اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار
 

آرنالڈ ٹوین بی کا نظریہ اور اس پر تنقیدی جائزہ

اصل نظریہ:
ٹوین بی کا عقیدہ یہ ہے کہ تہذیب و ثقافت کا انتخاب یا کامل اور وسیع پیمانے پر ہو، یا پھر اصلاً نہ ہو (ٹوین بی کی نظر میں) اگر کوئی قوم کسی دوسری قوم کی تہذیب و تمدن اور ثقافت کے بعض عناصر اور اجزاء کا (جزئی طور پر) انتخاب کرے تو یہ بیگانہ اور جدا شدہ تہذیب و ثقافت کے اجزاء و عناصر اس بات کی قدرت رکھتے ہیں کہ وہ قوم جو کسی دوسری قوم کی تہذیب کو اپنے لئے اخذ کرتی ہے اس کی ثقافتی اور مذہبی بنیادوں کو منہدم کر دیں؛ اس لئے کہ یہ عناصر اور اجزا (جو اپنے جسم کے علاوہ دوسرے جسم میں فعالیت کرنا شروع کر دیتے ہیں) مخرب اور نقصان دہ اجزا میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ .
بہتر ہے کہ ٹوین بی کے کلام کو بڑی ہی دقت اور باریک بینی سے نقل کریں۔ وہ کہتا ہے:
اس وقت جب تجزیہ کا کام اس تہذیب و ثقافت کے پرتو میں جس کے اجزا و عناصر اور تہذیب و تمدن کا صحیح پرتو اور سایا اس پر ہوتا ہے جس کے تشکیل دینے والے اجزا اور عناصر صنعتی (Technological) سیاسی، دینی اور ہنر کے لحاظ سے پایۂ تکمیل کو پہونچ جائیں۔ یہ تجزیہ بھی اس مقاومت کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے جس میں اجنبی معاشرہ اور بیگانہ سماج خود ان کی تہذیب اور تمدن کے مقابلہ میں نفوذ حاصل کرکے سامنے آجاتا ہے...۔
بلا شک و تردید فن اور تکنیک میں نفوذ اور تاثیر کی صلاحیت دین کے مقابلہ میں زیادہ ہے اور اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ اس قانون کو دقیق ترین شکل و صورت میں یاد کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اس بات کا عقیدہ رکھتے ہوں کہ تہذیب و ثقافت کے لحاظ سے عنصر کے نفوذ کی طاقت اور اس عنصر کی اہمیت و ارزش کے درمیان تضاد پایا جاتا ہے۔ وہ عنصر جس کی اہمیت کم ہو اگر وہ کسی ایسے جسم کا حصہ قرار پائے جس پر حملہ کا خطرہ ہر دم بنا ہو تو اس با اہمیت عنصر کی بہ نسبت اس میں مقاومت کی قوت کم ہو جاتی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ تہذیب و تمدن کے کم اہمیت عناصر کا انتخاب موثر تہذیب و ثقافت کے عناصر کے درمیان سے کم اہمیت اجزا کے نشر کرنے کی غرض سے اس وسیع اور خارجی زاویۂ نگاہ اور معیار کے مطابق، تہذیب و تمدن کی دوڑ اور آپسی ہوڑ میں نا مناسب قواعد اور فارمولوں کو جنم دیتا ہے، اس لئے کہ اس کم اہمیت جز کے انتخاب سے اس کھیل کے بد ترین عواقب اور نتائج سامنے آسکتے ہیںاور اس کے علاوہ اور کچھ عائد (حاصل) ہونے والا نہیں ہے۔
بیشک تحلیل و تجزیہ کا ماحصل جو اس کھیل کی روح رواں ہے، معاشرہ کی زندگی کو مسموم کرنے کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ وہ سماج جس کے مختلف اجزا تہذیب و تمدن کے مدار اور اس کے محور سے سے جدا ہوکر پورے معاشرتی نظام میں رخنہ ڈال دیتے ہیں۔
وہ عنصر جو مذہبی موثر عناصر سے جدا ہو جاتا ہے اُس کی تشبیہ الکٹران (Electron) اور جرثومہ سے دی جاسکتی ہے، جس کا کنٹرول (مہار کرنا) ناممکن ہے؛ اس اعتبار سے کہ یہ عنصر، حاکم نظام سے جدا ہو جائے تو وہ اپنی تخریبی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے اور اس لئے جدا ہوتا ہے، تاکہ اپنے آپ کو مخالف راستے پر لگا لے اور عام نظام کی مخالف سمت اپنا راستہ معین کرلے۔ یہ ثقافتی اور مذہبی جز یا جرثومہ (Microbe) یا الکٹران (Electron) دوسرے بلند و بالا عناصر اور اجزا سے ارتباط کے وقت مخرب نہیں ہے اس طرح فطرتاً یہ جز یا میکروب (Microbe) جو اپنے مدار یا نظام سے الگ ہو گیا ہے یا مذہب کا وہ جز جو اپنی تہذیب اور ثقافت سے جدا ہوگیا ہے، اس وقت تک جب وہ اپنے اصلی نظام کے اندر تھا، اس میں کسی قسم کی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی تھی سوائے اس کے کہ یہ طبیعت اور فطرت اپنے اصلی ارتباط سے جس کے زیر سایہ مکمل طور پر بے ضرر تھی اس سے جدا ہو گئی، اس صورت میں بربادی اور تخریب کاری کی طرف زیادہ مائل ہو گئی۔ ایسے حالات میں ایک شخص کا گوشت دوسرے شخص کے لئے مباح اور موت کا پیغام بن گیا ہے۔'' (١)
اس کلام سے وہ نتیجہ جس کو ٹوین بی (Toynbee) نکالنے پر کمر بستہ ہیں، وہ یہ ہے کہ اگر کوئی قوم کسی دوسری قوم کی تہذیب اور تمدن کو اپنانا ضروری سمجھتی ہے اور اس کا عقیدہ رکھتی ہے تو اس پر لازم ہے کہ اپنی شخصیت، اصل حقیقت، مقدسات اور تہذیب و تمدن کو چھوڑنے کے لئے سنجیدگی سے غور و فکر کرے، اور اپنی فکری، اخلاقی، ثقافتی و مذہبی
..............
(١)Toynbee, The World and West, chapter 5th
حرکة التجدید الاسلام نامی کتاب سے ماخوذ ہے، مصدر سابق صفحہ ٥٠ و ٥١
اور علمی سائنسی اور تکنیکی زندگی میں بالکل اسی قوم کی جیسی ہو جائے جس قوم کو اپنی زندگی کے لئے مثال اور نمونہ بنانا چاہتی ہے۔ اور ان اجزاء اور عناصر کے درمیان فرق پیدا کرکے تہذیب و ثقافت اور تمدن کے لئے مفید اجزاء کو اختیار کرے گا اور وہ اجزا جو غیر مفید اور غیر مطلوب ہوں ان کو چھوڑ دے گا اور یہ محال ہے۔

