انسان شناسی
 

ملحقات
لفظ'' فطرت ''کے اہم استعمالات
لفظ فطرت ، کے بہت سے اصطلاحی معنی یا متعدد استعمالات ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل سب سے اہم ہیں :
١.خواہش اور طبیعت کے مقابلہ میں فطرت کا ہونا :بعض لوگوں نے لفظ فطرت کو اس غریزہ اور طبیعت کے مقابلہ میں جو حیوانات ، جمادات اور نباتات کی طینت کو بیان کرتے ہیں ، انسان کی سرشت کے لئے استعمال کیا ہے ۔
٢.فطرت، غریزہ کا مترادف ہے :اس استعمال میں فطری امور سے مراد طبیعی امور ہیں البتہ اس استعمال میں کن مواقع پر غریزی امور کہا جاتا ہے ،اختلاف نظر ہے، جس میں سے ایک یہ ہے کہ جو کام انسان انجام دیتا ہولیکن اس کے نتائج سے آگاہ نہ ہواورنتیجہ بھی مہم ہو مثال کے طور پر بعض وہ افعال جو بچہ اپنے ابتدائی سال میں آگاہانہ انجام دیتا ہے اسے غریزی امور کہا جاتا ہے ۔
٣.فطرت یعنی بدیہی : اس اصطلاح میں ہر وہ قضیہ جو استدلال کا محتاج نہ ہو جیسے معلول کے لئے علت کی ضرورت اور اجتماع نقیضین کا محال ہونا فطرت کہا جاتا ہے ۔
٤.فطرت ، منطقی یقینیات کی ایک قسم ہے : استدلال کے محتاج وہ قضایا جن کا استدلال پوشیدہ طور پر ان کے ہمراہ ہو (قضایا قیاساتھا معھا)''فطری ''کہا جاتا ہے جیسے چار زوج ہے ، جس کا استدلال (چونکہ دو متساوی حصوں میں تقسیم ہو سکتا ہے )اس کے ہمراہ ہے ۔
٥.کبھی لفظ فطرت ،بدیہی سے نزدیک قضایا پر اطلاق ہوتا ہے : جیسے ''خدا موجود ہے '' یہ قضیہ استدلال کا محتاج ہے اور اس کا استدلال اس کے ہمراہ بھی نہیں ہے لیکن اس کا استدلال ایسے مقدمات کا محتاج ہے جو بدیہی ہیں (طریقہ علیت )چونکہ یہ قضیہ بدیہیات کی طرف منتہی ہونے کا ایک واسطہ ہے لہٰذا بدیہی سے نزدیک ہے ،ملاصدرا کے نظریہ کے مطابق خدا کی معرفت کے فطری ہونے کو بھی (بالقوة خدا کی معرفت)اسی مقولہ یا اس سے نزدیک سمجھا جاسکتا ہے ۔
٦.فطرت، عقل کے معنی کے مترادف ہے : اس اصطلاح کا ابن سینا نے استفادہ کیاہے اور کہا ہے کہ فطرت وہم خطا پذیر ہے لیکن فطرت عقل خطا پذیر نہیں ہے ۔
٧.فطرت کاحساسیت اور وہم کے مرحلہ میں ذہنی صورتوں کے معانی میں ہونا : ''ایمانول کانٹ''(١)معتقد تھا کہ یہ صورتیں خارج میں کسی علت کی بنا پر نہیں ہیں بلکہ ذہن کے فطری امور میں سے ہے اور اس کو فطری قالب میں تصور کیا جاتا ہے جیسے مکان ، زمان ، کمیت ، کیفیت ، نسبت اور جہت کو معلوم کرنے والے ذہنی قضایا میں کسی معلوم مادہ کو خارج سے دریافت کرتے ہوئے ان صورتوں میں ڈھالتا ہے تاکہ قابل فہم ہو سکیں ۔
٨.فطرت، عقل کے خصوصیات میں سے ہے :حِس کی تخلیق میںحس اور تجربہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا ہے بلکہ عقل بالفعل اس پر نظارت رکھتی ہے ''ڈکارٹ''کے نظریہ کے اعتبار سے خدا ، نفس اور مادہ ( ایسا موجود جس میں طول ،عرض ، عمق ہو ) فطری شمار ہوتا ہے، اور لفظ فطری بھی اسی معنی میں ہے ۔
٩.فطرت یعنی خدا کے بارے میں انسان کا علم حضوری رکھنا، خدا شناسی کے فطری ہونے میں یہ معنی فطرت والی آیات و روایات کے مفہوم سے بہت سازگار ہے ۔
١٠.فطرت یعنی ایک حقیقت کو پورے اذہان سے درک کرنا ، اصل ادراک اور کیفیت کی جہت سے تمام افراد اس سلسلہ میں مساوی ہیں جیسے مادی دنیا کے وجود کا علم ۔
..............
