انسان شناسی
 

ساتویں فصل :

آزادی اور اختیار
اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات:
١ ۔انسان کے سلسلہ میں تین مہم نظریوں کو بیان کریں ؟
٢ ۔مفہوم اختیار کی وضاحت کریں اور اس کے مفہوم کے چار موارد استعمال ذکر کریں ؟
٣ ۔قرآن مجید کی ان آیات کی دستہ بندی اور تفسیرکریں جو انسان کے مختار ہونے پر دلالت
کرتی ہیں ؟
٤۔انسان کے اختیار کو مشکوک کرنے والے شبہات کی وضاحت کریں ؟
٥۔انسان کے جبر سے متعلق ، شبہات کے اقسام نیز اس کی تجزیہ و تحلیل کریں ؟

جو افعال انسان سے صادر ہوتے ہیں ایک عام تقسیم کے اعتبار سے دو گروہ میںتقسیم ہوتے ہیں:
جبری افعال جو بغیر ارادے اور قصد کے انجام پاتے ہیں اور اختیاری افعال جوانتخاب اور انسان کے ارادوں کے نتیجہ میں عالم وجود میں آتے ہیں ، دوسرے گروہ کے متعلق ، فعل کا انجام دینے والا خود اس فعل کی علت اور اس فعل کا حصہ دار سمجھا جاتا ہے، اسی بنا پراس انجام دیئے گئے فعل کے مطابق ہم اس کو لائق تعریف یا مذمت سمجھتے ہیں ،تمام اخلاقی ، دینی ، تربیتی اور حقوقی قوانین اسی یقین کی بنیاد پر استوار ہیں ۔ کسی فعل کو انجام دے کر خوش ہونا یا افسوس کرنا ، عذر خواہی یا دوسرے سے مربوط فعل کے مقابلہ میں حق طلب کرنا بھی اسی سچائی پر یقین اور بھروسہ کیبنیاد پر ہے ۔ دوسری طرف یہ بات قابل قبول ہے کہ انسان کے اختیاری طریقہ عمل میں مختلف تاریخی ، اجتماعی ، فطری ، طبیعی عوامل موثر ہیں اس طرح سے کہ وہ اس کی انجام دہی میںاہم رول ادا کرتے ہیں اور انسان ہر پہلو میں بے قید و شرط اور مطلقاً آزادی کا حامل نہیں ہے ۔
دینی تعلیمات میں قضا و قدر اور الٰہی ارادے اور غیب کا مسئلہ انسان کے اختیاری افعال سے مربوط ہے اور مذکورہ امور سے انسان کا ارادہ و اختیار ، نیز اس کا آزاد ہونا کس طرح ممکن ہے؟ اس کو بیان کیا گیا ہے۔
مذکورہ مسائل کو انسان کے بنیادی مسئلہ اختیار سے مربوط جاننا چاہیئے اور زندگی سنوارنااس کرامت کو حاصل کرناہے جس کے بارے میں گذشتہ فصل میں گفتگو ہوچکی ہے (١)انہیں چیزوںکی وجہ سے انسان کے اختیار کا مسئلہ مختلف ملتوں اور مختلف علمی شعبوں کے دانشمندوں اور ادیان و مذاہب کے مفکرین اور ماننے والوں کے درمیان ایک مہم اور سر نوشت ساز مسئلہ کے عنوان سے مورد توجہ قرار پایا ہے لہٰذااس کے بارے میں مختلف سوالات اور بحث و مباحثہ کے علاوہ مزید تحقیقات کی ضرورت ہے ۔
مندرجہ ذیل سوالات وہ ہیں جن کے بارے میں ہم اس فصل میں تجزیہ و تحلیل کریں گے ۔
١.اختیار سے مراد کیا ہے ؟ آیا یہ مفہوم ، مجبوری ( اضطرار ) اور ناپسندیدہ ( اکراہ ) کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے ؟
٢.انسان کے مجبور یا مختار ہونے کے بارے میں قرآن کا کیا نظریہ ہے ؟
٣. انسان کے اختیاری افعال میں قضا و قدر ، اجتماعی قوانین ، تاریخی ، فطری نیز طبیعی عوامل کا کیا کردار ہے اور یہ سب باتیں انسان کے آزاد ارادہ سے کس طرح سازگار ہیں ؟
٤. کیا علم غیب اور خدا کا عام ارادہ ( ارادۂ مشیت ) جو انسان کے اختیاری افعال میں بھی شامل ہے انسان کے مجبور ہونے کا سبب ہے ؟
..............
