مغرب پرست حکام اور اس کی حمایت
اُسی وقت اسلامی دنیا (عرصہ) کے سیاسی حلقہ میں، کچھ ایسے حکام اور حکومتیں اقتدار میں آئیں جو آشکارا طور پر مسلمانوں کو ان کی غنی ثقافت اور گہری جڑیں رکھنے والے مذہب سے جدائی اور مغربی تہذیب سے رشتہ ناطہ جوڑنے کی باتیں کرتے ہوئے ''تجدد اور جدت پسندی'' (Modernity) اور ترقی کا راگ الاپتے ہوئے ان کی طرف اپنے والہانہ میلان اور رجحان کا اظہار کر رہے تھے۔ اس مقام پر ایسی ہی فکر کے حامل کچھ رہنماؤں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
کمال آتا ترک
مصطفےٰ کمال آتا ترک عثمانی حکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد ١٩٢٣ ء سے ١٩٣٨ء تک کے لئے ترکی کی حکومت کو سنبھال لیا۔ (١)
..............
(١)مصطفےٰ کمال ١٩٣٠ء میں ''آتاترک یا بابائے ترک'' کے لقب سے ملقب ہوا اور اپنے مرتے دم تک (ساری عمر) ترکی کی حکومت پر مقتدرانہ حاکم رہا۔اس طرح ترکی کی کرسیٔ صدارت پر مرتے دم تک باقی رہا، بلکہ درحقیقت مرتے دم تک مطلق العنان بادشاہ بنا رہا۔ اس کی حکومت پندرہ سال تک باقی رہی۔ آتاتورک ترکی کی اُس حکومت کو جو مذہب پر استوار تھی، اس کو غیر مذہبی حکومت میں تبدیل کردیا۔ اس نے یہ دستور دے دیا کہ تمام چیزیں ترکوں کی اپنی گذشتہ تاریخ اور رسم و رواج کے مطابق ہونی چاہئیں اورہر وہ چیز جو عثمانی بادشاہت یا اسلام کے بارے میں ہو، اس کو ترکی کے تمام اسکولوں اور نظام سے بالکل حذف کردیا جائے، اس کی جگہ پر مغربی رسم و رواج کو رائج کر دیاجائے ؛ اسی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لیا جائے ۔ ترکوں کو مغربی لباس پہننے پر مجبور کیا جائے، عربی رسم الخط کو ختم کرکے اس کی جگہ پر لاتینی (Latin)حروف کے ذریعہ نیا رسم الخط رائج کیا جائے۔ آتاترک نے لائیک (بے دینی کے) نظام کو برقرار کرنے کے واسطہ، مردوں اور عورتوں میں ایک لباس کے رواج کو اپنے نظام کا جز قرار دیا ۔اس طرح بے پردگی کو قانونی حیثیت دے کر تمام جگہوں پر ضروری اور لازم قراردے دیا جائے جیسا کہ ابھی تک ترکی حکومت کی انتظامیہ اسی قانون(منع حجاب کی پیرو ی کرتی رہی ہے ۔ اس ملک کے مسلمانوں کے پے در پے اعتراض اور اصرار کے باوجود پردہ دار لڑکیوں کو یونیورسیٹیوں میں جانے یعنی داخلہ سے منع کردیا ہے اور وہاںپر صرف مغربی ثقافت کے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔مترجم فارسی)
رضا شاہ پہلوی (١)
شاہ (ملعون) ایران ١٩٢٥ء سے ١٩٤١ء تک عثمانی حکومت کے تختہ پلٹنے کے بعد زمام حکومت کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔
..............
