کرامت انسان
انسان کی کرامت کے سلسلہ میں قرآن مجیدکا دو پہلو بیان موجود ہے :قرآن مجید کی بعض آیات میں انسان کی کرامت ، شرافت اور دوسری مخلوقات پر اس کی برتری کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ اور بعض آیات میں انسان کی تذلیل اور اس کو حیوانات سے پست بیان کیا گیاہے مثال کے طورپر سورۂ اسراء کی ٧٠ویں آیت میں خداوند عالم نے بنی آدم کی تکریم کی ہے اور بہت سی دوسری مخلوقات
کے مقابلہ میں اس کی برتری بیان ہوئی ہے ۔(١) سورۂ تین کی چوتھی آیہ اور سورۂ مومنون کی ١٤ ویں آیہ میں انسان کی بہترین اندازمیں خلقت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے (٢)اور دوسری بہت سی آیات میں یوں مذکور ہے کہ جو کچھ بھی زمینوں و آسمانوں میں ہے انسان کے لئے مسخر یا اس کے لئے پیدا کی گئی ہے (٣)اور ملائکہ نے اس کا سجدہ کیا ہے، وہ تمام اسماء کا جاننے والا، مقام خلافت(٤) اور بلند درجات (٥)کاحامل ہے، یہ تمام چیزیں دوسری مخلوقات پر انسان کی برتری ، شرافت اور کرامت کی طرف اشارہ ہے،اور دوسری طرف ضعیف ہونا (٦)، لالچی ہونا(٧) ، ظالم و ناشکرا (٨) اور جاہل ہونا(٩) ، چوپائے کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہونا (١٠)اور پست ترین
..............
(١)(وَ لَقَد کَرَّمنَا بَنِی آدمَ وَ حَمَلنَاھُم فِی البَرِّ وَ البَحرِ وَ رَزَقنَاھُم مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَ فَضَّلنَاھُم عَلَیٰ کَثِیرٍ مِّمَّن خَلَقنَا تَفضِیلاً)(اسراء ٧٠)اورہم نے یقینا آدم کی اولاد کو عزت دی اور خشکی اور تری میں ان کو لئے پھرے اور انہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں اور اپنے بہتیرے مخلوقات پر ان کو فضیلت دی ۔
(٢)(لَقَد خَلَقنَا الِنسَانَ فِی أَحسَنِ تَقوِیمٍ)(تین٤)یقینا ہم نے انسان کو بہت اچھے حلیے (ڈھانچے)میں کا پیدا کیا ۔(فَتَبَارَکَ اللّٰہُ أَحسَنُ الخَالِقِینَ)(مومنون١٤)تو خدا بابرکت ہے جو سب بنانے والوں میں بہتر ہے ۔
(٣)(أ لَم تَرَوا أَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُم مَا فِی السَّمَٰوَاتِ وَ مَا فِی الأرضِ وَ أَسبَغَ عَلَیکُم نِعمَہُ ظَاہِرةً وَ بَاطِنَةً)( لقمان ٢٠) کیا تم لوگوں نے اس پر غور نہیںکیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے خدا ہی نے یقینی تمہارا تابع کردیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردیں ۔(ھُوَ الَّذِی خَلَقَ لَکُم مَّا فِی الأرضِ جَمِیعاً)(بقرہ ٢٩)اور وہی تو وہ (خدا)ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی ساری چیزوں کو پیدا کیا۔
(٤)یہ آیات خلافت الٰہی کی بحث میں بیان ہوچکی ہیں ۔(٥)اس حصہ کی آیتیں بہت زیادہ ہیں اور ان کے ذکر کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
(٦)(وَ خُلِقِ النسَانُ ضَعِیفاً)(نساء ٢٨)اور انسان کمزور خلق کیا گیا ہے ۔