(١)گذشتہ فصل میں انسان کی کرامت اکتسابی کے بارے میں گفتگو ہو چکی ہے اور ہم نے ذکر کیا ہے کہ انسان کی کرامت اکتسابی اس کی اختیاری تلاش کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی جو کچھ اس فصل میں اور آئندہ فصل میں بیان ہوگا، اس کا شمار کرامت اکتسابی کے اصول میںہوگااور انسان کے مسئلہ اختیار کے حل کے بغیر کرامت اکتسابی کا کوئی معنی و مفہوم نہیں ہے۔
انسان کی آزادی کے سلسلہ میں تین مہم نظریات
انسان کے اختیار اور جبر کا مسئلہ بہت قدیمی ہے اور شاید یہ کہا جاسکتا ہے انسان کی آخرت
کے مسئلہ کے بعد جبر و اختیار کی بحث سے زیادہ انسان شناسی کے کسی مسئلہ کے بارے میں یوں گفتگو
مختلف ملتوں اور مذاہب کے ماننے والوں اور معاشرہ کے مختلف قوموں کے درمیان چاہے وہ دانشمند ہوں یا عوام ، رائج نہ تھی ، پہلے تو یہ مسئلہ کلامی ، دینی اور فلسفی پہلوؤں سے زیادہ مربوط تھا لیکن علوم تجربی کی خلقت و وسعت اور علوم انسانی کے باب میں جو ترقی حاصل ہوئی ہے اس کی وجہ سے جبر و اختیار کی بحث علوم تجربی سے بھی مربوط ہوگئی ، اسی لئے علوم تجربی کی بحث میں مفکرین خصوصاً علوم انسانی کے ماہرین نے اپنے نظریات اور خیالات کا اظہار کیا ہے۔ایک طرف تو اختیار ،انسان کا ضمیر رکھنا اور بہت سی دلیلوں کا وجود اور دوسری طرف اختیاری افعال اور اس کے اصول میں بعض غیر اختیاری افعال کا موثر ہونا اور بعض فلسفی اوردینی تعلیمات میں سوء تفاہم کی بنا پر مختلف نظریات بیان ہوئے ہیں، بعض نے بالکل انسان کے اختیار کا انکار کیا ہے اور بعض لوگوں نے اختیار انسان کو تسلیم کیاہے اور بعض لوگوں نے جبر و اختیار کے ناکارہ ہونے کا یقین رکھنے کے باوجود دونوں کو قبول کیا ہے حالانکہ کوئی معقول توجیہ اس کے متعلق پیش نہیں کی ہے ۔
رواقیان وہ افراد ہیں جو انسان کے اچھے یا برے ہونے کی ذمہ داری کو خود اسی کے اوپر چھوڑ دیتے ہیں ۔اور دنیا کے تمام حوادث منجملہ انسان کے اختیاری افعال کو بھی انسان کے ذریعہ غیر قابل تغییر، تقدیر الٰہی کا ایک حصہ سمجھتے ہیں ۔
اسلامی سماج و معاشرہ میں اشاعرہ نے جبر کے مسلک کو قبول کیا ہے ۔ (١)اور معتزلہ نے
..............
