انسان شناسی
 

ب) اجتماعی اور تاریخی جبر
اجتماعی اور تاریخی جبر کا عقیدہ بعض فلاسفہ اور جامعہ شناسی کے ان گروہ کے درمیان شہرت رکھتا ہے جو جامعہ اور تاریخ کی اصالت پرزور دیتے ہیں ان کے عقیدہ کے مطابق کسی فرد کی
معاشرے اور تاریخ سے الگ کوئی حقیقت نہیں ہے .معاشرہ اور تاریخ ایک با عفت وجود کی طرح اپنے تمام افراد کی شخصیت کو مرتب کرتے ہیں لوگوں کا تمام فکری (احساس )اور افعالی شعور، تاریخ اور معاشرے کے تقاضہ کی بنیاد پر مرتب ہوتے ہیں اور انسان اپنی شخصیت کوبنانے میں ہر طرح کے انتخاب اور اختیار سے معذور ہے نمونہ کے طور پرہگل مارکس ، اور ڈورکھیم کے نظریوں کو ذکر کیا جا سکتا ہے . ہگل جو تاریخ کے لئے ایک واقعی حقیقت کا قائل ہے معتقد تھا کہ تاریخ صرف تاریخی حوادث یاسادہ سلسلۂ عبرت کے لئے ہے کہ جس کی نظری اور فکری تجزیہ وتحلیل نہیں ہوتی ،اس کی نظر میں گوہر تاریخ ،عقل ہے(اس کا نظریہ اسی مفہوم کے اعتبار سے ہے) اور تاریخی ہر حادثہ اس کے مطابق انجام پاتا ہے، تاریخ ساز افراد ، مطلق تاریخ کی روح کے متحقق ہونے کا ذریعہ ہوتے ہیں اور بغیر اس کے کہ خود آگاہ ہوں اس راہ میں قدم بڑھاتے ہیں۔ (١)مارکس کا نظریہ تھا کہ انسان کا ہر فرد تاریخ اور معاشرہ کا نتیجہ ہے. تمام انسانی افعال تہذیت و ثقافت ، مذہب،ہنر،اجتماعی افراد کے علاوہ تمام چیزیں معاشرہ پر پھیلے ہوے اقتصادی روابط پر مبنی ہیں.(٢)اس لئے انسان کے ہر فرد کی آمادگی کا تنہا حاکم اس کے معاشرے پرحاکم اقتصادی روابط کو سمجھنا چاہیئے اس لئے کہ اقتصادی روابط زمانہ کے دامن میں متحول ہوتے رہتے ہیں جس کے نتیجہ میں معاشرہ متحول ہوتا ہے اور معاشرے کے معقول ہونے سے انسانوں کی شخصیت ،حقیقت ،تہذیب و ثقافت اور اس کے اعتبارات بھی متحول ہوجاتے ہیں. ڈورکھیم اس جبر کی روشنی میں ''نظریہ آئیڈیا'' کی طرف مائل ہوا ہے کہ انسان ایک فردی واجتماعی کردار رکھتا ہے . اوراس کا اجتماعی نقش ارادوں ،خواہشوں ، احساسات اور تمام افراد کے عواطف کے ملنے اور ان کے ظاہر ہونے سے حاصل ہوتا ہے اور یہی روح معاشرہ ہے۔
اور یہ روح اجتماعی بہت قوی ہے جو افراد کے وجودی ارکان پرمسلط ہے شخصی اور فردی ارادہ اس کے مقابلے میں استادگی کی توانائی نہیں رکھتا ہے. وہ افراد جو اس روح اجتماعی کے تقاضوں کے زیر اثر ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جو چیز یں سماج ا ورمعاشرہ نے انسان کو دیا ہے اگر وہ اس کو واپس کردے تو حیوان سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔
..............
