خلاصہ فصل
١ ۔دنیا میں انسان کی تلاش و کوشش آخرت میں اس کی بدبختی و خوشبختی میںبہت ہی اہم رول ادا کرتی ہے.
٢۔ دنیا وآخرت کے رابطے کے سلسلہ میں گفتگو کرنا اس جہت سے ضروری ہے کہ موت کے بعدکی دنیا پرعقیدہ رکھنا صرف اس دنیا ہی میں ہمارے اختیاری اعمال ورفتار پرموثر نہیںہے بلکہ اس وقت یہ عقیدہ ثمر بخش ہے جب انسان کے اعمال ورفتار اور دنیا میں اس کے طریقۂ زندگی اور آخرت میں اس کی کیفیت زندگی کے درمیان رابطہ کا یقین رکھتے ہوں.
٣۔ ایمان وعمل صالح کی سعادت اور کفر وگناہ کااخروی بد بختی کے درمیان ایک حقیقی رابطہ ہے.اس طرح کہ آخرت میں انسان کے اعمال ملکوتیصورت میں ظاہری ہوتے ہیں اوراس کا وجود ملکوتی ہی آخرت میں حقیقی عمل نیزسزا اور جزا ہے۔
٤۔ آخرت کی زندگی میں لوگ فقط اپنے اعمال کے نتائج دیکھتے ہیں اور کوئی کسی کے نتائج
اچھے اور برے اعمال ،حبط و تکفیر ہونے کے علاوہ اس دنیا میں انسان کی توفیقات اور سلب توفیقات ، خوشی اور ناخوشی میں موثر ہیں ، مثال کے طور پر دوسروں پر احسان کرنا خصوصاً والدین اور عزیزو اقربا پر احسان کرنا آفتوں اور بلاؤں کے دفع اور طول عمر کا سبب ہوتا ہے اور بزرگوں کی بے احترامی کرنا توفیقات کے سلب ہونے کا موجب ہوتا ہے ۔ لیکن ان آثار کا مرتب ہونا اعمال کے پوری طرح سے جزا و سزا کے دریافت ہونے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ حقیقی جزا و سزا کا مقام جہان اخروی ہے ۔
(٤)شفاعت کے کردار اور اس کے شرائط کے حامل ہونے کی آگاہی اور اس سلسلہ میں بیان کئے گئے شبہات اور ان کے جوابات سے مطلع ہونے کے لئے ملحقات کی طرف مراجعہ کریں ۔
اعمال سے سوء استفادہ نہیں کرسکتاہے اور کسی کے برے اعمال کی سزا بھی نہیں قبول کرسکتا ہے .(و ان لیس للانسان الا ماسعی) ۔
٥۔آخرت میں لوگ اپنی دنیا وی حالت کے اعتبار سے چار گروہ میںتقسیم ہیں:
الف) وہ لوگ جو دنیا وآخرت کی نعمتوں سے مستفیض ہیں .
ب) وہ لوگ جو دنیا وآخرت میں محروم ہیں.
ج)وہ لوگ جو دنیا میں محروم اور آخرت میںبہرہ مند ہیں.
د)وہ لوگ جو آخرت میںمحروم اور دنیا میں بہرہ مند ہیں.
٦۔ ایمان وعمل صالح اس وقت فائدہ مند ہیں جب انسان، آخری عمر تک اپنے ایمان کی حفاظت کرے۔
تمرین
١۔ عمرکے آخری حصہ میں کافر ہوجانے کی وجہ سے کیاکسی انسان کے تمام اعمال صالحہ کے تباہ وبرباد ہوجانے کی کوئی عقلی توجیہ پیش کی جا سکتی ہے؟اور کس طرح؟
٢۔ انسان کا حقیقی کمال نیز بد بختی اور خوشبختی کے مسئلہ میں معاد کو تسلیم کرنے والوں کے نظریات اور منکرین معاد کے نظریات کا اختلاف کس چیز میں ہے ؟ مفہوم ومصداق میں یا دونوں میں یا کسی اور چیز میں ہے وضاحت کریں؟
٣۔ اگر ہر انسان عالم آخرت میں فقط اپنے اعمال کا نتیجہ پاتا ہے تو سورہ نحل کی ٢٥ویںآیہ سے مراد کیا ہے ؟
٤۔دنیاوی زندگی میں مندرجہ ذیل اقسامِ رابطہ میں سے کون سارابطہ مفید ہے ؟ اورکو ن سا آخرت میں مفید نہیں ہے؟
۔الف ۔ خاندانی رابطہ .ب۔ دوستی کا رابطہ. ج۔ اعتباری اور وضعی رابطہ (اعتباری اور وضعی قوانین ) (تکوینی رابطہ)(علّی قوانین)۔
٥۔ مرے ہوے لوگوں کی اخروی زندگی میں ،زندہ لوگوں کی دعاؤں کا کیا اثرہے اور کس طرح اس حقیقت (کہ ہر انسان فقط اپنے نتیجہ اعمال کو پاتا ہے)سے سازگار ہے؟
مزید مطالعہ کے لئے :
۔حسینی طہرانی ، محمد حسین ؛ ( ١٤٠٧)معاد شناسی ؛ ج٩، تہران : حکمت ۔
۔جوادی آملی ، عبد اللہ ؛ ( ١٣٦٣) دہ مقالہ پیرامون مبدأ و معاد ؛ تہران : الزہراء
۔محمد حسین طباطبائی ؛ ( ١٣٥٩) فرازھای از اسلام ؛ تہران : جہان آراء
۔ محمد تقی مصباح ( ١٣٧٠) آموزش عقاید ؛ ج٣ ، تہران : سازمان تبلیغات اسلامی .
