آٹھویں فصل :
مقدمات اختیار
اس فصل کے مطالعہ سے اپنی معلومات کو آزمائیں :
١۔ان عناصر کا نام بتائیں جن کا انسان ہر اختیاری عمل کے تحقق میں محتاج ہے؟
٢۔ انسان کے اختیاری اعمال میں تیں عناصر میں سے ہر ایک کی وضاحت کریں؟
٣۔معرفت انسان کے اسباب کو آیات قرآنی سے استدلال کرتے ہوئے بیان کریں ؟
٤۔ درونی کشش(خواہشات)کی تقسیم کرتے ہوئے ہر ایک کے بارے میں مختصر سی
وضاحت کریں؟
٥۔ انتخاب اعمال کے معیار کی وضاحت کریں؟
٦۔ عالم آخرت کے کمالات ولذتوں کے چار امتیاز اور برتری کو بیان کریں؟
گذشتہ فصل میں ہم نے انسان کے متعلق اختیاری رفتار وافعال کو مرتب کرنے والے مختلف اسباب کے بارے میں گفتگو کی ہے اور ذکر کیا ہے کہ ان اسباب کے درمیان انسان کا اختیار بہت ہی اہم رول ادا کرتا ہے اور انسان کا قصدوانتخاب اس کے اختیاری افعال ورفتار میں سرنوشت ساز ہیں. اس طرح اختیاری رفتار وکردار میں دقت وتوجہ ، حقیقت و اختیارکی ساخت و ساز میں معاون و مددگار ہیں. اسی بنا پر خصوصاً اختیار کی کیفیت کی ترتیب میں قدیم الایام سے متنوع ومتعدد سوالات بیان ہوئے ہیں جن میں سے بعض اہم سوالات مندرجہ ذیل ہیں:
١۔کیا انسان کا اختیار بے حساب و بہت زیادہ ہے اور کیا کسی قاعدہ واصول پرمبنی نہیں ہے یا اختیارکی ترتیب بھی دوسرے عوامل واسباب کے ماتحت ہے؟
٢۔اختیار کوفراہم کرنے والے اسباب کون ہیں اور انسان کی توانائی ، خواہش اور معلومات کا اس سلسلہ میں کیا کردار ہے ؟
٣۔ اختیاری افعال میں انتخاب و تعیین کا معیار کیا ہے اور فعاّل وعقلمندانسانوں اور بہت زیادہ متاثر افراد کہ جو اپنے انتخاب کی باگ ڈ ور معاشرے کے حالات وماحول کے شانے پرڈال دیتے ہیں اور غفلت یا کسی جماعت کے ساتھ اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں.اس سلسلہ میں کون سے تفاوت واختلاف موجودہیںبیان کریں ؟
٤۔ کیا انسان کی معرفت کے عام اسباب اورطرز عمل (تجربہ اور تعقل وتفکر)صحیح راہ کے انتخاب ومعرفت کے لئے تمام مراحل میں کفایت کرتے ہیں؟
٥۔ خصوصاً وحی کے ذریعہ استفادہ کی بنیادپر اور گذشتہ سوالات کے جوابات کے منفی ہونے کی صورت میں حقیقی سعادت کے حصول اور صحیح راستہ کے انتخاب اور اس کی معرفت میں (خصوصاً طریقہ وحی)اور (عام طریقہ معرفت )میں سے ہر ایک کا کیاکردارہے؟ اورکیااس موضوع میں دونوں طریقہ ایک دوسرے سے ہماہنگ ہیں؟ اس فصل میں ہم مذکورہ بالاسوالات کے بارے میں تجزیہ وتحلیل کریں گے.
اختیار کو مہیا کرنے والے عناصر
ہر اختیاری عمل کا تحقق کم از کم تین عنصروں کا محتاج ہے١۔ معلومات ومعرفت ٢۔خواہش وارادہ٣۔قدرت وتوانائی .
