اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار
 

ایک عظیم سازش کے نتائج اور اثرات
ان تمام کدّ و کاوش اور زحمتوں کی اصلی وجہ صرف ایک قضیہ ہے اور وہ یہ کہ ثقافتی اور مذہبی ارتباطی پلوں کا توڑنا اور ان کامنہدم کرنا، جو امت مسلمہ کی نسلوں کو آپس میں اور ان سبھی لوگوں کو دین کے ابتدائی سرچشموں سے جوڑتا ہے۔
یہ وہ پل ہیں جو مذہبی اور ثقافتی میراث کو اخلاق اور افکار کے قالب میں ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرتے ہیں اور اگر یہ پل منقطع اور منہدم ہو جائیں تو ان نسلوں کے درمیان اخلاقی و فکری، مذہبی و ثقافتی رشتے اور تعلقات باقی نہیں رہ جائیں گے۔
مغربی تہذیب کی دعوت دینے والے اور اسلامی تہذیب و ثقافت پر حملہ کرنے والے لوگ، یکے بعد دیگرے انسلوں کو آپس میں جوڑنے والے پلوں کو برباد کرنے کے لئے نشانہ سادھا ہے اور ان کو بالکل سے ختم اور منہدم کر دیا ہے یا پھر ان کو پوری طرح اپنے قبضہ میں لے لیا ہے اور اس پر تسلط جما لیا ہے:
عربی رسم الخط کو اپنے حملہ کا نشانہ بنایا، یہ لوگ لگاتار اس بات کی کوششوں میں مشغول ہوگئے تاکہ عربی رسم الخط کو لاتینی رسم الخط میں تبدیل کردیں۔ اس کے بعد اپنے حملہ کا رخ فصیح زبان کی طرف موڑ دیا اور بہت سارے اقدام کے ذریعہ اس بات کی کوشش کی فصیح عربی زبان کی جگہ عربی زبان کے مختلف عامیانہ لہجوں کو بروئے کار لائیں۔ (اور جب اس میدان میں بھی مخفیانہ حملہ کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑی تو) اس کے بعد اپنی توجہات کا مرکز اسکول اور کالجوں اور اعلیٰ تعلیم گاہوں کو بنالیا اور ان پرتسلط حاصل کرنے کے لئے تعلیمی طور طریقوں اور ان میں، اساتذہ کی تقرری اور ان کی فراہمی اور ان کی درسی کتابوں کے ا نتخاب اور نصاب میں اپنے منشا کے مطابق تبدیلی کی تمام کوششیں کر ڈالیں۔ اس کے بعد مسجدوں دینی مدارس اور اعلیٰ اسلامی تعلیم گاہوں (Islamic Universities) پر تسلط حاصل کرنے کی غرض سے بہت سے اقدامات کر ڈالے اور اپنی مختلف چالوں اور حیلوں کو بروئے کارلائے اور نوبت یہاں تک پہونچ گئی کہ ''شیخ الازہر'' کا انتخاب بھی (یعنی شیخ الاسلام ایسا عہدہ ہے جو دینی اعتبار سے خاص عظمت اور اہمیت کا حامل ہے) یہ بھی صدر جمہوریہ کے دستور کے مطابق منصوب ہونے لگا۔(١)
یہاں تک کہ شیخ الازہر کا گھر اور ان کے گھر والے بھی اس طوفان کی لپیٹ سے نہ بچ سکے اور اس بات کی انتھک کوشش میں مشغول ہوگئے کہ آزادی بنام آوارگی اور بے بندوباری اور لاابالی گری کو رواج دیں اور ایک نسل سے دوسری نسل میں ان کے مقدسات اور مذہبی وراثتوں اور تاریخی حقائق کو ان تک منتقل ہونے سے روک دیں۔
اور اسی طرح یہ حملہ کرنے والے اسلام و مسلمین کو مغربی تمدن کے قدموں میں
ڈال دینے والوں یعنی در حقیقت اسلام و مسلمین کے جانی دشمنوں نے بہت کوشش کر ڈالی کہ نسلوں میں اسلامی وراثتوں، مذہبی تہذیبوں، نیز تابناک ماضی کی تاریخ سے اُن کو بالکل دور کر دیں اور ایک ایسے معیار پر ان کی تربیت کریں جو ان کی تمام مذہبی اور ثقافتی بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ (نسل نو کو اس سے دور کردے، اس طرح سے کہ وہ لوگ دوبارہ کبھی اس کی طرف مائل نہ ہوں اور اس طرح سے نسلوں کے باہمی روابط بالکل ختم ہوجائیں۔مترجم ..............