ٹوین بی (Toynbee) کے نظریہ پر تنقیدانہ جائزہ
اس نظریہ پر بہت سے محققین اور صاحبان نظر نے تنقید و تبصرہ کیا ہے، اور یہ ثابت کیا ہے کہ دو ثقافتوں کا انتقال اور میل ملاپ، بلا شک و شبھہ ممکن اور فطری عمل ہے اور اس اعتبار سے ثقافتوں اور تمدن کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، جن کو درج ذیل عبارت سے تعبیر کیا جاتا ہے:
١۔ علمی شعبہ
٢۔ ثقافتی شعبہ۔
١۔ علمی شعبہ :یہ شعبہ ثقافتی شعبہ سے متاثر ہوتا رہتا ہے اور اس کے اثر کو قبول کرتا ہے، ثقافتی شعبہ کے حالات اور موقعیت کے سبب اپنے حقیقی وجود کو حاصل کرلیتا ہے ، جیسا کہ ثقافتی امور، علمی امور کو متاثر کرتے ہیں اور اس کو اپنے ہی رنگ و روپ میں اپنے اعتبار سے ڈھال لیتے ہیں، اسی وجہ سے علمی مسائل مثال کے طور پر جراحی ''آپریشن کرنا، دوائیاں بنانا، طبابت، حساب، ریاضی، مصنوعی بجلی اور برق کے بارے میں معلومات، ذرات اور مختلف مشینوں کے بنانے کا علم، یہ سب کے سب ایسے مسائل ہیں جن کا علم اخلاق، معرفت، عقائد نیز فلسفہ و ادب سے گہرا ربط ہے اور یہ سب انسان کی تمدنی زندگی میں دخیل ہیں، ایسا کہ پہلی قسم (علمی مسائل) کے مسائل دوسری قسم کے مسائل کے سبب وجود میں آتے ہیں، جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، یہ سب ثقافتی مسائل کے ماتحت ہیں۔ اسی وجہ سے علم کیمیا (Chemistry) اور دوا بنانے کا علم، ان سب امور میں اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ صحیح زاویہ نگاہ اور انسانیت کی ترقی میں ان کو استعمال کیا جائے۔ حکمت، طبابت اور زراعت یہ سب کے سب کھانے پینے کے مقصد کے حصول کی راہ میں کام آنا چاہئے، ٹھیک اسی طرح اس بات کا بھی امکان پایا جاتا ہے کہ صحیح آگاہی اور معلومات کے نہ ہونے اور انسانی اقدار اور اخلاقی معیار کے فقدان کے باعث، انسانی اقدار کے خلاف بروئے کار لایا جائے۔ ان جان لیوا گیسوں کو کیمیکل بم بنانے کے کام میں استعمال کیا جائے تو یہ سب انسانی اقدار کے فقدان کا سبب ہیں۔
ذرات اور آئیٹم کا بھی یہی حال ہے اس کو بھی صحیح اور مناسب کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن اس سے فائدہ حاصل کرنا انسانوں کی سوچ اور ان کی تہذیبوں میں اختلاف کی وجہ سے مختلف ہے، یعنی علمی روابط کے شرائط کا مختلف ہونا جو کبھی قابل اطمنان ہے اور کبھی غیر قابل اطمنان ہے۔

