انسان شناسی
 

خواہش اورارادہ
خواہش و اراد ہ جو اختیار ی کاموں میں توانائی کا کردار ادا کرتا ہے اختیاری فعالیت میں دوسرا ضروری عنصر ہے جو معرفت انسان کو قصد وحرکت عطا نہیں کرتی ہے بلکہ صرف راستہ بتاتی ہے . یہ تو خواہشات ہیں جو راہ کی شناخت کے بعد انسان کو جستجو میں ڈال دیتے ہیں . خواہش وارادہ کا رابطہ ایک مہم بحث ہے جس کے بارے میں دو مختلف نظریے بیان ہوئے ہیں. بعض لوگوں نے ارادہ کو شدید خواہش کہا ہے اور بعض لوگوں نے شدید شوق یا شدید خواہش کو ارادہ کے تحقق کی شرط مانا ہے . دونوں صورتوں میںیہی کہا جاسکتا ہے کہ انسان اور اس کے مشابہ مخلوق کسی بھی مقام پر ارادہ نہیں کرسکتی ہے مگر یہ کہ اس میں خواہش موجود ہو . انسان کے اندر حیوانی اور پست نیز انسانی ومتعالی وبلند خواہشات ہیں جن سے انسان ،جنسی یا غذا اور دوسرے جسمانی امور کی خواہش کرتا ہے اس سلسلہ میں بہت زیادہ بحث ہوئی ہے اور متعدد ومختلف تقسیم بندی ہوئی ہے جن میں سے مہم مندرجہ ذیل ہیں .

خواہشات کی تقسیم بندی
سب سے اہم تقسیم بندی میں سے ایک تقسیم اندرونی رغبتوں کو چار قسم غرائز ،عواطف انفعالات اور احساسات میں منقسم کرنا ہے .

غرائز
انسان کی حیاتی ضرورتوں کو بیان کرنے والی اور جسم کے کسی ایک اعضاء سے مربوط باطنی رغبت کو غریزہ کہا جاتاہے جیسے کھانے اور پینے کی خواہش جو انسان کی طبیعی ضرورت کو بھی دور کرتی ہے اور معدہ سے مربوط ہے یا جنسی خواہش نسل کی بقا کا ضامن ہے ا ور مخصوص عضو سے مربوط ہے .

عواطف
عواطف .وہ خواہش ہے جو دوسرے انسان کیلئے ظاہرہوتی ہے جیسے بچوں کے لئے والدین کی محبت اور اسکے بر عکس یا کسی دوسرے انسان کے لئے ہماری مختلف رغبتیں اجتماعی ، طبیعی یا معنوی رابطہ جس قدر زیادہ ہوگا محبت بھی اتنی ہی شدید تر ہوگی . جیسے والدین اور فرزند کے رابطہ میں ایک فطری حمایت موجود ہے . اور استاد و شاگرد کے رابطہ میں معنوی حمایت موجود ہے .

انفعالات
انفعالات یامنفی میلان جو عواطف کے مقابلہ میں ہے اور اس کے بر عکس یعنی ایک روحی حالت ہے جس کی بنیاد پر انسان ناپسند یدگی یا احساس ضرر کی وجہ سے کسی سے دوری کرتا ہے یا اس کو ترک کردیتا ہے اسی وجہ سے نفرت ، غصہ ، کینہ وغیرہ کا انفعالات میں شمار ہوتا ہے .