(٧)(نَّ النسَانَ خُلِقَ ھَلُوعاً)(معارج ١٩)یقینا انسان بہت لالچی پیدا ہوا ہے
(٨)( نَّ النسَانَ لَظَلُوم کَفَّار)(ابراہیم،٣٤) یقینا انسان بڑاناانصاف اور ناشکرا ہے ۔
(٩)( ِنَّہُ کَانَ ظَلُوماً جَہُولاً)( احزاب ٧٢)یقینا انسان بڑا ظالم و جاہل ہے۔
(١٠)(أُولٰئِکَ کَالأنعَامِ بَل ہُم أَضَلُّ)(اعراف ١٧٩)وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں ۔
درجہ میں ہونا(١)یہ وہ امور ہیں جو قرآن مجید کی بعض دوسری آیات میں بیان ہوا ہے ۔ اور دوسری مخلوقات پرانسان کی عدم برتری کی علامت ہے بلکہ ان کے مقابلہ میں انسان کے پست تر ہونے کی علامت ہے،کیا یہ دوطرح کی آیات ایک دوسرے کی متناقض ہیں یا ان میں سے ہر ایک کسی خاص مرحلہ کو بیان کررہی ہے یا مسئلہ کسی اور انداز میںہے ؟
مذکورہ آیات میں غور و فکر ہمیں اس حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ انسان قرآن کی نظر میں دو طرح کی کرامت رکھتا ہے : کرامت ذاتی یا وجود شناسی اور کرامت اکتسابی یا اہمیت شناسی ۔
کرامت ذاتی
کرامت ذاتی سے مراد یہ ہے کہ خداوند عالم نے انسان کو ایسا خلق کیا ہے کہ جسم کی بناوٹ کے اعتبار سے بعض دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں زیادہ امکانات و سہولت کا حامل ہے یا اس کے امکانات کی ترکیب و تنظیم اچھے انداز میں ہوئی ہے، بہر حال بہت زیادہ سہولت اور توانائی کا حامل ہے اس طرح کی کرامت ، نوع انسان پر خداوند عالم کی مخصوص عنایت کا اشارہ ہے جس سے سبھی مستفیض ہیں، لہٰذا کوئی یہ حق نہیں رکھتا ہے کہ ان چیزوں سے مزین ہونے کی بنا پر دوسرے مخلوق کے مقابلہ میں فخر کرے اور ان کو اپنا انسانی کمال اور معیار اعتبار سمجھے یا اس کی وجہ سے مورد تعریف قرار پائے ،بلکہ اتنی سہولت والی ایسی مخلوق تخلیق کرنے کی وجہ سے خداوند عالم کی حمد و تعریف کرنا چاہیئے ۔ جس طرح وہ خود فرماتا ہے (فَتَبَارَکَ اللّٰہُ أحسَنُ الخَالِقِینَ)اور سورۂ اسراء کی ٧٠ ویں آیہ (وَ لَقَد کَرَّمنَا بَنِی آدمَ وَ حَمَلنَاھُم فِی البَرِّ وَ البَحرِ وَ رَزَقنَاھُم مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَ فَضَّلنَاھُم عَلیٰ کَثِیرٍ مَمَّن خَلَقنَا تَفضِیلاً)(٢)اور بہت سی آیات جو دنیا اورمافیہا کو انسان کے لئے
..............
(١)(ثُمّ رَدَدنَاہُ أَسفَلَ سَافِلِینَ)(تین٥)پھر ہم نے اسے پست سے پست حالت کی طرف پھیردیا۔
(٢)سورۂ اسراء ٧٠
مسخر ہونے کوبیان کرتی ہیں جیسے '' وَ سَخَّرَ لَکُم مَا فِی السَّمَٰوَاتِ وَ مَا فِیالأرضِ جَمِیعاً مِنہُ)(١) اور جیسے (خَلَقَ لَکُم مَا فِی الأرضِ جَمِیعاً)وغیرہ تمام آیات صنف انسان کی کرامت تکوینی پر دلالت کرتی ہیں ۔ اور (خُلِقَ الِنسَانُ ضَعِیفاً)(٢) جیسی آیات اور سورہ ٔ اسراء کی ٧٠ ویں آیہ جو کہ بہت سی مخلوقات (نہ کہ تمام مخلوقات)پر انسان کی برتری کو پیش کرتی ہے یعنی بعض مخلوقات پر انسان کی ذاتی عدم برتری کی یاد آوری کرتی ہے ۔(٣)
..............