(١)رضا خان شاہ ایران (ملعون) پہلوی سلسلہ کا مؤسس جس نے ١٢٩٩ ہجری شمسی (ایرانی سال کے مطابق) میں حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔ وہ (شاہ ملعون) احمد شاہ ، جو خاندان قاچار کا آخری بادشاہ اور چشم و چراغ تھا، اس کی طرف سے''سپہ سالاری'' کے منصب پرفائزہو کر اسی لقب سے مشہو ر ہوگیا۔
وزیرجنگ(دفاع) ہونے کے بعد اپنے وزارت عظمیٰ کے عہد میں قاچاری بادشاہت کے خاتمہ کی فکراس کے دل و دماغ میں پروان چڑھنے لگی۔ ابتدأ میں رضا خان (شاہ ایران ) ایران میں جمہوری حکومت اعلان کرنے کی فکر میں تھا کہ آتاترک کی طرح دین مخالف (لائیک)جمہوری حکومت لائے، لیکن اس پیش کش کی فوراً مخالفت ہوجانے کی وجہ سے، اپنے نقشہ کو بروئے کار نہ لاسکا، بلا فاصلہ کسی دوسرے حل تلاشنے کے چکر میں پڑگیا اور اپنے منصوبہ میں تبدیلی کردی۔ ٩ آبان ١٣٠٤ ہجری شمسی کے جلسہ میںعام منظوری حاصل کر لی گئی کہ قاچاری بادشاہت کو ختم کردیاجائے۔ پارلمانی قومی مجلس ،'' مجلس مؤسِّسین'' کی تاسیس کے بعد، اپنے حق میں ایسے حالات فراہم کئے کہ یہ حکومت اسی(رضا شاہ) کو سونپ دی جائے۔'' مؤسِّسین کی کمیٹی'' نے ٢١آذر ١٣٠٤ ہجری شمسی میں سلطنت کو ایرانی مہینہ کے اعتبار سے ٢٥ شہریور تک کے لئے اس کے حوالہ کردیا۔ وہ روس اور برطانیہ کی افواج کا ایران پرحملہ اور اس پرچڑھائی کے بعد استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگیا۔ اس مدت تک ''رضاشاہ'' کے عنوان سے حکومت کے تخت پربراجمان رہا۔
وہ مختلف عوامل و اسباب کے ذریعہ مغربی تہذیب کو پھیلانے اوراس کو وسعت دینے ،اس کے
ساتھ ہی اسلامی تہذیب و ثقافت کی بساط الٹنے کی ہر ممکن کوشش میں مشغول ہو گیا ۔ اس کی گستاخی اور بدتمیزی اس درجہ اوج پر پہونچ گئی کہ ایران کے ایسے شیعی اور مسلمان ملک میں، جو مرکز تشیع سے یاد کیا جاتا رہا ہے وہاں پر ١٧ دی ١٣١٤ ہجری شمسی کو ''کشف حجاب'' یعنی بے پردگی کا حکومتی حکم صادرکردیا؛ اس کے اجرا کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ اس (شاہ ملعون) کا بے پردگی کے سلسلہ میں اصرار اس بات کا سبب ہوا کہ بعد، اس نے افغانستان کو مغربی ملک بنانے کی فکر کو اپنے دل و دماغ میں پروان چڑھانا شروع کردیا کہ خود یہیخاص طور سے طبقۂ روحانیت اورعموماًتمامی مسلمانوں نے ملک گیر پیمانہ پر اس حکومت پر بہت شدّ و مدّ کے ساتھ اعتراض کرنا شروع کردیا؛ انھیں اعتراض آمیز اور بھڑکیلے اجتماعات میںاس کی اس حرکت کے خلاف ایک بہت بڑا اجتماع ہوا، جس میںحاضرین اپنی ناراضگی کا اظہار کررہے تھے۔ یا پھر برجستہ روحانی شیخ محمد تقی بہلول کی پردہ فاش تقریر جس نے ''رضاخان'' کی دین مخالف تحریکوں کو اجاگر کر کے اس کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ پھر لوگوں میںاعتراض کی آگ اوربھڑک گئی۔ رضا خان کے جلادوں نے اس ملعون کے حکم سے اس مسجد پر بے شرمانہ ناگہانی حملہ کروادیا؛ لوگوں کو گولیوں کی باڑھ پر باندھ دیا۔ اس حملہ میں تقریباً تین ہزار لوگ شہید ہوگئے، پھر بھی شاہ نے صرف اسی جرم و جنایت پر اکتفا نہیں کی؛ بلکہ جیسے ہی اس بات کا احتمال دیا کہ عمومی اور عوامی قیام برپا ہوسکتا ہے، مشہد کے تمام مبارز علماء اور مجاہدین کو گرفتار کرکے جلا وطن کردیاگیا۔جلا وطن علماء میں سے کچھ کو تہران روانہ کر دیا گیا، ان میں سے تین معروف، سرشناختہ اور مسلّم مجتہد تھے؛ بلکہ ان کا شمار مراجع کرام کی فہرست میں