احساسات
بعض اصطلاحات کے مطابق احساسات ایسی کیفیت ہے جو مذکورہ تینوں موارد سے بہت شدید ہے اور فقط انسان سے مربوط ہے . گذشتہ تینو ں کیفیات کم وبیش حیوانات میں بھی موجود ہیں لیکن احساسات جیسے احساس تعجب ، احساس احترام ، احساس عشق وعبادت، یہ درونی رغبتیں کبھی سبھی چیزوںمیں موثرہوتی ہیں اور کبھی ایک دوسرے سے منضم اور ملکر اثر انداز ہوتی ہیں .اوریہ ادراک ومعرفت کے اسباب سے مربوط ہیں اور ان پر ادراکی قوتیں بھی موثر ہیں اورا نھیں سے بعض خواہشات جنم لیتی ہیں ۔
خواہشات کی دوسری تقسیم فردی واجتماعی خواہشات کی تقسیم ہے . فطری خواہشات معمولاً فردی اور عواطف کی طرح ہیں اور دوسری خواہشات غالباً اجتماعی ہیں۔
دوسرے اعتبار سے خواہشات کو مادی وروحی اور پھر روحی خواہشات کو پست اور بلند خواہشات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے . خواہشات اوراس کے مانند غرائز کی تامین سے بدن کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے یہ مادی خواہشات ہیں . اور وہ خواہشات جو بدن کی ضرورت کے پورا ہونے کے بعد بھی باقی رہتی ہیں انہیں روحی خواہشات کہا جاتا ہے جیسے اس وقت خوشی کی ضرورت جب جسم تو سالم ہے لیکن روح مسرور نہیں ہے . اس لئے اس تقسیم بندی کے اعتبار سے خواہشات تین طرح کی ہیں :
(١) وہ خواہشات جو مادی اور جسمانی پہلو رکھتی ہیں .
(٢) وہ خواہشات جو مادی اور روحی پہلو رکھتی ہیں لیکن وہ روح کی پست خواہشات میں سے ہیں جیسے خوشی اور سکون .
(٣) وہ خواہشات جو مادی اور روحی پہلورکھتی ہیں اور روح کی عالی خواہشات میں سے ہیں جیسے ہدف تک رسائی اور آزادی کی خواہش اسی لئے بعض لوگوں نے عالی ضرورتوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے :
(١) حق کی تلاش اور حقائق کی معرفت .
(٢) فضیلت کی خواہش نیزعدالت ، حریت کی آرزو۔
(٣) مطلق خوبصورتی کی خواہش، اس لئے کہ وہ خوبصورتیاں جن سے انسان کی خواہش مربوط ہوتی ہے بہت زیادہ اور مختلف ہیںبعض بصارت سے مربوط ہیں تو بعض سماعت سے اور بعض شعر وشاعری کی طرح خیالات سے مربوط ہیں لیکن مطلقاً خوبصورتی کی خواہش بلند وبالاآرزؤںمیں سے ہے .
بعض لوگوں نے چوتھی قسم کا بھی اضافہ کیا ہے اور اس کو''مذہبی حس'' کا نام دیاہے اور بعض لوگوں نے ان تینوں کوبھی اسی چوتھی قسم کے زیر اثر قرار دیا ہے .
ایک دوسرے اعتبارسے خواہشات دو گروہ میں تقسیم ہوتے ہیں:
١۔ وہ خواہشات جن کی حفاظت،انسان کی موجودیت اور بقا میں مددگار ہے ؛جیسے کھانا پینا لباس اور حفاظت ذات کی خواہش .
٢۔ وہ خواہشات جو کسی کی حفاظت کے لئے نہیں ہیںبلکہ تکامل کے لئے ہیں .
