عقیدہ ٔ جبر کے شبہات
جیسا کہ کہا گیا ہے کہ انسان کا مختار اور وجدانی ہونا عقلی نقلی دلیلوں کے علاوہ تجربی شواہد سے بھی ثابت اور مورد تائید ہے لیکن کسی بنا پر ( منجملہ بعض شبہات کی وجہ سے جو انسان کے اختیار کے بارے میں بیان ہوئے ہیں ) بعض لوگ جبر کے قائل ہیں یہاں ہم ان شبہات کا تجزیہ کریں گے ۔
جبر الٰہی
مذکورہ شبہات میں سے ایک شبہہ جبر الٰہی ہے ،تاریخ اسلام میں ایک گروہ کو ''مجبرہ'' کہتے ہیں یہ گروہ معتقد تھا کہ دینی تعلیمات کے ذریعہ یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان اپنے اختیاری افعال میں مجبور ہے ، جبر الٰہی کے ماننے والوں کی استناد اور ان کے دینی بیانات کو تین دستوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
پہلا گروہ
وہ آیات و روایات جو علم غیب کے بارے میںہیں، ان میںمذکور ہے کہ خداوند عالم، انسان کے افعال اختیاری کے انجام پانے سے پہلے ان افعال اور ان کے انجام پانے کی کیفیت سے آگاہ ہے اور انسانوں کی خلقت سے پہلے وہ جانتا تھا کہ کون انسانِ صالح و سعادت مند ہے اور کون برا و بدبخت ہے اور یہ حقائق لوح محفوظ نامی کتاب میں ثبت ہیں جیسے :
(وَ مَا یَعزُبُ عَن رَّبِّکَ مِن مِّثقَالِ ذَرَّةٍ فِی الأرضِ وَ لا فِی السَّمَائِ
وَ لا أَصغَرَ مِن ذٰلِکَ وَ لا أَکبَرَ ِلا فِی کِتَابٍ مُّبِینٍ)(١)
اور تمہارے پروردگار سے ذرہ بھر بھی کوئی چیز غائب نہیں رہ سکتی نہ زمین میں اور
نہ ہی آسمان میںچھوٹی ، بڑی چیزوں میں سے کوئی ایسی نہیں ہے مگر وہ روشن کتاب
میں ضرور ہے ۔
دوسرا گروہ
وہ آیات و روایات جو یہ بیان کرتی ہیں کہ انسان کے افعال خدا کے ارادہ اور اس کی طرف سے معینہ حدود میں انجام پاتے ہیں جیسے وہ آیات جو ہرشیٔ کے تحقق منجملہ انسان کے اختیاری اعمال کو خدا کی اجازت ، مشیت ، ارادہ نیزقضا و قدر الہٰی کا نتیجہ سمجھتی ہیں جیسے یہ آیات :
(وَ مَا کَانَ لِنَفسٍ أَن تُؤمِنَ لا بِِذنِ اللّٰہِ)(٢)
کسی شخص کو یہ اختیار نہیں ہے کہ بغیر اذن خدا ایمان لے آئے
(مَن یَشَأِ اللّٰہُ یُضلِلہُ وَ مَن یَشَأ یَجعَلہُ عَلَیٰ صِرَاطٍ مُّستَقِیمٍ)(٣)
اللہ جسے چاہے اسے گمراہی میں چھوڑ دے اور جسے چاہے اسے سیدھے راستہ پر لادے
( وَ مَا تَشَائُ ونَ ِلا أَن یَشَائَ اللّہُ )(٤)
اور تم لوگ وہی چاہتے ہو( انجام دینا)جو خدا چاہتا ہے ۔
پس انسان اس وقت ایمان لاتا ہے اور صحیح و غلط راستہ اختیار کرتا ہے یا کسی کام کو انجام دے
..............