(١)اشاعرہ ، جہمیہ کے برخلاف انسان کو اس کے اختیاری افعال میں جمادات کی طرح سمجھتے تھے اس یقین پر کہ انسان کا فعل، قدرت و ارادۂ خدا سے مربوط ہونے کے باوجود خداوند عالم اپنے ارادہ اور قدرت کے ساتھ انسان کے اندر قدرت و ارادہ ایجاد کرتا ہے اور اس فعل سے انسان کا ارادہ مربوط ہوتا ہے ۔ اور اس حقیقت ( فعل سے انسان کے ارادہ کے مربوط ہونے ) کو کسب کہا ہے ۔ لیکن ہر اعتبار سے انسان کے لئے تحقق فعل میں کسی تاثیر کے قائل نہیں ہیں ملاحظہ ہو: تھانوی ، محمد علی ؛ کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم؛ مکتبة لبنان ناشرون ، بیروت : ١٩٩٦۔
تفویض کو قبول کیا ہے اور ان لوگوں نے کہا ہے کہ انسان کے اختیاری افعال خداوند عالم سے الگ اس کی قدرت و انتخاب کی وجہ سے انجام پاتے ہیں (١)اس نظریہ کے مشابہ دنیا کی تمام مخلوقات کے سلسلہ میں بعض مسیحی اور مغربی دانشمندوں کے نظریے بیان ہوئے ہیں ۔(٢)
اسلامی سماج اور معاشرہ میں تیسرا نظریہ ، اہل بیت اور ان کے ماننے والوں کا نظریہ ہے ۔ اس نظریہ میں انسان اپنے اختیاری فعل میں نہ مجبور ہے اور نہ ہی آزاد بلکہ ان دونوں کے درمیان کی ایک حقیقت ہے : ''لا جَبرَ وَ لا تَفوِیضَ بَل أمر بَینَ الأمرَین'' اس نظریہ کے مطابق انسان کے افعال میں نہ تنہا انسان کا خدا کے ساتھ فعال ہونے میں منافات نہیں ہے بلکہ خدا اور انسان کی صحیح شناخت کا تقاضا اور واقعی و اختیاری فعل کی حقیقت کو دقیق درک کرنا ہے ۔
عقیدۂ جبر، اسلام سے پہلے عرب کے جاہل مشرکوں کے یہاں بھی موجود تھا اور قرآن مجید ایک غلط نظریہ کے عنوان سے نقل کرتے ہوئے اس فکر کے فرسودہ ہونے کی طرف اشارہ کررہا ہے اور فرماتا ہے :
(سَیُقُولُ الَّذِینَ أَشرَکُوا لَوشَائَ اللّٰہُ مَا أَشرَکنَا وَ لا آبَاؤُنَا وَ لا حَرَّمنَامِن
شَییٍٔ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِینَ مِن قَبلِھِم)(٣)
عنقریب مشرکین کہیں گے کہ اگر خدا چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ، دادا
اور نہ ہم کوئی چیز حرام کرتے اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گذرچکے ہیں جھٹلاتے رہے
..............
(١)کہا گیا ہے کہ بعض معتزلہ کے علماء جیسے ابو الحسن بصری اور نجار ، تفویض کا اعتقاد نہیں رکھتے تھے ۔
(٢)سنت مسیحیت میں خداوند عالم نے دنیا کو چھہ روز میں خلق کیا ہے اور ساتویں روز آرام کیا ہے ۔ اس عقیدہ کی بنیاد پر دنیا اس گھڑی کے مانند ہے جس میں خداوند عالم نے آغاز خلقت ہی میں چابھی بھر دیا ہے اور اس کے بعد دنیا خدا سے جدا اور مستقل ہوکر اپنی حرکت پر باقی ہے ۔
(٣)سورہ انعام ١٤٨۔
دوسری آیت میں اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مشرکین کا اعتقاد ہر طرح کی علمی حمایت سے دور ہے اور یہ نظریہ فقط نصیحت پر مبنی ہے ، یوں فرماتا ہے :
(وَ قَالُوا لَو شَائَ الرَّحَمٰنُ مَا عَبَدنَاھُم مَا لَھُم بِذٰلِکَ مِن عِلمٍ
ن ھُم ِلا یَخرُصُونَ)(١)
اور کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو ہم ان کی پرستش نہ کرتے ان کو اس کی کچھ خبر ہی
نہیں یہ لوگ تو بس الٹی سیدھی باتیں کیا کرتے ہیں ۔
اسلامی معاشرہ میںجاہل عرب کے عقیدہ ٔ جبر کا قرآن کے نازل ہونے اور اسلام کی سر سخت مخالفت کے بعد اس کا کوئی مقام نہیں رہا ۔اگرچہ کبھی کبھی اس سلسلہ میں بعض مسلمان، بزرگان دین سے سوالات کرکے جوابات حاصل کیاکرتے تھے (٢)لیکن حکومت بنی امیہ کے تین اموی خلفاء نے اسلامی شہروں میں اپنے ظلم کی توجیہ کیلئے عقیدہ ٔ جبر کو رواج دیا اور اس نظریے کے مخالفین سے سختی سے پیش آتے رہے ،ان لوگوں نے اپنے جبری نظریہ کی توجیہ کے لئے بعض آیات و روایات سے بھی استفادہ کیا تھا،تفویض کا نظریہ جو معتزلہ کی طرف سے بیان ہوا ہے عقیدہ جبر کے ماننے والوں کی سخت فکری و عملی مخالفت نیز عقیدۂ جبر کے مقابلہ میں یہ ( تفویض کا نظریہ) ایک طرح کا عکس العمل تھا ۔ جب کہ آیات و روایات اور پیغمبرنیز ان کے سچے ماننے والوں کی زندگی کا طرز عمل بھی مذکورہ دونوں نظریوں کی تائید نہیں کرتا ہے بلکہ اہل بیت کے نظریہ ''الأمر بین الأمرین'' سے مطابقت رکھتا ہے ۔
..............