اس سلسلہ میں بھی تجزیہ وتحلیل ہوئی ہے کہ خواہشات میں سے حقیقی کون ہیں اور غیر حقیقی کون سی ہیںتحقیق وتحلیل کی روشنی میں انسان کے لئے ٢سے لیکر ١٢ حقیقی خواہشیں تسلیم کی گئی ہیں . مذکورہ خواہشات کبھی ایک طرف اور ایک جہت میں ہیں تو کبھی ایک دوسرے کے مقابلہ میں ہیں مثال کے طور پر اکثر حیوانی اور انسانی خواہشات کے درمیان تعارض اور نا ہماہنگی پائی جاتی ہے اورجب انسان دونوں خواہشوں کو بطور کامل انجام نہیں دے پاتاہے تو مجبورا ًایک کو انتخاب کرکے دوسرے پر ترجیح دیتاہے اور دوسرے کو محدود یا اس سے چشم پوشی کرلیتا ہے یہی وہ جگہ ہے جہاں مسئلہ انتخاب اور ایک خواہش کو دوسری خواہش یا بہت سی خواہشوں پر ترجیح دینے اور اسکے معیار کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے۔

خواہشات کا انتخاب
معمولاً انسان کہ جس طرح نفسیات کے ماہرین نے کہا ہے؛ خواہشات کے ٹکراؤ کے وقت ایسی خواہش کی طرف حرکت کرتاہے اور ایسی خواہشات کے زیر اثر آجاتا ہے جو جذباتی ہوتی ہیں یا اس خواہشات سے بار بار سیر ہونے کی وجہ سے ایک عادت سی ہوگئی ہو یا بہت زیادہ تبلیغ کی بنا پر لوگوں کی توجہ اس کی طرف مائل ہوگئی ہو اور تمام خواہشات کے سلسلہ میں ایک قسم کی غفلت اور بے توجہی برتی گئی ہو ۔ بہت ہی اہم اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہماہر نفسیات کی یہ گفتگو متائثر انسانوں کے بارے میں ہے لیکن ہمارا بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر انسان یہ چاہتا ہے کہ فعّال ہو منفعل نہ ہوتو کن معیاروں کی بنا پر بعض خواہشات کو بعض پر ترجیح دے گا؟
قرآن مجید ایک عام نگاہ میں عالی خواہشات کو مادی اور پست خواہشات پر ترجیح کی تاکید کرتا ہے .قرآن مجید میں بعض حیوانی خواہشات حقارت ومذمت کے ساتھ ذکر ہوئے ہیں .سورہ معارج کی ١٩ویں آیہ میں فرماتا ہے :
(ِنَّ الِنسَانَ خُلِقَ ھَلُوعاً، ِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوعاً وَ ِذَا مَسَّہُ الخَیرُ
مَنُوعاً ِلا المُصَلِّینَ)
بیشک انسان بڑا ہی لالچی پیدا ہوا ہے جب اسے تکلیف اور ناگواری کا سامنا ہوتا
ہے تو گھبرا جاتاہے اور جب اسے بھلائی اور آسودگی حاصل ہوئی تو بخیل بن جاتا
ہے مگر جو لوگ نمازیں پڑھتے ہیں ۔
آیہ شریفہ یہ ماننے کے بعد کہ انسان کو اس طرح خلق کیا ہے کہ اس کے اندر بعض پست خواہشات موجود ہیںآگاہ کرتی ہے کہ اگر اپنے اختیار سے بہت ہی بلند کمالات کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو ان خواہشات کا اسیر نہیں ہونا چاہئیے . بلکہ انہیں عظیم کمالات کو حاصل کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہئیے . چونکہ کمال ،ایثار کے دامن میں جنم لیتاہے اسی لئے شہوت پرستی اور شکم پُری اور اس کے مثل چیزیںاس کی سد راہ نہیں ہونا چاہیئے . اور جس وقت کمال فدا کاری سے مربوط ہو تو مادی حیات کو اس کے شہادت کے فیض سے روکنا نہیں چاہئیے. مذکورہ حقیقت مندرجہ ذیل دو آیتوں میں بھی مورد توجہ اور تاکید ہے ۔
(زُیَّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَائِ وَ البَنِینَ وَ القَنَاطِیرِ المُقَنطَرَةِ
مِنَ الذَّھَبِ وَ الفِضَّةِ وَ الخَیلِ المُسَوَّمَةِ وَ الأنعَامِ وَ الحَرثِ ذَٰلِکَ
مَتَاعُ الحَیٰوةِ الدُّنیَا وَ اللّٰہُ عِندَہُ حُسنُ المَئَابِ.)(١)
لوگوں کو ان کی مرغوب چیزیں بیویوں اور بیٹوں اور سونے چاندی کے بڑے
بڑے لگے ہوے ڈھیروں اور عمدہ عمدہ گھوڑوں اور مویشیوں اور کھیتی کے ساتھ
الفت بھی کرکے دکھادی گئی ہے یہ سب دنیاوی زندگی کے فائدہ ہیں اور اچھا
ٹھکاناتو خدا ہی کے یہا ں ہے ۔
(اعلَمُوا أَنَّمَا الحَیَٰوةَ الدُّنیَا لَعِب وَلَھو وَ زِینَة وَ تَفَاخُر بَینَکُم
وَ تَکَاثُرفِی الأموَالِ وَ الأولادِ کَمَثَلِ غَیثٍ أَعجَبَ الکُفَّارَ نَبَٰاتُہُ
ثُمَّ یَھِیجُ فَتَرَیٰہُ مُصفَرّاً ثُمَّ یَکُونُ حُطَاماً وَ فِی الآخِرَةِ عَذَاب
شَدِید وَ مَغفِرَة مِنَ اللّٰہِ وَ رِضوَان وَ مَا الحَیَٰوةُ الدُّنیَا لا مَتَاعُ
الغُرُورِ)(٢)
جان لو کہ دنیاوی زندگی محض کھیل اور تماشا اور ظاہری زینت اور آپس میں ایک
دوسرے پر فخر کرنا اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ خواہش یہ اس بارش
کی سی طرح ہے(جو سبزہ اگاتی ہے ) جس کی ہریالی کسانوں کو خوش کردیتی ہے
اور پھر وہ کھیتی سوکھ جاتی ہے اور اس کی ہریالی زردپڑجاتی ہے اور آخرت میں
سخت عذاب ہے اور خداکی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے اور دنیاوی
زندگی تو بس غرور کا ساز و سامان ہے۔
..............