۔(١٣٦٧) معارف قرآن ( جہان شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) ؛ قم : موسسہ درراہ حق ۔
۔مطہری ، مرتضی (١٣٦٨) مجموعہ آثار ؛ ج١، تہران : صدرا ۔
۔مطہری ، مرتضی (١٣٦٩)مجموعہ آثار ؛ ج٢ تہران : صدرا ۔
۔ مطہری ، مرتضی (١٣٥٤) سیری در نہج البلاغہ ؛قم : دار التبلیغ اسلامی ۔
ملحقات
١۔ شفاعت
شفاعت ، شفع (جفت ،زوج ) سے لیا گیا ہے.اور عرف میں یہ معنی ہے کہ کوئی عزت دار شخص کسی بزرگ سے خواہش کرے کہ وہ اس کے (جس کی شفاعت کر رہا ہے )جرم کی سزا معاف کردے. یا خدمت گذار فرد کی جزا میں اضافہ کردے ۔
شفاعت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان، شفیع کی مدد کے بغیر سزا سے بچنے یا جزا کے ملنے کے لائق نہیں ہے لیکن شفیع کی درخواست سے اس کے لئے یہ حق حاصل ہوجائے گا۔
شفاعت ،برائیوں سے توبہ وتکفیر کے علاوہ ہے گنہگاروں کی امید کی آخری کرن اور خداوندعالم کی رحمت کا سب سے عظیم مظہر ہے. شفاعت کامعنی شفیع کی طرف سے خدا وند عالم پر اثر انداز ہونا نہیں ہے .شفاعت کا انکار کرنے والی آیات سے مراد جیسے(لا یُقبَلُ مِنھَا شَفَاعَة)''سورہ بقرہ ٤٨و١٢٣''کی آیہ کے یہی معنی ہے.لفظ شفاعت کبھی وسیع تر معنی یعنی دوسرے انسان کے ذریعہ کسی انسان کے لئے کسی طرح سے اثر خیر ظاہر ہونے میں استعمال ہوتا ہے.جیسے فرزندوں کے لئے والدین کا موثر ہونا اور اس کے برعکس یعنی والدین کے لئے بچوں کا موثر ہونایا اساتید اور رہنما حضرات کاشاگردوں اور ہدایت پانے والوں کے حوالے سے حتی مؤذن کی آواز ان لوگوں کے لئے جو اس کی آواز سے نماز کو یاد کرتے ہیں اور مسجد جاتے ہیں .شفاعت کہا جاتاہے .وہی اثر خیر جو دنیا میں تھا آخرت میں شفاعت کی صورت میں ظاہر ہوگا جس طرح گناہوں کے لئے استغفارنیزدوسرے دنیاوی حاجات کے پورا ہونے کے لئے دعا کرنے کو شفاعت کہا جاتاہے۔
شفاعت کے مندرجہ ذیل قوانین ہیں:
الف) خداوند عالم کی طرف سے شفیع کو اجازت .
ب) شفاعت پانے والوں کے اعمال نیز اس کی اہمیت و عظمت سے شفاعت کرنے والوں کا آگاہ ہونا۔
ج) دین وایمان کے حوالے سے شفاعت پانے والوں کا ممدوح اورپسندیدہ ہونا.
حقیقی شفاعت کرنے والے خداوند عالم کی طرف سے ماذون ہونے کے علاوہ معصیت کار اور گنہگارنہ ہوں . اہل اطاعت ومعصیت کے مراتب کو پرکھنے کی ان کے اندر صلاحیت ہونیز شفاعت کرنے والوں کے ماننے والے بھی کم ترین درجہ کے شفیع ہوں ،دوسری طرف وہی شفاعت پانے کے قابل ہیں جو خدا وند کریم کی اجازت کے علاوہ خدا، انبیاء حشر اور وہ تمام چیزیں جو خدا وند عالم نے اپنے انبیاء پر نازل فرمائی ہیں منجملہ ''شفاعت''پر حقیقی ایمان رکھتے ہوں اور زندگی کے آخری لمحہ تک اپنے ایمان کو محفوظ رکھے ہوں اور جو لوگ نماز کو ترک کریںاور فقرا کی مدد نہ کریں نیزروز قیامت کی تکذیب کریںاور خود شفاعت سے انکار کریں یااس کو ہلکا سمجھیں توایسے لوگ شفاعت سے محروم ہیں.