(١) ١٩٦١ء میں پاس ہونے والے بل اور قوانین کی دفعہ ١٠٣ کے ٥ویں اور ٧ویں شق کے بموجب طے پاگیاہے کہ الازہر کی انتظامیہ کو منظم کرنے کے لئے ایسا کیا گیاہے۔

جاہلی تہذیب و تمدن کو خرابات سے باہر لانا
ان تمام امور کا اصلی سبب، تہذیب کہنہ اور نو کے درمیان کا اختلاف ہرگز نہیں ہے، جیسا کہ جدت پسندی اور مغرب مآبی کی دعوت دینے والے یہ چاہتے ہیں کہ ان مسائل کی ایسی ہی تفسیر کریں، بلکہ ان کی تمام کدّ و کاوش اور اس کی کار کردگی کا اصلی راز، خاص طور سے اس نسل کو اسلام و دین سے روکنے کی طرف ہی پلٹتا ہے؛ مجموعی طور سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ''تہذیب کہنہ اور نو'' کا یہاں پر یکسر کوئی تصور بھی نہیں ہے بلکہ اُن کا اصلی مقصد دین اسلام سے مقابلہ کرنا اور اس کو نیست و نابود کردینا ہے۔
اس دعوت (قدامت پسندی اور جدت پسندی میں کوئی جنگ اور اختلاف بھی نہیں ہے) کی دلیل یہ ہے کہ خود جدت پسندی اور تہذیب نو کی دعوت دینے والے لوگ مذہبی اور ثقافتی پلوں کو ایک خاص طرز کے ذریعہ نسل نو کو قدیم جاہلی تہذیبوں سے تال میل کے لئے مصر، عراق، ایران، ترکی، شام اور اسلامی دنیا کے دوسرے ممالک میں (دین بزرگ اسلام سے بے توجہی کرتے ہوئے اس) پروگرام بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا سارا اختلاف اور بنائے مخاصمت نسل نو کو دین مبین اسلام سے دور رکھنا ہے، جس کو وہ لوگ بیخ و بُن سے اُکھاڑ دینا چاہتے ہیں۔
اگر جدت پسندی اور فکر نو کو رواج دینے کے دعوے داروں کے ساتھ، مغرب مآبی اور جدت پسندی ہی کے دعوے دار مصر میں فرعونی ثقافت، ایران میں سامانی ثقافت، عراق میں بابلی ثقافت، ترکی میں بربری ثقافت اور دوسری بہت سی ثقافتوں کے احیا اور اس کے رواج دینے کے حامی اور اس پر مصر بھی ہیں۔... کیا ہمارے پاس ایسے حالات فراہم نہیں تھے؟ کہ ہم لوگ یہ سمجھ سکیں کہ فطری طو ر پر یہ اختلاف قدیم و جدید ثقافت کے درمیان ہے یا چپقلش اور اختلاف کی بنیاد کوئی اور چیز ہے؟ جس کے ارد گرد تمام اختلافات چکر کاٹ رہے ہیں۔
اس زمانہ میں ہم بالوضوح یہ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ جدت پسندی کی دعوت دینے والے بڑی ہی جلد بازی کرکے اس بات کے درپے ہیں کہ تمام حالات اور وسائل سے استفادہ کرکے فرعونی، ہِخامَنشی، ساسانی، بابلی اور بربریت کے دور قدیم کی جاہلی ثقافتوں تہذیبوں اور تمدنوں کوا مت مسلمہ کی زندگی اور تمام ادبی حلقوں میں، شعر و نثر سے لیکر مجسمہ سازی، قصہ گوئی، تھیٹر، سینما، مطبوعات، تعلیمی اور درسی کتابیں، پوشاک اور معماری کے ہنر میں قدیم جاہلی تہذیبوں کا جلوہ دیکھنے کو ملتا ہے، اسی طرح چوراہوں، میدانوں، سڑکوں، محلہ جات اور پارک وغیرہ کے نام رکھنے میں قدیم جاہلی تہذیب و ثقافت کو از سر نو زندہ کر رہے ہیں۔

قدیم جاہلی ثقافتوں کے احیا میں ''فولکلور''(١) کا کردار
قدیم جاہلی تمدن کے احیا کرنے کے مختلف وسائل میں سے ایک وسیلہ ''فولکلور'' ہے، جس سے اُن (قدیم جاہلی تمدن) کے احیا میں استفادہ کیا جاتا ہے۔ واقعاً ''فولکلور'' اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس کے احیا، نشر اور توسعہ دینے، باہمی روابط پیدا کرنے، عقائد، آئین اور آداب کو بیان کرنے، افسانوں اور قدیم جاہلی خرافات حتی ناچ گانے لباس اور اس کے پہننے کے طور طریقے مقامی گیت اور وہ گانے جو قدیم جاہل امتوں میں دس صدیوں کے درمیان رائج اور حاکم تھے۔ زمانہ نے اس کو اور اس کے کردار کو طاق نسیاں کے حوالہ کر دیا تھا(٢) اور ایسا کیونکر ہے؟
(صدحیف) اس زمانہ میں ''فولکلور'' کے بارے میں مطالعات اور تحقیق و جستجو، جانچ پڑتال اور چھان بین ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ ہنر، عقائد و آداب اور عوامی رسم و رواج نے اس طرح اپنے ہاتھ پیر پھیلا لئے ہیں کہ لوگ اس کے سبب دیوانگی اور بے حیائی پر اتر آئے
..............