(١)سورہ جاثیہ ١٣۔
(٢)سورۂ نساء ٢٨۔
(٣)گذشتہ بحثوں میں غیر حیوانی استعداد کے سلسلہ میں گفتگو کی ہے اور انسان کی دائمی روح بھی معرفت انسان کی ذاتی اور وجودی کرامت میں شمار ہوتی ہے، ہوسکتا ہے کہ سبھی یا ان میں سے بعض انسان کی عالی خلقت سے مربوط آیات جو متن کتاب میں بھی مذکور ہیں مد نظر ہوں ۔
کرامت اکتسابی
اکتسابی کرامت سے مراد ان کمالات کا حاصل کرنا ہے جن کو انسان اپنے اختیاری اعمال صالحہ اور ایمان کی روشنی میں حاصل کرتا ہے ،کرامت کی یہ قسم انسان کے ایثار و تلاش اور انسانی اعتبارات کا معیار اور خداوند عالم کی بارگاہ میں معیار تقرب سے حاصل ہوتا ہے، یہ وہ کرامت ہے جس کی وجہ سے یقینا کسی انسان کو دوسرے انسان پر برتر جانا جاسکتا ہے ،تمام لوگ اس کمال و کرامت تک رسائی کی قابلیت رکھتے ہیں ، لیکن کچھ ہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں، اور کچھ لوگ اس سے بے بہرہ رہتے ہیں ، گویا اس کرامت میں نہ تو تمام لوگ دوسری مخلوقات سے برتر ہیں اور نہ تمام لوگ دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں پست یا مساوی ہیں ،لہٰذا وہ آیتیں جو انسان کی کسبی کرامت کو بیان کرتی ہیں دو طرح کی ہیں :
الف) کرامت اکتسابی کی نفی کرنے والی آیات
اس سلسلہ کی موجودہ آیات میں سے ہم فقط چار آیتوں کے ذکر پر اکتفا کررہے ہیں :
١۔ (ثُمَّ رَدَدنَاہُ أَسفَلَ سَافِلِینَ)(١)
پھر ہم نے اسے پست سے پست حالت کی طرف پھیردیا۔
بعض انسانوں سے اکتسابی کرامت کی نفی اس بنا پرہے کہ گذشتہ آیت میں انسان کی بہترین شکل و صورت میں خلقت کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے اور بعد کی آیت میں اچھے عمل والے اور مومنین اسفل السافلین میں گرنے سے استثناء ہوئے ہیں اگر ان کا یہ گرنااور پست ہونا اختیاری نہ ہوتا تو انسان کی خلقت بیکار ہوجاتی اور خداوند عالم کا یہ عمل کہ انسان کو بہترین شکل میں پیدا کرے اور اس کے بعد بے وجہ اورانسان کے اختیار یا اس سے کوئی غلطی سرزد نہ ہوتے ہوئے بھی سب سے پست مرحلہ میں ڈالنا غیر حکیمانہ ہے مزید یہ کہ بعد والی آیت بیان کرتی ہے کہ ایمان اور اپنے صالح عمل کے ذریعہ، انسان خود کو اس حالت سے بچا جاسکتا ہے ،یا اس مشکل میں گرنے سے نجات حاصل کرسکتا ہے پس معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نزول انسان کے اختیاری اعمال اور اکتسابی چیزوں کی وجہ سے ہے ۔
٢۔(أُولٰئکَ کَالأنعَامِ بَل ھُم أَضَلُّ أُولٰئِکَ ھُمُ الغَافِلُونَ)(٢)