معرفت
اختیاری افعال میں معرفت ایک چراغ کے مانند ہے جو امور اختیاری میں واضح اور روشن کردینے والا کردار ادا کرتی ہے ، چونکہ ہمارے لئے طریقۂ انجام اور افعال کو پہچاننا اور ان کی اچھائی اور برائی کو جدا کرنا ضروری ہے تاکہ ہم سب سے بہتر کو انتخاب کرسکیں اور ہمارا یہ اختیاری فعل حکیمانہ اور عقل پسندی پر مبنی ہو.لیکن افعال کے اچھے اور برے کی معرفت ، حقیقی کمال کے سلسلہ میں صحیح معلومات اور اس کی راہ حصول پر مبنی ہے. جب تک ہم اپنے حقیقی اور نہائی کمال اور اس کے راہ حصول کو نہیں سمجھ سکیں گے اس وقت تک افعال کی اچھائی اور برائی کو صحیح طرح مشخص نہیں کرسکتے اور نہ ہی معقول ودرست انتخاب کرسکتے ہیں۔ حقیقی کمال اور اس کے راہ حصول کی معرفت بھی تین دوسری معرفت پر مبنی ہے، اور وہ مبداء ،معاد، دنیا اور آخرت کی شناخت ہے اس لئے کہ جو نہیں جانتا کہ اس کا اور موجودات کا وجود مستقل اور کافی ہے یا خالق دو عالم سے وابستہ ہے وہ حقیقی اور نہائی کمال اور اپنے وجود کے بارے میں صحیح فیصلہ نہیں کرسکتا ہے اور دوسری طرف جواﷲپر عقیدہ نہیں رکھتا اس کے لئے یہ فرضیہ واضح نہیں ہے کہ وہ خدا تک پہونچ سکتا ہے یا خدا سے قریب ہوسکتا ہے یا اس کی آخری آرزو لقاء اللہ ہے تو کیااس تک دست رسی ہوسکتی ہے یا نہیں ؟!لہٰذا ایسے انسان کا طریقۂ عمل اس شخص سے جدا ہوگا جو اپنے وجود اور تمام موجودات کو خدا کی ملکیت جانتا ہے ، اور اپنا کمال خدا سے نزدیک ہونے کو سمجھتا ہے ان دونوں افراد میں کمال کے حصول کی راہ ایک دوسرے سے بالکل الگ ہے.
معاد کا موضوع بھی کچھ اسی طرح کا ہے اگر زندگی ، مادی دنیا کی زندگی میں منحصر نہ ہوتو قابل حصول معنوی کمالات، دنیاوی لذتوں سے کہیں بالاتر ہوں گے اور انسان کو اپنے طریقۂ عمل میں اس معرفت کو حاصل کرنا چاہئیے کہ کس طرح اپنے اختیاری تلاش سے اس کمال کو حاصل کرے اور ضرورت کے وقت بہت ہی جلد ختم ہونے والی دنیا وی لذتوں کو آخرت کی برتر اور پایدار لذت پر قربان کردے ،پس مرحلۂ معرفت میں مسئلہ مبدا، معاد ، دنیا وآخرت کا رابطہ اور کمال نہائی کی راہ افعال اختیاری کے انجام میں عقلائی اور ضروری ہے . اور یہ مسئلہ یعنی قرآن مجیدکا مبدا و معاد اور اِس کے بارے میں معلومات نیز دنیاوی و اخروی زندگی کی خصوصیات اور ان دونوں کے درمیان رابطہ پر تاکید کرنا اس قضیہ کے اہم رازوں میں سے ایک راز ہے ۔
انسان کے امکانات اور ضروری معرفت
اس بات پر توجہ کرتے ہوئے کہ اختیاری فعل کے انجام میںمعرفت ایک مہم کردار ادا کرتی ہے اورشناخت میں ہم نہائی کمال کی معرفت اور اس کی راہ حصول کے محتاج ہیں دوسرا مہم سوال جو بیان ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کن راہوں سے اس ضروری معرفت کو حاصل کیا جاسکتا ہے اور کیا معرفت کے عام اسباب وامکانات اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کافی ہیں؟
