دسویں فصل :
دنیا وآخرت کا رابطہ
اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات :
١۔ قرآن مجید میں کلمہ دنیا وآخرت کے استعمالات میں سے تیں موارد بیان کریں؟
٢۔دنیا وآخرت کے باری میں مختلف نظریات کی تجزیہ وتحلیل کریں؟
٣۔ رابطہ دنیا وآخرت کے مہم نکات کو ذکر کریں؟
٤۔ آخرت میں دنیاوی حالت سے مربوط افراد کے چار دستوں کانام ذکر کریں؟
گذشتہ فصلوں میںہم نے ذکر کیا ہے کہ انسان مادی اور حیوانی حصہ میں منحصر نہیں ہے اور نہ ہی اس کی دنیا اس کی دنیاوی زندگی میں منحصر ہے.انسان ایک دائمی مخلوق ہے جو اپنے اختیاری تلاش سے اپنی دائمی سعادت یا بد بختی کے اسباب فراہم کرتی ہے اوروہ سعادت وبد بختی محدود دنیا میں سمانے کی ظرفیت نہیں رکھتی ہے. دنیا ایک مزرعہ کی طرح ہے جس میں انسان جو کچھ بو تا ہے عالم آخرت میں وہی حاصل کرتاہے . اس فصل میں ہم کوشش کریں گے کہ ان دو عالم کا رابطہ اور دنیا میں انسان کی جستجو کا کردار ، آخرت میں اس کی سعادت وبد بختی کی نسبت کو واضح کریں ،ہم قرآن مجید کی آیتوں کی روشنی میں اس رابطہ کے غلط مفہوم ومصادیق کومشخص اورجدا کرتے ہوئے اس کی صحیح وواضح تصویر آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔
قرآن مجید میںکلمہ ٔدنیا کے مختلف استعمالات
چونکہ قرآن مجید میںلفظ دنیا وآخرت کا مختلف ومتعدد استعمال ہوا ہے.لہٰذا ہم دنیا وآخرت کے رابطے کو بیان کرنے سے پہلے ان لفظوںکے مراد کو واضح کرنا چاہتے ہیں.قرآن میں دنیا وآخرت سے مراد کبھی انسان کی زندگی کا ظرف ہے جیسے (فَأُولٰئِکَ حَبِطَت أَعمَالُھُم فِی الدُّنیَا وَ الآخِرَةِ)(١)ان لوگوں (مرتد افراد)کا انجام دیا ہوا سب کچھ دنیا و آخرت میں اکارت ہے ۔
..............
(١)بقرہ ٢١٧۔
ان دو لفظوںکے دوسرے استعمال میں دنیا وآخرت کی نعمتوں کا ارادہ ہواہے.جیسے(بَل تُؤثِرُونَ الحَیَاةَ الدُّنیَا ٭ وَ الآخِرَةُ خَیر وَ أَبقَیٰ) (١)مگر تم لوگ تو دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت کہیں بہتر اور دیر پا ہے ۔
ان دولفظوں کا تیسرا استعمال کہ جس سے مراد دنیاوآخرت میں انسان کا طریقۂ زندگی ہے، اور جو چیز اس بحث میںملحوظ ہے وہ ان دو لفظوں کا دوسرا اور تیسرا استعمال ہے یعنی اس بحث میں ہم یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں کہ طریقۂ رفتار وکردارنیز اس دنیا میں زندگی گذارنے کی کیفیت کاآخرت کی زندگی اور کیفیت سے کیا رابطہ ہے۔؟
اس سلسلہ میں تجزیہ وتحلیل کرنا اس جہت سے ضروری ہے کہ موت کے بعد کے عالم پر صرف اعتقاد رکھنا ہمارے اس دنیا میں اختیاری کردارورفتار پر اثر انداز نہیںہوتا ہے بلکہ یہ اسی وقت فائدہ مند ہے جب دنیا میں انسان کی رفتار وکردار اور اس کے طریقۂ زندگی اور آخرت میں اس کی زندگی کی کیفیت کے درمیان ایک مخصوص رابطہ کے معتقد ہوں .مثال کے طور پر اگر کوئی معتقد ہو کہ انسان کی زندگی کا ایک مرحلہ دنیا میں ہے جو موت کے آجانے کے بعد ختم ہوجاتا ہے اور آخرت میں زندگی کا دوسرا مرحلہ ہے جو اس کی دنیاوی زندگی سے کوئی رابطہ نہیں رکھتا ہے تو صرف اس جدید حیات کا عقیدہ اس کے رفتار وکردار پر کوئی اثر نہیں ڈالے گا. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کے ان مراحل کے درمیان کوئی رابطہ ہے یا نہیں ہے؟ اور اگر ہے تو کس طرح کا رابطہ ہے؟
..............