(١)''فولکلور'' تودہ شناسی،یعنی مختلف النوع اور بہت سی معلومات کا خزانہ اور یہ ایک ایسے مجموعہ کا نام ہے، جس میں عقائد، افسانہ اور کہانی، آداب اور رسم و رواج، دیہاتی ترانے، گیت وغیرہ ... پائی جاتی ہیں۔
(٢)مؤلف محترم نے ان چیزوں میں اکل و شرب کو بھی درج کیا ہے۔
ہیں، جن کی وجہ سے دل و دماغ میں بہت زیادہ تشویش ہوگئی ہے۔ اس صدی (قرن) میں ذہن و دماغ کی پر یشانی اور آزار کا اصلی سبب صرف یہی بتایا ہے۔
ہمارے ممالک کے ذمہ دار لوگ (عربی سرزمین کے حکّام مراد ہیں) فراعنہ اور شاہدان جاہلیت کے چہروں کو آشکارا طور پر مسلمانوں کے معاشرہ میں قابل توجہ رونق دیکھنے کو ملتی ہے، میدانوں، سڑکوں، ہوٹلوں، قمارخانے اور دوسرے ثقافتی مراکز، سینیما، پیٹرول پمپ یہاں تک کہ تعمیر گاہوں میں انکی تصاویر لگانے میں اپنے اشتیاق و خوش بختی کا اظہار کرتے ہیں۔ جہاں تک سڑکوں کے نام کی بات ہو بطور مثال ''امسیس اور کورش'' کے نام میں ہوٹلوں کو ضرور مشاہدہ کیا ہوگا ''حمورابی سگریٹ'' اور انھیں کے ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو ظاہراً بہت ہی معمولی لگتی ہیں؛ حالانکہ ''ابوذر سلمان فارسی صھیب رومی عمار یاسر مصعب ابن عمیر'' اور انھیں کے ایسے بہت سے اسلامی نام موجود ہیں، ہمارے معاشرہ میں جن کی طرف کوئی توجہ بھی نہیں کی جاتی ہے، اور اس کے مقابلہ میں قدیمی جاہلی ثقافت کے احیا پر اتنا زور دیا جاتا ہے۔
''گِب'' (Gibb) نے اپنی کتاب ''وجھة الاسلام،، میں لکھا ہے: عالم اسلام میں مغرب نوازی کا سب سے اہم مظہر قدیم جاہلی تمدن کے احیا اور اس کے اہتمام و انتظام میں ہے۔ اس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے؛ جن کو مختلف اسلامی ممالک میں بھی بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ اب بھی وہ تمام آثار قدیمہ مسلمانان عالم کے اختیار اور ان کی دیکھ ریکھ میں ہیں۔ اگر آپ اس اہتمام اور انتظام کو بطور محسوس دیکھنا چاہیں تو مثال کے طور پر ترکی، مصر، عراق، انڈونیشیا اور (ماقبل انقلاب اسلامی) ایران میں ان سب چیزوں کا بآسانی مشاہدہ کرسکتے ہیں۔''
مغربی حملہ آوروں نے جن اسلحوں سے فائدہ اٹھایا ہے اُن میں سے ایک جاہلی تمدن کو ملبوں کے نیچے دبے ہوئے اور زمین کی پرتوں کے اندر سے باہر نکالنا ہے جس سے امت مسلمہ کی زندگی میں دوبارہ پیش کیا جاتا ہے اور ان خرافات کو ''آثار قدیمہ'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

