چھٹی فصل :
نظام خلقت میں انسان کا مقام
اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات
١.خلافت ، کرامت اور انسان کے امانت دار ہونے کے مفاہیم کی وضاحت کریں ؟
٢.آیات قرآن کی روشنی میں انسان کے خلیفة اللہ ہونے کی وضاحت کریں؟
٣.خلافت کے لئے ،حضرت آدم کے شایستہ و سزاوار ہونے کا معیار بیان کریں ؟
٤.کرامت انسان سے کیا مراد ہے اس کو واضح کریں نیزقرآن کی روشنی میں اس کے اقسام
کو ذکرفرمائیں ؟
٥.ذاتی اور کسبی کرامت کی وضاحت کریں ؟
دو فصل پہلے ہم ذکر کرچکے ہیں کہ قرآن مجید انسان کی موجودہ نسل کی تخلیق کو حضرت آدم کی خلقت سے مخصوص جانتا ہے اور انسانوں کے تفکر ، خواہشات اور غیر حیوانی توانائی سے استوار ہونے کی تاکید کرتا ہے ،حضرت آدم اور ان کی نسل کی آفرینش سے مربوط آیات گذشتہ دو فصلوں میں بیان کی گئی آیات سے زیادہ ہیںجس میں حضرت آدم کی خلافت و جانشینی نیزدوسرے موجودات پر انسان کی برتری و کرامت اور دوسری طرف انسان کی پستی ، تنزلی دوسری مخلوقات سے بھی گر جانے کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے ،انسان کی خلافت کے مسئلہ اور اس کی کرامت کے بارے میں قرآن مجید نے دو اعتبار سے لوگوںکے سامنے متعدد سوالات اٹھائے ہیں ،جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں ۔
١.حضرت آدم کی جانشینی سے مراد کیا ہے اور وہ کس کے جانشین تھے ؟
٢.آیا خلافت اور جانشینی حضرت آدم سے مخصوص ہے یا ان کی نسل بھی اس سے بہر مند ہو سکتی ہے ؟
٣.حضرت آدم کا خلافت کے لئے شایستہ و سزاوار ہونے کا معیارکیا ہے اور کیوں دوسری مخلوقات خلافت کے لائق نہیں ہیں ؟
٤. انسان کی برتری اور کرامت کے سلسلہ میں قرآن میںدو طرح کے بیانات کا کیا راز ہے؟ کیا یہ بیانات ، قرآن کے بیان میں تناقض کی طرف اشارہ نہیں ہیں ؟ اسی فصل میں ہم خلافت الٰہی اور کرامت انسان کے عنوان کے تحت مذکورہ سوالات کا جائزہ و تحلیل اور ان کے جوابات پیش کریں گے ۔
خلافت الٰہی
اولین انسان کی خلقت کے سلسلہ میں قرآن مجید کی آیات میں ذکر کئے گئے مسائل میں سے ایک انسان کا خلیفہ ہونا ہے ،سورۂ بقرہ کی ٣٠ ویں آیہ میں خداوند عالم فرماتا ہے :
(وَ ذ قَالَ رَبُّکَ لِلمَلائِکَةِ ِنِّی جَاعِل فِی الأرضِ خَلِیفَةً قَالُوا أ تَجعَلُ
فِیھَا مَن یُفسِدُ فِیھَا وَ یَسفِکُ الدِّمَائَ وَ نَحنُ نُسَبِّحُ بِحَمدِکَ وَ
نُقَدِّسُ لَکَ قَالَ ِنِّی أَعلَمُ مَا لا تَعلَمُونَ)
اور( یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک نائب زمین
میں بنانے والا ہوں تو کہنے لگے: کیا تو زمین میں ایسے شخص کو پیدا کرے گا جو زمین
میں فساد اور خونریزیاں کرتا پھرے حالانکہ ہم تیری تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اور تیری
پاکیزگی ثابت کرتے ہیں، تب خدا نے فرمایا :اس میں تو شک ہی نہیں کہ جو میں جانتا
ہوں تم نہیں جانتے ۔
خلیفہ اور خلافت ، ''خلف''سے ماخوذہے جس کے معنی پیچھے اور جانشین کے ہیں ،جانشین کا استعمال کبھی تو حسی امور کے لئے ہوتاہے جیسے (وَ ھُوَ الَّذِی جَعَلَ اللَّیلَ وَ النَّھَارَ خِلفَةً.)(١)''اور وہی تو وہ(خدا) ہے جس نے رات اور دن کو جانشین بنایا .''اور کبھی اعتباری امور کے لئے جیسے (یَا دَاودُ ِنَّا جَعَلنَاکَ خَلِیفَةً فِی الأرضِ فَأحکُم بَینَ النَّاسِ بِالحَقِّ)اے داوود !ہم نے تم کو زمین میں نائب قرار دیا تو تم لوگوں کے درمیان بالکل ٹھیک فیصلہ کیا کرو،(٢)اور کبھی غیر طبیعی حقیقی امور میں استعمال ہوتا ہے جیسے حضرت آدم کی خلافت جو سورہ
..............