(١)سورہ اعلی ١٦ و ١٧ ۔
دنیا و آخرت کے روابط کے بارے میں پائے جانے والے نظریات کا تجزیہ
ان لوگوں کے نظریہ سے چشم پوشی کرتے ہوئے جو آخرت کی زندگی کو مادی زندگی کا دوسرا حصہ سمجھتے ہیں اسی لئے وہ اپنے مرنے والوں کے قبروں میں مادی امکانات مثال کے طور پر کھانا
اور دوسرے اسباب زینت رکھنے کے قائل ہیں،تاریخ انسانیت میں دنیا وآخرت کے درمیان تین طرح کے رابطے انسانوں کی طرف سے بیان ہوئے ہیں.
پہلا نظریہ یہ ہے کہ انسا ن اور دنیا وآخرت کے درمیان ایک مثبت اور مستقیم رابطہ ہے جو لوگ دنیا میں اچھی زندگی سے آراستہ ہیںوہ آخرت میں بھی اچھی زندگی سے ہم کنار ہوں گے ۔قرآن مجید اس سلسلہ میں فرماتاہے :
(وَ دَخَلَ جَنَّتَہُ وَ ھُوَ ظَالِم لِّنَفسِہِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَن تَبِیدَ ھٰذِہِ أَبَداً٭وَ مَا
أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَ لَئِن رُّدِدتُّ لَیٰ رَبِّی لَأَجِدَنَّ خَیراً مِنھَا مُنقَلَباً)
وہ کہ جس نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا تھا جب اپنے باغ میں داخل ہوا تو یہ کہہ رہا تھا
کہ مجھے تو اس کا گمان بھی نہیں تھا کہ کبھی یہ باغ اجڑ جائے گا اور میں تو یہ بھی خیال
نہیں کرتا تھاکہ قیامت برپاہوگی اور جب میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا
جاؤں گا تو یقینا اس سے کہیں اچھی جگہ پاؤں گا ۔(١)
سورہ فصلت کی ٥٠ویں آیہ میں بھی ہم پڑھتے ہیں :
(وَ لَئِن أَذَقنَاہُ رَحمَةً مِنَّا مِن بَعدِ ضَرَّائَ مَسَّتہُ لَیَقُولَنَّ ھٰذَا لِی وَ مَا
أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَ لَئِن رُّجِعتُ ِلَیٰ رَبِّی ِنَّ لِی عِندَہُ لَلحُسنَیٰ)
اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہونچ جانے کے بعد ہم اس کو اپنی رحمت کا مزا چکھاتے
ہیں تو یقینی کہنے لگتا ہے کہ یہ تو میرے لئے ہی ہے اور میں نہیں خیال کرتا کہ کبھی
قیامت برپا ہوگی اور اگر میں اپنے پروردگار کی طرف پلٹایا بھی جاؤں تو بھی
میرے لئییقینا اس کے یہاں بھلائی ہے ۔
..............
(١)سورہ کہف ٣٥و٣٦۔
بعض لوگوں نے بھی اس آیہ شریفہ (و َمَن کَانَ فِی ھٰذِہِ أَعمَیٰ فَھُوَ فِی الآخِرَةِ أَعمَیٰ وَ أَضَلُّ سَبِیلاً)''اور جو شخص اس دنیامیں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا اور راہ راست سے بھٹکا ہوا ہوگا''(١)کو دلیل بنا کر کہا ہے کہ: قرآن نے بھی اس مستقیم ومثبت رابطہ کو صحیح قرار دیا ہے کہ جو انسان اس دنیا میں اپنی دنیاوی زندگی کے لئے تلاش نہیںکرتا ہے اور مادی نعمتوں کو حاصل نہیں کرپاتا ہے وہ آخرت میں بھی آخرت کی نعمتوںسے محروم رہے گا.
