اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار
 

ماضی اور مستقبل کے ارتباطی پُلوں کاانہدام
گھر، (گھرانہ) مدرسہ اور مسجد یہ ایسے تین ارتباطی پل ہیں جو ہمارے دین و مذہب اور تہذیب و تمدن کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرتے اور ہم کو گہری جڑوں کے ساتھ ہمار ی تہذیب و تمدن اور ثقافت سے جوڑ تے ہیں۔ اگر یہ راستے آپس میں بہم جوڑ دینے والے پُل نہ ہوتے تو ہمارا گذشتہ زمانہ سے بالکل رابطہ ختم ہو جاتا، اسلامی امت جس کی جڑیں تاریخ میں بہت مستحکم اور استوار ہیں نیز دینی و مذہبی تہذیب و تمدن کی حامل ہیں، اس کی بنیادوں میں، حقیقت اور گہرائی پائی جاتی ہے اور ایسی صورت میں یعنی جب اس کا رابطہ ختم ہو جائے تو وہ ایک ایسے (بے خاصیت) پودے میں تبدیل ہو جائے گا جس میں گہری جڑیں نہیں پائی جاتیں اور بہت ہی سطحی ہوتی ہیں۔ وہ درخت جس کی جڑیں گہری اور ثابت ہیں اور شاخیں آسمان سے متصل یعنی بہت ہی بلند ہیں وہ ایک خود رو، بیکار اور زائد پودے اور سبزے میں تبدیل ہو جائے گا، اس کے بعد آہستہ آہستہ فنا کے گھاٹ اترجائے گا، جس طرح یہ خودرو پودا اُگا تھا اسی طرح وہ اپنی ابتدائی حقیقت کی طرف پلٹ جائے گا۔
بلاشک و شبہہ جس طرح اسلام ان ارتباطی (گذر گاہوں) پلوں کی حفاظت میں کوشاں اور امت اسلامی جس کو مؤثر بنانے کے لئے اپنی ساری قوت صرف کررہی ہے، ٹھیک اس کے بر خلاف عالمی سامراج اور استکبار بھی اپنی پوری طاقت اور قدرت کے ساتھ ان ارتباطی پلوں کو پورے طور سے منہدم کرنے میں لگا ہوا ہے۔ ہر روز ایک نہ ایک ترکیب، حیلہ حوالہ اور نت نئے ہتھکنڈوں کو بروئے کار لانے کی کوششوں میں سر گرم ہے۔ اس بات کو بڑے ہی وثوق و اطمینان اور جرأت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے، کہ ہماری باہمی زندگی میں سیاسی کھائی ایجاد کرکے ہمارے اور کافر برادری کے درمیان ایک جنگ چھیڑ دی ہے، جو ان پلوں کے ''توڑنے اور جوڑنے'' کی صورت میں ہمارے درمیان باقی ہے۔
سامراج کی استکباری طاقتیںاور ان کے آگے پیچھے کرنے والے نوکر شاہی لوگوں، حکومت کے ذمہ داروں اور دانشوروں کے ذریعہ اسلام میں پھوٹ ڈالنے کی اپنی جیسی کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، اس زور آزمائی کو قدامت پسندی، بنیاد پرستی بنام جدت پسندی اور فکر نو کی جنگ کا نام دے دیا ہے، جبکہ حقیقت اس کے علاوہ کچھ اور ہی ہے۔ قدامت پسندی اور فکر نو کے در میان کوئی گیر و دار نہیں پائی جاتی ہے، بلکہ یہ جنگ باہمی ارتباطی پُلوں کو منہدم کرنے اور ان کی تعمیر نو سے متعلق ہے۔ عالمی سامراج اور استکبار کی ساری کوشش اس بات پر ہوتی ہے کہ امت مسلمہ کو اس کے ماضی کی گہری جڑوں والی تاریخ سے بالکل جدا کر دے۔ وہ ارتباطی پل جو دور حاضر اور زمانۂ حال کو ماضی اور مستقبل سے جوڑ تے ہیں، ان رابطو ں کو بالکل سے منہدم اور خاک سے یکساں کر دے۔ اس کے بر خلاف صالح اور مخلص لوگ اسلامی امت کی جہاں دیدہ، آگاہ، ہوشیار اور تجربہ کار اولادیں، ان دھوکہ دھڑیوں، مکاریوں اور فریب میں آنے والی نہیں ہیں، ان کی ساری کوشش اس بات پر ہوتی ہے کہ ہمارے حال کو (حاضر کو) گذشتہ کل یعنی ماضی سے پوری طرح جوڑ دیں۔ نیز ہماری (دینی اور مذہبی) وراثتیں اور ان کی تاریخ میں گہری جڑوں کی حفاظت اور بقاء کے لئے بہر صورت فکر مند ہیں کہ کیسے اس امانت کو آنے والی نسلوں کے حضور صحیح و سالم پیش کر دیں۔
توڑنے اور جوڑنے کے درمیان کا یہ اختلاف ہر مقام اور موقع پر پایا جاتا ہے۔ مدرسہ و اسکول، جامعہ (University) (وہ اعلیٰ تعلیم گاہ جس کو' دانشگاہ ' بھی کہا جاتا ہے) سڑکیں، ہنر اور پیشہ، ادبیات، اصطلاحیں، رسم و رواج، زبان، تحریر اور رسم الخط، شعر گوئی، طرز زندگی، طرز فکر، محاوراتی زبان اور ہماری زندگی میں رائج بہت سی دوسری چیزیں ہیں؛ جس کے لئے بعض لوگ اپنے ذاتی منافع کے حصول کے تحت اختلاف کے بیج بوتے پھرتے ہیں۔

ثقافتی تخریب کاری
اس مقام پر یہ سوال اٹھتا ہے: عالمی استکبار ہماری تہذیب و ثقافت کے خلاف تخریبی رویہ اختیار کرنے کے لئے کیوں کمر بستہ، ہمارے مذہب و تمدن کو نابود کرنے کے کیوں درپے ہیں؟
یہ سوال، بہت ہی بر محل، اچھا اور مناسب ہے، بے شک استکباری جنگ کا منصوبہ بنانے والے لوگوں اور عالمی استکبار کے نزدیک، ہمارے تمدن اور اسلامی ثقافت کی کوئی اہمیت نہیں ہے، ان کے لئے یہ بات کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں ہے کہ وہ اس کے بدلہ کوئی تہذیب و ثقافت پیش کریں؛ بلکہ وہ تو سرے سے کسی تہذیب و ثقافت اور تمدن کے پیشوا اور امن کے سفیر ہی نہیں ہیں کہ کسی تمدن کے بارے میں سوچیں۔ ان میں برائے نام بھی تہذیب نہیں پائی جاتی ہے کہ ان کو کسی تمدن اور تہذیب کے مٹانے کے بارے میں غور و خوض کی ضرورت پڑے، اس (تہذیب و ثقافت اسلامی ) کے بدلہ کسی اور تمدن اور ثقافت کو لانے کی سو چیں؛ بلکہ یہ لوگ مال و دولت اور سرمایہ کو ہر ممکن طریقہ سے ڈھونڈھ نکالنے میں خاصی مہارت کے حامل، شباب و کباب کے متوالے، سنہرے اور کالے سونے کو ہر جگہ ،بہر صورت اور ہر قیمت پر اکٹھا کرنے کی جستجو اور تلاش میں ہیں۔
جو بھی شرق و غرب کے بارے میں شناخت رکھتا ہے، بغیر کسی چوں چرا کے اس حقیقت کو قبول کر لیتا ہے۔ اسے بھی چھوڑیں، وہ سادہ لوح لوگ جو یہ تصور کرتے ہیں کہ مغرب کا سرمایہ داری اور شرق کا اشتراکیت کا نظام (کمیونزم) یہ دونوں ہماری زندگی میں انسانی اور اخلاقی کردار ادا کرتے ہیں! وہ بھی اس بات کو بخوبی جانتے ہیں۔ در حقیقت، غرب و شرق اس ملت اسلامیہ کی زندگی میں مذہبی خراب کاری، تباہی اور ایک نسل کو دوسری نسل سے جوڑنے والے ارتباطی پلوں کو ڈھانے اور بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے سے، کن منافع اور مصالح کی تلاش میں ہیں؟