قرآن مجید نے حواس ،عقل اور دل کو اسباب کے عنوان سے ذکر کیا ہے جن کو خداوند عالم نے راہ کمال طے کرنے کے لئے انسان کے اختیار میں قرار دیا ہے اور اس راہ میں ان سے استفادہ کی تاکید کی ہے ، اور کافروں اورمنافقوں کی ان اسباب کے استعمال نہ کرنے یا ان کے تقاضوں کے مطابق عمل نہ کرنے پر مذمت وملامت کی ہے .سورہ دھر کی دوسری آیہ میں حواس کو قابو میں رکھنے کو انسان کے لئے آزمائش قرار دیاہے اور فرمایا ہے :
(ِنَّا خَلَقنَا الِنسَانَ مِن نُطفَةٍ أَمشَاجٍ نَّبتَلِیہِ فَجَعَلنَاہُ سَمِیعاً بَصِیراً)
ہم نے انسان کو مخلوط نطفے ( مختلف عناصر)سے پیدا کیا کہ اسے آزمائیں ( اسی وجہ
سے ) ہم نے اسے سننے والا اوردیکھنے والا بنایا ۔
یہ آیہ مواقع آزمائش کے فراہم ہونے میں انسان کی سماعت وبصارت اور آخر کار اسکے صعود یا نزول کے اہم کردار کی طرف اشارہ کرتی ہے سورہ نحل کی ٧٨ویںآیہ میں ارشاد ہوتا ہے:
(وَ اللّٰہُ أَخرَجَکُم مِّن بُطُونِ أُمَّھَاتِکُم لا تَعلَمُونَ شَیئاً وَ جَعَلَ لَکُمُ
السَّمعَ وَ الأبصَارَ وَ الأفئِدَةَ لَعَلَّکُم تَشکُرُونَ)
اور خدا ہی نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ سے نکالا ، تم بالکل ناسمجھ تھے اور تم کو
کان دیا اور آنکھیں دیں اور دل عطا کئے تاکہ تم شکر کرو۔
یہ آیت بھی انسان کی سعادت میں عمومی (حواس ودل) اسباب معرفت کے کردار اور خداوند عالم سے تشکر کے بارے میں بیان ہوئی ہے.
اس آیہ کریمہ کے سلسلہ میں متعدد ومختلف سوالات کئے گئے ہیں یہاں ہم ان دو سوالوں کے بارے میں تجزیہ وتحلیل کریں گے جو ہمارے موضوع سے بہت زیادہ مربوط ہیں.
١۔فلسفی مباحث میں کہا گیا ہے کہ ہر موجود مجرد اپنے آپ سے آگاہ ہے اور انسان کا نفس ایک موجود مجرد ہے لہٰذا اپنی ذات کے بارے میں معلومات رکھنا چاہئے البتہ انسان بھی ابتدائی بدیہی چیزوں کو فطری طور پر جانتا ہے اور فطرت کی بحث میں ہم نے بیان بھی کیاہے کہ انسان فطری طور پر خدا سے آشناہے جیسا کہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ بعض انبیاء اور ائمہ معصومین شکم مادر ہی میں صاحب دانش تھے تو کیوں آیہ شریفہ میں بالکل انسان کو ولادت کے وقت کسی بھی طرح کی معلومات سے عاری بتایا گیاہے .
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ آیہ اس ظاہری علوم کو بیان کررہی ہے جو انسان عام طور پر حاصل کرتا ہے اور انبیاء وائمہ کے استثنائی علوم نیز انسان کے نامعلوم اور نصف معلوم علوم (١)کو بیان نہیں کررہی ہے ،لہٰذا اپنے سلسلہ میں نفس کی معلومات اور ابتداء خلقت کے تمام فطری معارف میں خدا کے بارے میں نامعلوم حضوری معرفت اور معصوم رہبروں کے علوم بھی (لاتعلمون شیئاً کی عبارت سے) کوئی منافات نہیں رکھتے ہیں . اسکے علاوہ اگر فرض کرلیا جائے کہ یہ عبارت معلوم اور نامعلوم تمام بشری علوم کو شامل ہے تویہ جملہ عام ہے جو قابل تخصیص ہے اور ہم عقلی یا نقلی دلائل سے مذکورہ موارد کو تخصیص دیں گے اور آیہ ان موارد کو شامل نہیں ہوگی .
٢۔لفظ'' فؤاد'' اور اس کی جمع ''افئدہ'' سے مراد اور قرآن کی اصطلاح میں قلب اور فلسفہ کی اصطلاح میں'' نفس'' سے کیا مراد ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن میں فواد لفظ قلب کے مترادف ہے اسی بنا پر ہم حضرت موسیٰ کی داستان میں پڑھتے ہیں:
..............