(١) بعض فلاسفۂ تاریخ بھی معمولاًتاریخ کے لئے ایسے اعتبارات ، قوانین اور مراحل مانتے ہیں جو غیر قابل تغیر ہیں اور انسانوں کے ارادے ، خواہشات ،جستجو اور معاشرے انہیں شرائط و حدود میں مرتب ہوتے ہیں (٢)البتہ مارکس کا ''اجتماعی جبر '' فیور بیچ اور ہگل کے تاریخی جبر کی آغوش سے وجود میں آیا ہے ۔
اجتماعی اور تاریخی جبر کی تجزیہ وتحلیل
پہلی بات: سماج اور تاریخ کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے بلکہ یہ مرکب اعتباری ہیں جو افراد کے اجتماعی اور زمان ومکان کے دامن میں انکے روابط سے حاصل ہوتے ہیں اور وہ چیزیں جو وجود رکھتی ہیں وہ ہرفرد کے روابط اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں عمل و رد عمل کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔
دوسری بات: ہم اجتماعی و تاریخی عوامل،اقتصادی روابط جیسے ، اعتبارات ، آداب و رسوم اور تمام اجتماعی و تاریخی عناصر کی قدرت کے منکر نہیں ہیں اور ہمیںافراد کی شخصیت سازی کی ترکیبات میں ان کے نقش و کردار سے غافل بھی نہیں ہونا چاہئے . لیکن اجتماعی اور تاریخی عوامل میں سے کوئی بھی انسان کے اختیار کو سلب کرنے والے نہیں ہیںاگر چہ معاشرہ زمان ومکان کی آغوش میں اپنے مخصوص تقاضے رکھتا ہے اور انسان سے مخصوص اعمال و رفتار کا خواہاں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان مجبور ہے اور اس سے اختیار سلب ہوگیا ہے جبکہ انسان ان تمام عوامل کے مقابلہ میں مقاومت کرسکتا ہے حتی معاشرہ کی سر نوشت میں اثر انداز ہو سکتا ہے. جیسا کہ اس طرح کے اثرات کے نمونوں کو معاشروں کی تاریخ میں بہت زیادہ دریافت کیا جا سکتا ہے .

ج)فطری جبر
فلسفۂ مادی اور مادہ پرستی کے ہمراہ ارثی صفات کے سلسلہ میں علمی ارتقاء انسان کی جبری زندگی کا عقیدہ پیش کرتاہے .جو لوگ انسان کے اندر معنوی جوہر کے وجود کے منکر ہیں اور اس کو صرف اپنی تمام ترقدرتوں سے مزین ایک پیکر اور جسم سے تعبیر کرتے ہیں .اور اس کی بہت سی توانائیاں انسانی خصوصیات کے ارثی و وراثتی عوامل کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں اور انسان کے تمام نفسیاتی و ذہنی حالات کی مادی توجیہ کرتے ہیں . اور لذت ،شوق ،علم،احساس اور ارادہ کو مغز کے اندر سلسلۂ اعصاب اور الکٹرانک حرکتوں کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے ہیں لہٰذا طبیعی طور پر عقیدہ جبر کی طرف گامزن ہیں .(١) ایسی صورت میں انسان کو اخلاقاً اس کے اعمال کے مقابلے میں ذمہ دار نہیں سمجھا جاسکتا ہے .کیونکہ ایسی حالت میں جزا و سزا اپنے معنی و مفہوم کھو دیں گے اس لئے کہ ان سوالوں کے مقابلہ میں کہ کیوں فلاں شخص مرتکب جرم ہوا ہے ؟ تو جواب دینا چاہئے کہ اس کے ذہن میں مخصوص الکٹرانک اشیا کا تحقق اس کے تحریک کا باعث ہوا ہے اور یہ حادثہ وجود میں آیا ہے اور اگر سوال یہ ہو کہ کیوں یہ مخصوص اشیاء اس کے ذہن اور اعصاب میں حاصل ہوئیں؟ تو جواب یہ ہے کہ فلاں حادثہ بھی فلاں فطری اور الکٹرانک حوادث کی وجہ سے تھا . اس تحلیل کی روشنی میں مغز کے مادی حوادث انسان کے خارجی افعال و حوادث کے اسباب ہیں . مغز کے مادی حوادث میں سے کوئی بھی ارادی ، اختیاری افعال اور انسانوں میں تبدیلی وغیرہ اُن ارثی صفات اور فطری بناوٹ میں تبدیلی کی بنا پر ہے جن کا ان کی ترکیبات میں کوئی کردار نہیں ہے. یعنی لوگوں نے ترقی کرتے ہوئے کہا ہے کہ : بیرونی فطرت کے قوانین کا تقاضا یہ ہے کہ ہر انسان سے مخصوص افعال سرزد ہوں اور یہ عوامل جدا ہونے والے نہیں ہیں . وہ افعال جو انسان سے سرزد ہوتے ہیں نہ مخصوص نفسیاتی مقدمات (فہم وخواہشات ) ہیں جو فطری اور بیرونی طبیعی حوادث سے بے ربط نہیں ہیں . مثال کے طور پر ہمارا دیکھنا ،اگر چہ یہ فعل ہے جو نفس انجام دیتا ہے. لیکن نفس کے اختیار میں نہیں ہے. عالم خارج میں فطری بصارت کی شرطوں کا متحقق ہونا موجب بصارت ہوتا ہے اور یہ بصارت ایک ایسا عنصر ہے جو ہمارے اختیاری فعل میں موثر ہے۔
..............