الف: علمی روابط کے ساتھ فضا کا اطمینان بخش ہونا
اس بات سے مندرجہ ذیل نتیجے اخذ کئے جاسکتے ہیں:
اگر کوئی قوم ایسی ثقافتی، مذہبی، اخلاقی اور عقائد کی حقیقت، واقعیت اور اصالت کو محفوظ کرلے، تو علمی روابط اور تہذیبوں کا ایک دوسرے کی طرف منتقل ہونا اسے نقصان نہیں پہونچا سکتا؛ اس لئے کہ جیسے ہی علمی مسائل ایک ثقافت سے رشتہ اور رابطہ توڑکر دوسری ثقافت اور تہذیب میں داخل ہو تے ہیں، تو وہ علم جو اس سے پہلے والی تہذیب و ثقافت کے باعث دوسری والی تہذیب کے متحمل نہیں ہو سکتے اور لوگ بھی دوسری تہذیب و ثقافت سے پوری طرح متاثر ہوئے بغیر صرف اس کے علمی گوشہ کو قبول کر لیں گے۔ درحقیقت تہذیب و ثقافت اور تمدن اس چھننے اور صافی کے مانند ہے جو علمی مسائل سے متعلق ہر چیز کو چھان پھٹک کر صاف و شفاف بنا دیتا ہے؛ اخلاقی حالات سے لیکر قوم و ملت کی موجودیت اور اس کے حضور کے ساتھ ساتھ اجنبی تہذیب و ثقافت کے تمام حالات کو صاف و شفاف بناتا چلا جاتا ہے۔ وہ زہریلے عناصر جو امت مسلمہ کے جسم سے کوئی تال میل نہیں رکھتے ہیں، لیکن ان کی تہذیب اور ثقافت کی ہمراہی کر تے رہتے ہیں اس سے ان لوگوں کو دور رکھتا ہے۔