(١)سورہ آل عمران ١٤۔
(٢)سورہ حدید ٢٠ ۔
دوسری طرف بلند وبالا خواہشوں کی بہتری وتقویت کی قرآن مجید میں بھی تاکید ہوئی ہے . مثال کے طور پر قرآن کی روشنی میںمقام و منزلت(١) اور ہمیشہ با حیات رہنے کی خواہش اور خدا وند عالم کی طرف تمایل کی خواہش کو مورد توجہ قراردیاگیاہے . اس سلسلہ میں بعض آیتیںقرآن مجید میں مذکور ہیں . سورہ فاطر کی ١٠ویں آیت میںانسان کے مقام و منزلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے ذریعہ متعالی اور بلندمعارف کی نشاندہی کی گئی ہے۔
( مَن کَانَ یُرِیدُ العِزَّةَ فَلِلّٰہِ العِزَّةُ جَمِیعاً )
جو شخص عزت کا خواہاں ہے (تو جان لے) ساری عزت تو خدا ہی کیلئے ہے
سبھی مقام وعزت چاہتے ہیں.(٢) حقیقت میںعزت واحترام اور آبرو کا حاصل کرنا برا نہیں ہے . لیکن یہ جاننا چاہئے کہ عزت فقط معاشرہ میں پائی جانے والی اعتباری عزتوں سے مخصوص نہیں ہے . مذکورہ آیہ اسی خواہش کو بیان کر رہی ہے کہ :اگر تم فقیر اور محتاج لوگوں میں عزیز ہونا چاہتے ہو تو غنی وبلند پروردگار کے نزدیک کیوں عزیز نہیں ہونا چاہتے ؟جبکہ عزت حقیقی فقط خداوند عالم کے لئے ہے۔
..............