ہوتا تھا۔ اُن میں سے کچھ کے نام درج ذیل ہیں :
آیة اللہ الحاج آقا ئے حسین قمی صاحب قبلہ و کعبہ ، آیة اللہ الحاج آقائے سید یونس اردبیلی صاحب قبلہ و آیة اللہ الحاج شیخ آقائے محمد آقا زادہ صاحب قبلہ دامت برکاتہم کے نام ہیں۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ رضاخان کے حکم سے حضرت آیةاللہ آقازادہ صاحب قبلہ کو خلع لباس کردیاگیا، اور پولس کے اعلیٰ افسر ''سرپاس'' کے زمانہ میں(جو اس وقت تھانہ کا انچارج تھا) ڈاکٹر احمدی کے ذریعہ (زہر کا) انجکشن د لواکر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس طرح وہ شہادت کے بلند درجہ پر فائز ہو گئے ۔ ''مترجم فارسی''
امان اللہ خاں
افغانستان کا حاکم جو ١٩١٩ء سے ١٩٢٩ء تک وہاں کا بادشاہ تھا۔ اس (امان اللہ خان) نے مغربی ممالک میں اپنی آمد و رفت برقرار کئے ہوئے تھا۔
١٩٢٧ئ، یعنی حکومت اسلامی کے ٹوٹنے کے پانچ سال بات اس کی حکومت کے زوال اور اس کے مغربی ممالک کی طرف فرار کرنے کا سبب بنی۔ (١) مشہور ہے کہ یہ حکمران مغربی ممالک کی طرف شدید تمایل و رجحان رکھتے تھے اور ان کی ساری کوشش اس پر ہوتی تھی کہ فوراً سے پیشتر موقع ملتے ہی اسلامی علامتوں اور اس کی بنیادوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر پھینک دیں اور دنیا میں اسلام کی سیاسی موجودگی اور اس کی حیثیت کو بالکل سے ختم کرکے اس کی جگہ پر مغربی تمدن اور تہذیب کو اپنے ممالک میں لاکر اسے رواج دیدیں۔ اس طرح علاقائی اور چھوٹی چھوٹی قوم پرست (Nationalist) کٹھ پتلی حکومتوں کو اسلامی حکومتوں کا قائم مقام بناکر اپنا اُلّو سیدھا کر لیں۔
زمانہ کے اس حصہ میں، دور حاضر کی سیاسی تاریخ میں، نمودار ہونے والے بہت سے حادثات رونما ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک حادثہ کا وجود میں آنا، خود مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا بیج ڈالنے میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اور ان
..............
(١)اس لئے کہ اس کا ( امان اللہ کا)اصرار اورسارا زور افغانستان کے مسلمانوں کی مقاومت اور صلابت کے مقابلہ میں بے اثرہو کر رہ گیا اور اس کے منحوس منصوبے، نقش برآب ہو گئے، یعنی بے اثر ہو گئے۔ اس اعتبار سے
اُس(امان اللہ خاں) کو زیادہ موقع نہ ملا اور اپنے منحوس اہداف ومقاصد کو حاصل نہ کر سکا۔ (مترجم)
میں سے ایک ''سائکس پیکو''(١) کا معاہدہ ہے جس نے دنیائے اسلام کو بہت سی چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں تبدیل کردیا۔ اور دوسرا معاہدہ ''بالفور معاہدہ''(٢) (Balfur treaty)
..............