(1)Imanuel Kant.
٢ . ہدایت کے اسباب اور موانع
قرآن مجید نے انسان کے تنزل کے عام اسباب اور برائی کی طرف رغبت کو تین چیزوں میں خلاصہ کیا ہے:
١. ہوائے نفس : ہوائے نفس سے مراد باطنی ارادوں کی پیروی اور محاسبہ کرنے والی عقلی قوت سے استفادہ کئے بغیر ان کو پورا کرنا اور توجہ کرنا اور انسان کی سعادت یا بدبختی میں خواہشات کو پورا کرنے کا کردار اور اس کے نتائج کی تحقیق کرنا ہے ۔ اس طرح خواہشات کو پورا کرنا ، حیوانیت کو راضی کرنا اور خواہشات کے وقت حیوانیت کو انتخاب کرنے کے معنی میں ہے ۔
٢. دنیا: دنیاوی زندگی میں انسان کی اکڑ اور غلط فکر اس کے انحراف میں سے ایک ہے دنیاوی زندگی کے بارے میں سونچنے میں غلطی کے یہ معنی ہیں کہ ہم اس کو آخری و نہائی ہدف سمجھ بیٹھیںاور دائمی سعادت اور آخرت کی زندگی سے غفلت کریں، یہ غلطی بہت سی غلطیوں اور برائیوں کا سر چشمہ ہے ،انبیاء کے اہداف میں سے ایک ہدف دنیا کے بارے میں انسانوں کی فکروں کو صحیح کرنا تھا اور دنیاوی زندگی کی جو ملامت ہوئی ہے وہ انسانوں کی اسی فکر کی بنا پر ہے ۔
٣. شیطان : قرآن کے اعتبار سے شیاطین (ابلیس اور اس کے مددگار) ایک حقیقی مخلوق ہیں جو انسان کو گمراہ کرنے اور برائی کی طرف کھینچنے کا عمل انجام دیتے ہیں ۔ شیطان برے اور پست کاموں کو مزین اور جھوٹے وعدوں اور دھوکہ بازی کے ذریعہ اچھے کاموں کے انجام دینے کی صورت میں یا ناپسندیدہ کاموں کے انجام نہ دینے کی وجہ سے انسان کو اس کے مستقبل سے ڈراتے ہوئے غلط راستہ کی طرف لے جاتا ہے ۔ شیطان مذکورہ نقشہ کو ہوائے نفس کے ذریعہ انجام دیتا ہے اور خواہش نفس کی تائید کرتا ہے نیزاس کی مدد کرتا ہے ۔
قرآن کی روشنی میں پیغمبروں ، فرشتوں کے کردار اور خدائی امداد سے انسان نیک کاموں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس راہ میں وہ سرعت کی باتیں کرتاہے ۔
انبیاء انسان کو حیوانی غفلت سے نجات دے کر مرحلہ انسانیت میں وارد کرتے ہیں اور دنیا کے سلسلہ میں اپنی نصیحتوں کے ذریعہ صحیح نظریہ کو پیش کرکے انسان کی حقیقی سعادت اور اس تک پہونچنے کی راہ کو انسان کے اختیار میں قرار دیتے ہیں ۔
اور خوف و امید کے ذریعہ صحیح راستہ اور نیکیوں کی طرف حرکت کے انگیزہ کو انسان کے اندر ایجاد کرتے ہیں بلکہ صحیح راہ کی طرف بڑھنے اور برائیوں سے بچنے کے لئے تمام ضروری اسباب اس کے اختیار میں قرار دیتے ہیں ۔
جو افراد ان شرائط میں اپنی آزادی اور اختیار سے صحیح استفادہ کرتے ہیں ان کے لئے مخصوص شرائط میںبالخصوص مشکلات میں فرشتے مدد کے لئے آتے ہیں اور ان کو صحیح راہ پر لگادیتے ہیں۔ سعادت کی طرف قدم بڑھانے ، اہداف کو پانے اور مشکلات کو حل اور موانع کو دور کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں ۔
خدا کی عام اور مطلق امداد کے علاوہ اس کی خصوصی امداد بھی ان فریب زدہ انسانوں کے شامل حال ہوتی ہے اور اسی خصوصی امداد کے ذریعہ شیطان کی تمام قوتوں پر غلبہ پاکر قرب الٰہی کی طرف راہ کمال کو طے کرنے میں مزید سرعت پیدا ہوجاتی ہے وہ سو سال کی راہ کو ایک ہی شب میں طے کرلیتے ہیں،یہ امداد پروپگنڈوں کے ختم کرنے کا سبب بھی ہوتی ہے جو اپنی اور دوسروں کی سعادت میں صالح انسانوں کے بلند اہداف کی راہ میں دشمنوں اور ظالم قوتوں اور شیطانی وسوسوں کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں ۔(١)
..............