(١)سورہ زخرف ٢٠۔
(٢) مثال کے طور پر امام علی اس شخص کے جواب میں جس نے قضا و قدر الٰہی کو جبر سے ملادیا تھا آپ نے فرمایا کیا تم گمان کررہے ہو کہ ( جو کچھ جنگ صفین میں اور دوران سفر میں ہم نے انجام دیا ہے ) ہمارے اختیار سے خارج ، حتمی اور جبری قضا و قدر تھا ؟ اگر ایسا ہی ہے تو سزا و جزا ، امر و نہی سب کچھ غلط اور بے وجہ ہے۔صدوق ، ابن بابویہ، التوحید ، مکتبة الصدوق ، تہران : ١٣٧٨م ، ص ٣٨٠۔
بہر حال اگرچہ عقلی ، نقلی اوردرونی ( ضمیر ) تجربہ کے ذریعہ انسان کے اختیار کا مسئلہ ایک غیر قابل انکار شیٔ ہے جس پر بہت سے تجربی دلائل گواہ ہیں لیکن سیاسی اور بعض دینی و فلسفی تعلیمات سے غلط استفادہ اور اس سلسلہ میں بیان کئے گئے شبہات کے جوابات میں بعض فکری مکاتب کی ناتوانی کی بنا پر اسلامی معاشرہ کا ایک گروہ عقیدۂ جبر کی طرف مائل ہو گیااوروہ لوگ اس کے معتقد ہوگئے (١)البتہ یہ شیٔ اسلامی معاشرہ سے مخصوص نہیں ہے دوسرے مکاتب فکرکے دانشمندوں کے درمیان اور متعدد غیر مسلم فرق و مذاہب میں بھی اس عقیدے کے حامی افراد موجود ہیں ۔ (٢)
..............