یہ لوگ گویا جانور ہیں بلکہ ان سے بھی کہیں گئے گذرے ہیں یہی لوگ غافل ہیں
٣۔(نّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللّٰہِ الصُّمُّ البُکمُ الَّذِینَ لا یَعقِلُونَ)(٣)
بیشک کہ زمین پر چلنے والے میں سب سے بد تر خدا کے نزدیک وہ بہرے گونگے
ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے ہیں ۔
٤۔(نّ الِنسَانَ خُلِقَ ھَلُوعاً ِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوعاً وَ ِذَا مَسَّہُ الخَیرُ
مَنُوعاً)(٤)
بیشک انسان بڑا لالچی پیدا ہوا ہے جب اسے تکلیف پہونچتی ہے تو بے صبر ہو جاتا
ہے اور جب اس تک بھلائی اور خیر کی رسائی ہوتی ہے تو اترانے لگتا ہے ۔
مذکورہ دو ابتدائی آیات میںبیان کیا گیا ہے کہ عقل و فکر کو استعمال نہ کرنے اور اس کے مطابق عمل نہ کرنے کی وجہ سے انسانوں کی مذمت کی گئی ہے اور واضح ہو جاتا ہے کہ اس میں کرامت سے مراد کرامت اکتسابی ہے چونکہ بعد والی آیت نماز پڑھنے والوں کو نماز پڑھنے اور ان کے اختیاری اعمال کی بنا پر استثناء کرتی ہے لہٰذا تیسری آیہ اکتسابی کرامت سے مربوط ہے۔
..............
(١)تین٥
(٢)اعراف ١٧٩
(٣)انفال
٢٢(٤)سورہ معارج ١٩۔٢١.
ب) کرامت اکتسابی کو ثابت کرنے والی آیات
اس سلسلہ میں بھی بہت سی آیات موجود ہیں جن میں سے ہم دو آیتوں کونمونہ کے طور پر ذکرکرتے ہیں ۔
١.(نَّ أَکرَمَکُم عِندَ اللّٰہِ أَتقَٰکُم)(١)
٢.ان آیات کا مجموعہ جو کسبی کرامت کی نفی کے بعد بعض انسانوں کو اس سے استثناء کرتی ہیں جیسے (نَّ الِنسَانَ لَفِی خُسرٍ لا الَّذِینَ آمَنُوا(٢)، ثُمَّ رَدَدنَاہُ أَسفَلَ سَافِلِینَ لا الَّذِینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ(٣) ، نّ النسَانَ خُلِقَ ھَلُوعاً . لا المُصَلِّینَ)(٤)
جیسا کہ اشارہ ہوا کہ اکتسابی کرامت انسان کے اختیار سے وابستہ ہے اور اس کو حاصل کرنا جیسا کہ گذشتہ آیتوں میں آچکا ہے کہ تقویٰ ، ایمان اور اعمال صالحہ کے بغیر میسر نہیں ہے ۔
گذشتہ مطالب کی روشنی میں وسیع اور قدیمی مسئلہ ''انسان کا اشرف المخلوقات ہونا''وغیرہ بھی واضح و روشن ہو جاتا ہے ،اس لئے کہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے سے مراد دوسری مخلوقات خصوصاً مادی دنیا کی مخلوقات کے مقابلہ میں مزید سہولت اور بہت زیادہ توانائی کا مالک ہونا ہے ( چاہے قابلیت،بہتراوربہت زیادہ امکانات کی صورت میں ہو ) اپنے اور قرآنی نظریہ کے مطابق انسان
..............