(١) ا سکینر ،کتاب ''فراسوی آزادی و منزلت''میں کہتا ہے کہ : جس طرح بے جان اشیاء کوجاندار سمجھنا ( بے جان چیزوں سے روح کو نسبت دینا ) غلط ہے اسی طرح لوگوں کو انسان سمجھنا اور ان کے بارے میں فکر کرنا اور صاحب ارادہ سمجھنا بھی غلط ہے،ملاحظہ ہو: اسٹیونسن، لسلی؛ ہفت نظریہ دربارۂ طبیعت انسان ؛ ص ١٦٣۔
اس تاثیر کی دلیل یہ ہے کہ انسان جب تک کسی چیز کو نہیں دیکھے گا اس کی طرف احساس تمایل بھی نہیں کرے گا لیکن جب اس کو دیکھتا ہے تو اس کا ارادہ مورد نظر فعل کے انجام سے مربوط ہوجاتا ہے۔(١)دیکھنا ،ایک غیر اختیاری شیٔ ہے اور طبیعی قوانین کے تابع ہے. پس جو بھی چیز اس پر مرتب ہوگی اسی قوانین کیتابع ہوگی۔
انسان بھی اگر چہ خواہشات سے وجود میں آتا ہے جو ہمارے اندر موجود ہے لیکن فطرت سے بے ربط نہیں ہے. نفسیاتی علوم کے ماہرین نے بھی اس بات کو ثابت کیا ہے کہ عوامل طبیعی خصوصاً انسان میں خواہشات کے بر انگیختہ کرنے کا موجب ہوتا ہے . ہم لوگوںنے بھی تھوڑا بہت آزمایا ہے اور معروف بھی ہے کہ زعفران خوشی دلاتا ہے اور مسور کی دال قلب میںنرمی پیدا کرتی ہے . قانون وراثت کی بنیاد پر انسان اپنے اباء و اجداد کی بہت سی خصوصیات کا وارث ہوتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے.
یہ تمام چیزیں طبیعی وفطری عوامل کے مطابق انسان کے مجبور ہونے کی دلیل ہے اور ان کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا ارادہ ،فطری اور طبیعی عوامل کے ذریعہ حاصل ہوتاہے گر چہ ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ
بغیر کسی مقدمہ کے ارادہ کیا ہے۔(2)
..............
