کا ھونا ضروری ھیں اور اکثر چیزیں آیات وروایات کی طرف مستند ھونا چاھئیں اسی وجہ سے ھماری بحث ایک ”تلفیقی“ بحث ھیں یعنی ھماری بحث میں نہ صرف عقلی دلائل ھیں اور نہ صرف شرعی اور تعبدی، بلکہ قارئین کرام کے لحاظ سے جو طریقہ بھی مناسب ھوتا ھے جس سے بات کو آسان طریقہ سے سمجھایا جاسکتا ھے؛ اسی لحاظ سے بیان کرتے ھیں، چاھے وہ عقلی دلائل ھوں یا شرعی۔
چاھے ھم عقلی دلائل کے ذریعہ کسی چیز کو ثابت کریں اور چاھے شرعی دلائل کے ذریعہ کسی چیز کے بارے میں بحث کریں، دونوں میں یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ جن چیزوں کو ھم اپنی بحث میں ثابت کرتے ھیں کیا وہ سب کے نزدیک معتبر اور حجت ھیں؟ یعنی مطلق طور پر اعتبار رکھتے ھیں، یا مطالب اور اقدار نسبی ھوتے ھیں اور صرف کھنے والے کے نظریہ کو بیان کرتے ھیں، اور ممکن ھے کہ اس سلسلہ میں دوسروں کا ایک الگ نظریہ ھو جو اس کے مطابق نہ ھو؟ دوسرے الفاظ میں یوں عرض کیا جائے کہ ایک مسلمان ، یا شیعہ اور مکتب اھل بیت علیھم السلام کا تابع شخص ھمارے دلائل کے ساتھ بیان پیش کردہ مطالب کو قبول کرتے ھیں اور ان کو مطلق طور پرمانتے ھیں یا نھیں؟ کیونکہ یہ صرف ایک خاص نظریہ کو بیان کرنے والے ھیں جس کے مقابلہ میں دوسرے بھی نظریات پائے جاتے ھیں جو اعتبار کے لحاظ سے ان کے برابر یا اس سے بالاتر ھوسکتے ھیں؟
بعض اخباروں اور تقریروں میں کھا جاتا ھے کہ ان مطالب اور نتائج کو مطلق طور پر بیان نھیں کرنا چاھئے اور یھاں تک بھی کھہ دیتے ھیں کہ ان مطالب کی نسبت اسلام کی طرف نھیں دینا چاھئے؛ اور صرف کھنے والے کا نظریہ ماننا چاھئے یعنی کھنے والا کھتا ھے کہ اسلام سے میرا حاصل کردہ نتیجہ یہ ھے ، نہ یہ کہ اپنے حاصل کردہ نظریہ کو اسلامی نظریہ کے عنوان سے بیان کریں اس طرح کی گفتگو خصوصاً گذشتہ ھفتہ میں آپ حضرات نے بھت سنی ھوگی کھ: کسی بھی شخص کو اپنی سمجھ کو مطلق قرار نھیں دینا چاھئے، کیونکہ بعض افراد ایسے بھی ھیں جو اس کے علاوہ بھی فھم اور نتیجہ رکھتے ھیں اور ان کا ایک الگ اعتبار اور اھمیت ھے۔
2۔ معرفت کے نسبی ھونے کے سلسلہ میں تین نظریات
یھاں پر چند مھم سوال پیدا ھوتے ھیں کہ ”مطلق“ اور ”نسبی“ الفاظ کے معنی کیا ھیں؟ مثلاً ”فلاںمطلب اعتبارِ مطلق نھیں رکھتا“ یعنی چھ؟ کیا اس کا مطلب یہ ھے کہ کوئی بھی معرفت اعتبارِ مطلق نھیں رکھتی؟ اور اس صورت میں مطلق اور نسبی معرفت میں کیا فرق ھے؟ اور کیا معرفت کا نسبی ھونا یا اعتبار معرفت کا نسبی ھونا صرف دینی مسائل سے متعلق ھے؟ یا کسی بھی علم کا کوئی بھی مطلب اور واقعہ نسبی ھوتا ھے؟
الف: معرفت کے نسبی ھونے پر پھلا نظریہ
معرفت کے مطلق یا نسبی ھونے کی تحقیق ایک فلسفی مسئلہ ھے جس کو اپیسٹمولوجی "Epistemology"(معرفت شناسی) کھا جاتا ھے قدیم زمانہ سے تقریباً 2۵ صدی پھلے دانشوروں کے درمیان یہ اختلاف تھا کہ انسانی معرفت، اس کے اعتقادات اور اس کی قضاوت (فیصلے) کیا ”اعتبار ِ مطلق“ رکھتے ھیں یا ”اعتبار ِ مطلق“ نھیںر کھتے یہ سوفسطائی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے پھلے یونان میں زندگی بسر کرتے تھے اور لفظ ”سفسطھ“ (یعنی مغالطھ) انھیں کے نام سے لیا گیا ھے، ان کا عقیدہ یہ تھا کہ انسان کو کسی بھی بات پر کوئی جزم ویقین حاصل ھو ھی نھیں سکتا، اور ھر چیز قابل شک وتردید ھے لھٰذا ان کے بعد سے تمام شکّاک فرقے اور آگنوسٹیسٹ "Agnostist" ، نسبی گرایان اور رلٹویسٹس "Relatists" اس طرح کا نظریہ رکھتے ھیں المتخصر: معرفت کے نسبی ھونے کا نظریہ کوئی نیا نظریہ نھیں ھے ، بلکہ قدیم زمانہ سے فلسفہ کی تاریخ میں موجود ھے اگرچہ آج کل جھان اسلام میں بھت ھی کم شکّاک افراد ھوں گے، لیکن امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں شکّاک اور نسبت گرا لوگوں کی بھر مار ھے بلکہ وھاں پر شکاک ھونا انسانی افتخار میں سمجھا جاتا ھے!
اور اگر ھم معرفت کے نسبی ھونے (یعنی انسان کو کسی بھی چیز کے بارے میں یقین حاصل نھیں ھوسکتا) اور شکّاکیت کے بارے میں اکیڈمیک طریقہ پر تحقیق کریں تو اس وسیع بحث کی تحقیق کے لئے ایک طولانی زمانہ درکار ھے لیکن ھم یھاں پر مختصر طور پر ایک اشارہ کرتے ھیں۔
جو لوگ ھم سے کھتے ھیں کہ آپ اپنی سمجھ اور نظریہ کو مطلق تصور نہ کریں، تو کیا ان کا مطلب یہ ھے کہ کسی بھی چیز کے بارے میں یقینی طور پر اعتقاد پیدا نھیں ھوسکتا، اور حقیقت میں انسان کے لئے معرفت حاصل کرنے کا دروازہ بند ھے ، اور ھمارے پاس کوئی ایسی چیز نھیں ھے کہ منطقی اور اصولی طور پر اس پر یقین حاصل ھوسکے، یا ان کا مطلب یہ ھے کہ بعض عقائد اور بعض چیزوں کی یقینی طور پر معرفت حاصل کرسکتے ھیں؟ ”منطقی“ کی قید لگانے کی وجہ یہ ھے کہ کبھی انسان کسی چیز کے بارے میں یقین رکھتا ھے اور کسی طرح کا کوئی شک ا س کے ذھن میں نھیں ھوتا، لیکن ایک مدت کے بعد متوجہ ھوتا ھے کہ اس نے غلطی کی ھے؛ ایسا یقین جس کی کوئی حقیقت نھیں ھوتی ”نفسیاتی یقین “ کھا جاتا ھے یعنی انسان یونھی کسی چیز پر یقین کرلیتا ھے اور اس میں کسی طرح کا کوئی شک نھیں ھوتا، اگرچہ اس کا یقین غلط ھو اور جھل مرکب (نہ جاننے کے بارے میں نہ جاننا) کا شکار ھو ، جس کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ اس طرح کا اعتقاد و یقین باطل ختم ھوجاتا ھے مثال کے طور پر دو اور دو کا چار ھونا ایک صحیح منطق ھے کیونکہ دنیا کے کسی بھی گوشہ میں دو اور دو پانچ یا چہ نھیں ھوتے پس اس حساب کا اعتبار مطلق ھے اور منطقی طور پر صحیح ھے، یہ ایک ذاتی نظریہ نھیں ھے، بلکہ سبھی اس کو تسلیم کرتے ھیں۔
اگر ان لوگوں کا مطلب یہ ھے کہ انسان کو کسی بھی چیز اور واقعہ میں یقینی اعتقاد حاصل نھیں ھوسکتا، اگرچہ اس فلسفی بحث میں بھت زیادہ نظریات پائے جاتے ھیں اور اس جلسہ کی وسعت سے باھر ھیں، بس مختصر طور پر عرض کرتے ھیں کہ ان کا نظریہ نہ صرف یہ کہ انسانی فطرت سے ھم آھنگ نھیں ھے اور نہ ھی دنیا کے کسی بھی مذھب میں اس کو قبول کیا جاتا ھے اصولی طور پر یہ بات قابل یقین نھیں ھے کہ دنیا بھر میں کوئی عاقل انسان کھے: میں نھیں جانتا کہ کرھٴ زمین موجود ھے یا نھیں؟ شاید اس کے بارے میں صرف خیال کے علاوہ کچھ نہ ھو! یا کھے کہ میں نھیں جانتا کہ کرہ زمین پر کوئی انسان زندگی بسر کرتا ھے یا نھیں؟ یا مجھے شک ھے کہ یورپ میںکوئی ملک فرانس بھی ھے یا نھیں، اور آیا میرا بھی کوئی وجود ھے یا نھیں، اور یہ تمام چیزیں کسی بھی طریقہ سے قابل اثبات نھیں ھیں! اور اگر ھماری ملاقات اس طرح کے آدمی سے ھو تو ھم اس کے ساتھ کیا برتاؤ کریں گے؟ یقینا اس سے کھیں گے کہ کسی نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس جاؤ ، کیونکہ ایسا شخص عقلی لحاظ سے صحیح و سالم دکھائی نھیں دیتا پس اگر ان لوگوں کا مطلب یہ ھے (جو کھتے ھیں: اپنی سمجھ اور اپنے نظریہ کو مطلق نہ سمجھیں) کہ کسی بھی عقیدہ اور یقین کو مطلق نھیں سمجھنا چاھئے اور کسی بھی واقعہ کے بارے میں دقیق قضاوت اور مطلق نظریہ قائم نھیں کیا جاسکتا تو ان کا مختصر جواب یہ ھے کہ ان کا اس طرح کا دعویٰ کرنا عقل اور تمام ادیان کے بالکل خلاف ھے اور ھمارے گمان کے مطابق ھمارے قارئین میں اندرون ملک یا بیرون ملک کوئی ایسا شخص نہ ھوگا جو اس طرح کا احتمال دے؛ لھٰذا اس سلسلہ میں بحث وگفتگو کرنا بے کار اوربے فائدہ ھے۔
ب۔معرفت کے نسبی ھونے پر دوسرا نظریہ
البتہ معرفت کے نسبی ھونے کے سلسلہ میں دوسرے نظریات بھی پائے جاتے ھیں جو مذکورہ بالا نظریہ کی طرح مضحکہ خیز نھیں ھے، انھی نظریات میں سے ایک نظریہ یہ ھے : جو افراد اس طرح کا نظریہ رکھتے ھیں وہ یہ نھیں کھتے کہ کسی بھی علم میں یقینی اور مطلق چیزیں موجود نھیں ھیں؛ بلکہ ان کے عقیدہ کے لحاظ سے علوم تجربی، علوم عقلی اور ریاضیات میں ایک حد تک یقینی ، قطعی اور مطلق چیزیں موجود ھیں ، اور صرف علوم عملی (یعنی اقداری علوم، احکامات اور وظائف) نسبی ھیں یعنی جھاں پر خوب و بد اور ”باید ھا ونباید ھا“ (کرنا چاھئے اور نہ کرنا چاھئے)بیان ھوتے ھیں، تو یہ چیزیں نسبی ھوتی ھیں چنانچہ اقدار اور وظائف کو نسبی قرار دینے والوں نے اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے دل فریب اور گمراہ کن چیزیں بیان کیں ھیں مثال کے طور پر کھتے ھیں: ھم دیکھتے ھیں کہ کسی ایک ملک میں کسی کام کو اچھا سمجھا جاتا ھے جبکہ دوسرے ملک میں اسی کام کو ناپسند اور برا سمجھا جاتا ھے دنیا بھر کے ممالک میں کسی ایک ملک کے آداب و رسوم کو اسی ملک میں اچھا سمجھا جاتا ھے اور ھوسکتا ھے دوسرے ملک میں انھیں ناپسند اور برا سمجھا جائے، اور ان سے عوام الناس نفرت کرتے ھوں۔
کسی کے احترام واکرام کے بارے میں (جیسا کہ ھم نے سنا ھے کھ) مشرقی ایشیاء کے بعض ممالک میں جب کسی کا بھت زیادہ احترام واکرام کرتے ھیں تو ایک دوسرے کو بُو کرتے ھیں، جبکہ یھی کام دوسرے ملکوں میں ناپسند اور برا سمجھا جاتا ھے، اسی طرح مغربی ممالک خصوصاً امریکہ میں جب کسی کی تقریر یا باتیں سننے کے بعد اس کا احترام کرتے ھیں تو اس کے چھرے کے بوسے لئے جاتے ھیں اوراس میں فرق نھیں ھے کہ چاھے وہ عورت ھو یا مرد جبکہ ھمارے اسلامی معاشرہ میں کسی نامحرم عورت کے بوسے لینا بھت بُرا سمجھا جاتا ھے پس ممکن ھے کہ بعض معاشرہ میں کسی ایک کام کو اچھا سمجھاجاتا ھو لیکن دوسرے معاشرہ میں اسی کام کو ناپسند اور بُرا سمجھا جاتا ھو، یھاں سے معلوم ھوجاتا ھے کہ خوب وبد اور بایدھا و نبایدھانسبی ھیں ، اوران کے بارے میں مختلف ممالک اور معاشروں میں الگ الگ حکم لگایا جاتا ھے، یھاں تک کہ یہ بھی ممکن ھے کہ ایک ھی معاشرہ میں بعض چیزیں ایک زمانہ میں اچھی مانی جاتی ھو ں اور ایک زمانہ میں ناپسند اور بُری سمجھی جاتی ھوں۔
بعض مغربی ممالک میں ثقافتی اور اخلاقی برائیاں روز بروز بڑھتی جارھی ھیں ، حالانکہ تقریباً تیس یا چالیس سال پھلے اگر کوئی شخص ٹی شرٹ میں باھر نکلتا تھا تو پولیس اس کو روکتی تھی ھم سے ایک صاحب نے نقل کیا کہ کناڈا کے ایک شھر میں تقریباً ۴۰ سال پھلے ایک شخص گرمی کی وجہ سے اپنا کوٹ اتاکر ٹی شرٹ میں چھل قدمی کرنے لگا ، تو فوراً گھوڑ سوار پولیس نے اس پر اعتراض کیا کہ تم اپنا کوٹ اتار کر کیوں گھوم رھے ھو، عام مقامات پر ٹی شرٹ میں آنا ” شرم وحیا“ کے خلاف ھے! لیکن آج اسی کناڈا میں اگر عورت مرد نیم عریاں بھی سڑکوں پر دکھائی دینے لگیں تو کوئی کچھ نھیں کھتا اور اس کام کو برا نھیں سمجھا جاتا لھٰذا خوب و بد اور اچھائی برائی؛ زمانہ کے لحاظ سے بھی مختلف اور نسبی ھیں لھٰذا نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ وہ علوم جن میں خوب وبد اور بایدھا اور نبایدھا کو بیان کیا جاتا ھے؛ جیسے علم اخلاق، علم حقوق یا اجتماعی اور انفرادی زندگی سے متعلق دوسرے علوم سب نسبی ھیں اور ان کے درمیان کوئی مطلق معیار موجود نھیں ھے، اور یہ نھیں کھا جا سکتا کہ فلاں چیز ھر جگہ مطلقاً اچھی ھے یا فلاں چیز ھر موقع پر مطلقاً بُری ھے۔
قارئین کرام! ان لوگوں کی پیش کی جانی والی دلیل یھی ھے جس کو ھم نے بیان کیا، البتہ بعض دوسری دلیلیں بھی بیان کرتے ھیں جن کو یھاں پر بیان کرنے کی فرصت نھیں ھے۔
۳۔ بعض اقدار کا مطلق اور ثابت ھونا
مطلب کی وضاحت کے لئے عرض کرتے ھیں کہ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ ھر اقداری مفھوم ، حلال و حرام اور بدی اور خوبی مطلق ھے، تو اس کے دعویٰ کو باطل کرنے کے لئے یہ کھنا کافی ھے کہ یہ کیسے ھوسکتا ھے کہ ایک چیز ایک معاشرہ میں اچھی ھو اور وھی چیز دوسرے معاشرہ میں بری ھو ایک جگہ اس کواقدار میں شمار کیا جاتا ھو اور دوسری جگہ ضد اقدار حساب کیا جاتا ھے دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ وہ گذشتہ دعویٰ جس کو ”موجبہ کلیھ“ کے عنوان سے بیان کیا جاتا ھے یعنی تمام اچھائیاں اور برائیاں ؛ مطلق اور کلی ھیں، اسی چیز کو ”سالبہ جزئیھ“ کے عنوان سے بھی پیش کیا جاسکتا ھے، جس کی بنا پر وہ دعویٰ اور ”حکم کلی“ نقض ھوجاتا ھے یعنی جب ھم نے ان اقداری چیزوں کو دیکہ لیا جو مطلق نہ تھے، اور بعض معاشرہ میں وہ اچھی اور بعض دوسرے معاشرہ میں ناپسند اور بری سمجھی جاتی ھوں، تو ھم کھہ سکتے ھیں کہ ایسا نھیں ھے تمام اقدار اور قضایا مطلق ھوں، بلکہ بعض اقداری قضایا نسبی ھیں بے شک یہ فیصلہ صحیح اور درست ھے، اور ھم بھی یہ نھیں کھتے کہ تمام اقداری مسائل اور تمام بایدھا اور نبایدھا مطلق اور کلی ھیں اور ھر معاشرہ کے لئے ھمیشہ ثابت اور غیر قابل تبدیلی ھیں ھم بھی اس بات کومانتے ھیں کہ بعض احکام متغیر اور موقع و محل کے لحاظ سے ھیں؛ لیکن اس کے معنی یہ نھیں ھیں کہ کوئی بھی اقدار مطلق نھیں ھے یعنی اقداری نسبیت کا اثبات ”سالبہ جزئیھ“ ھے نہ کہ ”سالبہ کلیھ“ لھٰذا اس بنیاد کی بنا پر ھم کم ھی اقداری مسائل کے بارے میں مطلق یا نسبی ھونے کو ثابت کرسکتے ھیں۔
ھمارا دعویٰ یہ ھے کہ ھمارے پاس مطلق اقداری چیزیں موجود ھیں اوربھت سے اقداری مسائل پر مطلق اعتقاد رکہ سکتے ھیں اور اگر یہ نظریہ ثابت ھوجائے، تو پھر ھم اس کی سیکڑوں مثال پیش کرسکتے ھیں، چونکہ عقلی بحث اورعقلی نظریات کا دار و مدار عدد اور اگنتی پر نھیں ھوتا کیا آپ حضرات کو کوئی ایسا شخص مل سکتا ھے جو یہ کھے کہ عدالت ایک معاشرہ میں پسندیدہ اور دوسرے معاشرہ میں ناپسند اور بری ھے؟ اور کیا کوئی ایسا عاقل انسان مل سکتا ھے جو کھے کہ ظلم بعض مقامات پر صحیح اور پسندیدہ ھے ؟ ھاں یہ ھوسکتا ھے کہ ظلم اور عدل کے مصداق میں غلطی ھوجائے اور الفاظ کا غلط استعمال کریں مثال کے طور پر کوئی یہ ھے کہ کسی بھی شخص کو مارنا ظلم ھے، جبکہ بعض لوگوں کو سزا کے عنوان سے مارا جاتا ھے اور اس کو قصاص کی بنا پر مارنا بُرا نھیں ھوتا، بلکہ حق و عدل کے عین مطابق ھے نکتہ یہ ھے کہ اگر واقعاً کوئی کام ظلم ھو ، تو پھر وہ دوسرے مقام پر اچھا نھیں کھلایا جاسکتا، یا اگر کوئی کام واقعاً عدل کے مطابق ھو تو وہ بعض مقامات پر بُرا نھیں ھوسکتا اور بعض مقامات پر عدل کو برا نھیں سمجھا جاسکتا اور یہ مسئلہ اس قدر واضح اور سبھی کو معلوم ھے کیونکہ جب قرآن مجید عوام الناس کو شرک سے پرھیز کرنے کے لئے کھتا ھے تو آوزا دیتا ھے:
( إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ ) (۱)
”بے شک کہ شرک بھت بڑا ظلم ھے۔“
یعنی اس کبریٰ (کہ ”ھر وہ چیز جو ظلم ھے اس سے دوری اور اجتناب کیا جائے“) ؛ میں کوئی شک وتردید نھیں ھے، اور یہ قضیھ؛ مطلق، کلی، ثابت اور غیر قابل تبدیلی ھے، کیونکہ شرک ظلم کا ایک مصداق ھے، جو ھمیشہ برا ھے اور اس سے پرھیز کیا جائے۔
ھمارا دعویٰ یہ نھیں ھے کہ تمام اقداری مسائل بطور مطلق ھیں بلکہ ھم تو یہ کھتے ھیں کہ بعض اقدار مطلق ھیں اسی طرح معرفت کے باب میں؛ ھم ھر معرفت کو مطلق نھیں مانتے، اور یہ بھی نھیں مانتے کہ ھر شخص کو حاصل ھونے والی معرفت اور شناخت صحیح اور مطلق ھے کیونکہ بعض لوگوں کو حاصل ھونے والی شناخت اور معرفت نادرست ھے پس معلوم یہ ھوا کہ بعض معرفت اور شناخت نسبی ھیں اور بعض چیزوں میں نسبیت پائی جاتی ھے: مثال کے طور پر آپ سے یہ سوال کیا جائے کہ تھران یونیورسٹی بڑی ھے یا چھوٹی؟ تو چونکہ اگر آپ اس کواپنے گھر سے مقابلہ کریں گے تو آپ کا جواب ”بڑی“ ھوگا اور کھیں گے کہ تھران یونیورسٹی بھت بڑی ھے لیکن اگر اسی یونیورسٹی کو کرہ زمین سے مقابلہ کریں گے تو اس وقت آپ کا جواب یہ ھوگا کہ تھران یونیورسٹی بھت چھوٹی ھے؛ یھاں تک کہ دریا کے ایک قطرہ کی مانند شمار کی جائے گی۔
پس معلوم یہ ھوا کہ چھوٹا یا بڑا ھونا نسبی چیزوں میں سے ھے اور اسی طرح کے معنی ومفاھیم پر نسبی اطلاق کیا جائے گا لیکن کسی چیز کے چھوٹے یا بڑے ھونے سے یہ نتیجہ نھیں لیا جاسکتا ھے کہ تمام چیزیں نسبی ھیں، یھاں تک کہ خدا بھی نسبی ھے انسانی وجود، کرہ زمین اور عالم ھستی بھی نسبی ھیں چھوٹائی اور بڑائی؛ نسبی اور اضافی ھوتی ھیں اور ”مقولہ اضافھ“ سے تعلق رکھتی ھیں؛ لیکن بعض ایسے معنی اور مفاھیم ھیں جو نسبی نھیں ھیں اور ان کے ذریعہ تشکیل پانے والے قضایا مطلق ھوسکتے ھیں۔
اس بنا پر ھمارا کھنا یہ نھیں ھے کہ ھر اقدار چاھے کسی بھی جگہ ھو یا کسی بھی زمانہ میں ھو اس پر اعتقاد رکھنا مطلق ھے بلکہ ھمارا کھنا تو یہ ھے کہ ”موجبہ جزئیھ“ کے حد تک ھمارے پاس ”مطلق اقدار“ موجود ھیں، یعنی ھمارے پاس ایسے چیزیں موجود ھیں جو مطلق اقدار کھی جاسکتی ھیں اور موقع ومحل اور زمان و مکان کے لحاظ سے تبدیل نھیں ھوتی ، اور نہ ھی ان چیزوں میں کسی استثناء کا قائل ھوا جاسکتا بے شک ھمارے سامنے دو طرح کے اقدار موجود ھیں ایک مطلق ھوتے ھیں اور دوسرے وہ جو مطلق نھیں ھوتے ھمارے عقیدہ کے لحاظ سے ظلم ھمیشہ اور ھر جگہ اور ھر ایک کے لئے بُرا ھے اور عدل ھمیشہ اور ھر جگہ اور ایک کے لئے حَسن، اچھا اور پسندیدہ ھے ھمارے پاس واقعی قضایا اور علوم توصیفی سے متعلق قضایا مطلق اور یقینی ھیں مثال کے طور پر ھم یقین اور جزم کے ساتھ یہ کھہ سکتے ھیں کہ آسمان و زمین اور انسان موجود ھیں، خداوندعالم موجود ھے، وحی اور قیامت کا وجود ھے؛ بے شک یہ تمام چیزیں مطلق ھیں، نسبی نھیں ۔
بعض اقدار کے مطلق ھونے کا معیار
قارئین کرام! یھاں پر ایک سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ ھمیں یہ کیسے معلوم ھو کہ یہ چیز مطلق ھے یا نسبی؟ تو اس کا مختصر جواب یہ ھے کہ ھر وہ واضح اور روشن قضیہ یا وہ قضیہ جو صحیح طور پر واضح چیزوں سے حاصل ھو وہ مطلق ھے لیکن وہ قضایا جو واضح نھیں ھیں یا صحیح طریقہ پر واضح و روشن چیزوںسے حاصل نہ ھو وہ نسبی ھے، جس کا نتیجہ بھی واضح اورروشن نھیں ھوگا اور بالکل یھی تقسیم اقدار کے سلسلہ میں بھی ھے: احساسات، محبت، خیالات اور عادات کی بنیاد پر حاصل شدہ اقدار، نسبی ھیں؛ لیکن جن اقدار کی بنیاد عقل پر ھوتی ھے اور جن پر عقلی دلائل قائم کئے جاسکتے ھیں اور ان کے اقداری ھونے پر دلیل پیش کی جاسکتی ھے؛ وہ مطلق ھیں مثال کے طور پر ھم عبادت خدا کوایک اقدار کے عنوان سے مانتے ھیں جو ھمیشہ بطور مطلق مقصود اور پسندیدہ ھے، اور کبھی بھی اس میں استثناء نھیں کیا جاسکتا، کیونکہ اس کی بنیاد یہ ھے کہ انسان کے لئے واقعی اور حقیقی راہ تکامل (ترقی) عبادت خدا ھے اسی طرح اجتماعی اقدار میں عدالت ھمیشہ اچھی ھے ، جس کے بارے میں کبھی بھی کوئی استثناء نھیں کیا جاسکتا، اس کے مقابلہ میں ظلم ھمیشہ اور ھر جگہ ناپسند اور بُرا ھے لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ مطلق اقدار بھی موجود ھیں۔
۴۔ مغربی تمدن میں تمام دینی عقائد نسبی ھیں
آج کل مغربی ممالک میں بھت سے فلسفی مکاتب پیدا ھوگئے ھیں جن میں کھا جاتا ھے کہ اقدار کے سلسلہ میں عقلی اور واقعی پشت پناھی نھیں ھے، ان کا عقیدہ ھے کہ تمام اقداری مسائل نسبی اور قرار دادی(باھمی مفاھمت) ھیں ، یعنی جس کو عوام الناس اچھا کھیں وہ اچھا ھے اور جس کو بُرا طے کرلیں وہ برا ھے انھیں فلسفی مکاتب میں سے ایک مھم اخلاقی مکتب بنام ”پوزیٹیزم“ "Positivism" ھے، جس میں معاشرہ کی پسند کو اقدار کا ملاک قرار دیا جاتا ھے اسی بنا پر اس مکتب کے ماننے والے کھتے ھیں کہ خوب و بد اور اقدار و ضد اقدار طے کئے جانے والے معاملات میں سے ھیں اگر آج عوام الناس کسی چیز کو اقدار اور اچھی مانتے ھیں تو وہ اچھی اور قابل قدر دانی ھے، لیکن اگر لوگوں کا نظریہ بدل جائے تو پھر وھی چیز جس کو اچھا سمجھا جارھا ھے اس کو بُرا کھا جانے لگے گا،اور وہ ضد اقدار شمار ھونے لگی گی۔
لیکن ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ تمام اقداری مسائل نسبی نھیں ھے اور تمام اقداری مسائل قرار داد کے تحت نھیں ھیں ٹھیک ھے کہ کسی بھی معاشرہ کے آداب و رسوم قرار دادی اور موقع ومحل کے لحاظ سے قابل تبدیلی ھوتے ھیں، لیکن بھت سے ایسے اقدار ھیں جو انسان کی فطرت میں پائے جاتے ھیں، وہ فطرت جو ثابت اور غیر قابل تبدیلی ھے:
جیسا کہ قرآن مجید میں خداوندعالم کا ارشاد ھوتا ھے:
( فَاٴَقِمْ وَجْھکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا فِطْرَةَ اللهِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھا لاَتَبْدِیلَ لِخَلْقِ اللهِ ) (2)
”آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رھیں کہ یہ دین وہ فطرت الٰھی ھے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ھے، اور خلقت الٰھی میں کوئی تبدیلی نھیں ھوسکتی “
چونکہ فطرت الٰھی میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نھیں ھو سکتی، لھٰذا وہ اقدار جو فطرت پر مبنی ھوں گے وہ بھی غیر قابل تبدیلی ھوں گے لھٰذا ھمارے پاس مطلق اقدار ھوسکتے ھیں جو لوگ ھم سے کھتے ھیں کہ آپ اپنے نظریہ کو مطلق نہ سمجھے، اگر ان کا مطلب یہ ھے کہ اپنے اقداری افکار کو مطلق نہ کھیں کیونکہ ھم ایسے عقائد اور اقدار پر یقین رکھتے ھیں جن پر دوسرے لوگ اعتقاد نھیں رکھتے، اور ھمارے مقابلہ میں دوسری چیزوں کا اعتقاد رکھتے ھیں؛ لھٰذا ھمیں اپنے عقائد ان لوگوں پرتحمیل نھیں کرنا چاھئے، کیونکہ ھمارا اقداری نظریہ ھمارے سلیقہ کے تحت ھے اور دوسروں کی اقداری نظر ان کے اپنے سلیقوں کے تحت ھے، اور کسی کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ وہ دوسروں کے سلیقے کو غلط کھے بے شک اگر کوئی شخص اس طرح کا نتیجہ پیش کرتا ھے تو یہ اسی اخلاقی مکتب ” پوزیٹیزم "Positivism" “کی بنیاد پر ھے جس کی بنیاد عوام الناس کا سلیقہ اور ان کی مرضی ھے، جبکہ یہ نظریہ فاسد اور باطل ھے، اور اسلام اور فلسفہ اخلاق کے صحیح مکتب سے ھم آھنگ نھیں ھے۔
اسی پوزیٹیزم اخلاقی مکتب کے طرفدار ھم سے کھتے ھیں کہ ”اپنے نظریات کو مطلق قرار نہ دیں“؛ وہ لوگ واقعاً بھت بڑے دھوکے میں ھیں ھم مطلق اقدار کی حفاظت کی خاطر اپنی جگہ پر اٹل ھیں اور کوشش کرتے رھیں گے تا کہ اسلامی ثابت اقدار معاشرہ میں زندہ رھیں اور ان کی تبلیغ ھوتی رھے ، اور ان کے بارے میں کسی طرح کا کوئی اشکال اور اعتراض باقی نہ رھے۔
مغربی افراد ”رنسانس“ کے زمانہ کے بعد سے دینی معنی و مفاھیم کو اقدار کے دائرہ میں قرار دیتے ھیں خصوصاً وہ دینی مسائل جو دینی مناسک اور احکام سے متعلق ھیں اور چونکہ دوسری طرف سے یہ لوگ اقدار کو نسبی قرار دیتے ھیں، اسی وجہ سے دینی اقدار کو بھی نسبی شمار کرتے ھیں،اور ان کے لئے مطلق اقدار کے قائل نھیں ھیں چنانچہ اسی بنیاد پر کھتے ھیں کہ تمام ادیان اور مذاھب اچھے اور برحق ھوسکتے ھیں: اور یہ دین اپنے ماننے والوں کے لئے اچھا اور برحق ، اور وہ دین اس کے ماننے والوں کے لئے اچھا اور برحق ھے، اور کسی شخص کو بھی یہ حق حاصل نھیں ھے کہ وہ اپنے دینی نظریہ کو مطلق قرار دے ، اسی طرح یہ بھی کھنے کا حق نھیں ھے کہ صرف اور صرف دین اسلام صحیح اور برحق ھے اور دوسرے ادیان عالم باطل اور بے بنیاد ھیں چاھے دین اسلام ایک طرح کے اقداری احکام سے تشکیل ھوا ھے مثلاً دینی حلال و حرام چیزیں جیسے نماز پڑھیں، روزہ رکھیں، یا جھوٹ نہ بولیں، یا نامحرم کو نہ دیکھیں اور لوگوں کے مال اور ناموس پر تجاوز نہ کریں جب کہ یہ بات ظاھر ھے کہ اگر اقدار مسائل نسبی اور قرار دادی (باھمی مفاھمت) ھوں تو دینی مسائل بھی نسبی ھوں گے ، جس کا نتیجہ یہ ھوگا کہ دین اسلام اعتبارات اور قرارداد کادین بن جائے گا۔
اس پوزیٹیزم نظریہ اور دینی مسائل کواقدار کے دائرہ میں قرار دینے کی بنا پر بعض لوگ ھم سے کھتے ھیں کہ آپ کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ اپنے دین کو دوسروں پر تحمیل کریں،اور ان کو مسلمان کرنا چاھیں دین اسلام تمام مسلمان کے لئے محبوب اور پسندیدہ ھے، اسی طرح دین یھودیت یھودیوں کے لئے پسندیدہ ھے، چونکہ یہ ادیان نسبی ھیں اور ان میں سے کوئی بھی مطلق نھیں ھے اور چونکہ یہ ادیان اور اقدار نسبی اور قراردی ھیں اسی لحاظ سے مختلف معاشروں میںان کا حکم بھی مختلف ھے: چودہ سو سال پھلے اسلام؛ سعودی عرب کے لئے مناسب اور اچھا تھا لیکن عصر حاضر میں ماڈرن دنیاکے لئے ایک دوسرا دین مناسب اور مطلوب ھے! لھٰذا اسلام کو مطلق قرار نھیں دینا چاھئے اور مسلمانوں کو بھی اپنے دینی نظریات کو دوسروں پر نھیں تھونپنا چاھئے اسلام ان لوگوں کے اچھا ھے جن کے سلیقے ان سے میل کھاتے ھیںلیکن دوسروں کے لئے یہ دین اچھا نھیں ھے کیونکہ وہ اس دین کو پسند نھیں کرتے اور اپنے سلیقہ کے لحاظ سے دوسرا دین اختیار کئے ھوئے ھیں لھٰذا ھمیں اپنے اسلامی سلیقہ کو دوسروں پر تحمیل نھیں کرنا چاھئے اور دوسروںکے سلیقوں کونظر انداز نھیں کرنا چاھئے۔
قارئین کرام! گذشتہ نظریہ کا جواب یہ ھے کہ ھم مان لیتے ھیں کہ اسلام کے بعض احکام (جیسے احکام ثانوی) نسبی اور متغیر ھیں اور بعض احکام موقع و محل کے لحاظ سے ھوتے ھیں، لیکن اسلامی تمام احکام متغیر نھیں ھیں؛ بلکہ بھت سے اسلامی احکام ثابت، مطلق اور غیر قابل تبدیلی ھیں اس کے علاوہ یہ بھی عرض کردیا جائے کہ اسلام کا کوئی بھی حکم عوام الناس کے سلیقہ کے تابع نھیں ھے ، اور متغیر احکام کے لئے بھی خاص دلائل ھوتے ھیں پس اولاً: ھم اس نظریہ کو نھیں مانتے کہ تمام اقدار عوام الناس کے سلیقہ اور ان کی پسند کے تابع ھیں بلکہ ھم اعتقاد رکھتے ھیں کہ بعض اقدار اور بعض ضد اقدار مطلق چیزیں؛ مصالح ومفاسد کے تابع اور نفس الامری ھیں، لھٰذا وہ ثابت اور غیر قابل تبدیلی ھیں دوسرے: اسلام کے ثابت اقدار اسی قسم کے ھیں (یعنی مصالح و مفاسد کے تابع اور نفس الامری ھیں) لھٰذا وہ مطلق ھیں اور ھم ان کو ھمیشہ اور ھر جگہ کے لئے معتبر جانتے ھیں اور اس بات پر زور دیتے ھیں کہ ھمارے اسلامی نظریات مطلق ھیں ، اور صرف یھی اسلامی نظریات مطلق ، صحیح اور بر حق ھیں پس نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی ممالک میں نسبی گرایی نظریہ اسلامی نظریات کے مطابق نھیں ھے۔
ج۔ معرفت کے نسبی ھونے پر تیسرا نظریھ(معرفت دینی میں نسبیت کا وجود)
نسبی نظریات میں سے ”معرفت دینی میں نسبیت“کا نظریہ بھی ھے، چنانچہ اسی نظریہ کے تحت بعض لوگ کھتے ھیں کہ ھم بھی یہ مانتے ھیں کہ دین ثابت اور مطلق ھے، اور دینی اقدار بھی مصالح ومفاسد کے تابع، واقعی اور نفس الامری ھیں، ھم بھی حقیقت دین کو مطلق اور ثابت مانتے ھیں لیکن ھمارے پاس کوئی واقعی اور مطلق دین نھیں ھے، جس سے ھم رابطہ برقرار کریں صرف ھمارے اختیار میں دین کی معرفت اور اس کی شناخت ھے اور جو کچھ بھی ھم دوسروں کو دین کے عنوان سے بتاتے ھیں، درحقیقت وہ دین سے حاصل کردہ ھمارا ایک نتیجہ اور شناخت ھوتی ھے جبکہ دوسرے افراد دین سے ایک دوسرا نتیجہ حاصل کرتے ھیں اگرچہ ھم اصلِ دین کو ثابت اور مطلق مانتے ھیں لیکن دینی معرفت اور دینی شناخت کو قابل تغیر اور نسبی مانتے ھیں ، ھمارے نظریہ کے مطابق کسی کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ وہ اپنے نتیجہ اور شناخت کو مطلق مانے، اور اپنے اس نظریہ کو دوسروں پر تھونپے۔
یھاں پر ایک سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کیا ایسا ممکن ھے کہ ھماری بعض دینی شناخت مطلق ھو، اور سبھی لوگ دین سے یھی نتیجہ اخذ کریں اور سبھی اسی کو قبول کریں یا نہ ، دینی کوئی بھی معرفت مطلق نھیں ھے بلکہ دینی ھر موضوع کی ھر شناخت نسبی ھے؟ جس کے نتیجہ میں دو دینی شناختوں میں سو فی صد اختلاف ھوسکتا ھے کہ ایک دوسرے کے بالکل مخالف ھو؛ یعنی کوئی شخص کسی چیز کو دینی مسائل میں شمار کرے جبکہ کوئی دوسرا شخص اس کا انکار کرے، حالانکہ دین سے حاصل کردہ دونوں شناخت مقبول اور معتبر ھوں ؟!