(١)حجرات ١٣۔
(٢)عصر ٢و ٣۔
(٣)تین ٥و ٦۔
(٤)معارج ١٩۔
اشرف المخلوقات ہے ۔ اور وہ مطالب جو انسان کی غیر حیوانی فطرت کی بحث اورکرامت ذاتی سے مربوط آیتوں میں بیان ہو چکے ہیں ہمارے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں ،اگرچہ ممکن ہے کہ بعض دوسری مخلوقات جیسے فرشتے بعض خصوصیات میں انسان سے بہتر ہوں یا بعض مخلوقات جیسے جن ، انسانوں کے مقابلہ میں ہوں (١) لیکن اگر تمام مخلوقات پر انسان کی فوقیت و برتری منظور نظر ہے تب بھی کسی صورت میں ہو تو یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ خداوند عالم کی تمام مخلوقات پر تمام انسان فوقیت اور برتری رکھتے ہیں، البتہ انسانوں کے درمیان ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو خداوند عالم کی ہر مخلوق بلکہ تمام مخلوقات سے برتر ہیں اور اکتسابی کرامت کے اس درجہ و مرتبہ کو حاصل کرچکے ہیں جسے کوئی حاصل ہی نہیں کرسکتا، یہ وہی لوگ ہیں جو ولایت تکوینی اور لا محدود خلافت الٰہی کیحامل ہیں ۔
اس مقام پر ایک اہم سوال یہ در پیش ہے کہ اگر کرامت اکتسابی انسان سے مخصوص ہے تو قرآن مجید میں کرامت اکتسابی نہ رکھنے والے انسانوں کو کیونکر چوپایوں کی طرح بلکہ ان سے پست سمجھا گیا ہے ؟ اور کس طرح ایک مہم اور معتبر شیٔ کو ایک امر تکوینی سے تقابل کیا جاسکتا ہے اور ان دونوں مقولوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟!
اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کی کرامت اکتسابی اگرچہ اقدار شناسی کے مقولہ میں سے ہے لیکن یہ ایک حقیقی شیٔ ہے نہ کہ اعتباری ، دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہر قابل اہمیت شیٔ ضروری نہیں ہے کہ اعتباری اور وضعی ہو، جب یہ کہا جاتا ہے کہ : شجاعت ، سخاوت ، ایثار و قربانی اعتباری چیزوں میں سے ہیں ،اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سخی ، ایثار کرنے والے ، فداکار شخص کو صرف اعتبار اور وضع کی بنیاد پر اچھا اورلائق تعریف و تمجید سمجھا گیا ہے بلکہ ایسا شخص واقعاً سخاوت ، ایثار اور فداکاری نامی حقیقت
..............
(١)ایک دوسرے زاویہ سے جس طرح فلسفہ و عرفان اسلامی میں بیان ہوا ہے نیزروایات میں مذکورہے کہ پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین کا نورانی وجود، تمام مخلوقات کے لئے فیضان الٰہی کا واسطہ اور نقطہ آغازو علت ہے ۔اورعلم حیات کے اعتبار سے سب سے رفیع درجات و کمالات کے مالک اور خداوند عالم کی عالی ترین مخلوق میں سے ہیں ۔
کا حامل ہے جس سے دوسرے لوگ دور ہیں بس کرامت اکتسابی بھی اسی طرح ہے انسان کی اکتسابی کرامت صرف اعتباری اور وضعی شیٔ نہیں ہے بلکہ انسان واقعاً عروج و کمال پاتا یا سقوط کرتا ہے ۔ لہٰذا مزید وہ چیزیں جن سے انسانوں کو اکتسابی اور عدم اکتسابی کرامت سے استوارہونے کا ایک دوسرے سے موازنہ کرنا چاہیئے اور ایک کو بلند اور دوسرے کو پست سمجھنا چاہیئے، اسی طرح انسانوں کو حیوانات اور دوسری مخلوقات سے بھی موازنہ کرنا چاہیئے اور بعض کو فرشتوں سے بلند اور بعض کو جمادات و حیوانات سے پست سمجھنا چاہیئے اسی وجہ سے سورۂ اعراف کی ١٧٩ویںآیہ میں کرامت اکتسابی نہ رکھنے والے افرادکو چوپایوں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ بتایاگیاہے ۔ سورہ انفال کی ٢٢ ویں آیہ میں ''بد ترین متحرک '' کا عنوان دیاگیا ہے اور قیامت کے دن ایسے لوگ آرزو کریں گے کہ اے کاش مٹی ہوتے( وَ یَقُولُ الکَافِرُ یَا لَیتَنِی کُنتُ تُرَاباً )(١)اور کافر (قیامت کے دن )کہیں گے اے کاش میں مٹی ہوتا ۔
..............