اس دنیا میں شفیع کی شفاعت کا قبول کرنا شفیع کی ہمنشینی اور محبت کی لذت کے ختم ہوجانے کاخوف یا شفیع کی طرف سے ضرر پہونچنے کا اندیشہ یا شفیع سے شفاعت کے قبول کرنے کی ضرورت کی وجہ سے شفاعت انجام پاتی ہے لیکن خداوند عالم کی بارگاہ میں شفاعت کرنے والوںکی شفاعت کے قبول ہونے کی دلیل مذکورہ امور نہیں ہیں بلکہ خدا وند عالم کی وسیع رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ جو لوگ دائمی رحمت کے حاصل کرنے کی بہت کم صلاحیت رکھتے ہیں ان کے لئے شرائط وضوابط کے ساتھ کوئی راستہ فراہم کرنے کا نام شفاعت ہے ۔
٢۔ شفاعت کے بارے میں اعتراضات و شبہات
شفاعت کے بارے میں بہت سے اعتراضات و شبہات بیان کئے گئے، یہاں پرہم ان میں سے بعض اہم اعتراضات و شبہات کا تجزیہ کریں گے۔
پہلا شبہہ :پہلا شبہہ یہ ہے کہ بعض آیات قرآنی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ روز قیامت کسی کی بھی شفاعت قبول نہیںکی جائے گی جیسا کہ سورہ بقرہ کی ٤٨ویں آیہ میں فرماتا ہے:
(وَ اتَّقُوا یَوماً لا تَجزِی نَفس عَن نَّفسٍ شَیئاً وَ لا یُقبَلُ مِنھَا شَفَاعَة
وَ لا یُؤخَذُ مِنھَا عَدل وَ لا ھُم یُنصَرُونَ)
جواب: اس طرح کی آیات بغیر قاعدہ وقانون کے مطلقاًاور مستقل شفاعت کی نفی کرتی ہیں بلکہ جو لوگ شفاعت کے معتقد ہیں وہ مزیداس بات کے قائل ہیں کہ مذکورہ آیات عام ہیں جو ان آیات کے ذریعہ جو خدا کی اجازت اور مخصوص قواعد وضوابط کے تحت شفاعت کے قبول کرنے پر دلالت کرتی ہیں تخصیص دی جاتی ہیں جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے۔
دوسرا شبہہ: شفاعت کے صحیح ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ خداوند عالم شفاعت کرنے والوں کے زیر اثر قرار پائے یعنی ان لوگوں کی شفاعت فعل الہی یعنی مغفرت کا سبب ہوگی.
جواب : شفاعت کا قبول کرنا زیر اثر ہونے کی معنی میں نہیں ہے جس طرح توبہ اور دعا کا قبول ہونا بھی مذکورہ غلط لازمہ نہیں رکھتا ہے. اس لئے کہ ان تمام موارد میں بندوں کے افعال کا اس طرح شائستہ و سزاوار ہونا ہے کہ وہ رحمت الہٰی کو جذب کرنے کا باعث بن سکیں، اصطلاحاًقابل کی شرط قابلیت اور فاعل کی شرط فاعلیت نہیں ہے۔
تیسرا شبہہ : شفاعت کا لازمہ یہ ہے کہ شفاعت کرنے والے خدا سے زیادہ مہربان ہوں ، اس لئے کہ فرض یہ ہے کہ اگر ان کی شفاعت نہ ہوتی تویہ گنہگار لوگ عذابمیں مبتلا ہوجاتے ،یا ہمیشہ معذّب رہتے .
جواب:شفاعت کرنے والوں کی مہربانی اور ہمدردی بھی خداوند عالم کی بے انتہا رحمت کی جھلک ہے . دوسرے لفظوں میں ، شفاعت وہ وسیلہ اور راہ ہے جسے خداوند عالم نے خود اپنے بندوں کے گناہوں کو بخشنے کے لئے قرار دیا ہے اور جیسا کہ اشارہ ہو ا کہ اسکی عظیم رحمتوں کا جلوہ اور کرشمہ اس کے منتخب بندوں میں ظاہر ہوتا ہے اسی طرح دعا اور توبہ بھی وہ ذرائع ہیں جنہیں خداوند عالم نے گناہوں کی بخشش اور ضروتوں کو پورا کرنے کے لئے قرار دیا ہے.