(١)فرقان ٦٢۔
(٢)ص٢٦۔
بقرہ کی ٣٠ ویں آیہ میں مذکور ہے ۔
حضرت آدم کی خلافت سے مراد انسانوں کی خلافت یا ان سے پہلے دوسری مخلوقات کی خلافت نہیں ہے بلکہ مراد ، خدا کی خلافت و جانشینی ہے ،اس لئے کہ خداوند عالم فرماتا ہے کہ : '' میں جانشین قرار دوںگا'' یہ نہیں فرمایا کہ '' کس کا جانشین '' مزید یہ کہ فرشتوں کے لئے جانشینی کا مسئلہ پیش کرنا ، ان میں آدم کا سجدہ بجالانے کے لئے آمادگی ایجاد کرنا مطلوب تھا اور اس آمادگی میں غیر خدا کی طرف سے جانشینی کا کوئی کردار نہیںہے،اس کے علاوہ جیسا کہ فرشتوں نے کہا : کیا اس کو خلیفہ بنائے گا جو فساد و خونریزی کرتا ہے جب کہ ہم تیری تسبیح و تحلیل کرتے ہیں، اصل میں یہ ایک مؤدبانہ درخواست تھی کہ ہم کو خلیفہ بنادے کیوں کہ ہم سب سے بہتر و سزاوار ہیں اور اگر جانشینی خدا کی طرف سے مد نظر نہ تھی تو یہ درخواست بھی بے وجہ تھی ،اس لئے کہ غیر خدا کی طرف سے جانشینی اتنی اہمیت نہیں رکھتی ہے کہ فرشتے اس کی درخواست کرتے ،نیز غیرخدا سے جانشینی حاصل کرنے کے لئے تمام اسماء کا علم یا ان کو حفظ کرنے کی توانائی لازم نہیں ہے ،پس خلافت سے مراد خداوند عالم کی جانشینی ہے ۔
دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ خداوند عالم کی جانشینی صرف ایک اعتباری جانشینی نہیں ہے بلکہ تکوینی جانشینی ہے جیسا کہ آیہ کے سیاق و سباق سے یہ نکتہ بھی واضح ہوجاتا ہے، خداوند عالم فرماتا ہے: (وَ عَلّمَ آدمَ الأسمَائَ کُلَّھَا)''اور خدا وند عالم نے حضرت آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی''فرشتوں کو خدوند عالم کی طرف سے جناب آدم کے سجدہ کرنے کا حکم ہونااس بات کو واضح کرتا ہے کہ یہ خلافت ،خلافت تکوینی (عینی حقائق میں تصرف)کو بھی شامل ہے۔(١) خلافت تکوینی کاعالی رتبہ ، خلیفة اللہ کو قوی بناتا ہے تاکہ خدائی افعال انجام دے سکے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ ولایت تکوینی کا مالک ہو جائے ۔
..............