(١)اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: علامہ محمد حسین طباطبائی کی المیزان فی تفسیر القرآن ، محمد تقی مصباح کی اخلاق در قرآن ؛ ج١ ص ١٩٣۔٢٣٦۔
مغربی انسان شناسوں کی نگاہ میں انسان کی فطرت
''ناٹالی ٹربوویک ''دور حاضر کا امریکی نفس شناس نے انسان کے بارے میں چند اہم سوالوں اور
ان کے جوابات کو فلسفی اور تجربی انسان شناسوں کی نگاہ سے ترتیب دیا ہے جس کو پروفیسر ''ونس پاکرڈ''نے ''عناصر انسان ''نامی کتاب میں پیش کیا ہے ،ہم ان سوالات میں سے دو مہم سوالوں کو جو انسان کی فطرت سے مربوط ہیںیہاں نقل کر رہے ہیں ۔(١)
پہلا سوال یہ ہے کہ انسان کی فطرت کیا ذاتاً اچھی ہے یا بری ہے یا نہ ہی اچھی ہے اور نہ ہی بری ؟

منفی نظریات
فرایڈ کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ : انسان ایک منفی اور مخالف سرشت کا مالک ہے اور وہ ایسے غرائزسے برانگیختہ ہوتا ہے جس کی جڑیں زیست شناسی سے تعلق رکھتی ہیں ۔ خاص طور سے جنسی خواہشات (٢)اور پر خاش گری کو (٣) فقط اجتماعی معاملات سے قابو میں کیا جاسکتا ہے ۔
نظریہ تجربہ گرا کے حامی (٤) : (ہابز )کے لحاظ سے انسان فقط اپنی منفعت کی راہ میں حرکت کرتا ہے ۔
نظریہ سود خوری(٥) : (بنٹام ہیل) کے مطابق انسان کے تمام اعمال اس کی تلاش منفعت کا نتیجہ ہیں ۔
نظریہ لذت گرا کے نمائندے کہتے ہیں کہ(٦) : انسان لذت کے ذریعہ اپنی ضرورت حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے اور رنج سے دوچار ہونے سے فرار کرتا ہے ۔
..............
(1)Vance Pakard,The People Shapers,PP.361,Biston,Toronto,1977
اس کتاب کو جناب حسن افشار نے ''آدم سازان '' کے عنوان سے ترجمہ اور انتشارات بہبہانی نے ١٣٧٠میں منتشر کیا ہے اور ہم نے جناب حسن افشار کے ترجمہ کو تھوڑی تبدیلی کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔
(2)sex.
(3) aggression.
(4) empiricists.
(5)utillitarians.
(6)hedonists.
نظریہ افعال گرایان کے حامی(١) : (لورنز(٢) )کا کہنا ہے انسان ذاتی طور پر برا ہے یعنی اپنے ہی ہم شکلوں کے خلاف ناراضگی کی وجہ سے دنیا میں آیا ہے ۔
آرتھونلک کا ماہر نفسیات(٣) : (نیوبلڈ (٤)): انسان کی ناراضگی کے سلسلہ میں اس گروہ کا نظریہ بھی عقیدہ افعال گرایان کے مشابہ ہے ۔
دوسرا سوال اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسان کا حیوانات سے جدا ہونا ماہیت کے اعتبار سے ہے یا مرتبہ حیوانیت کے اعتبار سے ہے ؟اس سلسلہ میں مختلف نظریات بیان کئے گئے ہیں جن میں سے بعض نظریات کو ''ناٹالی ٹربوویک '' نے سوال و جواب کی صورت میں یوں پیش کیا ہے :
انسان و حیوان ایک مخصوص طرز عمل کی پیروی کرتے ہیں یا انسان میں ایسے نظری ارادے ہیں جو حیوانی ضرورتوں سے بہت بالا ہیں ؟
صلح پسندی کے مدعی (ہیوم ، ہارٹلی)کا کہنا ہے:انسان کے طریقہ عمل میںدوسرے تمام حیوانات کے طریقہ عمل کی طرح کچھ ضدی چیزیں ہیں جو خود بخود حساس ہوجاتی ہیں ۔
عقیدہ ٔ تجربہ گرائی کے ہمنوا( ہابز)کے مطابق:انسان کی فطرت بالکل مشینی انداز میں ہے جو قوانین حرکت کی پیروی کرتا ہے ،انسان کے اندر روح کے عنوان سے کوئی برتری کی کیفیت نہیں ہے ۔
..............