(١)سورۂ یونس ٦١
(٢)یونس١٠٠
(٣)انعام ٣٩
(٤)تکویر ٢٩۔
سکتا ہے جب خدا کی مرضی شامل حال ہو ایک روایت میں امام علی رضا سے بھی منقول ہے کہ : ''لا یکُون لا مَاشَاء اللّہ وَ أرَاد وَ قدّر وَ قضیٰ '' (١)کوئی بھی چیز بغیر خدا کی مرضی و ارادہ نیز قضا و قدر کے متحقق نہیں ہوتی ہے ۔
تیسرا گروہ
وہ آیات و روایات جو بیان کرتی ہیں کہ : انسانوں کی اچھی اور بری فطرت پہلے ہی سے آمادہ ہے فقط طبیعت مختلف ہے ۔بعض انسانوں کی فطرت اچھی ہے اور وہ اسی اعتبار سے ہدایت پاتے ہیں اور بعض دوسرے انسانوں کی فطرت بری ہے جس کی بنا پر گمراہ ہوجاتے ہیں جیسے دو آیتیں (کَلاّ ِنَّ کِتَابَ الفُجَّارِ لَفِی سِجِّینٍ)(٢)(کَلاّ ِنَّ کِتَابَ الأبرَارِ لَفِی عِلِّیِّینَ)(٣)بیان کرتی ہیں کہ : اچھے لوگوں کی سرنوشت بلند مقام ( عِلِّیِّینَ ) اور برے افراد کی سرنوشت پست مقام ( سِجِّینِ ) بتائی گئی ہے جیساکہ مختلف احادیث بیان کرتی ہیں کہ : اچھے انسانوں کی فطرت میٹھے پانی اور برے افراد کی فطرت تلخ پانی سے تخلیق ہوئی ہے نیزان احادیث میں سے بعض احادیث میں آیا ہے کہ : '' الشَقِی مَن شقیٰ فِی بطنِ أمہِ و السعِید مَن سَعد فِی بطنِ أمہِ '' (٤)بد بخت وہی ہے جو شکم مادر میں بد بخت ہے اور سعادت مند وہی ہے جو شکم مادر ہی سے سعادت مند ہے ۔
..............
(١)کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ اصول کافی ، ج١ ، دار الکتب الاسلامیہ ، تہران :١٣٤٨، ص ١٥٨۔
(٢)مطففین ٧۔
(٣)مطففین١٨
(٤)مجلسی ، محمد باقر ؛ بحار الانوار ؛ دار الکتب الاسلامیہ ، تہران :١٣٦٣۔
جبر الٰہی کی تجزیہ و تحلیل
پہلے گروہ کے شبہہ کا جواب یہ ہے کہ خداوند عالم کا کسی شخص کے اچھے یا برے فعل کے انجام
دینے کا علم، اس فعل کے عالم خارج میں بغیر کسی قید و شرط کے انجام پانے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس فعل کو تمام قیود اور شرائط کے ساتھ انجام دینے کے معنی میں ہے ، منجملہ انسان کے اختیاری افعال میں یہ قیود، فعل کو پرکھنا ، انتخاب کرنا اور ارادہ کے ذریعہ انجام دینا ہے،دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ کسی کام کے انجام پانے کے بارے میں خدا کا علم ، جبر اور اختیار دونوں سے سازگار ہے اس لئے کہ اگر خدا جانتا ہے کہ یہ کام جبر کی بنا پر اور فاعل کے ارادہ کے بغیر انجام اور صادر ہوا ہے جیسے اس شخص کے ہاتھ کی لرزش جسے رعشہ ہو ، تو ظاہر ہے وہ فعل جبری ہے لیکن اگر خدا یہ جانتا ہے کہ فاعل نے اس کام کو اپنے اختیار اور ارادہ سے انجام دیا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ فعل اختیاری ہے اور فاعل مختار ہے جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان کے اختیاری افعال میں کام کے انجام پانے کی ایک شرط اور قید، انسان کا اختیار ہے ، اسی بنا پر خدا جانتا ہے کہ انسان مختار ہے اور اس کام کو اپنی مرضی اور اختیار سے انجام دے رہا ہے ۔
یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ جبر الٰہی کے معتقدین نے یہ تصور کیا ہے کہ چونکہ خداوند عالم فعل کے صادر ہونے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ ہم کیا کریں گے لہٰذا ہم مجبور ہیں ، جب کہ یہ تصور بھی غلط ہے اور ہمیں خود سے خدا کا تقابل نہیں کرنا چاہیئے ،خداوند عالم لامحدود اور زمان و مکان سے بالاتر ہے اس کے لئے ماضی ، حال و مستقبل کا تصور نہیں ہے۔ مادی مخلوقات اگرچہ زمانہ کے ہمراہ ہیں اور اپنے اور دوسرے کے ماضی و مستقبل کے حالات سے جاہل و بے خبر ہیں اور دھیرے دھیرے ان کے لئے حوادث واقع ہوتے ہیں، لیکن اس خدا کے بارے میں جو زمان و مکان سے بالاتر ہے اس کے لئے حرکت و زمان کا کوئی تصور ہی نہیں ہے اور یہ کائنات اس کے لئے پوری طرح سے آشکار ہے ، گذشتہ اور آئندہ کے حوادث کے بارے میں خدا وند عالم کا علم ہمارے حال اور موجودہ حوادث کے بارے میں علم رکھنے کی طرح ہے وہ کاروان ہستی اور سلسلۂ حوادث کو ایک ساتھ اور ایک ہی دفعہ میں مشاہدہ کرتا ہے ، غرض یہ کہ کسی چیز کے متحقق ہونے سے پہلے اور متحقق ہونے کے وقت ، اور متحقق ہونے کے بعد کا علم اس کے لئے متصور نہیں ہے ،بہر حال جس طرح اس شخص کے بارے میں ہمارا علم جو ہمارے ہی سامنے اچھا کام کرتا ہے اس کے مجبور ہونے کا سبب نہیں بنتا ہے اسی طرح خدا کا علم ( ہمارے اعتبار سے اس اچھے کام کے متحقق ہونے سے پہلے ) بھی اس شخص کے مجبور ہونے کا سبب نہیں ہوتا ہے۔ دوسرے گروہ کی وضاحت میں (قدر،قضا ،مشیت اور ارادۂ خدا کی آیات وروایات میں)قابل ذکر یہ ہے کہ قدر چاہے انسان کے اختیاری افعال یا غیر اختیاری افعال میں ہو ضروری شرائط فراہم ہونے کے معنی میں ناکافی ہے اور قدر کے متحقق ہونے سے فعل حتمی اور قطعی متحقق نہیں ہوتا ہے بلکہ تمام شرائط کے فراہم ہونے کی بنا پر حتماً متحقق ہوتاہے اس لئے انسان کے اختیاری افعال میں قدر یعنی کسی فاعل سے فعل کا حتمی صادر ہونا اور واقع ہونا ، جبر کالا زمہ نہیں ہے اس لئے کہ اگر کسی فعل کے صدور کے لئے علت ناقصہ (نہ کہ تامہ)فراہم ہوئی ہے تو صدور فعل حتمی نہیں ہے کہ اس فعل کے سلسلہ میں اختیاری یا جبری ہونے کے بارے میںبحث کیا جائے اور اگر صدور فعل کے تمام شرائط فراہم ہوں اور فقط فاعل نے قصد نہ کیا ہو تو معلوم ہوا کہ فاعل کا قصد ایک دوسری شرط ہے جو فعل کے حتمی متحقق ہونے کے لئے ضروری ہے اور اس صورت میں فعل اختیاری ہوگا۔
قضائے الٰہی
جو قدر کے مقابلہ میں ایک فعل کے متحقق ہونے کے لئے کافی اور ضروری شرائط کے فراہم ہونے کے معنی میں ہے وہ بھی انسان کے اختیارسے منافات نہیں رکھتا ہے اس لئے کہ قضائے الہی اس وقت متحقق ہوتی ہے جب کسی کام کے تحقق پانے کے تمام شرائط جن میں سے ایک انسان کا ارادہ بھی ہے فراہم ہوجائے. اور اختیاری افعال میں انسان کے قصد وارادہ کے بغیر قضائے الہی انسان کے اختیاری افعال میں متحقق نہیں ہوتا ہے.لہذا قضاء الٰہی بھی انسان کے اختیار سے سازگار ہے.