قارئین کرام! نسبت کے سلسلہ میں یہ تیسرا نظریہ جو ”معرفت دینی میں نسبیت“ کے نام سے شھرت پیدا کرتا جارھا ھے اور اس نظریہ کے طرفدار اس کو ”قبض وبسط شریعت“ (شرعی مسائل میں کمی وزیادتی) کے عنوان مانتے ھیں، اور یہ نظریہ تقریباً بیس سال سے رائج ھوتا جارھا ھے اور ھر روز مزید پھیلتا جارھا ھے نیز اخباروں اور جرائد میں بیان ھوتا ھے،اس کی بنا پر ایسا ظاھر کیا جاتا ھے کہ دین کے متعلق تمام لوگوں کی شناخت برابر نھیں ھے: ممکن ھے کہ کوئی شخص اپنے اعتقاد کی بنا پر کھے کہ نماز صبح دو رکعت ھے، لیکن کوئی اپنے نظریہ کی بنا پر یہ بھی کھہ سکتا ھے کہ نماز صبح تین رکعت ھے؛ حالانکہ دونوں نظریات معتبر او رمقبول ھیں! اور اگر ھم اپنے عقیدہ کی بنا پر نماز صبح کو دو رکعت سمجھیں تو ھمیں یہ حق نھیں ھے کہ دوسرے افراد کو بھی نماز صبح دو رکعت پڑھنے کے لئے کھیں اس بنیاد پر ھمارے عقیدہ کی بنا پر نماز صبح دو رکعت ھے، ھوسکتا ھے کہ کوئی دوسرا شخص دین سے یہ نتیجہ حاصل کرے کہ نماز صبح تین رکعت ھے اور وہ بھی دین کی شناخت اور ایک قرائت کھلائے گی، اور اقداری لحاظ سے دو قرائت کے درمیان کوئی فرق نھیں ھے اور ھر شخص کا حاصل کردہ نتیجہ اس کے لئے محترم ھے، نیز کسی کویہ حق نھیں ھے کہ دین سے حاصل کردہ اپنے نتیجہ کو مطلق قرار دے،چونکہ شناخت اور معرفت قبض وبسط رکھتی ھیںیعنی ان میں کمی یا زیادتی ھوسکتی ھے، یھاں تک کہ ایک شناخت اور قرائت ایک طرف ھو او ردوسری شناخت اور قرائت اس کے بالکل مخالف ھو،اور یہ بھی ممکن ھے کہ کسی ایک دینی عقیدہ کو آج ثابت کریں اور کل اسی عقیدہ کی ردّ کریں اس کی وجہ یہ ھے کہ واقعی دین ھمارے پاس نھیں ھے، بلکہ صرف دینی معرفت ھمارے پاس ھے، جبکہ یہ دینی معرفت قابل تبدیلی ھے اور بعض افراد کے لحاظ سے مختلف ھو جاتی ھے۔
۵۔ قرائت نسبی اور قرائت مطلق دونوں جدا جدا ھیں
بے شک ”معرفت دینی میں نسبیت“ کے نظریہ (جو کافی مدت سے ھمارے ملک میں جاری ھے اور اس کے بارے میں بھت سی کتابیں اور مقالات بھی چھپ چکے ھیں)؛ کی تحقیق و بررسی کے لئے کافی مدت درکار ھے ، لیکن ھم اس وقت مختصر طور پر عرض کرتے ھیں: ھم یھاں پر سب سے پھلے یہ سوال کرتے ھیں کہ کیا ”قبض وبسط شریعت“ کے ماننے والوں کے نزدیک ھر دینی مسائل کی چند تفسیر اور چند قرائت ھوسکتی ھیں؟ یا صرف بعض دینی مسائل کی مختلف تفسیر اور معنی ھوسکتے ھیں؟ اس سلسلہ میں ان کی پیش کردہ دلائل کے پیش نظر صرف بعض دینی مسائل میں مختلف تفسیر اور قرائت کا ھونا ثابت ھوتا ھے؛ لیکن وہ لوگ اس دلیل کو عام قرار دیتے ھوئے یہ نتیجہ نکالتے ھیں کہ تمام دینی مسائل میں مختلف تفسیر اور نتائج ھوسکتے ھیں منجملہ ان کے بعض مجتھدین اور فقھاء کے اختلافی مسائل ھیں۔
ان کا دعویٰ یہ ھے کہ اسلامی فقہ میں (بعض) مجتھدوں کا فتویٰ مختلف ھے چنانچہ ایک کھتا ھے کہ نماز جمعہ واجب ھے اور دوسرا کھتا ھے کہ نماز جمعہ واجب نھیں ھے، ایک کھتا ھے کہ ”شطرنج“ کھیلنا حرام ھے لیکن دوسرا اس کو حلال قرار دیتا ھے پس معلوم یہ ھوا مجتھدین کا فتویٰ اور اسلام سے ان کا حاصل کردہ نظریہ نسبی اور متغیر ھے، ثابت نھیں، یھاں تک کہ بعض مجتھدین میں خود ان کا فتویٰ مختلف ھے ، جیسا کہ بعض مجتھدین کا ایک زمانہ میں کچھ فتویٰ تھا لیکن بعد میں اپنا فتویٰ بدل دیا اور ایک نیا فتویٰ صادر کردیا لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ یہ فتاویٰ اور نتائج کا اختلاف اس بات کی دلیل ھے کہ دینی معرفت اور قرائت نسبی اور قابل تغیر ھے، اور ممکن نھیں ھے کہ دینی معرفت اور شناخت ثابت اورمطلق ھو۔
قارئین کرام ! مذکورہ مسئلہ کے جواب میں ھم عرض کرتے ھیں کہ اس بات کو تو ایک دور دراز کے علاقے میں رھنے والا جاھل انسان بھی جانتا ھے کہ فروع دین کے بعض مسائل میں مجتھدین کا فتویٰ مختلف ھے لیکن فتووں کا یہ اختلاف دلیل نھیں ھے کہ آپ لوگ یہ دعویٰ کرنے لگیں کہ وحی کے ذریعہ پیغمبر اسلام (ص) کی معرفت تک مطلق نھیں ھے؛ چونکہ پیغمبر اکرم (ص) کی معرفت بھی انسانی معرفت کی طرح ھے جس میں خطا کا امکان پایا جاتا ھے! یعنی جس وقت خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے:(قُلْ ھوَ اللهُ اَحَدٌ ) (۳) یا (وَإِلَھکُمْ إِلَہ وَاحِدٌ لاَإِلَہ إِلاَّ ھوَ الرَّحْمَانُ الرَّحِیمُ ) (۴)کھتا ھے تو ھمیں یہ نہ معلوم ھو کہ خدا کی وحی کیا ھے ھم پیغمبر اکرم کے فرمان کے مطابق جس میں آپ نے فرمایا کہ خداوندعالم مجھ پر وحی نازل کرتا ھے؛ آگاہ ھوجاتے ھیں کہ پیغمبر اکرم (ص) پر وحی نازل ھوتی ھے، لیکن وحی الٰھی کی حقیقت کے بارے میں نھیں جانتے اور پیغمبر اکرم (ص) نے وحی کے سلسلہ میں جو کچھ چیزیںھمیں بتائی ھیں وہ وحی خدا نھیں ھے بلکہ وحی سے اپنی معرفت اور فھم کو پیش کیا ھے؛ اور چونکہ آپ کی فھم و سمجھ بھی انسانی اور قابل خطا ھے،تو ھوسکتا ھے کہ انھوں نے وحی حاصل کرنے میں غلطی کی ھو خداوندعالم بیان کچھ کرنا چاھتا تھا لیکن آپ نے
اس کے سمجھنے میں غلطی کردی اور اپنی معرفت اور سمجھ کو وحی خدا کے عنوان سے بیان کردیا چنانچہ اس نظریہ کا نتیجہ یہ ھوا کہ قرآن مجید کی کسی بھی آیت کے بارے میں کسی کی فھم اور سمجھ معتبر نھیں ھے اور ان سب میں خطا اور غلطی کا احتمال پایا جاتا ھے!