چوتھا شبہہ : اگر خداوند عالم کا گنہگاروں پرعذاب نازل کرنے کا حکم مقتضاء عدالت ہے تو ان کے لئے شفاعت کا قبول کرنا خلاف عدل ہوگا اور اگر شفاعت کو قبول کرنے کے نتیجہ میں عذاب الہی سے نجات پاناعادلانہ ہے تواس کے معنی یہ ہوئے کہ شفاعت کے انجام پانے سے پہلے عذاب کا حکم، غیر عادلانہ تھا۔
جواب : ہر حکم الٰہی (چاہے شفاعت سے پہلے عذاب کا حکم ہو یاشفاعت کے بعد نجات کا حکم ہو) عدل وحکمت کے مطابق ہے ایک حکم کا عادلانہ اور حکیمانہ ہونا دوسرے حکم کے عادلانہ اور حکیمانہ ہونے سے ناسازگار نہیں ہے،اس لئے کہ اس کاموضوع جداہے ۔
وضاحت : عذاب کا حکم ارتکاب گناہ کا تقاضا ہے. ان تقاضوں سے چشم پوشی کرنا ہی گنہگارکے حق میں شفاعت اور قبول شفاعت کے تحقق کا سبب ہوتا ہے. اور عذاب سے نجات کا حکم شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کی وجہ سے ہے، یہ موضوع اس طرح ہے کہ بلا کا دعا یا صدقہ دینے سے پہلے مقدر ہونا یا دعا اور صدقہ کے بعد بلا کا ٹل جانا ہی حکیمانہ فعل ہے۔
پانچواں شبہہ: خداوند متعال نے شیطان کی پیروی کوعذاب دوزخ میں گرفتارہونے کا سبب بتایاہے جیسا کہ سورہ حجر کی ٤٢و٤٣ویں آیہ میں فرماتا ہے:
(ِنَّ عِبَادِی لَیسَ لَکَ عَلَیھِم سُلطَان ِلا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الغَاوِینَ ٭
وَ نَّ جَہَنَّمَ لَمَوعِدُھُم أَجمَعِینَ)
جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تجھے کسی طرح کی حکومت نہ ہوگی مگرصرف گمراہوں
میں سے جو تیری پیروی کرے اور ہاں ان سب کے واسطے وعدہ بس جہنم ہے ۔
آخرت میں گنہگاروںپر عذاب نازل کرنا ایک سنت الہی ہے اور سنت الہی غیر قابل تغیر ہے جیسا کہ سورہ فاطرکی ٤٣ویں آیہ میں فرماتا ہے کہ:
(فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبدِیلاً وَ لَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحوِیلاً)
ہرگز خدا کی سنت میں تبدیلی نہیں آئیگی اور ہرگز خدا کی سنت میں تغیر نہیں پیدا ہوگاجب یہ بات طے ہے تو کیسے ممکن ہے کہ شفاعت کے ذریعہ خدا کی سنت نقض ہوجائے اور اس میں تغیر پیدا ہو جائے ۔
جواب : جس طرح گنہگاروں پر عذاب نازل کرنا ایک سنت ہے اسی طرح واجد شرائط گنہگاروں کے لئے شفاعت قبول کرنا بھی ایک غیر قابل تغیر الٰہی سنت ہے لہٰذا دونوں پر ایک ساتھ توجہ کرنا چاہئیے ، خدا وند عالم کی مختلف سنتیں ایک ساتھ پائی جاتی ہیں ان میں جس کا معیار و اعتبار زیادہ قوی ہوگا وہ دوسرے پر حاکم ہوجاتی ہے۔
چھٹا شبہہ : وعدۂ شفاعت ، غلط راہوں اور گناہوں کے ارتکاب میں لوگوں کی جرأت کا سبب ہوتا ہے۔
جواب : شفاعت ومغفرت ہونا مشروط ہے بعض ایسی شرطوں سے کہ گنہگار اس کے حصول کا یقین پیدا نہیں کرسکتا ہے. شفاعت کے شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ اپنے ایمان کو اپنی زندگی کے آخری لمحات تک محفوظ رکھے اور ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی ایسی شرط کے تحقق پر یقین (کہ ہمارا ایمان آخری لمحہ تک محفوظ رہے گا)نہیںرکھ سکتا ہے. دوسری طرف جو مرتکب گناہ ہوتا ہے اگر اس کے لئے بخشش کی کوئی امید اور توقع نہ ہو تووہ مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہوجائے گا اور یہی نا امیدی اس میں ترک گناہ کے انگیزے کو ضعیف کردے گی اور آخر کار خطاو انحراف کی طرف مائل ہوجائے گا اسی لئے خدائی مربیوں کا طریقۂ تربیت یہ رہاہے کہ وہ ہمیشہ لوگوں کو خوف و امید کے درمیان باقی رکھتے ہیں. نہ ہی رحمت خدا سے اتنا امید وار کرتے ہیں کہ خدا وند عالم کے عذاب سے محفوظ ہوجائیں اور نہ ہی ان کو عذاب سے اتنا ڈراتے ہیں کہ وہ رحمت الٰہی سے مایوس ہوجائیں. اور ہمیں معلوم ہے کہ رحمت الٰہی سے مایوس اور محفوظ ہونا گناہ کبیرہ شمار ہوتا ہے.