(١)سورہ ٔ نبا ٤٠۔
خلاصہ فصل
١.گذشتہ فصل میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ انسان بعض مشترکہ خصوصیات کا حامل ہے بعض مغربی مفکرین نے مثال کے طور پروہ افراد جو انسان کی فعالیت کو بنیادی محور قرار دیتے ہیں یا افراط کے شکار معاشرہ پرست افراد بنیادی طور پر ایسے عناصر کے وجود کے منکر ہیں اوروہ انسان کی حقیقت کے سادہ لوح ہونے کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں ۔
ان گروہ کے علاوہ دوسرے لوگ مشترکہ فطرت کو قبول کرتے ہیں لیکن انسان کے اچھے یا برے ہونے میں اختلاف نظررکھتے ہیں بعض اس کو برا اور بعض فقط اچھا سمجھتے ہیں ، بعض نے انسان کو دوپہلو رکھنے والی تصویر سے تعبیر کیا ہے۔
٢.قرآن کریم نے اس سوال کے جواب میں جو انسانوں کو بنیادی طور پر اچھے اور برے خواہشات کا حامل جانتے ہیں، ان کے معنوی و مادی پہلوؤں کو جدا کرکے تجزیہ و تحلیل کی ہے۔
٣.انسان کے خلیفة اللہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہ ایک تکوینی شیٔ ہے یعنی انسان کائنات میں تصرف اور ولایت تکوینی کے مقام کو حاصل کر سکتا ہے اس مقام کو حاصل کرنے کی راہ اور حضرت آدم کی صلاحیت کا معیار تمام اسماء کے بارے میں ان کی حضوری معرفت ہے ،اسماء مخلوقات اس کی جانشینی کے اختیارات پر استوار ہے ۔اسماء الہٰی ،قدرت اور ولایت تکوینی کو فراہم کرتا ہے اور وسیلہ فیض کے اسماء اس کے لئے اشیاء میں طریقہ تصرف مہیا کرتے ہیں ۔
٤.حضرت آدم کی اولادوں میں بعض ایسے افراد بھی ہیں جو مقام خلافت کو حاصل کر چکے ہیں اور روایتوں کے مطابق ہر زمانے میں کم از کم ایک فرد زمین پر خلیفة اللہ کے عنوان سے موجودہے ۔
٥.انسان دو طرح کی کرامت رکھتا ہے : ایک کرامت ذاتی جو تمام افراد کو شامل ہے اور باقی مخلوقات کے مقابلہ میںبہتر اور بہت زیادہ امکانات کا حامل ہے اور دوسرا کرامت اکتسابی کہ اس سے مراد وہ مقام و منزلت ہے جس کو انسان اپنی تلاش و جستجو سے حاصل کرتا ہے اوراس معنوی کمال کے حصول کی راہ، ایمان اور عمل صالح ہے اور چونکہ افراد کی آزمائش کا معیار و اعتبار اسی کرامت پر استوار ہے اور اسی اعتبار سے انسانوں کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے لہٰذا قرآن کبھی انسان کی تعریف اور کبھی مذمت کرتا ہے ۔
تمرین
١.گذشتہ فصول کے مطالب کی بنیاد پر کیوں افراد انسان مشترکہ فطرت و حقیقت رکھنے کے باوجود رفتار، گفتار، اخلاق و اطوار میں مختلف ہیں۔ ؟