(١)"ethologists"کردار شناسی ( ethology)ایسا کردار و رفتاری مطالعہ ہے جو جانور شناسی کی ایک شاخ کے عنوان سے پیدا ہوا ہے اور بہت سی انواع و اقسام کی توصیفِ رفتار اور مشاہدہ کی مزید ضرورت کی تاکید کرتا ہے ۔ تفسیر رفتار بہ عنوان نتیجہ، تکامل انسان کے طبیعی انتخاب کا سرچشمہ ہے ، لیکن بعد میں اس کا اطلاق انسان و حیوان کے انتخابی پہلو پر ہونے لگا اور اس وقت حضوری گوشوں پر اطلاق ہوتا تھا اور آج کل علم حیات کی طرف متمائل ہوگیا ہے
(2) Lorenz.
(3)orthonoleculer Psychiatrists.
(4)Newbold.
فرایڈ کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ : انسان تمام حیوانوں کی طرح فقط غریزی خواہشوں کے فشار(١) کو کنٹرول کر سکتا ہے ۔ اس خواہش کو شرمندۂ تعبیر حیاتی ضرورتیں وجود میںلاتی ہیں ۔ انسان کا طریقۂ عمل، لذت کی طرف میلان اور رنج و الم سے دوری کی پیروی کرنا ہے حتی وہ طریقۂ عمل جو ایسا لگتا ہے کہ بلند و بالا اہداف کی بنیاد پر ہے حقیقت میں وہ بہت ہی پست مقاصد کو بیان کرتا ہے ۔
عقیدہ کردار و افعال کے علمبردار(ا سکینر)کے مطابق : طریقۂ عمل چاہے انسان کاہو، چاہے حیوان کاسبھی شرائط کے پابند ہیں . کبھی انسان کے طریقۂ عمل پر نگاہ ہوتی ہے لیکن اس چیز پر نگاہ نہیں ہوتی جو انسان کے طریقۂ عمل کو حیوان کے طریقہ عمل سے جدا کردے جیسے ''آزادنہ ارادہ ، اندرونی خواہش اور خود مختار ہونا''اس طرح کے غلط مفاہیم ،بے فائدہ اور خطرناک ہیں چونکہ انسان کی اس غلط فکر کی طرف رہنمائی ہوتیہے کہ وہ ایک خاص مخلوق ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔
عقیدہ عقل ( ڈکارٹ ) : پست حیوانات مشین کی طرح ہیں یعنی ان کا طریقۂ عمل بعض مادی قوانین کے تحت ہے اور انسان حیوانی فطرت کے علاوہ عقلی فطرت بھی رکھتا ہے جو اسے قضاوت ، انتخاب اور اپنے آزاد ارادہ کے انجام دینے کی اجازت دیتی ہے ۔
فرایڈ کے جدید ماننے والے ( فروم ، اریکسن) کے مطابق: انسان ایسی توانائی رکھتا ہے جو زندگی کی سادہ ضرورتوں پر راضی ہونے سے بالا تر ہے اور وہ اچھائیاں تلاش کرنے کے لئے فطری توانائی رکھتا ہے ۔ لیکن یہ بات کہ وہ انہیں کسب کرسکے گا یا نہیں ، اجتماعی اسباب پر منحصر ہے، انسان کے اچھے کام ہوسکتے ہیں کہ بلند و بالا ارادے سے آغاز ہو ںلہٰذا وہ فقط پست اہداف سے منحرف نہیں ہوتے ہیں ۔
انسان محوری کے شیدائی( مازلو، روجرز ) کے مطابق: انسان کی فطرت حیوان کی فطرت سے بعض جہتوں میں برتر ہے، ہر انسان یہ قابلیت رکھتا ہے کہ کمال کی طرف حرکت کرے اور خود کو نمایاں
..............
(1) Tensions.