(١)اس سلسلہ میں مغربی مفکرین و فلاسفہ کے نظریات کوہم ''ضمائم'' میں بیان کریں گے ۔
(٢)انسانی علوم تجربی کے بعض غیر مسلم مفکرین و فلاسفہ کے نظریات ''ضمائم ''میں بیان ہوں گے ۔
مفہوم اختیار
لفظ اختیار مختلف جہات سے مستعمل ہے یہاں انسان کے اختیار کے معنی کو روشن کرنے کے لئے جو کرامت اکتسابی کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے چار موارد ذکرکئے جا رہے ہیں۔

١۔اضطرار اور مجبوری کے مقابلہ میں اختیار
کبھی انسان کسی خاص شرائط اور ایسے حالات و مقامات میں گھر جاتا ہے جس کی بنا پر مجبور ہو کر کسی عمل کو انجام دیتا ہے مثال کے طور پر ایک مسلمان بیابان میں گرفتار ہو جاتا ہے اور راستہ بھول جاتا ہے بھوک اور پیاس اسے اس حد تک بے چین کردیتی ہے جس کی وجہ سے اس کی جان خطرہ میں پڑجاتی ہے لیکن ایک مردار کے علاوہ اس کے سامنے کوئی غذا نہ ہو تو وہ اپنی جان بچانے کے لئے مجبوراً اس حیوان کے گوشت کو اتنی ہی مقدار میںاستعمال کر سکتا ہے جس کی وجہ سے وہ موت سے نجات حاصل کرسکے ،اس مقام پر کہا جائے گا کہ اس شخص نے اپنی خواہش اور اختیار سے مردار گوشت نہیں کھایا ہے بلکہ وہ مجبور تھا اور اضطرار کی وجہ سے مردار کے گوشت کو مصرف کیا ہے جیسا کہ قرآن مجید اس کی غذا
کے جائز ہونے کے بارے میں فرماتا ہے :
(نَّمَا حَرَّمَ عَلَیکُمُ المَیتَةَ وَ. فَمَنِ اضطُرَّ غَیرَ بَاغٍ وَ لا عَادٍ
فَلا ِثمَ عَلَیہِ)(١)
اس نے تو تم پر بس مردہ جانور اور .لہٰذا جو شخص مجبور ہو اور سرکشی کرنے والا اور
زیادتی کرنے والا نہ ہو تو اس پر گناہ نہیں ہے ۔

٢.اکراہ کے مقابلہ میں اختیار
کبھی خود انسان کسی کام کے انجام دینے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے یا کسی کام سے نفرت کرتا ہے لیکن ایک دوسرا شخص اس کو ڈراتا ہے اور اپنی خواہش کے مطابق اس کام کو انجام دینے کے لئے مجبور کرتا ہے اس طرح کہ اگر اس شخص کا خوف نہ ہوتا تو وہ اس فعل کو انجام نہ دیتا اس مسلمان کی طرح جو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے قتل ہوجانے کے خوف کی بنا پر ظاہر میں زبان سے اظہار کفر کرتا ہے ، اس مقام پر کہا جاتا ہے کہ اس نے بااختیار اس عمل کو انجام نہیں دیا ، جیسا کہ سورہ نحل کی ١٠٦ ویں آیہ میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں :
(مَن کَفَرَ بِاللّٰہِ مِن بَعدَ ِیمَانِہِ لا مَن أُکرِہَ وَ قَلبُہُ مُطمَئِنّ بِالِیمَانِ)
جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرے سوائے اس شخص کے جو اس عمل پر
مجبورکردیاجائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو۔(٢)
اضطرار سے اکراہ کا فرق یہ ہے کہ اکراہ میں دوسرے شخص کا خوف زدہ کرنا بیان ہوتا ہے جب کہ اضطرار میں ایسا نہیں ہے بلکہ خارجی حالات اور وضعیت اس عمل کی متقاضی ہوتی ہے۔
..............
(١)سورہ بقرہ ١٧٣۔
(٢)سورہ نحل١٠٦۔
٣.اختیار یعنی انتخاب و آزمائش کے بعد ارادہ
جب بھی انسان کے سامنے کسی کام کے انجام دینے کے لئے متعدد راہیں ہوں تو وہ اس کا تجزیہ کرتا ہے اسے خوب پرکھتا ہے اس کے بعد ایک راہ کو انتخاب کرتا ہے اور اسی کے مطابق اس فعل کے انجام دینے کا ارادہ کرتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ کام اختیار کے ساتھ انجام پایا ہے لیکن اگر کوئی کام سوچے سمجھے بغیر انتخاب اور اس کا ارادہ کرلیا گیاتو کہا جائے گا کہ یہ فعل غیراختیاری طور پر سرزد ہواہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے اس شخص کے ہاتھ میں رعشہ ہو اور اس کا ہاتھ حرکت دینے کے ارادہ کے بغیر ہی لرزرہا ہو ۔

٤.اختیار یعنی رغبت ، محبت اور مرضی کے ساتھ انجام دینا
اس استعمال میں آزمائش اور انتخاب کی ضرورت نہیں ہے بلکہ کسی فعل میں صرف اکراہ اور مجبوری نہ ہو اور وہ فعل کسی کی رضایت اور خواہش کے ساتھ انجام پائے تو اس فعل کو اختیاری کہا جاسکتا ہے، خدا اور فرشتوں کے افعال میں اسی طرح کا اختیار ہے، اس معنی کے مطابق خداوند عالم اور فرشتوں کے افعال، اختیاری ہیں البتہ ان کی طرف سے کسی کام کے انجام پانے کے لئے آزمائش اور انتخاب کا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے مثال کے طورپر خداوند عالم اپنے کام کے انجام دینے میں تجزیہ و تحلیل اور انتخاب کی حاجت نہیں رکھتا ہے اوراس کیلئے کسی بھی شی ٔمیں ایسا ارادہ جو پہلے نہ رہا ہو تصور نہیں ہوتا ہے چنانچہ مختار ہونے کا یہ معنی ہے کہ خواہش ، رغبت اور فاعل کی خود اپنی مرضی سے وہ فعل انجام پائے ۔ (١)
..............