جاہلی تمدن کے احیا میں آثار قدیمہ کا کردار
مغرب نوازی اور جدت پسندی کے دعوے دار لوگ عالمی سامراج اور استعمار گروں کی توجہات کو غیر معمولی طور پر آثار قدیمہ کی مختلف اشیا اور مسائل کی طرف مبذول کرائی ہے۔ ہمارے ممالک میں بین الاقوامی ہیئتوں اور یونسکو کے ساتھ تعاون کے ذریعہ عجائب گھروں اور چڑیا گھروں کے قیام میں کثیر مال خرچ کیا جارہا ہے، دور جاہلیت کے آثار قدیمہ کے احیا کو اپنے ملبوسات اور پہناوے کے نئے نئے رسم و رواج اور جدید فیشن کی صورت میں ہم نے جاہلی تمدن کو پھر سے زندہ کرلیا ہے۔
''فولکلور ''کی طرف ہماری جی توڑ توجہ، قلبی لگاؤ، قدیمی ہنر اور قدیم جاہلی خرافی عقائد کا احیا، ہماری زندگی میں پوری طرح غیر فطری اور پر اسرار و مرموز لگتا ہے۔ اسی طرح مبالغہ کی حدتک آثار قدیمہ کی حفاظت کا اہتمام اور اس قدر اس کا انتظام و انصرام (اس تعجب خیز اور افراطی رویہ کے ساتھ) ان (قدیمی آثار) کو اکٹھا کرنے کے لئے اتنے کثیر مال و دولت کا صرف کرنا، اس کرّوفر کے ساتھ اسکے اقدار کی حفاظت اور اس طرح سے ان کا پیش کرنا، یہ سب کچھ غیر فطری اور مشکوک نظر آتا ہے۔ ہم جب ان کار روائیوں کی تہہ میں جاکر دیکھتے اور بغور ملاحظہ کرتے ہیں تو اُن کی جڑوں میںیہودیت اور صلیبیت کے تانے بانے بخوبی نظر آتے ہیں۔
محمد غزال کہتا ہے: اس دعوت کو تجسس اور تحقیق، آثار قدیمہ کی شناخت اور باقی رہنے والی تبلیغ کی دعوت کے ذریعہ آثار قدیمہ کی تحقیق و جستجو میں ہمراہی اور ان کو تلاش کیا ہے۔ جیسا کہ دنیا کو ''توت آنخ آمون''(١) کی کشف قبر کی تبلیغ، جس کو ''لارڈ کارنفون'' نے انجام دیا، مشہور کروڑپتی ''راکفلّر'' نے دسیوں ملین ڈالر بغیر کسی عوض کے خرچ کردیئے اور ان کو مردہ عجائب گھر میں فرعونی آثار کی حفاظت کے لئے لگا دیئے، جس نے آثار قدیمہ سے متعلق ایک تعلیم گاہ (کالج) کی بنیاد بھی ڈالی۔ جیسا کہ معروف ہے کہ ''راکفلّر'' یہودی الاصل، بلکہ شدت پسند یہودی تھا، اس کا اتنی زیادہ رقم خرچ کردینا نیز بے دریغ سخاوت کا مظاہرہ کرنا اس بنا پر ہے کہ اس میں صیہونیت کے زبردست اور متعدد مفاد وابستہ اور پوشیدہ تھے۔(٢)
..............