ب: علمی روابط کے ساتھ فضا کا غیر یقینی ہونا
لیکن اگر کسی ثقافت کو اختیار کرنے والی قوم ضعیف و ناتواں ہو اور اس کے پاس ایسے عناصر کا فقدان ہو جو اخلاقی فکری اور استقامت کے لحاظ سے اجنبی ثقافت سے اسے محفوظ رکھ سکے تو ایسی قوم اگر اپنی زندگی میں بیگانہ اقوام کی ثقافت کے حصول میں اپنے آپ کومشغول کردے یا علمی رابطہ رکھتی ہے تو ان علمی مسائل کے ساتھ اس بیگانہ قوم کی اخلاقی ثقافتی سیاسی حالات و افکار کا منتقل ہونا ناگزیر ہے اور علمی مسائل کو ان ثقافتی مسائل سے علاحدہ کرنا جس کو انتقال تہذیب کے حوالہ سے منتقل کرنے والی قوم کی حمایت حاصل ہے اس کا جدا کرنا محال اور اگر محال بھی نہ ہو تو یہ امر اس کے لئے بس دشوار کام ہوگا۔

دو تاریخی تجربے ہمارے لئے اس حقیقت کو آشکار کرتے ہیں:

١۔ اوائل کی کامیابیوں کے تجربے
اور وہ تجربہ روم و ایران کی فتوحات ہیں۔ اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے کہ ملت اسلامیہ ان کامیابیوں اور فتوحات کے دوران، اداری، دفتری اور عدلیہ کے مختلف مسائل سے لیکر حکمت، طبابت، کیمیا (Chemistry) اور علم نجوم کو بغیر اس کے کہ ان اخلاق و آداب، تہذیب و ثقافت نیز ان کے تمدن سے متاثر ہو ں ان کے علوم اور سائنسی معلومات کو ان سے اخذ کیا ہے، بلکہ ان مسائل اور علوم کو اپنی تہذیب میں ڈھالا اور اپنے منشا اور چاہت کے مطابق اس کو استعمال کیا۔

(٢) دور حاضر کی مغرب پرستی کا تجربہ
ا ور وہ تجربہ اس وقت کا تجربہ ہے جب امت مسلمہ مغربی تہذیب و تمدن کو گلے لگا رہی تھی، اس وقت عثمانی حکومت کے خاتمہ کے بادل موت کی طرح اس کے سر پر منڈلا رہے تھے اور لوگ پروانہ وار فرنگی تہذیب و تمدن کے اپنانے میں منہمک تھے۔
تجربی علوم میں بہت سارے مسائل کی ضرورت اور اس کی احتیاج، مسائل ریاضی کے حل کی ضرورت اور اداری امور کی انجام دہی سے متعلق مشکلات اور ضروریات نے ملت اسلامیہ کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ مغربی تہذیب و تمدن کی طرف دست نیاز بڑھائیں اور آہستہ آہستہ ان کے حلقہ بگوش ہو جائیں۔ چونکہ ثقافتی اور مذہبی بنیادیں اتنی مضبوط نہیں تھیں، اس لئے وہ اس پر ثابت قدم بھی نہیں رہ پائے، اور وہ خود اپنی حفاظت پر بھی پورے طور سے قادر نہ تھے، اسی وجہ سے غرب نے اپنی خاص ثقافت اور تہذیب کو ان کے اوپر لاد کر اپنے ہی رنگ و روپ میں ڈھال لیا۔