(١) بابا طاہر کہتے ہیں :
ز دست دیدہ و دل ہر دو فریاد
کہ ہرچہ دیدہ بیند دل کند یاد
بسازم خنجری نیشش ز پولاد
زنم بر دیدہ ، تا دل گردد آزاد
میں چشم و دل ، دونوں سے رنجیدہ ہوں کہ جو کچھ آنکھ دیکھتی ہے اسے دل محفوظ کرلیتا ہے ۔میں ایسا خنجر بنانا چاہتا ہوں جس کی نوک فولاد کی ہواور اسی سے آنکھ پھوڑ دوں گا تاکہ دل آزاد ہوجائے ۔
اور اس کا عکس بھی صادق ہے کہ کہا گیا ہے :
از دل برود ، ہر آن کہ از دیدہ برفت
جو کچھ آنکھ سے پوشدہ ہو جاتا ہے دل سے بھی رخصت ہو جاتا ہے ۔
(2)قابل ذکربات یہ ہے کہ حیاتی اور مادی جبر میں انسان کے معنوی جوہر اور روحانی حالات کی نفی پر تاکید ہوئی ہے اور انسان کو ہمیشہ ایک مادی مخلوق سمجھا جاتا ہے لیکن فطری شبہہ کا جبر میں کوئی اصرار پایا نہیں جاتا ہے بلکہ فطری اسباب و علل اور ان پر حاکم قوانین کے مقابلہ میں فقط انسان کے تسلیم ہونے کی تاکید ہوئی ہے یعنی اگر انسان میں روح اور حالات نفسانی ہیں تو یہ حالات فطری علتوں کی بنیاد پر مرتب ہوتے ہیں اور اس میں انسان کے ارادہ و اختیار کا کوئی دخل نہیں ہے .
فطری جبرکی تجزیہ و تحلیل
اس طرح کے جبر کا عقیدہ انسان کے کردار وشخصیت سازی اور طبیعی ،فکری اورموروثی عوامل کے کردار میں افراط ومبالغہ سے کام لیناہے . انسانوں کی متفاوت ومتفرق زندگی اور وراثت کے عنصر کا کسی طرح سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن انسان کے کردار وشخصیت سازی کے سلسلہ میں تمام موثرعوامل سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ارثی علت میں منحصر کرناکسی طرح صحیح نہیں ہے. انسان کو اس زاویہ سے نگاہ کرنے میں بنیادی اشکال اس کے معنوی اور روحانی جہت سے چشم پوشی کرناہے. جبکہ گذشتہ فصلوں میںقرآنی آیات اور فلسفی براہیں سے استدلال کرتے ہوئے ہم نے انسانوں کے فہم واحساسات کے مرکز ، معنوی اور غیر مادی جوہر کے وجود کو ثابت کیا ہے. نفس مجرد کے وجود کو ثابت کرنے کے بعد اس قسم کے جبر پر اعتقاد کے لئے کوئی مقام نہیں ہے اس لئے کہ ارادہ کا آزاد ہونا انسان کے روح مجرد کی قابلیتوں میں سے ایک ہے اور انسان کے آزاد ارادے کو مورد نظر قرار دیتے ہوئے ،اگر چہ مادی ترکیبات کے فعل و انفعالات اور فطری عوامل کا کردار قابل قبول ہے لیکن ہم اس نکتہ کی تاکید کررہے ہیں کہ ان امور کا فعال ہونا اختیار انسان کے سلب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے.مادی ترکیبات کے فعل وانفعالات کے حصول اور بعض خواہشات کے بر انگیختہ ہونے میں خارجی عوامل اور ان کی تاثیروں کے باوجود کیا ہم ان عوامل کے مقابلہ میں مقاومت کرسکتے ہیں ؟اس سلسلہ میں اپنی اور دوسروں کی روز مرہ زندگی میں بہت زیادہ نمونوں سے روبرو ہوتے رہے ہیں۔
قانون وراثت کا بھی یہ تقاضا نہیں ہے کہ جو فرزند اپنے آباء واجداد سے بعض خصوصیات کا وارث ہواہے وہ کسی بھی انتخاب کی قدرت نہیں رکھتا ہے. اگرمذکورہ امور کو بعض انسانی اعمال کا نتیجہ فرض کرلیا جائے تو یہ جزء العلة ہوں گے لیکن آخر کار ، انسان بھی اختیار استعمال کرسکتا ہے اور تمام ان عوامل کے تقاضوں کے بر خلاف دوسرے طریقہ کار کے انتخاب کی بنا پر انسان کے بارے میں مادی فعل وانفعال اور وراثت کی صحیح پیش بینی ،فطری عوامل کے اعتبار سے نہیں کی جا سکتی ہے۔