(١)فرعونی سلسلہ کا ١٨واں (١٣٥٠۔ ١٣٤٢ قبل مسیح) اس نے شہر ''بتس'' آمون (Ammon) کی پرستش کو لازم قرار دیا تھا، اس کا مقبرہ جس میں بہت سی گرانقدر اور قیمتی اشیا موجود تھیں، جن کو ١٩٢٢ء میںکشف کیا گیا۔ (مترجم فارسی)
(٢)حقیقة القومیة العربیة، محمد غزال، ص٢٠٥۔اسلام نے آثار قدیمہ پر کافی توجہ مبذول کرائی ہے اور اس کا حامی بھی رہا ہے۔ لیکن یہ توجہ قدیمی جاہلی تمدن پر فخرومبا ہات کے لئے نہیںبلکہ اس سے درس عبرت حاصل کر نے، غرور دنیا اور اس کے فریب سے بچنے کیلئے ہے۔
عراق میں، عراقی حکومت نے ١٩٩١ء میں ''بابل اور آشور'' جیسی قدیم جاہلی ثقافتوں کے احیا کے لئے بہت بڑا اجتماع برپا کیا، جس میں ملک اور بیرون ملک سے بہت سے آثار قدیمہ کے ماہرین کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ شہر موصل میں ''آشور'' اور حلہ میں''بابل'' کے آثار کی تجدید بنا کا نقشہ بنا کر اس کا لائحہ پیش کرکے فورا ًتعمیر نو اور مرمت کا کام شروع کردیا گیا۔ صرف بابل کی مرمت کے لئے بارہ ملین ڈالر کا تخمینہ لگاکر اس کا بجٹ پاس کیا گیا، جس کو عراقی حکومت نے خود ہی ادا کیا؛ اسی وجہ سے عراقی حکومت نے شہروں کے نام تک بدل دیئے اور قدیمی جاہلیت کے نام پر ان شہروں کے نام رکھ دیئے، جیسا کہ موصل کا نام ''نینویٰ'' اور شہر ''حلّہ'' کا نام بابل رکھ دیا اور پرانی تاریخ کے منوں ملبے سے کھینچ کر باہر لے آئے؛ اسے پھر سے زندہ کر دیا۔
ایران میں، شاہ ایران نے لوگوں کی توجہ دین محمدی سے ہٹانے نیز اسلام سے لوگوں کے تعلق کو ختم کرنے کے لئے، ان کو زرتشتی گری، ہِخامَنشی اور ساسانیت سے جوڑنے میں بہت دلچسپی دکھائی؛ اور ان سے خصوصی لگاؤ کا اظہار کیا۔ اس کے متعدد کارناموں میں سے ایک یہ ہے کہ ہجری تاریخ کا خاتمہ کرکے اس کی جگہ شہنشاہی سَنِ تاریخ کو رائج کیا؛ اس جگہ شاہ ایران کے بطور خاص دو کارناموں کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔
شاہ کی حکومت نے، ایرانی سال کے اعتبار سے ١٣٢٠ ہجری شمسی کو، جس دن محمد رضا پہلوی نے ایرانی حکومت کو اپنے اختیار میں لیا تھا، اسی دن کو ٢٥٠٠سالہ ''شہنشاہی شمسی سال'' میں تبدیل کردیا۔ مشورتی مجلس کو نسل نیز عوامی مجلس (سینٹ) نے بھی مشترکہ نشست میں اس (شہنشاہی شمسی سال) کی منظوری دے دی۔(١)
شاہ ملعون نے ٢٥٠٠سال گذرنے پر قدیم زرتشتی تمدن کی یاد تازہ کرنے کے لئے شیراز میں پرسپولیس جس کو آج کل'' تخت جمشید'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، وہاں پر ایک بہت بڑا عالمی جشن برپا کیا؛ اس میں دنیا بھرکی بڑی بڑی سیاسی شخصیتوں اور بادشاہوں کو شرکت کرنے کی دعوت دی۔ ١٠٠ملین ڈالر قدیمی پوشاک اور قدیم گھوڑا گاڑی (بگھیوں) زیورات اور مصنوعی داڑھی، موچھوں (اس زمانہ میں رائج) اور دوسرے لوازمات پر خرچ کردئے۔
آپ کی اطلاع کے لئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ شاہی حکومت نے ''کورش کبیر'' نامی فلم بناکر اس کو (یورپ کے ممالک میں بھیجنے کی غرض سے)(٢) ١٠٠ملین تومان(٣) امریکی فلم لکھنے والے کو ادا کئے۔ اس مقام پر بہت زیادہ شواہد موجود ہیں، جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یہ شخصیتیں اس بات کی طرف مائل تھیں کہ دنیائے اسلام میں ہر ممکن مختلف طریقوں کے ذریعہ قدیم جاہلی تمدنوں کو پھر سے احیا کیا جائے۔
اسی لئے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کہنہ اور نو کے درمیان کا اختلاف، علم کے دروازوں کو کھولنے اور مغربی پیش رفتہ مہارت (ہمارے لئے) کے حصول نیز علم اور تکنیک تک دست رسی کے لئے نہیں تھیں، بلکہ یہ سب کچھ اسلامی تعلیم کی مخالفت میں انجام دی جارہی تھیں۔ ان تمام اقدامات اور دھوکہ ڈھڑیوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ نسل حاضر کو گذشتہ
..............
