|
دینی اور ثقافتی وراثت
دینی میراث اور اس کے مقدسات کا بعد والی نسلوں میں منتقل کرنا، افکار و عقائد، رسم و رواج اور عمل کا ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے کا نام دینی ثقافت ہے۔ اس میراث کو منتقل کرنے کے کچھ قواعد و ضوابط ہیں؛ جیسا کہ نباتات، اور انسانوں کی زندگی کے لئے بھی کچھ قواعد و ضوابط مقرر کئے گئے ہیں۔
ان قوانین پر عمل کر نے کے سبب، مذہب کو اس کی تمام ذاتی وراثتوں کے ساتھ بخوبی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کیا جا سکتا ہے، چنانچہ جس مقام پر گذشتہ نسل کا خاتمہ ہوتا ہے وہیں سے آنے والی دوسری نسل کا آغاز ہوتا ہے۔ انھیں اسباب کے ذریعہ، اس عظیم دینی اور فکری تحریک کا آغاز جو حضرت آدم سے لے کر حضرت ابراہیم، نوح، موسیٰ، عیسیٰ علیھم السلام اور حضرت محمد مصطفےٰ ۖ کے ذریعہ ہم تک پہونچا ہے۔ ہم بھی اسی مستحکم اور استوار ماضی کا ایک حصہ اور تاریخ کی گہرائیوں میں انھیں عمیق اور طولانی جڑوں کی شاخوں میں ہمارا شمار ہوتا ہے۔ ان اسلامی معارف اور عقائد کے خزانوں کو دینی میراث کے ذریعہ اس کے مقدسات کو سینہ بہ سینہ اور نسل در نسل منتقل کرنے میں مشغول ہیں۔
بیشک، یکے بعد دیگرے، ان ارتباطی پُلوں کی حفاظت نے، مذہبی وراثت کے انتقال کے کام میں سرعت بخشی ہے، جیسا کہ ان ارتباطی پُلوں میں رکاوٹ ایجاد کرنا اور ان کو ڈھا دینا، ایک نسل سے دوسری نسلوں کے درمیان بہت بڑی رکاوٹ سدّ راہ محسوب ہوگی۔
نتیجتاً اگر ان ارتباطی پُلوں کی فعاّلیت کو سماج میں مذہبی فرائض کی انجام دہی سے روک دیا جائے، تو بیشک نسل حاضر کا گذشتہ نسلوں اور آنے والی تمام نسلوں کے درمیان یکسر رابطہ ختم ہو جائے گا۔
اور وہ اہمیت کے حامل خاص ارتباطی پُل مندرجہ ذیل ہیں:
(١) گھر
(٢) مدرسہ
(٣) مسجد
ان تینوں ارتباطی پُلوں کے ذریعہ ہمیشہ سیاست اور دین کی جدائی کے مسئلہ میں دینی تحریک (یعنی دین اور سیاست میں جدائی ممکن نہیں ہے) ہمیشہ آگے آگے اور پیش قدم رہی ہے، زمانہ حاضر کو گذشتہ زمانہ سے اور اولاد کو ان کے باپ دادائوں (آباء اجداد) سے اس طرح منسلک کر دیا ہے جس طرح تسبیح کے دانوں کو ایک دوسرے سے پرو دیا جاتا ہے۔ گھر، مدرسہ (School) اور مسجد کے اس اہم اور کلیدی کردار کے ذریعہ جو مذہب کی تبلیغ و ترویج اور نسلوں کو ا پس میں ایک دوسرے سے جوڑنے کا وسیلہ ہیں۔ دین اسلام نے ان تینوں مراکز پر خصوصی توجہ مبذول کرائی ہے اور ان کے ساز و کار پر خاص توجہ رکھنے کی سفارش اور نصیحت کی ہے۔ اب ان تمام باتوں کے بیان کرنے کے بعد ہم ان پُلوں کے کلیدی اور اساسی کردار ادا کرنے کے بارے میں درج ذیل عبارت میں اختصار سے وضاحت کررہے ہیں:
گھر(١)
یہاں گھر سے مراد گھرانہ ہے۔ جوانوں میں دینی وراثت کو منتقل کرنے میں گھر اور گھر والوں کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے؛ اس لئے کہ عقائد کی بنیادیں ایک بچہ کی شخصیت کے نکھار پر موقوف ہیں۔ اس کی شخصیت میں نکھار گھر اور گھر والوں سے وجود میں آتا ہے۔ یہ بنیادی چیزیں انسان کی شخصیت کو اجاگر کرنے میں اس کے مستقبل کے حوالہ سے بہت تیزی سے اثر انداز ہوتی ہیں۔
مولائے کائنات امیر المؤمنین حضرت علی نے امام حسن مجتبیٰ سے فرمایا:
( اِنَّمَا قَلْبُ الْحَدَثِ کَالْاَرْضِ الْخَالِیَّةِ، مَا اُُلْقَِ فِیْھَا مِنْ شَْئٍِ قَبِلَتْہُ، فَبَادَرْتُکَ بِالْاَدَبِ قَبْلَ اَنْ یَّقْسُوَ قَلْبُکَ وَ یَشْتَغِلُ لُبُّکَ)َ (١)
''بچہ کا دل اس آمادہ زمین کے مانند ہے کہ اس میں جو بھی چیز ڈالی جاتی ہے، وہ اس کو قبول کر لیتی ہے، اسی لئے میں نے تمھیں پہلے ادب سکھانا شروع کردیا، قبل اس کے
..............