(١) قدر و منزلت چاہنا ان خواہشات میں سے ہے جو اصل میں فطری ہے اور غالباً اس کی ابتدائی تجلیات نوجوانی میںظاہر ہوتی ہے ۔اور نفسیات شناسی میں بلوغ ، انسان کا نقطۂ الفت شمار ہوتا ہے ۔ اس کے پہلے بچے اکثر بزرگوں کی تقلید کرتے ہیں ،اس زمانے میں بچہ چاہتا ہے کہ''خود مختار ہو ''دوسروں کی باتوں پر عمل نہ کرے ، جو خود سمجھتا ہے اس پر عمل کرے اور امرو نہی سے حساس ہو جاتا ہے ۔ یہ حالت بھی اپنی جگہ انسان کے تکامل میں مفید و موثر ہے، یہ حکمت خداوند قدوس ہے کہ جس کی حقیقت حب کمال ہے لیکن معرفت کے نقص کی بنیاد پر محدود شکلوں میں جلوہ گر ہوتی ہے، قدر و منزلت چاہنا ، بزرگوں میں اور اجتماع میں دھیرے دھیرے مقام و مرتبہ کی شکل میں نمودار ہوتی ہے ۔ وہ شخص چاہتا ہے کہ حاکم ہوجائے اور دوسرے اس کی بات کو سنیں اور مانیں ، اس کی بھی مختلف شکلیں ہیں جن میں سے منجملہ شہرت ، ریاست ، مقام و مرتبہ اور مشہور ہونے کی خواہش ہے ۔
(٢) قرآن کہتا ہے کہ حتی بعض بت پرست عزت و احترام حاصل کرنے کے ارادہ سے بتوں کی پوجا کرتے تھے ۔ (وَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللّٰہِ آلِھَةً لِّیَکُونُوا لَھُم عِزّاً)مریم ٨١۔ اور ان لوگوں نے خدا کے علاوہ دوسرے معبود انتخاب کرلئے ہیں تاکہ ان کی عزت کا سبب ہوں ۔
بقا کی خواہش بھی انسان کی فطری خواہشوں میں سے ہے انسان کبھی مرنا نہیں چاہتا ہے اس لئے کہ وہ سوچتا ہے کہ مرنا ، نابود ہونے کے معنی میں ہے یا یہ چاہتا ہے کہ ا س کی عمر طولانی ہو . قرآن مجید بنی اسرائیل کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ ہزار سال زندہ رہنا چاہتے ہیں :
( یَوَدُّ أَحَدُھُم لَو یُعَمَّرُ أَلفَ سَنَةٍ )(١)
ہر شخص چاہتا ہے کہ کا ش اس کو ہزار برس کی عمر دی جاتی ۔
ہزار کثرت کی علامت ہے ورنہ ایسا نہیں ہے کہ وہ ایک ہزار ایک سال نہیں چاہتا ہے یہ خواہش تمام انسانوں میں ہے حتی ہمارے جد ،حضرت آدم ۖمیں بھی موجود تھی اسی خواہش کی بنا پر شیطان نے ان کو دھوکا دیا ہے :
(ھَل أَدُلُّکَ عَلیٰ شَجَرَةِ الخُلدِ وَ مُلکٍ لایَبلَیٰ)(٢)
کیا میںتمہیں ہمیشگی کا درخت اور وہ سلطنت جو کبھی زائل نہ ہوبتادوں ۔
یہ آیہ بھی بقا اور مقام ومنزلت کی خواہش کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس نکتہ کو بھی بیان کررہی ہے کہ انسان میںیہ خواہش فطری ہے اس کو منفی عنصر نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ معرفت میں موجودہ نقص کو بر طرف کرنا چاہیے اور متوجہ رہیں کہ یہ دنیا بقا کے قابل نہیں ہے اور ابدی حکومت خدا کے پاس ہے . انسان کو دنیا کے بجائے آخرت سے علاقہ مند ہونا چاہئے :
(وَ الآخِرَةُ خَیر وَ أَبقَیٰ)(٣)
اور آخرت کہیں بہتر اور دیر پا ہے ۔
..............
(١)بقرہ ٩٦۔
(٢)طہ ١٢٠
(٣)اعلیٰ ١٧
آخر کار تمام خواہشات پر نہائی خواہش برترہے خصوصاً انسان کا عمیق ووسیع وجود قرب خدا کے لئے اور اسی کی طرف موجزن ہے، ا فسوس ! کہ جس سے اکثر ماہرنفسیات نا واقف ہیں۔یہ خواہش احساسات وعواطف کی طرح نہیں ہے بلکہ ان دونوں سے بہت زیادہ لطیف اور پوشیدہ ہے ، چونکہ انسان کا نہائی کمال اسی سے وابستہ ہے لہذا اس کو فعال کرنا بھی خود انسان کے ہاتھ میں ہے .