(١)جب لفظ علم ، عرف میں استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد معلومات ہے لیکن دقیق فلسفی اعتبار سے علم کی تین قسمیں ہیں : ''بے خبری ''، ''نصف معلومات '' ، ''پوری معلومات '' ۔''بے خبری ''وہ علم ہے جس کے بارے میں انسان کوئی درک و فہم نہیں رکھتا ہے حتی اس سے متعلق سوال کے مقابلہ میں کہتا ہے کہ: میں نہیں جانتا ہوں ! لیکن تجربیات اور عقلی دلائل سے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ ایسی بے خبری کا علم انسان میں بہت زیادہ ہے،'' نصف آگاہی ''وہ علم ہے جس میں انسان اس بات سے باخبر ہے کہ وہ نہیں جانتا ہے ،لیکن یہ ممکن ہے کہ باخبر ہوجائے ،جس طرح ہم بہت سی چیزوں کے بارے میں جانتے ہیں لیکن فعلاً ہم غافل ہیں ،لیکن کسی انگیزۂ معانی یا اس کے متناسب محرک سے روبرو ہونے یا انسان کو متوجہ کرنے والے دوسرے عوامل کے ذریعہ ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ ہم اسے جانتے ہیں ،''پوری معلومات ''یہ ہے کہ ہمارے پاس علم ہے اور اس بات کابھی علم ہے کہ ہم جانتے ہیں ،جب عرف میں کہا جاتا ہے کہ وہ فلاں مسئلہ کا علم رکھتا ہے تو یہی تیسرا معنی مراد ہوتا ہے ۔
(وَ أَصبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَیٰ فَارِغاً ن کَادَت لَتُبدِی بِہِ لَو لا أَن رَّبَطنَا
عَلَیٰ قَلبِھَا لِتَکُونَ مِنَ المُؤمِنِینَ)(١)
اور موسیٰ کی ماں کا دل ایسا بے چین ہوگیا اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کردیتے
تو قریب تھا کہ راز کو فاش کردیتی تا کہ مومنوں میں سے ہوجائے ۔
اس آیہ میں فواد اور قلب کا ایک ہی چیز پر اطلاق ہوا ہے اور حالت اضطراب (دل کا متیحیر ہونا) اور احساس آرام کو دل کی طرف نسبت دی گئی ہے .
حقیقت میں یہ دولفظیں انسان یا حیوان کے بدن میں ایک مخصوص عضو کے معنی میں ہیں کہ جن کا کام خون کو صاف کرنا اور اس کو گردش دینا ہے اور عام طورپر سینہ کے بائیں حصہ میں ہے لیکن عرف میں احساسات ، عواطف اور مرکز ادراکات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اس لفظ کے لغوی وعرفی معنی کے درمیان رابطہ شاید اس طرح سے ہو کہ عرف عام تصور کرتا تھا کہ ادراک و احساس اس مخصوص اعضا سے مربوط ہیں اور انہیں کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں ۔(٢)
..............
(١) سورہ قصص آیت :١٠۔
(٢)قرآن میں بھی کبھی لفظ قلب اسی عرفی اصطلاح میں استعمال ہوتا ہے جیسے (فَِنّھَا لا تَعمَی الأبصَارُ وَ لَٰکِن تَعمَی القُلُوبُ الَّتِی فِی الصُدُورِ)حج ٤٦(کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ وہ دل جو ان سینہ میں ہے وہی اندھا ہوجایا کرتاہے )ممکن ہے کہاجائے کہ یہ رابطہ ایک خیالی رابطہ ہے تو کیوں قرآن اشارتاً اس کی تائید کرتا ہے ؟ جواب میں کہا جاسکتا ہے : چونکہ قرآن مجید انسانوں کی زبان میں نازل ہوا ہے لہٰذا اس حصہ میں ان کی اصطلاحات کے مطابق گفتگو کی ہے اور مراد یہ ہے کہ تمہارے چہرے کی آنکھوں کے بارے میں نہیں کہا ہے بلکہ تمہارے دل کی آنکھیں اندھی ہیں ،اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ صدور سے مراد جسمانی سینہ نہیں ہے بلکہ دل سے مراد درک کرنے والی قوت ہے اور صدر سے مراد انسان کا باطن ہے ؛ اس لئے کہ عرف میں معمولاً جب باطن کی طرف اشارہ کیاجاتا ہے تو کہتے ہیں کہ : ''میرے سینہ میں راز ہے ''۔ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے : (نّ اللّہَ عَلِیم بِذَاتِ الصُّدُورِ)لقمان ٢٣.خداوند عالم سینوں کے اندر کے حالات کو بھی جانتا ہے ، اس.