(١)نہج البلاغة صبحی صالح ص٣٩٣۔
کہ تمہارا دل سخت ہو جائے اور تمہارے سر میں کوئی دوسرا سودا پرورش پانے لگے'' (یعنی تمہاری فکر تم کو دوسرے امور میں مشغول کردے۔)
ہر گھر کی سلامتی اور امنیت اس کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے، لڑکوں کو صحیح تربیت دینے میں سلامتی کے اثرات بہت زیادہ ہیں اور ان کو کلیدی حیثیت حاصل ہے؛ جیسا کہ گھر کے اندر کا فساد (فاسد گھرانہ) نسل نو کو فساد میں آلودہ کرنے اور جوانوں کو برباد کرنے میں اساسی اور اہم کردار ادا کرتا ہے۔
رسول اکرم ۖ سے روایت کی گئی ہے:
( مَا مِنْ بَیْتٍ لَیْسَ فِیْہِ شَْئ مِنَ الْحِکْمَةِ اِلاَّ کَانَ خَرَاباً.) (١)
''جس گھر میں حکمت کا یکسر گذر نہ ہو، (یعنی حق و حقیقت کا بالکل نام و نشان بھی باقی نہ رہے) بلا شک و شبہہ یہ گھر بربادی کے دہانے پر ہے۔''
اس کے بر خلاف، صالح اور نیک گھرانہ؛ ایسا گھرانہ ہے جو اس بات پر قادر ہے کہ نسلوں کی اصلاح اور اس کے سنوارنے اور سدھارنے کی صلاحیت اور قدرت کو بڑی ہی جد و جہد اور عرق ریزی کے ساتھ بروئے کار لائے۔ مذہب کے مقدسات اور اس کی وراثت کو بڑی ہی دیانت اور امانت داری کے ساتھ اس نسل کے حوالہ کردے جس کی وہ خود پرورش کر رہا ہو۔
مولائے کائنات امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے دین، دینداری اور
..............
(١)مجمع البیان ج١، ص٣٨٢ ۔
تاریخی معلومات اور درآمدات کا خلاصہ نیز اس کے ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے کی کیفیت کو اپنے بیٹے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے اس طرح بیان فرمایا:
(اَْ بُنََّ! اِنِّ وَ اِنْ لَمْ اَکُنْ عُمِّرْتُ عُمْرَ مَنْ کَانَ قَبْلِْ، وَ قَدْ نَظَرْتُ فِ اَعْمَالِہِمْ وَ فَکَّرْتُ فِ اَخْبَارِہِمْ و َسِرْتُ فِ آثَارِہِمْ، حَتیّٰ عُدْتُ کَاَحَدِہِمْ، بَلْ کَاَنِّ بِمَاْ اِنْتَہیٰ اِلَّ مِنْ اُمُورِہِمْ قَدْ عُمِّرْتُ مَعْ اَوَّلِہِمْ اِلیٰ آخِرِہِمْ فَعَرَفْتُ صَفْوَ ذَلِکَ مِنْ کَدِرِہ، وَ نَفْعِہ مِنْ ضَرَرِہ، فَاْسْتَخْلَصْتُ لَکَ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ نَخِیْلَہُ وَ تَوَخَّیْتُ لَکَ جَمِیْلَہُ، صَرَّفْتُ عَنْکَ مَجْہُولَہ۔) (١)
''اے میرے لخت جگر! اگرچہ میں نے اتنی عمر نہیں پائی جتنی اگلے لوگوں کی ہوا کرتی تھی، لیکن میں نے ان کے اعمال میں غور و خوض کیا ہے، ان کے اخبار میں غور و فکر اور دقت کی ہے؛ ان کے آثار میں سیر و سیاحت کی ہے۔ میں صاف اور گندے کو خوب پہچانتا ہوں۔ نفع و ضرر میں امتیاز (کی صلاحیت) رکھتا ہوں۔ میں نے ہر امر کی خوب چھان بین کرکے اس کا نچوڑ اور حقیقت سامنے پیش کر دیا ہے اور سب سے اچھے کی تلاش کر لی ہے اور بے معنی چیزوں کو تم سے دور کر دیا ہے۔''
حضرت امیر المؤمنین مولائے کائنات امام علی بن ابی طالب علیہما السلام نے
روشنی ڈالی ہے، جس میں آپ نے اپنی حد درجہ عالی تربیت و پرورش نیز حضرت کی شخصیت کی تعمیر میں کن کن چیزوں کی رعایت کی گئی اس کی اس طرح خبر دے رہے ہیں:
..............