قارئین کرام! کیا یہ بھی دین اسلام کی ایک نئی قرائت ھے؟ کیا قرائت کا میدان اس قدر لا محدود اور وسیع ھے؟ ھم یہ ماننے ھیں کہ مجتھدین کے فتووں میں اختلاف پایا جاتا ھے لیکن کیا خداوندعالم کے وجود میں بھی شک و تردیدپیدا ھوسکتا ھے ؟ اور کیا اس بات کو قبول کیا جاسکتا ھے کہ اسلامی نقطہ نظر اور قرآنی آیات کے تحت کوئی شخص خدا کے وجود کو ثابت کرے اور دوسرا (انھیں قرآنی آیات کے ذریعھ) وجود خدا کی نفی کرے، اور دونوں کو دو دینی معرفت کے نام سے معتبر سمجھا جائے؟ اور کیا ۱۴۰۰ سال سے تمام شیعہ سنی اسلامی فرقوں کے علماء کے بیان کے مقابلہ میںکوئی یہ دعویٰ کرسکتا ھے کہ ان سبھی نے غلطی کی ھے اور غلط سمجھا ھے ، انھوں نے اپنے نتائج کو بیان کیا ھے اور ھم بھی اپنا نتیجہ بیان کرتے ھیں؟
دین میں کس حد تک مختلف قرائت ھوسکتی ھیں؛اس سوال کا جواب یہ ھے کہ مختلف قرائت کا وجود صرف فروع دین میں قابل تصور ھیں، نہ کہ اصول دین میں اور وہ بھی ان ظنی مسائل میں جن میں اختلاف کا امکان موجود ھے، نہ کہ قطعی، اجماعی اور اتفاقی مسائل میں اس کے علاوہ فروع دین میں صرف دینی صاحب نظر اور متخصص (ماھرین علماء ) کی نظر معتبر ھیں، نہ یہ کہ ھر کس و ناکس کے نظریہ کا کوئی اعتبار ھے ان لوگوں کی نظر معتبر ھے جنھوں نے تقریباً پچاس سال تک بڑے بڑے اساتیذ جیسے مرحوم آیت اللہ بروجردی، مرحوم آیت اللہ امام خمینی اور علامہ طباطبائی (رحمة اللہ علیھم)سے درس پڑھا ھے اور اس راستہ میں آنے والی تمام تر سختیوں کو برداشت کیا ھے نیز اپنی رفتار، فھم، تحقیق اور استنباط میں تقویٰ الٰھی سے مزین ھوں، نیز ھوا پرستی کا شکار نہ ھوں دینی معاملات میں مغربی تمدن سے متاثر چند بول پڑھنے والے ( خود کو دینی ماھر کھلانے والے)؛ کی نظر معتبر نھیں ھے۔
نتیجہ یہ ھوا کہ اختلاف نظر اور مختلف قرائت صرف دین کے ظنّی اور متشابہ مسائل میں قابل قبول ھے، اور اسلام کے قعطی مسائل، محکمات، ضروریات اور بینات میں صرف ایک ھی قرائت موجود ھے اور وہ بھی خدا وپیغمبر کی قرائت ھے، لھٰذا اس سلسلہ میں کسی طرح کے اختلاف نظر، شک وتردید اور مختلف قرائت کی کوئی گنجائش نھیں ھے، جیسا کہ اسلام کو ۱۴۰۰ سال گذر چکے ھیں ان کے بارے میں کسی طرح کا کوئی اختلاف نھیں ھوا ھے ھم نے دیکھا کہ حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ نے مرتد سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ صادر کیا تو اس وقت تمام علماء اسلام نے تائید کی اوراس حکم کے بارے میں کسی طرح کی کوئی مخالفت سنائی نہ دی، اور سب نے یہ اتفاقی طور پر کھا کہ حضرت امام خمینی (رہ) کا بیان کردہ فتویٰ حکم اسلام ھے اگرچہ بعض مغرب پرست نو وارد جنھوں نے اسلام کی بو بھی نھیں سونگھی ھے اس فتویٰ کی مخالفت کی اور کھا: اسلام سے ھماری قرائت یہ نھیں ھے لیکن یہ بات روز روشن کی طرح واضح ھے کہ دنیا بھر کے صاحب عقل صرف اسی شخص کے نظریہ کو اھمیت دیتے ھیں اور صرف اسی کے نظریہ کو معتبر جانتے ھیں جو متعلق علم میں صاحب نظر اور محقق ھو اور صحیح طریقہ اور اس علم سے مناسب تحقیق کے بعد اپنی رائے کا اظھار کرے۔
حوالے
(۱) سورہ لقمان آیت۱۳
(2) سورہ روم آیت ۰ ۳
(3) سورہ اخلاص (توحید) آیت ۱، ترجمہ :” اے رسول کھہ دیجئے کہ وہ اللہ ایک ھے “
(4) سورہ بقرہ آیت ۱۶۳ ترجمھ: ”اور تمھارا خدا بس ایک ھے ، اس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے وھی رحمن بھی ھے اور وھی رحیم بھی ھے “
چالیسواں جلسہ
دینی معارف افسانہ ھیں یا حقیقت نما آئینہ
۱۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر
”اسلامی سیاسی نظریات کی وضاحت“ کے سلسلہ میں ھماری بحث یھاں تک پھنچی تھی کہ اگر اسلامی منابع کے لحاظ سے قوانین اور ضوابط بنانا چاھیں اور ان کو اسلامی اقدار کے مطابق نافذ کرنا چاھیں، تو اس کے لئے ھمارے پاس قرآن وسنت( جو ھمارے اصلی منابع ھیں)؛ کی گھری شناخت اور قابل اعتماد پھچان ھونا ضروری ھے، تاکہ قانون گذاری کے وقت اسلامی نظریہ کو مدّ نظر رکھیں، اور وہ قوانین وضوابط اسلام کے کلی قوانین کے تحت قرار پائیں، اور اسی طرح قرآن وسنت سے الھام لیتے ھوئے ان کو نافذ کرنے کا طریقہ اپنائیں اس سلسلہ میں کبھی کبھی آیات و روایات سے ھونے والا نتیجہ مختلف ھوجاتا ھے اور بعض آیات و روایات کی مختلف تفسیر و معنی کئے جاتے ھیںنیز بعض روایات سے مختلف استنباط ھوتے ھیں لیکن اس سلسلہ میں بعض لوگ اس قدر آگے بڑہ گئے ھیں کہ انھیں اختلاف کے پیش نظر یہ کھتے ھیں کہ تمام دینی مسائل میں اختلاف جائز ھے، اور کھتے ھیں کہ ھر شخص اسلام سے مخصوص قرائت اور مخصوص نتیجہ حاصل کرسکتا ھے، اور کسی شخص کو یہ حق نھیں ھے کہ وہ اپنے نظریہ کو دوسروں پر تحمیل کرے جیسا کہ اخباروں اور جرائد میں مکرر یہ شعار دیا جاتا ھے کہ کسی کو بھی یہ حق نھیں ھے کہ وہ دین سے اپنے حاصل کردہ نتیجہ کو مطلق گردانے، بلکہ توجہ رھے کہ دوسرے افراد بھی آراء اور نظریات رکھتے ھیں ، اور یہ کہ اسلام کی صرف ایک قرائت نھیں ھے، نیز اسلام کے بارے میں مختلف قرائت کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ دین کی ھر ایک قرائت معتبر اور محترم ھے۔
۲۔ واقع نما اور غیر واقع نما زبانوں کی اھمیت
قارئین کرام ! ھم نے گذشتہ جلسہ میں دینی سلسلہ میں مختلف نظریات کے مطلق نہ ھونے نیز دین کی مختلف قرائت نہ ھونے کے بارے میں بحث کی، اور نظریات کے نسبی ھونے نیز مختلف قرائت کا سر چشمہ تلاش کرتے ھوئے ”نسبیت معرفت“ کے مسئلہ کو بیان کیا اور عرض کیا کہ ”نسبیت معرفت“ کے سلسلہ میں تین نظریات پائے جاتے ھیں اس جلسہ میں دینی نظریات کے مطلق نہ ھونے کے شعار اور دین کی مختلف ھونے کے بارے میں دوسرے دو نظریات کی طرف اشارہ کرتے ھیں، اور وہ دو نظریہ یہ ھیں: ”دین کی زبان“ اور ”ھرمنوٹیک“ "Hermeneutics" کی بحث اور علم تفسیر متون (تحریر کی شرح وتفسیر کرنا) جو کہ عصرِ حاضر میں معرفت کا ایک مھم باب کھلاتا ھے، اور دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں مخصوص ڈیپارٹمینٹ اور مخصوص علمی گروہ اس میں مشغول ھیں لھٰذا ھم اس جلسہ میں انھیں دو چیزوں کے بارے میں گفتگو کرتے ھیں۔
دین کی زبان کے سلسلہ میں بحث، اور دینی معرفت مطلق نہ ھونے والے مسئلہ کا سرچشمہ یہ ھے کہ ان آخری چند صدیوں کے دوران یورپی ممالک میں ”فلسفہ دین اور کلام جدید“ کے سلسلہ میں ایک نئی بحث یہ کی گئی ھے کہ کیا دین کی زبان واقع نما ھے یا دین کی زبان سمبلیک "Symbilec" (رمزی)اور قصہ کھانی اورافسانہ کی زبان ھے اس سلسلہ وضاحت کے طور پر یوں عرض کیا جائے کہ انسان اپنی بات کو سمجھانے کے لئے زبانی اور عرفی محاورات یا علمی اور فلسفی اصطلاحات ، نیز الفاظ اور ان کی ترکیبات کا استعمال کرتا ھے تاکہ دوسروں کو خارجی یا عینی چیزوں کی واقعیت کی طرف متوجہ کرسکے اور کبھی انسان ان الفاظ کے ذریعہ خارجی اور عینی واقعیات کے طرف متوجہ کرتا ھے اور کبھی ان الفاظ کے ذریعہ منطق اور فلسفہ جیسے علم میں ذھنی اور تصوری حقائق کی طرف متوجہ کرتا ھے، مثال کے طور پر کوئی شخص یہ کھے کہ ”فضا روشن ھے“ اس جملہ سے کھنے والے کی مراد یہ ھوتی ھے کہ سننے والے کو اس بات کی خبر دے کہ فضا روشن ھے، اورچراغ کے ذریعہ روشنی کرنے کی ضرورت نھیں ھے بے شک یہ زبان واقع نما ھے اور ایک بیرونی حقیقت کی عکاسی کرتی ھے اور اسی طرح کی زبان ریاضیات ، منطق اور فلسفہ میں بھی استعمال کی جاتی ھے، البتہ یہ زبان علوم دقیقہ (منطق وفلسفھ) اور تجربی علوم میں تھوڑے دخل وتصرف کے ساتھ استعمال کی جاتی ھے اسی وجہ سے کھا جاتا ھے کہ زبان علم اور زبان فلسفہ واقع نما ھوتے ھیں اور بیرونی حقیقت یا ذھنی حقیقت کی عکاسی کرتی ھے۔
لیکن کبھی کبھی کسی بھی زبان کے الفاظ بیرونی یا ذھنی حقیقت کو بیان کرنے کے لئے استعمال نھیں کئے جاتے اگرچہ الفاظ کی ترتیب وھی ھوتی ھے جس کو علوم میں حقیقت نما طریقہ پر استعمال کیا جاتا ھے ، لیکن کھنے والے یا لکھنے والے کا مقصد حقیقت سے باخبر کرنا نھیں ھوتا، مثال کے طور پر افسانہ اور قصہ کی زبان، جس میں کسی بھی طرح کی کوئی واقعیت کا پتہ نھیں دیا جاتا ، لھٰذا اس طرح کی زبان واقع نما نھیں ھے جس وقت قصہ اور کھانیوں کی کتابوں میں ”کلیلہ ودمنھ“ کی داستان بیان کی جاتی ھے تو ھم دیکھتے ھیں کہ ان قصوں میں استعمال ھونے والے الفاظ کسی طرح کی حقیقت کی حکایت نھیں کرتے اگر ان میں جنگلی حیوانات مثلاً شیر، بھیڑیا اور لومڑی وغیرہ کا کے بارے میں باتیں بتائی جاتی ھیں تو موٴلف کا مقصد یہ نھیں ھوتا کہ جنگلی حیوانات میں اس طرح کی گفتگو ھوتی ھے؛ بلکہ موٴلف اس داستان کے ذریعہ حیوانات کی زبان میں غیر مستقیم طور پر بعض مھم باتوں کی طرف متوجہ کرنا چاھتا ھے لھٰذا افسانہ اور قصہ کی زبان غیر واقع نما زبانوں کا ایک حصہ ھے۔
انھی غیر واقع نما زبانوں میں سے: زبان سمبلیک "Symbilec" (رمزی) ھے جو بھت سے علوم میں استعمال کی جاتی ھے ، اسی طرح انسانی معارف کی بھت سی قسموں میں حکایت اور حقائق کے بیان کرنے کے لئے اس زبان سے استفادہ کیا جاتا ھے، جس کا واضح نمونھ؛ علم ھندسہ اور ریاضی کی مثالیں اور فارمولے نیز اختصار کی علامتیں ھوتی ھیں جیسے "y" , "x" ،کیونکہ یہ مثالیں اور فارمولے کسی حقیقت کی حکایت نھیں کرتے، بلکہ بعض علمی حقائق کے لئے صرف ایک علامت ھوتی ھیں، اسی طرح شاعروں کی زبان بھی غیر واقع نما ھوتی ھیں جب شاعر؛ مئے، ساغر اور ساقی جیسے الفاظ کو اپنے شعر میں استعمال کرتا ھے توحقیقت میں اس کی مراد واقعی ساقی اورشراب نھیں ھوتی بلکہ ان الفاظ کو کنایةً استعمال کرتا ھے جب کہ اس کے ذھن میںحقیقی مطلب کچھ اور ھوتا ھے۔
۳۔ دین کی زبان کو غیر واقع نما قرار دینے کا سبب
چنانچہ بعض لوگ کھتے ھیں کہ دین بھی اپنی خاص زبان رکھتا ھے، اور دین کی زبان غیر واقع نما زبانوں میں سے ھے پھلے تو دین کی زبان کا مسئلہ یورپ میں یھودیت اور عیسائیت کے عقائد کے بارے میں بیان ھوا، اسی وجہ سے دانشوروں اور متفکروں نے اپنے نظریہ کی تائید میں یھودیوں اور عیسائیوں کی کتاب مقدس سے مثالیں پیش کیں، اور یہ کھا کہ جب ھم کتاب مقدس کا مطالعہ کرتے ھیں اور اس کے اندر بعض چیزوں کے بارے میں دیکھتے ھیں ، تو ھمارا تصور یہ نھیں ھونا چاھئے کہ یہ مقدس کتاب ھم کو علمی (اور سائنسی) کتابوں کی طرح بیرونی حقائق سے آشنا کر رھی ھے، بلکہ دین نے جو زبان استعمال کی ھے وہ ایک افسانہ کی زبان اور سمبلیک "Symbilec" زبان ھے، (واقع نما نھیں ۔)
عام طور پر زبان کی دو قسم بیان کی جاتی ھے: ایک واقع نما زبان اور دوسری غیر واقع نمازبان،اور بعض لوگ دین کی زبان کو غیر واقع نما زبانوں میں قرار دیتے ھیں، یعنی دین کی زبان حقائق اور واقعیت پر مشتمل نھیں ھوتی بلکہ افسانہ ، قصہ وکھانیوں کی طرح ھوتی ھے لیکن یھاں پر سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ دین کی زبان کو زبان افسانہ قرار دینے کی علت اور وجہ کیا ھے؟ تو اس کا جواب یہ ھے کہ جب یورپ میں سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کے پیش نظر ھر روز نئی نئی چیزیں کشف ھوئی، اور زمین ، سورج اور دیگر ستاروں کے بارے میں مغربی دانشوروںجیسے ”کلپر“، ”کپرنیک“، ”گالیلہ“ ؛ نے نئے نئے فرضیہ قائم کئے جو یھودیوں اور عیسائیوں کی مقدس کتاب (توریت اور انجیل) سے ھم آھنگ نہ تھے، جس کی وجہ سے انھوں نے یہ اندازہ لگالیا کہ عصرِ حاضر میں سائنس کی نئی تھیوری اور نظریات؛ کتاب مقدس میں بیان شدہ بعض عقائد کو جھوٹاثابت کرتے ھیں، جس کی بنا پر یھودیت اور عیسائیت کا چراغ گُل ھوجائے گا،کیونکہ جب توریت اور انجیل میں بیان شدہ چیزیں نادرست، بے بنیاد اور جھوٹی ثابت ھوجائیں گی تو پھر یہ دین کیسے باقی رہ سکتا ھے خصوصاً عیسائیت جس کے پیروکاروں کی تعداد بھت زیادہ ھے۔
خصوصاً ”رنسانس“ کے زمانہ کے بعد سے ؛ کتاب مقدس کی اھمیت کو بچانے اور یھودیت و عیسائیت کی دیواریں ھلنے سے روکنے کے لئے راہ حل تلاش کرنے کی فکر ھوئی ، (اور کافی مدت کے بعد اس نتیجہ پر پھونچے کھ) توریت اور انجیل میں بیان شدہ عقائد اور دوسری چیزیں؛ سائنس کے جدید نظریات اور ٹکنالوجی سے اس وقت ھم آھنگ نہ ھوں گی جب ھم دین کی زبان کو واقع نما اور حقائق کی عکاسی کرنے والی زبان کھیں لیکن اگر دین کی زبان کو غیر واقع نما زبان قرار دیدیں اور یہ کھیں کہ دین کی زبان؛ شعراور افسانہ کی زبان ھے جو حقائق اور واقعیت کی عکاسی نھیں کرتی اور توریت و انجیل میں بیان شدہ چیزیں گویا افسانہ اور قصہ کھانیوں کی طرح ھیں اور خاص اغراض ومقاصد کے تحت تنظیم ھوئی ھیں ، تو اس صورت میں سائنس اور دینی باتوں میں کسی طرح کا کوئی اختلاف پیش نھیں آئے گا؛ کیونکہ بنیادی طور پر دونوں زبانوں کا مقصد مختلف ھے اس نظریہ کا خلاصہ یہ ھے کہ توریت اور انجیل میں خدا، وحی، قیامت اور جنت وجھنم کے بارے میںذکر شدہ مطالب صرف عوام الناس کو اچھائیوں اور برائیوںکے سمجھنے کے لئے بیان ھوئے ھیں، تاکہ دیندار افراد نیک کام کرنے اور برے کاموں سے پرھیز کرنے کی کوشش کریں جھوٹ نہ بولیں، غیبت نہ کریں اور دوسرے پر ظلم وستم کو جائز نہ مانیں مثلاً اگر ان میں کھا جاتا ھے کہ جو شخص کسی پر ظلم کرے گا تو آخرت میں اس پر عذاب ھوگا ، تو در حقیقت اس قول سے ظلم کی بُرائی کو مزید مجسم کیا گیاھے ، ایسا نھیں ھے کہ واقعاً آخرت میں کوئی جنت و جھنم موجود ھے، لھٰذا ھمیں دینی مسائل سے اس طرح کا کوئی تصور اور نتیجہ حاصل نھیں کرنا چاھئے۔
کتاب مقدس (توریت اور انجیل) سے عام فھم عوام الناس یھی نتیجہ حاصل کرتے ھیں کہ ان کتابوں میں ذکر شدہ دینی مسائل حقائق پر مبنی ھیں اور بیرونی حقائق کی عکاسی کرتی ھیں، لیکن روشن خیال رکھنے والوں اور دانشوروں کے نزدیک توریت و انجیل میں بیان شدہ مطالب صرف عوام الناس کے لئے تربیتی پھلو رکھتے ھیں یعنی ان کے پیش نظر عوام الناس میں نیک کام کرنے اور بُرے کاموں سے پرھیز کا جذبہ پیدا ھوتا ھے، اس کے علاوہ ان مقدس کتابوں میں بیان شدہ مطالب میں کوئی پیغام نھیں ھے یھاں تک کہ دین کی افسانوی زبان میں خدا کا کوئی وجود ھی نھیں ھے، چنانچہ اگر توریت اور انجیل میں خدا کا ذکر ھے یا انبیاء (علیھم السلام) اور وحی کے بارے میں بیان ھوا ھے، تو اس افسانوی زبان میں یہ صرف خدا کا ایک عکس ھے ورنہ (نعوذ باللھ) نہ تو خدا ھے اور نہ جنت وجھنم اور وحی اور اس عکس کو اس افسانوی زبان میں اس قدر بھترین سلیقہ سے بیان کیا گیا ھے تاکہ عوام الناس میںنیک کام کرنے اور بُرے کام سے پرھیز کرنے کا شوق پیدا ھو،اور انسانی اقدار کا پاس و لحاظ رکھا جائے ان کی یہ کوشش رھے کہ اسی دنیا میں بھترین زندگی گذاریں اور دوسرے کو آزار و اذیت نہ دیں؛ ورنہ تو توریت و انجیل کی ”کلیلہ ودمنھ“ داستان سے زیادہ اھمیت نھیں ھے جس طرح سے یونانی قدیم تمدن اور دوسرے قدیمی معاشروں میں افسانوی خدا ھوتے تھے، یھاں تک کہ ان کی بعض داستانوں میں یھاں تک بیان ھوا ھے کہ وہ خدا ایک دوسرے سے شادی کیا کرتے ھیں، اور کبھی تال میل کرتے ھیں اور کبھی ایک دوسرے سے ناراض ھوجاتے ھیں، اسی طرح دوسرے ادیان کی کتابوں منجملہ توریت اور انجیل میں بھی صرف خیالی اور افسانوی عکس ھوتا ھے جس میں کسی بھی طرح کی کوئی حقیقت نھیں ھوتی۔
قارئین کرام! جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ یھودیت اور عیسائیت کو نابودی سے بچانے کے لئے توریت اور انجیل میں بیان شدہ دینی مسائل کے بارے میں یہ تھیوری اور نظریہ پیش کیا گیا ھے اور یہ نظریہ آھستہ آھستہ مغربی ممالک کے دیندار لوگوں میں بھی رائج ھوتا چلا گیا، اورکتاب مقدس کی توجیہ (اور دلیل) کے عنوان سے اس نظریہ کو بھترین راہ حل مانا جانے لگا لیکن ”رنسانس“ کے زمانہ سے پھلے یھودی اور عیسائی متدین لوگ دینی عقائد اور مسائل کو صادق، حق اور واقع کے مطابق مانتے تھے،اور انھوں نے جب نئی نئی کشفیات اور سائنس کے نظریات کو اپنی کتاب مقدس کے بر خلاف پایا تو کتاب مقدس کے دفاع کرتے ھوئے بعض دانشورں کی سخت مخالفت کی یھاں تک کہ بعض دینی مسائل کے مخالف دانشوروں کو پھانسی دے دی گئی اور بعض کو زندہ آگ میں جلادیا گیا اسی طرح بعض بھت سے دانشوروں کو منجملہ ”گلیلھ“ کو توبہ پر مجبور کیا جس کی بنا پر اس نے اپنے نظریات واپس لے لئے۔
۴۔مغربی نسبی گرائی نظریہ کی ترویج (وتبلیغ)کرنے والے
مغرب پرست روشن خیال
قارئین کرام ! مغربی ممالک میں پھلے یہ نظریہ پیش کیا کہ دین کی زبان؛ سائنس کی زبان سے مختلف ھے اور دین کی زبان کسی بھی طرح کے حقائق پر مبنی نھیں ھے، بلکہ دین کی زبان قصہ کھانی اور افسانہ کی زبان ھے، لیکن مشرقی ممالک سے مغربی ممالک کے تعلقات اور علمی تبادلہ خیالات اور مغربی ممالک میں اسٹوڈینٹ کا تعلیم حاصل کرنے وغیرہ جیسے امور کی وجہ سے یہ نظریہ مشرقی ممالک میں بھی آگیا مغرب پرست اور مغربی کلچر کے عاشق اور دلدادہ نیز مغربی ممالک میں تعلیم یافتہ اسٹوڈینٹ وغیرہ مغربی تمدن کے شیدائی بن گئے ، اور وھاں کی تعلیم اور وھاں کی زبان سے آشنائی کو اپنے مھم افتخارات میں شمار کرنے لگے، اور اس الحادی تھیوری اور نظریہ کے حصول کو اپنے لئے باعث سرفرازی سمجھنے لگے، نیز اس نظریہ کو کار گر اور بھترین تحفہ کے عنوان سے عالم اسلام میں داخل کردیا، اور کھا کہ جس طرح مغربی ممالک میں توریت اور انجیل کے ماننے والے اپنے دین کی زبان کو غیر واقع نما زبان قرار دیتے ھیں اور اس کو صرف قصہ کھانی کی زبان مانتے ھیں جو کسی بھی طرح کے حقائق کو بیان نھیں کرتی، اسی طرح قرآن کریم کی زبان بھی قصہ کھانی اور افسانہ کی زبان ھے جس میں حقائق سے کوئی سرو کار نھیں ھے۔!!