بعض لوگوں نے اس رابطے کے برعکس نظریہ ذکر کیا ہے ان لوگوںکاکہنا ہے کہ ہر قسم کی اس دنیا میں لطف اندوزی اور عیش پرستی، آخرت میں غم واندوہ کا باعث ہے اور اس دنیا میں ہر طرح کی محرومیت،آخرت میں آسودگی اور خوشبختی کاپیش خیمہ ہے،یہ لوگ شاید یہ خیال کرتے ہیںکہ ہم دو زندگی اور ایک روزی و نعمت کے مالک ہیں اور اگر اس دنیا میں اس سے بہرہ مند ہوئے تو آخرت میں محروم ہوں گے اور اگریہاں محروم رہے تو اس دنیا میں حاصل کرلیں گے۔
یہ نظریہ بعض معاد کا اعتقاد رکھنے والوں کی طرف سے مورد تائید ہے اور وہ اس آیہ سے استدلال کرتے ہیں:
(أَذھَبتُم طَیِّبَاتِکُم فِی حَیَاتِکُمُ الدُّنیَا وَ استَمتَعتُم بِھَا فَالیَومَ تُجزَونَ
عَذَابَ الھُونِ .)(٢)
تم تو اپنی دنیا کی زندگی میں خوب مزے اڑا چکے اور اس میں خوب چین کر چکے تو آج
(قیامت کے روز) تم پر ذلت کا عذاب کیا جائے گا ۔
دو نوں مذکورہ نظریہ قرآن سے سازگار نہیں ہے اسی لئے قرآن مجید نے سینکڑوں آیات میں اس مسئلہ کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
..............
(١)سورہ اسرائ٧٢۔
(٢)سورہ احقاق ٢٠۔
پہلے نظریہ کے غلط اور باطل ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ قرآن نے ایسے لوگوں کو یاد کیا ہے جو دنیا میں فراوانی نعمت سے ہمکنار تھے لیکن کافر ہونے کی وجہ سے اہل جہنم اور عذاب الہی سے دوچار ہیں. جیسے ولید بن مغیرہ ،ثروت مند اور عرب کا چالاک نیز پیغمبر اکرم کے سب سے بڑے دشمنون میں سے تھا اوریہ آیہ اس کے لئے نازل ہوئی ہے.
(ذَرنِی وَ مَن خَلَقتُ وَحِیداً٭وَ جَعَلتُ لَہُ مَالاً مَمدُوداً٭وَ بَنِینَ
شُھُوداً٭وَ مَھَّدتُّ لَہُ تَمھِیداً٭ثُمَّ یَطمَعُ أَن أَزِیدَ ٭ کَلاّ ِنَّہُ کَانَ
لِآیَاتِنَا عَنِیداً٭ سَأُرھِقُہُ صَعُوداً)(١)
مجھے اس شخص کے ساتھ چھوڑ دو کہ جسے میں نے اکیلا پیدا کیا اور اسے بہت سا مال
دیا اور نظر کے سامنے رہنے والے بیٹے اور اسے ہر طرح کے سامان میں وسعت
دی پھر اس پر بھی وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اور بڑھاؤں یہ ہرگز نہ ہوگا یہ تو میری
آیتوں کا دشمن تھا تو میں عنقریب اسے سخت عذاب میں مبتلا کروں گا ۔
قارون کی دولت اور اس کی بے انتہا ثروت ، دنیاوی سزا میں گرفتارہونا اور اس کی آخرت کی بد بختی بھی ایک دوسرا واضح نمونہ ہے جو سورہ قصص کی ٧٦ویں آیہ اور سورہ عنکبوت کی ٣٩ویں آیہ میں مذکور ہے.دوسری طرف قرآن مجید صالح لوگوں کے بارے گفتگو کر تا ہے جو دنیا میں وقار وعزت اور نعمتوں سے محروم تھے لیکن عالم آخرت میں ،جنت میں ہیںجیسیصدر اسلام کے مسلمین جن کی توصیف میں فرماتاہے :
(لِلفُقَرَائِ المُھَاجِرِینَ الَّذِینَ أُخرِجُوا مِن دِیَارِھِم وَ أَموَالِھِم یَبتَغُونَ
فَضلاً مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضوَاناً وَ یَنصُرُونَ اللّٰہَ وَ رَسُولَہُ أُولٰئِکَ ھُمُ
..............