(١) افعال انسان کے اختیاری ہونے کو اس کے ارادہ سے ملانا نہیں چاہیئے، کسی فعل کے ارادی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس ارادہ سے پہلے ایک ارادہ ہو اور وہ فعل بھی ارادہ سے پہلے ہو لیکن اختیاری ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس فعل کے صدور میں حقیقی عامل کوئی اور نہیں ہے بلکہ خود وہ شخص ہے ۔ اس بیان کے مطابق خود ارادہ انسان کے لئے بھی ایک اختیاری فعل موجود ہے اگرچہ وہ ایک ارادی فعل نہیں ہے یعنی ارادہ کرنے کے لئے کسی سابق ارادہ کی ضرورت نہیں ہے ۔
اس وضاحت سے ارادہ و اختیار میں موجود اہم اعتراض کا جواب واضح ہوجاتا ہے ، اس اعتراض میں کہا جاتا ہے کہ اگر ہر اختیاری فعل سے پہلے ایک ارادہ کا ہونا ضروری ہے تو خود ارادہ کرنا بھی تو ایک نفسیاتی فعل ہے لہٰذا اس سے پہلے بھی ایک ارادہ ہونا چاہیئے اور یہ تسلسل باقی رہے گا اور یہ محال ہے، لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ ارادہ کوئی ارادی فعل نہیں ہے اور ضروری نہیں ہے کہ اس کے پہلے بھی ایک ارادہ ہو بلکہ یہ ایک اختیاری فعل ہے اور ارادہ و اختیار میں بہت فرق ہے ،چونکہ حقیقی عامل و سبب نفس انسان ہے اور اس میں کوئی اضطرار و مجبوری نہیں ہے لہذا فعل اختیاری ہے چاہے اس کے پہلے کوئی ارادہ نہ رہا ہو ۔ مذکورہ چار معانی میں سے جو انسان کے اختیاری کاموں میں مورد نظر ہے نیز کرامت اکتسابی کے حاصل کرنے کا طریقۂ عمل بھی ہے وہ تیسرا معنی ہے ۔ یعنی جب بھی انسان متعدد موجودہ راہوں اور افعال کے درمیان تجزیہ و تحلیل کے ذریعہ کسی کام کو انتخاب کرلے اور اس کے انجام کا ارادہ کرلے تو اس نے اختیاری فعل انجام دیا ہے اور اپنی اچھی یا بری سرنوشت کی راہ میں قدم بڑھایا ہے ،اس لئے تجزیہ و تحلیل ، انتخاب اور ارادہ ، اختیار انسان کے تین بنیادی عنصر شمار ہوتے ہیں ،البتہ منتخب فعل لازمی طور پر انسان کے رغبت اور ارادہ کے مخالف نہیں ہے یہ ہوسکتا ہے کہ خود بخود وہ فعل انسان کے لئے محبوب و مطلوب ہو اس شخص کی طرح جو خدا کی عبادت اور راز و نیاز کا عاشق ہے اور نیمۂ شب میں با اشتیاق بستر خواب سے بلند ہوتا ہے اور نماز شب پڑھتا ہے یا اس شخص کی طرح جس کے پاس موسم گرما میں تھوڑا سا ٹھنڈا اور میٹھا پانی موجود ہے جس سے ہاتھ اور چہرہ دھلنا اس کے لئے لذت بخش ہے لیکن ظہر کے وقت اسی پانی سے وضو کرتا ہے ،مطلوب اور اچھا فعل اگر معرفت اور ارادہ کے ہمراہ ہو تو ایک اختیاری فعل اور کرامت اکتسابی کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ، قدرت انتخاب نہ رکھنے والے جمادات اور فرشتوں میں جن کے سامنے متعدد راہیں نہیں ہوتیں اورغیر ترقی یافتہ انسان میں جو ابھی قدرت انتخاب سے مزین نہیں ہے،اس کے لئے ایسے انتخاب کا تصور نہیں کیاجاسکتا ہے ۔(١)
..............