(١)تشریعی خلافت سے مراد ، لوگوں کی ہدایت اور قضاوت کے منصب کا عہدہ دار ہونا ہے ۔اور خلافت تکوینی سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص خدا کے ایک یا چندیا تمام اسماء کا مظہر بن جائے اور صفات باری تعالی اس کے ذریعہ مرحلۂ عمل یا ظہور میں واقع ہوں۔
خلافت کے لئے حضرت آدم کے شائستہ ہونے کا معیار
آیت کریمہ کے ذریعہ (وَ عَلَّمَ آدمَ الأسمَائَ کُلَّھَا ثُمَّ عَرَضَھُم عَلَیٰ المَلائِکَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِی بِأَسمَآئِ ھٰؤُلآئِ ن کُنتُم صَادِقِینَ)(١)''اور حضرت آدم کو تمام اسماء کا علم دے دیا پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان اسماء کے نام بتاؤ ''یہ اچھی طرح سے معلوم ہو جاتا ہے کہ خلافت خدا کے لئے حضرت آدم کی معیار قابلیت ،تمام اسماء کا علم تھا۔ اس مطلب کو سورۂ بقرہ کی ٣٣ ویں آیہ بھی تائید کرتی ہے ۔
لیکن یہ کہ اسماء سے مراد کیا ہے اور خدا وند عالم نے کس طرح حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی تعلیم دی اور فرشتے ان اسماء سے کیونکر بے خبر تھے اس سلسلہ میں بہت زیادہ بحث ہوئی ہے جس کو ہم پیش نہیں کریں گے فقط ان میں سے پہلے مطلب کو بطور اختصار ذکر کریں گے ،آیات قرآن میں وضاحت کے ساتھ یہ بیان نہیں ہوا ہے کہ ان اسماء سے مراد کن موجودات کے نام ہیں اور روایات میں ہم دو طرح کی روایات سے رو برو ہیں، جس میں سے ایک قسم نے تمام موجودات کے نام اور دوسری قسم نے چہاردہ معصومین کے نام کو ذکر کیا ہے ۔(٢)لیکن حضرت آدم کی خلافت تکوینی کی وجہ اور اس بات پر قرآن کی تائید کہ خدا وند عالم نے حضرت آدم علیہ السلام کو اسماء کا علم دیا سے مراد یہ ہے کہ موجودات، فیض خدا کا وسیلہ بھی ہوں اور خدا وند عالم کے اسماء بھی ہوںاور کسی چیز سے چشم پوشی نہ ہوئی ہو ۔
مخلوقات کے اسماء سے حضرت آدم کا آگاہ ہونا اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا کی طرف سے خلافت اور جانشینی کے حدود کو ان کے اختیار میں قرار دیاجائے ۔اور اسماء خداوند عالم کے جاننے کا مطلب ، مظہر اسماء الہٰی ہونے کی قدرت ہے یعنی ولایت تکوینی کا ملنا ہے اور اسماء کا جاننا ، فیض الہی کا ذریعہ ہے ،یہ ان کو خلافت کے حدود میں تصرف کے طریقے بتاتا ہے اور اس وضاحت سے ان دو
..............
(١)بقرہ ٣١۔
(٢)ملاحظہ ہو: مجلسی ، محمد باقر ؛ بحار الانوار ، ج١١ ص ١٤٥۔ ١٤٧، ج ٢٦، ص ٢٨٣۔
طرح کی روایات کے درمیان ظاہری اختلاف اور ناہماہنگی بر طرف ہو جاتی ہے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اسماء سے مراد اس کا ظاہری مفہوم نہیں ہے جس کو ایک انسان فرض ، اعتبار اور وضع کرتا ہے، اسی طرح ان اسماء کی تعلیم کے معنی بھی ان الفاظ و کلمات کا ذہن میں ذخیرہ کرنا نہیں ہے ،اس لئے کہ مذکورہ طریقہ سے ان اسماء کا جاننا کسی بھی صورت میں خلافت الٰہی کے لئے معیار قابلیت اور خلافت تکوینی کے حصول کے لئے کوئی اہم رول نہیں ادا کرسکتا ہے ،اس لئے کہ اگر علم حصولی کے ذریعہ اسماء وضعی اور اعتباری حفظ کرنا اور یاد کرنا مراد ہوتا توحضرت آدم کے خبر دینے کے بعد چونکہ فرشتہ بھی ان اسماء سے آگاہ ہوگئے تھے لہٰذا انھیں بھی خلافت کے لائق ہونا چاہیئے تھا بلکہ اس سے مراد چیزوں کی حقیقت جاننا ان کے اور اسماء خداوند عالم کے بارے میں حضوری معرفت رکھنا ہے جو تکوینی تصرف پر قدرت کے ساتھ ساتھ حضرت آدم کے وجود کی برتری بھی ہے ۔(١)
..............