عالم اسلام میں بعض عربی ممالک جو اھل بیت علیھم السلام کی تعلیم سے آشنائی نھیں رکھتے تھے لھٰذا انھوں نے اس تھیوری اور نظریہ کو قبول کرلیا اور بعض عربی اھل قلم نے اس سلسلہ میں کتابیں بھی لکہ ڈالیں اور اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے شواھد یا ”مستندات قرآن“ کا بھی ذکر کیا اور جب انھوں نے قرآن مجید کی متشابہ آیات کو دیکھا جن کو سمجھنے سے قاصر رھے اور ان کے حقیقی معنی کو درک نہ کرسکے، اور ان کے ظاھری معنی کو علم اور سائنس سے ھم آھنگ نہ پایا تو توریت و انجیل کے ماننے والوں کی طرح اپنے دینی عقائد کی افسانوی تفسیر و توضیح کرنے لگے، اور قرآن مجید کی بھی افسانوی اور سمبلیک "Symbilec" (رمزی) تفسیر کرنا شروع کردی تاکہ اپنے خیال ناقص میں سائنس کے نظریات کے، دینی عقائد اور دینی مسائل سے ٹکراؤ کا راہ حل پیش کرسکیں تقریباً تیس سال سے خصوصاً ان آخری چند سالوں میں یورپ اور امریکہ میں تعلیم یافتہ لوگوں نے اس سلسلہ میں بھت زیادہ فعالیت اور کار کردگی کی تاکہ مغربی تمدن کے اس نظریہ کو ھمارے معاشرہ میں رواج دیں اور قرآن کی زبان کو قصہ کھانی اور افسانوی زبان کھہ ڈالا، اور اپنے مقصد میں کامیاب ھونے کے لئے قرآن مجید کی بعض رمزی اور سمبلیک تفسیر کے چند نمونہ پیش کئے:
۵۔ ھابیل اور قابیل کے واقعہ سے انحرافی نتیجہ
تیس سال پھلے انحرافی اور مارکسسٹ "Marxist" نظریہ رکھنے والے ایک صاحب نے اپنی ایک تقریر میں ھابیل و قابیل کے واقعہ سے سمبلیک "Symbilec" تفسیر کی۔
جب کہ قرآن مجید میں اصل واقعہ اس طرح بیان ھوا ھے:
( وَاتْلُ عَلَیْھمْ نَبَاٴَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اٴَحَدِھمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنْ الْآخَرِ قَالَ لَاٴَقْتُلَنَّکَ قَالَ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللهُ مِنْ الْمُتَّقِینَ (۱)
” اور اے پیغمبر ! آپ ان کو آدم کے دونوں فرزندوں کا سچا قصہ پڑہ کر سنائیے کہ جب دونوں نے قربانی دی اور ایک کی قربانی قبول ھوگئی اور دوسرے کی نہ ھوئی تو اس نے کھا کہ میں تجھے قتل کردوں گا تو دوسرے نے جواب دیا کہ میرا کیا قصور ھے خدا صرف صاحبان تقویٰ کے اعمال قبول کرتا ھے “
اسلامی کتب میں واردہ شدہ روایات سے استفادہ ھوتا ھے کہ جناب آدم علیہ السلام کے دو بیٹے ھابیل و قابیل کو خدا کی بارگاہ میں قربانی کرنا تھی چنانچہ قابیل نے ایک گوسفند کی قربانی کی، اور جناب ھابیل نے ایک مقدار گیھوں راہ خدا میں ھدیہ دئے، جناب ھابیل کی قربانی بارگاہ رب العزت میں قبول ھوگئی لیکن قابیل کی قربانی قبول نہ ھوئی، جس کے بنا پر قابیل کو جناب ھابیل سے حسد ھونے لگا یھاں تک کہ جناب ھابیل کو قتل کردیا؛ لیکن اپنے کئے پر پشیمان ھوا اس کے بعد اپنے بھائی کے جنازہ کے بارے میں فکر ھوئی کہ اس کو کیا کرے تو خداوندعالم نے ایک کوّے کو بھیجا جس نے قابیل کو دفن کرنے کا طریقہ سکھادیا۔
( فَبَعَثَ اللهُ غُرَابًا یَبْحَثُ فِی الْاٴَرْضِ لِیُرِیَہ کَیْفَ یُوَارِی سَوْاٴَةَ اٴَخِیہ قَالَ یَاوَیْلَتَا اٴَعَجَزْتُ اٴَنْ اٴَکُونَ مِثْلَ ھذَا الْغُرَابِ فَاٴُوَارِیَ سَوْاٴَةَ اٴَخِی فَاٴَصْبَحَ مِنْ النَّادِمِینَ ) (۲)
” پھر خدا نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کو کھود رھا تھا کہ اسے دکھلائے کہ بھائی کی لاش کو کس طرح چھپائے گا تو اس نے کھا کہ افسوس میں اس کوّے کے جیسا بھی نہ ھوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش کو زمین میں چھپا دیتا اور اس طرح وہ نادمین اور پشیمان لوگوں میں شامل ھوگیا ۔“
کوّے نے اپنی غذا کو چھپانے کے لئے زمین میں ایک گڑھا گھودا اور اپنی غذا وھاں چھپادی؛ جب خداوندعالم کے حکم سے کوّے نے زمین میں اپنی غذا کو دفن کیا تو کیونکہ قابیل کو نھیں معلوم تھا کہ زمین میں مردہ کس طرح دفن کیا جاتا ھے، لیکن کوّے کے کام سے اپنے مردہ بھائی کے دفن کا طریقہ سیکہ لیا۔
وہ مقرر اور موٴلف اس واقعہ کے بارے میں اپنی سمبلک تفسیر میں کھتا ھے:
اس واقعہ میںجناب ھابیل زحمت کش اورکاشتکاری کا ایک نمونہ ھے جو بھت زیادہ زحمت کے بعد بھت کم نتیجہ حاصل کرتا ھے اور چونکہ خداوندعالم اس طبقہ کا طرفدار ھے لھٰذا خداوندعالم نے اس کا نا چیز ھدیہ قبول کرلیا اور قابیل مالداری کا نمونہ ھے اور جب ایک مالدار نے گوسفند کی قربانی کی تو خدا نے اس کو قبول نھیں کیا ؛ کیونکہ خداوندعالم مالداری کا دشمن ھے چنانچہ اس مقرر نے اس واقعہ سے یہ نتیجہ نکالا کہ ھابیل وقابیل اور گندم اور گوسفند کی قربانی کوئی حقیقت نھیں رکھتااور صرف سمبلیک "Symbilec" (رمزی) پھلو رکھتا ھے، اور یہ واقعہ مزدور اور مالدار طبقوں کے درمیان اختلاف اور جنگ و کشمکش کی حکایت کرتا ھے (لیکن یھاں پر یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ اس زمانہ میں جناب آدم و حوا اور ان کے دونوں فرزند ھابیل و قابیل کے علاوہ کوئی تھا ھی نھیں کس طرح غریب، مزدور اور مالدار طبقہ کا تصور کیا جاسکتا ھے، اور اس طرح کی طبقاتی تقسیم اس زمانہ کے لئے معنی نھیں رکھتی بھر حال مارکسسٹ "Marxist" نظریہ کے رواج اور اس الحادی نظریہ کے طرفداروں کی وجہ سے یہ سمبلیک تفسیر قابل قبول قرار پائی )
قارئین کرام ! مذکورہ مقرر نے ھابیل وقابیل کے بارے میں تو یہ سمبلیک تفسیر بیان کردی لیکن یہ نھیں بتایا کہ کوّا کس چیز کا نمونہ تھا؛ یھاں تک کہ اس کے ایک شاگرد نے اس کے بارے میں ایک نظریہ پیش کیا کہ وہ کالا کوّا مولویوں کا نمونہ تھا جو مجلس پڑھتے ھیں اور عزاداری کرتے ھیں جو منبر پر جاکر روزی کے سیاہ وسفید کے بارے میں بیان کرتے ھیں اور مالداروں اور سرمایہ داروں کی حمایت کرتے ھیں اور مزہ کی بات یہ ھے کہ اس سلسلہ میں خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے : ( وَاتْلُ عَلَیْھمْ نَبَاٴَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا )یعنی(اے رسول) اس واقعہ کی حقیت لوگوں کے لئے بیان کریں، گویا خداوندعالم یہ خبر دے رھاھے کہ ایک روز ایسا بھی آئے گا جب اس واقعہ کے سلسلہ میں غلط بیانی سے کام لیا جائے گا، لھٰذا آپ پھلے ھی اس واقعہ کی حقیقت کو بیان فرمادیں۔
جی ھاں، ان چند سالوں میں بعض مغربی ممالک کے کلچر سے متاثر افراد قرآن مجید سے اس طرح کی تفسیر بیان کرتے ھیں اور آج کل دین اور قرآن کے بارے میں اس طرح کی باتیں اپنے زوروں پر ھے اور ان کی تبلیغ و ترویج ھو رھی ھے، یھاں تک کہ بعض علماء بھی اس نظریہ سے متاثر ھوچکے ھیں اور یہ کھتے ھوئے نظر آتے ھیں کہ (نعوذ باللھ) قرآن کی زبان واقع نما نھیں ھے اور ایسا نھیں کہ قرآن مجید کی آیات کے ذریعہ ھمیں کسی حقیقت کے بارے میں پتہ چلتا ھو ، ھمارے پاس قرآنی آیات کی تفسیر کے سلسلہ میں قطعی، برھانی اور مسلم معیار نھیں ھیں تاکہ ان کی بنا پر ھم یہ دعویٰ کریں کہ قرآن مجید کی فلاں آیت سے یہ نتیجہ ھے اور دوسری تفسیریں باطل اور نادرست ھیں بلکہ ھر شخص اپنے ذھن اور علم کی بنا پر قرآن کے بارے میں سمبلیک تفسیر بیان کرسکتا ھے، چاھے اس کی تفسیر دوسری تفاسیر سے بالکل مخالف اور متضاد ھو۔!!
۶۔ دین کی زبان واقع نما نہ ھونا یا دین کی ایک مبھم تصویر
دینی مسائل اور قرآن کریم کی زبان کو غیر واقع نما قرار دینے کے سلسلہ میں وضاحت کے لئے عرض کرتے ھیں کہ ماڈرن ھنری میوزیم "Museum" میں بھت سی مختلف ھندسی اور مبھم چیزوں کی تصویر ھوتی ھیں جس کو دیکہ کر واضح طور پر معلوم نھیں ھوپاتا کہ یہ کس چیز کی تصویر ھے جس کی بنا پر مختلف احتمالات دئے جاتے ھیں اور ھر شخص اپنے ذوق کے لحاظ سے ان کی توضیح و تفسیر کرتا ھے اور ان کو کسی خاص چیز کا سمبل (اشارھ) بتایا جاتا ھے شاید ان کا مصور دوسروں کے مختلف نظریات کی طرف متوجہ بھی نہ ھو اسی طرح بعض نفسیاتی لیباریٹری"Laboratory"میں ایک کاغذ پر تھوڑی روشنائی ڈال دی جاتی ھے اور اس کو پھیلاکر بعض لوگوں سے سوال کیا جاتا ھے کہ یہ کس چیز کی شکل ھے؟ تو وہ تھوڑی دیر غور وفکر کے بعداپنے ذھن کے لحاظ سے کوئی شکل کھہ دیتے ھیں ، مثلاً کھتے ھیں کہ یہ ایک عورت کے بال ھیںاور یہ اس کا ھاتہ ھے اور اپنے ذھنی خیالات کی بنا پر اس کو ایک عورت کی تصویر کھہ ڈالتے ھیں جبکہ اس کام کے کرنے والے نے کسی خاص تصویر کے لئے یہ کام نھیں کیا ھوتا اور ناھی اس کام کو منظم طریقہ سے کیا جاتا ھے بلکہ یونھی روشنائی ڈال دی جاتی ھے کہ ھر شخص اپنے ذھن کے لحاظ سے اس کے بارے میں فیصلہ کرے۔
چنانچہ یہ لوگ کھتے ھیں کہ قرآن کی زبان واقع نما نھیں ھے، بلکہ قرآن مجید میں بیان شدہ مسائل کا مقصد یہ ھوتا ھے کہ ھر شخص اپنے لحاظ سے اس کو سمجھے، اور کسی شخص کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ قرآن مجید سے اپنے حاصل کردہ نظریہ کو مطلق قرار دے، اور یہ کھے کہ میری بیان کردہ ھی تفسیر قرآن ھی درست اور صحیح ھے اور دوسروں کی بیان کردہ تفسیریں غلط ھیں جس طرح ایک مبھم تصویر کودیکہ کر کوئی یہ فیصلہ کرے کہ صرف میرا ھی نظریہ صحیح ھے اور دوسروں کا نظریہ غلط ھے؛ یہ کھنا اس کے لئے صحیح نھیں ھے، کیونکہ جس طرح وہ اپنے ذاتی خیالات اور تصورات کے ذریعہ کوئی خاص تفسیر کرنے کا حق رکھتا ھے اسی طرح دوسرے بھی اپنے ذھن اور موقع محل کے لحاظ سے تفسیر کرسکتے ھیں، جن میں سے کسی ایک کو صحیح اور دوسری کو غلط قرار نھیں دیا جاسکتا کیونکہ اس طرح کی چیزوں میں صحیح اور غلط ھونا ثابت نھیں ھے، یہ نھیں کھا جاسکتا کہ فلاں صاحب کا حاصل کردہ نتیجہ صحیح ھے اور فلاں صاحب کا نتیجہ غلط ھے!
قارئین کرام! کیا قرآن مجید بھی (نعوذ باللھ) ایک ماڈرن میوزیم کی تصویروں کی طرح ھے کہ ھر شخص کو اس کی تفسیر کرنے کا حق ھے؟ لیکن حقیقت یہ ھے کہ جو لوگ آسمانی کتابوں کے بارے میں اس طرح کا نظریہ رکھتے ھیں غالباً وہ لوگ خدا اور وحی پر عقیدہ نھیں رکھتے، اور اگر زبان سے مسلمان ھونے کا دعویٰ بھی کرتے ھیں، تو ان کا یہ مسلمان ھونے کا دعویٰ صرف دکھاوے کے لئے ھوتا ھے اس وقت اختلاف قرائت کا نظریہ رکھنے والے کتاب مقدس کی تفسیر کے بارے میں کھتے ھیں: بالفرض اگر خدا بھی ھو، وحی بھی نازل ھوئی ھو اور انبیاء نے وحی کو صحیح سمجھا ھو (اگرچہ ان باتوں میں بھی شک ھے)، تو چونکہ انبیاء بھی انسان ھیں اور انسانی درک و فھم رکھتے ھیں اور انسانی درک وفھم؛ غلطی سے خالی نھیںھے،لھٰذا بھت ممکن ھے کہ نبی نے خدا کی باتوں کو صحیح نہ سمجھا ھو اور اگر یہ بھی مان لیں کہ پیغمبر نے وحی کو حاصل کرنے میں غلطی نھیں کی ھے، تو بھی قرآن مجید کی یقینی تفسیر بیان کرنے کے لئے کوئی راستہ نھیں ھے، تاکہ اسی معیار کی بنا پر کسی ایک تفسیر کو یقینی قرار دیں ا ور دوسری تفاسیر کو غلط سمجھیں لھٰذا قرآن مجید سے کوئی بھی شخص اپنے لحاظ سے نتیجہ نکال سکتا ھے اور اپنے نظریہ اور نتیجہ کو صحیح و معتبر قرار دے سکتا ھے اور کسی دوسرے کو یہ حق نھیں ھے کہ اس کے حاصل کردہ نظریہ کو ردّ کرے ھم کتاب مقدس کی تفسیر کے بارے میں بالکل انھیں افراد کی طرح ھیں جن کے سامنے نفسیاتی لیباریٹری "Laboratory" میں ایک مبھم تصویر پیش کی جاتی ھے جس کے بارے میں ھر شخص کو اپنا اپنا نظریہ دینا پڑتا ھے مثلاً کوئی شخص کھتا ھے کہ یہ شکل تو میری معشوقہ کے بالوں کی طرح ھے اور کوئی کھتا ھے کہ یہ رستم کی شکل ھے، اور اس سلسلہ میں ھر ایک شخص کی نظر محترم ھے اور کسی دوسرے کو اعتراض کا حق نھیں ھے، اگرچہ یہ بھی ممکن ھے کہ اس مبھم تصویر کو سمجھنے میں سب نے غلطی کی ھو اور کسی نے بھی صحیح نہ بتایا ھو بلکہ اس طرح سے کاغذ پر روشنائی ڈالنے والے کا ھدف بھی صرف یھی ھو کہ ھر شخص اپنے لحاظ سے اس کے بارے میں اپنا تصور بیان کرے!