غرائز اور طبعی خواہشات ، خود بخود فعال ہوتے ہیں مثال کے طور پر خلقت کے وقت ہی سے بچہ کے اندر بھوک کا احساس ہوتاہے نیز جنسی خواہش بالغ ہونے کے وقت فعال ہوتی ہے اور انسان اس کو پورا کرنے کے راستہ بھی تعیین کرتا ہے . لیکن معنوی کمالات اولاً خود بخود فعال نہیںہوتے ان کو فعال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے .دوسرے موضوع اور اس کے متعلق کو پہچاننے کے بعد اختیاری انداز میں اس کوانجام دیاجاتا ہے یعنی جب کوئی خواہش انسان کے اندر فعال ہوتو دھیرے دھیرے قدم بڑھانا چاہئے تاکہ نہائی مراحل سے نزدیک ہوسکیں ،اس سلسلہ میں حضرت ابراہیمۖ کی داستان سے مربوط آیتیں رہنمائی کرتی ہیں ، حضرت ابراہیم ۖ نے ستاروں کے ڈوبنے کے بعد فرمایا:
( لا أُحِبُّ الأفِلِینَ )(١)
غروب ہونے والی چیز کو میں پسند نہیں کرتا ۔
یعنی تمام انسان غروب نہ کرنے والے وجود کی طرف متمایل ہوجاتے ہیں . خواہش اور عبادت کی رغبت کوایسی چیز سے مرتبط ہونا چاہئے جو ہمیشہ موجود ہو ایسا محبوب ہو جو ہمیشہ اسکے پاس رہ سکتا ہو اور وہ خدا وند عالم کے علاوہ کوئی نہیں ہے . خدا وند عالم سے محبت کے لئے جو چیز خدا سے مربوط ہے (منجملہ ایمان ) انسان کے لئے بھی محبوب ہو جانا چاہئے :
(وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ ِلَیکُمُ الِیمَانَ)(٢)
..............
(١)انعام ٧٦
(٢)حجرات٧
لیکن خدا نے تو تمہیں ایمان کی محبت دی ہے ۔
خداوند عالم پر ایمان کی وجہ سے انسان محبوب ہوتا ہے اور یہ قرب الہی کے لئے ایک راہ ہے . اور اس راہ میں اس وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب انسان اپنی زندگی میں خدا اور اس کی رضا کے علاوہ کوئی خواہش نہ رکھتا ہو :
(ِلا ابتِغَائَ وَجہِ رَبِّہِ الأعلَیٰ)(١)
( کوئی بھی نعمت خدا کی بارگاہ میں جزا کے لئے سزاوارنہیں ہے) مگر یہ کہ
صرف اپنے عالیشان پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے انجام دیا ہو۔
..............
(١)سورہ لیل آیت ٢٠۔

خواہشات کے انتخاب کا معیار
یہاں یہ سوال در پیش ہے کہ مادی خواہشات پر عالی خواہشات کی ترجیح کے لئے قرآن مجید کا کیا معیار ہے ؟ ایک آسان تجزیہ وتحلیل کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ ایک خواہش کے دوسری خواہش پر ترجیح کے لئے انسان کے پاس حقیقی معیار ، لذت ہے . انسان ذاتاً یوں خلق ہوا ہے کہ اس چیز کی جستجو میں رہے جو اس کی طبیعت کے لئے مناسب اور لذیذ ہو اور ہر رنج والم کا باعث بننے والی شیٔ سے گریزاں ہو . اور وہ فوائد جو بعض نظریات میں خواہشات کے معیار انتخاب کے عنوان سے بیان ہوئے ہیں وہ ایک اعتبار سے لذت کی طرف مائل ہیں ۔
اب یہ سوال در پیش ہے کہ اگر دو لذت بخش خواہشوںکے درمیان تعارض واقع ہو تو ہم کس کو ترجیح دیں اور کس کا انتخاب کریں ؟ جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ ان دونوں میں سے جس میںزیادہ لذت ہو یاجوزیادہ دوام رکھتی ہو یا زیادہ کمال آفرین ہو اسی کو مقدم کیا جائے گا . لہذا کثیر پائدار یا زیادہ کمال کا جو باعث ہو، اسے انتخاب کا معیار قرار دیا جائے گا ۔