مشیت ، ارادہ اور اذن خدا کو بیان کرنے والی آیات وروایات جو دلالت کرتی ہیں کہ جو بھی فعل انسان انجام دیتا ہے اس کی اجازت اور ارادہ سے متحقق ہوتا ہے اور جس کا خدا نے ارادہ کیا ہے انسان اس کے علاوہ انجام نہیں دیتا ہے یہ مطلب بھی انسان کے اختیار سے سازگار ہے ، اس لئے کہ ان آیات وروایات میں مراد یہ نہیں ہے کہ انسان کا ارادہ خدا کے ارادہ کے مقابلہ میں اور خدا کے ارادہ اور اجازت کے سامنے قرار پاتا ہے یعنی ہمارے ارادہ کرنے اور اپنے کام کو انجام دینے کے بجائے خدا ارادہ کرے اور اسے انجام دے اور ہم نے کوئی ارادہ نہ کیا ہو یا فعل کے تحقق میں ہمارا ارادہ مؤثر نہ ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ ہم اپنے کاموں کے انجام میں مستقل اور خداسے بے نیاز نہیں ہیں اور مزید یہ کہ کسی بھی فعل کے انجام دینے میں ہمارا قصد اورارادہ مؤثر ہے ، اور طول میں خدا کی اجازت ، قصد اور ارادہ موثر ہے . دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ خدا چاہتا ہے کہ ہمارے افعال ہمارے ہی اختیار سے انجام پائیں اس لئے کہ اگر وہ نہ چاہے تو ہم کوئی ارادہ ہی نہیں رکھتے یا ہمارا ارادہ اثر انداز نہیں ہوتا ہے .(١)
..............
(١)مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو:محمد حسین طباطبائی ؛ المیزان فی تفسیر القرآن ؛ ج١، ص٩٩، محمد تقی مصباح؛ معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) ص ٢٨١،٢٨٢
خدا کے فعاّل ہونے کا راز
قرآن نے( تفویض ) نام کے غلط نظریہ کی نفی کے لئے خدا کے ارادے کی بہت زیادہ تاکید کی ہے اس نظریہ والوں کا یقین یہ تھا کہ خدا نے دنیا کو خلق کیا اور اسکو اسی کے حال پر چھوڑ کر خود آرام کررہا ہے یادنیا خلق ہونے کے بعد اس کی قدرت اختیار سے خارج ہوگئی ہے اور اس میں خدا کا کوئی نقش و کردار نہیں ہے انسان کے سلسلہ میں یعنی خدا وند عالم فقط آغاز آفرینش میں اپناکردار ادا کرتا ہے اور جب انسان کی تخلیق ہوگئی تو پھر انسان پوری طرح خلاق و فعال ہے اور خدا وند عالم ( نَعُوذُ بِاللّہِ) بیکار ہے۔خدا یہ کہنا چاہتا ہے کہ: ایسا نہیں ہے بلکہ تم اپنے ارادہ سے جو یہ کام انجام دے رہے ہو یہ بھی میری خواہش سے ہے قرآن مجیدمیں فرماتا ہے:
(وَقَالَتِ الیَھُودُ یَدُ اﷲِ مَغلُولَة) یہودی کہتے ہیں خدا کا ہاتھ بندھا ہوا ہے خدا وند عالم فرماتا ہے ایسا نہیں ہے (بَل یَدَاہُ مَبسُوطَتَانِ)(١)اﷲکے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں یعنی خدا پوری طرح سے اختیار رکھتا ہے اور فعاّل ہے آیات تاکید کرتی ہیں کہ یہ گمان نہ کرنا کہ اگر انسان اپنے اختیار سے فعل انجام دے رہا ہے تو خدا وند عالم بیکار ہے.