۷۔ قرآن مجید کا شعراء کی زبان سے مقابلہ کرنا؛ بھت سے
نتائج ھونے پر دلیل ھے!!
دین کی زبان کے سلسلہ میں معرفت کو نسبی قرار دینے والوں کے نظریہ کو بیان کرنے کے لئے ایک دوسری مثال یہ بھی پیش کی جاسکتی ھے: جیسا کہ عرفانی اور عشقی اشعار سے مختلف نتائج نکالے جاسکتے ھیں خصوصاً حافظ کی غزلیات، جیسا کہ اکثر ایرانیوں کے گھر میں ”دیوان حافظ“ ھوتا ھے اور ایک قدیم زمانہ سے دیوان حافظ سے فال بھی نکالی جاتی ھے مثلاً جب کسی شخص کا رشتہ دار سفر میں ھوتا ھے اور وہ اس کے بارے میں باخبر ھونا چاھتا ھے تو وہ دیوان حافظ کے ذریعہ فال نکالتا ھے اور سامنے نکلنے والے صفحہ پر موجود غزل کو پڑہ کر یہ سمجھ لیتا ھے کہ اس کا رشتہ دار خیریت سے ھے اور جلد ھی پلٹنے والا ھے اور اگر کوئی شخص مریض ھو اور دیوان حافظ سے فال نکالتا ھے تو وہ بھی اسی غزل سے یہ نتیجہ نکالتا ھے کہ جلد ھی اس کو بیماری سے شفا ملنے والی ھے؛ لیکن یہ بھی ممکن ھے کہ اسی غزل سے ایک شخص پریشان کن نتیجہ نکالے جبکہ حافظ کی عارفانہ اور عاشقانہ غزلیں اس طرح فال نکالنے کے لئے نھیں ھیں، اور حافظ کا ان غزلیات سے بالکل یہ مقصد نھیں ھے کہ فلاں مریض شفایاب ھوجائے گا یا فلاں مسافر سفر سے جلد لوٹ آئے گا، یا فلاں شخص کی یہ آرزو پوری ھوجائے گی یا فلاں صاحب کی یہ حاجت پوری نھیں ھوگی کیونکہ حافظ نے عرفانی اور شاعری ماحول میں شعر کھیں ھیں جبکہ فال نکالنے والا اپنے ذھن کے لحاظ سے مختلف نتیجے نکال رھا ھے جب کہ شاعر اور دوسروں کے نتیجہ سے میلوں فاصلہ موجود ھے مولانا (شاعر) نے کیا خوب کھا:
ھر کس از ظن خود شد یار من
از درون من نجست اسرار من
(اپنے خیال میں ھر شخص ھمارا دوست بن گیا ھے لیکن کسی نے ھمارے اندر کے اسرار کا پتہ نہ لگایا)
کھتے ھیں کہ قرآن کریم بھی حافظ کی غزلوں کی طرح ھے جس سے ھر شخص مختلف نتیجہ نکال سکتا ھے بلکہ ایک دوسرے کے بالکل مخالف بھی، اور ھر کوئی شخص اپنے ذھن اور سابقہ علم کی بنا پر قرآن کریم کی آیات سے نتیجہ نکال سکتا ھے، اور کسی شخص کو بھی یہ حق نھیں ھے کہ وہ اپنے حاصل کردہ نتیجہ اور قرائت کو مطلق قرار دے۔
یھاں پر پھونچنے کے بعد یہ دعویٰ کیا جاسکتا ھے یا کم سے کم یہ احتمال پایا جاتا ھے کہ اس نعرہ (کہ کسی کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ وہ دین سے حاصل کردہ اپنے نظریہ کو مطلق قرار دے)؛ کی اصلی بنیاد یھی دین کی زبان کا مسئلہ ھے کیونکہ اس نظریہ کی بنا پر دین کی زبان قصہ کھانی اور افسانہ کی زبان ھے، اور یہ زبان سمبلیک "Symbilec" (رمزی) اور غیر واقع نما ھے، لھٰذا ھر شخص کو یہ حق حاصل ھے کہ وہ اپنی ذھنیت کے لحاظ سے دینی مسائل کے معنی و تفسیر کرے، نیز کسی شخص کو بھی یہ حق حاصل نھیں ھے کہ وہ صرف اپنی قرائت اور تفسیر کو صحیح قرار دے اور دوسروں کے حاصل کردہ نتائج کو باطل و بے بنیاد!
تو کیا واقعاً اس بے بنیاد اور الحادی نظریہ کی نشر و اشاعت کے بعد جس میں قرآن کریم کو دیوان حافظ کی طرح قرار دیا جاتا ھے اور جس سے ھر کس وناکس اپنے ذھن کے لحاظ سے معنی وتفسیر کرنے کا حق رکھتا ھے تو کیا اس صورت میں یہ قرآن کریم ؛ کتاب ھدایت باقی رھے گی؟ ! اور کیا قرآن کریم سے اس طرح کے پیش کردہ نتائج کے بعد وھی کتاب باقی رھے گی جس کے لئے پیغمبر اکرم (ص)، ائمہ معصومین علیھم السلام نے اپنی جان خطرات میں ڈالی اوراس راہ میں کس قدر شھید فدا ھوگئے؟ اگر ھر کس و ناکس قرآن مجید کی تفسیر کرسکتا ھو اور اپنے حاصل کردہ نتیجہ کو حجت قرار دے سکتا ھو تو پھر آیات قرآن کی صحیح تفسیر پر قرآن مجید کیوں زور دیتا ھے اور تفسیر بالرائے کرنے سے کیوں ڈراتا ھے، نیز دین میں بدعت گذاری کی کس قدر مذمت کی گئی ھے؟ اگر قرآن مجید کی تفسیر من پسند ھونے لگے اور دو بول پڑھنے والا ھر شخص قرآن مجید سے نتیجہ حاصل کرنے لگے، تو پھر ھمارے انقلاب کا کیا فائدہ ؟کیوں ھم نے شاہ کی حکومت کو سرنگون کیا؟ کیونکہ شاہ بھی اپنے کاموں اور اپنی سمجھ کو قرآن اور دین کے مطابق سمجھتا تھا، یھاں تک کہ وہ تو یہ بھی کھتا تھا کہ جو کچھ میں کھتا ھوں وہ ملاؤں کی بیان کردہ باتوں سے زیادہ مناسب ھے!! اور یہ دعویٰ کرتا تھاکہ میں ملاؤں سے زیادہ قرآن کو سمجھتا ھوں، میرے خلاف بے وجہ تقریریں کی جاتی ھیںبلا وجہ عوام الناس کو میرے غلاف ورغلایا جاتا ھے!! دین کے سلسلہ میں شاہ کی بھی ایک قرائت تھی کیوں اس کی قرائت کو باطل قرار دیا گیا!
اگر کوئی شخص اسی نظریہ کی بنا پر یہ دعویٰ کرے کہ دین سے حاصل کردہ میرا نتیجہ یہ ھے کہ خداوندعالم وجود عینی اور واقعی نھیں رکھتا اور مسلمان ھونا خدا کو ماننے میں منحصر نھیں ھے، تو کسی کو اعتراض کا حق نھیں ھے؛ چونکہ اس نے اپنے درک و فھم کو بیان کیا ھے اور دین سے اس طرح کا نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ھے، جیسا کہ حافظ کے اشعار میں بھی مختلف معنی اور تفسیر کرنے کی گنجائش پائی جاتی ھے مثلاً حافظ کھتے ھیں:
اگر غم لشکر انگیزد کہ خون عاشقان ریزد
من و ساقی بہ ھم سازیم وبنیادش بر اندازیم
(اگر لشکر میں طلاطم پیدا ھوجائے تو عاشقوں کا خون بھی بھادیا جاتا ھے، ھم اور ساقی آپس میں پیار و محبت سے رھیں تو پھر اس کی بنیاد کو گراسکتے ھیں۔ )
چنانچہ اس شعر کو پڑہ کر ھر شخص اپنی ذھنیت کے لحاظ سے نتیجہ نکال سکتا ھے کہ اس کی بیماری کو شفا ھوجائے گی، یا اس کی حاجت پوری ھوجائے گی، اور اپنے حاصل شدہ نتیجہ کے لئے مثال کے طور پر یہ کھا جاتا ھے کہ ” مئے اور ساقی“ سے مراد ؛ مریض اور ڈاکٹر ھے، اور ”بنیادش بر اندازیم“ سے مراد یہ ھے کہ یعنی مرض کو جڑ سے ختم کردیا جائے گا لیکن کوئی دوسرا شخص اسی دیوان حافظ سے فال نکالے اور یھی شعر نکلے تو وہ اس سے بالکل مخالف نتیجہ نکال سکتا ھے۔
اگر قرآن مجید میں ایسے نتائج کی گنجائش پائی جاتی ھو کہ مثلاً خدا کا کوئی وجود ھی نھیں ھے، اور خداوندعالم کے اثبات کرنے کے لئے کوئی دلیل بھی نہ ھو، تو پھر اسلام میں کیا باقی بچے گا؟ اگر ھر کس و ناکس قرآن مجید سے مستقل طور پر ایک نتیجہ نکالنے کا حقدار ھو اور تمام لوگوں کے حاصل کئے ھوئے نتائج کا احترام کیا جائے تو پھر دین اسلام سے دفاع، اور دین کے سلسلہ میں غیرت مندی کامظاھرہ اور اسلامی اقدار کے مقابلہ میں حساسیت دکھانا؛ بے معنی اور بے ھودہ ھوگا سب کو ٹولرانس "Toleranec"کی رعایت کرتے ھوئے دوسروں کی باتوں کو برداشت کرنا چاھئے اور دوسروں کے نظریات پر اعتراض نھیں کرنا چاھئے ھر شخص اپنے لحاظ سے دینی مسائل پر عمل کرے ، اور اگر اس کا یہ نظریہ ھے کہ واقعاً خداوندعالم واحد او ریکتا ھے تو اس کو اپنے وظیفہ کے مطابق عمل کرنا چاھئے، لیکن اگر کسی نے یہ نتیجہ نکالا ھے کہ ھزاروں خدا موجود ھیں تو اس کا وظیفہ اسی لحاظ سے ھوگا؛ اور جب ھر شخص کی اپنی سمجھ حجت ھے تو کسی طرح کا کوئی اختلاف نھیں ھونا چاھئے اور سب پیار ومحبت کے ساتھ بھترین زندگی بسر کریں، اور کوئی بھی ایک دوسرے کے نظریات کے مقابلہ منفی اعتراض نہ کرے۔
بھر حال، یہ نظریہ جس میں دین کی زبان کو سمبلیک "Symbilec" زبان قرار دیا گیا ھے، جس میں ھر شخص کو یہ اختیار ھے کہ وہ اپنے ذھن کے لحاظ سے دینی راز اور مخفی باتوں کے من پسند معنی کرے ، اسی بنیاد پر کھنے والے کھتے ھیں کہ دینی معرفت اور شناخت نسبی اور سیال (رواں دواں) ھے اور کسی کو اپنے نظریہ کو مطلق قرار دینے کا حق نھیں ھے بے شک اس طرح کا فاسد نظریہ دین اور قرآن کی نظر میں باطل اور بے بنیاد ھے اور اس طرح کا نظریہ دین سے کسی بھی ھم آھنگ نھیں ھے ھم عقلی دلائل سے یہ بات ثابت کرتے ھیں کہ خداوندعالم کی حکمت اور اس کا لطف اس بات کا تقاضا کرتا ھے کہ وہ اپنے بندوں کو ایک مقصد اور ایک راہ حق و مطلق کی طرف ھدایت کرے، جس کے لئے خداوندعالم نے قرآن مجید نازل کیا جس میںھر انسان کے لئے حجت اور موعظہ ھے اور جو نوع بشریت کی روحی و نفسیاتی بیماریوں کا علاج کرتا ھے جب کہ پیامبر اکرم (ص) اور ائمہ علیھم السلام کے مکتب سے تعلیم حاصل کرنے والوں کے نزدیک قرآن مجید کی ایک ھی قرائت اور تفسیر ھے اور وہ بھی پیغمبر اور اھل بیت علیھم السلام کی تفسیر ھے اور صرف انھیں حضرات کی رائے اور نظریہ صحیح اور بر حق ھے جو معرفت کے آب زلال کا سر چشمہ ھیں، دین کی یہ قرائت دوسری مختلف قرائتوں سے سازگار نھیں ھے، اور ان کو باطل قرار دیتی ھے اگر چہ عالم اسلام میں ”مارٹن“ اور ”لوٹری“ پیدا ھوجائیں اور ایک نیا دین ایجاد کرلیں جس کی بنا پر مختلف اور مخالف قرائتیں پیدا ھونے لگیںاور معرفت کے نسبی قرار دینے کی وجہ سے تمام قرائتوں کو صحیح قرار دیا جانے لگے، لیکن ائمہ علیھم السلام سے نقل شدہ بے شمار روایات کے ذریعہ قرآن مجید کی صحیح قرائت ھم تک پھونچی ھے اور لوگوں کو تفسیر بالرائے سے سخت منع کیا گیا ھے۔
اولیاء اللہ نے اس بات پر زور دیا ھے کہ عوام الناس کو یہ حق نھیں ھے کہ وہ اپنے طرف سے دین میں کچھ چیزوں کو شامل کردیں اور اگر کسی مقام پر غیر واضح متشابہ بیان ھو ،تو اس موقع پر توقف کیا جائے اور اھل بیت علیھم السلام کی موجیں مارتے ھوئے دریائے معرفت سے اس کی تفسیر حاصل کریں، اور خدا اور اسلام کی طرف اسی چیز کی نسبت دیں جو خود خداوندعالم، قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم و ائمہ معصومین علیھم السلام کے فرمان میں موجود ھو۔
۸۔ ھر منو ٹک فلسفہ میں قرائت کی کثرت اور معرفت کا سیلاب
تعدد قرائت اور اپنی نظریہ کو مطلق قرار نہ دینے کے نعرہ کی ایک دلیل ؛ علم ھر منوٹیک "Hermeneutics" (تحریر کے معنی اور تفسیر کرنا) ھے؛یہ علم آج کل معرفت اور شناخت کے بارے میں ایک عظیم شعبہ ھے جس کی تحقیق کے سلسلہ میں دنیا بھر میں بھت سے افراد مشغول ھیں اس علم کی پیدائش بھی مغربی ممالک میں ھوئی ھے، پھلے یہ ھر منوٹیک"Hermeneutics" عیسائیت کے علم کلام اور حکمت (فلسفھ) کے کام میں آتا تھا جس کا موضوع کتاب مقدس (عھد عتیق اور عھد جدید)کی حقائق کی معنی وتفسیر کرنا تھا لیکن اس کے بعد اس میں وسعت دیدی گئی اور اس کوانسانی کردار، رفتار و گفتار و آثارکی اھمیت کے معنی و تفسیر کے سلسلہ میں ایک فن اورمھارت سمجھا جانے لگا اور اس آخری معنی کی وجہ سے علم ھرمنوٹیک کو خدا شناسی (الھیات) سے نکال کر فلسفہ سے مخصوص کردیا گیا، اور یہ انسانی علوم کے مطالعات یا علوم انسانی کے لئے خاص روشوں میں استعمال ھونے لگا۔
اس علم میں بیان ھونے والی تھیوری اور نظریات میں سے ایک یہ بھی ھے کہ ھمارے استعمال کردہ الفاظ دوسروں تک مافی الضمیر منتقل کرنے سے قاصر ھیں، ھمارے یہ الفاظ کسی بھی صورت میں اس معنی اور حقائق کی طرف منتقل نھیں کرتے جن کو موٴلف نے بیان کئے ھیں پس جس وقت کوئی شخص دوسروں سے گفتگو کرتے وقت الفاظ کا استعمال کرتا ھے تو سننے والا؛ کھنے والے کے اصلی مقصد تک نھیں پھنچ سکتا مثال کے طور پر ھر انسان کی باطنی احساسات ھوتے ھیں جیسے محبت، عشق، غصہ، نفرت اور تعجب تو اگر کوئی شخص کوئی تعجب آور چیز دیکھتا ھے اگر وہ اپنے تعجب کے احساس کو دوسرے سے بیان کرنا چاھے، تو سننے والا صرف یہ بات سمجھتا ھے کہ اس کو تعجب ھوا ھے ، لیکن کسی بھی صورت میں استعمال ھونے والے الفاظ کے اندر حقیقت تعجب کاپتہ نھیں چلتا، در حقیقت الفاظ کے ذریعہ صرف ایک احساس کی خبر دی جاتی ھے لیکن اس احساس کی ماھیت اور کیفیت منتقل نھیں ھوتی مثال کے طور پر اگر آپ کسی سے کھیں کہ میں فلاں چیز کا عاشق ھو، تو آپ کا مخاطب آپ کے اندر احساس کو نھیں سمجھ سکتا وہ آپ کے بعض حالات سے ایک طرح کا اندازہ لگاسکتا ھے لیکن تفصیلی طور پر اس کی شناخت اور اندرونی احساس کو نھیں سمجھ پاتا۔
۹۔ الفاظ کے ذریعہ مختلف حقائق کو سمجھا جاسکتا ھے