(١) یہ قرار اور معاہدہ ، صیغۂ راز اور خفیہ قرار تھی جس کو ١٩١٦ء میں پہلی عالمی جنگ کے شورشرابہ کے دوران برطانیہ اور فرانس نے آپس میں طے کرکے ایک دوسرے کی موافقت حاصل کرلی جائے اور اپنے اپنے دستخط کردئے اور اس کو قانونی مان لیا۔ اسی سبب یہ دونوںممالک (برطانیہ اور فرانس) پہلی عالمی جنگ ختم ہونے سے پہلے ہی مشرق وسطیٰ میں عثمانی بادشاہت کی وراثت کو دونوں نے صیغۂ راز میں رکھکر آپس میں تقسیم کرلیا۔ اس قرار اور معاہدہ کے تحت سوریہ، لبنان اور ترکی کا کچھ فی الوقت جنوبی حصہ، فرانس کے حصہ میں، فلسطین، خلیج فارس کے آس پاس اور گرد ونواح کے علاقے، جو فی الحال سر زمین عراق میں بغداد کے نام سے موسوم ہے وہ برطانیہ کے حصہ میں آگیا ، ا س طرح اس کو اپنی ملکیت میں لے لیا۔ برطانیہ اور فرانس نے عثمانی حکومت کے باقی ماندہ تحت انتظام علاقوں کو تحت نفوذ علاقوں کے عنوان سے آپس میں اس طرح تقسیم کرلیا؛ کردستان اور ارمنستان کے کچھ حصہ کو اپنے ذھن میں روس کے لئے طے کرلیا تھا۔ اس قرار کا ایک نسخہ بطور صیغۂ رازکے روس کے حوالہ کردیاگیا۔ جو ''بال شویکی'' قوموں کے انقلاب کی کامیابی کے بعد یہ خفیہ سندیں سب پر آشکارہوگئیں، جس پر اس کے (روس) دوسرے متحدوں، برطانیہ اور فرانس اپنے واقعی مقاصد کا راز کھل جانے کی وجہ سے اِن متحدوں کی بد گمانی میںاضافہ ہوا۔ اس معاہدہ پر ہونے والی شدید مخالفت کے باوجود معاہدہ پر عمل درآمد ہوگیا۔ برطانیہ اور فرانس نے عملی طورپر (سائکس۔ پیکوکے) معاہدہ کے متن پر بر محل اور بروقت اجراء کردیا۔ اور عثمانی شہنشاہیت کی وراثت، جنگ کے بعد، سرپرستی یا پھر برطانیہ اور فرانس کے تسلط کے سبب انھیں دونوں کے ہاتھ لگ گئی۔ صرف بین النہرین کا وہ علاقہ جو بعد میں برطانیہ کی حمایت سے ایک مستقل ملک ''عراق'' کے نام سے وجود میں آگیا۔ اسی وجہ سے برطانیہ اور فرانس کے درمیان شدید اختلاف وجود میں آگیا، لیکن برطانیہ نے فرانس کو عراقی مٹی کے تیل کی کمپنی میں٢٥٪ حصہ دیکر فرانسوی اعلیٰ عہدہ داروں کے اختلاف کو کسی طرح رفع و دفع کردیا۔ (مترجم: فرہنگ جامع سیاسی، ص٥٤٨ و ٥٤٩)
(٢) اعلان بالفور جو دنیا میں پہلی یہودی حکومت تشکیل پانے والے دن کے عنوان سے ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اور وہ برطانیہ کے وزیرخارجہ(Lord Balfur) کاایک خط ہے جو پہلی عالمی جنگ میں بعنوان
(Lord Roathslead) جو برطانیہ کے صہیونی ادارہ کا صدر ہے، جس کے ضمن میں برطانیہ کے وزیر خارجہ نے (فلسطین میں یہودیوں کے لئے وطن کی داغ پیل ڈال دی) اور اس غاصب حکومت کا اعلان کردیا۔ اس خط کے روانہ کرتے ہی بلا فاصلہ مورخہ ٢ نومبر ١٩١٧ء کو لارڈ روتھسلیڈ نے (Lord Roathslead) یہودیوں کی فلسطین میں منظم طور پر منتقلی شروع کردی۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں ان دونوں جنگوں کے فاصلہ کے دوران، اس وقت فلسطین میں بسنے کے بعد، یہودیوں کی تعداد ستّر ہزار سے بڑھ کر ساڑھے چار لاکھ افراد تک پہونچ گئی۔ آخر کار ١٩٤٨ء میں اسرائیل کے حکومت بننے پر تمام ہوئی (یعنی اسرائیل کی نامشروع غاصب حکومت وجود میں آگئی) ''مترجم: جامع سیاسی، ص١٦٤ و ١٦٥''