لئے کہ بدن کی سب سے چھپی اور مخفی جگہ سینہ ہے ۔لہٰذا قلب یعنی مرکز ادراک اور صدر یعنی انسان کے باطن کا ایک حصہ ہے .حتی اگر ہم یہ قبول نہ کریں کہ قلب مرکز احساس و ادراک ہے تو کم از کم ایک ایساعضو ہے جو ہر عضو کے مقابلہ میں بہت زیادہ روح سے مربوط ہے اور ایسا عضو ہے جو بدن سے روح کی جدائی کے وقت سب سے آخر میں بیکار ہوتا ہے . روح کا بدن کے تمام اعضا سے رابطہ مساوی نہیں ہے .اور بعض اعضا جیسے قلب و مغز میں یہ رابطہ سب سے پہلے اور قوی ہوتاہے اور شاید یہ کہا جاسکتا ہے کہ : قلب سے روح کا رابطہ سب اعضاپرمقدم ہے ۔
بہرحال قرآن میں فواد وقلب کے استعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد سینہ کے اندر مادی عضو یا کوئی روح نہیں ہے بلکہ متعدد قوتوں کا مالک ہوناہے اس لئے کہ آیات قرآن میں مختلف امور کو قلب اور فواد کی طرف نسبت دی گئی ہے جوہر قسم کی روحی توانائی سے مربوط ہے ،مثال کے طور پر مندرجہ ذیل آیتوں میں''فقہ''جو دقیق فہم کے معنی میں ہے اور ''عقل'' جو حقیقی دریافت کے معنی میں ہے قلب کی طرف نسبت دی گئی ہے .
(أَ فَلَم یَسِیرُوا فِی الأرضِ فَتَکُونَ لَھُم قُلُوب یَعقِلُونَ بِھَا)
کیا یہ لوگ روئے زمین پر چلتے پھرتے نہیں(اور غور و فکر نہیں کرتے ) تاکہ
ان کے ایسے دل ہوتے جس سے حق باتوں کو سمجھتے ۔(١)
(وَ لَقَد ذَرَأنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیراً مِنَ الجِنِّ وَ الِنسِ لَھُم قُلُوب
لا یَفقَھُونَ بِھَا وَ لَھُم أَعیُن لا یُبصِرُونَ بِھَا وَ لَھُم آذَان
لا یَسمَعُونَ بِھَا. )(٢)
اور گویا ہم نے بہت سے جنات اور آدمیوں کو(اپنے اختیار سے عمل انجام
دیں چونکہ غلط راستہ کو انتخاب کیا ہے )جہنم ہی کے واسطے پیدا کیا ان کے
پاس دل تو ہیں مگر اسسے سمجھتے نہیں ہیں اور ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر
..............
(١) سورہ حج ٤٦۔
(٢) سورہ اعراف ١٧٩۔
اس سے دیکھتے نہیںاور انکے پاس کان تو ہیں مگر اس سے سنتے ہی نہیں ۔
دوسری طرف احساسات اور عواطف چاہے مثبت ہوں یا منفی مثال کے طور پر اچھا لگنے اور برا لگنے کو دل کی طرف نسبت دی گئی ہے جیسے
(ِنَّمَا المُؤمِنُونَ الَّذِینَ ِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَت قُلُوبُھُم)(١)
سچے ایماندار تو بس وہی لوگ ہیں کہ جب خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل
کاپنے لگتے ہیں ۔
(وَ ِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحدَہُ ِشمَأَزَّت قُلُوبُ الَّذِینَ لا یُؤمِنُونَ بِالآخِرَةِ)
اور صرف اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جولوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے
دل متنفر ہوجاتے ہیں ۔(٢)
دوسری آیات میں قلب کو، مکان ایمان(٣)مرکز انحراف(٤) بیماری (٥)اور مہرزدہ(٦) سمجھا گیا ہے ،بعض آیات کے ذریعہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ قلب علم حضوری بھی رکھتا ہے جیسے .
(کَلاّ بَل رَانَ عَلَیٰ قُلُوبِھِم مَّا کَانُوا یَکسِبُونَ کَلاّ ِنَّھُم عَن رَّبِّھِم
یَومَئِذٍ لَّمَحجُوبُونَ)(٧)
ہرگزنہیں بلکہ بات یہ ہے کہ یہ لوگ جو اعمال کرتے ہیں ان کا انکے دلوںپر
زنگ بیٹھ گیا ہے بیشک اس دن اپنے پروردگار سے روک دیئے جائیںگے۔
..............