جیسا کہ اس بات کی طرف اشارہ ھوچکا ھے کہ ان لوگوں کے دعووں میں ایک دعویٰ یہ ھے کہ کسی موٴلف یا مقرر کے الفاظ مقصد کو بیان کرنے اور ما فی الضمیر کو منتقل کرنے سے قاصر ھیں ، اور الفاظ کامافی الضمیر کے منتقل کرنے میں نا کافی ھونا ھرمنوٹیک کی بحث کا ایک حصہ ھے نیز دینی تحریروں میں بھی اس سے کام لیا جاتا ھے گذشتہ اعتراض کا جواب یہ ھے کہ اگر ھم گذشتہ چند ھزار سال پھلے کی مختلف اقوام و مذاھب کا تاریخی مطالعہ کریں اور ھر دین و مذھب اور مسلک کے ماننے والوں کی ادبیات پر سرسری نظر دوڑائیں تو ھمیں معلوم ھوجائے گا کہ تمام ھی اقوام اور مذاھب کی رونق بخش تعلیمات ”عشق“ کی بنیاد پر ھے اور اس نکتہ سے پتہ یہ چلتا ھے کہ عشق ایک ایسی حالت ھے جس کا احساس تمام انسانوں کے یھاں پایا جاتا ھے، جو سب کے لئے قابل فھم ھے اب اگر کوئی جاپانی، چینی، ایرانی یا عرب باشندہ اپنے عشق کے بارے میں خبر دے تو پھر یہ دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ھے کہ ھم اس کے احساس کو درک نھیں کرسکتے؟ کیونکر یہ دعویٰ کیا جاسکتاھے کہ لیلا مجنون یا شیرین اور فرھاد کی داستانِ عشق ھمارے لئے قابل فھم نھیں ھے اور ھم ان داستانوں میں عشق کو صحیح طریقہ سے سمجھ نھیں سکتے؛ اور یہ بھانہ کریں کہ الفاظ کے ذریعہ احساسات منتقل نھیں ھوتے ھیں، اگر عشق جیسی حالت اور احساس تمام کھنے والوں یا سننے والوں کے لئے قابل فھم نہ ھو تو پھر ھر قوم و ملت میں عشق کے سلسلے میں اس قدر نظم ونثر کیوں موجود ھے، اور عشق کے بارے میں اس زبان کی ادبیات کیوں بھری ھوئی ھے؟
ھم بھی اس بات کو قبول کرتے ھیں کہ انسان اپنی اندرونی احساسات کو کما حقہ (ھو بھو) دوسروں کی طرف منتقل نھیں کرسکتا، لیکن قرائن و شواھد اور دوسری چیز کو دیکہ کر دوسروں کے احساسات کو سمجھا جاسکتا ھے (مثلاً) ھم اپنے اندر موجود احساس خوف کو دوسرے کی طرف منتقل نھیں کرسکتے جس سے ھمارے احساس کو سمجھ سکے؛ لیکن چونکہ خوف اور ڈر کا احساس ایک ایسی چیز ھے جو تقریباً کم و بیش سبھی کے اندر پایا جاتا ھے، لھٰذا دوسرے افراد بھی ھمارے اندر موجود خوف کا احساس کرسکتے ھیں لیکن اگر کسی کے یھاں ھماری طرح کا احساس نہ پایا جاتا ھو تو وہ قرائن اور شواھد کے ذریعہ بھی ھمارے احساس کا پتہ نھیں چلا سکتا مثال کے طور پر اگر کسی کے اندر عشق و محبت کا احساس نہ پایا جاتا ھو ، تو پھر وہ عشقی داستان سے لطف اندوز نھیں ھوسکتا، لیکن یہ بات بھی ماننا پڑے گی کہ ایسے شخص کو انسان بھی مشکل سے کھا جائے گا کیونکہ ھر شخص میں تھوڑا بھت محبت کا احساس پایا جانا ضروری ھے، اب اگر کوئی شخص اپنے اس اندرونی احساس کے بارے میں خبر دے اور وہ یہ بھی جانتا ھے کہ اس حالت میں شدت اور زیادتی کا امکان پایا جاتا ھے، تو اس کو یہ معلوم ھوجائے گا کہ جب یہ حالت اپنی سر حدّ کمال اور بھت زیادہ شدت تک پھنچتی ھے تو اسی کو ”عشق“ کھا جاتا ھے پس ایسا نھیں ھے کہ ھم اپنے اندرونی احساسات کو دوسروں تک منتقل نھیں کرسکتے، جس کے نتیجہ میں ھمارے استعمال کردہ الفاظ اپنی دلی حالت کی ترجمانی کرنے کے ناکافی اور قاصر ھوں۔
۱۰۔ قرآن کریم سے مطلق اور واقعی معرفت کا حاصل کرنا ممکن ھے
جی ھاں، ھم بھی یہ بات مانتے ھیں کہ عام طریقوں اور معمولی شناخت کے ذریعہ کُنہ حقائق (جوھر حقائق) اور ماورای طبیعت مثلاً فرشتہ کے ماھیت اور حقیقت کے بارے میں آگاھی حاصل نھیں کی جاسکتی، اور ان کے بارے میں مکمل طور پر شناخت حاصل نھیں ھوسکتی، ان کے بارے میں ھونے والی گفتگو متشابہ اور ذو معنی ھیں، اسی وجہ سے بعض آیات قرآن میں اس طرح کی موجودات کے بارے میں بیان شدہ مطالب متشابہ ھیں ان حقائق کی پھچان کے لئے مخصوص راستے موجود ھیں جو عام انسان کو معلوم نھیں ھیں اور صرف وھی حضرات ان طریقوں کو جانتے ھیں جنھوں نے مدتوں تھذیب نفس اور اخلاقی و عرفانی سیر و سلوک کا راستہ طے کیا ھے،جس کی بنا پر ان بعض موجودات کو درک کیا ھے لیکن قرآن مجید کی بعض باتوں کو نہ سمجھنا دلیل نھیں ھے کہ ھم یہ کھہ دیں کہ جو کچھ بھی قرآن مجید میں بیان ھوا ھے وہ سب اسی طرح ھے، ھم اس کو نھیں سمجھ سکتے، اور ھمارے لئے قابل فھم نھیں ھے، نیز الفاظ کے ذریعہ ھمیں حقائق کا پتہ نھیں چلتا، اور ھر انسان اپنے ذھن کے لحاظ سے ان الفاظ کے معنی و تفسیر کرسکتا ھے اگرچہ یھی ماوراء طبیعت حقائق( جیسے ملک و فرشتہ )؛ کے بارے میں مکمل معرفت حاصل نھیں ھوسکتی، اور ایک عام انسان ان کی شناخت اور اور حقیقت سے باخبر نھیں ھوسکتا، لیکن ان کے بارے میں جن صفات اور خصوصیات کا ذکر قرآن مجید میں ھوا ھے ھم ان کے ذریعہ کافی حد تک ان کی معرفت حاصل کرسکتے ھیں۔
دین اور قرآن کی زبان کو افسانوی زبان قرار دینے والوں کی ایک دلیل یہ ھے کہ قرآن مجید اور دیگر آسمانی کتابوں میں استعارات، کنایات، تشبیھات اور تمثیلات ذکر ھوئی ھے، منجملہ یہ مثال قرآن مجید میںذکر ھوئی ھے:
( وَلاَتَکُونُوا کَالَّتِی نَقَضَتْ غَزْلَھا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ اٴَنکَاثًا )(۳)
” اور خبر دار ! اس عورت کے مانند نہ ھوجاؤ جس نے اپنے دھاگہ کو مضبوط کاتنے کے بعد بعد اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا “
اگرچہ قرآن مجید میں یہ مثال بیان ھوئی ھے اور شاید اس طرح کی کوئی بُڑھیا کا وجود ھی نہ ھو۔
اسی طرح گدھے کے بارے میں ایک مثال قرآن مجید میں یہ ذکر ھوئی ھے:
( مَثَلُ الَّذِینَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوھا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اٴَسْفَارًا ) (۴)
” ان لوگوں کی مثال جن پر توریت کا بار رکھا گیا اور وہ اسے اٹھا نہ سکے اس گدھے کی مثال ھے جو کتابوں کا بوجہ اٹھائے ھوئے ھو “
کھنے والے کھتے ھیں کہ جب اس طرح کی افسانوی مثالیں قرآن مجید میں بیان ھوئی ھیں تو پھر قرآن مجید میں بیان شدہ دوسری باتیں منجملہ خدا، قیامت، وحی اور جنت و دوزخ کس طرح افسانوی نہ ھوں گی!
قارئین کرام ! اس طرح بے بنیاد اور بے ھودہ نیز الحادی باتیں مقالات کی صورت میں پورے ملک کی یونیورسٹیوں کے اسٹوڈینٹس تک پھنچائی جارھی ھیں، تاکہ ان کو یہ بات تلقین کی جائے کہ پورے کا پورا قرآن افسانہ اور کھانی ھے یھاں تک یہ گستاخی اس قدر بڑھتی جارھی ھے کہ ایک اسٹوڈینٹ نے اپنے مقالہ میںقرآن مجید میں بیان شدہ حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ سے رومانٹیک "Romantique" نتیجہ حاصل کیا اور ایک خیالی داستان کے عنوان سے لکھا، اور اس کے بعد اس پر ادبی تنقید کی اور اس پر بھت سے اعتراض و اشکال کئے، اور جب حضرت یوسف کی اس رومانٹیک داستان کو استاد کی موجودگی میں سب کے سامنے پڑھا، تو اس داستان کو سننے کے بعد استاد نے بھی بھت سے اعتراضات کئے، جس کے بعد یہ نتیجہ نکالا گیا کہ داستان یوسف کا لکھنے والا کوئی ماھر ادیب نھیں تھا جس کی بنا پر یہ داستان صحیح طریقہ پر نھیں لکھی گئی ھے!!
۱۱۔ قرآن کی زبان کو واقع نما نہ ھونے پر نسبی نظریہ رکھنے والوں کی بے بنیاد دلیل
افسوس کہ جرائد کی ”آزادیٴ بیان“ کے زیر سایہ اور یونیورسٹیوں و دیگر مراکز میں آزاد سیاسی ماحول، اسی طرح ھمارے ملک کے سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی نظام کی کمزوری، نیز انقلاب کے بعد سے تعلیم و تربیت کے عھدہ داروں کی بے توجھی خصوصاً یونیورسٹی کا موجودہ ماحول میں ؛ اسلامی اقدار کے خلاف وسیع پیمانہ پر زھریلی تبلیغات اور پروپیگنڈے ھورھے ھیں، اور نوبت یھاں تک پھنچ گئی ھے کہ عصرِ حاضر میںبعض یونیورسٹی طلباء کا سوال یہ ھے کہ جب قرآن مجید میں داستان، افسانہ اور استعارات و کنایات بیان ھوئے ھیں اور ان کے حقیقی معنی مراد نھیں ھیں اور ان کی جگہ مجازی معنی مراد لئے جاتے ھیں، تو پھر قرآن مجید کے دوسرے مطالب بھی اسی طرح کے ھونے چاھئیں؟ شاید خدا، وحی اور قیامت جیسے الفاظ سے بھی مجازی اور غیر حقیقی معنی مراد ھوں؟
جی ھاں، یہ سب معرفت کے نسبی ھونے، زبان دین کے سمبلک ھونے اور ھر منوٹیک "Hermeneutics" کے ذریعہ دینی تحریر کے معنی و تفسیر کرنے کا نتیجہ ھے جس کے ذریعہ ھمارے عظیم الشان اعتقادت اور اصول کو نقصان پھنچایاجارھاھے جو ھمیشہ ھماری ثقافت اور معاشرہ کے لئے باعث عزت ھے اور ھمارے گذشتہ اور حال کے افتخارات انھیں اسلامی اعتقادات کی وجہ سے ھیںاور تمام انبیاء اور اولیاء اللہ کی امانت کی حفاظت کرنا ھماری ذمہ داری ھے۔
یہ نسبیت گرائی اور شکاکیت کا نتیجہ ھے کہ کھنے والے کھتے ھیں کہ کسی شخص کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ اپنے نظریہ کو مطلق قرار دے، اور دین سے حاصل شدہ مختلف نتائج کو قابل احترام سمجھا جائے کیونکہ قرآن کی زبان واقع نما اور حقیقی نھیں ھے بلکہ سمبلک ھے، ھر شخص قرآنی آیات سے مستقل طور پر نتیجہ نکال سکتا ھے ھمارا کھنا تو یہ ھے کہ یہ لوگ قرآن مجید میں مثالوں، استعاروں اور داستانوں کو بھانہ بنا کر یہ دعویٰ کرتے ھیں کہ قرآن کریم اصولی طور پر حقائق اور واقعیت کو بیان کرنا نھیں چاھتا بلکہ صرف داستانوں ، افسانوں اور کنایات و استعارات کی گفتگو کو بیان کرنا چاھتا ھے ھم یھاں پر یہ سوال کرتے ھیں کہ اگر کسی کتاب یا مقالہ یا نظم میں کوئی مثال ذکر ھوئی ھو تو کیا اس کو شعر اور مَثَل کی کتاب کا نام دیا جائے گا؟ اگر کوئی مقرر اپنی تقریر کے دوران کوئی لطیفہ یا کوئی طنز بیان کرے تو کیا اس کی تمام باتوں کو مسخرہ اور طنز آمیز کھا جاسکتا ھے ؟ اگر کوئی شخص کسی موقع پر اپنی گفتگو میں مثال، شعر، استعارہ، تشبیہ، کنایہ اور مجاز جیسی چیزوں کا استعمال کرتا ھے تو اس کے معنی یہ نھیں ھے کہ اس کی تمام گفتگو شعر اور افسانہ ھے جس میں کچھ استعارات، کنایات ، تشبیھات اور مثالیں بیان ھوئی ھیں اس صورت میں پھر کسی بھی قلمکار کو یہ حق نھیں ھے کہ وہ اپنی کتابوں میں مثال ، شعر یا طنز کا استعمال کرے، ورنہ تو اس کی کتاب شعر اور طنز کی کتاب کھلائے گی اگر خداوندعالم نے قرآن مجید میں مَثَل ذکر کی ھے تو کیا خداوندعالم کے اس قول ( وَاتْلُ عَلَیْھمْ نَبَاٴَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقّ ) (۵) کو ایک افسانہ اور مَثَل قرار دیا جاسکتا ھے؟ اورکیا خداوندعالم کے اس فرمان ( وَبِالْحَقِّ اٴَنزَلْنَاہ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ) (۶)کو شعر اور افسانہ قرار دیں سکتے ھیں؟!۔
یہ لوگ ھر منوٹیک "Hermeneutics" نظریہ اور عبارت و تحریر کی تفسیر کے اعتبار پر ایک دلیل یہ ذکر کرتے ھیں کہ مسلمانوں کے یھاں ھمیشہ تفسیر اور تاویلات ھوتی رھی ھیں اور علماء و عرفاء نے تاویل اور تفسیر کے بارے میں بھت سی کتابیں بھی لکھی ھیں؛ جن سے معلوم ھوتا ھے کہ قرآن مجید کی مختلف تفاسیر اور مختلف تاویلات ھوسکتی ھیں جس طرح عرفاء اور علماء نے قرآن مجید کی تاویلات اور تفاسیر ذکر کی ھیں اسی طرح ھمیں بھی قرآن مجید کی جدید تفسیر کرنے کا حق حاصل ھے، اگرچہ ھماری بیان کردہ تفسیر علماء کی تفسیر سے بالکل مخالف ھو جیسا کہ بعض روایات میں قرآن مجید کی تفسیر؛ قرآن کے ظاھری الفاظ سے بالکل مختلف ھے، لھٰذا قرآن مجید میں مختلف تفاسیر کا ھونا اس بات کی دلیل ھے کہ قرآن مجید کی مختلف تفاسیر اور تاویلات کی جاسکتی ھیں؛ لھٰذا ھم بھی یہ کام کرسکتے ھیں اور چونکہ ان کے درمیان فرق نھیںکیا جاسکتا کہ ان میں سے کون سے تفسیر صحیح ھے اور کون سی غلط؛ لھٰذا ان سب کو معتبر ماننا چاھئے!
قارئین کرام ! یہ بات صحیح ھے کہ قرآن مجید میں متشابہ آیات پائی جاتی ھیں جس کی تفسیر آیات محکمات کے لحاظ سے ھونا چاھئے، اور روایات میں بھی بیان ھوا ھے کہ قرآن مجید میں بھت سارے باطن اور مختلف پردہ ھیں، لیکن قرآن مجید کی کسی بھی آیت میں یہ بیان نھیں ھوا کہ ظاھر آیات اور کلمات و الفاظ حجیت نھیں ھیں، اور ھم پر حقائق کو آشکار نھیں ھوتے۔
قارئین کرام ! آیات کے ظاھری اعتبار کے علاوہ قرآن مجید میں اور بھی مزید دقیق اور گھرے مطالب موجود ھیں جن کو بطون اور تاویل آیات کھا جاتا ھے، اور اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اصلاً قرآنی ظواھر معتبر نھیں ھیں، اور صرف ان سے حاصل کردہ ھمارا نتیجہ معتبر ھے اور وہ بھی وہ تاویلات جو تاویل کرنے والے کے ذھن کے مطابق اور اس کے ذھن کی پیداوار ھوں اس طرح دینی سلسلہ میں مختلف اور متضاد قرائت پیش کی ھو رھی ھیں اور ھم سے یہ کھا جاتا ھے کہ ان سب کو قابل احترام مانیں!!