١٩١٧ء میں وجود میں آیا، اوراس معاہدہ پر استوار ہے کہ فلسطین میں صیہونی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔
اگر ہم یہ تصور کریں کہ رونما ہونے والے یہ تمام کے تمام حوادث پہلے سے بغیر کسی سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت یہ سب حادثات اچانک وجود میں آگئے ہیں، تو یہ بہت ہی بچکانہ اور بیوقوفی محسوب ہوگی اور ہماری سادہ لوحی اور نا سمجھی کہی جائے گی۔ اگر ہم یہ تصور کریں کہ ان کی ساری کوششیں صرف اس بات پر رہی ہیں کہ اپنے ملک میں صنعت اور ٹکنالوجی کو لانا ہے اور صرف ترقی یافتہ علمی مہارت کا قیام عمل میں لانا مقصود ہے۔ اور اپنی تحقیق و مہارت کو بروئے کار لا کر اس سے صحیح استفادہ کرنا چاہتے ہیں تو یہ بات بہت ہی نا مناسب ہوگی۔
یہ حکومت کے اعلیٰ عہدہ دار لوگ، تبدیلی و تحول نیز جدت پسندی کے بہانہ سے درج ذیل چیزوں کو نابود کرنا چاہتے ہیں:
(١) عربی رسم الخط اور اس کے حروف۔
(٢) فصیح عربی زبان۔ (چونکہ عوامی زبان لکھی اور پڑھی نہیں جاتی، اس سے کوئی خطرہ بھی لاحق نہیں تھا، لہٰذا اس زبان کو ختم نہیں کیا۔)
(٣) اسلامی پردہ۔
(٤) قضاوت شرعی اور اس کے مطابق حکم دینا۔
(٥) حلال و حرام میں اقامۂ حدود الٰہی۔
(٦) اخلاق اور آداب (اسلامی)۔
اور دوسرے بہت سارے امور کے خلاف کمر بستہ ہو کر ساری طاقت کے ساتھ عملی طور سے مقابلہ کرنا شروع کردیا۔
انتظامی صلاحیتوں کے مالک افراد مختلف اسلامی ممالک کے دانشوروں اور ادیبوں کی ایک جماعت بھی انھیں حکام اور اعلیٰ عہدہ داروں کی جی حضوری میں مشغول ہو گئی اور آشکارا طور پر مسلمانوں کو مغربی بنانے، عالم اسلام کو مغربی سامری کے بچھڑے سے وابستہ کرنے اور ملت اسلامیہ کو اپنے ماضی اور اپنی تاریخ سے بالکل جدا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمدن اور تہذیب و ثقافت سے بالکل محرومیت کا احساس کر رہے تھے، اس کے نتیجہ میں یہ لوگ احساس کمتری کا شکار ہو گئے تھے۔ (بالکل ویسے ہی جیسے ان کے پاس سے تہذیب و ثقافت نام کی کسی چیز کا گذر تک نہ ہوا ہو جب کہ اسلامی تہذیب تمام تہذیبوں سے بہتر اور بہت ہی اعلیٰ ثقافت کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ وائے ہو! ایسی عقلوں پر جو اسلامی ثقافت کو برا اور ناکافی سمجھتے ہیں۔ مغربی تہذیب کی طرف ترجیح دینے کی ہوڑ اور علانیہ طور پر مغربی تہذیب کی دعوت دینے میں پیش پیش رہنے والے لوگوں میں سر فہرست ایسے افراد موجود ہیں جن کا شمار مفکرین، مصنفین، صاحبان نظر اور صاحبان قلم میں ہوتا ہے۔ مترجم)
|