(١)سورہ مدثر ١١تا١٧۔
الصَّادِقُونَ٭.فَأُولٰئِکَ ھُمُ المُفلِحُونَ)(١)
ان مفلس مہاجروں کا حصہ ہے جو اپنے گھروں سے نکالے گئے خدا کے فضل
و خوشنودی کے طلبگار ہیں اور خدا کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی لوگ
سچے ایماندار ہیں .تو ایسے ہی لوگ اپنی دلی مرادیں پائیں گے ۔
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہے کہ آخرت میں شقاوت وسعادت کا معیار ایمان اور عمل صالح نیز کفر اور غیر شائستہ اعمال ہیں، دنیاوی شان و شوکت اور اموال سے مزین ہونا اور نہ ہونانہیں ہے۔
(وَ مَن أَعرَضَ عَن ذِکرِی فَِنَّ لَہُ مَعِیشَةً ضَنکاً وَ نَحشُرُہُ یَومَ القِیَامَةِ
أعمَیٰ ٭ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرتَنِی أَعمَیٰ وَ قَد کُنتُ بَصِیراً ٭ قَالَ
کَذٰلِکَ أَتَتکَ آیاتُنَا فَنَسِیتَھَا وَ کَذٰلِکَ الیَومَ تُنسَیٰ)(٢)
جو بھی میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کے لئے سخت و ناگوار زندگی کا سامنا ہے
اور اس کو ہم قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے ، تب وہ کہے گا الٰہی میں تو آنکھ والا تھا
تونے مجھے اندھا کیوں اٹھایا خدا فرمائے گاجس طرح سے ہماری آیتیں تمہارے
پاس پہونچیں تو تم نے انھیں بھلادیااور اسی طرح آج ہم نے تمہیں بھلا دیا ہے ۔
یہ آیہ دلالت کرتی ہے کہ نامطلوب دنیاوی زندگی اگر کفر وگناہ کے زیر اثر ہو تو ہوسکتا ہے کہ آخرت کی بد بختی کے ہمراہ ہو. لیکن بری زندگی خود معلول ہے علت نہیں ہے جو گناہ و کفراور مطلوبہ نتائج (ایک دنیاوی امر دوسرا اخروی )کاحامل ہے،دوسرے نظریہ کے بطلان پر بھی بہت سی آیتیں دلالت کرتی ہیں جیسے:
(قُل مَن حَرَّمَ زِینَةَ اللّٰہِ الَّتِی أَخرَجَ لِعِبَادِہِ وَ الطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزقِ قُل
ھِیَ لِلَّذِینَ آمَنُوا فِی الحَیَاةِ الدُّنیَا خَالِصَةً یَومَ القِیامَةِ)
..............