بعض خواہشات کی تامین بہت زیادہ لذت بخش ہے لیکن کمال آفرین نہیں ہے بلکہ کبھی تو نقص کا باعث ہوتی ہے یا دوسری خواہشات کی بہ نسبت اس میںبہت کم لذت ہوتی ہے اور بہت کم کمال کا سبب بنتی ہے ایسی حالت میں انتخاب کے لئے ایجاد کمال بھی مد نظر ہونا چاہیئے۔بہت زیادہ لذت ،بادوام اور ایجاد کمال کو مد نظر قرار دینے سے انسان مزید سوالات سے دوچار ہوتا ہے، مثال کے طور پر اگر دو خواہشیں زمان یا بہت زیادہ لذت کے اعتبار سے برابر ہوں تو کسے مقدم کیا جائے ؟ اگر ایک مدت کے اعتبار سے اور دوسرا بہت زیادہ لذت کے اعتبار سے برتری رکھتا ہو توایسی حالت میں کسے انتخاب کیا جائے ؟ آیا جسمانی اور مادی لذتیں بھی برابر ہیں ؟اورکون سی جسمانی لذت کس روحی لذت پر برتری رکھتی ہے ؟آپ نے مشاہدہ کیا کہ یہ تینوں معیار ،مقام عمل ونظر دونوں میں مشکلات سے روبرو ہیں اور گذشتہ دلیلوں کے اعتبار سے تمام انسانوں کے لئے بعض خواہشات کو بعض پرمقدم کرنا اور انتخاب کے سلسلہ میں صحیح قضاوت کرنا ممکن نہیں ہے۔
ایک بار پھر یہاں مسئلہ معرفت کی اہمیت اور مبدا ومعاد کی عظمت واضح ہوجاتی ہے۔ گذشتہ مشکلات کو حل کرنے کے لئے انسان کی حقیقت اور دوام وپایداری کی مقدار نیز اس کمال کے ساتھ رابطہ اورحد کو جسے حاصل کرنا چاہتاہے ،معلوم ہوناضروری ہے . سب سے پہلے یہ جاننا چاہیئے کہ کیا انسان موت سے نابود ہوجاتا ہے اور اسکی زندگی اسی دنیاوی زندگی سے مخصوص ہے یاکوئی دائمی زندگی بھی رکھتا ہے .اس کے بعد یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ کون سے کمالات انسان حاصل کرسکتا ہے اور بالخصوص کمال نہائی کیا ہے ؟ اگر یہ دو مسئلے حل ہوجا ئیں اور انسان اس نتیجہ پر پہونچ جائے کہ موت سے نابود نہیں ہوتا ہے اور اس کی ایک دائمی زندگی ہے نیز اسکا حقیقی کمال قرب الہٰی ہے اور اس کے لئے کوئی حد نہیں ہے تو معیار انتخاب واضح ہوجائے گا . جو چیز انسان کو اس دائمی کمال تک پہونچائے اسے فوقیت دیتے ہوئے اسی کے مطابق عمل انجام دیا جائے یہی عام معیار ہے لیکن رہی یہ بات کہ کون سی خواہش کن شرائط کے ساتھ اس نقش کو انجام دے گی اور کون سی حرکت ہمیں اس دائمی اور بے انتہا کمال سے نزدیک یا دور کرتی ہے ،ہمیں اس راہ کو وحی کے ذریعہ دریافت کرناہوگااس لئے کہ وحی کی معرفت وہ ہے جو اس سلسلہ میں اساسی اور بنیادی رول ادا کرے گی لہٰذا سب سے پہلے مسئلہ مبدأومعاد کو حل کرنا چاہیئے اور اسکے بعد وحی ونبوت کو بیان کرنا چاہئے تاکہ حکیمانہ اور معقول انتخاب واضح ہوجائے۔ اس نقطۂ نظر میں انتخاب کو سب سے زیادہ اور پایدار لذت اور سب سے زیادہ ایجاد کمال کے معیاروں کی مدد سے انجام دیا جا سکتا ہے انسان کی پوری زندگی کے مشخص ومعین نہ ہونے اور اس کمال کی مقدار جسے حاصل کرنا چاہتاہے اور سب سے بہتر خواہش کی تشخیص میں اس کی معرفت کے اسباب کی نارسائی کی بناپرمذکورہ مشکلات جنم لیتے ہیں اور یہ تمام چیزیں اس (وحی کے ) دائرہ میں حل ہوسکتی ہیں ۔