ساتواںشبہہ: عذاب سے بچنے میں شفاعت کی تاثیر یعنی گنہگار شخص کو بد بختی سے بچانے اور سعادت میں دوسروں (شفاعت کرنے والے) کے فعل کا موثر ہونا ہے. جبکہ سورہ نجم ٣٩ویںآیہ کا تقاضا یہ ہے کہ فقط یہ انسان کی اپنی کوشش ہے جو اسے خوشبخت بناتی ہے۔
جواب : مننرل مقصود کو پانے کے لئے کبھی خود انسان کی کوششہوتی ہے جو آخری منزل تک جاری رہتی ہے اور کبھی مقدمات اور واسطوں کے فراہم کرنے سے انجام پاتی ہے. جو شخص مورد شفاعت قرار پاتا ہے وہ بھی مقدمات سعادت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے. اس لئے کہ ایمان لانا اور استحقاق شفاعت کے شرائط کا حاصل کرنا حصول سعادت کی راہ میں ایک طرح کی کوشش شمار ہوتی ہے . چاہے وہ تلاش ایک ناقص و بے فائدہ کیوں نہ ہو. اسی وجہ سے مدتوں برزخ کی سختیوں اور غموں میں گرفتار ہونے کے بعد انسان میدان محشر میں وارد ہوگا لیکن بہر حال خودہی سعادت کے بیج (یعنی ایمان ) کو اپنے زمین دل میں بوئے اور اس کو اپنے اچھے اعمال سے آبیاری کرے اس طرح کہ اپنی عمر کے آخری لمحات تک خشک نہ ہونے دے تویہ اس کی انتہائی سعادت و خوشبختی ہے جو خود اسی کی تلاش و کوشش کا نتیجہ ہے. اگر چہ شفاعت کرنے والے بھی ایک طرح سے اس درخت کے ثمر بخش ہونے میں موثر ہیں جس طرح اس دنیا میں بھی بعض لوگ بعض دوسرے افراد کی تربیت و ہدایت میں موثر واقع ہوتے ہیں لیکن ان کی یہ تاثیر اس شخص کے تلاش و جستجو کی نفی کا معنی نہیں دیتی ہے.(١)
..............
(١)ملاحظہ ہو: محمد تقی مصباح ؛ آموزش عقاید ؛ ج٣ سازمان تبلیغات ، تہران ١٣٧٠۔
فہرست منابع
١۔قرآن کریم ۔
٢۔آرن ،ریمن ( ١٣٧٠) مراحل اساسی اندیشہ در جامعہ شناسی ، ترجمہ باقر پرھام ، تہران : انتشارات آموزش انقلاب اسلامی ۔
٣۔آلوسی ، سید محمود ( ١٤٠٨) روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی ، بیروت : دار الفکر۔
٤۔ابوزید ، منیٰ احمد (١٤١٤) الانسان فی الفلسفة الاسلامیة ، بیروت : مؤسسة الجامعیة للدراسات ۔
٥۔احمدی ، بابک ( ١٣٧٣) مدرنیتہ و اندیشہ انتقادی ، تہران : مرکز ۔
٦۔احمدی بابک ( ١٣٧٧)معمای مدرنیتہ ، تہران : مرکز۔
٧۔اسٹیونسن ، لسلی( ١٣٦٨) ہفت نظریہ دربارہ طبیعت انسان ، تہران : رشد
٨۔ایزوٹسو،ٹوشی ہیکو ( ١٣٦٨)خدا و انسان در قرآن ، ترجمہ احمد آرام ، تہران : دفتر نشر فرہنگ اسلامی ۔
٩۔باربور، ایان (١٣٦٢) علم و دین ، ترجمہ بہاء الدین خرمشاہی ، تہران : مرکز نشر دانشگاہی ۔
١٠۔بارس ، بولک ،و دیگران (١٣٦٩)فرہنگ اندیشہ تو، ترجمۂ ع، پاشایی ، تہران : مازیار ۔
١١۔بدوی ، عبد الرحمٰن ( ١٩٨٤) موسوعة الفسلفة ، بیروت : الموسسة العربیة للدراسات و النشر ۔
١٢۔بوکای ، موریس ( ١٣٦٨) مقایسہ ای تطبیقی میان تورات ، انجیل ، قرآن و علم ، ترجمہ ذبیح اللہ دبیر ، تہران : نشر فرہنگ اسلامی ۔
١٣۔پاکر ، ڈوینس ( ١٣٧٠) آدم سازان ، ترجمہ حسن افشار ، تہران : بہبہارنی ۔
١٤۔پاپر، کارل ( ١٣٦٩)جستجوی ناتمام ، ترجمہ ایرج علی آبادی ، تہران ۔
١٥۔تہانوی ، محمد علی (١٩٩٦)کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم ، بیروت : مکتبة لبنان ناشرون ۔