(١)انفال ٢۔(٢)زمر ٤٥۔
(٣)حجرات ٧
(٤)آل عمران ٧
(٥)بقرہ ١٠
(٦)بقرہ٧۔
(٧) مطففین ١٤،١٥۔
ان لوگوں کو روز قیامت خدا وند عالم کا جلوہ دیکھنا چاہیئے لیکن ان کے اعمال آئینہ دل پر تصویر کے مانند ہوگئے ہیں جو مانع ہے کہ انوار الہی اس میں جلوہ گر ہو اس لئے دل وہ شیٔ ہے جو خداوند عالم کا مشاہدہ کرتا ہے اور یہ معنی روایات میں بھی آیا ہے :
''لا تدرکُہُ العُیُون بِمشاھدةِ العیان ولکِن تُدرکُہ القلُوب بحقَائقِ الیمان''
ظاہری آنکھیں اس کو دیکھ نہیں سکتی ہیں لیکن قلوب اس کو حقائق ایمان کے ذریعہ
درک کرتے ہیں.(١)
قرآن میں انتخاب واختیار کو بھی دل کی طرف نسبت دیا گیا ہے :
(لا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغوِ فِی أَیمَانِکُم وَلٰکِن یُؤَاخِذُکَُم بِمَا کَسَبَت
قُلُوبُکُم )(٢)
تمہاری لغو قسموں پر خدا تم سے گرفت نہیں کرے گا مگر ان قسموں پر ضرور تمہاری
گرفت کرے گا جو تم نے قصداً دل سے کھائی ہو۔
(وَ لَیسَ عَلَیکُم جُنَاح فِیمَا أَخطَأتُم بِہِ وَلٰکِن مَّا تَعَمَّدَت قُلُوبُکُم وَ
کَانَ اللّٰہُ غَفُوراً رَحِیماً)(٣)
اور ہاں اگر بھول چوک ہو جائے تو اس کا تم پر کوئی الزام نہیں ہے مگر جب تم دل
سے (انتخاب کیا ہے )جان بوجھ کر کرو(مواخذہ کیا جائے گا) اور خدا تو بڑا بخشنے
والا مہربان ہے ۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ قلب قرآن مجید میں ایسی شی ٔہے جو علم حضوری اور علم حصولی بھی رکھتا ہے
..............
(١)نہج البلاغہ ، خ١٧٩۔
(٢)سورہ بقرہ ٢٢٥۔
(٣) سورہ احزاب ٥۔
اور احساس ،ادراک ، ہیجان ، عواطف ،انتخاب اور اختیارکو بھی اسی کی طرف نسبت دی جاتی ہے . تنہا وہ چیز جس کو نفس کی طرف نسبت دی جاتی اور قلب کی طرف نسبت نہیں دی جاتی ہے وہ افعال بدن ہیں.اس لئے کہ'' قلب وفؤاد'' ایک مخصوص قوت نہیں ہیں .(١) قرآن مجید میں ان کے موارد استعمال کے اعتبار سے اس چیز کے مترادف ہے جسے فلسفہ میں روح یا نفس کہا جاتا ہے۔ بہر حال بعض آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ خداوند عالم نے معرفت کے لئے اسباب خلق کئے جن میں سب سے مہم آنکھ ،کان اور دل ہیں.(٢)
مذکورہ اسباب انسان کو صحیح راہ کی طرف متوجہ اور راہ معرفت میں گمراہی سے بچانے نیز مبدأ ومعاد اور کمال کے حصول کی راہ کے بارے میں عمومی معارف کے درک میں مدد پہونچانے کے لئے مہم کردار ادا کرتے ہیں . اور اگر کوئی ان کو استعمال کرے اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرے تو مبدا ،معاد اور راستہ کی راہنمائیوں کو پہچان لے گا لیکن یہ اسباب، کمال کے حصول کی راہ کو لمحہ بہ لمحہ اور دقیق انداز میں بتانے سے ناتواں ہیں اور یہ کہ کون سا کام سعادت لاتا ہے اور کون سا کام برائی پیدا کرتا ہے و.کے لئے بالکل صحیح راہ عمل کی تعیین کے سلسلہ میں ان پراکتفا ء نہیں کیا جا سکتا ہے. حقیقت یہ ہے کہ دنیا وآخرت کے درمیان لمحہ بہ لمحہ اور بالکل صحیح رابطہ کے تعیین کو کشف کرنا ان اسباب کی توانائی سے باہر ہے . اسی لئے وحی کی ضرورت ہے اوراس طرح معارف وحی کی اہمیت ہم پر آشکارہوجاتی ہے البتہ یہ وہی مخصوص راہ ہے جسے خداوند عالم نے بشر کی حقیقی اور نہائی سعادت حاصل کرنے کے لئے انسان کے اختیار میں قرار دیا ہے . اسی لئے عمومی اسباب معرفت ،راہ سعادت کے عمومی طریقے بیان کرنے میں بہت کارساز ہیں لیکن خطا کا احتمال اور متاثر ہونے کا امکان نیز ان کی محدودیت وغیرہ کی وجہ سے راہ سعادت کی تفصیلی معرفت میں ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے ، لہذا ایک اور راہ کی ضرورت ہے اور وہ راہ وحی و نبوت ہے ۔
..............