(١)نہج البلاغة نامہ ٣١۔
(و َقَدْ عَلِمْتُمْ مَوْضِعِ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ۖ بِالْقَرَابَةِ الْقَرِیْبَةِ و َالْمَنْزِلَةِ الْخَصِیْصَةِ، وَضَعَنِ فِ حِجْرِہ وَ اَنَا وَلَد یَضُمُّنِ اِلیٰ صَدْرِہ، وَ یَکْنِفُنِ فِ فَرَاشِہ و َیَمَسُّنِ جَسَدَہُ، یَشُمُّنِ عِرْفَہُ، وَ کَانَ یَمْضَغُ الشَّیْئَ یُلَقِّمُنِیْہِ، و َمَا وَجَدَ لِ کَذِبْة فِ قَوْلٍ، و َلاَ خَطْلَةٍ فِ فِعْلٍِ... وَ لَقَدْ کُنْتُ اَتَّبِعُہُ اِتِّبَاعَ الْفَصِیْلِ اَثَرَ اُمِّہ یَرْفَعُ لِ فِ کُلِّ یَوْمٍ مِنْ اَخْلاَقِہ عِلْماً، و َیَأْمُرُ بِالْاِقْتِدَائِ بِہ و َلَقَدْ کَانَ یُجَاوِر ُفِ کُلِّ سَنَةٍ بِحَرَائَ فَأَرَاہُ، و َلَا یَرَاہُ غَیْرِ. وَلَمْ یَجْمَعْ بَیْت وَاحِد یَوْمَئِذٍ فِ الْاِسْلاَمِ غَیْرَ رَسُولِ اللّٰہِ ۖ وَخَدِیْجَةَ و َاَنَا ثَالِثُہُمَا. اَریٰ نُورَ الْوَحِْ وَ الرِّسَالَةِ و َاَشُمُّ رِیْحَ النُّبُوَّةِ.)(١)
''رسول اکرم ۖ کے نزدیک میرے مقام اور میری منزلت اور آپ سے میری رشتہ داری اور قرابتداری اور آپ سے میری قربت کو خوب جانتے ہو۔ انھوں نے بچپنے سے ہی مجھے اپنی گود میں لیکر اپنے سینے سے لگاتے، اپنے بستر پر سلاتے، جیسے ہی میرا جسم آپ کے بدن مبارک سے مس ہوتا تو آپ مجھے مسلسل شمیم رسالت سے سر فراز فرماتے۔ اور آپ غذا کو اپنے دانتوں سے چبا کر مجھ کو کھلاتے تھے۔ نہ انھوں نے میری گفتار میں جھوٹ کا مشاہدہ کیا، اور نہ ہی میرے اعمال و کردار میں کبھی کسی لغزش کو سرزد ہوتے ہوئے دیکھا۔ ... اور میں ہمیشہ ہر حالت (سفر و حضر) میں آپ کے ساتھ اسی طرح چلتا تھا، جیسے اونٹ کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔ ہر روز آپ اپنی اخلاقی
خصوصیات کی مجھے نشاندہی فرماتے اور پھر مجھے اس کے اتباع پر مقرر فرماتے تھے۔ آنحضرت ہر سال ایک وقت غار حرا میں جاکر خلوت اور گوشۂ تنہائی اختیار فرماتے تھے، جہاں فقط میں ہی آپ کے نور کو دیکھنے پر قادر تھا، وہاں پر کوئی اور نہ ہوتا تھا۔ اور یہ کسی اور کے بس کا روگ بھی نہ تھا۔ اس وقت رسول خدا ۖ اور خدیجہ کے علاوہ مسلمان گھر دیکھنے کو نہیں ملتے تھے، ان لوگوں کے علاوہ تیسرا صرف میں تھا۔ صرف میں نور وحی و رسالت کا مشاہدہ کرتا تھا، اور شمیم نبوت سے اپنے دل و دماغ کو معطر رکھتا تھا۔''
..............
(١)نہج البلاغة خطبہ ١٩٢،]خطبۂ قاصعہ [
| |