(١)سورہ حشر ٨و٩۔
(٢) طہ١٢٤تا١٢٦۔
(اے پیامبر کہدو) کہ جو زینت اور کھانے کی صاف ستھری چیزیں خدا نے اپنے
بندوں کے واسطہ پیدا کی ہیں کس نے حرام قرار دیں تم خود کہدوکہ سب پاکیزہ
چیزیں قیامت کے دن ان لوگوں کے لئے ہیں جو زندگی میں ایمان لائے ۔(١)
حضرت سلیمان ۖ جن کو قرآن مجید نے صالح اور خدا کے مقرب بندوں میںشمار کیا ہے اورجو دنیاوی عظیم امکانات کے حامل تھے اس کے باوجود ان امکانات نے ان کی اخروی سعادت کو کوئی نقصان نہیں پہونچایا ہے۔
آیہ (أَذھَبتُم طَیِّبَاتکُم)بھی ان کافروں سے مربوط ہے جنہوں نے دنیا وی عیش و آرام کو کفر اور انکار خدا نیز سرکشی اور عصیان کے بدلے میں خریدا ہے جیسا کہ ابتداء آیہ میں وارد ہوا ہے:(وَقِیلَ لِلَّذِینَ کَفَرُو.)جن آیات میںایمان اورعمل صالح اوراخروی سعادت کے درمیان نیزکفر وگناہ اوراخروی بد بختی کے درمیان رابطہ اتنا زیادہ ہے کہ جس کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے اور یہ مطلب مسلم بھی ہے بلکہ اسلام وقرآن کی ضروریات میں سے ہے۔
رابطۂ دنیا وآخرت کی حقیقت
ایمان اورعمل صالح کا اخروی سعادت سے رابطہ اور کفر وگناہ کا اخروی شقاوت سے لگاؤایک طرح سے صرف اعتباری رابطہ نہیں ہے جسے دوسرے اعتبارات کے ذریعہ تبدیل کیا جاسکتا ہو اور ان کے درمیان کوئی تکوینی و حقیقی رابطہ نہ ہو اور ان آیات میں وضعی واعتباری روابط پر دلالت کرنے والی تعبیروں سے مراد، رابطہ کا وضعی واعتباری ہونا نہیں ہے بلکہ یہ تعبیریں انسانوں کی تفہیم اور تقریب ذہن کے لئے استعمال ہوئی ہیں . جیسے تجارت (٢)، خرید وفروش(٣) سزا(٤)جزا(٥) اور اس کے مثل ، بہت سی آیات کے قرائن سے معلوم ہوتا ہے جو بیان کرتی ہیں کہ انسان نے جو کچھ
..............
(١)سورہ اعراف ٣٢۔
(٢) (یَا أَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا ھَل أَدُلُّکُم عَلَیٰ تِجَارَةٍ تُنجِیکُم مِّن عَذَابٍ أَلِیمٍ)(صف ١٠ )
( اے صاحبان ایمان! کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتادوں جو تم کو درد ناک عذاب سے نجات دے )
(٣)(نَّ اللّہَ
اشتَرَیٰ مِنَ المُؤمِنِینَ أَنفُسَھُم وَ أَموَالَھُم بِأَنَّ لَھُمُ الجَنَّةَ)(توبہ ١١١)(اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات پر خرید لئے ہیں کہ ان کے لئے بہشت ہے .)
(٤)(وَ ذٰلِکَ جَزَائُ مَن تَزَکَّیٰ)(طہ٧٦)(اور جس نے اپنے آپ کو پاک و پاکیزہ رکھا اس کا یہی (جنت)صلہ ہے )
(٥)(فَنِعمَ أَجرُ العَامِلِینَ)(زمر٧٤)(جنہوں نے راہ خدا میں سعی و کوشش کی ان کے لئے کیاخوب مزدوری ہے )(١)سورہ بقرہ١١٠ ۔
بھی انجام دیا ہے وہ دیکھے گا اور اس کی جزا وہی عمل ہے.
اچھے لوگوں کی جزا کاان کے اچھے کاموںسے رابطہ بھی صرف فضل ورحمت کی بنا پر نہیں ہے کہ جس میں ان کے نیک عمل کی شائستگی اور استحقاق ثواب کا لحاظ نہ کیا گیا ہو کیونکہ اگر ایسا ہوگا تو عدل وانصاف ، اپنے اعمال کے مشاہدہ اور یہ کہ عمل کے مطابق ہی ہر انسان کی جزا ہے جیسی آیات سے قطعاً سازگار نہیں ہے ۔
مذکورہ رابطہ کو ایک انرجی کا مادہ میں تبدیل ہونے کی طرح سمجھنا صحیح نہیں ہے اور موجودہ انرجی اور آخرت کی نعمتوںکے درمیان مناسبت کا نہ ہونااور ایک انرجی کا اچھے اور برے فعل میں استعمال کا امکان نیز وہ بنیادی کردار جو آیات میں عمل ونیت کے اچھے اور برے ہونے سے دیاگیا ہے اس نظریہ کے باطل ہونے کی دلیل ہے.