میری نظر میں یہ قضیہ بھی ان کی اسی سنہرے اور کالے سونے کو لوٹنے، اس کو غارت کرنے اور اس کو ہتھیانے کے لئے دانت تیز کرنے کی طرف پلٹتا ہے کہ سنہرے اور کالے سونے پر قبضہ جمالیں۔
بیشک اگر مذہب اور دین کی بنیادیں گہرائی میں اتری ہوئی ہوں تو اس کے ذریعہ امت مسلمہ ہر قسم کی غارت گری، بربادی اور نظامی حملوں کاقطعی طور پر مقابلہ کی صلاحیت اور استعداد پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ خاصیت، ہر گہری جڑ رکھنے والی تہذیب و تمدن میں پائی جاتی ہے۔ (یعنی جو قوم و ملت ان صفات اور خصوصیات کی حامل ہو اس میں ان صلاحیتوںکا پیدا ہو جانا فطری امر ہے۔ مترجم)
اسی بناپر، جب تک ایک امت اپنے گذشتہ اور اپنے تہذیب و ثقافت اور تمدن سے باہمی ربط رکھے اور اس سے منسلک رہ کر اپنی تاریخی اور ثقافتی شخصیت کی طرف متوجہ رہے تو اس کے بارے میں آگاہی ضرور حاصل کرلے گی۔ وہ قوم ہر قسم کے حملے، ناجائز قبضے اور غلط فائدے اٹھانے والوں سے مقابلہ کرتے ہوئے اجنبی لوگوں کے سیاسی اور فکری نفوذ کے مقابلہ میں اٹھ کھڑی ہوگی؛ یعنی فوراً قیام کرنے پر آمادہ ہو جائے گی اور اس طرح سے فتح و ظفر اور کامیابی اس کے قدم چومنے لگے گی۔
مغربی افراد، اپنا تسلط جمانے اور مسلمانوں کے درمیان نفوذ پیدا کرنے کے لئے مسلمانوں کے درمیان وارد ہو گئے، تاکہ ان کو ہر طرف سے لوٹیں اورطرح طرح کے بہانے بنا کر ہر ممکنہ تدبیر کے ذریعہ ان کے درمیان اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔ البتہ مغربی دنیا یہ جانتی ہے کہ امت مسلمہ کسی بھی اجنبی اور غیرکی دخالت کو برداشت نہیں کرسکتی۔ لہٰذا وہ ہر قسم کے قبضہ اور تسلط کے مقابلہ میں قیام کرنے پر آمادہ ہوجائے گی۔ وہ قوم اس نکتہ کی طرف متوجہ ہے کہ اس میں پائیداری، استحکام اور استواری کی بنیاد، دین، تہذیب و ثقافت اور عقل و خرد کی سوغات دینے والا صرف اسلامی تمدن ہی ہے، جو اس قوم کے دل و دماغ میں راسخ ہے۔ لہذا اس بات کا امکان بھی نہیں پایا جاتا ہے کہ اجنبی لوگ مسلمانوں کے خزانوں اور ان کے مال و دولت کی طرف تیکھی نظر سے دیکھ لیں یعنی ان کی دولت پر ڈاکہ ڈالنے کامنصوبہ بنائیں، لیکن اس مقام پر یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ امت مسلمہ پہلے ہی سے اپنے آپ اور اپنے اولاد کی افکار کو اپنے قبضہ میں لے کر اس پر کڑا پہرا لگائے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سے اس بات کا بھی