(١)تاریخ سیاسی ایران، ڈاکٹر سید جلال الدین مدنی، ج٢، ص٢٣٣۔
(٢)تقریباً ١٤ میلین ڈالر۔(٣)تاریخ نیم قرن جنایت (٥٠ سالہ جرم و جنایت کی تاریخ) سرہنگ احمد ودّی ص١٨٠۔
تمدن اور ان کی مذہبی اور ثقافتی نیز تاریخی اور قدیمی وراثتوں اور اس کے حقائق سے بالکل عاری کردیا جائے اور انہیں صرف سطحی اور سرسری معلومات فراہم کی جائے؛ یہی ان کا اصلی مقصد ہے۔
اِن تمام اقدامات کی دو مقام پر تطبیق کی جاسکتی ہے:
پہلی صورت: ابتدا میں تہذیب و ثقافت پر حملہ کرنے والے لوگ اس امت کو ان کے گذشتہ مذہب، ثقافت اور تمدن سے جدا کرنے میں بہت زیادہ دلچسپی دکھاتے۔ (اور بڑے ہی انہماک کے ساتھ اس تخریب میں لگے ہوئے ہیں، ہماری دینی وراثتوں کی طرف للچائی نظروں سے اپنی نظریںجمائے ہوئے ہیں اورہر آن اس کو ہڑپ لینے کی تاک میں ہیں۔مترجم)
دوسری صورت: دوسرے موقع پر یادوسرے مرحلہ میں اپنی دعوت کے رخ کو جوانوں کی ثقافت اور مذہب کی واقعی صورت کو مسخ کر کے قدیمی جاہلی تمدنوں اور ثقافتوں سے جوڑنا چا ہتے ہیں، جو صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں، اور دوبارہ ان تمدنوں کو زندہ کرکے ملبے کے اندر سے نکال کر منظر عام پرلانا چاہتے ہیں، تاکہ واقعی اسلام کے مقابلہ میں انھیں پیش کریں۔
حکومتیں، حکام اور وہ لوگ جو ان کا اتباع کرتے ہیں اور تمام امور میں ان کے پیچھے پیچھے چلتے اور ان کے تابع محض ہیں، اپنے بہت سے مال و دولت کو صرف انھیں امور میں خرچ کرتے ہیں۔ اپنے اس ہدف کو بروئے کارلانے کے لئے، بڑے بڑے جشن اوراجتماعا ت کو برپا کرنے کی غرض سے بہت سے امدادی ساز و سامان کو اپنے ذاتی اخراجات میں شامل کر لیا۔ اور اس امت کو مختلف سازش کے ذریعہ ثقافت، مذہب اور اس کی قدیم وراثتوں سے جدا کرنے کی ٹھان لی ہے۔ ان لوگوں نے یہ بات طے کرلی ہے کہ اس امت کو اس کی ثقافت اور وراثتوں سے جدا کرکے شرم آور اور گھناؤنے میل جول اور ناجائز تعلقات قائم کرنے کے ذریعہ یہ اقدام کیا ہے کہ ان کو گذشتہ جاہلی اور فرعونی ثقافتوں کے درمیان ایک قسم کا رابطہ قائم کرکے اس باہمی ارتباطی پل کے ذریعہ فرعونی، زرتشتی، کسرائی، بابلی، آشوری اور بربری قدیم جاہلی تہذیب و تمدن سے ان کو پھر سے جوڑ دیں۔
حقیقتاً، تعجب کا مقام ہے کہ انسان اس بات پر افسوس کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ کہ ایسی شرمناک حرکتوں، فریب اور دھوکہ دھڑیوں کے ذریعہ دن دہاڑے امت اسلامی کی ذہنیت کو مسخ کرنا چاہتے ہیں، قدیمی وراثتوں کی بربادی اور اسی طرح آہستہ آہستہ ثقافت اور تمدن کو غارت کرنے میں مشغول ہیں، اس طرح حیلہ گری کا موقف اختیار کر نے کے سبب مقابلہ اور ٹکراؤ کی بھی نوبت نہیں آئی اور وہ لوگ اپنے مقصد تک پہنچ گئے۔ لیکن ''جس کواللہ رکھے اس کو کون چکھے'' کے تحت، اگرچہ اس قوم کو بہت مشکلات اور خطروں میں گھیر دیا گیا ہے، اور وہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اس امت کو صفحۂ ہستی سے مٹادیں؛ لیکن خدا وند عالم نے ارادہ کر لیا ہے کہ اس قوم کو خواب گراں سے بیدار کردے اور اس نے اپنی اس عزیز اسلامی امت پر نظر لطف و کرم فرما دی ہے؛ بحمد اللہ اب مسلمان لوگ بیدار ہو گئے ہیں۔