گذشتہ مطالب کی روشنی میں ایمان وعمل صالح کا سعادت اور کفر وگناہ کا اخروی بد بختی سے ایک حقیقی رابطہ ہے اس طرح کہ آخرت میں انسان کے اعمالملکوتی شکل میں ظاہر ہوںگے اور وہی ملکوتی وجود، آخرت کی جزا اور سزا نیز عین عمل قرار پائے گا۔
منجملہ وہ آیات جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں مندرجہ ذیل ہیں:
(وَ مَا تُقَدِّمُوا لِأنفُسِکُم مِن خَیرٍ تَجِدُوہُ عِندَ اللّٰہِ)(١)
اور جو کچھ بھلائی اپنے لئے پہلے سے بھیج دوگے اس کو موجود پاؤ گے۔
(یَومَ تَجِدُ کُلُّ نَفسٍ مَّا عَمِلَت مِن خَیرٍ مُّحضَراً وَ مَا عَمِلَت مِنٍ
سُوء تَوَدُّ لَو أَنَّ بَینَھَا وَ بَینَہُ أَمَداً بَعِیداً)(١)
اس دن ہر شخص جو کچھ اس نے نیکی کی ہے اور جو کچھ برائی کی ہے اس کو موجود پائے
گا آرزو کرے گا کہ کاش اس کی بدی اور اس کے درمیان میں زمانہ دراز ہوجاتا
(فَمَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ خَیراً یَرَہُ٭وَ مَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً یَرَہُ)
جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہے
اسے بھی دیکھ لے گا ۔(٢)
(ِنَّمَا تُجزَونَ مَا کُنتُم تَعمَلُونَ)(٣)
بس تم کو انھیں کاموں کا بدلہ ملے گا جو تم کیا کرتے تھے ۔
(ِنَّ الَّذِینَ یَأکُلُونَ أَموَالَ الیَتَامَیٰ ظُلماً ِنَّمَا یَأکُلُونَ فِی بُطُونِھِم نَاراً)
بے شک جو لوگ یتیم کے اموال کھاتے ہیں وہ لوگ اپنے شکم میں آگ کھا
رہے ہیں۔(٤)
دنیا اور آخرت کے رابطہ میں دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ آخرت کی زندگی میں لوگ فقط اپنا نتیجۂ اعمال دیکھیںگے اور کوئی کسی کے نتائج اعمال سے سوء استفادہ نہیں کرسکے گا اور نہ ہی کسی کے برے اعمال کی سزا قبول کر سکے گا۔
(أَلا تَزِرُ وَازِرَة وِزرَ أُخرَیٰ وَ أَن لَّیسَ لِلِنسَانِ ِلا مَا سَعَیٰ)
کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے
جس کی وہ کوشش کرتا ہے ۔(٥)
دوسرا نکتہ یہ ہے کے آخرت میں لوگ اپنی دنیاوی حالت کے اعتبار سے چار گروہ میں تقسیم ہونگے
..............
(١)سورہ آل عمران ٣٠۔
(٢)سورہ زلزال ٧،٨۔
(٣)طور ١٦ ۔
(٤)سورہ نساء ١٠ ۔
(٥)سورہ نجم ٣٨،٣٩۔
الف)وہ لوگ جو دنیا وآخرت کی نعمتوں سے فیض یاب ہیں۔
(وآتَینَاہُ أَجرَہُ فِی الدُّنیَا وَ ِنَّہُ فِی الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ)
اور ہم نے ابراہیم کو دنیا میںبھی اچھا بدلہ عطا کیا اور وہ تو آخرت میں بھی یقینی نیکو
کاروںمیں سے ہیں۔ (١)
ب)وہ لوگ جودنیا وآخرت میں محروم ہیں۔
(خَسِرَ الدُّنیَا وَ الآخِرَةَ ذٰلِکَ ھُوَ الخُسرَانُ المُبِینُ)
اس نے دنیا و آخرت میں گھاٹا اٹھایا صریحی گھاٹا۔(٢)
ج)وہ لوگ جو دنیا میں محروم اور آخرت میں بہرہ مند ہیں.
د) وہ لوگ جو آخرت میں محروم اور دنیا میں بہرہ مندہیں.