٢.عالم ہستی میں انسان کی رفعت و منزلت اور الٰہی فطرت کے باوجود اور اس کے بہترین ترکیبات سے مزین ہونے کے باوجود اکثر افراد صحیح راستہ سے کیوں منحرف ہو جاتے ہیں ۔؟
٣.اگر جستجو کا احساس انسان کے اندر ایک فطری خواہش ہے تو قرآن نے دوسروں کے کاموں میں تجسس کرنے کی کیوں مذمت کی ہے ؟ آیا یہ مذمت اس الٰہی اور عام فطرت کے نظر انداز کرنے کے معنی میں نہیں ہے ؟
٤.خدا کی تلاش ، خود پسندی اور دوسری خواہشوں کو کس طرح سے پورا کیا جائے تاکہ انسان کی حقیقی سعادت کو نقصان نہ پہونچے ؟
٥.قرآنی اصطلاح میں روح ، نفس ، عقل ، قلب جیسے کلمات کے درمیان کیا رابطہہے ؟
٦.انسان کے امانت دار ہونے سے مراد کیا ہے نیز مصادیق امانت بھی ذکر کریں ؟
٧.غیر دینی حقوقی قوانین میں ،انسان کی کرامت اکتسابی مورد توجہ ہے یا اس کی غیر اکتسابی کرامت ؟
٨.اگر حقیقی اہمیت کا معیار انسان کی کرامت اکتسابی ہے تو مجرم اور دشمن افراد کے علاوہ ان انسانوں کا ختم کرنا جو کرامت اکتسابی کے حامل نہ ہوں کیوں جائز نہیں ہے ؟
٩.آیا جانشینی اور اعتباری خلافت ، جانشین اور خلیفہ کی مہم ترین دلیل ہے ؟
مزید مطالعہ کے لئے
١۔ انسان کا جانشین خدا ہونے کے سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے رجوع کریں:
۔ جوادی آملی ، عبداللہ ( ١٣٦٩) زن در آئینہ جلال و جمال . تہران : مرکز نشر فرہنگی ،رجاء
۔.(١٣٧٢) تفسیر موضوعی قرآن ، ج٦ ، تہران : رجاء
۔ صدر ، سید محمد باقر ( ١٣٩٩) خلافة الانسان و شہادة الانبیاء ،قم : مطبعة الخیام ۔
۔ محمد حسین طباطبائی ( ١٣٦٣) خلقت و خلافت انسان در المیزان . گرد آورندہ : شمس الدین ربیعی ، تہران : نور فاطمہ .
۔ محمد تقی مصباح ( ١٣٧٦) معارف قرآن ( خداشناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی )قم : موسسہ آموزشی پژوہشی امام خمینی ۔
۔ مطہری ، مرتضی ( ١٣٧١) انسان کامل ، تہران : صدرا ۔
۔ موسوی یزدی ، علی اکبر ، و دیگران ( ١٣٩٩) الامامة و الولایة فی القرآن الکریم ، قم : مطبعة الخیام .
۔ تفاسیر قرآن ، سورہ بقرہ کی ٣٠ ویں آیت کے ذیل میں ۔
٢۔ انسان کی کرامت کے سلسلہ میں :
۔ جوادی آملی ، عبد اللہ ( ١٣٧٢) کرامت در قرآن ، تہران : مرکز نشر فرہنگی رجاء ۔
۔مصباح ،محمد تقی(١٣٦٧)معارف قران(خدا شناسی،کیہان شناسی،انسان شناسی)قم موسسہ در راہ حق
۔واعظی،احمد(١٣٧٧)انسان از دیدگاہ اسلام ۔قم:دفترہمکاری حوزہ ودانش گاہ۔
|