١٦۔ڈیوس ٹونی ( ١٣٧٨)ہیومنزم ، ترجمہ عباس مخبر ، تہران : مرکز ۔
١٧۔جوادی آملی ، عبد اللہ (١٣٦٦)تفسیر موضوعی قرآن کریم : توحید و شرک، قم : نہاد نمایندگی رہبری در دانشگاہ ھا۔
١٨۔جوادی آملی ، عبد اللہ ( ١٣٧٨)تفسیر موضوعی قرآن کریم ، قم : اسرائ۔
١٩۔الحر العاملی ، محمد بن الحسن ( ١٤٠٣) وسایل الشیعہ ج١٩، تہران : المکتبة الاسلامیة ۔
٢٠۔دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ( ١٣٧٢) درآمدی بہ تعلیم و تربیت اسلامی : فلسفہ تعلیم و تربیت ، تہران : سمت ۔
٢١۔حسن زادہ ، صادق ( ١٣٧٨) اسوۂ عارفان ، قم : انتشارات امیر المومنین ۔
٢٢۔دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ (١٣٦٩)مکتبھای روان شناسی و نقد آن ، ج١، تہران : سمت ۔
٢٣۔دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ (١٣٧٢)مکتبھای روان شناسی و نقد آن ، ج٢، تہران : سمت ۔
٢٤۔ڈورانٹ ، ویل ( ١٣٧١) تاریخ تمدن ، ترجمہ صفدر تقی زادہ و ابو طالب صارمی ، ج٥، تہران ، انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی ، ایران ۔
٢٥۔ڈورکھیم ، امیل (١٣٥٩)قواعد روش جامعہ شناسی ، ترجمہ علی محمد کاردان ، تہران : دانشگاہ تہران ۔
٢٦۔رشید رضا ، محمد، المنار فی تفسیر القرآن ، بیروت : دار المعرفة ۔
٢٧۔رضی موسوی ، شریف محمد ( ١٤٠٧)نہج البلاغہ ، مصحح صبحی صالحی ، قم : دار الہجرة۔
٢٨۔رنڈل ، جان ہرمان ( ١٣٧٦) سیر تکامل عقل نوین ، ترجمہ ابو القاسم پایندہ ، تہران ، انتشارات علمی و فرہنگی ، ایران ۔
٢٩۔روزنٹال ، یودین ، و دوسرے افراد ( ١٩٧٨)الموسوعة الفلسفیة ، ترجمہ سمیر کرم ، بیروت: دار الطبیعة ۔
٣٠۔زیادہ ، معن (١٩٨٦) الموسوعة الفلسفیة العربیة ، بیروت : معہد الانماء العربی ۔
٣١۔سبحانی ، جعفر ( ١٤١١) الالہٰیات علی ضوء الکتاب و السنة و العقل ، قم : المرکز العالمی للدراسات الاسلامیة
٣٢۔شفلر ، ایزرائل (١٣٧٧)در باب استعداد ھای آدمی ( گفتاری در فلسفہ تعلیم و تربیت ) تہران : جہاد دانشگاہی ۔
٣٣۔سلطانی نسب ،رضا ، و فرہاد گرجی ( ١٣٦٨)جنین شناسی انسان ( بررسی تکامل طبیعی و غیر طبیعی انسان ، تہران : جہاد دانشگاہی ۔
٣٤۔شاکرین ، حمید رضا ''قرآن و رویان شناسی ''مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، شمارہ ٨، ص ٢٢، ٢٥۔
٣٥۔صانع پور ، مریم ( ١٣٧٨)نقدی بر مبانی معرفت شناسی ہیومنیسٹی ، تہران : دانش و اندیشہ معاصر ۔
٣٦۔صدوق ، ابو جعفر حسین ( ١٣٧٨)التوحید ، تہران : مکتبة الصدوق ۔
٣٧۔طبارہ ، عبد الفتاح ،خلق الانسان ، دراسة علمیة قرآنیة ، ج٢ بیروت۔
٣٨۔طباطبایی ، محمد حسین ( ١٣٨٨)المیزان فی تفسیر القرآن ، ج١،٢، ٧، ١٥، تہران : دار الکتب الاسلامیة ۔
٣٩۔طوسی ، خواجہ نصیر الدین (١٣٤٤) اوصاف الاشراف ، تہران : وزارت فرہنگ و ہنر ۔
٤٠۔طبرسی ، ابو علی فضل ( ١٣٧٩)مجمع البیان لعلوم القرآن ، تہران : مکتبة العلمیة الاسلامیة ۔
٤١۔طہ، فرج عبد القادر ( ١٩٩٣) موسوعة علم النفس و التحلیل النفسی ، کویت : دار السعادة الصباح ۔
٤٢۔عبودیت ، عبد الرسول (١٣٧٨)ہستی شناسی ، ج١ ، قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔
٤٣۔العطاس ، محمد نقیب (١٣٧٤)اسلام و دنیوی گروی ، ترجمہ احمد آرام ، تہران : موسسہ مطالعاتی اسلامی دانشگاہ تہران ۔
٤٤۔فرینکل ، ویکٹور امیل (١٣٧٥)انسان در جستجوی معنی ، ترجمہ اکبر معارفی ، تہران : دانشگاہ تہران
٤٥۔فرینکل ، ویکٹور امیل (١٣٧٢) پزشک روح ، ترجمہ فرخ سیف بہزاد ، تہران : درسا۔
٤٦۔فرینکل ، ویکٹور امیل (١٣٧١)ریاد ناشنیدہ معنی ، ترجمہ علی علوی نیا و مصطفی تبریزی ، ( بی جا ) یادآوران ۔
٤٧۔فولادوند ، عزت اللہ ''سیر انسان شناسی در فلسفہ غرب از یونان تاکنون ''نگاہ حوزہ ، شمارہ ٥٣، ٥٤۔
٤٨۔قاسم لو ، یعقوب ( ١٣٧٩)طبیب عاشقان ، قم : نسیم حیات ۔
٤٩۔کیسیرر، ارنسٹ ( ١٣٦٠) فلسفہ و فرہنگ ، ترجمہ بزرگ نادر زادہ ، تہران : موسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی ۔
٥٠۔کیسیرر، ارنسٹ (١٣٧٠)فلسفہ روشنگری ، ترجمہ ید اللہ موقن ، تہران : نیلوفر ۔
٥١۔کلینی ، محمد بن یعقوب ( ١٣٨٨)اصول کافی ، ج١ و ٢، تہران : دار الکتب الاسلامیہ ۔
٥٢۔کوزر ، لوئیس ( ١٣٦٨) زندگی و اندیشہ بزرگان جامعہ شناسی ، ترجمہ محسن ثلاثی ، تہران : علمی ۔
٥٣۔لالانڈ ، اینڈریو ( ١٩٩٦) موسوعة لالاند الفلسفیہ ، ترجمہ خلیل احمد خلیل بیروت : منشورات عویدات
٥٤۔لالانڈ ، اینڈریو (١٣٧٧)فرہنگ علمی انتقادی فلسفہ ، ترجمہ غلام رضا وثیق ، تہران : فردوسی ایران ۔
٥٥۔مان ، مائکل ( ١٤١٤)موسوعة العلوم الاجتماعیة ، ترجمہ عادل مختار الھواری ، مکتبة الفلاح الامارات العربیة المتحدة۔
٥٦۔مجلسی ، محمد باقر ( ١٣٦٣)بحار الانوار ج١، ٥، ١١، ٢١، ٧٦، تہران : دار الکتب الاسلامیہ ۔
٥٧۔محمد تقی مصباح ( ١٣٦٥)آموزش فلسفہ ج٢ ، تہران : سازمان تبلیغات ۔
٥٨۔محمد تقی مصباح ( ١٣٧٥)اخلاق در قرآن ، ج١ قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔
٥٩۔محمد تقی مصباح (١٣٧٦)معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔
٦٠۔محمد تقی مصباح ،خود شناسی برای خود سازی ، قم : موسسہ در راہ حق ۔
٦١۔محمد تقی مصباح (١٣٧٠)آموزش عقاید ، ج٣ تہران : سازمان تبلیغات اسلامی ۔
٦٢۔محمد تقی مصباح (١٣٦٨)جامعہ و تاریخ از دیدگاہ قرآن ، تہران : سازمان تبلیغات اسلامی ۔
٦٣۔محمد تقی مصباح ،راہنما شناسی ، قم : حوزہ علمیہ قم ۔
٦٤۔مطہری ، مرتضی ( ١٣٧٠)مجموعہ آثار ، ج٣ ، تہران : صدرا۔
٦٥۔مطہری ، مرتضی (١٣٧١)مجموعہ آثار ، ج٦ ، تہران : صدرا۔
٦٦۔مطہری ، مرتضی ( ١٣٧١)انسان کامل ، تہران : صدرا۔
٦٧۔مطہری ، مرتضی (١٣٤٥)سیری در نہج البلاغہ ، قم : دار التبلیغ اسلامی ۔
٦٨۔ملکیان ، مصطفی (١٣٧٥)اگزیستانسیالیزم ، فلسفہ عصیان و شورش ، محمد غیاثی ، قم ۔
٦٩۔نوذری ، حسین علی ، صورتبندی مدرنیتہ و پست مدرنیتہ ، تہران : چاپخانہ علمی و فرہنگی ، ایران ۔
٧٠۔نوری ، میرزا حسین ( ١٤٠٨)مستدرک الوسائل ، ج٦ ، بیروت : موسسہ آل البیت لاحیاء التراث
٧١۔واعظی ، احمد ( ١٣٧٧)انسان در اسلام ، سمت ( دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ )۔
(72) Webster Mariam,(1988)Webster's Ninth collegiate Dictionary,U.S.A.