(١) اختیار کی تعریف کے اعتبار سے ،چاہے بہت کم مقدار ہی میں کیوں نہ ہو کیا حیوانات اختیار رکھتے ہیں ؟ اس میں اختلاف نظر ہے لیکن بعض آیات کے ظواہر اور بعض تجربی شواہد بہت معمولی مقدار میں ان کے اختیار کے وجود پر دلالت کرتی ہیں ۔
انسان کے مختار ہونے پر قرآنی دلیلیں
گذشتہ مفہوم کے مطابق انسان کا اختیار قرآن کی نظر میں بھی مورد تائید ہے اور بہت سی
آیات بھی اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں ،ان میں سے چار طرح کی آیات کی طرف اشارہ ہو رہا ہے
١۔وہ آیات جو بہت ہی واضح طور پر انسان کے اختیار کو بیان کرتی ہیں :
(وَ قُلِ الحَقُّ مِن رَّبِّکُم فَمَن شَائَ فَلیُؤمِن وَ مَن شَائَ فَلیَکفُر)(١)
اور تم کہدو کہ سچی بات(قرآن) تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے پس جو
چاہے مانے اور جو چاہے نہ مانے ۔
٢۔ وہ آیات جو اتمام حجت کے لئے پیغمبروں کے بھیجنے اور آسمانی کتب کے نزول کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں :
(لِیَھلِکَ مَن ھَلَکَ عَن بَیِّنَةٍ وَ یَحیَیٰ مَن حَیَّ عَن بَیِّنَةٍ )(٢)
تاکہ جو شخص ہلاک ہو وہ حجت تمام ہونے کے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ
ہدایت کی حجت تمام ہونے کے بعد زندہ رہے ۔
(رُسُلاً مُّبَشِّرِینَ وَ مُنذِرِینَ لِئَلا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَیٰ اللّٰہِ حُجَّة بَعدَ الرُّسُلِ)
بشارت دینے والے اور ڈرانے والے پیغمبر (بھیجے)تاکہ لوگوں کی خدا پر کوئی
حجت باقی نہ رہ جائے ۔(٣)
٣۔ وہ آیات جو انسان کے امتحان اور مصیبت میں گرفتار ہونے پر دلالت کرتی ہیں :
(ِنَّا جَعَلنَا مَا عَلَیٰ الأرضِ زِینَةً لَّھَا لِنَبلُوَھُم أَیُّھُم أَحسَنُ عَمَلاً)
جو کچھ روئے زمین پر ہے ہم نے اسے زینت قرار دیاہے تاکہ ہم لوگوں کا
امتحان لیں کہ ان میں سے کون سب سے اچھے اعمال والا ہے ۔(٤)
..............
(١)سورہ کہف ٢٩(٢)سورہ انفال ٤٢
(٣)سورہ نساء ١٦٥
(٤)سورۂ کہف ٧
٤. وہ آیات جو بشیرو نذیر ، وعد و وعید ، تعریف و مذمت اور اس کے مثل کی طرف اشارہ کرتی ہیں اسی وقت فائدہ مند اور مفید ہوں گی جب انسان مختار ہو ۔
(وَعَدَ اللّٰہُ المُنَافِقِینَ وَ المُنَافِقَاتِ وَ الکُفَّارَ نَارَ جَہَنَّمَ خَالِدِینَ فِیھَا)
منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں سے خدا نے جہنم کی آگ کا وعدہ کرلیا
ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ اسی میں رہیں گے ۔(١)

..............
(١)سورۂ توبہ ٦٨