امکان نہیں پایا جاتا کہ مسلمانوں کے مال و دولت اور ثروت کی طرف کوئی اجنبی، غلط فائدہ اٹھانے کے لئے کوئی راستہ کھوج نکالے؛ اس سے پیشتر ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے راستہ کو دین اور مذہب کے اصولوں پر استوار کر لیں اور اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے، احساس ذمہ داری کے تحت اپنی وراثتوں کی حفاظت کریں۔
عالمی سامراج و استکبار کے منصوبوں کو بروئے کار لانے اور ان کو ہر قیمت پر کامیاب بنانے والے، ان تمام حقیقتوں کو بخوبی جانتے ہیں اور اس مشکل کو بر طرف کرنے اور اس استقامت سے مقابلہ کی فکر کو جڑ سے مٹانے کے لئے بڑی ہی سنجیدگی سے مشغول ہیں؛ اپنے مقصد کے حصول کے لئے ایک لمحہ بھی فروگذار نہیں کرتے۔ ہمہ تن گوش اپنی تحریک کی کامیابی کی چارہ جوئی میں لگے ہوئے ہیں۔ (لہٰذا مسلمانوں کا بھی عینی فرض بنتاہے کہ وہ دشمن اور اس کے حربہ سے ایک آن کے لئے بھی غافل نہ ہوں نیز دشمن سے مقابلہ کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں۔ مترجم)

اسلامی ثقافت کو بے اہمیت بنانے کا منصوبہ
اسی وقت تہذیب و ثقافت کو بے اہمیت بنانے کا منصوبہ کامیاب ہوسکتا ہے جب امت اسلامی اپنی ثقافت کھو بیٹھے اور بے بند و بار ہو جائے تو ایسی صورت حال کے مدنظر، اس قوم میں دشمن سے مقابلہ اور استقامت کی قدرت باقی نہیں رہ جاتی ہے۔ عالم استکبار کو دنیائے اسلام سے منافع حاصل کرنے کے لئے دائمی مراکز قائم کرنے کا خواب و خیال دل و دماغ سے نکال دینا چاہئے؛ اس لئے کہ یہ خواب اپنی تعبیر کو حاصل نہ کر پائے گا اور فرنگیوں کو زبوں حال و سر خوردہ، بڑی ہی ذلت وخواری سے الٹے پاؤں واپس پلٹنا پڑے گا۔
انہیں اسباب و عوامل کے تحت اگر مسلمان لوگ غفلت برتیں تو ملت اسلامیہ اپنے ثقافتی اقدار اور اس پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں پر عمل نہ کرے اور اگر اپنی گذشتہ وراثتوں اور قدیم تمدن سے یکسر قطع رابطہ کرلے تو بہت ہی آسانی سے دوسری قومیں تسلط حاصل کر کے ہماری ثقافت پر قابض ہو جائیں گی اور مسلمانوں پر ہر اعتبار سے مسلط ہو جائیں گی۔ آخر کار مسلمانوں کو مجبور ہو کر غیروں کی برتری کو قبول ہی کر لینا پڑے گا۔ ایسی صورت حال میں دشمن مال، دولت و ثروت اور خشکی و نی تمام چیزوں پر اپنا قبضہ جما لینے پر قادر ہو جائے گا۔