۱۲۔ تحریف دین کے سلسلہ میں حضرت علی علیہ السلام کا اظھار افسوس
قارئین کرام ! ھم اپنی گفتگو کے آخر میں لازم اور ضروری سمجھتے ھیںکہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے ان نورانی کلمات کی طرف اشارہ کریں جس میں آپ نے رسول اکرم (ص) کی وفات کے بعد پیدا ھونے والے دینی انحرافات اور شبھات کو بیان کیا ھے اورجن کی بنا پر افسوس ناک اور بُرے نتائج بر آمد ھوئے ھیں جیسا کہ ھم سب جانتے ھیں کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت رسول اکرم (ص) کی وفات کے ۲۵/ سال کے بعد قائم ھوئی ھے، اس وقت تک وہ اصحاب رسول موجود تھے جنھوں نے خود رسول اکرم (ص) کی زبان مبارک سے آیات قرآن کی تفسیر اور شان نزول کو سنا تھا اور پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ھونے والی آیات کے موقع کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا؛ کیونکہ اس وقت قرآن کے نزول کو زیادہ وقت نھیں گذرا تھا لیکن وہ منافقین اور دشمنان اسلام موجود تھے جو اھل بیت علیھم السلام کے بے انتھا دریائے معرفت سے بے بھرہ تھے، اور جاہ وحشم کے دلدادہ اور ھوا پرست دین میں شبھات اور تحریفات ایجاد کررھے تھے جس کی وجہ سے اسلام میں انحرافات پیدا ھوگئے، جس کا نتیجہ یہ ھوا کہ مسلمانوں کے درمیان برادر کُشی ھونے لگی چنانچہ اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:
” وَ لٰکِنَّا إِنَّمَا اٴَصْبَحْنَا نُقَاتِلُ إِخْوَانَنَا فِی الإِسْلاٰمِ عَلٰی مَا دَخَلَ فِیْہ مِنَ الزَّیْغِ وَ الْإِعْوِجَاجِ وَالشُّبْھةِ وَالتَّاوِیْلِ “ (۷)
( مگر اب ھم کو ان لوگوں سے جو اسلام کی رُو سے ھمارے بھائی کھلاتے ھیں ان سے جنگ کرناپڑ گئی ھے، چونکہ (ان کی وجہ سے) اس میں گمراھی، کجی، شبھات اور غلط سلط تاویلات داخل ھوگئے ھیں )
یھی وہ شبھات اور اعتراضات ھیں جو عصر حاضر میں علمی طریقہ سے بیان کئے جاتے ھیں اور منظم طور پر بیان ھوتے ھیں، حضرت علی علیہ السلام کے زمانہ میں انھیں اعتراضات کی وجہ سے مسلمانوں میں مقابلہ بازی شروع ھوگئی ، اور اسی طرح کے شبھات اور اعتراضات کو قبول کرتے ھوئے جنگ جمل اور جنگ نھروان میں حقیقی مفسر قرآن حضرت علی علیہ السلام کے مقابلہ میں آگئے جس کی بنا پر بھت سے لوگ قتل کردئے گئے۔
حضرت علی علیہ السلام خداوندعالم کی بارگاہ میں عوام الناس کی جھالت کی شکایت کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
” إِلَی اللّٰہ اَشکُوا ِمنْ مَعْشَرٍ یُعِیْشُوْنَ جُھالًا وَ یَمُوْتُوْنَ ضَلاٰلًا، لَیْسَ فِیْھمْ سِلْعَةٌ اٴَبْوَرُ مِنِ الْکِتَابِ إِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلاٰوَتِہ، وَلاٰ سُلْعَةٌ اٴَنْفَقُ بَیْعاً وَلاٰ اٴَغْلیٰ ثَمَناً مِنَ الْکِتَابِ إِذَا حُرِّفَ عَنْ مَوَاضِعِہ وَ لٰا عِنْدَھمْ اٴَنْکَرُ مِنَ الْمَعْرُوْفِ وَلاٰ اٴَعْرَفُ مِنَ الْمُنْکَرِ “ (۸)
( اللہ ھی سے شکوہ ھے ان لوگوںکا جو جھالت میں جیتے ھیں اور گمراھی میں مرجاتے ھیں، ان میں قرآن سے زیادہ کو ئی بے قیمت چیز نھیں ھے، جب کہ اسے اس طرح پیش کیا جائے جیسا پیش کرنے کا حق ھے، اور اس قرآن سے زیادہ کوئی مقبول اور قیمتی چیز نھیں، اس وقت جب کہ اس کی آیتوں کا بے محل استعمال کیا جائے، ان کے نزدیک نیکی سے بڑہ کر کوئی برائی نھیں اور بُرائی سے زیادہ کوئی نیکی نھیں۔)
قارئین کرام ! توجہ فرمائیں حضرت امیر علیہ السلام کا یہ شکوہ و شکایت اس وقت کا ھے جب رحلت پیغمبر اکرم (ص) کو ۲۵/ سال کا عرصہ بھی نہ گذرا تھا، لیکن انحرفات ، شبھات اور بدعت دین کے لئے اس قدر نقصان دہ ثابت ھورھے تھے کہ حضرت نے تنھائی کے عالم میں لوگوں کی ھدایت کے مسئلہ کو ان کے حال پر چھوڑتے ھوئے بارگاہ رب العزت میں اپنے ھاتہ آسمان کی طرف بلند کردئے اور اپنے درد و غم کو بیان کرنا شروع کردیا۔
مذکورہ بالا کلام کی طرح خطبہ نمبر ۱۴۵/ میں بھی حضرت فرماتے ھیں:
” وَ إِنَّہ سَیَاتِی عَلَیْکُمْ مِنْ بَعْدِیْ زَمَانٌ لَیْسَ فِیْہ شَیْءٌ اَخْفٰی مِنَ الْحَقِّ، وَ لٰا اٴَظْھرُ مِنَ الْبَاطِلِ، وَ لاٰ اٴَکْثَرُمِنَ الْکِذْبِ عَلَی اللهِ وَ رَسُوْلِہ، وَ لَیْسَ عِنْدَ اٴَھلِ ذٰلِکَ الزَّمَانُ سِلْعَةٌ اٴَبْوَرَ مِنِ الْکِتَابِ إِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلاٰوَتِہ، وَلاٰ اٴَنْفَق إِذَاحُرِّفَ عَنْ مَوَاضِعِہ وَ لٰا فِی الْبِلاٰدِ شَیْءٌ اٴَنْکَرَ مِنَ الْمَعْرُوْفِ وَلاٰ اٴَعْرَفَ مِنَ الْمُنْکَرِ “
(میرے بعد تم پر ایک ایسا دور آنے والا ھے جس میں حق بھت پوشیدہ اور باطل بھت نمایاں ھوگا، اور اللہ اور اس کے رسول پر افتراء پردازی کا زور ھوگا، اس زمانہ والوں کے نزدیک قرآن سے زیادہ کوئی بے قیمت چیز نہ ھوگی جبکہ اسے اس طرح پیش کیا جائے جیسے پیش کرنے کاحق ھے، اور اس قرآن سے زیادہ ان میں کوئی مقبول اور قیمتی چیز نھیں ھوگی جب کہ اس کی آیتوں کا بے محل استعمال کیا جائے، اور (ان کے) شھروں میں نیکی سے زیادہ کوئی برائی اور برائی سے زیادہ کوئی نیکی نہ ھوگی۔ )
اس کے بعد مزید فرماتے ھیں:
”چنانچہ حاملان قرآن کو چھوڑ دیا جائے گا اور حافظین قرآن کو بھلادیا جائے گا، قرآن اور قرآن والے (اھل بیت ) بے گھر اور بے در ھوں گے، اور ایک ھی راہ میں ایک دوسرے ساتھی ھوں گے، انھیں کوئی پناہ دینے والا نہ ھوگا وہ (بظاھر) لوگوں میں ھوں گے مگر ان سے الگ تھلگ ، ان کے ساتھ ھوں گے مگر بے تعلق، اس لئے کہ گمراھی ھدایت سے سازگار نھیں ھوسکتی، اگرچہ وہ یک جا ھوں لوگوں نے تفرقہ پردازی پر تو اتفاق کرلیا ھے اور جماعت سے کٹ گئے ھیں گویا کہ وہ کتاب کے پیشوا ھیں کتاب ان کی پیشوا نھیں ، ان کے پاس تو صرف قرآن کا نام رہ گیا ھے اور صرف اس کے خطوط او رنقوش کو پھچان سکتے ھیں، اس آنے والے دور سے پھلے وہ نیک بندوں کو طرح طرح کی اذیتیں پھنچا چکے ھوں گے، اور اللہ کے متعلق ان کی سچی باتوں کا نام بھی بھتان رکہ دیا ھوگا اور نیکیوں کے بدلہ میں انھیں بُری سزائیں دی ھوں گی۔“
نیز فرماتے ھیں:
” وَ اْعَلَمُوْا اٴَنَّکُمْ لَنْ تَعْرِفُوْا الرُّشْدَ حَتّٰی تَعْرِفُوْا الَّذِیْ تَرَکَہ وَ لَنْ تَاخُذُوْا بِمِیْثَاقِ الْکِتَابِ حَتّٰی تَعْرِفُوْا الَّذِیْ نَقَضَہ وَ لَنْ تَمَسَّکُوْا بِہ حَتّٰی تَعْرِفُوْا الَّذِیْ نَبَذَہ “
( جان لو کہ تم ھدایت کو اس وقت تک نہ پھچان سکو گے جب تک اس کے چھوڑنے والوں کو نہ پھچان لو اور قرآن کے عھد و پیمان کے پابند نہ رہ سکو گے جب تک کہ اس کے توڑنے والے کو نہ جان لو اور اس سے وابستہ نھیں رہ سکتے جب تک کہ اسے دور پھینکنے والوں کی شناخت نہ کرلو )
اور خطبہ کے آخر میں ارشاد فرماتے ھیں:
” پس انھیں سے ھدایت حاصل کرو، وھی علم کی زندگی اور جھالت کی موت ھیں وہ ایسے لوگ ھیں کہ ان کا (دیا ھوا) ھر حکم ان کے علم اوران کی خاموشی ان کی گویائی کا پتہ دے گی، اور ان کا ظاھر ان کے باطن کا آئینہ دار ھے، وہ نہ دین کی مخالفت کرتے ھیں نہ اس کے بارے میں باھم اختلاف رکھتے ھیں، دین ان کے سامنے ایک سچا گواہ ھے اور ایک ایسا بے زبان ھے جو بول رھا ھے۔“(۹)
قارئین کرام ! آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام لوگوں کو متوجہ کرنے کے بعد ان سے چاھتے یہ ھیں کہ دین کو صرف اھل بیت (علیھم السلام) کے ذریعہ حاصل کریں کیونکہ دین اور قرآن سے انھیں کا حاصل کردہ نتیجہ صحیح اور بر حق ھے، اور دین سے دوسرے حاصل کردہ نتائج باطل اور بے بنیاد اور راہ خدا کو حاصل کرنے والوں اور حق و حقیقت کے تلاش کرنے والوں کے چور ھیں، جس کا نتیجہ گمراھی اور ذلت کے علاوہ کچھ نھیں ھوگا۔
توجہ فرمائیں کہ حضرت علی علیہ السلام کے نظریہ کے مطابق یہ بات قابل قبول نھیں ھے کہ ھر کس و ناکس دین سے ایک الگ نتیجہ حاصل کرلے اور اس طرح کے تمام حاصل شدہ نتائج صحیح اور درست ھوں، کیونکہ یہ اپنے سلیقہ اور ذوق کے مطابق ھے کیا دین کے سلسلہ میں ذوق کا بھی کوئی دخل ھے؟ کیا دینی مسائل میں بھی ذوق دکھایا جاسکتا ھے؟ (ھرگز نھیں)
تو پھر دین کی صحیح تفسیر اھل بیت علیھم السلام سے حاصل کرنا چاھئے ، نہ یہ کہ اپنے سلیقہ اور ذوق کی بنا پر خود بھی گمراہ ھورھے ھوںاور دوسروں کو دین سے گمراہ کردیں۔
۱۳۔ دینی سلسلہ میں ذاتی سلیقہ کو ردّ کیا جائے
بعض لوگ ھم سے کھتے ھیں کہ اپنے سلیقہ اور ذوق کو دوسروں پر نہ تھونپئے، تو کیا دین ذوق اور سلیقہ کا نام ھے، اور اس کی حد و حدود اور اس کے معنی و تفسیر انسان کے سلیقہ سے معین ھوتے ھیں؟ سلیقہ اور ذوق انسان کی عام زندگی سے متعلق ھوتا ھے؛ مثال کے طور پر کوئی شخص کوئی کپڑا یا دوسری چیز خریدنا چاھتا ھے تو اس موقع پر کسی دوسرے شخص پر اپنا سلیقہ تحمیل کرنا صحیح نھیں ھے لیکن اعتقادات میں سلیقہ اور ذوق کا کوئی سرو کار نھیں ھے، مثلاً کوئی شخص یہ کھے کہ میرا سلیقہ یہ کھتا ھے کہ خدا ایک ھے، اور( نعوذ باللھ) دوسرا شخص کھے کہ میرا سلیقہ یہ ھے کہ کئی خدا ھیں، کیونکہ شریعت اور احکام الٰھی عوام الناس کے ذوق کے تحت نھیں ھیں تاکہ کھنے والے کھیں کہ دوسروں کے سلیقوں کو بھی برداشت کریں ، نیز دوسروں کے سلیقوں کو ردّ نہ کریں پس اعتقادی مسائل، ضروریات اسلام، احکام اسلام، عقائد اور الٰھی اقدار کسی کے سلیقہ کے تحت نھیں ھیں، او ران کے سامنے ذوق و سلیقہ کو بالائے طاق رکہ دیا جائے۔
خلاصہ یہ ھے اپنے نظریہ کو مطلق نہ قرار دینے کے شعار فقط دین کے فرعی اور ظنی مسائل میں صحیح ھے اور ان میں بھی ان حضرات کا نظریہ قابل قبول ھے جو دینی و فقھی مسائل میں اپنے عظیم الشان علم اور صحیح طریقہ سے مکمل طور پر اجتھاد کریں اور قرآن و سنت کے ذریعہ اپنے نظریہ کو استنباط کریں اور اسی کے مطابق فتویٰ دیں اور جو شخص اس طرح کی صلاحیت کا مالک ھوتا ھے اس کو اصطلاحاً ”فقیھ“ کھا جاتا ھے ، چنانچہ اسی موقع پر کھا جاتا ھے کہ ایک فقیہ اپنی رائے کو دوسرے فقیہ پر تحمیل کرنے کا حق نھیں رکھتا یہ مسلم ھے کہ دو فقھاء کے درمیان فتووں میں اختلاف ھوتا ھے لیکن ان میں سے کوئی بھی فقیہ یہ نھیں چاھتا کہ اپنے نظریہ کو دوسرے فقیہ پر تحمیل کرے لیکن عقائد، اصول اور اسلام کے قطعیات میں انسان کا کوئی سلیقہ اور ذوق قابل قبول نھیں ھے کیونکہ دینی عقائد میں صرف وھی چیز صحیح ھے جس کو چودہ سو سال پھلے پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کے بعد ائمہ معصومین علیھم السلام نے بیان فرمایا ھے، اور تمام علماء اور فقھاء کا اس بات پر اتفاق ھے، کیونکہ اسلامی مسلمات کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی قرائت کے علاوہ دوسری تمام قرائت باطل اور بے بنیاد ھیں، اور کسی بھی صورت میں قابل قبول نھیں ھے کہ کوئی آگے بڑہ کر یہ کھے میں بھی دین سے ایک نئی قرائت پیش کرتا ھو ں، در حقیقت اس طرح کا نظریہ دین میں بدعت گذاری کا واضح مصداق ھے جس سے مقابلہ کرنا حقیقی علماء اسلام کا فریضہ ھے، تاکہ وہ خداوندعالم ، اس کے فرشتوں اور نیک بندوں کی لعنت و نفرین کے مستحق قرار نہ پائیں۔
والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ۔
والحمد للہ رب العالمین
تمت بالخیر
۱۲۰۰۱۵
حوالے:
(۱)سورہ مائدہ آیت۲۷
(۲) سورہ مائدہ آیت۳۱
(۳) سورہ نحل آیت ۹۲
(۴) سورہ جمعہ آیت ۵
)۵( سورہ مائدہ آیت ۲۷ ترجمہ : ” اور اے پیغمبر ! آپ ان کو آدم کے دونوں فرزندوں کا سچا قصہ پڑہ کر سنائیے “
(۶) سورہ اسراء (بنی اسرائیل) آیت ۱۰۵ ترجمہ : ھم نے قرآن کو حق کے ساتھ نازل کیا ھے اور یہ حق ھی کے ساتھ نازل ھوا ھے “
(۷) نھج البلاغہ خطبہ نمبر ۱۲۲
(۸) نھج البلاغہ خطبہ نمبر ۱۷
(۹)نھج البلاغہ ترجمہ مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ، خطبہ نمبر۱۴۵
|