(١)فلسفی بحثوں میں انسان سے سرزد ہونے والے ہر کام کے لئے ایک مخصوص مبدا ہے ۔ جب ہم مختلف اقسام کے ادراکات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایک دوسرے سے الگ اور مختلف ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ان سب چیزوں کے لئے ایک قوت ہے جیسے حس مشترک ، خیال ، حافظہ اور عقل لیکن نفسیاتی کیفیات اور انفعالات کے لئے کسی فاعلی مبدا کے قائل نہیں ہیں اور اس کو نفس کی طرف نسبت دیتے ہیں ۔
(٢)قرآن مجید مختلف وسائل سے معرفت و دانش کے حصول کے سلسلہ میں ایک خاص اہمیت و احترام کا قائل ہے لیکن انسان کے لئے بعض ایسے علم کو بھی شمار کیا ہے جو معمولی راہوں سے حاصل نہیں ہوتے ہیں ، ان میں سے منجملہ وہ علوم ہیں جو وحی کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں :(الرَّحمٰنُ عَلَّمَ القُرآنَ)رحمٰن ٢۔ہم معمولی راہوں سے عالم قرآن ہوتے ہیں ، لیکن پیغمبر ۖ علم حضوری سے حقیقت و ذات وحی کو حاصل کرکے عالم قرآن ہوتا ہے ۔ انبیاء پر وحی کے علاوہ ،'' علم لدنی'' نیز غیر انبیاء کے لئے وحی سے حاصل ہونے والے علوم غیر معمولی راہوں کو بیان کرتے ہیں۔ لفظ لدنی قرآن میں نہیں آیا ہے لیکن ایسے علم کا نام لیا گیا ہے جو خدا وند قدوس کی طرف ( لدنی) سے ہے : (وَ عَلَّمنَاہُ مِن لَّدُنَّا عِلماً) کہف ٦٥۔ہم نے اسے اپنے پاس سے علم دیا ۔ اور حضرت مریم اور مادر موسی کے سلسلہ کی وحی میں آیا ہے کہ: (وَ أَوحَینَا لَیٰ أُمِّ مُوسَیٰ أَن أَ رضِعِیہِ فَِذَا خِفتَ عَلَیہِ فَأَلقِیہِ فِی الیَمِّ وَ لاتَخَافِی وَ لا تَحزَنِی ِنَّا رَادُّوہُ ِلَیکِ وَ جَاعِلُوہُ مِنَ المُرسَلِینَ) قصص٧ ۔ (اور ہم نے موسی کی ماں کے پاس یہ وحی بھیجی کہ تم اس کو دودھ پلا لو پھر جب اس کی نسبت کوئی خوف ہو تو اس کو دریا میں ڈال دو اور تم بالکل نہیں ڈرنا اور نہ ہی سہمنا ہم اس کو پھر تمہارے پاس پہونچا دیں گے اور اس کو رسول بنائیں گے ۔) مادر موسی نے اسی وحی کے ذریعہ اپنے فرزند کے مستقبل کے بارے میں علم وخبر حاصل کیاتھا۔ اور حضرت مریم کے بارے میں فرماتا ہے :
(ِذ قَالَتِ المَلائِکَةُ یَامَریَمُ ِنَّ اللّہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ مِّنہُ اسمُہُ المَسِیحُ عِیسَیٰ ابنُ مَریَمَ .)آل عمران ٤٥۔(جب فرشتوں نے کہا اے مریم خداتم کو صرف اپنے حکم کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام عیسی ٰ مسیح ابن مریم ہوگا )
|