کرے، نامناسب ماحول کے شرائط وغیرہ مثال کے طور پر فقیر آدمی کا اجتماعی ماحول، جو اپنے تہذیب نفس کی ہدایت کو غلط راستہ کی طرف لے جاکر نابود کردیتاہے یہ ایسی ضرورتیںہیں جو انسان کے لئے اہمیت رکھتی ہیں۔ لیکن حیوان کے لئے باعث اہمیت نہیںہیں مثال کے طور پر محبت کی ضرورت ، عزت اعتبار ، صحت ، احترام کی ضرورت اور اپنی فہم کی ضرورت وغیرہ ۔
عقیدۂ وجود کے پرستار( سارٹر) کے بہ قول : انسان اس پہلو سے تمام حیوانوں سے جدا ہے کہ وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کے اعمال کی ذمہ داری فقط اسی پر ہے ،یہی معرفت انسان کو تنہائی اور ناامیدی سے باہر لاتی ہے اور یہ چیزانسان ہی سے مخصوص ہے ۔

مبہم نظریات
نظریہ افعال گرائی کے حامی(١) (واٹسن(٢) ، ا سکینر (٣))کے مطابق : انسان ذاتاً اچھا یا برا نہیں ہے بلکہ ماحول اس کو اچھا یا برا بناتا ہے ۔
معاشرہ اور سماج گرائی نظریہ (بانڈورا (٤)، مائکل(٥))کے مطابق :اچھائی یا برائی انسان کو ایسی چیز کی تعلیم دیتے ہیں جو اس کے لئے اجر کی سوغات پیش کرتے ہیںاور اس کو سزا سے بچاتے ہیں ۔
وجود گرائی کا نظریہ (سارٹر)کے بہ قول : انسان ذاتاً اچھا یا برا نہیں ہے بلکہ وہ جس عمل کو انجام دیتا ہے اس کی ذاتی فطرت پر اثر انداز ہوتا ہے ،لہٰذا اگر تمام لوگ اچھے ہوں تو انسان کی فطرت بھی اچھی ہے اور اسی طرح بر عکس۔
..............
(1)Behaviorists.
(2)Watson.
(3)Skinner.
(4)Bandura.
(5)Mischel.
مثبت نظریات
فرایڈ کے جدید ماننے والے ( فروم ، اریکسن(١) ) : انسان کے اچھے ہونے کے لئے اس کے اندر مخصوص توانائی موجود ہے لیکن یہ کہ وہ اچھا ہے یا نہیں ، اس معاشرہ سے مربوط ہے جس میں وہ زندگی گذاررہا ہے اور ان دوستوں سے مربوط ہے جس کے ساتھ خاص طور سے بچپنے میں رابطہ رکھتا تھا فرایڈ کے نظریہ کے برخلاف اچھے اعمال فطری زندگی کی ضرورتوں سے وجود میں نہیں آتے ہیں ۔
انسان محوری(٢) ( مازلو(٣)، روجرز(٤)): انسان کے اندرنیک ہونے اور رہنے کی قابلیت موجود ہے اور اگر اجتماعی ضرورتیں یا اس کے غلط ارادہ کی دخالت نہ ہو تو اس کی اچھائی ظاہر ہو جائے گی ۔
رومینٹکس افراد (٥)( روسو) انسان اپنی خلقت کے وقت سے ایک اچھی طبیعت کا مالک ہے اور جو وہ براعمل انجام دیتا ہے وہ اس کی ذات میں کسی چیز کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ برے معاشرہ کی وجہ سے ہے ۔
..............
(1)Erikson.
(2)humanists.
(3)Maslow.
(4)Rogers.
(٥)romanticistsرومانی انداز، فنون اور بین الاقوامی عقیدہ فلسفہ میں غالباً (نئے کہن پرستی کے مقابلہ میں اور مکانیزم و عقل پرستی سے پہلے)مغربی یورپ اور روس میں ١٨ویں صدی کے آخراور ١٩ویں صدی کے آغاز تک چھا گیا تھا ۔رومانیزم فطرت کی طرف سادہ انداز میں بازگشت کے علاوہ غفلت یعنی میدان تخیل اور احساس تھا ،نفسیات شناسی کے مفاہیم اور موضوعات سے مرتبط، بیان ، سادہ لوحی ، انقلابی اور بے پرواہی اور حقیقی لذت ان کے جدید تفکر میں بنیادی اعتبار رکھتا ہے۔ رومانیزم ،ظاہر بینی ،ہنر و افکاراور انسان کے مفاہیم میں محدودیت کے خلاف ایک خاص طغیان تھا اوراپنے فعل میں تاکید بھی کرتے تھے کہ جہان کو درک کرنے والا اس پر مقدم ہے ، یہیں سے نظریۂ تخیل محور و مرکز قرار پاتا ہے ۔