(١)بعض مفسرین نے احتمال دیا ہے کہ ''اسمائ''کا علم مافوقِ عالم و ملائکہ ہے ؛ یعنی اس کی حقیقت ملائکہ کی سطح سے بالاترہے کہ جس عالم میں معرفت وجودمیں ترقی اور وجود ملائکہ کے رتبہ و کمال سے بالاتر کمال رکھنا ہے اور وہ عالم ، عالم خزائن ہے جس میں تمام اشیاء کی اصل و حقیقت ہے اور اس دنیا کی مخلوقات اسی حقیقت اور خزائن سے نزول کرتے ہیں (وَ ِن مِّن شَییٍٔ ِلا عِندَنَا خَزَائِنُہُ وَ مَا نُنَزِّلُہُ ِلا بِقَدَرٍ مَّعلُومٍ)(حجر ٢١)''اور ہمارے یہاں تو ہر چیز کے بے شمار خزانے پڑے ہیں اور ہم ایک جچی،تلی مقدار ہی بھیجتے رہتے ہیں ''ملاحظہ ہو: محمد حسین طباطبائی کی المیزان فی تفسیر القرآن ؛ کے ذیل آیہ سے ۔
حضرت آدم کے فرزندوں کی خلافت
حضرت آدم کے تخلیق کی گفتگو میں خداوند عالم کی طرف سے خلافت اور جانشینی کا مسئلہ بیان ہوچکا ہے ۔ اور سورۂ بقرہ کی ٣٠ ویں آیت نے بہت ہی واضح خلافت کے بارے میں گفتگو کی ہے ۔ اب یہ سوال در پیش ہے کہ کیا یہ خلافت حضرت آدم سے مخصوص ہے یا دوسرے افراد میں بھی پائی جاسکتی ہے ؟
جواب یہ ہے کہ :مذکورہ آیہ حضرت آدم کی ذات میں خلافت کے انحصار پر نہ فقط دلالت نہیں کرتی ہے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جملہ (أَ تَجعَلُ فِیھَا مَن یُفسِدُ فِیھَا وَ یَسفِکُ الدِّمَائَ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خلافت حضرت آدم کی ذات سے منحصر نہیں ہے ، اس لئے کہ اگر صرف حضرت آدم سے خلافت مخصوص ہوتی تو چونکہ حضرت آدم معصوم ہیں اور معصوم فساد و خونریزی نہیں کرتا ہے لہٰذا خداوند عالم فرشتوں سے یہ فرما سکتا تھا کہ : آدم فساد اور خونریزی نہیں کرے گا ،البتہ یہ شبہ نہ ہو کہ تمام افراد بالفعل خدا کے جانشین و خلیفہ ہیں ،اس لئے کہ یہ کیسے قبول کیا جاسکتا ہے کہ مقرب الٰہی فرشتے جس مقام کے لائق نہ تھے اور جس کی وجہ سے حضرت آدم کا سجدہ کیا تھا ، وہ تاریخ کے بڑے بڑے ظالموں کے اختیار میں قرار پائے اوروہ خلافت کے لائق بھی ہوں ؟!پس یہ خلافت حضرت آدم اور ان کے بعض فرزندوں سے مخصوص ہے جو تمام اسماء کا علم رکھتے ہیں ،لہٰذا اگرچہ نوع انسان خدا کی جانشینی اور خلافت کا امکان رکھتا ہے لیکن جو حضرات عملی طور پر اس مقام کو حاصل کرتے ہیں وہ حضرت آدم اور ان کی بعض اولادیں ہیں جو ہر زمانہ میں کم از کم ان کی ایک فرد سماج میں ہمیشہ موجود ہے اور وہ روئے زمین پر خدا کی حجت ہے اور یہ وہ نکتہ ہے جس کی روایات میں بھی تاکید ہوئی ہے ۔(١)
..............
(١)ملاحظہ ہو: کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ الاصول من الکافی ؛ ج١، ص ١٧٨ و ١٧٩۔
|