(73)Kupet Adam,(1958)the social sciences Encyclopedia, Rotlage and Kogan paul
(74)Theodorson,George,(1969)and Acilles,G;A modern Dictionary of sociology,NEW YORK,Thomas. Y.Prowerl.
(75)Lw,R,I,Z Encyclopedia of Religion,(1974)the NEW (15th).
(76)Paul,Edward,(1976)Encyclopedia of Philosophy,NEW YORK,Macmillan.
قابل ذکر بات یہ کہ بہت سے مذکورہ منابع ،'' مزید مطالعہ ''کے عنوان سے اس کتاب کے ہرفصل کی تالیف میں مور د استفادہ واقع ہوئے ہیں ۔لیکن چونکہ ان کی معلومات اسی موضوع فصل کے تحت تھیں اور اس منابع سے ان کے استفادہ کی مقداربھی کم ہونے کی بناپر دوبارہ ذکر کرنے سے پرہیز کیا جارہا ہے ۔
خود آزمائی
١.انسان شناسی سے خداشناسی ، نبوت و معاد کے رابطہ کی وضاحت کیجئے ؟
٢.دور حاضر میں انسان شناسی کے بحران کی چار مرکزی بحثوں کو بیان کیجئے ؟
٣.ہیومنزم کے چارنتائج وپیغامات کو بیان کرتے ہوئے ہر ایک کی اختصار کے ساتھ وضاحت کیجئے ؟
٤.ہیومنزم کے تفکرات کو بیان کرتے ہوئے تبصرہ و تنقید کیجئے ؟
٥.خود فراموش انسان کی خصوصیات اور خود فراموشی کے نتائج کو بیان کرتے ہوئے کم از کم پانچ موارد کی طرف اشارہ کیجئے ؟
٦.خود فراموشی کے علاج کے عملی طریقوں کی تحلیل کیجئے ؟
٧.قرآن مجید کی تین آیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے خلقت انسان کی وضاحت کیجئے ؟
٨.انسان کے دوبعدی ہونے کی دلیلیں پیش کیجئے ؟
٩.دینی اعتبار سے انسان کی مشترکہ فطرت کا سب سے مرکزی عنصر کیا ہے ؟
١٠.فطرت کے لازوال ہونے کی سورۂ روم کی تیسویں آیہ سے وضاحت کیجئے اور مذکورہ آیہ میں (لا تبدیل لخلق اللہ )سے مراد کیا ہے وضاحت کیجئے ؟
١١.قرآنی اصطلاح میںان کلمات، روح ، نفس ، عقل و قلب کا آپس میں کیا رابطہ ہے وضاحت کیجئے ؟
١٢.کرامت انسان سے کیا مراد ہے وضاحت کرتے ہوئے قرآن کی روشنی میں اس کے اقسام کو ذکر کیجئے ؟
١٣.کیا آیۂ شریفہ ( و ما رمیت اذ رمیت و لٰکن اللہ رمی)عقیدۂ جبر کی تائید نہیں کرتی ہے ؟ اور کیوں؟
١٤.جبر الٰہی کے سلسلہ میں جو شبہات پیدا ہوئے ہیں اس کا جواب دیجئے ؟
١٥.ان تین عناصر کو بیان کیجئے جن کا انسان ہر اختیاری عمل کے انجام دینے میں محتاج ہے ؟
١٦.افعال ا نسان کے انتخاب کے معیار کی وضاحت کیجئے ؟
١٧. قرآن و روایات کی زبان میں کیوںاچھے اعمال کو ''عمل صالح ''کہا گیا ہے ؟
١٨.اسلام کی نظر میں انسان کامل کی خصوصیات کیا ہیں ؟
١٩.قرآن میںذکر کئے گئے کلماتِ دنیا اور آخرت کے تین موارد استعمال کو بیان کیجئے ؟
٢٠. اواخرعمر میںکفر کی وجہ سے کسی شخص کیتمام اچھے اعمال برباد ہو جانے کے بارے میں مناسب توجیہ پیش کیجئے ؟
|