دنیا اور خدا کا رابطہ گھڑی اوراس شخص کے رابطہ کی طرح ہے جو گھڑی کو چابی دیتا ہے ایسا نہیں ہے کہ دنیا گھڑی کی طرح چابی دینے کے بعد خود حرکت کرے اور کسی چابی دینے والے کی محتاج نہ ہو بلکہ یہ خدا وند عالم ہے جو دنیا کو ہمیشہ چلانے والا ہے (کُلَّ یَومٍ ھُوَ فِی شَأنٍ) (٢)کہ وہ ہر وقت فعاّل ہے . انسان بھی دنیا کے حوادث سے مستثنیٰ نہیں ہے بلکہ مشمول تدبیر وتقدیر الہی ہے. حتی کہ انسان آخرت میں بھی مشیت وارادۂ خدا سے خارج نہیں ہے . جیسا کہ سورہ ہود کی ١٠٨ویں آیہ جو ظلم کرکے ظالمانہ طور پر جہنم میں اور خوش بختی کے ساتھ بہشت میں ورود کو بیان کرنے کے بعد دونوں گروہوں کے بارے میں فرماتی ہے :
(خَالِدِینَ فِیھَا مَا دَامَتِ السَّمَٰوَاتُ وَ الأرضُ ِلا مَاشَائَ رَبُّکَ)
جب تک آسمان و زمین ہے وہ ہمیشہ اسی (جنت یا جہنم )میںرہیں گے مگر جب
تیرا پروردگار چاہے ۔
ان دو عبارتوں میں'' لوگ ہمیشہ ہونگے''اور''جب تک دنیا باقی ہے''پر توجہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ مراد یہ نہیں ہے کہ کسی وقت خداوند عالم خوشبختوں یا ظالموں کو بہشت اور جہنم سے نکالے گا بلکہ مراد یہ ہے کہ کہیں یہ تصور نہ ہوکہ یہ موضوع قدرت خدا کے حدود سے خارج ہوگیا ہے خواہ وہ چاہے یا نہ چاہے کیونکہ اگر ایسا ہی ہوگا توخدا وند عالم اپنی مخلوق کا محکوم واقع ہوجائے گا۔
..............
(١)سورہ مائدہ ٦٤۔
(٢)سورۂ رحمٰن ٢٩۔
تیسرے گروہ کی روایات کے سلسلہ میں یعنی وہ روایات جو فطرت انسان کو بیان کرتی ہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ روایات تقاضوں کو بیان کررہی ہیں علت تامہ کو بیان نہیں کررہی ہیں یعنی جو لوگ پیدا ہو چکے ہیں ان میں سے بعض کی فطرت گناہ اور ویرانی کی طرف رغبت کا تقاضا کرتی ہے اور بعض افراد کی فطرت اچھائی کی طرف رغبت رکھتی ہے جیسے وہ نوزاد جو زنا سے متولد ہواہو اس بچہ کے مقابلے میں جو صالح باپ سے متولد ہوا ہے گناہ کی طرف زیادہ رغبت رکھتا ہے لیکن کسی میں بھی جبر نہیں ہے.
دوسرا جواب : یہ ہے کہ اچھے یا برے ہونے میں فطرت کا کوئی دخل نہیںہے بلکہ خدا وند عالم پہلے سے جانتا ہے کہ کون اپنے اختیار سے صحیح راہ اور کون بری راہ انتخاب کرے گا اسی لئے پہلے گروہ کو اچھی طینت اور دوسرے کو بری طینت سے خلق کیا ہے۔
اس کی مثال ایک باغبان کی طرح ہے جو تمام پھولوں کو اسکی قیمت اور رشد وبالیدگی کے مطابق ایک مناسب گلدان میں قرار دیتا ہے .گلدان پھولوں کے اچھے یا برے ہونے میں تاثیر نہیں رکھتا ہے اسی طرح طینت بھی فقط ایک ظرف ہے جو اس روح کیمطابقہے جسے اپنے اختیار سے اچھا یا براہوناہے طینت وہ ظرف ہے جواپنے مظروف کے اچھے یابرے ہونے میں اثر انداز نہیں ہوتا دوسرا جواب بھی دیا جا سکتا ہے لیکن چونکہ اس کے لئے فلسفی مقدمات ضروری ہیں لہٰذا اس سے صرف نظر کیا جارہا ہے ۔(١)
..............
(١)''ضمائم ''کی طرف رجوع کریں۔
|