آخری دو گروہ کے نمونے بحث کے دوران گذرچکے ہیں ۔ دنیا وآخرت کے رابطے (ایمان وعمل صالح ہمراہ سعادت اور کفر وگناہ ہمراہ شقاوت )میں آخری نکتہ یہ ہے کہ قرآنی نظریہ کے مطابق انسان کاایمان اورعمل صالح اس کے گذشتہ آثار کفر کو ختم کردیتا ہے اور عمر کے آخری حصہ میں کفر اختیار کرناگذشتہ ایمان وعمل صالح کو برباد کردیتا ہے۔( کہ جس کو حبط عمل سے تعبیر کیا گیا ہے )
(وَ مَن یُؤمِن بِاللّٰہِ وَ یَعمَل صَالِحاً یُکَفِّر عَنہُ سَیِّئَاتِہِ )۔ (٣)
اور جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے اور عمل صالح انجام دیتا ہے وہ اپنی برائیوںکو محو کردیتا ہے
(وَ مَن یَرتَدِد مِنکُم عَن دِینِہِ فَیَمُت وَ ھُوَ کَافِر فَأُولٰئِکَ حَبِطَت
أَعمَالُھُم فِی الدُّنیَا وَ الآخِرَةِ .)(٤)
..............
(١)سورہ عنکبوت ٢٧۔
(٢)سورہ حج ١١۔
(٣)سورہ تغابن ٩۔
(٤)سورہ بقرہ ٢١٧۔
اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھرگیا اور کفر کی حالت میںدنیا سے گیا ،
اس نے اپنے دنیا و آخرت کے تمام اعمال برباد کردیئے ۔
دوسری طرف اگر چہ اچھا یابرا کام دوسرے اچھے یابرے فعل کے اثر کو ختم نہیں کرتاہے .لیکن بعض اچھے افعال ،بعض برے افعال کے اثر کو ختم کردیتے ہیں اور بعض برے افعال بعض اچھے افعال کے آثار کو ختم کردیتے ہیں مثال کے طور پر احسان جتانا، نقصان پہونچانا، مالی انفاق(صدقات) کے اثر کو ختم کردیتا ہے.
(لا تُبطِلُوا صَدَقَاتِکُم بِالمَنِّ وَ الأذَیٰ)(١)
اپنی خیرات کو احسان جتانے اور ایذا دینے کی وجہ سے اکارت نہ کرو۔
اور صبح وشام اور کچھ رات گئے نماز قائم کرنا بعض برے افعال کے آثار کو ختم کردیتا ہے قرآن مجید فرماتاہے:
(وَ أَقِمِ الصَّلَٰوةَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَ زُلَفاً مِّنَ اللَّیلِ ِنَّ الحَسَنَاتِ
یُذھِبنَ السَّیِّئَاتِ)
دن کے دونوں طرف اور کچھ رات گئے نماز پڑھا کروکیونکہ نیکیاں بیشک
گناہوں کو دور کریتی ہیں۔(٢)
شفاعت بھی ایک علت وسبب ہے جو انسان کے حقیقی کمال وسعادت کے حصول میں موثر ہے. (3)
..............
(١)سورہ بقرہ ٢٦٤۔
(٢)ھود١١٤۔
(٣) قرآن مجید کی آیات میں ایمان اور عمل صالح ، ایمان اور تقویٰ، ہجرت اور اذیتوں کا برداشت کرنا، جہادنیز کبیرہ گناہوں سے پرہیز کرنا ، پوشیدہ طور پر صدقہ دینا ، احسان کرنا ، توبۂ نصوح اور نماز کے لئے دن کے ابتدا اور آخر میں نیزرات گئے قیام کرنا منجملہ ان امور میں سے ہیں جن کو بعض گناہوں کے آثار کو محو کرنے کی علت کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے
۔ملاحظہ ہو: محمد ٢؛مائدہ ١٢؛ عنکبوت ٧؛ مائدہ ٦٥؛ آل عمران ١٩٥؛ نساء ٣١؛ بقرہ٢٧١ ؛انفال ٢٩؛ زمر٣٥؛ تحریم ٨؛ ھود ١٤٤۔اچھے اور برے اعمال کا ایک دوسرے میں اثرانداز ہونے کی
.مقدار اور اقسام کی تعیین کو وحی اور ائمہ معصومین کی گفتگو کے ذریعہ حاصل کرنا چاہیئے اور اس سلسلہ میں کوئی عام قاعدہ بیان نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
|