وہ ارتباطی پل جو ہمارے حال کو ماضی سے جوڑتے اور اسی طرح وراثتوں اور ثقافتوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ملا دیتے ہیں، وہ تمام کے تمام پل منہدم کردئے جائیں گے۔ اس طرح سے دشمنوں کا اپنے مقصد کو جامۂ عمل پہنانے کا تصور ممکن ہو جائے گا۔ ایسی حالت میں عالمی استکبار ارتباطی پلوں کے منہدم کردینے کا جرأت مندانہ اظہار کرنے پر کمر بستہ ہو جائے گا، اس طرح سے دور حاضر (حال) کا زمانۂ ماضی سے جدائی کے تمام اسباب معلوم ہو جائیں گے۔ ہماری حالیہ سیاسی اور ثقافتی زندگی میں بہت بڑا فاجعہ اور بلا کی مصیبت، رو نما ہو نے لگیں گی اور طرح طرح کی فضیحتیں د امن گیر ہو جائیں گی، اور تاریخ ان سیاہ کارناموں کو من و عن ثبت کرلے گی۔

مغرب پرستی کی علامتیں یا اسلامی ثقافت کا انہدام
یہاں پر مغربی تمدن کی طرف جھکاؤ کی تحریک کے علائم یا حقیقی ثقافت سے دوری کے بارے میں بیان کریں گے تاکہ نسل نو (انقلابی نسل) مغرب (یورپ ) کے خطرناک عزائم، خاص طور سے اس وقت جب دنیا میں مسلمانوں کے درمیان ایک خاص وقت میں اپنے منصوبوں کو بروئے کار لانا چاہتے ہوں، ایسے ہنگام میں ملت اسلامیہ کو زیادہ سے زیادہ آگاہی حاصل کرکے اسلام دشمن طاقتوں کے چھکے چھڑا دینا چاہئے۔
گذشتہ زمانہ میں مغربی دنیا کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ عثمانی حکومت کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے، اس طرح سے کہ پھر سے اس میں آثار حیات پیدا نہ ہونے پائیں۔ عثمانی حکومت (اپنی تمام آشکارا کمیوں اور خامیوں کے باوجود) ایک سیاسی مرکز، فوجی اور اقتصادی اعتبار سے پورے علاقے میں قوی اور مقتدر (حکومت) نظام محسوب ہوتا تھا کہ اسلامی دنیا، مغربی طمع کاریوں کے مقابلہ میں ڈٹ کر اس کا منھ توڑ جواب دے رہا تھا۔
آخرکار ١٣٤٢ ہجری شمسی مطابق ١٩٢٢ ء میں مغربی دنیا عثمانی حکومت کی بساط کو الٹ دینے پر قادر ہوگئی؛ اس کے بعد جب پورے طور پر ضعیف اور کمزور ہوکر یہ نظام ٹوٹ گیا تو ایسی صورت میں خلیفۂ وقت کو خلافتی اور دولتی امور میں صرف نماز جمعہ اور اس کے خطبہ دینے کی اجازت تھی، اپنے محل اور درباریوں کے علاوہ اسے کوئی اختیار حاصل نہیں تھا، خلیفۂ وقت کا اقتدار انھیں جزوی چیزوں میں سمٹ کر رہ گیا تھا۔
عثمانی حکومت کے ٹوٹ جانے کے بعد مغربی خونخوار درندوں نے چین کا سانس لیا۔ اس طرح مسلمانوں کے درمیان قوی اور مقتدر سیاسی اور بانفوذ طاقت ختم ہو گئی۔ اس طرح یہ میدان دشمنوں کے لئے بالکل خالی ہو گیا۔ نتیجتاً مغربی افکار نے اپنے اثر و رسوخ بڑھانا شروع کردیا اور امت اسلامیہ کو ان کی ثقافت اور مذہب سے سوچی سمجھی اور منظم سیاست کے تحت دور کرنا شروع کردیا۔ ایک تحریک پہلے ہی سے پھل پھول اور رفتہ رفتہ پروان چڑھ رہی تھی، لیکن عثمانی حکومت کے ٹوٹتے ہی زندگی کے تمام گوشوں میں غیر معمولی تبدیلی محسوس ہونے لگی، دیکھتے ہی دیکھتے خاصی تبدیلی پیدا ہوگئی۔ وہ حکام جنھوں نے مغربی رجحان کی ٹھیک ایسے وقت میں حمایت کی جب عثمانی حکومت خاتمہ کے دہانے پر کھڑی اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